بہائی

ویکی‌وحدت سے
بہائی
سید محمد علی باب.jpg
تصویر کی وضاحتسید محمد علی باب
نامبہائی
عام نامبہائی
تشکیل کا سال1260 ق، 1844 ء، 1223 ش
بانیمحمد علی باب
نظریہادعای مہدویت، بابیت و ذکریت

بہائی فرقہ ایران سے شروع ہوا اور اس فرقہ کے بانی کا نام سید علی محمد باب ہے۔ ان کے یوم موعود سے مراد ۲۳ مئی ۱۸۴۴ء ہے۔ اس دن باب نےاعلان ماموریت کیا۔

سید محمد علی باب

سیدعلی محمد جو بعد میں باب کے لقب سے مشہور ہوئے پہلی محرم1235ھ۲۰/ اکتوبر 1819ء کو ایران کے شہر شیراز میں حسنی -حسینی سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید محمد رضا اور والدہ کا نام فاطمہ بیگم تھا۔ [1]۔

اعلان ظہور

سید علی محمد باب نے23مئی 1844ء کی شام جب سورج کو غروب ہوئے دو گھنٹے گیارہ منٹ ہوئے تھے کہ سید علی محمد نے ملا حسین بشرویہ ای کے سامنے امام مہدی اور قائم آل محمد ہونے کا دعوی کیا۔ یہ اعلان خفی تھا جو انہوں نے اپنے گھر میں کیا۔ چند ماہ بعد وہ حج کو گئے جہاں اعلان کیا۔ اس سال حج اکبر تھا۔بہت سے حاجی مکہ میں آئے ہوئے تھے ۔باب نے خانہ کعبہ کے دروازے کی کنڈی کو تھام کر تین مرتبہ بلند آواز میں اعلان کیا:" اے لوگو! میں وہی قائم (مہدی ) ہوں جس کے تم منتظر ہو اور کہا میں ایک عظیم الشان ظہور یعنی ظہور اعظم الہٰی مسیح موعود کا پیشرو اور مبشر ہوں جو ابھی پردہ جلال میں مخفی ہے"۔ سید علی محمد باب ایران کے شہر شیراز کے خانوادہ سادات کے نجیب الطرفین فرزند تھے اور وہ اپنا سلسلہ نسب نواسہ رسول حضرت امام حسین سے ملاتے تھے۔ اعلان ظہور کے وقت باب کی عمر پچیس سال کے قریب تھی اس وقت باب پر ایمان لانے والے پہلے اٹھارہ شاگرد اور خود باب انیسویں تھے۔ یہ اٹھارہ شاگرد حروف حئی کے نام سے مشہور ہوئے۔ باب (سید علی محمد ) نے حروف حئی کو اعلان ظہور کی خاطر مختلف علاقوں کی طرف روانہ کیا۔ بہت سے لوگ ایمان لے آئے ۔ باب کی تعلیمات کی کتابوں کے چند مجموعے ہیں جن کا نام (بیان) رکھا گیا ہے۔ ان کی تعلیم کا خاص موضوع یہ تھا کہ خدا تک کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی۔ انسان صرف کسی مقرر کردہ درمیانی واسطے کے ذریعہ خدا تک باریابی حاصل کر سکتا ہے

نظریہ

جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے آنے سے پہلے حضرت یوحنا نے بشارت دی تھی کہ میرے بعد حضرت عیسی آنے والے ہیں اسی طرح بہائی نظریہ یہ ہے کہ سید علی محمد (باب) نے اپنے بعد آنے والے بہاء اللہ کی بشارت دی ۔ باب اور بہاء اللہ کی اگرچہ اس دنیا میں کبھی بالمشافہ ملاقات نہ ہو سکی لیکن باب نے بہاء اللہ کی آمد کے لئے راہ ہموار کی اور بہاء اللہ کے ظہور کی بشارت دی ۔ البتہ بہاء اللہ باب پر ایمان لائے اور ان کے امر کی تبلیغ کرتے رہے۔ بہاء اللہ نے بغداد میں قیام کے دوران اعلان ظہور کیا۔ بابیوں کی غالب اکثریت بہاء اللہ پر ایمان لے آئی جو بابی بہاء اللہ پر ایمان لے آئے اب وہ بابی کے بجائے بہائی کہلانے لگے اور بغداد کے عام باشندے، علماء عمائدین شہر بہاء اللہ کے گرویدہ ہو گئے۔ یادر ہے کہ بہاء اللہ کو ایران سے عراق پھر ترکی اور پھر ارض اقدس فسلطین جلا وطن کیا گیا تھا [2]۔

باب کی وفات

ستمبر1848ء میں محمد شاہ قاچار کا انتقال ہو گیا اور اُس کا بیٹا ناصر الدین شاہ قاچار تخت نشین ہوا۔ مرز اتقی خان نے باب کو قتل کر کے باہیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی باب کو ۹ جولائی ۱۸۵۰ء کو تبریز میں سات سو پچاس گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔ سید علی محمد (باب) کے ماننے والوں کو ہابی کہتے تھے۔

