ذکری

ویکی‌وحدت سے
ذکری
نامذکری
عام نامذکری فرقہ
بانیسید مہدی جونپوری
نظریہذکر اور فکر

ذکری بلوچستان کا اکثریتی مذہب حنفی العقیدہ اہل سنت و جماعت کا ہے حتی کہ بلوچستان کے نزدیک ایران میں بسنے والے بلوچ بھی سنی العقیدہ میں اگر چہ بلوچوں کی لوگ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے مرید تھے۔ اور یزید سے ان کی جنگیں رہیں لیکن موجودہ شیعہ میں عقائد رکھنے والے بلوچ اہل سنت کے کے بنسبت کم ہے۔ البتہ مکران کے علاقے میں ذکری مذہب کے ماننے والے بلوچوں کی تعداد بہت ہے۔ اس فرقہ کی زیادہ تعداد مکران لسبیلہ اور جھالاواں کے بعض علاقوں تک محدود ہے۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اس فرقہ کا اصل بانی کون تھا اس کی ابتدا کیسے ہوئی۔ زیادہ تر مورخین و محققین نے اس فرقہ کا تعلق مہدی جونپوری کی تحریک سے جوڑا ہوا ہے۔ در وجود اور مہدی نامہ جو ذکری فرقہ کی مستند کتاہیں فارسی زبان میں لکھی گئی ہیں۔ اس میں سید محمد جونپوری کے حالات زندگی تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔

ذکری فرقہ کے متعلق پہلا نظریہ

مکران کے ذکریوں کا خیال ہے کہ مہدی جونپوری جن کا اصل نام سید محمد ہے ۔ ( فرح جو وادی ہلمند میں ہے) پہنچے چونکہ سید محمد جونپوری کے مخصوص خیالات و نظریات کی بدولت اُن کو ہندوستان سے نکال دیا گیا تھا ۔ پھر وہ مکہ مکرمہ اور شام کے بعض مقامات مقدسہ کی زیارت کے بعد ہو ایران سے براستہ لار ( لارستان ) کیچ مکران میں داخل ہوئے اور کوہ مراد ( تربت کے نزدیک پہاڑ ہے ) پر ڈیرہ ڈالا جہاں ( ۱۰ سال) تک انہوں نے اپنے عقائد اور نظریات کی تبلیغ کی اور اس علاقے کی مکمل آباد کو اپنے حلقہ ارادت میں دال کرنے کے بعد ان کا انتقال ہوا [1]۔

دوسرا نظریہ

دوسرا نظریہ ہے کہ یہ فرقہ اس علاقے میں سید محمد جونپوری کے محمد ایک مرید میاں عبداللہ نیازی اور دیگر مریدان کے ذریعے آیا ایک رائے یہ بھی ہے کہ ابوسعید بلیدی (وادی بلیدہ جگہ کا نام ہے اُس کی مناسب سے بلیدی کہلاتے ہیں ) جو مکران میں بلیدی خاندان کے پہلے حکمران تھے ابوسعید بلیدی نے سید محمد جو نپوری کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور ابوسعید بلیدی کی تبلیغ سے مہدویت کا اثر مکران پر پڑا اور جو بھی اس فرقے میں شامل ہوا وہ ذکری کہلایا۔ سید محمد جونپوری اور ابو سعید بلیدی ہمصر تھے ابوسعید بلیدی کا تعلق مسقط عمان کے شاہی خاندان سے تھا وہ پندرہویں صدی میں مکران کے پہلے ذکری حاکم تھے ابو سعید بلیدی داعی القرآن کے لقب سے بھی مشہور تھے۔ لیکن موجودہ بلوچوں کے ہاں سید محمد جونپوری کے ساتھ ملا محمد انکی کا نام بھی لیا جاتا ہے، ملا محمد انکی کو ذکری فرقے کا بانی قرار دیتے ہیں۔ ذکری فرقہ پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ ذکری ملا محمد انکی کو آخری پیغمبر مانتے ہیں اور کلمہ بھی اس کا پڑھتے ہیں لیکن ذکری ملا محمد اٹکی کو کلیتا نہیں مانتے یہ بہتان ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملا محمد اٹکی کے حالات اور نام و نسب نامہ کے بارے میں کوئی تاریخی حوالہ دستیاب نہیں مگر ذکری فرقہ کا آغاز مکران کے بلیدی حکمرانوں کے عہد سے ہوا ذکریوں کے مذہبی رہنما ما مراد گچکی کے انتقال کے بعد اُن کے بیٹے ملک دینار گچکی کی وجہ سے ذکری فرقہ خوب پھلنے پھولنے لگا قلات کے میر نصیر خان نے اس ذکری فرقہ کے خلاف کافی تشدد کا راستہ اختیار کیا جس کی وجہ سے ذکری فرقہ کے ہزاروں لوگ مکران سے نکل کر لسبیلہ اور کراچی چلے گئے موجودہ وقت میں اس فرقہ کے پیروکاروں کی اچھی خاصی تعداد ہے لیکن ذکری فرقہ کے علماء زیادہ تر اپنے مذہب کو خفیہ رکھتے تھے۔

ذکری سیدوں کا خاندان چار مختلف دائروں میں منقسم ہیں

  • کلانچی ملائی (موسیٰ زئی خاندان صرف کلگ کلانچ میں آباد ہے جبکہ تمام دائروں میں میسی زئی خاندان کے لوگ آباد میں سید عیسی نوری )۔
  • اور مازه کولواہ گریشک و جاؤ (عیسی زئی ملائی خاندان )
  • کیازی ملائی خاندان سید غوث علی شاہ ابن سید احمد شاہ سید جہانیاں وسید احمد کبیر کے توسط سے امام موسی کاظم اور حضرت علی سے جا ملاتے ہیں۔
  • شیخ خاندان اپنا شجرہ نسب شیخ جنید بغدادی کے توسط سے امام موسی کاظم امام حسین سے ملاتے ہوئے حضرت علی تک لے کر جاتے ہیں۔

