اشاعره
| اشاعره | |
|---|---|
| نام | اشاعره |
| عام نام | مکتب ابوالحسن اشعری |
| بانی | ابوالحسن اشعری |
| نظریہ | اهل حدیث اور معتزله کے عقاید اور نظریات کا امتزاج |
اشعری، اہل سنت والجماعت کے کلامی مکاتب میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ اس مکتب کے بانی ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری (سنہ 260 - 324 ہجری) ہیں۔ ابتداء میں وہ معتزلی مکتب کے شاگرد تھے، لیکن اس مکتب سے علیحدہ ہونے کے بعد وہ اہل حدیث کے مکتب سے وابستہ ہو گئے۔ ان کا مقصد معتزلہ کے شدید عقلی رجحان اور اہل حدیث کے شدید عقلی گریز کے درمیان اعتدال قائم کرنا تھا۔ اسی بنا پر، انہوں نے اہل حدیث کے نظریات کی تشریح میں عقلی فہم کو بھی شامل کیا۔ آج یہ کہا جا سکتا ہے کہ اہل سنت کی غالب اکثریت اپنے کلامی رویے میں اشعری مکتب کی پیروکار ہے۔
اہل سنت والجماعت کے کلامی مذاہب
اصولی کلامی معاملات میں اہل سنت والجماعت مختلف صف بندیوں میں رہے۔ ان کے کئی مختلف مکاتب فکر ہیں، جن میں معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ، اور اہل حدیث باقی مکاتب کے مقابلے میں زیادہ نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔
اشعری مکتب کا قیام
اس موضوع کی جڑیں تلاش کرنے کے لیے مفصل اور وسیع جائزوں کے ساتھ طویل بحثوں اور میدانی تجزیوں کی ضرورت ہے، جن کا اپنا مقام ہے اور وہاں ان کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ تاہم، خلاصہ یہ ہے کہ اس مکتب کی بنیاد اس وقت پڑی جب معتزلیوں کو اس وقت کے کچھ عباسی خلفاء کی طرف سے نظر انداز کیا جا چکا تھا اور انہوں نے عوام میں بھی اپنی حمایت کھو دی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ معتزلی مسلک کے بانی (معتزلیوں) نے یونانی فلسفے سے متاثر ہو کر عقل پسندی میں افراط کیا، جس کی وجہ سے وہ قرآن و احادیث کے متون سے دور ہو گئے۔ یہی مسئلہ بنا جس کے سبب عوام کو اس مکتب اور اس کے پیروکاروں پر بدگمانی ہوئی اور وہ اس سے منہ موڑ گئے۔[1]
ابوالحسن اشعری
وہ پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابی ابوموسیٰ اشعری کی نسل سے تھے۔[2] وہ سنہ 260 ہجری میں بصرہ میں پیدا ہوئے اور سنہ 324 ہجری میں بغداد میں وفات پا گئے۔ اشعری چالیس سال کی عمر تک معتزلی مکتب کے پیروکار رہے، لیکن سنہ 320 ہجری میں معتزلی خیالات سے براءت اختیار کرتے ہوئے انہوں نے اپنا نیا مکتب کی بنیاد رکهی۔[3]
اشعری کا اشعری مکتب قائم کرنے کا مقصد
ابوالحسن اشعری کا اشعری مکتب قائم کرنے کا اصل مقصد معتزلہ کے شدید عقلیت پسند رجحان اور اہل حدیث کے شدید نصوص پرستی کے رجحان سے مقابلہ کرنا تھا، تاکہ ان دونوں افراطی رویوں میں تعدیل کر کے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا جا سکے۔ معتزلہ صرف عقلی بنیادوں کو شناخت کا واحد ذریعہ سمجھتے تھے اور ہر اُس چیز کو رد کر دیتے تھے جو ان کے عقلی فہم کے خلاف تھی، اور اس کے علاوہ خدا کی ذات پر تشبیہ، تجسیم (جسمانی شکل دینے) اور رویت (دیدار) کی نفی کرنے والی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے، وہ ذات باری تعالیٰ کے علاوہ دیگر صفات کے منکر ہو گئے اور خلق کلامِ خدا (کہ قرآن مخلوق ہے) کا موقف اختیار کیا۔ اور دوسری طرف، ان کے مقابلے میں اہل حدیث تھے۔ اس مکتب کے پیروکار نصوص، متون اور روایات پر انحصار کرتے ہوئے عقل کو ترک کرنے والا طریقہ اختیار کیے ہوئے تھے اور آیات کی ظاہری تفسیر کرتے تھے اور قرآن کی عقلی تاویل سے سختی سے پرہیز کرتے تھے۔ اسی اثناء میں، اشعری اور ان کے پیروکاروں نے ان افراط و تفریط (شدت پسندی اور کمی) کے خلاف کوشش کی اور درمیانی راستہ اپنایا اور ایک ایسا مکتب بنیاد رکھا جو اشعری مکتب کے نام سے مشہور ہوا۔[4]
اشعری مکتب کے ممتاز متکلمین
اشعری مکتب میں، ابوالحسن اشعری کے بعد کئی عظیم شخصیات پروان چڑھیں۔ ممتاز افراد کے ناموں کی ایک منتخب فہرست زمانی ترتیب کے لحاظ سے درج ذیل ہے:
- قاضی ابوبکر باقلانی
- ابواسحاق اسفرایینی
- عبدالملک جوینی
- ابوحامد غزالی
- میر سید شریف جرجانی
- سعدالدین تفتازانی
- ملا علی قوشجی
- عبدالوہاب شعرانی
- محمد عبدہ
- عبدالعظیم زرگانی
- شیخ محمود شلتوت
اشاعرہ کی اہم کلامی تصانیف
اشاعرہ نے کلام کے میدان میں بہت سی اہم تصانیف چھوڑی ہیں، جن میں سے چند اہم ترین کتب کے نام مصنفین کے ساتھ ذیل میں دیے گئے ہیں:
- اللمع ابوالحسن اشعری
- مقالات الاسلامیین ابوالحسن اشعری
- الابانه عن اصول الدیانه ابوالحسن اشعری
- استحسان الخوض فی علم الکلام ابوالحسن اشعری
- تمهید الاوایل و تلخیص الدلایل ابوبکر باقلانی
- الشامل فی اصول الدین عبدالملک جوینی
- احیاء علوم الدین ابوحامد غزالی
- الاقتصاد فی الاعتقاد ابوحامد غزالی
- الاربعین فی اصول الدین ابوحامد غزالی
- مجموعه رسائل الامام الغزالی ابوحامد غزالی
- الملل و النحل عبدالکریم شهرستانی
- القضاء و القدر فخر رازی
- المطالب العالیه من العلم الالهی فخر رازی
- المحصل فخر رازی
- معالم اصول الدین فخر رازی
- المباحث المشرقیه فخر رازی
- تفسیر مفاتیح الغیب فخر رازی(البته این اثر تفسیری است)
- شرح المواقف میر سید شریف جرجانی
- شرح العقاید النسفیه سعدالدین تفتازانی
- شرح المقاصد سعدالدین تفتازانی
- الیواقیت و الجواهر عبدالوهاب شعرانی
- مناهل العرفان عبدالعظیم زرقانی
- رساله التوحید محمد عبده
- و...
