اسلامی فرقے اور مذاہب
| اسلامی فرقے اور مذاہب | |
|---|---|
![]() | |
| نام | اسلامی فرقے اور مذاہب |
اسلامی فرقے اور مذاہب، دینِ اسلام کے پیروکاروں نے اس دین کے فقہی اور کلامی نقطہ نظر سے خود کو مختلف مذاہب میں تقسیم کیا ہے، جن میں سے بعض مذاہب مزید کئی فرقوں میں تقسیم ہوتے ہیں اور کبھی کبھار ہر فرقہ بھی کئی ذیلی شاخوں میں بٹ جاتا ہے۔ عالم اسلام میں بہت سے فرقوں کا جائزہ لیتے وقت، انصاف کا تقاضا پورا نہیں کیا جاتا۔ بعض اوقات ایک فرقے سے قریب کسی فرد کے ناقابل قبول نقطہ نظر کو پورے فرقے سے منسوب کر دیا جاتا ہے، یا پھر کسی ایسے شخص کے مشکوک نظریے کو، جو اس فرقے میں مقبول نہیں، اس فرقے کا بنیادی عقیدہ سمجھا جاتا ہے۔ یا پھر دشمنوں اور مخالفین کے متعصبانہ خیالات کو کسی دوسرے فرقے کے حتمی اور مسلمہ نظریات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو ماضی میں بھی رہی ہے اور آج بھی جاری ہے۔ فقہی نقطہ نظر سے مراد ہر مذہب میں قبول کیے گئے اور رائج شرعی احکام کی نوعیت ہے، اور کلامی نقطہ نظر سے مراد ہر ایک مذہب میں عقلیت پسندی کو قبول کرنے کا پیمانہ ہے۔
فرقوں اور مذاہب سے متعلق تحقیقات کی اہمیت
مؤلف اور راوی جو ملل و نحل (فرقوں اور مذاہب) کی تاریخ بیان کرتے ہیں، اگر وہ ضروری علمی جرأت، ایک سچی اور غیر متعصب روح سے بہرہ ور نہ ہوں تو وہ طلبہ کو ناقص اور مسخ شدہ معلومات فراہم کرتے ہیں اور ان کی معرفت کو کسی بھی مذہب یا عقیدے کے بارے میں بدگمانی اور شک و شبہات کی طرف مائل کر دیتے ہیں۔ کسی بھی مذہب کی وضاحت کرتے وقت، ضروری ہے کہ ان کی اپنی مستند اور مقبول کتابوں سے استفادہ کیا جائے اور ہرگز مخالفین کی تحریروں پر اکتفا نہ کیا جائے۔ ملل و نحل کے بعض مصنفین نے اپنی تحریروں میں اپنے دینی تعصبات اور ذاتی مفادات کا اظہار کیا ہے اور دوسرے مذاہب کی حقیقت اور سچائی کو پیش نہیں کیا ہے۔ ایک معاصر مفکر نے اس علمی سانحے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور ایسے مصنفین کی مثالیں دی ہیں۔ وہ اس بارے میں لکھتے ہیں: "شہرستانی کی 'کتاب الملل والنحل' عالم کی قوموں کے عقائد کی تاریخ کے میدان میں ایک مشہور کتاب ہے، جس کے نام اور موضوع سے سب واقف ہیں۔ یہ کتاب ہر لائبریری میں موجود ہے اور سب کی دسترس میں ہے۔ وہ شیعہ کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
- شیعہ کی خصوصیات میں تناسخ (دوبارہ جنم)، حلول (خدا کا کسی جسم میں سما جانا) اور تشبیہ (خدا کو مخلوق سے تشبیہ دینا) کا عقیدہ شامل ہے۔
- شیعوں کے دسویں امام قم میں فوت ہوئے اور وہیں دفن کیے گئے ۔[1]
- ہشام بن حکم خدا کو جسم سمجھتے تھے اور اس کے لیے اپنے ہاتھوں کے سات بالشت کے برابر ایک قد کا قائل تھے۔
- وہ علی کو واجب الاطاعت خدا مانتے تھے [2]، اور اس کے علاوہ متعدد جھوٹ جو انہوں نے شیعہ سے منسوب کیے ہیں، جو بھی شیعہ مذہب سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہو، اس کے لیے ان باتوں کا جھوٹ ہونا دن کی روشنی کی طرح واضح ہے۔
ان کے بعد بھی بعض دیگر مصنفین نے بے دھڑک شیعہ کو اسی طرح پیش کیا ہے۔ مثال کے طور پر، احمد امین نے اپنی کتاب 'فجر الاسلام' میں شیعہ پر کئی الزامات لگائے اور بعد میں نجف میں مصلح کبیر شیخ محمد حسین کاشف الغطا کی خدمت میں معذرت کی اور کہا کہ میری غلطی کی جڑ یہ تھی کہ میرے پاس شیعہ عقائد کے بارے میں کافی مصادر اور مدارک نہیں تھے۔" البتہ، آج کل مختلف ذرائع سے مختلف وسائل تک آسان رسائی کے پیش نظر، یہ عذر قطعاً قابل قبول نہیں ہے اور ایک محقق کی طرف سے اس طرح کے الزامات کی تکرار برداشت کے قابل نہیں ہوگی۔ بیشتر اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ اہل سنت کے درمیان شیعہ کے بارے میں موجود معلومات عموماً شہرستانی کی 'ملل والنحل' جیسی متعصبانہ اور کمزور یا بے سند تحریروں سے حاصل کی گئی ہیں، اور ان کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہی صورتحال دیگر اسلامی فرقوں کے بارے میں بھی دیکھی جاتی ہے۔ معتزلہ بھی علم الکلام کا ایک فرقہ ہے جسے اسی طرح کی بے رخی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور جو الزامات ان پر لگائے گئے ہیں، وہ اکثر ان کے مخالفین کی کتابوں پر مبنی ہیں، جو علمی نقطہ نظر سے ضروری اہمیت نہیں رکھتے، خاص طور پر ان جھوٹوں کے ساتھ جو شہرستانی جیسے مصنفین نے دانستہ یا نادانستہ طور پر ان سے منسوب کیے ہیں۔ امید ہے کہ فرقوں اور مذاہب پر لکھنے والے مصنفین انصاف اور حقیقت پسندی کے ساتھ اس کام کی طرف توجہ دیں گے۔
تاریخی پس منظر
فرقوں اور مذاہب پر بحث انسانوں کے درمیان مدون (باقاعدہ ریکارڈ شدہ) اور غیر مدون شکل میں رائج رہی ہے۔ مسلمانوں میں فرقوں اور مذاہب کی تاریخ کا سراغ ہمیں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے سے قرآن مجید میں ملتا ہے۔ "مثال کے طور پر، سورۂ بقرہ میں تقریباً ساٹھ آیات میں بنی اسرائیل کی سرگزشت اور ان کی قانون شکنیوں کا بیان ہے۔" اسی طرح، نوح، لوط، ابراہیم، شعیب اور دیگر اقوام کے بارے میں بھی قرآن میں اطلاعات موجود ہیں۔ جہاں تک اسلامی فرقوں کا تعلق ہے، پہلا تحریری دستاویز جو پیغمبر کے صحابہ کے زمانے سے باقی ہے، وہ حضرت علی (علیہ السلام) کا معاویہ کو دیا گیا احتجاجی جواب ہے۔ یہ احتجاج درحقیقت عثمانیہ کے خلاف شیعہ کی تردید ہے، جس میں حضرت علی نے مضبوط دلائل سے معاویہ کی بات کو رد کیا۔ اس سلسلے میں صحابہ کے درمیان متعدد مثالیں مل سکتی ہیں [3]۔