بھاء اللہ کا اعلان مظہریت

۲۱ اپریل ۱۸۶۳ء کے دن بہاء اللہ نے بغداد میں اعلان مظہریت فرمایا۔ حضرت بہاء اللہ کے دور کو یوم الموعود کہا گیا ہے ۔یوم الموعود کو سنسکرت میں "یک" کہا جاتا ہے یعنی ست یک(سنہری دور)۔حضرت بہاء اللہ کے اعلان ماموریت کے وقت جو مذاہب دُنیا میں موجود تھے اُن کے پیروکار آئے دن آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ لیکن بہاء اللہ نے سارے مذاہب کے لوگوں کو امر بہائی میں جمع کرکے وحدت و محبت کا پرچم بلند کر دیا۔ اس فرقہ بہائی میں مسلمان، یہودی، صابی، عیسائی، زرتشتی اور ہندوؤں کو ایک ہونے کا درس دیا گیا ہے۔ بہائی فرقہ کا عقیدہ ہے کہ جب دنیا میں بحران اور قوموں میں فساد پیدا ہوتا ہے تو خدا وشنو ( ہندوؤں کی اصطلاح میں ) کا روپ دھار کر ظہور کرتا ہے اور فساد و بربادی کو ختم کر دیتا ہے۔ بہائی عقیدہ کے مطابق بہاء اللہ کے ظہور کے بارے میں تو رات میں بشارتیں پیش کی گئی ہیں۔ حضرت بھاء اللہ تورات تو رات ( یرمیاہ ۳:۹) کے مطابق پیدا ہوئے " جو لوگ تاریکی میں چلتے تھے انہوں نے بڑی روشنی دیکھی جو موت کے سایہ کے ملک میں رہتے تھے ان پر پر نور چمکا۔" اس آیت کی روشنی میں اہل بھاء بھاء اللہ کی پیدائش کو ثابت کرتے ہیں۔اس بشارت میں روشنی اور نور سے مراد حضرت بہاء اللہ کی ذات گرامی ہے۔

قرآن سے حضرت بہاء اللہ اپنے آپ کو ثابت کرتے ہیں۔ پہلے تو رات سے ثابت کیا تھا۔ قرآن کے سورۂ اسرا کی آیت 71 پیش کرتے ہیں:" یہ وہ دن ہو گا جب ہم تمام لوگوں کو ان کے ایک عظیم امام کے ذریعے دعوت حق دیں گے"۔یہاں بہائی ثابت کرتے ہیں کہ ان آیات مبارکہ کی رو سے بخوبی ثابت ہو جاتا ہے کہ بہاء اللہ ہی وہ ہیں جس نے ظاہر ہو کر تمام اقوام عالم اور قبائل جہان کو ایک کلمہ توحید پر جمع کر دیا اب سارے مذاہب عالم گیر امر بہائی میں متحد ہو رہے ہیں [3]۔

بہاء نام

عربی زبان میں بہاء اللہ کا ترجمہ خدا کا جلال ہے۔ بہاء اللہ نام میں اسم اعظم پوشیدہ ہے ۔حضرت بہاء اللہ نے اس کی تصدیق کی ہے کہ اسم اعظم بہاء ہے۔ لفظ بہاء کے مشتقات بھی اسم اعظم شمار ہوتے ہیں۔ اسم اعظم حضرت بہاء اللہ کا نام ہے۔ "یاا بھا " ایک استقبالیہ کلمہ ہے جس کا مطلب ہے اے نور انوار ۔" اللہ ابھیٰ" اے سب سے زیادہ نور والے خدا۔ ان دونوں کی نسبت بہاء اللہ سے ہے اسم اعظم کا مطلب یہ ہے کہ بہاء اللہ خدا کے اسم اعظم میں ظہور فرما ہوئے ہیں یا دوسرے لفظوں میں آپ ظہور اعظم الہی ہیں جس کے دور میں دنیا میں امن وامان صحیح طور پر قائم ہو گا یہ اعلان لاثانی اور بے نظیر ہے [4]۔

بہاء اللہ

بہاء اللہ ۱۲ نومبر ۱۸۱۷ء کو طہران میں پیدا ہوئے۔ بہاء اللہ کا اصلی نام میرزا حسین علی تھا۔ بعد میں بہاء اللہ کے آسمانی لقب سے مشہور ہوئے۔ بہاء اللہ کا آسمانی لقب باب نے عطا کیا تھا۔ بہاء اللہ مرزا عباس نوری کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔عباس نوری مرزا بزرگ کے نام سے مشہور تھے۔ بہاء اللہ کا آبائی وطن نورتھا۔ وہ اپنا سلسلہ نسب جناب ابراہیم سے ملاتے ہیں۔جناب سارہ کے انتقال کے بعدجناب ابراہیم نے ایک اور شادی کی ۔جناب ابراہیم کی تیسری بیوی کا نام قطورہ تھا اور قطورہ کی چھ اولادیں تھیں۔ بہاء اللہ قطورہ سے اپنا نسب نامہ ملاتے ہیں۔ بہائی علی محمد باب کا سلسلہ نسب حضرت اسماعیل سے ملاتے ہیں اور بہا اللہ کا سلسلہ نسب قطورہ کی اولاد سے۔ انکا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے باب اور بہا اللہ کو مامور فرما کر حضرت ابراہیم سے باندھا ہوا عہد پورا کر دیا۔ بہاء اللہ دو سال تک سلیمانیہ کے پہاڑوں میں عبادت وریاضت ،غور فکر اور راز و نیاز میں محور ہے۔ دو سال بعد جب بہاء اللہ بغداد تشریف لائے تو بابی گروہ کی امیدیں روشن ہو گئیں۔ بہاء اللہ نے انفرادی زندگی کے متعلق جو تعلیمات دی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ محض ایمان لانا کسی شخص کو بہائی نہیں بنا دیتا اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر خدائی اوصاف پیدا کرے [5]۔

صعود مبارک

بہاء اللہ نے اپنی زندگی کے آخری دن سادگی اور سنجیدگی سے گزارے ۲۹ مئی ۱۸۹۲ ء کو ۷۵ سال کی عمر میں بخارمیں مبتلا رہ کر صعود کیا۔ آپ کی آخری لوح " کتاب عہدی" تھی جس میں بہاء اللہ نے اپنی وصیت اپنی قلم مبارک سے لکھی اور اپنے دستخط اور مہر سے مزین کیا۔ اس وصیت میں بہاء اللہ نے اپنے بڑے فرزند عباس آفندی کو جسے بہائی عبد البہاء کہتے ہیں جس کا مطلب ہے " خادم جلال" اپنا جانشین مقرر کیا۔ عبد البہاء مفسر کلام الہی اور تمام اہل جہان کے لیئے بہائی تعلیمات کا نمونہ کامل بنے۔ ان کے وصال کے بعد ان کے نواسے شوقی آفندی جانشین اور ولی امر اللہ مقرر ہوئے۔ شوقی آفندی کی کوئی اولاد نہ تھی اور نہ ہی آپ نے کسی کو جانشین نامزد کیا تھا۔ شوقی آفندی نے صیانت و تبلیغ امر اللہ کے لئے امر بہائی کا اعلی ترین انتظامی ادارہ بیت العدل اعظم قائم کیا اس ادارے کے قیام کا حکم بہاء اللہ نے اپنی مقدس کتاب اقدس میں دیا تھا۔ اب ہر پانچ سال بعد تمام دنیا کے اہل بہاء اس کا انتخاب کرتے ہیں۔