ذکری فرقہ کے چاروں پیشوائے خاندان سب کے سب سید کہلاتے ہیں۔ عیسی اور موسی زکی ملا کی خاندان اپنا جد امجد سید امام باقر، امام زین العابدین اور امام حسین اور حضرت علی سے ملاتے ہیں گچکی خاندان تین صدیوں سے مکران میں آباد میں راجپوت نسل سے تعلق ہے گچکیوں نے بلیدیوں کے دور میں ذکری فرقہ اپنا لیا تھا ملا مراد نے دراصل ذکری فرقے کے عقائد کو ایک نئی شکل دی ۔ انہوں نے ذکری مذہب کو اسلام سے علیحدہ کر کے نئی سوچ اور نئی فکر کا الگ تھلگ تصور دیا مکرانی ذکریوں کا عقیدہ ہے کہ سید محمد جن کو مہدی مراد اللہ بھی کہتے ہیں۔ مدینہ اور مکہ سے کیچ ( مکران) تشریف لائے کوہ مراد ( پہاڑ ) پر سکونت کی دس سال اللہ کی عبادت کی تمام مکران میں مہدویت پھیلائی۔

ذکری فرقہ کی وجہ تسمیہ

یہ فرقہ ذکری نام سے مشہور ہے اور یہی اس فرقہ کی وجہ شناخت ہے۔ دراصل لفظ ذکری ذکر سے نکلا ہے اس فرقے کے لوگوں کو ذکری اس لئے کہا جاتا ہے کہ ذکری فرقہ کے بانی نے ذکر خداوندی پر بہت زور دیا۔ ذکری اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو اللہ کا ذکر با قاعدگی کے ساتھ سرانجام دے ۔ چنانچہ ذکری فرقہ ذکرِ خداوندی بجالانے اور کثرت سے ذکر کرنے کی وجہ سے اس نام سے مشہور ہو گئے اور یہی اس فرقہ کی وجہ تسمیہ ہے۔ ذکر الہی دو طریقوں سے کیا جاتا ہے ذکر جلی اور ذکر خفی ذکر جلی کو باجماعت بلند آواز میں ادا کیا جاتا ہے اور ذکرخفی کو تنہا یکسوئی میں ادا کیا جاتا ہے۔

آبادی

ذکری تاریخ تقریبا چھ سو سال پرانی ہے اس فرقہ کے ماننے والوں کو ذکری نام سے پہچانا جاتا ہے ذکری زیادہ تر بلوچستان اور خاص طور پر مکران کے ساحلی علاقوں میں آباد ہیں کراچی میں ان کی اچھی خاصی آبادی ہے سندھ میں شہداد پور اور سانگھڑ میں بھی آباد ہیں۔ ایران بلوچستان کے جنوب مشرق میں بھی ان کی کافی آبادی ہے ان کی تعداد کے بارے میں صحیح مردم شماری نہیں ہو سکتی ۔ لیکن آل پاکستان مسلم ذکری انجمن جو ذکری فرقے کا قانونی ادارہ ہے۔ اس کے ریکارڈ کے مطابق ذکری فرقہ تقریبا دس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جو بیشتر قبائل پر مشتمل ہے۔ بلیدی کلمتی ، کلانچی، عمرانی ، ساجدی، رئیس، بزنجو، سنگر، سادات، محمد حسنی، سیه پاد، چلمر زئی ، لانگو اور کوہ بلوچ مہدیوں کا بھی اس بنیادی عقیدے سے تعلق ہے جن کی تعداد میں لاکھ کے قریب ہے جو ہندوستان میں حیدرآباد، دکن، میسور، بنگلور، جیہور، پونا ، احمد آباد، راجھستان اور بمبئی میں آباد ہیں پاکستان میں یہ کراچی حیدر آباد شکار پور میں رہائش پذیر ہیں یہ برصغیر کے غیر بلوچی زبان بولنے والے لوگ ہیں ۔ ذکری اور مهدوی فرقہ نظریاتی طور پر ایک ہی فرقہ ہے لیکن ان میں کچھ فرق موجود ہے۔

رسم و رواج

پاکستان میں ذکریوں کا تعلق اکثر بلوچ قبائل سے ہے ذکری لوگوں کی رسم و رواج ، شادی بیاہ خوشی غمی مکمل بلوچی روایات کے مطابق ہیں۔ سنی بلوچ اور ذکری بلوچ ایک جیسی رسم و رواج کے پابند ہیں ۔ اکثر گھرانوں میں کچھ افراد خانہ ذکری ہیں تو کچھ سنی ہیں اکثر ساحلی علاقوں میں ماہی گیری کرتے ہیں [2]۔

مذہبی پیشوا

ذکری مذہبی پیشواؤں کو ملا‏‏ئی یا یاشیخ ( بلوچی میں شبہ ) کہا جاتا ہے اور سید بھی کہلاتے ہیں مذہبی مرشد کا بہت احترام کرتے ہیں پیری مریدی کو بہت اہمیت حاصل ہے ہر ذکری کسی مرشد کا مرید ہے۔

امام مہدی

ذکری مسلک میں امام مہدی آخر الزماں کو ایک خاص مقام حاصل ہے جو شک و شبہ سے بالا تر ہے اُن کے ہاں جس طرح نبی اور رسول من جانب اللہ مامور کئے جاتے ہیں قیامت تک اُن کی امامت کا قائم ہونا لازم ہے۔ ذکری عقیدہ کے مطابق امام مہدی آخر الزماں کا ظہور ہو چکا ہے اور امام مہدی ( سید محمد جو پوری ) نے شہر جونپور میں ولادت فرمائی ہے۔ امام مہدی علیہ سلام نے کبھی بھی پیغمبری کا دعوی نہیں کیا اور نہ ہی انہیں ذکری پیغمبر مانتے ہیں وہ انہیں امام مانتے ہیں ۔ امام مہدی علیہ اسلام نے اپنے پیرو کاروں کو مال و دولت کے ذخیرہ کرنے کی سختی سے ممانعت کی ہے ۔ امام مہدی علیہ اسلام نے قرآن اور اللہ کے منشا کے مطابق تشریح کی ہے۔ قرآنی آیات میں سے کوئی نہ منسوخ ہے اور نہ ہی ایک آیت دوسرے کی تضاد ہے۔ مسلمان پر واجب ہے کہ وہ امام مہدی کے ظہور پر ایمان لائیں کیونکہ امام مہدی رسول اللہ کے آخری جانشین ہوں گے مہدی اولاد علی سے ہوں گے۔ ملا محمد اٹکی کو ذکریوں کا مہدی ماننا تاریخی طور پر درست نہیں ذکری ان کو پیغمبر یا مهدی آخر الزماں نہیں مانتے۔

طریقت

ذکری فرقہ کے امام مہدی نے ارکان اسلام کے ساتھ ساتھ دین اسلام میں طریقت کا راستہ بھی اپنا یا مندرجہ ذیل تعلیمات کی دعوت دی اور ان کی تلقین و تاکید کی:

  • ترک دنیا
  • ذکر کثیر
  • طلب دیدار خدا
  • تو کل علی الله
  • صحبت صادقین
  • عذلت از خلق
  • عشر
  • هجرت

امام مہدی کی تبلیغ ۲۳ سال پر محیط ہے امام مہدی نے یہ امر اللہ و بدلیل قرآن ذکر کنیٹر طلب دیدار خد اصحبت صادقین وغیرہ جو اصول دین ہیں مرد اور عورتوں پر فرض کئے ۔ ذکر کو افضل ترین عبادت قرار دیا گیا ذکری شرعی مسائل میں زیادہ ترابو حنیفہ سے اتفاق کرتے ہیں۔

مذہبی رسومات

عبادت میں تین چیزوں کا تعلق ہے۔ ذکر کشتی ، چوگان ۔

ذکر

چونکہ ذکری مذہب میں ذکر بھی نماز کی طرح فرض عبادت ہے اس لئے روزانہ پانچ مرتبہ ادا کیا جاتا ہے ذکر ابھی دو طریقوں سے کی جاتی ہے۔ ا ذکر جلی ۲- ذکر خفی ۔ ذکری فرقے کے ہاں ذکر دوام اور ذکر کثیر پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ فرقہ ذکری نام سے مشہور ہو گیا ذکری ہر عبادت میں ان کو پڑھتے ہیں۔

کشتی

کشتی بھی ایک خاص قسم کا ذکر ہے جو ہر ماہ کی اس چودھویں کی رات کو ہوتا ہے جب جمعہ پڑے نیز ماہ ذوائج کی دس تاریخ تک ہر رات کشتی کی عبادت ہوتی ہے ختنہ اور شادیوں کے موقعہ پر بھی محفل کشتی ہوتی ہے۔ عید الاضحی کی قربانی سے فارغ ہونے کے دوسرے دن بھی مجلس کشتی لازمی طور پر منعقد ہوتی ہے۔ لیکن رات کے وقت کشتی ( کشتی اور چوگان ایک ہی چیز ہے) کی عبادت کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ تمام لوگ ایک دائرے میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایک خوش الحان خاتون یا مرد دائرے کے بیچ میں کھڑے ہو کر مہدی کی ثناء میں اشعار پڑھتے ہیں اور دائرے کے لوگ اس دائرے میں رقص کرتے ہوئے ان اشعار کو دھراتے ہیں۔ جب گانے والے لفظ ہادیا پر پہنچتے ہیں تو دائرے والے گل مہدیا پکار اٹھتے ہیں۔ جب سب تھک جاتے ہیں تو کشتی ختم ہو جاتی ہے۔ دیہات قصبات میں عورتیں علیحدہ علیحدہ ذکر کشتی منعقد کرتی ہیں لیکن پہاڑی بلوچوں کے ہاں مرد ، عورتیں بلا امتیاز حصہ لیتے ہیں۔

چوگان

جس طرح درویش اور صوفی وجد کی حالت میں مزاروں پر ( قوالی ) سماع کرتے ہیں اسی طرح چوگان بھی سماع کی ایک قسم ہے۔ اس میں نہ کوئی ساز بجایا جاتا ہے اور نہ کوئی ساز بجانے والا اوزار استعمال ہوتا ہے صرف مرثیہ کی شکل میں گایا جاتا ہے ۔ چوگان کا انعقاد شادی بیاہ کے مواقع پر بھی ہوتا ہے چوگان میں حصہ لینے والے لوگ دائرے کی شکل میں کھڑے ہو کر اشعار کے بول کے ساتھ حرکت کرتے ہیں اور دائرے میں گھومتے ہیں۔ گول دائرے کے بیچ میں ایک خوش الحان مرد یا عورت کھڑے ہو کر اکثر بلوچی فارسی اور کبھی کبھی عربی زبان میں اظہار عقیدت کے طور پر مہدی کی ثناء میں گیت گاتے ہیں اور دوسرے لوگ جو چوگان میں شامل ہوتے ہیں یعنی دائرے کے باہر وہ بھی بلند آواز سے مل کر گاتے ہیں۔ چوگان عموماً رات کے وقت ذکر خانے کے سامنے منعقد ہوتا ہے۔ چوگان کے موقع پر ہزاروں کی تعداد میں اشعار پڑھے جاتے ہیں ذکری اکثر بڑی راتوں میں کوہ مراد پر محفل چوگان منعقد کرتے ہیں یہ کوئی فرض یا لازمی چیز نہیں بلکہ چوگان موجب ثواب ہے ۔ چوگان کو پہلے نوبت کہا جاتا تھا وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ یہی نوبت بدل کر چوگان بدل گیا جو اس وقت ذکری فرقے کی عبادت کا ایک حصہ ہے۔ ذکری محلوں میں یا کوہ مراد پر اکثر بڑی راتوں میں محفل چوگان منعقد کیا جاتا ہے مرد اور خواتین اپنی اپنی الگ الگ اجتماعات یا مجلس گاہوں میں محفل چوگان منعقد کرتے ہیں۔

  • چوگان کے شرکاء کو جوابی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
  • چوگان ذکریوں کی نفلی عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔
  • سال میں سب سے بڑا چوگان ۲۷ رمضان المبارک کی رات کو بعد عشاء کے اور دوسرا دس ذوالحج کو منعقد ہوتا ہے۔ عقیدہ یہ ہے کہ سید محمد جونپوری کو حکم ہوا کہ آسمان کی طرف دیکھو جب اُدھر نگاہ کی تو دیکھا کہ تمام آسمان اور بہشتیں حور و قصور کے ساتھ آراستہ کی گئیں میں سید محمد نے شب قدر میں اس نماز کو اپنے گیار و اصحاب کے ساتھ امامت کر کے نماز دوگانہ ادا کی نماز دوگانہ فرض ہے ذکری چوگان کو بموجب خواب مانتے ہیں۔

(1)ذکر جلی : جو اجتماع میں باجماعت بلند آواز میں پڑھا جاتا ہے۔

(۲) ذکر خفی : جو تھا یکسوئی میں پڑھا جاتا ہے بعض اوقات میں صرف ذکر پڑھا جاتا ہے اور بعض میں ذکر کے بعد نماز ادا کی جاتی ہے بالکل اسی طریقے سے یعنی قیام رکوع سجود اور قعدہ (صرف رکعت کی تعداد میں کمی بیشی کے علاوہ) [3]۔