مسلمانوں کے درمیان اس علم کی تالیف اور تحریر کے مرحلے میں اس کی تاریخ ٹھیک سے معلوم نہیں ہے۔ رجال کی رپورٹیں دینے والوں نے پہلی صدی ہجری کے پہلے نصف اور دوسری صدی ہجری کے دوسرے نصف [4]میں لکھی گئی کتابوں کی اطلاع دی ہے ۔ علم الکلام کے فرقوں سے متعلق بعض کتابیں تیسری صدی ہجری سے ہی دستیاب ہیں اور اس علم سے دلچسپی رکھنے والوں کے زیر استعمال رہی ہیں۔ تاہم، حقیقت میں یہ علم، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، ایک دین کے اندر فکری مکاتب اور شاخوں پر بحث کرتا ہے اور ان کی پیدائش اور ارتقاء کی تاریخ پر توجہ دیتا ہے، اور "یہ علوم کی تاریخ کے دائرے میں آتا ہے" [5]، اور یہ ادیان و مذاہب کی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ "مذہب" کا لفظ، جس کا مطلب دین اور آئین ہے، علماء کی اصطلاح میں اس کے لغوی معنی کی طرح ہی استعمال ہوا ہے [6]، اور بعض نے عربی میں دو الفاظ "ملل" اور "نحل" کو فارسی میں "فرق و مذاہب کلامی" کے مترادف قرار دیا ہے [7]۔ اس علم کا فائدہ اور اطلاق مندرجہ ذیل صورتوں میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:
- ادیان اور مذاہب اور ان کی مختلف شاخوں کی شناخت، اور ان کی پیدائش، ترقی، اور زوال سے آگاہی اور ان کے اسباب کا علم۔
- فرقوں اور مذاہب کے درمیان اشتراک اور اختلافات کے پہلوؤں سے آگاہی۔
- فرقوں اور مذاہب پر مستدل اور مستند تنقید۔
- سچے دین کا دفاع۔
یہ فوائد کی وہ کلیات ہیں جو اس علم سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ تاہم، اس علم کا اطلاق صرف ان ہی صورتوں میں محدود نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، بعض اوقات اقتدار کے خواہشمند لوگ اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف ادیان اور فرقوں کی شناخت کا استعمال کرتے ہیں اور ادیان سے واقفیت اور ان کے پیروکاروں پر اثرانداز ہونے کے ذریعے اپنے سیاسی اہداف حاصل کرتے ہیں۔
کلمات اور اصطلاحات کا مطالعہ
فِرَق، لفظ "فرقہ" کی جمع ہے، اور فرقہ کے معنی میں دستہ، گروہ اور طائفہ آتے ہیں [8]۔ اہل لغت نے مذہب کے معنی میں دین کی ایک شاخ، طریقہ، روش، دین اور کیش (عقیدہ) بیان کیے ہیں [9]۔ عربی میں، ادیان و مذاہب کی تاریخ لکھنے والے مؤلفین نے دو الفاظ "مِلَل و نِحَل" کا استعمال کیا ہے۔
ملت (مِلَل کی واحد): عربی لغت میں ملت کا مطلب شریعت اور دین ہے۔ وہ نظام جسے خدا نے اپنے بندوں کی سعادت تک رسائی کے لیے انبیاء کے ذریعے مقرر کیا ہے، وہ ملت کہلاتا ہے، اور اس کی جمع مِلَل ہے۔[10] نِحلَہ (نِحَل کی واحد): یہ دین و مذہب [11] کے معنی میں، اور دعوٰی یا باطل دعوٰی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے [12]۔ قرآن کریم میں "ملت"کا لفظ: لفظ "ملت" قرآن کریم میں بارہا استعمال ہوا ہے اور یہ دو معانی میں استعمال ہوا ہے: الہٰی اور سچا آئین، یا باطل اور غیر الہٰی آئین۔
- الہٰی آئین کے بارے میں:
ثُمَّ أَوْحَیْنا إِلَیْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْراهِیمَ حَنِیفاً (النحل - 123) ترجمہ: پھر ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ حنیف ابراہیم کے آئین (آئینِ توحید) کی پیروی کریں۔
- غیر الہٰی آئین کے با رے میں ججرے میں:
إِنِّی تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لا یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ هُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كافِرُونَ (یوسف - 37) ترجمہ: میں نے اس قوم کے آئین کو چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتی اور آخرت کا انکار کرنے والی ہے۔ قرآن کریم میں استعمال کے دوران، لفظ "ملّۃ" ہمیشہ کسی گروہ یا شخص کی طرف منسوب کیا جاتا ہے [13]۔ قرآن کریم میں اس لفظ کے استعمال کی نو سے زائد مثالیں موجود ہیں۔ لفظ "نحل": کلمہ"نحلۃ" اس بحث شدہ معنی میں قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ ادیان و مذاہب کی تاریخ کے مصنفین کی اصطلاح میں بھی یہ لفظ اس کے لغوی معنی میں ہی استعمال کیا گیا ہے۔
اسلامی مذاہب کے ظہور کی وجوہات
کسی بھی فرقے یا مذہب کے اسلامی ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ اسلام کو بطور دین قبول کرے۔[14] شہرستانی کی نظر کے مطابق، اسلامی امت کے درمیان سب سے اہم اختلاف پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد امامت اور خلافت کے مسئلے پر ہے۔[15] اسلامی فرقوں کی تعداد ہمیشہ سے ذرائع میں اختلافی رہی ہے۔ تاہم، عبدالرحمن بدوی کا خیال ہے کہ یہ فرقے محدود تعداد تک ہی منحصر نہیں ہیں، اور مؤرخین کی ایک جماعت کی طرف سے اسلامی فرقوں کو ایک خاص تعداد میں محدود کرنے کی کوششیں نامکمل رہی ہیں۔ بدوی نے اہلِ سنت کے ذرائع میں مذکور "فرقہ ناجیہ" (نجات یافتہ فرقہ) کی روایت پر تنقید کی ہے اور ان مؤرخین کی کوششوں کو غلط قرار دیا ہے جنہوں نے 73 فرقوں کا ذکر کیا یا بہت زیادہ اسلامی فرقوں کی توجیہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ مؤرخین کی کتب اور ان کے ادوار کے اختتام کے بعد بھی اسلامی فرقوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا ۔[16]
73 فرقوں کی روایت:
شیعہ اور سنی روایات کے مطابق، رسولِ اسلام کے بعد مسلمان امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ ان میں سے بعض روایات میں ایک فرقے کے حق پر ہونے کا اشارہ دیا گیا ہے، جسے "فرقہ ناجیہ" کہا جاتا ہے۔ چونکہ بغیر ذیلی مذاہب کے اسلامی فرقوں کی تعداد اس روایت میں مذکور عدد سے کم ہے، اور ذیلی مذاہب کو شامل کرنے پر یہ تعداد 73 سے تجاوز کر جاتی ہے، اس لیے ملل و نحل کے مؤلفین نے اس روایت کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔[17]