محفل روحانی محلی

بہائی جماعت کے نظام میں کوئی ایک شخص پیشوا نہیں ہوتا۔ بلکہ انتخابات کے ذریعے ایسے ادارے وجود میں آتے ہیں جو نیچے سے لے کر اوپر تک دنیاوی و روحانی معاملات کی نگرانی کرتے ہیں۔ چنانچہ مقامی سطح پر ہر شہر اور ہر گاؤں میں جہاں 9 یا 9 سے زیادہ افراد بہائی ہوں انتخابات کے ذریعے ایک 4 رکنی ادارہ وجود میں آتا ہے جس کا نام محفل روحانی محلی ( آگے شہر یا گاؤں کا نام) ہے۔

محفل روحانی ملی

ملکی سطح پر ایک ادارہ بنتا ہے جس کا نام محفل روحانی ملی ( آگے ملک کا نام ) ہے۔ تمام محلی محافل اس محفل ملی کے ماتحت ہوتی ہیں۔ اس کے بھی 9ممبر ہوتے ہیں جو اُس ملک میں سے چنے جاتے ہیں۔

بیت العدل اعظم

بہائی تعلیمات کے مطابق ہر ظہور الہی کی آمد یوم العدل ہے مگر بہاء اللہ کا ظہور اقدس و اعلیٰ ہے۔وہ یوم العدل اعظم ہے۔ تمام ملکوں کی ملی محافل اس عالمی ادارے بیت العدل اعظم کا انتخاب کرتی ہے ۔اس کے ممبروں کی تعداد بھی 9 ہوتی ہے۔ تمام دنیا کی ملی محافل اس ادارے کے ماتحت کام کرتی ہیں ۔اس ادارے کا انتخاب پانچ سال بعد ہوتا ہے جبکہ محفل روحانی محلی اور محفل روحانی ملی کا انتخاب ہر سال ۲۱ اپریل تا ۲ مئی ہوتا ہے۔ بہائی لوگ بیت العدل اعظم کو غلطی سے محفوظ کیاگیا ادارہ مانتے ہیں اور اس کا ہر حکم واجب الاطاعت سمجھتے ہیں ۔ یہ ادارہ ایسے قوانین تمام دنیا کے بہائیوں کے لئے بنا سکتا ہے جو ان کی الہامی کتاب میں موجود نہ ہوں ۔البتہ نازل شدہ قوانین میں رد و بدل نہیں کر سکتا [6]۔

اظہار رائے

اظہار رائے، دینی تعلیمات اور نظریات کی تشریح اور غیر مذکور امور کی قانون سازی اب بیت العدل اعظم کے سپرد ہے۔ بہائی نظم اداری میں اظہار رائے کے لئے کسی پروپیگنڈے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اراء اور تجاویز طلب کی جاتی ہیں۔ اگر کوئی فرد ( بہائی ) ضروری سمجھے تو اپنی رائے کسی وقت محفل محلی، محفل ملی یا بیت العدل اعظم کی خدمت میں براہ راست بھی ارسال کر سکتا ہے۔

تعلیم تربیت

نشر و اشاعت اور پیش رفت امر اللہ کے لئے کئی اور مفید اور فعال ادارے بھی ہیں۔ مثلاً بین الاقوامی تبلیغی مرکز ،براعظمی مجلس مشاورین، مجلس معاونین اور ان کے مساعدین۔ بہائی افراد کی تحریروں کی اشاعت محفل روحانی ملتی کی نگرانی میں ہوتی ہے ۔ کسی فرد ( بہائی ) کو اپنے طور پر بہائی لٹریچر کی اشاعت کی اجازت نہیں ۔اگر کسی فرد بہائی کو کسی کتاب یا رسالہ کی اشاعت کے بارے میں محفل روحانی ملی کے فیصلہ سے اختلاف ہو تو وہ یہ معاملہ بیت العدل اعظم کے سامنے پیش کر سکتا ہے جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔

انیس روزہ ضیافت

محفل روحانی محلی کے تحت ہر انیسویں (۱۹) روز دعوت ہوتی ہے جس میں متعلقہ گاؤں یا شہر کے تمام بہائی جمع ہوتے ہیں اور باہم دعا و مناجات ، ملاقات و مشورت کرتے ہیں اور اپنی تجاویز محفل محلی کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

انفرادی احکام

(1) اللہ کی عبادت ہر دین کا حکم ہے۔

(۲) بہائی دین میں نماز پڑھنے کا حکم صبح، دوپہر، شام ہے۔

(۳) سال میں ایک ماہ یعنی ۱۹ دن کے روزے فرض ہیں۔

(۴) زکوۃ اور حج کا حکم ہے۔

(۵) صبح شام کلام پڑھنا فرض ہے چاہے چار آنتیں ہی پڑھیں۔

(۶) نماز کے لئے باوضو ہونا ضروری ہے۔

آخرت پر ایمان

بہائی عقیدہ یہ ہے کہ ہر انسان مرتے ہی بہشت یا دوزخ میں پہنچ جاتا ہے۔ فرشتے اُس انسان کو اس کے عمل کے حساب سے جنت اور روزخ میں بھجتے ہیں۔ باب کی تعلیم یہ ہے کہ قیامت سے مراد آفتاب حقیقت کا تازہ ظہور ہے ۔قیامت کا دن نئے ظہور کا دن ہے۔ بہشت سے مراد خدا کو جیسا کہ وہ اپنے ظہور کے ذریعہ ظاہر ہو پہچاننا اور دوزخ سے مراد خدا کے عرفان سے محروم رہنا اور خدائی کمالات کو حاصل نہ کر نا اور فضل ابدی کو کھو بیٹھنا ہے۔

