آغاخانيه
آغاخانيه | |
---|---|
![]() | |
تصویر کی وضاحت | آغا خانیہ |
بانی | سید ابوالحسن خان |
نظریہ | حضرت اسماعیل کی امامت کا دعوی |
آغاخانيه اسماعیلی فرقے کا ایک اہم گروہ ہے، جو اسماعیلیہ نزاریہ کے قلعه موت( ایران کے نزدیک ایک نہایت دشوار گزار اور تقریبا نا قابل تسخیر پہاڑی قلعہ ہے جس کو الموت یعنی آشیانہ عقاب کہا جاتا ہے ) شاخ کے باقیات میں سے ہے۔ چونکہ اس فرقے کے ائمہ کو "آقاخان" کا لقب دیا جاتا ہے، اس لیے انہیں "آقاخانیہ" یا "آغاخانیہ" کہا جاتا ہے۔ ان کا موجودہ امام رحیم آقا خان ہیں، جنہیں آقاخان پنجم کا لقب دیا گیا ہے۔ فتحعلی شاہ قاجار (1211-1250 ہجری) نے پہلی بار حسن علی ابن خلیل اللہ، جو نزاریہ قاسميه کے امام تھے، کو "آغا خان" کا لقب دیا۔ بعد میں، قاجاریوں کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے، وہ ایران سے افغانستان اور پھر ہندوستان چلے گئے۔ وہاں انہوں نے برطانوی حکومت کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کیے اور ان کی حمایت سے اپنی سرگرمیوں کو وسعت دی۔ اب تک، ان کے خاندان کے پانچ افراد نے اسماعیلی آقاخانیہ کی امامت کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔ پهر ہندوستان کی آزادی کے بعد، آغا خان خاندان یورپ منتقل ہو گیا۔ آغا خان نیٹ ورک کے اہم مقاصد میں اسلامی ممالک کے باصلاحیت افراد کو تلاش کرنا اور انہیں اسکالرشپس فراہم کرنا شامل ہے، تاکہ وہ، -اس فرقے کے عہدیداروں کے کهنے مطابق- اسلامی ممالک کی ثقافت کو مغربی تہذیب اور جدید تقاضوں کے مطابق ڈھال سکیں۔ اس فرقے نے "مائیکروسافٹ"، "راکفیلر فاؤنڈیشن"، "فورڈ فاؤنڈیشن"، "ہارورڈ یونیورسٹی"، جرمنی کی "وزارت تعاون اور اقتصادی ترقی"، "الکاٹل"، "بوئنگ"، برطانیہ کی "شیل فاؤنڈیشن"، جاپان کا "سماجی ترقی فنڈ"، کینیڈا کا "سکوشیا بینک"، ہالینڈ کی "چرچ کوآپریشن آرگنائزیشن"، اور سوئٹزرلینڈ کے "کانٹون" کے ساتھ وسیع تعاون اور سرمایہ کاری کی ہے۔ انہوں نے ہندوستان کی ریاستوں گجرات، راجستھان، مہاراشٹرا اور دہلی کی حکومتوں، پاکستان کی "فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن"، شام اور قازقستان کی "آثار قدیمہ کی تنظیم"، اور تاجکستان کی خودمختار پہاڑی بدخشان ریاست کی حکومت کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے افغانستان، تنزانیہ، اور فلپائن کی حکومتوں کے ساتھ براہ راست تعاون کیا ہے۔ اور آج اسماعیلی آقاخانی فرقہ دنیا کے تقریباً 25 ممالک میں پھیلا ہوا ہے، اور یہ بنیادی طور پر ہندوستان، پاکستان، افغانستان، تاجکستان اور چین کے پامیر علاقے میں رہتے ہیں۔ یہ افریقی، یورپی، اور شمالی امریکی ممالک میں بھی موجود ہیں۔ 1970 کے بعد سے، کئی اسماعیلی مغرب کی طرف ہجرت کر گئے اور کینیڈا، امریکہ، اور برطانیہ جیسے ممالک میں آباد ہوئے ہیں ۔ نیز، خلیج فارس کے ممالک جیسے ایران، عمان، اور بحرین میں بھی کچھ اسماعیلی موجود ہیں۔
اسماعیلیہ نزاریہ کی ابتدا