روایت پر تنقید اور تشکیک:
اس کے علاوہ، بعض ذرائع نے اس روایت پر تنقید کی ہے اور اسے سند کے لحاظ سے ضعیف یا جعلی قرار دے کر ملل و نحل کی کتب میں موجود فرقوں کی بڑی تعداد کو من گھڑت، سیاسی یا ذاتی اغراض پر مبنی قرار دیا ہے [18]۔ اسی وجہ سے ملل و نحل کی کتب پر "فرقہ سازی" کا الزام بھی لگایا گیا ہے [19]۔
روایت کے ذرائع اور اس پر علماء کا موقف:
اہل سنت کے ذرائع: سنن ابن ماجہ، مسند احمد بن حنبل، سنن ابن داود، سنن ترمذی، اور المستدرک علی الصحیحین (حاکم نیشاپوری) میں یہ روایت ابوہریرہ، ابودرداء، جابر بن عبداللہ انصاری، ابوسعید خدری، انس بن مالک، عبداللہ بن عمرو بن عاص، ابو امامہ، اور واثلہ سے نقل کی گئی ہے۔ شیعہ ذرائع: شیعہ مصادر میں الکافی کی روضہ میں یہ روایت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے نقل کی گئی ہے۔ [20]
سند کی حیثیت پر اختلاف:
اس روایت کی سند کی اعتباریت یا عدم اعتبار کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں: تضعیف (کمزور قرار دینا): فخر رازی نے تفسیر مفاتیح الغیب میں، اور ابن حزم اندلسی اور ذہبی نے اپنی تصنیفات میں اس روایت کو ضعیف اور غیر قابل اعتماد قرار دیا ہے۔ سکوت (خاموشی): ابوالحسن اشعری (اشاعرہ فرقے کے بانی) جیسے بعض افراد نے اس حدیث کی صحت یا عدم صحت کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے۔ تأیید (تائید): ایک اور گروہ نے اس روایت کی تصحیح اور تائید کی ہے، جن میں مناوی (فیض القدیر)، حاکم نیشابوری (المستدرک)، شاطبی (الاعتصام)، اور سفارینی (لوامع الانوار البہیة) شامل ہیں۔[21]
کتب ملل و نحل میں فرقوں کی فہرست:
ملل و نحل سے متعلق ذرائع میں بہت سے فرقوں کا ذکر کیا گیا ہے، اور کئی معاملات میں صرف فرقے کا نام ہی کافی سمجھا گیا ہے [22]۔ اس صورتحال میں، موجودہ فہرست کی تدوین میں، جن فرقوں کا صرف نام ذکر کیا گیا ہے، ان کا ذکر ان کے اصلی فرقے کی وضاحت والے حصے میں ہی کیا گیا ہے جن سے وہ منشعب ہوئے ہیں۔
فرق اور مذاہب سے متعلق تحقیقات کےبانی
فرقوں اور مذاہب کے موضوع پر موجود قدیم ترین کتب وہ ہیں جو ہجری کی تیسری صدی میں شیعہ علماء نے تصنیف کیں اور اب بھی اس میدان کے محققین کی توجہ کا مرکز ہیں۔ کتاب "فرق الشیعة"مؤلف: ابو محمد حسن بن موسی نوبختی (وفات تقریباً 300ھ)۔ یه کتاب "فرق الشیعة نوبختی" کے نام سے جانی جاتی ہے اور پہلی بار 1379ھ میں سید محمد صادق بحرالعلوم کے مقدمہ اور تعلیقات کے ساتھ نجف میں شائع ہوئی اور ڈاکٹر محمد جواد مشکور کے فارسی ترجمہ کے ساتھ 1361 ہجری شمسی میں تہران میں شائع ہوئی۔ کتاب "المقالات و الفرق" مؤلف: سعد بن عبداللہ اشعری قمی۔ یہ بھی ہجری کی تیسری صدی سے تعلق رکھتی ہے۔
تیسری صدی ہجری کے دیگر مصنفین
اور سنہ 247 ہجری قمری سے لے کر 356 ہجری قمری کے درمیانی عرصے میں، دیگر مصنفین کے نام بھی رجال اور تاریخ کی کتابوں میں ذکر کیے گئے ہیں:
- ابو عیسیٰ محمد بن ہارون ورّاق جو سنہ 247 ہجری قمری میں وفات پا گئے۔ وہ علم کلام کے معروف علماء میں سے تھے اور تیسری صدی ہجری کے عظیم امامیہ متکلّمین میں شامل ہیں۔ ان کی ایک کتاب شیعہ فرقوں کے بارے میں ہے جس کا نام "اختلاف الشیعہ" ہے۔ [23]
- نجاشی نے اپنی کتاب رجال میں "محمد بن احمد نعیمی" کا ذکر کیا ہے، جو امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے دورِ امامت (254 تا 260 ہجری قمری) کے اصحاب میں سے تھے۔ انہوں نے فرق الشیعہ کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے۔ نجاشی نے ان کی کتاب "البہجہ" سے روایت کی ہے۔ [24]
- ابوالقاسم نصر بن صباح بلخی کی ایک کتاب کا نام "فرق الشیعہ" تھا۔ کشّی اپنی کتاب رجال میں نصر بن صباح اور ان کی کتاب فرق الشیعہ کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔ [25]
پہلی اور دوسری صدی ہجری کے منسوب آثار
فرقہ شناسی کے ذرائع میں پہلی اور دوسری صدی ہجری سے متعلق منقول ہے کہ: "ابن مفضل" نے عباسی خلیفہ مہدی (132-135ھ) کے دورِ خلافت میں "صنوف الفرق" نامی ایک کتاب تالیف کی، جس کا اب کوئی نشان موجود نہیں ہے۔ یہ کتاب مہدی عباسی کے حکم پر لوگوں کو پڑھ کر سنائی جاتی تھی۔ ہشام بن حکم کا بیان ہے کہ مذکورہ کتاب مدینہ کے باب الذہب میں لوگوں کو پڑھ کر سنائی گئی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ تالیف فرقوں کے تعارف کے بارے میں ایک مختصر رپورٹ کی مانند ہو، جو دینی فرقوں کے بارے میں مہدی عباسی کی مطلوبہ معلومات عوام تک پہنچاتی ہو۔ ایک کتاب فرقوں کے بارے میں ضرار بن عمرو کی طرف بھی منسوب کی گئی ہے جو پہلی ہجری قمری کی پہلی نصف صدی میں زندہ تھے۔[26] اس کتاب کے معیار (کیفیت) اور اس کے مصنف کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
کتابوں کی اقسام
اسلامی علماء نے "الملل و النحل" (فرقوں اور مذاہب) کے موضوع پر جو کتابیں لکھی ہیں، انہیں بنیادی طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- وہ کتب جن میں اسلامی اور غیر اسلامی مذاہب کا ذکر ہے
ایسی کتابیں جو اسلامی مذاہب پر بحث کرنے کے علاوہ، دوسرے ادیان اور مذاہب کے بارے میں بھی بات کرتی ہیں، جیسا کہ محمد بن عبدالکریم شہرستانی (متوفی ۴۷۹ھ) کی کتاب "الملل و النحل" .