بہاء اللہ فرماتے ہیں کہ وقت کے لحاظ سے کائنات کا کوئی آغاز نہیں۔ بہاء اللہ سائنس دانوں کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس دنیا کی آفرینش کی تاریخ صرف چھ دن کی نہیں بلکہ لاکھوں اور کروڑوں برس کی ہے۔ نظریہ ارتقاء قوت تخلیق کا انکار نہیں کرتا۔ خالق کی مخلوق ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گی۔ مختلف نظام بنیں گے اور بگڑیں گے۔ مگر کائنات موجود رہے گی۔ تمام اشیاء جو ایک وقت مرکب ہوتی ہیں کسی وقت تحلیل یا تجزیہ پذیر بھی ہو جاتی ہیں۔ مگر ان کے اجزاء ترکیب قائم رہتے ہیں۔ عبد البہاء کہتے ہیں عالم وجود کی کوئی ابتدا نہیں واضح ہو کہ رب کا بے مربوب تصور میں آنا ناممکن ہے۔ جب کائنات بالکل وجود نہ رکھتی تھی تو یہ خیال خدا کی الوہیت کا انکار ہے۔ پس چونکہ ذات احدیت یعنی وجود الہٰی از لی اورسرمدی ہے یعنی اس کا اول و آخر نہیں ہے تو اس میں بھی شک نہیں کہ عالم وجود یعنی اس نامتناہی کائنات کی بھی نہ تو ابتدا تھی اور نہ انتہا ہے۔ آدم اور حوا کے متعلق عبد البہاء کہتے ہیں حکایت آدم و حوا اور درخت کا پھل کھانا اور بہشت سے نکالے جانا سب رموز ہیں ۔اس میں خدائی اسرار اور معانی مضمر ہیں اور اس کی تاویل عجیب و غریب ہے۔

بہاء اللہ اور عبد الیہا، بہشت اور دوزخ کے بارے میں کہتے ہیں آسمانی کتابوں میں دیئے ہوئے بیانات مثلاً بائیل میں پیدائش کا بیان لفظی نہیں بلکہ تمثیلی اور معنوی بیانات سمجھتے ہیں۔ آپ کی تعلیمات کے مطابق بہشت حالت کمال اور دوزخ حالت نقص ہے۔ بہشت مشیت الہی اور دوزخ ناموافقت ہے۔ بہشت روحانی زندگی کا نام ہے اور دوزخ روحانی موت ہے۔ جسم میں رہتے ہوئے بھی انسان بهشت یا دوزخ میں رہ سکتا ہے۔ بہشت کی خوشیاں روحانی خوشیاں ہیں اور دوزخ کا عذاب ان خوشیوں سے محروم رہنا ہے۔ کہتے ہیں بہشت اور دوزخ کہاں ہے؟ کہہ دے اے شک کرنے والے مشرک! بہشت میرا دیدار ہے اور دوزخ تیرا نفس۔

توحید

بہائی ایک خدا کو مانتے ہیں۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ تمام مخلوقات کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اللہ ہی نے کائنات کو پیدا کیاہے۔ بہائی انسانی شخصیت کی پوجا نہیں کرتے بلکہ اس بہاء یا جلال الہی کی پرستش کرتے ہیں۔ وہ بہاء اللہ کو خدا کا معلم اعظم سمجھتے ہیں۔ بہائی تحریروں میں کئی ایسی عبارات ہیں جو مظہر ظہور کی کیفیت اور اس کے خدا سے تعلق کی وضاحت کرتی ہیں۔ خدا حکم فرماتا ہے کہ " ہر زمانے اور ہر دور میں ایک خالص اور عیب سے پاک روح کو زمین و آسمان کی ملکوت میں ظاہر کیا جائے ۔یہ پر اسرار اور لطیف ہستی، یعنی مظہر ظہور انسانی فطرت بھی رکھتا ہے جس کا تعلق عالم خلق سے ہے اور روحانی فطرت بھی رکھتا ہے جو خود ذات الہی سے خلقت پاتی ہے ۔ اسے دوہرا مقام عطا کیا جاتا ہے۔ پہلا مقام جس کا تعلق اس کی انتہائی باطنی حقیقت سے ہوتا ہے۔ اس کی آواز خود خدا کی آواز ہوتی ہے۔ دوسرا مقام انسانی مقام ہوتا ہے۔ میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں کہہ دے تعریف ہو اللہ کی کیا میں ایک بشر سے زیادہ ہوں ؟ ایک رسول ہوں۔ بہاء اللہ کہتے ہیں کہ حکومت روحانی میں تمام مظاہر الہیہ کے درمیان ایک خالص وحدت ہوتی ہے۔ وہ سب خدا اور اس کے جمال کو ظاہر کرتے ہیں ۔ائے میرے خدا جب میں اس تعلق کے بارے میں تحریر کرتا ہوں جو مجھے تجھ سے جوڑتا ہے تو میں تمام مخلوق کے سامنے یہ اعلان کرنے پر مائل ہو جاتا ہوں کہ بتحقیق میں میں اللہ ہوں اور جب میں اپنے آپ پر غور کرتا ہوں تو میں اپنے آپ کو مٹی سے بھی کم تر پاتا ہوں [7] ۔

پیغمبروں کے بارے میں

خدا کی پہچان اللہ کے پیغمبروں ہی کے ذریعے سے ہو سکتی ہے۔ اس لئے پیغمبروں کو ماننا اور ان کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس لئے بہائی آج تک تمام آنے والے پیغمبروں کو اور ان کے دینوں کو سچا جانتے ہیں اور خدا کی طرف سے آئے ہوئے مشیر مانتے ہیں ۔

