سلفیہ
سلفیہ | |
---|---|
![]() | |
نظریہ | آیات اور روایات کے ظاہر پر عمل کرنا |
سلفیہ کا دعویٰ ہے کہ ہمیں اپنے سلف و اجداد کے دور میں واپس آنا چاہیے اور اسلام کو مذہب سے ہٹ کر قبول کرنا چاہیے۔ وہ اپنے سوا باقی تمام امت اسلامیہ کو دین سے خارج تصور کرتے اور ان کی تکفیر کے قائل ہیں اور وہ اس طرح دوسرے مسلمانوں کو اسلامی معاشرے سے نکال کر کفار کے حصار میں لے جاتے ہیں۔
لغوی معنی
سلف کا لغوی معنی ہوتا ہے "جو گزر چکا ہے" ، اور سلفیہ کا مطلب ہوتا ہے سلفی مکتب فکر کے ماننے والے ، یہ امت محمدیہ کا ایک خاص گروہ ہے جو اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کو اس کی اصل اور بنیاد سے لیاجائے اور جو دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کے لئے چھوڑا ہے اس کو حقیقی شکل میں پیش کرکے عوام کو اس سے جوڑا جائے۔ سلفیت کے ماننے والے اسلام کے بنیادی اصول قرآن وحدیث سے اُس طریقہ پر اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جس طریقہ اور منہج پر ان کے سلف یعنی صحابہ کرام اور ان کے بعد قرون اولی کے علمائ، محدثین اور فقہاء عظام نے امت کے سامنے اسلام کو پیش کیا ہے، یہ معلومات اور مواد بہت سی کتابوں میں پھیلا ہوا ہے، اور ان کے لکھنے والے مختلف براعظم اور سلطنتوں میں پھیلے ہوئے تھے، جو اسلام کی وسعت اور پھیلاؤ کے ساتھ دنیا کے مختلف حصوں میں بس چکے تھے۔ سلفیت کے ماننے والے اجتہاد کے قائل ہیں ، اور کسی خاص امام اور عالم کی تقلید کو اسلام کی روح اور اس کی تعلیمات کے منافی مانتے ہیں۔
اس لئے اس گروہ کو فرقہ کہنا غلط ہے، فرقہ کسی سے نسبت کی بنیاد پر موسوم ہوتا ہے، جیسے حنفی: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ماننے والے ، شافعی: امام شافعی رحمہ اللہ کے ماننے والے، مالکی: امام مالک رحمہ اللہ کے ماننے والے، حنبلی: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ماننے والے۔
سلفیت کا اصلاحی معنی
سلف کا لفظ تاریخی طور پر ان تین طبقات : صحابہ کرام ، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمہم اللّٰہ کے لئے بولا جاتا ہے جن کے بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بطور ِخاص ’اُمّت میں سے بہترین ‘ہونے کی خوش خبری دی ہے۔ سیدنا عمران بن حصین سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: «خَيْرُكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ» - قَالَ عِمْرَانُ: لاَ أَدْرِي أَذَكَرَ النَّبِيُّ بَعْدُ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلاَثَةً - قَالَ النَّبِيُّ :