فاطمی خلفاء کے دور میں، مصر کے آٹھویں خلیفہ المستنصر باللہ نے اپنے بڑے بیٹے نزار کو امامت کے لیے منتخب کیا۔ لیکن المستنصر کی وفات کے بعد (487 ہجری میں)، افضل الجمالی، جو فوج کا کمانڈر تھا، نے نزار کو معزول کر کے اس کے بھائی المستعلی کو خلیفہ بنا دیا۔ نزار نے اسے مسترد کر دیا اور اسکندریہ فرار ہو گیا، جہاں افضل کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ اس وقت، اسماعیلیوں میں اختلاف پیدا ہوا: ایک گروہ نے نزار کو جائز خلیفہ مانا اور انہیں "نزاریہ" کہا گیا، جبکہ دوسرے گروہ نے المستعلی کو قبول کیا اور انہیں "مستعلیہ" کہا گیا [1]۔
حسن الصباح کا کردار
المستنصر کے دور میں، حسن الصباح نے اسماعیلی مذہب قبول کیا اور 471 ہجری میں مصر کا سفر کیا۔ وہ نزار کی خلافت کے حامی بن گئے، اور المستعلی کے حکم پر مصر سے انهین نکال دیے گئے۔ وہ ایران واپس آئے اور 494 ہجری میں الموت قلعہ پر قبضہ کر لیا، جہاں سے انہوں نے مشرق میں اسماعیلی دعوت کی قیادت کی [2]۔
حسن صباح کی دعوت کا تسلسل کیا اور ان کے بیٹوں کے ذریعے
حسن صباح کی وفات کے بعد 518 ہجری میں، ان کے ایک شاگرد کیا بزرگ امید رودباری نے ان کی جگہ سنبھالی۔ اس کے بعد ان کے بیٹے محمد بن کیا نے قیادت کی[3]، اور پھر ان کے بیٹے حسن، جو "علی ذکر السلام" کے نام سے مشہور ہوئے، نے امامت کا دعویٰ کیا۔ حسن نے کھلے عام اعلان کیا کہ وہ نزار کی نسل سے تعلق رکھنے والے آخری زمانے کے امام ہیں۔ انہیں 561 ہجری میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد، ان کے پوتے جلال الدین حسن، جو "نومسلم" کے نام سے جانے جاتے تھے، نے 608 ہجری میں اس فرقے کی قیادت سنبھالی۔ جلال الدین حسن کی وفات 618 ہجری میں ہوئی، اور ان کے بعد ان کے بیٹے علاء الدین محمد نے، جو صرف نو سال کے تھے، قیادت سنبھالی۔
حسن صباح کی وفات کے چالیس سال بعد قیامت کا اعلان
حسن صباح کی وفات کے بالکل چالیس سال بعد، حسن دوم، جو "علی ذکر السلام" کے نام سے مشہور تھے، نے 17 رمضان 599 ہجری کو قلعہ الموت کے دامن میں منبر پر چڑھ کر چار رنگوں (سرخ، سبز، زرد، اور سفید) کے جھنڈے لہرائے اور قیامت کا اعلان کیا۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھیں، روزہ افطار کریں، اور قیامت کے جشن میں شامل ہوں۔ یہ واقعہ اسماعیلی نزاری تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز تھا، جس کے بعد اس فرقے کی زندگی کا انداز یکسر بدل گیا۔ امامت باپ سے بیٹے کو منتقل ہونے لگی، یہاں تک کہ یہ سلسلہ حسن علی شاہ، آغا خان اول تک پہنچا، جو قاجار دور کے آخر میں زندہ تھے۔ حسن علی شاہ کی زندگی ہمارے معاصر تاریخ سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ ان کے قاجار حکمرانوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے، اور وہ قم اور محلات میں حکمران رہے، پھر کرمان کے حاکم بن گئے [4]۔
قلعہ الموت کا زوال
علاء الدین کے بعد، ان کے بیٹے رکن الدین خورشاہ نے قیادت سنبھالی۔ ان کے دور میں، ہلاکو خان کے مغلوں نے ایران پر حملہ کیا، قلعہ الموت کو تباہ کر دیا، اور بہت سے اسماعیلیوں کو قتل کر دیا، جس کے نتیجے میں 654 ہجری میں اسماعیلی نزاری طاقت کا خاتمہ ہو گیا [5].