عورتوں کے بارے میں

دین بہا‏ئی دین عورتیں اور مرد برابر ہیں۔ بہائی دین کا نچوڑ ہر قسم کے جھگڑوں کو ختم کرناہے ۔ کسی قسم کا تعصب نہیں کرنا چاہئے نہ زبان نہ مذاہب نہ اور کسی قسم کے جھگڑوں میں پڑنا چاہئے ۔ اللہ کی نظر میں سب انسان برابر ہیں سب کے ساتھ برابر کا سلوک کرنا چاہئے۔

شادی

عورت مرد دونوں شادی سے پہلے پاکدامنی کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور شادی کے بعد عورت اپنے خاوند کے ساتھ مکمل وفاداری کرتی ہے۔ بہائی فرقہ میں نکاح کی رسم بہت سادہ ہی ہوتی ہے۔ کونسل کے دو گواہوں کے سامنے نکاح کے موقع پر بہائی فرقے کی کتاب اقدس میں سے آیات تلاوت کی جاتی ہیں۔ اس طرح وہ کونسل نکاح کی تصدیق کرتی ہے بہائی فرقہ میں طلاق کی بڑی سختی سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ بہائی فرقہ میں ایک سے زیادہ بیویوں کی ممانعت ہے۔

نشہ

بہائی فرقہ علاج کے مقصد کے لیے نشہ آور مشروبات اور ادویات کے استعمال کی اجازت دیتا ہے، لیکن دیگر مقاصد کے لیے ان کے استعمال سے منع کرتا ہے۔

دینی پیشوا

بہائی فرقہ میں کوئی دینی پیشوا ( ملا یا مولوی وغیرہ) نہیں ہوتا۔ پیشہ ور ملائیت کو حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ تبلیغ ہر بہائی پر فرض کی گئی ہے۔

سلام ،دعا

بہائی فرقے کے لوگ جب بھی آپس میں ملتے ہیں تو السلام علیکم یا Good Morning یا اور کوئی لفظ نہیں بولتے بلکہ جب بھی آپس میں سلام دعا کریں گے تو ایک دوسرے کو کہیں گے" اللہ ابھیٰ"۔ یہ ان کا ایک دوسرے کو سلام کرنے کا طریقہ ہے۔" بسم اللہ الابھیٰ" عربی کلمات ہیں جن کا مطلب ہے اے سب سے روشن نور والے خدا۔ بہائی اپنی تحریروں کو" بسم اللہ الا بھییٰ" جیسے نا موں سے سجاتے ہیں۔ استقبالیہ کلمہ "اللہ ابھیٰ" بہاء اللہ کے شہر اور یانو پل میں جلا وطنی کے زمانہ میں اختیار کیا گیا تھا۔

عبادت گاہ

بہائی فرقے کی ایک عبادت گاہ دہلی میں ۱۲۸ یکٹر میں ہے جس میں رفاہی ادارے بھی کام کرتے ہیں۔ اُس جگہ کا نام بھا پور ہے۔ ویسے تو دنیا میں کافی جگہوں پر ایسی عبادت گاہیں ہیں۔البتہ پاکستان میں کوئی نہیں ہے۔ پاکستان میں جہاں پر بہائی اکٹھے ہوتے ہیں اُس کو بہائی ہال یا بہائی سنٹر کہتے ہیں اور یہی ان کی عبادت گاہ ہوتی ہے۔

کوہ کرمل

کرمل ( انگورستان ) ارض اقدس کا وہ پہاڑ ہے جس پر باب کا روضہ ہے ۔کرمل کو کتاب الہی میں کوم اللہ اور کرم اللہ کہا گیا ہے۔ کوم ٹیلہ کو کہتے ہیں۔ مبارک ہیں وہ جو پہنچتے ہیں اور مبارک ہیں وہ جو قبول کرتے ہیں۔ بہائی عقیدہ کے مطابق ایلیا نبی کی غار سے بہت قریب ہے اور اس مقام سے چند میل کے فاصلے پر بہا ءاللہ کا روضہ ہے۔ کوہ کرمل اسرائیل میں واقع ہے اور داؤد نبی کے مقبرہ کا روایتی مقام اور یروشلیم کے مقدس شہر کی علامت ہے۔ بہائی عقیدہ یہ ہے کہ کوہ کرمل پر جس مسیح موعود نے آخری زمانہ میں آنا تھا وہ آگئے ہیں۔

عکا

ملک شام میں ایک بستی ہے جو دو پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ اُسے عکا کہا جاتا ہے۔ عکا کو خُدا نے اپنی خاص رحمت سے مخصوص فرمایا ہے۔ عکا عسقلان سے بھی افضل ہے۔ جو کوئی عکا میں کہتا ہے "استغفر اللہ" خدا اُس کے سب گناہ بخش دیتا ہے۔ جو کوئی عکا میں اذان دے تو جتنی دور تک اُس کی آواز پہنچتی ہے اُتنی ہی جگہ اُسے جنت میں ملے گی ۔ جو عکا کی زیارت سے رغبت رکھتا اور اُس میں داخل ہوتا ہے خُدا اُس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ جو اُس کی زیارت کی خواہش نہ رکھتے ہوئے نکلتا ہے خُدا اُسے برکت نہیں دیتا ۔ جو کوئی عکا میں صبح و شام، رات دن خُدا کا ذکر کرتا ہے تو یہ خدا کے نزدیک اس بات سے افضل ہے کہ راہ خدا کے جہاد میں تلواریں اور نیزے اور ہتھیار اُٹھائے۔ عکا قدیم تاریخی شہر ہے جہاں پر بہاء اللہ کو جلا وطن کیا گیا تھا۔ عکا حکومت عثمانی کا کالا پانی تھا اور بدترین مجرم وہاں قید کئے جانے کے لئے بھیجے جاتے تھے۔ بہاء اللہ اور اُن کے ساتھ مرد عورتیں اور بچے مل کر ۸۰ یا ۸۴ تھے ۔وہاں انہیں بہاء اللہ کے ساتھ فوجی بارکوں میں بند کر دیا گیا۔