"إِنَّ بَعْدَكُمْ قَوْمًا يَخُونُونَ وَلاَ يُؤْتَمَنُونَ، وَيَشْهَدُونَ وَلاَ يُسْتَشْهَدُونَ وَيَنْذِرُونَ وَلاَ يَفُونَ، وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السِّمَّنُ" [1]۔ تم میں سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ( صحابہ ) ہیں ۔ پھر وہ لوگ جو اُن کے بعد آئیں گے (تابعین) ،پھر وہ لوگ جو اس کے بھی بعد آئیں گے ( تبع تابعین )"۔ عمران نے بیان کیا کہ میں نہیں جانتا،حضورﷺنے دو زمانوں کا ( اپنے بعد ) ذکر فرمایا یا تین کا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ "تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو خائن ہوں گے، جن میں دیانت کا نام نہ ہوگا ۔ ان سے گواہی دینے کے لیے نہیں کہا جائے گا ، لیکن وہ گواہیاں دیتے پھریں گے ۔ نذریں مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے۔ موٹاپا اُن میں عام ہوگا ۔"
انتہا پسندی کے انسداد میں سلفی عقائد کا کردار
سوویت یونین کے زوال اور امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کے بعد اقوامِ عالم کے مابین ٹکراؤ کی نوعیت تبدیل ہوگئی ہے۔ گذشتہ صدی کا بیشتر حصہ مغربی اقوام کے مابین اختلافات اور جنگوں کی نذر ہوا:جنگِ عظیم اوّل، دوم اور پھر سرد جنگ۔ جبکہ 1990ء کے بعد سے اسلام ومسلمان اور مغرب کے مابین براہِ راست مسلح کشمکش جاری ہے۔ جنگِ خلیج،عراق کی پہلی،دوسری جنگ اور افغانستان میں یہی صورتحال ایک عشرے سے زیادہ عرصہ تک رہی۔
سلفی منہج ان عقائد کواختیار کرنے کا نام ہے جس پر فرقوں اور اَحزاب سے علیحدہ رہتے ہوئے اس اُمت کے نمایاں اسلافِ کرام کاربند رہے ،چاہے وہ اللّٰہ تعالیٰ، انسان اورکائنات وزندگی کے بارے میں اساسی عقائد ہوں، یا فہم اسلام کے حوالے سے فکری مباحث ہوں یا ایسے اسلامی اوصاف ہوں جن سے متصف ہوتے ہوئے ان ائمہ کرام نے اُنہیں اختیار کیا۔ چنانچہ سلفی دعوت کی تعریف یوں ہے: "الدعوة إلى الكتاب والسنة وما كان عليه السلف الصالح من الصحابة الكرام رضوان الله عليهم والتابعين لهم بإحسان وأتباعهم وأئمة الدين ممن شُهِد لهم بالإمامة في الدين، وتلقى الناس كلامهم خلفًا عن سلف."
’’کتاب وسنّت اور اس منہج کی دعوت دینا جس پر صحابہ وتابعین ،تبع تابعین اور ایسے ائمہ دین کاربند رہے جن کی امامت وقیادت دین میں مسلّمہ ہے، اور مسلمانوں نے اپنا دین اُن سے حاصل کیا ہے۔ ‘‘ الغرض سلف سے اصلاً مراد تو صحابہ وتابعین ہیں اور پھر وہ ائمہ اسلاف جو اُن کے نقش قدم پر چلے: جیسے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام سفیان ثوری، امام ابن عیینہ،حماد بن سلمہ، حماد بن زید، امام بخاری، امام مسلم، اور سنن اربعہ کے مؤلف محدثین، اور وہ جلیل القدر ائمہ جن کے علم وفضل اور زہد وورع کی بنا پر اُنہیں درجہ امامت حاصل ہوا، اور اُمت نے اُن کو قبول عام بخشا۔ پھر جن لوگوں نے ان صحابہ کرام اور ائمہ اسلاف جیسا فکری وعملی رویہ اختیار کیا، وہ سلفی کہلائے ۔ اور انہی کو ’اہل السنہ والجماعۃ‘ اور’ اہل الحدیث والسنّہ‘ بھی کہا جاتا ہے[2]۔
سلفیہ کون ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں؟