ذکری فرقہ کی نمازیں

ذکری پانچ وقت عبادت کرتے ہیں ذکری عبادت ذکرو نماز دونوں پر مشتمل ہیں ذکر یعنی لا الہ الا اللہ اور اللہ کے دیگر اسماء کا ورد اور قرآنی آیات کی تلاوت دو طرح کی ہیں ذکر جلی اور ذکر خفی ۔ ذکری شیعہ حضرات کی طرح دن میں تین مرتبہ نماز با جماعت پڑھتے ہیں مگر شیعہ حضرات کی طرح عصر کی نماز اور مغرب کی نماز عشاء کے ساتھ اکٹھا نہیں کرتے ذکریوں کی نماز فجر، ظہر اور عشاء با جماعت ہوتی ہے۔ آخری ذکر نیم شب کا ہے جو خفی ہوتا ہے اور فردا فردا ادا کیا جاتا ہے کلمہ کا ورد لا اله الا الله ہے جو ایک ہزار مرتبہ دہرایا جاتا ہے اور ہر سویں درد کے بعد ایک سجدہ ادا کیا جاتا ہے ( مطلب دس سجدے )۔

کلمه توحید

لا اله الالله الملك الحق المبين نور پاک اور محمد رسول الله صادق الوعد الآمین ۔ یہ بھی عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کی آیت الذكر والصلوة کا مطلب فقط ذکر ہی ہے۔ ذکری فرقہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ پر قرآن مجید نازل ہو چکا تھا۔ لیکن مہدی صاحب تاویل ہے سید محمد جونپوری اگر چہ حضور کے پورے پورے تابع ہیں لیکن رُتبے میں دونوں برابر ہیں ذکری قرآن مجید کو اپی دینی کتاب تسلیم کرتے ہیں اور باقاعدہ تلاوت بھی کرتے ہیں۔

ذکری ایمان مفصل

ایمان لایا میں نے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کے رسولوں پر اور روز قیامت پر اور ان کے اندازہ اچھائی اور برائی پر جو سب اللہ کی طرف سے ہے بعد از موت جی اُٹھنے پر ۔

ذکری ایمان

ہر ذکر (نماز) میں ان کو پڑھتے ہیں ترجمہ اللہ ہمارا معبود ہے محمد ﷺ ہمارے نبی ہیں قرآن کریم و حضرت مہدی ہمارے امام میں ہم ایمان لائے اور تصدیق کی ۔ امامت کے ذکر میں مہدی کا ذکر ہے ذات مہدی تمام عالم اسلام کا مسلمہ مسئلہ ہے اکثر مکاتب فکر کا نظریہ ہے کہ مہدی کا ظہور قیامت کے قریب ہوگا پھر حضرت عیسی ظہور فرمائیں گے لیکن ذکری فرقہ مہدی کی آمد پر یقین رکھتے ہیں یہی ایک بنیادی اختلاف ہے کہ ذکری سید محمد جو پیوری کو امام مہدی کے طور پر تسلیم کرتے ہیں ۔

روزہ

ذکری مسلک میں رمضان کے روزوں کو فرض مانا جاتا ہے اور بے شمار فکری رمضان میں روزہ رکھتے ہیں ۔ (نوٹ: ذکری رمضان کے روزے دوسرے اسلامی فرقوں کی طرح جو شروع ہوتے ہیں وہی روزے رکھتے ہیں ) رمضان کے علاوہ ایام بیض ہر مہینہ کی ( تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں ) تاریخوں کا بھی روزہ ر کھتے ہیں۔ یعنی ہر ماہ تین روزے عقیدہ یہ ہے کہ حضرت آدم اور حضرت بی بی (حوا) کو جب جنت سے نکالا گیا تو انہوں نے ان تاریخوں میں روزہ رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ذکری دوشنبہ کے روز بھی روزہ رکھتے ہیں کیونکہ اس دن حضور کی ولادت ہوئی تھی۔ ذوالحج کے نو دنوں کے روزے فرض ہیں جن کے بعد دسویں ذوالحج کو قربانی بھی فرض ہے ۔ ۲۵ رمضان سے ۲۷ رمضان تک ذکری تربت میں کوہ مراد ( پہاڑ ) پر زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ ان دنوں میں کوہ مراد پر ذکر ، چوگان کشتی اور دیگر مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں اور ۲۷ رمضان کے بعد وہ پھر اپنے اپنے علاقوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان سے ذکری زائرین سواریوں کے ذریعے یا پیدل سفر کرکے کوہ مراد ( تربت ) کی زیارت تک پہنچتے ہیں ۔

زکات

ذکریت کا ایک بنیادی اصول عشر ہے یعنی مال کا دسواں حصہ اللہ کی راہ پر خرچ کرنا واجب ہے۔ ذکری فرقہ کے ہاں صرف ایک یہی ٹیکس ہے اور وہ ہے عشر یعنی مال کا دسواں حصہ ذکری عقائد کے مطابق ہر قسم کا مال تجارت زراعت و صنعت ہر قسم کی آمدنی کا دس فیصد عشر دینا واجب ہے۔ زکری عقیدہ کے پیرو مہدی نے اپنے پیرو کاروں پر عشر فرض قرار دیا ہے جو کہ آمدنی کا دسواں حصہ ہے ( نوٹ دوسرے اسلامی فرقوں میں مال کا ڈھائی فیصد پر زکوۃ نکالنا ہوتی ہے ) ذکری فرقہ میں زکات سے کوئی آدمی بھی بری الذمہ نہیں ہو سکتا چاہے غریب ہو یا امیر سب پر دس فیصد لازمی ہے۔

حج

ذکریوں پر الزام ہے فریضہ حج تربت میں کوہ مراد پر ادا کرتے ہیں ذکری اس جگہ کو خانہ کعبیہ کا قائم مقام تصور کرتے ہیں اور کوہ مراد کی زیارت کو حج تصور کرتے ہیں۔ یہ جگہ ذکریوں کے خلیفہ اول ملا مراد کے نام سے منسوب ہے جس کے عین اوپر ایک سیاہ پتھر نصب ہے جس کے گردا گرد ذکری طواف کرتے ہیں اور حجر اسود کی طرح اسے بوسہ دیتے ہیں۔ ذکریوں نے اب اس جگہ کا نام بدل کر زیارت شریف کے نام سے معروف کروایا ہے۔ ذکری فرقہ پر یہ محض بہتان تراشیاں ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس طرح کے الزامات فرقہ کو بد نام کرنے کی مذموم کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں۔