عين البقر

عین البقر عکا میں ایک چشمہ ہے۔ جو اس میں سے ایک گھونٹ پیتا ہے خدا اُس کے دل کو نور سے بھر دیتا ہے اور قیامت کے دن بڑے عذاب سے اسے امن میں رکھے گا۔ مبارک وہ جس نے عین البقر کا پانی پیا اور اُس پانی سے نہایا کیونکہ جنت کی حوریں عین البقر ، عین سلوان اور چاہ زمزم سے پیتی ہیں۔ بشارت ہو اس کے لئے جو ان چشموں کا پانی پیتا ہے اور اس میں نہاتا ہے ۔خدانے قیامت کے دن اُس پر اور اس کے بدن پر دوزخ کی آگ کو حرام ٹھہرایا ہے۔

عکا کے فقراء

حضور نے فرمایا جنت میں بہت سے بادشاہ اور سردار ہو ں گے اور عکا کے فقرا جنت کے بادشاہ اور سردار ہیں۔ یقینا عکا میں ایک مہینہ رہنا دوسرے مقاموں پر ایک ہزار سال رہنے سے بہتر ہے۔مزید حضور نے فرمایا مبارک ہیں وہ جو عکا کی زیارت سے مشرف ہوا اور مبارک ہے وہ جس نے عکا کے زیارت کرنے والے کو دیکھا۔ حضور نے فرمایا کہ سواحل میں پایہ عرش سے متعلق ایک بستی ہے جسے عکا کہا جاتا ہے۔ جو شخص وہاں خدمت حق میں کمر بستہ محض خدا کے لئے ایک رات گزارے اللہ تعالیٰ اُس کے لئے قیامت تک صابرین، قائمین ، راکعین ، ساجدین کا ثواب لکھ دیتا ہے [8]۔

نماز

بہائی دن میں تین دفعہ نماز پڑھتے ہیں۔ باجماعت نماز نہیں پڑھتے اکیلے اکیلے پڑھتے ہیں۔ البتہ نماز جنازہ باجماعت پڑھنے کا حکم نازل ہوا ہے ۔ اسلامی فرقوں کی طرح وضو وغیرہ نہیں کرتے، اپنا رخ کعبہ کی طرف نہیں کرتے بلکہ ان کا قبلہ کوہ کرمل ہے اُس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ اپنے مردے کی قبر پکی بناتے ہیں۔ خدا کے حضور ہم نے تم پر ۹ رکعات نماز فرض کی ہیں کتاب اللہ کے حکم کے مطابق زیادہ تعداد معاف کر دی گئی ہے اور جب تم نماز ادا کرنے کا ارادہ کرو تو اپنا رخ میری بارگاہ اقدس کی طرف کر لو ۔ یہ وہی مقام اقدس ہے جس کو اللہ نے اعلیٰ مقام طواف ساکنان شہر بقا کی قبلہ گاہ قرار دیا ہے۔

بہائی فرقے کی کتاب اقدس

بہائی فرقے کی کتاب اقدس عکا میں بہاء اللہ پر ۱۸۷۳ ء میں نازل ہوئی۔ بہائی اسے ام الکتاب کہتے ہیں ۔ یہ کتاب ایسے وقت میں نازل ہوئی جب کہ آپ دشمنوں اور دوستوں کے اعمال کے سبب مصائب میں گھرے ہوئے تھے۔ اور اس میں حدودو احکام کا محزن، سچی خوشی کا سر چشمہ، قسطاس اعظم اور صراط مستقیم ہے۔بہائی اسے نوع بشر کو زندگی عطا کرنے والی کتاب اور تمام دنیا کی آسمانی اور مقدس کتابوں میں بے مثل و بے نظیر سمجھتے ہیں۔ اس کتاب اقدس میں دینی قوانین اور مسائل کا بیان ہے۔اس میں ایسے قوانین بھی ہیں جو صرف بہائیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ قوانین اجتماعی زندگی کے ضامن ہیں اور کچھ قوانین بہائی نظام قائم ہونے کے بعد عمل میں آتے ہیں۔

اس کتاب اقدس میں ادائے نماز کا حکم دیتے ہیں ،اذان کا وقت اور ایام متعین کرتے ہیں، نماز جنازہ کے سوا باقی با جماعت نماز کی ممانعت فرماتے ہیں، قبلہ مقرر کرتے ہیں ، حقوق اللہ متعین کرتے ہیں ،وراثت کے احکام کی تفصیل بیان کرتے ہیں، مذہبی پیشوائیت کو منسوخ کرتے ہیں ،ہاتھ چومنے کی ممانعت فرماتے ہیں، ایک وقت میں ایک شادی کی اجازت فرماتے ہیں، طلاق کی مذمت کرتے ہیں [9]۔

بہائی کیلنڈر

بہائی فرقے کا اپنا کیلنڈر ہے جو بہائی شمسی کیلنڈر کے نام سے مشہور ہے ۔ کیلنڈر 21 مارچ سے شروع ہوتا ہے اور بہائی فرقہ کا نیا جہان اس دن سے شروع ہو جاتا ہے۔ سال انیس دنوں کے 19 مہینوں میں تقسیم ہوتا ہے۔

بہائی مہینوں کے نام

(۱) بہاء ۲۱ مارچ (۲) جلال 9 اپریل (۳) جمال ۱۲۸ اپریل (۲) عظمت ۷ مئی (۵) نور ۵ جون (۶) رحمت ۲۴ جون (۷) کلمات ۱۳ جولائی (۸) کمال یکم اگست (۹) اسماء ۲۰ اگست (۱۰) عزت ۸ ستمبر (۱۱) مشیت ۲۷ ستمبر (۱۲) علم ۱۶ اکتوبر (۱۳) قدرت 4 نومبر (۱۴) قول ۲۳ نومبر (۱۵) مسائل ۱۲ دسمبر (۱۹) شرف ۳۱ دسمبر (۱۷) سلطان ۱۹ جنوری (۱۸) ملک 7 فروری اور (۱۹) علاء ۲ مارچ سے شروع ہوتا ہے