- وہ کتب جو صرف اسلامی فرقوں اور مذاہب سے متعلق ہیں
- وہ کتابیں جن کے مصنفین نے صرف ایک اسلامی مذہب کے بارے میں بحث کی ہے اور یہ مصنفین کبھی اس مذہب کے حمایتی اور کبھی اس کے مخالف ہوتے ہیں، جیسا کہ شیعہ علماء میں سے ایک، نوبختی کی کتاب "فرق الشیعة"۔
واضح رہے کہ ردّیہ نویسی (کسی مذہب کے پیروکاروں کی طرف سے دوسرے مذہب کی تردید میں لکھی جانے والی) کتابیں اور وہ کتابیں جو احتجاج (دلائل پیش کرنے) یا دوسرے فرقوں کے شبہات کا جواب دینے کے طور پر لکھی گئی ہیں، بھی اسی زمرے میں شامل ہیں۔ ہمارا مقصد ان کتابوں کو صرف ان تین اقسام تک محدود کرنا نہیں ہے، لیکن بظاہر ملل و نحل، فرق اور مذاہب پر لکھی گئی تمام کتابیں کسی نہ کسی طرح ان تین اقسام کے تحت آتی ہیں۔
تہتر (۷۳) فرقے
قدیم متون میں، اسلامی فرقوں کی تعداد تہتر (۷۳) گنی جاتی تھی اور انہیں اصطلاحاً "ہفتاد و سہ ملت" (تہتر گروہ) یا "ہفتاد و سہ گروہ" (تہتر فرقے) کہا جاتا تھا۔ ان متون میں، اسلامی فرقوں کو چھ (۶) گروہوں میں تقسیم کیا گیا تھا: رافضیہ، خارجیہ، جبریہ، قدریہ، جہمّیہ، اور مرجئہ۔ اور ہر گروہ کے لیے بارہ (۱۲) ذیلی گروہ (فرقے) کا ذکر کیا گیا تھا۔ ابوالقاسم رازی نے سات (۷) مزید فرقوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو کہ اس طرح ہیں: کرامیہ، ھریہ، حالیہ، باطنیہ، اباحیہ، براھمیہ، اور اشعریہ۔ بعض متون میں سوفسطائیہ، فلاسفہ، سمنیہ، اور مجوسیہ فرقوں کے نام بھی نظر آتے ہیں۔
شیعہ
ذیلی گروہ: علویہ، ابدیہ، شیعیہ، اسحاقیہ، زیدیہ، عباسیہ، امامیہ، ناوسیہ، تناسخیہ، لاعنیہ، راجعیہ، مرتضیہ علوی
خارجیہ
ذیلی گروہ:ازارقہ، ریاضیہ، ثعلبیہ، جازمیہ، خلفیہ، کوزیہ، کنزیہ، معتزلہ، میمونیہ، محکمّیہ، سراجیہ، اخنسیہ
جبریہ
ذیلی گروہ: مضطریہ، افعالیہ، معیہ، تارکیہ، بحثیہ، متمنیہ، کسلانیہ، حبیبیہ، خوفیہ، فکریہ، حسبیہ، حجتیہ
قدریہ
ذیلی گروہ: احدیہ، ثنویہ، کیانیہ، شیطانیہ، شریکیہ، وهمیہ، رویدیہ، ناکسیہ، متبریہ، قاسطیہ، نظامیہ، متولّفیہ
جہمّیہ
ذیلی گروہ: معطّلیہ، مترابصیہ، متراقبہ، واردیہ، حرقّیہ، مخلوقیہ، عبریہ، فانیہ، زنادقہ، لفظیہ، قبریہ، واقفیہ
مرجئه
ذیلی گروہ: تارکیه، شائیه، راجیه، شاکیه، نهمیه، عملیه، منقوصیه، مستثنیه، اثریه، مدعیه، مشبهه، حشویه
هفت فرقه
ذیلی گروہ: کرامیه، هریه، حالیه، باطنیه، اباحیه، براهمیه، اشعریه
دیگر مختلف مذاهب
سوفسطائیه، فلاسفه، سمنیه، وحدت اسلامی و مجوسیه [27].