سلفیت ایک ناپسندیدہ اور نسبتاً نیا رجحان ہے جو ایک مخصوص انداز میں اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اپنے علاوہ ہر کسی کو کافر سمجھتا ہے۔ ایک ایسا خود غرض فرقہ جو سلف صالحین سے انتساب کا لبادہ اوڑھ کر بے دین ماحول میں اتحاد کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن دراصل اتحاد و وحدت کے مخالف ہے۔ سلفیہ جو کہ وہابیت کی بنیاد ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ کوئی بھی "مذہب" موجود نہیں ہے اور اسے سلف کے دور میں ہونا چاہیے۔
یعنی صحابہ کرام، تابعین اورتبعِ تابعین کے دور میں ہونا چاہئے اور اسلام کو بلا مذہب کے اختیار کیا جانا چاہئے۔ وہ اس دعوت پر ہاتھ اٹھاتے اور کہتے ہیں: "آئیں تمام مذاہب کو چھوڑ کر اتحاد کی طرف چلتے ہیں"، لیکن یہی افراد دوسرے ہاتھ سے تکفیر کی تلوار کھینچتے ہیں اور دوسروں کو اسلامی معاشرہ سے نکال کر کافروں کے حصار میں ڈال کر ان میں پھوٹ ڈالتے ہیں۔
یہ واضح ہے کہ لوگوں کو ان کے مذاہب کو ترک کرنے کی دعوت دینا ناممکن ہے۔ کیونکہ ہر مذہب کے پیروکار آسانی سے اپنے عقائد سے دستبردار نہیں ہوتے اور کسی ایسے نامعلوم اور تاریک مقام کی طرف نہیں جاتے جس کا سلفیت دعویٰ کرتی ہے۔ خاص کر یہ کہ ان کے بقول اس "غیرمذہبی" کی دعوت کے پیچھے درحقیقت ایک قسم کا مذہب چھپا ہوا ہے، بلکہ یہ دعوت بذات خود مذہب کی ایک قسم ہے۔
جمود اور تنگ نظری کے چنگل میں پھنسا ہوا ایسا مذہب جو اسلام کو ایک ایسے مذہب کے طور پر پیش کرتا ہے جو غیر فعال، بے روح، نامکمل، کمزور اور ناخوشگوار ہے اور تشدد اور تعصب کے جذبے کو زندہ کر کے کسی بھی دوسرے مذہب کے اس کی طرف رجوع کرنے کے راستے کو بند کرتا ہے اور اس کے بجائے تصادم اور شکوک و شبہات کی فضا پیدا کرتا ہے اور سب کو شمشیر کے استعمال کی جانب کھینچتا ہے [3] ۔
تاریخی پس منظر
جب اصحاب حدیث نے دیکھا کہ معتزلہ اعتقادی اور آیات و احادیث کے معاملے میں عقل کو دخل دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ سلف کی سنت کے خلاف ہے تو احمد بن حنبل اور ائمہ سلف کی ایک جماعت نے اس کام سے اجتناب کرنے کیا اور کہا: "ہم صرف اس چیز پر ایمان لائیں گے جو قرآن و سنت میں وارد ہوا ہے لیکن اس میں تأویل کئے بغیر"۔
شہرستانی سلفیت کے ظہور کی تاریخی وجہ کے بارے میں کہتا ہے: "علماء حدیث کے پیش رو نے جب دیکھا کہ معتزلہ کس طرح مسائلِ کلامی کی گہرائی میں چلا گئے ہیں اور عقائد کے مسائل میں عقل کو مداخلت دے کر سنتِ سلف کی مخالفت کرتے ہیں۔ لہذا وہ لوگ متحیر ہوئے کہ آیاتِ متشابہہ اور احادیثِ و اخبارِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کیا کریں؟ تو احمد بن حنبل اور داؤد بن علی اصفہانی اور سلف ائمہ کی ایک جماعت نے فیصلہ کیا کہ اعتقادی مسائل میں اصحاب حدیث جیسے مالک بن انس اور مقاتل بن سلیمان کی سابقہ روش اور طریقہ کے مطابق عمل کریں۔ انہوں نے کہا: "ہم صرف اس چیز پر ایمان لائیں گے جو قرآن و سنت میں وارد ہوا ہے لیکن اس میں تأویل کئے بغیر" [4]۔