نوٹ : لوند کے دن ۲۶ فروری سے یکم مارچ تک ہیں۔ان دنوں میں بہائی فرقے کے لوگ دعوتیں وغیرہ کرتے ہیں، ایک دوسرے کو تحفے تحائف بھی دیتے ہیں۔ بہائی کیلنڈر کے مطابق سال کا آخری مہینہ روزوں کا مہینہ ہوتا ہے اور ۲ مارچ سے ۲۰ مارچ تک روزے ہوتے ہیں۔

عید نوروز

بہائی فرقے کا نیا سال ۲۱ مارچ سے شروع ہوتا ہے جس کو عید نوروز بھی کہتے ہیں

عید رضوان

رضوان ایک باغ کا نام ہے جو بغداد کے پھاٹک کے باہر ہے۔ پہلے یہ باغ نجیب پاشا کا باغ کہلاتا تھا۔ بعد میں بہائیوں میں وہ باغ رضوان کے نام سے مشہور ہوا۔ بہاء اللہ نے اس باغ میں خوشخبری سنائی تھی کہ وہ تمام انبیاء کے موعود ہے۔بہائی حضرات ۲۱ اپریل سے ۲ مئی تک ایک عید مناتے ہیں جس کا نام عید رضوان ہے۔ اس دن انتخابات بھی ہوتے ہیں جس سے ایک کونسل تشکیل دی جاتی ہے اس کو نسل کو محفل روحانی محلی کہتے ہیں [10]۔

بہائیوں کے خاص تہوار

  1. نوروز (۲۱ مارچ نئے سال کا پہلا دن )
  2. ۲۱ اپریل سے ۲ مئی تک عید رضوان
  3. ۲۹ اپریل عید رضوان کا نواں دن
  4. ۲۳ مئی اعلان حضرت باب یوم بعثت ( یوم موعود )
  5. ۲۹ مئی حضرت بہاء اللہ کا یوم صعود ( وصال )
  6. ۹ جولائی حضرت باب کا یوم شہادت
  7. ۲۰ اکتو بر حضرت باب کا یوم ولادت
  8. ۱۲ نومبر حضرت بہاء اللہ کا یوم پیدائش
  9. ( ۲۶ نومبر حضرت عبد الباء یوم میثاق
  10. ۲۸ نومبر حضرت عبد البہاء کا یوم صعود ۔

مشرق الاذکار

بہائی فرقہ کی عبادت گاہ کو مشرق الاذکار کہتے ہیں۔ دنیا بھر میں بہت سے مشرق الاذکار ہیں۔ پاکستان میں کوئی مشرق الاذکار نہیں۔ ان عبادت گاہوں میں بہائی فرقے کے لوگ اپنی مقدس کتاب "اقدس" کی تلاوت کرتے ہیں اور عبادت گاہوں میں ساز گانا وغیرہ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان میں ایک دینی پیشوا ہوتا ہے۔ ان مشارق الاذکار میں رفاہی کاموں کے لئے کئی ادارے کام کرتے ہیں مثلا یتیم خانہ، اسپتال اور اسکول وغیرہ۔

بہائی فرقہ کی نمازیں

=== ا۔ صلوة کبیر: === بڑی نماز ۲۴۰ گھنٹوں میں صرف ایک بار خضوع کی حالت میں پڑھنا فرض ہے۔ (خضوع کا مطلب: اس روحانی حالت کو حاصل کرنا جس میں خداسےبات چیت کر سکتے ہیں ) اور جو بڑی نماز پڑھتا ہے اُسے درمیانی اور چھوٹی نماز معاف ہے۔ === 2۔ صلوۃ وسطی: == درمیانی نماز، دن میں تین وقت یعنی صبح، دوپہر ، شام کو ادا کی بجاتی ہے جو کوئی یہ نماز پڑھنا چا ہے سب سے پہلے اپنے ہاتھ اور منہ دھوئے۔ === 3۔ صلوۃ صغیر: === چھوٹی نماز، دن میں ایک بار زوال کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ یہ نماز کھڑے ہو کر ادا کی جاتی ہے۔

دیگر احکام

کتاب اقدس میں نماز کا حکم، روزوں کا وقت اور ایام متعین کئے گئے ہیں۔ نماز جنازہ کے سوا باقی باجماعت نماز کی ممانعت کی گئی ہے۔ کوہ کرمل کو قبلہ مقرر کیا گیا ہے۔ مشرق الاذکار کا حکم دیا گیا ہے۔ انیس روزہ ضیافت بہائی ایام اور تہوار منانے کی اجازت دی گئی ہے۔ ہاتھ چومنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ ایک وقت میں صرف ایک شادی کی اجازت ہے۔طلاق کونا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔نشہ کو قطعی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ موسیقی اور نغمات کا سننا جائز قرار دیا ہے۔ کتاب اقدس میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ اپنے ناخنوں کو تراشو۔ کتاب اقدس میں ایک سال میں مہینوں کی تعد ادا نیس مقرر کی گئی ہے ۔ کتاب اقدس میں بھیک مانگنا حرام ہے اور جو بھیک مانگے اس کو دینا ممنوع ہے۔ گرمیوں میں ہر روز ایک مرتبہ اور سردیوں میں ہر تیسرے روز ایک مرتبہ اپنے پاؤں دھویا کرو۔ مذہبی پیشوائیت منسوخ ہے۔ جو شخص کتاب اقدس کی تلاوت کرنا چاہے وہ کرسی پر بیٹھے۔ منبروں کے استعمال پر پابندی ہے۔ اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ تم کرسیوں اور اعلیٰ نشستوں پر بیٹھو۔ کتاب اقدس میں سرمنڈوانا ممنوع ہے لیکن سورہ حج میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ نماز تنہا تنہا (اکیلے اکیلے ) پڑھنی چاہئےبا جماعت نماز کا حکم منسوخ کر دیا گیا ہے صرف نماز جنازہ با جماعت پڑھی جاتی ہے۔ سولہویں سال میں داخل ہونے پر ہر بالغ لڑکے اور لڑکی پر نماز پڑھنا فرض ہے ۔ زنا و چوری ، آتش زنی کی سزا متعین ہے ۔ ہر شخص پر وصیت تحریر کرنا فرض ہے۔ جانوروں پر ظلم سستی کاہلی،غیبت اور بہتان تراشی کی ممانعت ہے [11]۔