اشاعرہ کے اعتقادی اصول
اشعری مکتب کے، دیگر کلامی مکاتب کی طرح، اپنے مخصوص اعتقادی اصول ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
- صرف اللہ تمام افعال کا خالق ہے: افعال میں توحید (توحید افعالی) یا خالقیت میں توحید پر اپنے شدید ایمان کی بنا پر، اشاعرہ کا ماننا ہے کہ خلق کا کام صرف اللہ کے لیے مختص ہے، اور انسان اپنے افعال کا خالق نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے افعال کا کاسب (کمانے والا یا اختیار کرنے والا) ہے۔
- عقلی حسن و قبح کا انکار: اشعری مکتب میں، افعال کے حسن و قبح کا معیار شریعت ہے نہ کہ عقل۔ دوسرے الفاظ میں، کوئی بھی فعل ذاتاً نہ تو اچھا (حسن) ہے اور نہ ہی برا (قبیح)، جب تک کہ شریعت اس کے حسن یا قبح کا تعین نہ کر دے۔
- قضا و قدر پر شدید یقین: اشاعرہ قضا و قدر پر شدید یقین رکھتے ہیں، اور الٰہی ارادے کو ہر چیز پر، جس میں انسان کے افعال بھی شامل ہیں، حاکم سمجھتے ہیں اور انسان کو محض اپنے افعال کا کاسب جانتے ہیں۔
- قیامت میں اللہ کا دیدار ہو گا: اس مکتب کے متکلمین قرآن کی آیات سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن آنکھوں سے دیکھا جائے گا۔
- اللہ کا کلام قدیم ہے: اشاعرہ کے عقیدے کے مطابق، اللہ کا کلام قدیم (ازلی) ہے، اور اس کی صفاتِ خبریہ (جن میں ہاتھ، چہرہ وغیرہ کا ذکر ہے) کی تفسیر صرف اسی صورت میں کی جا سکتی ہے جب وہ تشبیہ اور کیفیت کے تعین سے پاک ہو۔
اشاعرہ کے بعض عقائد کی مختصر تشریحات
صفاتِ خبریہ
اس مکتب کے کچھ متکلمین کا ماننا ہے کہ صفاتِ خبریہ (وہ صفات جو لغوی معنی میں باری تعالیٰ کے لیے صادق آتی ہیں، جیسے ہاتھ، چہرہ وغیرہ) اپنے لغوی معنی پر خداوند پر صادق آتی ہیں، لیکن ان کی کیفیت ہمارے لیے مجہول ہے،[5] یہاں تک کہ ہم ان کی کوئی ادراک نہیں رکھتے۔ اس طرح کی تعریف تجسیم اور تشبیہ سے انسان کو محفوظ رکھتی ہے۔ ابوالحسن اشعری کے بعد کے متکلمین بھی اسی رائے کے حامل رہے، تاہم ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ صفاتِ خبریہ کو سمجھنے کے لیے تاویل کی ضرورت ہے۔[6] بعض دیگر، جیسے فخر رازی، صفاتِ خبریہ کی تاویل یا تفویض کو لازم قرار دیتے ہیں۔[7]
اللہ کا دیدار (رویتِ باری تعالیٰ) کا جواز:
اشاعرہ، امام اشعری کے قول کے مطابق، اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قیامت میں اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے ظاہراً دیکھا جا سکے گا۔[8] وہ اس دعوے کے اثبات کے لیے قرآن اور روایات سے شواہد پیش کرتے ہیں۔ اشعری کے بعد آنے والے متکلمین نے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے رؤیتِ باری تعالیٰ کے جواز کا عقیدہ رکھا۔ مثال کے طور پر، فخر رازی نے سورہ بقرہ کی اس آیت کو، جس میں موسیٰؑ کی رویت کے انکار کا ذکر ہے ("وَ إِذْ قُلْتُمْ یا مُوسی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتّی نَرَی اللّهَ جَهْرَةً...")، توجیہ کر کے اسے رویت کے جواز پر محمول کیا ہے۔[9] غزالی بھی اس کا اثبات کرتے ہیں،[10] اور باقلانی کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کا وجود ہے، لہٰذا وہ قابلِ مشاہدہ ہے۔[11]
قرآن کے متعلق رائے:
متکلمین کے ہاں قرآن کے متعلق دو اہم سوالات ہیں: کیا کلامِ خدا صفاتِ ذات ہے یا صفاتِ فعل؟ کیا قرآن جو کلامِ خدا ہے، قدیم ہے یا حادث؟ معتزلیوں کا ماننا ہے کہ کلامِ خدا قدیم اور ذاتی نہیں، بلکہ حادث ہے۔ جب کہ اہل حدیث (حنبلہ) کلام کو صفاتِ ذات میں شمار کرتے ہیں۔ اشعری مکتب، جس کا مقصد معتزلہ اور اہل حدیث کے درمیان توازن قائم کرنا تھا، حنبلہ کے اس نعرے کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ کلامِ خدا ذاتی اور قدیم ہے، یہ عقیدہ اختیار کیا کہ: ہاں، کلامِ خدا قدیم ہے، لیکن یہ انسانی کلام کی طرح حروف اور اصوات کا مرکب نہیں ہے، بلکہ کلامِ خدا نفسی (نفسِ ذات سے متعلق) اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے، اور کلام کی حقیقت سوائے اس کے کچھ نہیں ہے۔ جملوں پر کلام کا اطلاق مجازی ہے۔[12] دیگر اشعری متکلمین بھی اس بارے میں امام اشعری کے طریقہ کار پر قائم رہے اور اسے مختلف عبارات میں بیان کیا۔
نظریۂ کسب پر اشعری متکلمین کے نقطہ نظر کی مختصر تشریح
چونکہ اشاعرہ توحید افعالی پر شدید یقین رکھتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی کو خالق نہیں جانتے اور اسے تمام افعال کا منشأ مانتے ہیں، اس لیے انسان کے لیے خلق فعل میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ فاعلیت کے اس مفہوم کو جو خلق کے مترادف ہے، اللہ کے افعال میں شراکت سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر، ان کے نقطہ نظر سے، اللہ بندوں کے تمام افعال کا فاعل ہے، چاہے وہ افعال اچھے ہوں یا برے۔ اشاعرہ نے یہ دیکھا کہ اس اعتقاد کا لازمی نتیجہ جبر کو قبول کرنا اور اس دلدل میں پھنسنا ہے جو بالآخر معاد (آخرت) اور جنت و جہنم کے انکار پر منتج ہو سکتی ہے۔ ا س مشکل سے نکلنے کے لیے انہوں نے نظریۂ کسب پیش کیا۔[13] اس نظریے کے تحت، وہ انسان کو اپنے اختیاری افعال کا کاسب مانتے ہیں، تاکہ وہ اعمال پر جزا و سزا کے مسئلے کو جواز فراہم کر سکیں۔ نظریۂ کسب کی اہمیت: فعل مسألہ میں نظریه (کسب) اسے فعل کی خلق کے مسئلے سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ صرف ابوالحسن اشعری کا عقیدہ نہیں ہے، بلکہ اہلِ سنت کے تمام متکلمین (سوائے معتزلہ کے)، جیسے ماتریدیہ اور اہل حدیث، جنہوں نے خلقِ افعالِ عباد کا نظریہ پیش کیا، وہ بھی اس پر متفق ہیں کہ خلق کا کام صرف باری تعالیٰ کے لیے مختص ہے۔ ان کے نقطہ نظر سے، اللہ کے سوا کوئی فاعل اور خالق نہیں ہے: "لا مؤثر فی الوجود الا اللہ" (وجود میں اللہ کے سوا کوئی مؤثر نہیں ہے)۔ تاہم، افعال اس وقت کسب کیے جاتے ہیں جب انسان مختار ہو، تاکہ وہ اس حادث قوت کے ساتھ جو اسے اللہ کی طرف سے عطا کی گئی ہے، فعل کو حاصل کرے اور اس فعل کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
اشعری کا کاسب فاعل کے لیے کم از کم اختیار کا نظریه
ابوالحسن اشعری نظریۂ کسب کی تشریح اس انداز میں کرتے ہیں جس میں کاسب فاعل کے لیے زیادہ اختیار نہیں سمجھا جاتا۔ وہ اس تعریف میں بندوں کے بارے میں اختیار کو انتہائی کم ترین سطح پر قناعت کرتے ہیں اور لکھتے ہیں: حقیقت کسب یہ ہے کہ فعل، مکتسب ) سے ایک حادث قوت (Newly created power) کے ذریعے صادر ہو۔"[14] کسب کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی فعل انسان سے صادر ہوتا ہے، اس حادث قوت کے ذریعے جو فعال (فعل کے وقوع کے وقت) خداوند کی طرف سے انسان کے اختیار میں دی جاتی ہے تاکہ مطلوبہ فعل کا حصول (کسب) کیا جا سکے۔ اور وہ ایک جگہ مزید کہتے ہیں: بندے کی قدرت، جیسا کہ وہ فعل کے وجود میں بالکل بھی مؤثر نہیں ہے، اسی طرح وہ اس فعل کی صفات میں سے کسی چیز میں بھی مؤثر نہیں ہے۔"[15] اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بندے کی قدرت فعل کے خلق میں کوئی اثر نہیں ڈالتی، اسی طرح وہ اس فعل کی صفات میں بھی بے اثر ہے۔ ابوالحسن اشعری کی کسب کی ان دو تعریفات پر ایک مختصر نظر ڈالنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس تعریف میں بندے کے لیے اختیار یا قدرت کی کم ترین سطح کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، وہ اختیار اور قدرت جو نہ صرف فعل کے وجود میں اثر انداز نہیں ہوتی، بلکہ اس فعل کی صفات میں تبدیلی لانے میں بھی بے اثر ہے۔
ابوبکر باقلانی کا نظریه (فعل اور اس کے عنوان میں فرق)
باقلانی بھی ابوالحسن اشعری کی طرح فعل کی خلق اور اس کی صفات کے درمیان فرق روا رکھتے ہیں اور خلق کو خداوند کے لیے اور کسب کو انسان کے لیے سمجھتے ہیں۔ تاہم، وہ انسان کی اختیار اور ارادے کو افعال کی صفات میں تبدیلی کا دخل دینے والا مانتے ہیں—ایک ایسا امر جسے ابوالحسن اشعری نے مسترد کر دیا تھا۔ فخر رازی، باقلانی کی طرف سے یہ بات نقل کرتے ہیں: بندے کی قدرت اگرچہ اس فعل کے وجود میں مؤثر نہیں ہے، تاہم وہ اس فعل کی صفات میں سے کسی صفت میں مؤثر ہوتی ہے... تو حرکت کی ذات اور اس کا وجود اللہ کی قدرت سے واقع ہوتا ہے، لیکن اس کا اطاعت (طاعت) ہونا یا نافرمانی (معصیت) ہونا بندے کی قدرت (اور اختیار و ارادہ) کے تابع ہے۔" اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بندے کی قدرت فعل کے وجود اور اس کے وجود میں لانے میں کوئی اثر نہیں رکھتی، لیکن یہ فعل کی صفات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لہٰذا، حرکت کا اصل (Existence) اللہ کی قدرت سے واقع ہوتا ہے، لیکن اس کا اطاعت گزارانہ یا نافرمانانہ ہونا (جو فعل کی صفات کا حصہ ہے) بندے کی قدرت اور ارادے کے تابع ہے۔[16]
عبدالملک جوینی (طولی فاعلیت اور 'امر بین الامرین' سے مشابہت کا اعتراف)
جوینی نظریۂ کسب کی تعریف میں اشعری اور حتیٰ باقلانی کی تشریحات پر بھی تنقید کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بندے کے پاس قدرت اور اختیار ہے، اور مزید یہ کہ اس کی قدرت خداوند کی قدرت کے طول (Hierarchy) میں ہے۔ یہ تشریح، جس میں قدرت اور اختیار کے ساتھ ساتھ طولانی فاعلوں (Hierarchical Agents) کے وجود کا ذکر ہے، جوینی سے پہلے متکلمین میں تقریباً بے سابقہ ہے اور امامیہ کے "امر بین الامرین" (بیک وقت اختیار اور خدا کی مشیت) کے تصور سے مشابہت رکھتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: رہ گئی اس قدرت اور استطاعت کی نفی، تو یہ وہ چیز ہے جسے عقل اور حس قبول نہیں کرتے، اور جہاں تک ایسی قدرت کا اثبات ہے جس کا کسی بھی طرح کوئی اثر نہ ہو، تو یہ قدرت کے بالکل نہ ہونے کے مترادف ہے۔۔۔ لہٰذا بندے کے فعل کو اس کی قدرت کی طرف حقیقی اسناد (نسبت) ضروری ہے، لیکن یہ اسناد احداث اور خلق کے طریقے پر نہیں ہے، کیونکہ خلق (پیدائش) اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ اس کا وجود عدم سے بالاستقلال کیا گیا ہے۔ اور انسان جس طرح خود سے اقتدار کا احساس کرتا ہے، اسی طرح وہ خود سے عدمِ استقلال کا بھی احساس کرتا ہے۔ پس فعل کا وجود قدرت سے مستند ہوتا ہے، اور قدرت کا وجود ایک دوسرے سبب سے مستند ہوتا ہے، جس کی اسباب سے نسبت ایسی ہوتی ہے جیسے فعل کی نسبت قدرت سے ہوتی ہے۔ اور اسی طرح ایک سبب دوسرے سبب سے مستند ہوتا ہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ مسبب الاسباب یعنی خدا پر منتہی ہوتا ہے، وہی اسباب اور ان کے مسببات کا خالق ہے۔"[17]