شیخ عبدالعزیز عزالدین سیروان بھی کہتے ہیں: "ایسا لگتا ہے کہ احمد بن حنبل کے سلفیت سے تمسک کرنے کا اصلی سبب یہ ہے کہ اس نے اپنے عہد میں فتنہ، خصومت اور کلامی مجادلات کو مشاہدہ کر رکھا تھا اور دوسری طرف اس نے عجیب و غریب افکار اور مختلف تہذیب و تمدن کو دیکھاکہ یہ کس طرح اسلامی علمی میدانوں میں داخل ہوئے ہیں۔ لہذا اس نے (اپنے تئیں) اسلامی عقائد کو بچانے کے لیے شدت پسند سلفیت کی طرف رجوع کیا"[5]۔
سلفیت اور وہابیت میں فرق
کچھ لوگ سلفیت کو وہابیت کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور امام محمد بن عبد الوہاب نجدی سے اس کی نسبت کرتے ہیں جو سراسر غلط فہمی اور تعصب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اگرچہ محمد بن عبد الوہاب بھی تقریبا یہی نظریہ واعتقاد رکھتے تھے جو سلفی کا نظریہ ہے، مگر کوئی سلفی نہ تو محمد بن عبد الوہاب کا مقلد ہے اور نہ ہی ان کو اپنا امام تصور کرتاہے، سلفی کا عقیدہ ہے کہ اسلام وہی صحیح ہے جس کو اللہ کے رسول محمد صحابہ کرام کے بیچ چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے، یہ دین مکمل تھا، اور اس کے ماننے والوں نے اس دین کی برتری کو دنیا کے سامنے ثابت کردیا تھا۔
دنیا کے حالات بگڑے تو اسلام کے ماننے والے بھی بگڑے ، ان کا نظریہ بھی بگڑا اور سوچ و فکر بھی بدلی، حکمرانوں نے اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے علماء کو استعمال کیا، اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا گیا، تقلید کو ضروری قرار دے کر ایک خاص طرح کے دین کی اشاعت ہوئی، نتیجہ کیا ہوا، کوئی حنفی بنا تو کوئی شافعی، کسی نے امام مالک کو اپنا امام مانا تو کسی نے امام احمد بن حنبل کی پیروی کو بہتر سمجھا۔ حالانکہ اسلام ایک تھا مگر اس کے قبلہ اور حرم پاک میں چار مصلے لگائے گئے تاکہ جھگڑا نہ ہو۔
چاروں فرقہ والے الگ الگ طریقہ سے نماز پڑھتے ، ہر کوئی اپنے کوحق اور دوسرے کو غلط بتاتا، کسی انسان کے ذہن میں اس تعلق سے کوئی سوال اٹھتا تو یہ کہہ کر بیٹھا دیا جاتا کہ ہمارے امام صاحب کا یہ فتوی ہے پس اسی کو دیکھئے، اپنے اپنے امام کی برتری دکھانے کے لئے جھوٹے اور من گھڑت فضائل پیش کئے گئے تاکہ کوئی اپنے فرقہ کو نہ چھوڑے۔ سلفی قبر پرستی کو شرک سمجھتے ہیں جو سب سے بڑا گناہ ہے، انسان اللہ کا بندہ اور اس کی مخلوق ہے ، اس کو جو بھی مانگنا ہے اپنے خالق سے مانگے یہی اسلام کی تعلیم ہے، اللہ کے رسول محمد ﷺ نے پکی قبر بنانے سے منع کیا ہے، اور کسی طرح کا عرس اسلام میں نہیں ہے۔ محرم میں ماتم وتعزیہ داری، اللہ کے رسول کی میلاد اور بہت سی رسمیں جو آج مسلمانوں میں رائج ہیں قرون اولی میں نہیں تھیں، یہ اسلامی نہیں ہوسکتیں، اس لئے سلفی ان کو نہیں مانتے۔