چله امامتا مهدی

امامنا محمد محمدی کا ابتدائی عہد کمال زہد و تعشق اور استغراق و استبلاک باطنی میں اس حد تک گزرا کہ پے در پے روزہ رکھتے ہوئے شب و روز یاد الہی میں مشغول رہتے تھے اسی اثناء میں آپ پر انت المهدی یعنی تو مہدی ہے کا خطاب وارد ہوا۔ کافی برسوں بعد اپنے مهدی موعود ہونے کا اعلان کیا امامنا حضرت مھدی کے مسلک میں بھی گوشہ نشینی اور چلہ کشی اور اس طریقے کو پسند فرماتے ہیں امامنا مہدی کے پیروکاروں میں بے شمار عقیدت مند چلہ کشی کو اپنائے ہوئے ہیں۔

جنت

جنت کے کل آٹھ طبقے ہیں:

  • جنت السلام اس کو جنت المجازات بھی کہتے ہیں۔
  • جنت الخلد اور جنت المکاسب ہے۔
  • جنت المواهب
  • جنت الاستحقاق اور جنت الفطرت اور جنت النعیم ہے۔
  • جنت الفردوس
  • جنت الفضيلت
  • جنت الصفات
  • جنت الذات

زیارت

(کوہ مراد ) ذکریوں میں زیارت شریف کے ہم سے معروف ہے کو مراد تربت شہر سے تین کلومیٹر جنوب کی طرف ایک وسیع و عریض میدان میں نسبتا کم

بلند ٹیلہ پر واقع ہے کوہ مراد پر ذکریوں کی عقیدت کا بنیادی سبب مہدی کا یہاں اقیام اور عبادت ہے۔ ذکری عقیدہ کے مطابق امام مہدی اس پہاڑی پر اپنے صحابہ کے

ہمراہ دس برس تک یاد خدا اور ذکر و فکر میں مشغول رہے کوہ مراد در اصل ذکری عقیدہ کے مطابق ان کے لئے ایک روحانی یادگار ہے اکری اکثر مقدس راتوں میں جمع ہو کر

امام مہدی اور ان کی بابرکت جماعت کی یاد تازہ کرتے ہیں ذکری یہاں اجماع ہو کر یا جماعت ذکر الہی کی مجالس منعقد کرتے ہیں ذکری ذائرین با طہارت و با وضو پاک صاف لباس پہن کر کوہ مراد پر ذکر الہی باجماعت ادا کرتے ہیں جن میں مرد اور عورتیں الگ الگ ٹولیوں میں جا کر زیارت کرتے ہیں ۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ کوہ مراد کا نام ملا مراد گچکی کے نام سے پڑا ہے۔ ملا مراد نسلا گچکی تھے وہ ذکریت کے سرگرم مبلغ تھے اور درویش منیش انسان تھے کوہ مراد پر امام مہدی کے اور اصحابوں کے ہمراہ زائرین کی خدمت گزاری کرتے تھے۔ یہاں تک کہ زیارت شریف پر خاک روبی کو اپنے لئے قابل فخر سمجھتے تھے کوہ مراد کو مُرادوں کا پہاڑ بھی کہتے ہیں۔ نظریہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی برگزیدہ ہستی نے اس پہاڑ پر دس سال ذکر و بندگی میں گزارے۔ کوہ مراد پہاڑ دیگر پہاڑوں سے چھوٹا ہے یہ پہاڑ ایک خاص اہمیت کی جگہ ہے جہاں زائرین جا کر ذکر و فکر کے ساتھ اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے مغفرت کی دُعائیں مانگتے ہیں نہ یہ حج ہے نہ حج کی طرح رسومات کا مرکز سے [4]۔

ذکری فرقہ کی عبادت گاہ

ذکری فرقہ کی عبادت گاہ وہ جگہ ہے جہاں پر ذکر کیا جاتا ہے اُسے ذکر خانہ بھی کہتے ہیں اس ذکر خانے کا رُخ کسی خاص سمت کی طرف نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں کوئی محراب ہوتی ہے۔ جیسے مسجدوں کا رُخ کعبہ کی طرف ہوتا ہے ذکریوں کے نہ کر خانہ کا کوئی رُخ نہیں ہوتا چاروں سمت جس طرف چاہیں ذکر خانہ کا منہ کر لیتے ہیں۔

ذکر فرقے کی کتابیں

ذکری فرقے کی چند ندہی مشہور کتا ہیں:

آصف الکتاب و دیوان در وجود شیخ محمد درافشاں اس کتاب میں ۲۴۱۲ فارسی کے اشعار ہیں ۔ شیخ محمد ڈرافشاں ۱۰۴۰ھ میں قصر قند ( ایران ) مکران میں پیدا ہوئے ۱۱۲۰ھ میں ۸۰ سال کی عمر میں وفات پائی والد کا نام شیخ جلال اور دادا شیخ عمر جن کا سلسلہ نسب پانچویں پشت پر حضرت جنید بغدادی سے چاملتا ہے۔ ملا محمد درافشاں نے ہزاروں کی تعداد میں فارسی شعر کہے انہوں نے اپنا تخلص محمد رکھا کر لوگوں نے ان کو درافشاں کا لقب دیا مگر بلوچی زبان میں ذرافشاں کے نام سے مشہور ہوئے اصل نام شیخ الفطام ہے مگر شیخ محمد درافشاں کے نام سے فارسی کے عظیم شاعر بھی مشہور ہوئے ان کے مجموعہ کلام کا نام در وجود ہے۔ جو ذکریوں کے ہاں قلمی نسخہ ہے جو کہ فارسی زبان میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ شیخ محمد در افتشان بلند پایہ صوفی شاعر تھے ان کی فکر میں غواثان حق و معرفت کے لئے عمیق گہرائی موجود ہے دراصل ان کی شاعری میں اسرار الہی ، رسوز کا ئنات پر غور فکر خدمت خلق اور اخلاق حمیدہ کو پروان چڑھانا ان کے کلام کا خاص جزو ہے۔ درافشاں کے مجموعہ کلام میں لوگوں کو تعصب و نفرت قبر و غرور بعض ، کینہ جیسی اخلاقی بیماریوں سے پر ہیز کرنے کی بھی تلقین فرمائی ہے۔ دیوان در صدف قاضی ابراهیم کشانی پنجگوری کی تصنیف ہے اس میں ۳۲۸۶ اشعار ہیں۔ انگین نامہ نثر میں ملا اعظم کی تصنیف ہے جو ۶۰۰ صفات پر مشتمل ہے۔ چند اور قلمی نسخے نثریں جیسے رسالہ عزیز لاری، دروجود ذکری فرقے کی مستند کتابیں ہیں ان قلمی نسخوں میں بھی سید محمد جونپوری کا ذکر موجود ہے۔ ذکری فرقے کے نامور شعرا شیخ جلال قصر قندی میر عبد اللہ جنگی شیخ سلیمان اور دیگر کئی ایک نے مختلف موضوعات پر بھی کتانیں لکھی ہیں مثلا تاریخ مکران ، تاریخ ذکریت و مہدویت پوری تفصیل سے درج ہیں ان کتابوں میں راہ شریعت، طریقت ، حقیقت اور معرفت پر بھی بحث کی گئی ہے۔