قاسمیہ اور مومنیہ کا مطلب
نزاریہ کے ایک امام شمس الدین محمد کی وفات کے بعد 710 ہجری میں، ان کے دو بیٹوں قاسم شاہ اور مومن شاہ کے درمیان جانشینی کے تنازعہ نے جنم لیا۔ ایک گروہ نے قاسم شاہ کی حمایت کی اور انہیں قاسمیہ یا قاسم شاہی کہا گیا، جبکہ دوسرے گروہ نے مومن شاہ کی حمایت کی اور انہیں مومنیہ کہا گیا[6].
آغا خانی فرقے کی ابتدا
قاسمیہ فرقہ، جو آغا خانی کے نام سے مشہور ہوا، آج تک قائم ہے۔ نزاریہ کے پینتالیسویں امام شاہ خلیل اللہ 1153 ہجری میں کرمان میں پیدا ہوئے اور 1194 ہجری میں اپنے والد کی وفات کے بعد امامت کے منصب پر فائز ہوئے۔ امامت سنبھالنے کے بعد، وہ یزد چلے گئے، جہاں دو سال قیام کے بعد 1233 ہجری میں اپنے پیروکاروں اور بعض شیعہ اثنا عشریہ کے درمیان ایک تصادم میں مارے گئے [7]۔
فتح علی شاہ قاجار نے ان کے بیٹے حسن علی شاہ کو اپنی بیٹی سے شادی کر کے "آغا خان" کا خطاب عطا کیا۔ [8]. حسن علی شاہ نے اپنا مستقر محلات منتقل کیا، جو اسماعیلی امامت کا مرکز بن گیا، جہاں مختلف علاقوں سے خمس اور زکواۃ بھیجا جاتا تھا۔ بعد میں، ناموافق حالات کی وجہ سے، وہ ایران چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے، جہاں انہیں برطانوی حکومت کی حمایت حاصل ہوئی۔
برطانوی حکومت نے ان سے سندھ کے قبائلی سرداروں کے ساتھ تنازعات کو حل کرنے کی درخواست کی، جس پر انہوں نے رضامندی ظاہر کی اور ان تنازعات کو ختم کرنے میں مدد کی۔ برطانوی حکومت نے انہیں سندھ میں رہنے کی درخواست کی، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ کئی ہندوستانی شہروں میں منتقل ہونے کے بعد، وہ آخر کار بمبئی میں اپنی دعوت اور سرگرمیوں کا مرکز بن گئے۔ انہیں برطانوی حکومت کی طرف سے "سر" کا خطاب بھی دیا گیا [9].