ابوحامد غزالی (کسب بندوں کے افعال کی ذمہ داری میں مانع نہیں ہوتا)
ابوحامد غزالی بھی کسب کی تشریح میں جبر کے الزام کو خود سے دور کرتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ کہنا کہ انسان کا فعل انجام دینے میں کوئی اختیار نہیں ہے، وجدان اور عقل کی سمجھ کے خلاف ہے۔[18] وہ مزید اضافہ کرتے ہیں کہ خداوند تخلیق میں منفرد ہے، لیکن مخلوقات کی حرکات کی تخلیق میں اس کا انفراد اس بات میں مانع نہیں ہوتا کہ وہ افعال بندوں کے لیے اکتساب کے طور پر مقدور (قابل عمل) رہیں۔[19]
فخر رازی کا نظریۂ کسب
فخر رازی اپنی تفسیرِ کسب میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ بندے کا فعل اس وقت متحقق (وجود میں) ہوتا ہے جب وہ اس فعل کو انجام دینے کی قدرت اور داعی (جذبہ/تحریک) رکھتا ہو، اور اگر یہ دونوں حاصل ہو جائیں تو بندہ اپنے فعل کا حقیقی طور پر فاعل بن جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "انا نعلم بالضرورة ان القادر علی الفعل اذا دعاه الداعی الیه و لم یمنعه منه مانع، فانه یحصل ذلک الفعل."[20] "یعنی ہم بضرورت جانتے ہیں کہ جو شخص کسی فعل پر قادر ہو، جب داعی (انگیزه) اسے اس فعل کی طرف بلائے اور کوئی رکاوٹ اسے اس سے نہ روکے، تو وہ فعل لازمی طور پر واقع ہو جاتا ہے۔" وہ ایک اور جگہ پر اپنے اس دعوے کو صراحت کے ساتھ دہراتے ہیں اور لکھتے ہیں: "الْمُخْتَار عندنَا أَنّ عِنْد حُصُول الْقُدْرَة والداعیة الْمَخْصُوصَة یجب الْفِعْل وعَلی هَذَا التَّقْدِیر یکون العَبْد فَاعِلا علی سَبِیل الْحَقِیقَة وَمَعَ ذَلک فَتکون الْأَفْعَال بأسرها وَاقِعَة بِقَضَاء الله تَعَالَی وَقدره."[21] "یعنی ہمارا منتخب (مختار) نظریہ یہ ہے کہ جب قدرت اور داعیۂ مخصوصہ (ایک خاص محرک) دونوں حاصل ہو جائیں تو فعل واجب ہو جاتا ہے۔ اس اندازے پر بندہ حقیقی طور پر اپنے فعل کا فاعل بنتا ہے۔ اس کے باوجود، تمام افعال کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے قضا و قدر کے تابع ہوتے ہیں۔"[22]
انسان کی حقیقی فاعلیت
انسان کی حقیقی فاعلیت کے بارے میں فخر رازی کے صریح اعتراف کے پیش نظر، یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی دوراہے پر نہیں کھڑے ہوتے، کیونکہ وہ واضح طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ بندہ، فعل کی مخصوص قدرت اور داعی حاصل ہونے کے بعد، اسے اپنی قدرت اور ارادے سے انجام دیتا ہے۔ لہٰذا، جو کچھ اس نے کیا ہے وہ درحقیقت اسی کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ فخر رازی کی تفسیر میں دو نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: انسان کا اختیار فعل کی نوعیت کے تعین میں مؤثر ہے۔ فعل قضا و قدر الٰہی کے تابع ہے۔یہ ایک ایسی تفسیر ہے جسے امامیہ (شیعہ) بھی اپنے نظریۂ "امر بین الامرین" میں ملحوظ رکھتے ہیں۔ فخر رازی فعل کی تخلیق میں طُولی فاعلوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور تفسیرِ کسب میں اسے قبول کرتے ہیں۔[23]
سعدالدین تفتازانی: (بندے اپنے افعال کے ذریعے ثواب اور عذاب کے مستحق ہوتے ہیں)
سعدالدین تفتازانی انسانوں کے اختیاری افعال کی تفسیر میں نظریۂ کسب (Acquisition Theory) کے پیروکار ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ وہ اس نظریے کی تفسیر میں اشعریوں کے مقابلے میں ایک زیادہ وسیع عقیدہ رکھتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بندے اختیار کی حالت میں اپنے افعال کو انجام دینے کی قدرت رکھتے ہیں تاکہ وہ ثواب اور عذاب کے مستحق ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے: «و للعباد افعال اختیاریة یثابون بها ان کانت طاعة و یعاقبون علیها ان کانت معصیة، لا کما زعمت الجبریة من أنه لا فعل للعبد أصلا و أن حرکاته بمنزلة حرکات الجمادات لا قدرة للعبد علیها و لا قصد و لا اختیار، و هذا باطل لأنا نفرق بالضرورة بین حرکة البطش و حرکة الارتعاش و نعلم أن الأول باختیاره دون الثانی و لأنه لو لم یکن للعبد فعل أصلا، لما صح تکلیفه و لا ترتب استحقاق الثواب و العقاب علی أفعاله و لا اسناد الأفعال التی تقتضی سابقیة القصد و الاختیار إلیه علی سبیل الحقیقة. مثل صلی و صام و کتب بخلاف مثل طال الغلام و اسود لونه و النصوص القطعیة تنفی ذلک. کقوله تعالی: «جَزاءً بِما کانُوا یَعْمَلُونَ سوره واقعه، آیه 24» و قوله تعالی: «فَمَنْ شاءَ فَلْیُؤْمِنْ، وَ مَنْ شاءَ فَلْیَکْفُر سوره سوره کهف، آیه 29ْ» الی غیر ذلک۔» "اور بندوں کے لیے اختیاری افعال ہیں جن کے ذریعے انہیں ثواب ملتا ہے اگر وہ طاعت ہوں، اور ان پر عذاب ہوتا ہے اگر وہ معصیت ہوں؛ نہ کہ جیسا کہ جبریہ کا گمان ہے کہ بندے کا سرے سے کوئی فعل نہیں ہے اور اس کی حرکات جامد اشیاء کی حرکات کی مانند ہیں جن پر بندے کو نہ کوئی قدرت حاصل ہے، نہ کوئی قصد اور نہ کوئی اختیار۔ یہ نظریہ باطل ہے، کیونکہ: ہم یقینی طور پر اختیاری حرکت (جیسے حملہ کرنے کی حرکت) اور اضطراری حرکت (جیسے کپکپی یا لرزے کی حرکت) میں فرق کرتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ پہلی حرکت اس کے اختیار سے ہے نہ کہ دوسری۔ اس لیے کہ اگر بندے کا سرے سے کوئی فعل نہ ہو تو اسے مکلف ٹھہرانا (احکام کا پابند کرنا) درست نہیں ہوگا، اور نہ ہی اس کے افعال پر ثواب اور عذاب کی استحقاق کا مرتب ہونا صحیح ہوگا۔ اور نہ ہی ان افعال کو حقیقت میں اس کی طرف منسوب کرنا صحیح ہوگا جن کے لیے قصد اور اختیار کا پیش خیمہ ہونا ضروری ہے۔ جیسے 'نماز پڑھی'، 'روزہ رکھا'، اور 'لکھا'، برخلاف ایسے افعال کے جیسے 'لڑکا لمبا ہو گیا' یا 'اس کا رنگ کالا ہو گیا'۔ اور قطعی نصوص (قرآنی آیات) اس کے برعکس ثابت کرتی ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «جَزاءً بِما کانُوا یَعْمَلُونَ (سورہ واقعہ، آیت 24)» (بدلہ ہے اس کا جو وہ عمل کرتے تھے) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «فَمَنْ شاءَ فَلْیُؤْمِنْ، وَ مَنْ شاءَ فَلْیَکْفُر (سورہ کہف، آیت 29)» (پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کرے) وغیرہ۔" یعنی: اور بندوں کے لیے اختیاری افعال ہیں جن کے ذریعے انہیں ثواب ملتا ہے اگر وہ فعل طاعت ہو اور عذاب ہوتا ہے اگر وہ فعل معصیت ہو۔ نہ کہ جیسا کہ جبریہ (قدریہ) کا عقیدہ ہے کہ بندے سے کوئی فعل منسوب نہیں ہوتا اور اس کی حرکات جامد اشیاء کی حرکات کی مانند ہیں جن کے لیے بندے کی نہ کوئی قدرت، نہ قصد اور نہ اختیار متصور ہے۔ اور یقیناً یہ مفروضہ باطل ہے، کیونکہ ہم اختیاری حرکات اور اضطراری حرکات میں فرق کو یقینی طور پر سمجھتے ہیں۔ ارادی حرکات ہر وہ حرکت ہیں جو انسان کے ارادے اور اختیار سے ہوتی ہیں، جیسے روزمرہ کے افعال بشمول عبادات۔ اور اضطراری حرکات وہ ہیں جو انسان کے اختیار سے باہر ہیں، جیسے کپکپی سے پیدا ہونے والی حرکات یا بلندی سے گر جانا وغیرہ، جن میں انسان کو کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں، اگر ہم افعال کی بندوں کی طرف اسناد (منسوب کرنے) کا انکار کریں تو پھر احکام تکلیفیہ اور ثواب و عذاب کا وجود بھی بے معنی ہو جائے گا۔ اور یقیناً ایسے افعال جیسے نماز اور روزہ، جن کی بنیاد قصد و اختیار پر ہے، اس مفروضے کی رو سے حقیقی طور پر بندے سے منسوب نہیں ہو سکتے۔ لیکن وہ موضوعات جیسے قد کی لمبائی یا جلد کی سیاہی چونکہ انسان کے اختیار میں نہیں ہیں، لہٰذا وہ انہیں ارادے اور حرکت سے تبدیل نہیں کر سکتا۔ مذکورہ بالا مطالب کے مشاہدے سے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کی قطعی نصوص فعل کو انسان سے حقیقی طور پر منسوب کرتی ہیں، جہاں وہ فرماتا ہے: "اس کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کرتے تھے" اور یا فرماتا ہے: "جسے ہم نے ہدایت کا راستہ دکھایا، اگر وہ چاہے تو مومن ہو جائے اور اگر نہ چاہے تو کافر ہو جائے۔" اس کے باوجود، تفتازانی توحید افعالی کے عقیدے اور اس کے متعصبانہ دفاع میں اشاعرہ کے عمومی مسلک کو قبول کرتے ہیں اور خدائے متعال کو خیر و شر سے متعلق تمام افعال کا سرچشمہ مانتے ہیں۔ معتزلہ پر اعتراض کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: "و الله تعالی خالق لأفعال العباد کلها من الکفر و الایمان و الطاعة و العصیان لا کما زعمت المعتزلة أن العبدخالق لأفعاله[24] یعنی خدائے متعال اپنے بندوں کے تمام افعال کا خالق ہے، خواہ وہ کفر ہو یا ایمان، خواہ اطاعت ہو یا نافرمانی، نہ کہ جیسا کہ معتزلہ گمان کرتے ہیں کہ بندہ اپنے افعال کا خالق ہے، حالانکہ خدا کے سوا کوئی دوسرا موجود فعل کا خالق نہیں ہے، خواہ وہ فعل اطاعت ہو یا نافرمانی؛ لیکن اس کی اصل صورت کو خدا ہی خلق کرتا ہے۔ ان وضاحتوں کو بیان کرنے کے بعد، تفتازانی اس نکتے کا اعتراف کرتے ہیں کہ حقیقتِ کسب ان کے لیے بہت واضح نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "أثر تعلق القدرة الحادثة کسبا و إن لم یعرف حقیقته[25]." یعنی وہ افعال جو قدرتِ حادثہ سے متعلق ہیں، انہیں کسب کہا جاتا ہے، اگرچہ کسب کی حقیقت معلوم نہیں ہے۔ ان واضح شواہد میں سے جو یہ کہنے کا باعث بنتے ہیں کہ تفتازانی نہ تو جبریِ محض ہیں اور نہ ہی تفویضیِ محض، ان کا غزالی کے اس قول پر زور دینا ہے کہ اعتقاد میں راہِ اقتصاد (درمیانی راہ) یعنی جبر و تفویض کے درمیان کی راہ اور امر بینالامرین کو اختیار کرنا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "و ملخص الکلام ما أشار إلیه الإمام حجة الإسلام الغزالی و هو أنه لما بطل الجبر المحض بالضرورة و کون العبدخالقا لأفعاله بالدلیل، وجب الاقتصاد فی الاعتقاد و هو أنها مقدورة بقدرة اللّه تعالی اختراعا و بقدرة العبدعلی وجه آخر من التعلق یعبر عنه عندنا بالاکتساب" کلام کا خلاصہ وہی ہے جس کی طرف غزالی نے اشارہ کیا ہے۔ جب عقلی دلیل اور نیز ضروری و وجدانی فہم کے مطابق جبرِ محض باطل ہو گیا اور انسان کا اپنے افعال کا خالق ہونا باطل ٹھہرا، تو واجب ہوا کہ اعتقاد کے راستے میں درمیانی راہ کو منتخب کریں اور یہ کہیں کہ افعال کا وجود دو قدرتوں پر منحصر ہے: خدا کی قدرت، جس کے ذریعے فعل ایجاد (اختراع) ہوتا ہے، اور بندے کی قدرت، جس کے ذریعے فعل (کسی دوسرے تعلق کی بناء پر) کسب ہوتا ہے۔
میر سید شریف جرجانی کا نظریۂ کسب اور ابوالحسن اشعری سے تفسیری مماثلت