نماز جنازہ

نماز جنازہ دفن کرنے سے قبل ادا کی جاتی ہے۔ صرف یہ واحد نماز ہے جسے بہائی لوگ با جماعت ادا کرتے ہیں ۔ اس میں صرف ایک مومن تلاوت کرتا ہے جب کہ باقی لوگ خاموشی سے کھڑے رہتے ہیں۔ نماز جنازہ ادا کرتے وقت قبلہ کی طرف رخ ہونا فرض ہے۔ نماز جنازہ پڑھانے والے کی کوئی امتیازی حیثیت نہیں ہوتی۔

وضو

وضو کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے دونوں ہاتھ دھوئے جائے۔ پھر منہ دھویا جائے۔ نماز سے پہلے وضو ہر حالت میں کرنا چاہیے ۔ ہر نماز کے لئے نیا وضو کرنا ضروری ہے ۔جس شخص کو وضو کے لئے پانی دستیاب نہ ہو وہ پانچ مرتبہ کلمات اللہ کے نام جو سب سے زیادہ پاک ہے دوہرائے اور پھر عبادت کرے۔

قبلہ

نماز پڑھتے وقت منہ قبلہ کی طرف ہونا چاہئے بہاء اللہ نے اپنی ابدی آرام گاہ کو قبلہ قرار دیا ہے۔ نماز ادا کرتے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنا واجب ہے۔قبلہ وہ مقدس مقام ہے جو خدا کے حکم سے ملاہے۔ طواف گاہ اور دیار بقا کے رہنے والوں کے لئے سمت توجہ ہے ۔جہاں سے اہل عالم کے لیئے امر الٰہی کا صدور ہوا۔ جو بمقام عکا ارض مقدس میں واقع ہے۔ یہی آستان مقدس کبریا وعتبہ مقدسہ اور صریح حکم الہی کے مطابق قبلہ توجہ ہے۔ بہائی فرقہ کا قبلہ کوہ کرمل کی طرف ہے کعبہ کی طرف نہیں [12]۔

روزہ

روزہ کا وقت سورج نکلنے سے سورج غروب ہونے تک ہے۔

(1) پندرہ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد روزہ تمام مومنین پر فرض ہے حتی کہ وہ ستر سال کی عمر کو پہنچ جائیں۔

(2) بیمار، حاملہ یا دودھ پلانے والی عورتیں ،مسافر اور جسمانی مشقت کرنے والے لوگوں کو روز و معاف ہے۔

(3) روزوں کا عرصہ ۱۹ دن کا ہے ۳۰ روزے نہیں ہوتے ہیں یہ روزے ۲ مارچ سے ۲۰ مارچ تک ہوتے ہیں۔ ان روزوں کے فوراً بعد عید نوروز ہوتی ہے۔

نوٹ: ایران میں بہائیوں نے ختم نبوت کے مروجہ عقیدے کو صریح جھٹلایا۔ اُن کا کہنا ہے کہ مہدی اور مسیح موعود کی آمد کی بشارت خود خاتم الانبیاءنے دی ہے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ ایک الگ مذہبی جماعت ہیں۔ مسلمانوں میں شامل نہیں ہیں۔ ہمارا دین علیحدہ دین ہے۔ صحیح معنوں میں بہائی جماعت اسلام کا فرقہ نہیں ہے۔ لیکن ان کی مرکزی تعلیم کا تعلق شیعوں کے مسئلہ امامت ( امام مہدی اور مسیح موعود) سے ہے۔ یہائی کہتے ہیں ہمارا ایمان ہے کہ اسلام بحیثیت دین کے خدا کی طرف سے ظاہر ہوا ہے [13]۔

حوالہ جات

  1. سید محمد وارث ہمدانیدوستو مستقبل ہمارا ہے، بہائی پبلشنگ ٹرسٹ، پاکستان کراچی
  2. صلوۃ محفن روحانی ملی بائیاں پاکستان بہائی ہال کراچی نمبر ہ
  3. سوانح حضرت بیا اللہ ترجمہ ارتضی حسین ملتی بیائیاں پاکستان بھائی بال کراچی نمبر5
  4. دین بہائی، تالیف سیدمحمد علی شاہ بلتی بہائیاں پاکستان بہائی ہال کراچی نمبر ۵
  5. مولانا قمر احمد عثمانی، ہماری مذہبی جماعتوں کا فکری جائز، ادارہ نظر اسلامی، گارڈن ایسٹ کراچی نمبر3
  6. بہاء اللہ و عصر جدید، ترجمه عباس علی بٹ بہائی پیشنگ ٹرسٹ کے ۱۷ ای سیٹلایٹ ٹا ؤن راولپنڈی،
  7. لوح این ذئب محفل روحانی بلی بی آئیاں پاکستان بہائی ہال کراچی نمبر5
  8. بہائی جامعہ ترجمہ شمشیر علی، بہائی پبلشنگ ٹرسٹ پاکستان کراچی
  9. ڈاکٹر صابر آفاقی، بشارت ظہور، کول پلیکیشنر پوسٹ نمبر ۳۹۹ حیدر آباد
  10. محمد ریاض شاہد، پیار وی هدایت ریجنل ٹیچنگ اینڈ ایڈ منسٹر ینہ کھیتی پنجاب
  11. سید محمد وارث ہمدانی، آفتاب تازہ ،ریجنل ٹیچنگ اینڈ ایڈ منسٹر یو کیتی
  12. نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسائیلوپیڈيا، 2009ء، ص507
  13. کتاب اقدس، مترجم سید محمد وارث ہمدانی، بہائی پیشنگ ٹرسٹ پاکستان کراچی