آغا خان اول
آغا خان اول پہلے اسماعیلی نزاری امام تھے جو ہندوستان میں مستقل طور پر مقیم ہوئے۔ ان کی وفات 1298 ہجری میں ہوئی، اور انہیں بمبئی کے حسن آباد میں دفن کیا گیا۔
آغا خان دوم
ان کے بیٹے آغا علی شاہ، جو آغا خان دوم کے نام سے مشہور ہوئے، نے ہندوستان میں اسماعیلیوں کی قیادت سنبھالی۔ ان کی وفات 1302 ہجری میں ہوئی، اور انہیں نجف اشرف میں دفن کیا گیا۔
آغا خان سوم
ان کے بعد ان کے بیٹے سلطان محمد شاہ، جو آغا خان سوم کے نام سے جانے جاتے تھے، نے 1302 ہجری میں فرقے کی امامت سنبھالی۔ آغا خان سوم 1294 ہجری میں کراچی میں پیدا ہوئے اور 1376 ہجری میں جنیوا میں اپنی ولا میں وفات پائی۔ انہیں مصر کے اسوان میں دفن کیا گیا۔ آغا خان سوم نے اپنے بڑے بیٹے علی خان کو اپنا جانشین مقرر کیا، لیکن زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے دونوں بیٹوں علی خان اور صدر الدین کو امامت سے محروم کر دیا اور اپنے پوتے کریم کو اپنا جانشین مقرر کیا۔
آغا خان چہارم
علی خان ، آغا خان سوم کے بیٹے، اپنے والد کی جانشینی نہ کر سکے کیونکہ وہ عیاشی اور تفریح میں مصروف تھے۔ اس لیے، کریم خان، جو علی خان کے بیٹے تھے، نے اپنے دادا کی وصیت کے مطابق 21 سال کی عمر میں امامت سنبھالی۔ کریم خان آغا خان چہارم ہارورڈ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں بیچلر کی ڈگری کے حامل تھے۔ انہوں نے اپنے دادا کے کام کو جاری رکھا اور لندن میں رہائش پذیر رہے۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو مغربی سیکولر طرز زندگی اپنانے کی ترغیب دی۔ ان کی سرگرمیوں کا مرکز معاشی اور ثقافتی امور تھا۔
ان کی بعض کامیابیاں
- 1977ء میں لندن میں انسٹی ٹیوٹ آف اسماعیلی اسٹڈیز کی بنیاد رکھی۔
- 1985ء میں کراچی میں ایک یونیورسٹی قائم کی۔
- 1986ء میں اسماعیلی نزاری آئین لکھا اور تمام نزاریوں کو بھیجا۔
- 2002ء میں افغانستان پر قبضے کے بعد، وہاں جا کر معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہوئے۔
- آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) کے نام سے سماجی امور کی ترقی کے لیے ایک نیٹ ورک قائم کیا۔ کریم آغا خان 4 فروری 2025ء کو 88 سال کی عمر میں پرتگال کے شہر لشبون میں اپنے خاندان کے درمیان وفات پا گئے۔
آغا خان پنجم
رحیم آغا خان، کریم آغا خان اور ان کی پہلی بیوی سلیمہ آغا خان کے سب سے بڑے بیٹے ہیں، اور وہ اپنے والد کے بعد اسماعیلی نزاریوں کے پچاسویں امام ہیں۔ رحیم آغا خان نے 1990ء میں فیلیپس اکیڈمی، اینڈوور سے گریجویشن کیا، اور 1995ء میں براؤن یونیورسٹی، امریکہ سے ڈگری حاصل کی۔ وہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے تحت معاشی ترقی کے اداروں میں کام کرتے ہیں۔ وہ سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں مقیم ہیں۔ ان کی سابقہ اہلیہ شہزادی سلوا ہیں، جو ایک امریکی ماڈل ہیں۔ رحیم آغا خان کی کل مالیت تین ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔
آغا خانی فرقے کے فکری، عقیدتی انحرافات
آغا خانی اسماعیلی فرقے کے عقیدتی انحرافات کو مختلف زاویوں سے مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ ان انحرافات کو تین اہم نکات میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:
تناسخ ارواح کا عقیدہ
نزاریوں اور آغا خانیوں کے درمیان تناسخ ارواح کا عقیدہ پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ ثواب و عقاب کی تاویل کرتے ہیں اور شریعت اسلامی کے احکام و تکالیف کو منسوخ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "ثواب یہ ہے کہ انسان کی روح موت کے بعد انبیاء اور صالحین کے جسموں میں منتقل ہو جاتی ہے، جبکہ عقاب یہ ہے کہ روح کتے، سور، سانپ یا بچھو کے جسم میں منتقل ہو جاتی ہے۔" آغا خانی، مغربی ثقافت سے شدید متاثر ہونے کی وجہ سے، مغربی تہذیب کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتے۔ آغا خان سوم اور چہارم اور پنجم شریعت اسلامی کے پابند نہیں تھے اور خود کو شریعت کے تابع نہیں سمجھتے تھے۔ نزاریوں کا ماننا ہے کہ موجودہ ائمہ قیامت ہیں، اس لیے شریعت منسوخ ہو چکی ہے۔ اسی وجہ سے ماضی میں اسماعیلیوں میں پائی جانے والی اباحیت پسندی آج بھی جاری ہے۔[10].