سلفی کو اہل حدیث بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ قرآن اور حدیث کو اصل اول مانتے ہیں، اور اسلامی کتابوں میں پہلے بھی ایسے لوگوں کواہل حدیث کے لفظ سے یاد کیا گیاہے۔ سلفی اجتہاد کے قائل ہیں اور روز آمدہ مسائل میں کتاب وسنت کی روشنی میں غور وفکر کرکے فیصلہ کرتے ہیں، ہم تنگ نظری کے قائل نہیں ، مسائل میں وسعت ہے ، ہٹ دھرمی سے بہتر ہے کہ صحیح بات مان لی جائے، یہی نجات کا راستہ ہے۔
ہم تمام ائمہ کی عزت کرتے ہیں اور ان کو امام مانتے ہیں، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام اور انسانیت کی خدمت کی ہے، ان کا مقام بہت بلند ہے، ان کی خدمات عظیم ہیں، مگر علم ومعرفت کسی ایک امام میں محصور نہیں اور نہ کوئی انسان اس کا دعوی کر سکتا ہے، اس لئے حق کی تلاش میں جستجو کرنی چاہئے اور جوحق ثابت ہو اس کو تسلیم کرنا چاہئے ، چاہے وہ کسی امام کے قول کے موافق ہو یا مخالف، حق اللہ اور اس کے رسول کے پاس ہے، یہی ہمارا نظریہ، یہی ہمارا اصول اور یہی ہماری دعوت ہے[6]۔ ہم اصول پڑھاتے ہیں، راستہ بتاتے ہیں، علم سکھاتے ہیں ، ماننا یا نہ ماننا ہر انسان کا اپنا فیصلہ اور اپنا حق ہے۔ہماری دعا ہے اللہ تعالی ہم کو حق سمجھنے اور اس پر کاربند ہونے کی توفیق بخشے ۔
دنیا میں دعوت سلفیہ
ایک اندازہ یہ ہے کہ شاہ فہد کے دور میں 75 ارب ڈالر سے زائد وہابی اسلام کو پھیلانے کی کوششوں میں خرچ کیے گئے اور یہ رقم 200 اسلامی کالجوں ، 210 اسلامی مراکز ، 1500 مساجد اور 2 ہزار اسکولوں کو مسلم اور غیر مسلم اکثریتی ممالک میں مسلم بچوں کے لیے استعمال کی گئی۔ اسکولوں کا نقطہ نظر "بنیاد پرست" تھا اور انھوں نے " سوڈان سے شمالی پاکستان " تک ایک نیٹ ورک بنایا سعودی عرب کے بادشاہ نے مدینہ میں ایک پبلشنگ سنٹر بھی شروع کیا تھا جو 2000 تک دنیا بھر میں قرآن کی 138 ملین کاپیاں ( اسلام کا مرکزی مذہبی متن) تقسیم کر چکا تھا اور لاکھوں قرآن کے ساتھ مفت تقسیم کیے گئے سلفی تشریحات کے بعد نظریاتی متن آئے۔
1980ء کی دہائی میں ، سعودی عرب کے دنیا بھر میں لگ بھگ 70 سفارت خانے مذہبی اتاشی سے لیس تھے جن کا کام ان کے ملکوں میں نئی مساجد بنانا اور موجودہ مساجد کو دعوت سلفیہ کے پرچار کے لیے آمادہ کرنا تھا۔ سعودی حکومت بنیاد پرست اسلام پھیلانے کے لیے متعدد بین الاقوامی تنظیموں کو فنڈز دیتی ہے ، جن میں مسلم ورلڈ لیگ ، مسلم نوجوانوں کی عالمی اسمبلی ، بین الاقوامی اسلامی ریلیف آرگنائزیشن اور مختلف شاہی خیراتی ادارے شامل ہیں دعوت کی حمایت کرنا تھا۔
اسلام کی سلفی تشریحات کے علاوہ ، سنی اسلام کی دیگر سخت اور قدامت پسندانہ تشریحات میں سعودی عرب اور خلیج کے فنڈز کی براہ راست یا بالواسطہ مدد کی گئی ہے جن میں اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کی اسلامی تنظیمیں شامل ہیں۔ اگرچہ ان کے اتحاد ہمیشہ مستقل نہیں تھے اور سلفیت اور اسلامیت کی شکلوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک "مشترکہ منصوبہ" تشکیل دیا ہے اور مغربی اثرات کے خلاف ایک مضبوط "بغاوت" کا اشتراک کیا ہے۔