شیعہ مذہب کے شاخیں
معتدل شیعہ (کیسانیہ)
کیسانیہ کا عقیدہ ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) کے بعد محمد بن حنفیہ امام تھے۔[28]
زیدیہ
زیدیہ، امام سجاد (علیہ السلام) کے بیٹے، زید کی امامت کے قائل ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ زید (جو خود شرائطِ امامت پر پورے اترتے تھے) کے بعد صرف وہی لوگ امام ہوں گے جو ضروری صلاحیتیں رکھتے ہوں اور اللہ کی راہ میں قیام کریں اور لوگوں کو اللہ کی اطاعت اور اپنی امامت کی طرف دعوت دیں۔ [29]
جعفریہ (اثنا عشری)
اثنا عشری شیعہ، مذہبِ شیعہ کی سب سے بڑی شاخ ہے۔ اثنا عشری شیعوں کے عقیدے کے مطابق، پیغمبر کے بعد معاشرے کی قیادت امام کے سپرد ہے، اور امام کا تعین اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اثنا عشری شیعہ، غدیر جیسی احادیث کی بنیاد پر، حضرت علی (علیہ السلام) کو پیغمبر اسلام کا جانشین اور پہلا امام مانتے ہیں۔ وہ بارہ اماموں پر اعتقاد رکھتے ہیں اور ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ بارہویں امام، مہدی، زندہ ہیں اور غیبت کبریٰ میں ہیں۔
امامیہ
شیعہ امامیہ اس مذہب کے پیروکار ہیں جو حضرت علی (علیہ السلام) اور ان کے بیٹوں کی بلا فصل امامت اور خلافت کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرف سے نص اور تعین کے ذریعے تسلیم کرتے ہیں۔[30] شیعہ امامیہ کا ظہور، جیسا کہ مذکور ہے، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حیاتِ طیبہ ہی میں ہو گیا تھا، کیونکہ 'شیعہ علی' کی اصطلاح خود آنحضرت کی باتوں میں بارہا استعمال ہوئی ہے۔
اسماعیلیہ
اسماعیلیہ شیعوں کا ایک گروہ ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اماموں کا تقرر پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) یا پچھلے امام کی طرف سے ہوتا ہے، اور یہ امامت باپ سے بیٹے میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ گروہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بعد سے لے کر امام صادق (علیہ السلام) تک تمام اماموں کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس کے بعد ان کا عقیدہ ہے کہ امامت امام صادق (علیہ السلام) کے بیٹے اسماعیل کو منتقل ہوئی، اور اس کے بعد بھی امامت ان کی اولاد میں جاری رہی ہے اور موجودہ وقت تک یہ سلسلہ جاری ہے۔[31]
غالی شیعہ (غالیان)
غالیان ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اماموں کے حق میں غلو کیا اور انہیں مخلوق ہونے کے دائرے سے باہر نکال کر ان کے لیے الوہیت کا مقام قائل کیا۔[32]
شیعہ اقلیت فرقے
کچھ فرقے ایسے ہیں جنہیں نہ سنی کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی شیعہ؛ ان فرقوں کے پیروکار اپنے باطل عقائد کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہیں، لیکن انہیں مُرتد شمار نہیں کیا جاتا۔ مثال کے طور پر وہ فرقے جو ائمہ (علیہم السلام) کی طرف صفاتِ ربوبیت (خداوندی) منسوب کرتے ہیں۔ مثلاً، وہ کہتے ہیں: امام علی خدا ہیں، امام علی خداؤں والے کام کرتے ہیں، یا کائنات کے تمام کام امام علی کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ فرقے اسلام سے نکلنے والے منحرف مذاہب شمار ہوتے ہیں۔[33]
شیخیہ
شیخ احمد احسائی کے پیروکار (شیخیہ) کرمان اور مشہد میں متمرکز ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ خداوند (اللہ) نے ائمہ کو پیدا کیا اور ائمہ نے پوری کائنات کو پیدا کیا۔ لہٰذا، کائنات کا فاعلی سبب (علت فاعلی) ائمہ ہیں۔ چونکہ یہ لوگ اپنے باطل عقیدے کے لیے بعض روایات کا سہارا لیتے ہیں، جو یا تو ضعیف ہیں یا جن کے مختلف تفسیری پہلو ہیں، اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ شیخیہ کلیتاً دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور ان پر غیر مسلموں کے احکام لاگو ہوتے ہیں۔ [34] اس فرقے کے تقریباً دو لاکھ پیروکار ہیں جن میں سے پچاس ہزار بصرہ میں اور پچاس ہزار کرمان میں مقیم ہیں۔ ایک گروہ مشہد میں رہتا ہے جہاں ان کا مدرسہ "باقریہ" کے نام سے موجود ہے۔ شیخیہ مزید گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، جیسے: شیخیہ باقریہ اور شیخیہ کریم خانی جو کرمان میں مقیم ہیں، اور یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کرتے۔[35]
اہل حق
اس فرقے کے پیروکار، جن کی آبادی تقریباً دس لاکھ ہے، یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ علی (علیہ السلام) خدا نہیں ہیں، لیکن وہ خدا سے جدا بھی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روحِ خداوندی علی (علیہ السلام) میں حلول کر گئی اور ان کے بعد متعدد دیگر شخصیات میں بھی حلول کرتی رہی۔ اہل حق تناسخ (حلول کے بعد دوبارہ جنم لینے) کے قائل ہیں۔ عرفِ عام میں یہ فرقہ "علی الہی" کے نام سے مشہور ہے اور ایران میں یہ کرمانشاہ، ہمدان، تویسرکان، بابل وغیرہ شہروں میں موجود ہیں۔ ان کے پیروکار ترکی، ہندوستان اور عراق میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ فرقہ بھی مسلمانوں سے الحاق رکھتا ہے۔[36]
نُصَیریہ
یہ فرقہ محمد بن نصیر نُصیری کے پیروکار ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ دورِ غیبت کبریٰ میں امام حسن بن علی (عسکری) (علیہما السلام) کی طرف سے ہیں۔ شام میں ان کی آبادی تقریباً دس لاکھ ہے۔ حافظ الاسد اور بشار الاسد اسی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ نُصیریہ تمام ائمہ کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن غلو (انتہا پسندی) پر مبنی عقائد کے ساتھ، اور وہ حضرت علی (علیہ السلام) کے بارے میں خدائی عقیدہ رکھتے ہیں۔[37]
ترکی کے علوی