ذکری علماء

ذکری ملاؤں کا عام ذکریوں پر بڑا اثر ہوتا ہے پرانے رسم و رواج قائم رکھنے پر زیادہ زور دیتے ہیں تعویز گنڈے بھی رائج ہیں اور منت پوری ہونے پر نذرانہ دیا اور لیا بھی جاتا ہے۔

ذکری فرقہ اور شیعہ فرقہ کا بنیادی فرق

  • شیعہ فرقہ کے عقیدہ کی بنیاد امامت پر ہے ان میں بارہ اماموں میں ہر امام اختیارات کا مالک ہوتا ہے۔ ذکری فرقہ اس عقیدہ پر ایمان نہیں رکھتا یہاں ذکری عقیدہ اہل سنت و جماعت سے زیاد ہ ملتا ہے۔
  • امام مہدی اثنا عشری (شیعہ ) عقیدے کی رُو سے بارہویں امام جو پیدا ہو کر سات سال کی عمر میں غائب ہو گئے شیعہ بارہویں امام مہدی کے منتظر ہیں۔ ذکرتی عقیدہ میں مہدی کا نظریہ اور ایمان یہ ہے کہ ذکریوں کو کسی امام مہدی کے آنے کا انتظار نہیں۔ بلکہ وہ کہتے ہیں جس مہدی نے آتا تھا وہ مہدی سید محمد جو نپوری کے روپ میں آگئے ہیں۔
  • شیعه کلمه : لا الله الا الله محمد رسول الله علی ولی اللہ ذکری کلمہ الالله لا الله نور پاک نور محمد رسول اللہ صادق الوعد الامین۔
  • شیعہ بارو (۱۲) اماموں کے عقیدے کے پابند ہیں اور ان کی شریعت کو مانتے ہیں ذکری فقہ ابوحنیفہ کو مانتے ہیں ۔
  • شیعہ نماز ہاتھ کھول کر پڑھتے ہیں اور کربلا معلا سے حاصل کی ہوئی مٹی کی ڈھلی (خاک شفا) پر سر رکھ کر سجدہ کرتے ہیں ذکری ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرتے ہیں۔
  • شیعه تین وقت نماز با جماعت پڑھتے ہیں ذکری بھی تین وقت با جماعت نماز پڑھتے ہیں ذاکریوں کے ہاں پانچ وقت عبادت مقرر ہے۔
  • شیعہ رمضان میں روزہ رکھتے ہیں لیکن ذاکری رمضان کے علاوہ ایام میں بیض ہر مہینے کی تیرھویں وجود جو ہیں اور پندرھویں کو روزہ رکھتے ہیں۔

سی مسلمانوں سے نظریاتی اختلاف

مکران میں کیچ کا شہر ذکریوں کے لئے مقدس شہر ہے اور وہاں انہوں نے ایک ٹیلہ بنایا ہوا ہے جسے وہ کوہ مراد کہتے یں۔ التزام ہے کہ انہوں نے ایک اور کعبہ بنا کر اسلام کے بنیادی عقیدے کا خلاف وزی کی ہے۔ ذکری امام مہدی کے تصور کو تسلیم کرتے ہیں یعنی ایک نجات دنده جو عیسی مخالف دجال کے بعد دنیا میں آئے گا۔ قرآن میں امام مہدی کا ذکر نہیں لیکن مسلمان عام طور پر اس پیشینگوئی پر یقین رکھتے ہیں۔ ذاکریوں کی مقدس ہستی سید محمد مہدی (۱۳۴۳ ء میں جو پیور یعنی آج کل کے اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ وہ سنی فرقہ اسلام کے عالم تھے جنہوں نے بعد میں مہدی ہونے کا اعلان کر دیا اور پھر افغانستان کے صوبہ فرح میں ہجرت کر گئے جہاں 1505ء میں ان کی وفات ہوئی ۔ ذاکری عقیدہ تھوڑا مختلف ہے ان کا دعوی ہے کہ سید محمد مہدی کا مکران میں رہتے تھے۔ جہاں سے وہ مکہ مدینہ شام اور ترکی گئے واپسی پر مکران آئے اور کوہ مراد در پر آباد ہو گئے اور مرنے سے پہلے وہ غائب ہو گئے مرے نہیں تھے بلکہ غائب ہو گئے ہیں۔ ذاکری اور مہدوی فرقہ ان دونوں فرقوں کے نظریات ایک میں ہونڈاں فرقے ذاکری، مہدوی سید محمد جونپوری کی امامت کو مانتے ہیں کئی ان دونوں فرقوں کو الگ سجھتے ہیں اور کوئی ان کو ایک ہی تحریک سمجھتے ہیں۔

ذکری فرقہ پر دوسرے اسلامی فرقوں کے الزامات

  • ذکری فرقہ کے مہدی نے شریعت کو یک لخت تبدیل کر دیا۔
  • نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج منسوخ کئے گئے ۔
  • ملا اٹکی ذکریوں کا آخری نبی تھا۔
  • کوہ مراد کو حج قرار دیا گیا۔
  • برہان التاویل یا کنز الاسرار آسمانی کتاب ہے جو مہدی پر اتری ہے۔
  • برین کہور ( ایک جنگلی درخت ) پر آسمانی کتاب اتاری گئی برین کہور جس پر مہدی کی کتاب برہان اُتارنے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جب ایک ذکری مرتا ہے تو مردے کا رخ کوہ مراد کی جانب کیا جاتا ہے اور برین کہور ( جنگی درخت کا نام ہے ) سے پتے توڑ کر کفن میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ مذہبی پیشوا سے ایک سرٹیفکیٹ حاصل کیا جاتا ہے جو مردے کو جنت تک پہنچنے میں معاون مدد گار ثابت ہوتا ہے ذکری نماز نہیں پڑھتے صرف ذکر کرتے ہیں۔

مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض ذکری فرقہ پر ہے کہ وہ منکر نماز ہیں اور اسلام کے مطابق جو نماز کا مگر وہ اسلامی دائرے سے خارج ہے۔ (نوٹ: یہ عجیب و غریب انکشافات حقائق سے کوسوں دور ہیں جن کا دور دور تک کوئی وجود نہیں ذکری فرقے ان کی نفی کرتے ہیں۔ ) جمعیت علماء اسلام ( فضل الرحمن گروپ ) نے کئی بار حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ احمدی جماعت کی طرح ذکری فرقے کو بھی خارج از اسلام قرار دیا جائے یا ان پر پابندی لگائی جائے پاکستان نیشنل پارٹی اور بلوچ سوڈنٹ کو پچاس فیصد دوست ذکریوں سے ملتے ہیں اس لئے وہ زیادہ مخالفت نہیں کرتے۔

ذکری عقائد

ذکری اسلام کے ارکان کو مانتے ہیں ذکری مذہب ہندوستان مہدوی تحریک کی ایک شاخ ہے جس کا مقصد اسلام کی دائی فکر کو قائم رکھنا ہے ان فکری تحریک کا مقصد عربستان سے آئے ہوئے اسلام کی بنیادی دائمی فکر کو قائم رکھنا مہدویوں کے ذکر کثیر اور طلب دیدار خدا وہ افکار ہیں جس سے انسان کے دل میں خدا کی مہر و محبت میں اضافہ کرتے ہیں۔ مہدیوں کا دوسرا نام در اصل ذکر و فکر اور خدا کو پہچاننے کے لئے رغبت ہے دنیاوی نظام میں مہدوی مساوات اور ہرابری کے قائل ہیں ان سب کا بڑا افکری نقطہ ذکر کثیر ہے جو وہ تنہایا دوسروں کے ساتھ مل کر کرتے ہیں۔ تو کریں اسلام کے بنیادی اعتقادات کے پابند ہیں وہ خدا و ملائک (فرشتوں) آسمانی کتب، قیامت اور زندگی بعد از مرگ پر ایمان رکھتے ہیں ذکری عقیدہ اسلام کے پیغمبر حضرت محمد کو آخری نبی مانتے ہیں مہدوی ذکریوں کا بنیادی عقیدہ ہے کہ قرآن مجید آخری کتاب اور محمد آخری نبی ہیں۔ اس کے بعد نہ کوئی کتاب آئے گی نہ کوئی نبی ذکری کہتے ہیں قرآن اور نبی کا منکر کافر ہے۔ حضرت آدم کے متعلق عقیدہ ہے کہ وہ ناک کے نیچے سے بالائے مرتک مسلمان تھے، حضرت نوح زیر خلق سے بالائے مرتک مسلمان تھے اور حضرت عیسی زیر ناف سے بالائے سر تک مسلمان تھے دوسری بار جب آئیں گے پورے مسلمان ہو جائیں گے۔ اسلام کے سارے ارکان توحید ، نماز ، زکوۃ اور حج کو فرض مانتے ہیں۔ ذکری چاروں خلفاء کی حیثیت اور مرتبہ برابر مانتے ہیں البتہ مہدوی ذکری کہتے ہیں کہ رسول کریم نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ مہدی آئے گا اور اس کی پیروی لازمی ہے ذکری مہدی کو پیغمبر کی حیثیت نہیں دیتے ذکری عقائد، عبادات، احسان ، معاملات عبادات میں نماز روزہ حج زکوۃ احسان میں ترک دنیا صحبت صادقین ذکر کثیر طالب دیدار خدا آئے ہیں ۔ ذکری ہندوستان کے دوسرے مہدیوں کی طرح سید محمد جونپوری کو مہدی مانتے ہیں اور ان کو امامنا حضرت مہدی علیہ اسلام صاحب زمان داعی الی اللہ، خلیفہ اللہ اور مراد اللہ کے القاب سے بھی منسوب کرتے ہیں ۔ ذکریوں کا خیال ہے کہ جو شخص اُن کو نہ مانے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی نماز یا ذکر الگ طور پر کرتے ہی ذکری شیعہ کی طرح دن میں تین مرتبہ نماز با جماعت پڑھتے ہیں ۔ مگر شیعہ حضرات کی طرح عصر کی نماز ( ذکر ) کو ظہر اور مغرب کی نماز (ذکر ) کو عشاء کے ساتھ اکٹھا نہیں کرتے ذکریوں کی نماز فجر ظہر اور عشاء با جماعت ہوتی ہے عصر اور مغرب کی نماز انفرادی پڑھتے ہیں مہدوی ذکریوں کے کسی بھی عالم اور ملا کی قبریں نمایاں نہیں ہیں ذکریوں کے گاؤں کلنگ میں مہدویوں کے پیشوا رہتے ہیں [5]۔

بلوچ قبائل کا مذہبی مزاج

مجموعی طور پر بلوچ ہے تعصب اور روادارانہ مذہبی مزاج کے حامل ہیں مذہبی منافرت اور فرقہ بندی ان کے مزاج میں شامل نہیں غیر مسلموں سے بھی انتہائی فراخدلانہ اور مساوی سلوک کرتے ہیں البتہ نظریاتی طور پر اپنے دین سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ بلوچ نہ اپنا مذہب چھوڑتے ہیں نہ دوسروں کے مذہب میں دخل دیتے ہیں ذکری کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں لیکن خود نمازی کہلاتے ہیں۔ مذہبی معاملات میں سید اور ملا کا احترام بھی ان کا عقیدہ ہے بلوچستان میں مزار تو ہر جگہ موجود ہیں تقریبا ہر گاؤں کے قبرستان میں ایک ایسے پیر کا مقبرہ ضرور ہے جسے لوگ احتراما یاد کرتے ہیں۔ بلوچ قبائل کے مذہبی مزاج کو سمجھنے کے لئے بلوچ ضابطہ اخلاق ، اقتدار و روایات اور رسم و رواج کی حقیقی روح کو سمجھنا از بس ضروری ہے۔