عدم برداشت پر فنڈنگ
اس فنڈنگ پر تنقید کی گئی ہے کہ اس نے اسلام کی ایک عدم برداشت ، جنونی شکل کو فروغ دیا جس نے مبینہ طور پر اسلامی دہشت گردی کو فروغ دینے میں مدد کی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ رضاکار افغانستان میں لڑنے کے لیے متحرک ہوئے (جیسے اسامہ بن لادن ) اور سوویت سپر پاور کے خلاف اپنی کامیابی پر "خوشگوار" ، دوسرے ممالک میں مسلم حکومتوں اور عام شہریوں کے خلاف جہاد لڑتے رہے۔ اور وہ قدامت پسند سنی گروہ جیسے کہ افغانستان اور پاکستان میں طالبان نہ صرف غیر مسلموں (کفار ) پر حملہ کر رہے ہیں اور ان کے ساتھی مسلمانوں کو بھی مرتد سمجھتے ہیں ، جیسے شیعہ اور صوفی۔
سلفیت کی پرچار میں سعودی عرب کا کرادر
سعودی عرب کے لوگ اپنی تیل کی دولت کو ارضیات یا تاریخ کے حادثے کے طور پر نہیں دیکھتے تھے ، بلکہ ان کے مذہب پر عمل سے براہ راست منسلک ہوتے ہیں - اپنی نئی دولت کے ساتھ سعودی عرب کے حکمرانوں نے مسلم دنیا میں قوم پرست تحریکوں کو اسلام کے ساتھ بدلنے ، اسلام کو "بین الاقوامی منظر نامے کے سامنے" لانے اور ایک ہی سلفی مسلک کے تحت دنیا بھر میں اسلام کو متحد کرنے کی کوشش کی۔
غیر سلفی مسلم اثر و رسوخ۔
سلفیوں کے لیے ، نچلی سطح کے غیر سلفی اسلام پسند گروہوں اور افراد کے ساتھ کام کرنے کے اہم فوائد تھے۔ کیونکہ سعودی عرب سے باہر سلفی عقائد کے سامعین اشرافیہ اور "مذہبی طور پر قدامت پسند ملی" تک محدود تھے اور لوگوں کی اکثریت مقبول لوک پر تھی ثقافت تصوف کی مقامی اقسام سے وابستہ ہے۔ جب سعودی عرب نے پہلی بار حجاز کا کنٹرول سنبھالا تو خاص طور پر وہابی سلفیوں نے دنیا کی مسلم آبادی کا 1 فیصد سے کم حصہ بنا لیا۔
سعودی عرب نے بین الاقوامی تنظیموں کی بنیاد رکھی اور ان کی مالی اعانت کی۔ ان کا ہیڈ کوارٹر مملکت میں تھا۔ جو سب سے زیادہ مشہور ورلڈ مسلم لیگ ہے۔ لیکن ان اداروں میں بہت سے رہنما شخصیات غیر ملکی سلفی تھیں احساس) ، عربی وہابی یا برصغیر اہل حدیث نہیں۔ ورلڈ مسلم لیگ نے غیر سلفی غیر ملکی اسلام پسند کارکنوں کی طرف سے کتابیں اور کیسٹ تقسیم کیے جن میں حسن البنا ( اخوان المسلمون کے بانی) ، سید قطب (بنیاد پرست سلفی جہادی نظریہ قطبیت کے مصری بانی) وغیرہ شامل ہیں۔
اخوان المسلمین کے ارکان نے مسلم ورلڈ لیگ اور دیگر سعودی حمایت یافتہ تنظیموں کی بین الاقوامی کوششوں کے لیے "اہم افرادی قوت" بھی فراہم کی۔ سعودی عرب نے الازہر یونیورسٹی میں ماہرین تعلیم کو کامیابی سے نوازا اور بنیاد پرست اسلام پسندوں کو اپنی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کی دعوت دی جہاں انھوں نے اسامہ بن لادن جیسے سعودیوں کو متاثر کیا۔ سعودی عرب نے پاکستان پر مبنی جماعت اسلامی کی تحریک کو سیاسی اور مالی طور پر تیل کی پابندی سے پہلے (شاہ سعود کے وقت سے) کی حمایت کی۔