باطنی تاویلات جو ظاهر شرعت کے مخالف ہیں
آغا خانی فرقہ باطنی تاویلات کرتا ہے جو شرعی احکام کو باطل کر دیتی ہیں۔ وہ نماز، روزہ، حج جیسے احکام کو منسوخ اور قابل تغیر سمجھتے ہیں۔ اس عقیدے کے مطابق، وہ شریعت کو مسترد کرتے ہیں اور بے حد اباحیت پسندی کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ اسلامی فرقوں کے اجماع کے مطابق، ایسا عقیدہ کفر اور اسلام سے خارج ہونے کا سبب بنتا ہے۔ اسی وجہ سے جب "مجمع التقریب بین المذاہب الاسلامیہ" میں تمام اسلامی مکاتب فکر کے نمائندوں کو پیش کیا گیا، تو اس فرقے کا نمائندہ پیش نہیں کیا جا سکا، کیونکہ تمام اسلامی فرقوں نے اس فرقے کے اسلامی ہونے کو تسلیم نہیں کیا۔
عبادات کے احکام کی چند تاویلیں
- وضو :گناہوں سے نفس کو پاک کرنا، حضرت علی کا اقرار کرنا کیونکہ وضو اور حضرت علی ہر ایک لفظ میں تین حروف ہیں۔
- کلی کرنا: امام کا اقرار اور اس کی اطاعت کرنا۔
- منہ دھونا: امام اور سات ناطقوں اور سات اماموں کا اقرار کرنا کیونکہ انسان کے چہرے میں سات سوراخ ہیں ۔
- سیدھا ہاتھ دھونا:نبی یا امام کی اطاعت کرنا ۔
- بایاں ہاتھ دھونا: وصی یا حجت کی اطاعت کرنا۔
- سر کا سح کرنا: رسول خدا کا اقرار کرنا اُن کی شریعت پر چلنا۔
- سیدھے پاؤں کا مسح کرنا: امام یا داعی کا اقرار کرنا۔
- بائیں پاؤں کا مسح کرنا: حجت یا ماذون کا اقرار کرنا۔
- دھونا یعنی طاعت کرنا۔
- مسح کرنا یعنی اقرار کرنا [11]۔
امام صادق (ع) کے بعد کے ائمہ کو تسلیم نہ کرنا
امام صادق (ع) کے بعد کے ائمہ کو تسلیم نہ کرنا ایک ایسا انحراف ہے جو تمام ائمہ کے انکار کی طرف لے جاتا ہے۔ کسی ایک امام کا انکار، رسول اللہ (ص) کے انکار کے مترادف ہے۔ اسماعیلیوں کے علمی انحرافات بہت زیادہ ہیں، اور درحقیقت ان کے تمام انحرافات انہی تین بنیادی انحرافات سے جڑے ہوئے ہیں۔[12].