یہ فرقہ ترکی میں مقیم ہے اور ان کی تعداد چودہ سے بیس ملین کے درمیان ہے۔ ان کا حضرت علی (علیہ السلام) کے بارے میں غلو پر مبنی عقیدہ ہے اور وہ مانتے ہیں کہ تمام امور حضرت علی (علیہ السلام) کے ہاتھ میں ہیں۔ اس کے باوجود، ان میں سے کچھ فقہ حنفی کی پیروی کرتے ہوئے نماز ادا کرتے ہیں، اور کچھ بالکل نماز نہیں پڑھتے اس عقیدے پر کہ علی (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے نماز ادا کر دی ہے، اور کچھ مسجد بھی نہیں جاتے کیونکہ حضرت علی (علیہ السلام) وہیں شہید ہوئے تھے۔ اسی بنا پر یہ فرقہ کئی گروہوں میں منقسم ہے: اربکان، اردوغان، رفاہ پارٹی اور فضیلت پارٹی علوی ہیں۔ سنہ 2007 کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا کے کل مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سینتالیس کروڑ (1.372 بلین) ہے، جن میں سے تقریباً ایک ارب سنی مسلک کے پیروکار ہیں اور تقریباً تیس کروڑ (300 ملین) شیعہ اثنا عشری ہیں۔ باقی وہ چند فرقوں کے پیروکار ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے، جو نہ سنی ہیں اور نہ شیعہ، بلکہ اسلام سے منسوب ہیں۔ [38]
اباضیہ
یہ خوارج کا باقی ماندہ سب سے معتدل فرقہ ہے۔ عمانی باشندے تقریباً تمام کے تمام اباضی المسلک ہیں۔ اباضیہ لیبیا اور الجزائر میں بھی آباد ہیں اور ان کی آبادی تقریباً چار سے پانچ ملین کے درمیان ہے۔ فقہی طور پر وہ حنفیوں کے قریب ہیں، لیکن ان کا اپنا فقہ ہے، اور عقائد میں وہ معتزلہ کے قریب ہیں، لیکن اشاعرہ سے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ عمرو خلیفہ نامی کی کتاب "دراسات عن الاباضیة" (اباضیہ کے بارے میں مطالعات) ایک اچھی تصنیف ہے جو شمالی افریقہ کے ایک اباضی نے اپنے مذہب کے بارے میں لکھی ہے۔[39]
اہل سنت مذہب کے شاخیں
فقہی مذاہب (مذاهب فقهی)
مالکی
مالکی فقہ کے تقریباً 150 ملین پیروکار ہیں۔ شمالی افریقہ، الجزائر، لیبیا، مغرب (مراکش) اور دیگر علاقوں کے مسلمان مالکی مذہب کے ہیں۔ مالکی فقہ میں، نماز میں ہاتھ باندھنا (تکتف) مستحب نہیں ہے، لہذا وہ شیعوں کی طرح کھلے ہاتھ نماز پڑھتے ہیں [40]۔
حنفی
حنفی فقہ کے تقریباً 450 ملین پیروکار ہیں۔ برصغیر پاک و ہند، وسطی ایشیا اور ترکی میں مقیم زیادہ تر لوگ حنفی ہیں، کیونکہ سامانیوں، غزنویوں اور سلطنت عثمانیہ کے دور میں حنفی فقہ حاکم فقہ تھا۔ ایران میں، ملک کے مشرق میں رہنے والے اہل سنت حنفی فقہ کے پیروکار ہیں، اور جو مغرب میں رہتے ہیں وہ شافعی فقہ کے پیروکار ہیں۔ حنفی گلستان، خراسان، سیستان اور بلوچستان صوبوں میں موجود ہیں[41]۔
شافعی
شافعی فقہ کے تقریباً 350 ملین پیروکار ہیں۔ زیادہ تر مصری اس مذہب کے پیروکار ہیں۔ الازہر یونیورسٹی فقہی لحاظ سے شافعی فقہ پر اور اعتقادی لحاظ سے اشعری کلام پر مبنی ہے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا کے مسلمان زیادہ تر شافعی ہیں۔ البتہ یہ مذہب عالم اسلام میں بکھری ہوئی صورت میں بھی پیروکار رکھتا ہے۔ کرد مسلمان شافعی فقہ کے پیروکار ہیں۔ صلاح الدین ایوبی، ایوبی خاندان کے بانی، ایک کرد شافعی تھے۔ اس وقت سے لے کر اب تک، الازہر یونیورسٹی شافعی فقہ کی بنیاد پر تدریس کر رہی ہے۔ الازہر کے موجودہ سربراہ، احمد الطیب، شافعی المذہب اور اشعری المسلک ہیں۔ ایران کے گیلان، اردبیل، آذربائیجان، کردستان، ہرمزگان صوبوں میں مقیم اہل سنت شافعی المذہب ہیں۔ فلسطین اور غزہ کی پٹی کے لوگ فقہی لحاظ سے مصریوں کے ہم مذہب ہیں اور شافعی ہیں [42]۔
حنبلی
حنبلی فقہ کے تقریباً 50 ملین پیروکار ہیں۔ سعودی عرب میں مقیم مسلمان (وہابی) حنبلی ہیں، لیکن اس فرقے کے پیروکار شام، لبنان، اردن اور مغربی کنارے میں بکھری ہوئی صورت میں موجود ہیں[43]۔
کلامی مکاتب فکر
ماتریدیہ
یہ اہل سنت کے درمیان ایک مشہور اور قابل قبول کلامی مکتب فکر ہے جو چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں ظاہر ہوا۔ ماتریدیہ کے بانی ابو منصور ماتریدی (وفات ۳۳۳ ہجری) نامی شخص ہیں۔ ماتریدی اور اشعری کا معتزلہ کی مخالفت کا محرک ایک ہی تھا، لیکن ان کا طریقہ کار مکمل طور پر یکساں نہیں تھا، کیونکہ ماتریدیہ میں اشاعرہ کے مقابلے میں عقل پسندی ظاہر پرستی پر حاوی ہے۔[44]
اشاعرہ
یہ کلامی گروہ اہل حدیث کے عقائد کو ایک خاص ترمیم کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ اس مکتب کے بانی ابوالحسن اشعری (پیدائش ۲۶۰ - وفات ۳۲۴ ہجری) ہیں۔ اس مکتب کی بنیاد رکھنے سے پہلے، وہ معتزلہ کے مکتب سے وابستہ تھے، انہوں نے چوتھی صدی ہجری میں اہل حدیث کے عقائد کے دفاع اور معتزلہ کے آراء کی مخالفت کے لیے قیام کیا اور اشاعرہ نامی ایک نیا مکتب فکر قائم کیا، اور یہ مکتب اہل سنت اور اسلامی کلام کے دائرے میں بہت مشہور ہوا۔[45]
معتزلہ
معتزلہ ایک ایسا گروہ ہے جس نے عقل کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی ہے اور بہت سے معاملات میں نصوص (دینی تحریروں) کے عقل سے ٹکرانے کی وجہ سے ان کی تأویل (تشریح) کرتے تھے۔ یہ گروہ پانچ مسائل کو اعتزال کے اصولوں میں شمار کرتا ہے:
- توحید (اللہ کی وحدانیت)
- عدل (انصاف)
- وعدہ و وعید (جزا و سزا)
- امر بالمعروف و نہی عن المنکر (نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا)
- منزلہ بین المنزلَتَین (دو درجوں کے درمیان کی منزل)
اس کلامی مکتب کے بانی "واصل بن عطاء" نامی شخص تھے جو حسن بصری کے شاگرد تھے۔ ایک متنازع سوال پر اپنے استاد سے اور ان کی وضاحت سے عدم اطمینان کی وجہ سے، وہ ان کے درس کے حلقے سے الگ ہو گئے اور اپنی ایک مستقل حلقہ تشکیل دیا۔ اس مناسبت سے حسن بصری نے کہا: "اعتزل عنّا" یعنی واصل ہم سے الگ ہو گیا۔ لہٰذا، واصل کے پیروکار "معتزلہ" کہلائے۔[46]
وہابیہ
وہابی مسلک کا تعلق شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی سے ہے۔ وہ ۱۱۱۵ ہجری میں عربستان (سعودی عرب) کے علاقے نجد میں پیدا ہوئے۔ اس مسلک کے پیروکار خود کو "سلفیہ" کہتے ہیں اور انہوں نے "سلفیہ" کے اصولوں میں کچھ مسائل کا اضافہ کیا جو زیادہ تر توحید اور شرک سے متعلق ہیں۔ محمد بن عبدالوہاب نے ابن تیمیہ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کے افکار کو زندہ کرنے کی خاص رغبت پیدا کی اور اسی بنیاد پر انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت، ان کی آثار سے تبرک (برکت حاصل کرنا)، ان سے توسل (واسطہ لینا) اور قبروں پر سائبان بنانا کو شرک قرار دیا، اور مسلمانوں کے دیگر فرقوں پر شرک اور دین سے خارج ہونے کا الزام لگایا، اور صرف وہابی مسلک کو ہی اہل نجات (نجات پانے والا گروہ) قرار دیا۔[47] وہابیوں کے انتہا پسندانہ عقائد اور افکار اور ان کے سخت اور غیر لچکدار رویے نے امت اسلامیہ کے درمیان تفرقہ اور جھگڑے کو جنم دیا ہے اور یہاں تک کہ وہ عالمی استعمار اور اسلام کے دشمنوں کے مقاصد اور مفادات کے راستے میں آگیا ہے۔