جماعت کے تعلیمی نیٹ ورکس کو سعودی فنڈنگ ملی اور جماعت "سعودی اکثریتی" مسلم ورلڈ لیگ میں سرگرم تھی۔ مسلم ورلڈ لیگ کی حلقہ کونسل میں غیر سلفی اسلام پسند اور اسلامی احیاء پسند جیسے سید رمضان ، حسن البنا کے داماد (اخوان المسلمون کے بانی) ، ابوالاعلیٰ مودودی (جماعت کے بانی) شامل تھے۔ i اسلامی ) ، مولانڈا ابو الحسن ندوی (وفات 2000) ہندوستان۔ [41] 2013 میں جب بنگلہ دیشی حکومت نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران جماعت اسلامی کے خلاف جنگی جرائم کے لیے کریک ڈاؤن کیا تو سعودی عرب نے بنگلہ دیشی مہمان کارکنوں کی تعداد میں کمی کر کے اپنی ناراضی کا اظہار کیا[7]۔
دیگر قدامت پسند سنی خلیجی ریاستوں کا اثر
دوسری خلیجی ریاستیں سعودی عرب کے مقابلے میں آبادی اور تیل کی دولت میں چھوٹی تھیں لیکن کچھ (خاص طور پر متحدہ عرب امارات ، کویت ، قطر ) نے قدامت پسند سنی وجوہات کی بھی مدد کی جن میں جہادی گروپس بھی شامل ہیں۔ بحر اوقیانوس کے میگزین کے مطابق “قطر کی عسکری اور اقتصادی بڑی تعداد نے شام میں سرگرم القاعدہ گروپ” جبہت النصرہ “کی طرف اپنا راستہ بنا لیا ہے۔ ہیلری کلنٹن کے دستخط کردہ ایک خفیہ میمو کے مطابق ، جو وکی لیکس کی طرف سے جاری کیا گیا ہے۔
قطر کا امریکا کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے تعاون کا بدترین ریکارڈ ہے۔ صحافی اوون جونز کے مطابق ، "طاقتور نجی" قطر کے شہری "یقینی طور پر" خود ساختہ "اسلامک اسٹیٹ" کی مالی اعانت کر رہے ہیں اور "امیر کویتی" شام میں "جبہت النصرہ" جیسے اسلام پسند گروہوں کی مالی اعانت کر رہے ہیں۔ کویت میں "اسلامی ثقافتی ورثہ سوسائٹی کی بحالی" امریکی خزانے کے مطابق القاعدہ کو فنڈ دیتی ہے۔ کرسٹین کوٹس الریچسن کے مطابق ، (چاتھم ہاؤس میں ایک ایسوسی ایٹ فیلو) ، "ہائی پروفائل کویتی مولوی کافی طور پر النصرہ جیسے گروپوں کی حمایت کر رہے تھے ، کویت میں ٹی وی پروگراموں کو اس پر گرانڈسٹ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے[8]۔
حوالہ جات
- ↑ صحیح بخاری، کتاب الشہادات،باب لا يَشهد على شهادة جور،ص 2651
- ↑ انتہا پسندی کے انسداد میں سلفی عقائد کا کردار- شائع شدہ از: 1 جنوری 2017ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 جون 2025ء
- ↑ سلفی گری و پاسخ به شبهات، علی اصغر رضوانی، انتشارات مسجد مقدس جمکران، چاپ پنجم، ص
- ↑ ملل و نحل، شهرستانی، ص ۹۵ و ۹۶.
- ↑ العقیدة للامام احمد بن حنبل، ص ۳۸
- ↑ سلفیت کا مفہوم- شائع شدہ از: 4 ستمبر 2011ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 مئی 2025ء
- ↑ سعودی عرب کے موجودہ حالات، مذہبی طبقہ اور پاکستان- شائع شدہ از: 10 نومبر 2017ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 جون 2025ء
- ↑ وہابیت کا تعارف اور اس کا اصلی چہرہ- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 جون 2025ء