میر سید شریف جرجانی (جن کی تفسیری مماثلت مکتبِ اشاعرہ کے بانی سے ہے) کسب کی تعریف لغت کے نقطہ نظر سے اس طرح کرتے ہیں جو اختیار کے اصولوں کے مطابق ہے، لیکن جب وہ کسب کے نظریے کی تفسیر کرتے ہیں تو ابوالحسن اشعری کے نقطہ نظر سے قریب ہو جاتے ہیں اور انسان کو اس کے صادر ہونے والے افعال میں بہت کم حصہ دیتے ہیں تاکہ وہ جبریت کے الزام کی مشکل میں نہ پھنسیں۔ وہ لکھتے ہیں:"ان أفعال العباد الاختیاریة واقعة بقدرة اللّه سبحانه و تعالی (وحدها) و لیس لقدرتهم تأثیر فیها بل اللّه سبحانه أجری عادته بان یوجد فی العبدقدرة و اختیارا فاذا لم یکن هناک مانع أوجد فیه فعله المقدور مقارنا لهما فیکون فعل العبد مخلوقا للّه ابداعا و احداثا و مکسوبا للعبد و المراد بکسبه ایاه مقارنته لقدرته و ارادته من غیر أن یکون هناک منه تأثیر أو مدخل فی وجوده سوی کونه محلا له و هذا مذهب الشیخ أبی الحسن الاشعری" "بندوں کے اختیاری افعال اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی (تنہا) قدرت سے واقع ہوتے ہیں، اور ان (بندوں) کی قدرت کا ان افعال کے وجود میں کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی عادت اس طرح جاری کی ہے کہ وہ بندے میں قدرت اور اختیار پیدا کرتا ہے، پھر اگر کوئی مانع (رکاوٹ) نہ ہو تو وہ (اللہ) اس (بعل) کو اس قدرت اور اختیار کے ساتھ مقارن (ہمراہ) کر کے وجود میں لاتا ہے۔ پس، بندے کا فعل ایجاد و تخلیق کے اعتبار سے ہمیشہ اللہ کا مخلوق ہوتا ہے، اور اسی وقت چونکہ بندہ اسے کسب کرتا ہے، لہذا یہ بندے کا مکسوب (کمایا ہوا) بھی ہوتا ہے، حالانکہ بندے کے پاس موجود قدرت اور ارادے کا فعل کی ایجاد (تخلیق) میں کوئی اثر یا دخل نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ وہ اس فعل کے محل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہ ہی شیخ ابوالحسن اشعری کا مذہب ہے۔" میر سید شریف جرجانی اس نظریے میں ابوالحسن اشعری سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ: خالقِ فعل (تخلیق کرنے والا): صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ بندے کا کردار صرف یہ ہے کہ وہ اس فعل کے وجود میں آنے کا محل بنتا ہے، اور اس فعل کو اس کی قدرت اور ارادے کے ساتھ ہم آہنگ (مقارن) کیا جاتا ہے، جسے کسب کہا جاتا ہے۔ بندے کی قدرت اور ارادے کا فعل کی تخلیق میں کوئی مؤثر کردار نہیں ہوتا۔ یہ نظریہ انسان کو اپنے افعال کی ذمہ داری دیتا ہے (کسب کے ذریعے) مگر خالقِ حقیقی کو صرف اللہ کی ذات تک محدود رکھتا ہے تاکہ توحیدِ افعال مجروح نہ ہو۔ یہ شخصیت حد سے بڑھ گئی ہے، یہاں تک کہ اَفعال کے درمیان عِلّی و معلولی (سبب اور نتیجہ) کے تعلق کو بھی رَد کرتی ہے اور انسان کے تمام افعال کو کسی واسطے کے بغیر براہِ راست اللہ تعالیٰ سے منسوب کرتی ہے اور اپنے اس دعوے کو دُہراتی ہے کہ انسان کو فعل پیدا کرنے میں کسی قسم کی طاقت یا اختیار حاصل نہیں۔ وہ لکھتا ہے: "ہم (اَشاعِرہ) کہتے ہیں کہ تمام بہت سے ممکنات جو شمار نہیں کیے جا سکتے، وہ بغیر کسی واسطے کے براہِ راست اللہ تعالیٰ سے منسوب ہیں، جو ترکیب (اجزاء سے مل کر بننے) سے پاک ہے۔"[26]
ملا علی قوشجی کے کانظریه
ملا علی قوشجی (علاءالدین علی بن محمد سمرقندی) افعال کے کسب اور خلق کی تشریح میں، اپنے پیشروؤں، خاص طور پر میر سید شریف جرجانی کی طرح، ایک مستقل طریقہ کار استعمال کرتے ہیں، یہاں تک کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھی اشعری کی طرح بندے کے لیے ایک نہایت معمولی حصہ کے قائل ہیں جسے وہ "کسب" کا نام دیتے ہیں، لیکن اس میں کوئی مؤثر قدرت شامل نہیں ہوتی۔ اس بارے میں وہ لکھتے ہیں:"و المراد بکسبه إیّاه مقارنته لقدرته و إرادته من دون أن یکون هناک منه تأثیر أو مدخل فی وجوده سوی کونه محلًا له، و معنی ذلک انّ الفعل صادر من اللَّه. غایة الأمر کون الإصدار منه تقارن مع وصف من صفات العبد، و هو انّه إذا صار ذات قدرة غیر مؤثرة و إرادة، کذلک یصدرالفعل من اللَّه سبحانه مباشرة فلا یکون للعبددور سوی کونه محلًا له [27]." اس کا مطلب یہ ہے:"اس (فعل) کے کسب سے مراد اس کا بندے کی قدرت اور ارادے کے ساتھ ہونا ہے، بغیر اس کے کہ بندے کی طرف سے فعل کی تخلیق میں کوئی تاثیر یا مداخلت ہو، سوائے اس کے کہ وہ اس (فعل) کا محل بن جائے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ فعل اللہ کی طرف سے صادر ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ اس کا صادر ہونا بندے کی صفات میں سے ایک وصف کے ساتھ ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب بندہ ایک غیر مؤثر قدرت اور ارادے والا بن جاتا ہے، تو فعل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے براہ راست صادر ہوتا ہے، چنانچہ بندے کا کوئی کردار نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ وہ اس کا محل بنے۔" کسب کا نظریه بعد کی صدیوں کے اشعری متکلمین کے نزدیک () (بندوں کے ارادے اور اختیار پر زیادہ توجہ) بعد میں مناسب ہو گا کہ ہم اس مکتبہ فکر کے بعض دیگر متکلمین کے نظریات پر توجہ دیں جو بعد کی صدیوں میں زندہ رہے اور کچھ وہ بھی ہیں جو معاصر دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ اشعری متکلمین نے حالیہ صدیوں میں کسب کی ایک زیادہ عقلی تعبیر پیش کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اپنے افعال کی انجام دہی میں کاسب فاعل (عمل کرنے والے) کے ارادے اور اختیار پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ اسی بنیاد پر، متکلمین کے اس گروہ نے کسب کے نظریے کی تعبیر میں صراحت کے ساتھ انسان کے ارادے اور اختیار کا دفاع کیا اور اس لحاظ سے وہ جوینی کے علاوہ سابقہ اشاعرہ سے فاصلہ اختیار کرتے ہیں اور امامیہ کے 'امر بین الامرین' (دو معاملات کے درمیان کی حالت) کے نظریے کے قریب ہو جاتے ہیں۔ نظریات میں یہ قربت اس حد تک ہے کہ بعض اوقات اس کی وجہ سے ہمارے لیے صحیح طور پر یہ پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ جبر و اختیار کی پیش کردہ تعبیر کسی امامی مذہب کے متکلم کی ہے یا یہ اشعری متکلمین کے آراء سے پیدا ہوئی ہے، جو بلاشبہ بذاتِ خود قابل توجہ ہے۔