فکری تحریکیں
سلفیت
سلفی اہل سنت مسلمانوں کے ایک ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے جو دین اسلام سے وابستہ ہیں اور خود کو سلف صالحین (نیک اسلاف) کا پیروکار مانتے ہیں اور اپنے عمل و عقائد میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)، صحابہ (رضی اللہ عنہم) اور تابعین (رحمۃ اللہ علیہم) کی پیروی کرتے ہیں۔ سلفی صرف قرآن اور سنت کو اپنے احکام اور فیصلوں کا ماخذ قرار دیتے ہیں۔[48] معاصر سلفیت کی بنیاد سید جمال الدین اسدآبادی اور محمد عبدہ نے بیسویں صدی کے اوائل میں رکھی تھی۔ سلفیت کے مذہبی، ثقافتی، سماجی اور سیاسی پہلو ہیں اور اس نے عالم اسلام کے کونے کونے میں مسلم مفکرین پر گہرا اثر ڈالا ہے۔[49]
اخوان المسلمین
اخوان المسلمین کی تنظیم ایک سلفی تحریک ہے جسے حسن البنا نے مصر میں قائم کیا۔ حسن البنا اپنے سے پہلے کے اصلاح پسند رشید رضا کے پیروکار تھے، جو ایک طرف ابن تیمیہ اور محمد عبدہ کے نظریات سے متاثر ہو کر سلفی فکر رکھتے تھے اور دوسری طرف سید جمال الدین اسدآبادی سے اثر قبول کرتے ہوئے مسلمانوں کے اتحاد کی راہ میں کوشش کرتے تھے۔[50]
دیوبندی
دیوبندی ایک سلفی مکتبِ فکر ہے جسے برصغیر پاک و ہند میں شاہ ولی اللہ دہلوی (۱۱۱۴-۱۱۷۶ھ) نے قائم کیا۔ ان کی ایک رسالہ ابن تیمیہ کے دفاع میں ہے، اور وہ اپنی تصانیف میں زیارت قبور، توسل، استغاثہ، نذر اور قسم جیسے اعمال کو شرک کی شکلیں شمار کرتے ہیں۔[51] شاہ ولی اللہ دہلوی کے بعد، ان کے کچھ بالواسطہ شاگردوں نے مدرسہ دیوبند قائم کیا اور ان کے افکار کی اشاعت کی۔ یہ مدرسہ جلد ہی مقبول ہو گیا اور پورے ہندوستان اور دیگر ممالک سے طلباء کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے ہندوستان کا سب سے بڑا علمی مدرسہ بن گیا۔[52] ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد، دیوبندیوں نے، جو پہلے سے ہی شیعہ کے مدمقابل تھے، پاکستان کے اہل سنت کو شیعہ ہونے سے روکنے کے مقصد سے انجمن سپاہ صحابہ تشکیل دی۔[53]
ظاہری
ظاہری ان مذاہب میں سے ایک ہے جسے داؤد بن علی اصفہانی نے تیسری ہجری قمری صدی میں قائم کیا۔ اس مذہب کا نام اس لیے ظاہری رکھا گیا کہ اس میں قرآن کی آیات اور پیغمبر اسلام کی روایات کے "ظاہر" (لغوی معنی) پر توجہ دی جاتی ہے۔ ظاہری مذہب کی ترقی کا عروج پانچویں ہجری قمری صدی میں ابن حزم اندلسی کے ذریعے ہوا اور اس کے زیادہ تر پیروکار اندلس اور شمالی افریقہ میں تھے۔ دیگر اسلامی مذاہب میں شافعی مذہب ظاہری مذہب سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔
اسلامی دنیا میں صوفی فرقے
اس وقت اسلامی دنیا میں سو (100) صوفی فرقے موجود ہیں جن کے تقریباً چار سو سے پانچ سو ملین پیروکار ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس آبادی میں سے تقریباً بیس ملین (20 ملین) پیروکار شیعہ صوفی مسلک کے ہیں۔
قادریہ
اہل سنت کے درمیان ایک بڑے اور مشہور صوفی فرقوں میں سے ایک قادریہ ہے۔ اس فرقے کے بانی ایک شخص تھے جن کا نام عبدالقادر تھا۔ قادریہ کے پیروکار مغرب سے لے کر انڈونیشیا تک پائے جاتے ہیں۔ ایران میں بھی کردستان کے علاقے کے اہل سنت زیادہ تر اسی فرقے کے پیروکار ہیں۔
نقشبندیہ
یہ فرقہ خواجہ بہاءالدین نقشبند کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔ وہ آٹھویں اور نویں صدی ہجری میں پاکستان میں رہتے تھے۔ اس فرقے کی تعلیمات کا اثر برصغیر پاک و ہند اور وسطی ایشیا میں بہت زیادہ ہے۔ ایران میں بھی، صوبہ گلستان اور شمالی خراسان (ترکمنوں) میں زیادہ تر لوگ اسی فرقے کی پیروی کرتے ہیں۔ نقشبندیوں کی موجودگی کرمانشاہ اور کردستان میں بھی ہے۔ صوبہ سیستان و بلوچستان میں دیوبندیہ کے کچھ لوگ بھی خود کو اس فرقے کا پیروکار کہتے ہیں۔
بریلویہ
احمد رضا خان بریلوی کے پیروکاروں کو بریلوی کہا جاتا ہے، جو برصغیر پاک و ہند کے شہر "بریلی" میں رہتے تھے اور قادریہ فرقے سے الگ ہوئے تھے۔ پاکستان کے ساٹھ فیصد (60%) اہل سنت بریلوی ہیں۔ ایران میں، بریلویہ صوبہ سیستان و بلوچستان میں محدود پیمانے پر موجود ہیں۔ چابہار میں اس فرقے کا ایک مدرسہ سو (100) طلباء کے ساتھ قائم ہے۔
تیجانیہ
یہ فرقہ ملک مغرب میں سرگرم ہے۔ ایران میں ڈاکٹر پورجوادی کے ترجمہ کردہ ایک کتاب "عارفی از الجزایر" (الجزائر کا ایک عارف) کے نام سے شائع ہوئی ہے، جس کا اصلی عنوان "قدیسی در قرن بیستم" (بیسویں صدی کا ایک ولی) ہے۔ اس کتاب میں جس صوفی شیخ کا تعارف کرایا گیا ہے وہ تیجانیہ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیگر سنی صوفی فرقوں اور مذاہب میں چشتیہ، سہروردیہ، رفعایہ، یسویہ، کبرویہ وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے [54]۔
بکتاشیہ
بکتاشیہ صوفی طریقوں میں سے ایک ہے جو ایشیائے صغیر اور بلقان کے علاقے میں بہت سے پیروکاروں کے ساتھ ہے۔ بکتاشی خود کو مسلمان اور شیعہ سمجھتے ہیں۔ وہ خدا کی وحدانیت، محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی نبوت اور علی (علیہ السلام) کی ولایت پر یقین رکھتے ہیں، لیکن ان تینوں کو عیسائی تثلیث کی طرح ایک تثلیث میں دیکھتے ہیں۔[55]
شیعہ فعال صوفی فرقے
گنابادیہ
صوفی فرقہ گنابادیہ شیعہ صوفی فرقوں میں سب سے زیادہ فعال ہے۔ یہ فرقہ شاہ نعمت اللہیّہ کے منحرف (انشعابی) فرقوں میں سے ایک ہے۔ اس فرقے کے جنوبی خراسان کے شہر گناباد، تہران، یزد، بروجرد اور دیگر علاقوں میں تین سے چار ملین (تیس سے چالیس لاکھ) پیروکار ہیں۔
شاہ نعمت اللہیّہ
اس فرقے کے پیروکار کرمان اور ماہان میں ہیں، البتہ ان کی کوئی خاص سرگرمی نہیں ہے۔
نوربخشیہ
یہ فرقہ سید محمد نوربخش کے پیروکار ہیں جو ابن فہد حلّی کے شاگرد تھے اور یہ آٹھویں ہجری قمری صدی سے فعال ہے۔ نوربخشیہ کے تقریباً پچاس ہزار پیروکار شمالی پاکستان میں ہیں اور ایران میں بھی اس کے پیروکار موجود ہیں۔
ذہبیہ
یہ فرقہ دزفول میں احمدیہ کے نام سے مشہور اور فعال ہے، جہاں اس فرقے کے نام سے ایک حسینیہ بھی تعمیر کیا گیا ہے۔[56]
متعلقہ تلاشیں
حوالہ جات
- ↑ محمد بن عبدالکریم شهرستانی، الملل و النحل، بیروت، انتشارات دارالسرور، سال 1368 ق، ج 1، ص 280.