آغا خان نیٹ ورک کے اہداف
آغا خان نیٹ ورک کا سب سے بڑا ہدف اسلامی ممالک کے ہونہار افراد کو تلاش کرنا اور انہیں اسکالرشپس فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ ان ممالک کی ثقافت کو مغربی تہذیب اور جدید خطاب کے مطابق ڈھال سکیں۔
آغا خان نیٹ ورک
آغا خان چہارم اور پنجم کے زیر نظر نیٹ ورک فی الحال تین سو سے زائد تعلیمی اداروں اور پروگراموں کو سپورٹ کرتا ہے، جو ہندوستان، پاکستان، کینیا، تنزانیہ اور دیگر ممالک میں موجود ہیں۔ یہ نیٹ ورک معاشی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اس فرقے کے مرکز نے دنیا بھر میں وسیع اور منظم تنظیمیں قائم کی ہیں، جن میں درج ذیل شامل ہیں:
- AKA: آغا خان اکیڈمی، جس کا مقصد اراکین کو بھرتی کرنا اور انہیں فرقے کے عقائد و اہداف کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے تربیت دینا ہے۔
- AKES: آغا خان ایجوکیشنل سروسز۔
- AKF: آغا خان فاؤنڈیشن۔
- AKFED: آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈویلپمنٹ، جو مالی منصوبہ بندی اور فرقے کی تبلیغی سرگرمیوں کو سپورٹ کرنے کے لیے فنڈز فراہم کرتا ہے۔
- AKPBS: آغا خان پروگرام فار بلڈنگ اینڈ سیٹلمنٹ۔
- AKT: آغا خان کلچر۔
- AKU: آغا خان یونیورسٹی۔
- UCA: یونیورسٹی آف سنٹرل ایشیا، جو فرقے کے عقائد کو فروغ دینے پر مرکوز ہے اور دنیا بھر سے طلباء کو مفت تعلیم فراہم کرتی ہے۔
- انڈسٹریل پروموشن سروسز۔
- آغا خان میڈیکل کالج۔
- نرسنگ اسکول۔
- لندن میں اسماعیلی سنٹر۔
- آغا خان ایوارڈ برائے فن تعمیر۔
- کراچی میں آغا خان ہسپتال۔
یہ اور دیگر ادارے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کا مقصد تبلیغ، اراکین کی بھرتی، اور فرقے کے دائرہ کار کو وسعت دینے کے لیے بڑے پیمانے پر مالی وسائل فراہم کرنا ہے، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں۔[13].
حوالہ جات
- ↑ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۱۰، ص۲۳۷
- ↑ مذاهب الاسلامیین، البدوی، عبدالرحمن، ج۱، ص۱۱۰۰،
- ↑ الطوسی، خواجه نصیرالدین، قواعد العقائد، ج۱، ص۱۱۹،
- ↑ البدوی، عبدالرحمن، مذاهب الاسلامیین، ج۱، ص۱۱۰۰،
- ↑ بدوی، عبد الرحمن، مذاهب الاسلامیین، ، ج۱، ص۱۰۷۸ دارالعلم للملایین، بیروت، ۱۹۹۶م
- ↑ فرهاد، تاریخ و عقاید اسماعیلیان، دفتری، ج۱، ص۵۱۰
- ↑ الغالب، مصطفى، تاریخ الدعوة الاسماعیلیه، ج۱، ص۳۱۸
- ↑ فرهاد، تاریخ و عقاید اسماعیلیان، دفتری، ج۱، ص321
- ↑ فرهاد، تاریخ و عقاید اسماعیلیان، دفتری، ج۱، ص581
- ↑ بدوی، عبد الرحمن، مذاهب الاسلامیین، ، ج۱، ص۱۰۷۸ دارالعلم للملایین، بیروت، ۱۹۹۶م
- ↑ نعیم اختر سندھو،ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا،برائٹ بکس اردو بازارلاہور
- ↑ فرهاد دفترى، تاریخ وعقاید اسماعیلیه، ص 620
- ↑ مشرق نيوز سے اقتباس