عبدالوهاب شعرانی (کسب کے مسئلے کا عرفانی شہود اور صوفیانہ روش سے حل)
اشعری متکلم کا کسب (عمل کے لیے قوت کا حصول) کے بارے میں یہ خاص تجزیہ انہیں دیگر اشاعرہ سے ممتاز کرتا ہے۔ وہ کسب کو ایک ایسا دقیق اور پیچیدہ اصولی مسئلہ قرار دیتے ہیں جس کا حل عرفانی شہود اور صوفیانہ طریقہ کار کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ لکھتے ہیں: أن مسألة الکسب من أدق مسائل الأصول و أغمضها و لا یزیل إشکالها إلا الکشف [28] یعنی: مسئلہ کسب، اصول کے نہایت دقیق اور پیچیدہ مسائل میں سے ہے، اور اس کی ابہامات اور مشکلات کا ازالہ کشف (باطنی مشاہدے) کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ شعرانی اس کے بعد کسب کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کا خلاصہ اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ گویا ایک شیعہ متکلم "امر بین الامرین" (نہ مکمل جبر اور نہ مکمل اختیار) کی تفسیر بیان کر رہا ہو۔ وہ لکھتے ہیں: «و ملخص الامر ان من زعم ان لا عمل للعبد اصلا فقد عاند و جحد و من زعم انه مستبد با العمل فقد اشرک و ابتدع و ما بقی مورد التکلیف الا ما یجده العبدفی نفسه من الاختیار للفعل و عدمه فان العبد بین طرفی الاضطرار مضطر علی الاختیار و الله تعالی اعلم هذا احسن ما وجدته من کلام المتکلمین.»[29] خلاصہ کلام یہ ہے کہ: جو یہ سمجھے کہ بندے کا کوئی عمل سرے سے اس سے متعلق نہیں (یعنی وہ مجبور محض ہے) تو اس نے حقیقت سے عناد کیا اور ضروریات کا انکار کیا۔اور جو یہ سمجھے کہ وہ عمل کا خود مختار فاعل ہے، تو اس نے شرک کیا اور بدعت کا ارتکاب کیا۔ تکلیف (احکامِ شرعیہ کی پابندی) کی مشروعیت کا جواز اس کے سوا کچھ نہیں رہتا کہ بندہ وجدان سے یہ پاتا ہے کہ اسے فعل کے انجام دینے اور نہ دینے کا اختیار حاصل ہے۔ پس، بندہ ایک طرح سے اضطرار (مجبوری) کی دو حدوں کے درمیان ہے اور مختار ہونے پر مجبور ہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم) متکلمین کے کلام میں یہ بہترین بات ہے جو مجھے ملی۔ اس کے باوجود، کسب کے بارے میں اپنے تحلیلی نقطہ نظر میں، شعرانی دیگر اشاعرہ کے پیروکار ہیں اور خالقیت میں توحید (صرف اللہ ہی خالق ہے) کے قائل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: «أن العباد مکتسبون لاخالقون خلافا للمعتزلة فی قولهم إن العبدیخلق أفعال نفسه»[30] یعنی: بندے اپنے اعمال کے کاسب (حاصل کرنے والے) ہیں، نہ کہ خالق (پیدا کرنے والے)۔ یہ معتزلہ کے اس قول کے برعکس ہے کہ بندہ اپنے افعال کو خود پیدا کرتا ہے۔
عبدالعظیم زرقانی (قرآن کی آیات کی روشنی میں جبر اور اختیار کے درمیان ایک راستہ چننا)
یہ متکلم جبر اور اختیار کے درمیان ایک جامع پہلو کو پانے کے لیے قرآن کی آیات کے دونوں گروہوں کا جائزہ لیتے ہیں؛ جو ایک طرف اللہ تعالیٰ کی مطلق فاعلیت یعنی توحید فی الخالقیت کا دفاع کرتے ہیں اور دوسری طرف انسان کو اس کے افعال کا فاعل (کرنے والا) قرار دیتے ہیں۔ بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگر ہم ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک پر ایمان رکھیں تو ہمیں ایک مکمل تفسیر نہیں ملے گی اور اس طرح حقیقت پوشیدہ رہ جائے گی۔ لہٰذا، مناسب ہے کہ ہم ان دونوں آیات کے درمیان درمیانی راستہ اختیار کریں اور اعتدال کی راہ پر چلیں۔ زرقانی "خلق افعال عباد" (بندوں کے افعال کی تخلیق) کی تفسیر میں سب سے پہلے ان آیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو تخلیق کو صرف اللہ کی طرف منسوب کرتی ہیں اور لکھتے ہیں:"فی القرآن الکریم و السنة النبویة نصوص کثیره علی ان الله تعالی خالق کل شی و ان مرجع کل شی الیه وحده و ان هدایة الخلق و ضلالهم بیده سبحانه مثل قوله عز و جل: الله خالق کل شی، هل من خالق غیر الله یرزقکم من السماء و الارض، و الله خلقکم و ما تعملون، و الیه یرجع الامر کله.... و ما رمیت اذ رمیت و لکن الله رمی...و کذلک یقول النبی صلوات الله علیه: ان اصابک شی فلا تقل لو انی فعلت کذا کان کذا و کذا و لکن قل قدر الله و ما شاء فعل...[31] یعنی: کتابِ خدا (قرآن کریم) اور سنتِ نبوی میں بہت سی نصوص موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔ ہر چیز کی بازگشت صرف اسی کی طرف ہے۔ مخلوق کی ہدایت اور گمراہی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ (جیسے اس کا فرمان ہے) کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے! اللہ نے تمہیں اور جو کچھ تم بناتے ہو (جو عمل کرتے ہو) سب کو خلق کیا ہے! اور اسی کی طرف تمام معاملات لوٹتے ہیں.... اور (اے پیغمبر) جب تم نے پھینکا تو تم نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا... اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں کوئی چیز پہنچے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہو جاتا اور ویسا ہو جاتا، بلکہ کہو: اللہ نے مقدر کیا تھا اور جو وہ چاہتا ہے کرتا ہے۔ زرقانی کا خیال ہے کہ اگر کوئی ان نصوص کو دیکھے تو وہ اعتراف کرے گا کہ تمام امور اللہ کی طرف پلٹتے ہیں اور وہ اپنی حاکمیت میں بے شریک ہے۔ وہ (مصنف) مسئلے کے دوسرے پہلو کی طرف توجہ دیتے ہیں، جو اختیاری افعال میں انسان کی فاعلیت (اختیاری کاموں کا کرنے والا ہونا) کی صحیح نسبت کے بارے میں بحث کرتا ہے، اور لکھتے ہیں:"اس کے ساتھ ساتھ، کتاب و سنت میں بہت سی ایسی نصوص (دلیلیں) بھی موجود ہیں جو بندوں کے اعمال کو انہی کی طرف منسوب کرتی ہیں... "جس نے نیک عمل کیا تو اپنے لیے اور جس نے برا کیا تو اس کا وبال اسی پر ہے" (سورۃ الجاثیہ، آیت ۱۵)، "اگر تم نے نیکی کی تو اپنے لیے کی اور اگر برائی کی تو وہ بھی اسی کے لیے ہے" (سورۃ الاسراء، آیت ۷)، "کہہ دیجیے کہ عمل کرو، اللہ اور اس کا رسول اور مومنین تمہارے عمل کو دیکھیں گے، اور تم عنقریب غیب و شہادت کے جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے" (سورۃ التوبہ، آیت ۱۰۵)، اور "یہ وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو ان اعمال کے سبب جو تم کرتے تھے" (سورۃ الزخرف، آیت ۷۲)" مذکوره حواله ص 507۔ وہ (مصنف) کا یہ ماننا ہے کہ جو شخص بھی ان قرآنی نصوص کو دیکھے گا، وہ سمجھ جائے گا کہ بندوں کے افعال کی نسبت خود انہی کی طرف ہے۔ اسی لیے اگر لوگ نیک کام کرتے ہیں تو ثواب کے مستحق ہیں، اور اگر برا کام کرتے ہیں تو عقاب (سزا) کے مستحق ہیں۔ اس کے باوجود، زرقانی بھی دوسرے اشعری متکلمین کی طرح، تخلیق (خلق) کو صرف اللہ کے لیے، اور کسب (فعل کو اختیار کرنا/کمانا) کو صرف انسان کے لیے خاص سمجھتے ہیں۔
محمد عبدہ کا نظریہ (اختیاری افعال کی تخلیق میں دو الٰہی اور انسانی قوتوں کے بیک وقت عمل کرنے کا اعتراف)
محمد عبدہ کا ماننا ہے کہ انسان کے اختیاری افعال کی تخلیق میں دو قوتیں بیک وقت مؤثر ہوتی ہیں، ایک اللہ کی قدرت اور دوسری انسان کی قدرت۔ وہ لکھتے ہیں:«یشهدُ سلیمُ العقل و الحواس من نفسه انّه موجود و لا یحتاج فی ذلک الی دلیلٍ یَهدیه و لا معلّمٍ یُرشده، کذلک یشهدُ انّه مدرک لأعماله الاختیاریة یَزِنُ نتائجَها بعقله و یُقدِّرها بارادتِه ثم یُصدرها بقدرة ما فیه ویُعَدُّ انکارُ شیئ من ذلک مساویا لاِنکار وجوده فی مجافاته لبداهة العقل»[32] "سلیم عقل اور حواس اپنے وجود کی گواہی دیتے ہیں، اور اس گواہی کے لیے اسے کسی رہنمائی کرنے والی دلیل یا ہدایت دینے والے معلم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح وہ اس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ وہ اپنے اختیاری اعمال کو سمجھتا ہے، ان کے نتائج کو اپنی عقل سے جانچتا ہے، اور اپنے ارادے سے ان کا اندازہ (تخمین) لگاتا ہے، پھر اس فعل کو اپنی اندرونی طاقت (قدرت) کے ذریعے صادر (انجام) کرتا ہے۔ اور اس میں سے کسی بھی چیز کا انکار کرنا، بنیادی عقلی حقیقت کے خلاف ہونے کی وجہ سے، خود اپنے وجود کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔"
متعلقه تلاشیں
حوالہ جات
- ↑ علی محمد ولوی، تاریخ علم کلام و مذاهب اسلامی، تهران، انتشارات بعثت، سال 1367 ش، ج 2، ص 450.
- ↑ مذکوره حواله ص 454
- ↑ مذکوره حواله ص 231
- ↑ ابن خلدون، مقدمه، ترجمه محمدپروین گنابادی، تهران، سال ۱۳۵۳ ش، ج ۲، ص۹۴۲-۹۴۷.
- ↑ ابوالحسن اشعری، الابانة عن اصول الدیانة، ص 21.
- ↑ سیف الدین آمدی، غایة المرام فی علم الکلام، ص 127-129
- ↑ فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، ج 1، ص 163
- ↑ ابوالحسن اشعری، الابانة عن اصول الدیانة، ص 35.
- ↑ فخر رازی، مفاتیح الغیب، ج 1، ص 520.
- ↑ ابوحامد غزالی، قواعد العقائد، ص 169
- ↑ ابوبکر باقلانی، تمهید الاوائل وتلخیص الدلائل، ص 301
- ↑ عبدالکریم شهرستانی، نهایة الاقدام فیعلم الکلام، ص 111
- ↑ ابوالحسن اشعری، اللمع، ص 74 .
- ↑ مذکوره حواله 76
- ↑ فخر رازی، القضا و القدر، ص 32.
- ↑ خواجه نصیرالدین طوسی، تلخیص المحصّل، ص 325
- ↑ شهرستانی عبدالکریم، الملل و النحل، ص 111 و 112.
- ↑ ابوحامد غزالی، احیاء علوم الدین، ص 249.
- ↑ مذکوره حواله111
- ↑ فخرالدین رازی، القضا و القدر، ص 31
- ↑ فخرالدین رازی، معالم اصول الدین، ص 85 و 86.
- ↑ فخرالدین رازی، المباحث المشرقیة، ص 517.
- ↑ فخرالدین رازی، المباحث المشرقیة، ص 517
- ↑ سعدالدین تفتازانی، شرح العقائد النسفیة، ص 54.
- ↑ سعدالدین تفتازانی، شرح المقاصد، ج 4، ص225
- ↑ میر سید شریف جرجانی، شرح المواقف، ص 123.
- ↑ جعفر سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، ج 9، ص 50.
- ↑ عبدالوهاب شعرانی، الیواقیت و الجواهر، ج 1، ص 251.
- ↑ مذکوره حواله ص253
- ↑ مذکوره حواله ص 251
- ↑ عبدالعظیم زرقانی، مناهل العرفان، ج 1، ص 506.
- ↑ محمد عبده، رسالة التوحید، ج 1، ص 31.