- ↑ جعفر سبحانی، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، ج 1، ص 10.
- ↑ محمد جواد مشکور، مقدمه فرهنگ فرق اسلامی، استاد کاظم مدیر شانه چی.
- ↑ علی ربانی گلپایگانی، فرق و مذاهب کلامی، انتشارات مرکز بین المللی ترجمه و نشر المصطفی، (پاورقی)
- ↑ جعفر سبحانی، مذکوره حواله، ص 28
- ↑ حسین توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 13.
- ↑ علی ربانی گلپایگانی، همان، ص 10.
- ↑ محمد معین، فرهنگ فارسی معین.
- ↑ مذکوره حواله
- ↑ جمعی از نویسندگان، المعجم الوسیط، ج 2، ص 364.
- ↑ سعید شرتونی، اقرب الموارد، ج 5، ص 364.
- ↑ ابن منظور، لسان العرب و محمد فیروزآبادی، قاموس اللغة.
- ↑ جعفر سبحانی، مذکوره حواله'، ص 27.
- ↑ جمعی از محققین، دانستنیها ادیان و مذاهب، ص ۳۴۸.
- ↑ مذکوره حواله، ص ۳۵۵
- ↑ عبدالرحمن بدوی، تاریخ اندیشههای کلامی، ج 1، ص ۴۸–۴۹
- ↑ جمعی از محققین، مذکوره حواله، ص ۳۵۰
- ↑ اسکندر اسفندیاری، مقاله: «فرقه سبائیه»، ماهنامه مسجد، سال 1375، ش 30، ص ۶۸
- ↑ عقوب جعفری، مقاله: «باورها و فرقههای خوارج»، مجله معارف عقلی، سال 1386 ش، ش 7
- ↑ نعمتالله صفری فروشانی، مقاله: راهنمای مطالعات فرقهشناسی اسلامی، مجله هفت آسمان، ش 9 و 10 از ص 121 تا 150
- ↑ محمد بقائی یمین، مقاله: «بررسی و نقد حدیث فرقه ناجیه»،مجله مطالعات تقریبی مذاهب اسلامی، دوره دهم، ش 40، سال 1394 ش، ص ۶۱–۶۲
- ↑ اسکندر اسفندیاری، همان، ص ۷۰
- ↑ حسن بن موسی نوبختی، فرق الشیعة، با ترجمه محمد جواد مشكور، انتشارات علمی و فرهنگی، سال 1361 ش
- ↑ احمد بن علی نجاشی، رجال نجاشی، انتشارات مؤسسة النشر الاسلامی، ص 395 .
- ↑ شیخ طوسی، رجال الطوسی، ص 515.
- ↑ فرق و مذاهب كلامی، به نقل از مقالات الاسلامیین، ترجمه مؤیدی.
- ↑ علی اکبر دهخدا، لغت نامه دهخدا، سرواژه هفتاد و دو ملت
- ↑ مهدی فرمانیان، آشنایی با فرق تشیع، سال ۱۳۸۷ ش، ص۴۰
- ↑ مهدی فرمانیان و علی موسوی نژاد، درسنامه تاریخ و عقائد زیدیه، سال ۱۳۸۶ ش، ص ۱۹۱
- ↑ حسن بن موسی نوبختی، همان، ص ۴
- ↑ جعفر سبحانی، المذاهب الاسلامیة، ص 246
- ↑ محمد بن عبدالکریم شهرستانی، الملل و النحل، ج ۱، ص ۱۵۴
- ↑ مجله حوزه
- ↑ مذکوره حواله
- ↑ مذکوره حواله
- ↑ مذکوره حواله
- ↑ مذکوره حواله
- ↑ مذکوره حواله
- ↑ مذکوره حواله
- ↑ jh.isca.ac.ir
- ↑ jh.isca.ac.ir
- ↑ jh.isca.ac.ir
- ↑ jh.isca.ac.ir
- ↑ علی ربانی گلپایگانی، درآمدى بر علم کلام، ص ۲۹۶
- ↑ علی ربانی گلپایگانى، فرق و مذاهب کلامى، مذکوره حواله، ص ۲۰۱، با ویرایش
- ↑ مرتضى مطهری، مجموعه آثار، انتشارات صدرا، چ دوم، سال ۱۳۷۲ش ، ج ۳، ص ۸۵
- ↑ جعفر سبحانی، آئین وهابیت، ص ۲۹
- ↑ Shahin, “Salafīyah”, Oxford
- ↑ Shahin, “Salafīyah”, Oxford
- ↑ مهدی فرمانیان، سلفیه و تقریب، ص ۱۴۳ و ۱۴۴
- ↑ ملا موسی میبدی، بررسی و نقد دیدگاه شاه ولی الله دهلوی در مسئله شرک، ص ۱۵۵
- ↑ مهدی فرمانیان، مذکوره حواله، ص۸۳
- ↑ ناصر پورحسن و عبدالمجید سیفی، مقاله: تقابل نئوسلفیها با شیعیان و پیامدهای آن بر اتحاد جهان اسلام، فصلنامه شیعهشناسی، ش، 52، بهمن 1394 ش
- ↑ jh.isca.ac.ir
- ↑ دایرة المعارف بزرگ اسلامی، مقاله بکتاشیه، نوشته فاطمه لاجوردی، ص ۳۹۶ -۳۹۸
- ↑ jh.isca.ac.ir