بلوچوں کے توہمات

بلوچ قبائل میں بہت سی رسوم و توہمات موجود ہیں مثلاً سورج گرہن کے بارے میں کہ جب کوئی بلا انسانوں پر نازل ہوتی ہے تو سورج گرہن اس بلا کو روکتا ہے سورج گرہن یا چاند گرہن میں حاملہ خواتین کو چلنے پھرنے کی قطعا اجازت نہیں اسی طرح مہینہ کا پہلا چاند نظر آنے پر آگ کا الاؤ روشن کرنے کا رواج ہے اگر کسی گھر میں مرگ واقع ہو جائے اور ایک مخصوص ستارہ اسی طرف ہو جس طرف گھر کا دروازہ ہے تو میت کو دروازے سے نہیں نکالا جاتا بلکہ دوسرے طرف کی دیوار کو توڑ کر میت نکالی جائے گی۔ بلوچ قبائل میں گیا نچ نام ایک چھوٹے سے پرندے سے سعادت دنحوست کے تصورات کو وابستہ کیا جاتا ہے آغاز سفر میں یہ پرندہ دائیں جانب اُڑتا ہو یا بیٹھا ہوا ملے تو نیک شگون تصور کیا جاتا ہے اگر پرندہ بائیں جانب اُڑتا ہوا یا بیٹھا ہوا ملے تو منحوس تصور کرتے ہیں اگر لومڑی یا سانپ سامنے سے گزر جائیں تو اپنا سفر ملتوی کر دیتے ہیں ۔ بیماروں کو ملاؤں اور پیروں سے دم کروانا اور خُدا رسیدہ بزرگوں کے مزار کی مٹی کو بطور تبرک استعمال کرنا۔ جنات اور بد ارواح سے بچنے کا ایک دوسرا ذریعہ لو ہایا لو ہے کی بنی ہوئی اشیاء مثلاً تلوار چاقو یا خنجر نو مولود بچے کے تکیے کے نیچے یا شادی کی پہلی رات دلہا اور دلہن کے پاس رکھے جاتے ہیں۔ بعض قبائل میں رواج ہے کہ اگر بچے پر جن کے سایہ ہونے کا شک ہو جائے تو علاج یہ ہے کہ کوئی بڑھیا تین مرتبہ سورج نکلنے کے وقت اسے جوتوں سے دھپ دھپاتی ہے۔ جنات اور بد ارواح سے بچنے کا ایک اور طریقہ جانور کا صدقہ ہے جانور ذبح کرنے کے بعد اس کا خون گھر کی دہلیز پر یا اندر بھی ڈالا جاتا ہے کپڑے دھو کر انہیں الٹا سکھایا جاتا ہے صرف مُردے کے کپڑے سیدھے سکھائے جاتے ہیں ۔ کسی کو پیچھے سے آواز دینا بھی بُرا شگون ہے گھر میں منہ سے سیٹی بجھانا ناخن کاٹنا اور شام کو جھاڑو لگانا بھی بُرے شگون ہیں ان تینوں میں کسی ایک عمل سے گھر میں برکت ختم ہو سکتی ہے عقائد توہمات کی فہرست اگر چہ بہت طویل ہے یہاں صرف ان عقائدو توہمات کا ذکر کیا گیا ہے جو بلوچ قبائل کے ساتھ مخصوص ہے [6]۔

ذکری یا مہدوی

ذکری اور مہدوی کے ایک فرقہ ہونے کا ثبوت ایک قدیم تاریخی دستاویز بنام تاریخ خاتم سلیمانی قلمی نسخے سے حاصل ہوا ہے یہ دستاویز صدیوں سال قبل حیدر آباد دکن سے ملک سلیمان نے ۱۲۲۲ ہجری میں تصنیف کی ہے۔ ذکری یا مہدوی فرقہ کے بانی سید محمد جونپوری میں ان کا اصل نام سیدمحمد تھا دانا پور کے شہر جونپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید عبداللہ کے جو سید خان کے سے مشہور تھے دو فرزند پیدا ہوئے جن کے نام سید احمد اور سید محمد تھے۔ دعوی مہدویت نے سید محمد کے باپ کا نام میاں عبداللہ مقرر کیا ہے مہدویہ کا عقیدہ یہ ہے کہ تصدیق مہدویت سید محمد جونپوری کی فرض ہے اور انکار مہدویت کا کفر ہے۔ سید محمد جونپوری نے اکبر کے زمانے میں مہدی ہونے کا دعوی کیا۔ مگران کے ذکری ان کی وفات کو تسلیم نہیں کرتے ان کا عقیدہ ہے کہ وہ فرح ( پہاڑ) سے غائب ہو گئے۔ کچھ ذکری سید محمد جونپوری کی وفات افغانستان کے صوبہ فرح میں ۱۵۰۵ء میں مانتے ہیں ۔ سید محمد جونپوری نے میراں کے نام سے بھی کافی شہرت پائی مہدی کو میراں کے نام سے یاد کرتا دونوں میں یکساں موجود ہے مختلف وقت کے حاکموں نے ذکریوں اور سنیوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے خانہ کعبہ کی بجائے کوہ مراد کو حج قرار دے دیا۔ ذکریوں کو زبردستی کہا کہ وہ کہ کوہ مراد پر آکر حج کے فرائض انجام دیں۔ تربت کے قلعہ کے پاس بڑا حوض تعمیر کیا جس کا نام چاہ زم زم رکھا۔ اور آہستہ آہستہ بہت سی تبدیلیاں کیں صفا مروہ عرفات کو امام مسجد طوبی کہا۔ ایک روایت میں سید محمد ابن جعفر یہاں آئے اور انہوں نے مہدویت کی تعلیم یہاں پھیلائی کہتے ہیں کہ سید محمد کی دو بیویاں تھیں ایک کا نام بی بی زینب اور دوسری کا نام الی بی رحمتی تھا ان کا ایک لڑکا بنام عبد الکریم پیدا ہوا انہوں نے مہدویت کی تعلیم دی۔

حوالہ جات

  1. عبدالغنی بلوچ، ذکری فرقہ کی تاریخ ، آل پاکستان مسلم ذکری انجمن کری لین کراچی
  2. پروفیسر محمد اشرف شاہین، بلوچستان تاریخ و مذهب، ، ادارہ تدریس کو کہ بلوچستان
  3. تنبیبات مولانا مفتی احمد الرمن هفت احمد الرمن یجوکیشنل پریس پاکستانی چوک کراچی
  4. موسی خان جلالزئی، 73فرقے ہوئی فکشن ہاؤں مزنگ روڈلاہور
  5. سید نصیر احمد، تفسیر ذکر وحدت آل پاکستان مسلم ذکری انجمن کراچی
  6. نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈيا، 2009ء،ص487