امام

ویکی‌وحدت سے

"ام" عربی زبان میں ماں کو کہتے ہیں ۔کیونکہ ماں بچہ کے لئے اصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ عربی زبان میں امام دو الفاظ ام ام سے مرکب ہو کر بنا ہے۔ ام کے لفظی معنی ابتدا، انجام، اصل اورجڑ کے ہیں۔ پس امام کے معنی ابتدا والا اور انجام والا ہے۔ کیو نکہ انسان کو ابتدا سے لے کر انجام تک یعنی شروع سے لے کر قیامت تک لے جانے والے صرف امام ہی ہیں ۔اسی لئے اسلامی فرقوں میں اماموں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

امام کے معنی

راہنما، بادی، پیش رو ( جمع ائمہ ) متکلمین کے نزدیک وہ شخص جو دین کو قائم رکھتا ہے اور رسول اللہ کا خلیفہ ( نائب ) ہوتا ہے۔ محدثین کے نزدیک امام سے مراد محدث اور شیخ اور مفسروں کی اصطلاح میں حضرت عثمان کے حکم پر لکھے گئے قرآن مجید کے نسخےبھی امام کہلاتے ہیں۔ قرآن مجید کی رو سے لوح محفوظ ، راستے اور علمبردار شخص کو بھی امام کہتے ہیں ۔امام کا لفظ خاصے وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ عام طور پر اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی پیروی کی جائے یا جس کی اقتداء کی جائے۔ مسجد میں نماز پڑھانے والے کو بھی امام کہا جاتا ہے۔ جہاد میں سپہ سالار کو بھی امام ہی کہا جاتا ہے۔ نیز دینی علوم کے ان ماہرین کو بھی امام کہا جاتا ہے جنہوں نے اجتہاد سے کام لے کر فقہ وحدیث، تفسیر وکلام وغیرہ کی علمی بنیاد میں استوار کیں [1]۔

اہل تشیع کے نزدیک امام

اہل تشیع کے نزدیک امام کا خطاب حضرت علی اور ان اولاد کے لئے مخصوص ہے۔ شیعہ اثنا عشری فرقہ حضرت علی کے بعد ان کی اولاد میں سے پہلے گیارہ افراد کو امام برحق سمجھتا ہے۔ فرقہ سبعیہ کے نزدیک اس کے مستحق پہلے سات امام ہیں۔

شیعوں کے عقیدے کے مطابق ایک امام غالب ہیں جو قیامت کے نزدیک مہدی کی صورت میں ظہور پذیر ہوں گے انہیں امام مہدی کہا گیا ہے۔ اسماعیلی، آغا خانی اور بوھرہ فرقوں میں امامت تسلسل کے ساتھ چلی آرہی ہے [2]۔

اہل سنت کے نزدیک امام

اہل سنت کے نزدیک امام کا مجتہد ہونا ضروری ہے۔ چار مجتہد اور امام، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل ہیں۔ کچھ مجتہد فی المذہب ہیں جیسے امام ابن تیمیہ، امام ابو یوسف، امام ابو داؤد، امام بخاری وغیرہ،۔اس کے علاوہ دیگر علمائے شریعت مثلاً امام غزالی، امام رازی وغیرہ بھی امام کہے جاتے ہیں۔

امام کے متعلق عقیدہ

جوکسی امام کا مقلد ہوگا قیامت میں رب تعالٰی بھی اپنے بندوں کو اماموں کے ساتھ پکارے گا۔ رب فرماتا ہے اس دن ہم ہر شخص کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ انبیا اور رسولوں کا کام خالق کے پیغام کو مخلوق تک پہنچانا ہے۔ خالق کا فرض تھا کہ وہ مخلوق کے لئے بھی کسی ہستی کو پیدا کرے جو مخلوق کو خالق تک لے جائے اس ہستی کو امام کہتے ہیں۔ گویا رسول اور نبی کا کام یہ ٹھہرا کہ وہ خالق کا پیغام مخلوق تک پہنچائے اور امام کا کام یہ ہے کہ مخلوق کو خالق تک لے جائے۔ قیامت کے روز لوگ اپنے اپنے اماموں کے ساتھ پیش ہوں گے۔جیسا حشر امام کا ہوگا ویسا ہی حشر اس کے ماننے والوں کا ہوگا۔

اماموں کے متعلق نظریات

اسماعیلیہ کہتے ہیں کہ امام اس غرض سے ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی ذات وصفات کی شناخت کرائے۔ اسماعیلیہ امام کو اللہ کی معرفت کا معلم قرار دیتے ہیں۔ امامیہ کہتے ہیں کہ معصوم یعنی امام کی ضرورت معرفت الہی کی تعلیم کے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے ہےکہ وہ واجبات عقلی وشرعی کے ادا کرنے اور قبائح عقلی وشرعی سے بچنے میں خدا کی طرف سے ایک لطف و کرم ہے۔

سنی فرقہ کے نزدیک امام کا وجود مخلوق پر دلیل سمعی ( شرعی ) سے ثابت ہے ۔ سنی امام کو معصوم نہیں مانتے۔ اہلِ تشیع اور اہلِ سنت کا امام کے متعلق یہی اختلاف ہے۔ شیعہ اثنا عشری اماموں کو معصوم مانتے ہیں۔ اسماعیلیہ اور اثنا عشری کے نزدیک امام کا معصوم ہونا واجب ہے۔

اسلام میں امامت کا اختلاف

(1) جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہوا، امامت اور خلافت کا جھگڑا اُسی وقت شروع ہو گیا۔ ایک فرقہ حضرت علی کو حضور کا جانشین کہتا تھا دوسرا فرقہ حضرت ابو بکر صدیق کو حضور کا جانشین مانتا تھا۔ جو لوگ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کو مانتے تھے وہ سُنی کہلائے ۔ چونکہ سنی فرقہ کا یہ نظریہ تھاکہ حضرت ابو بکر صحابی تھے اور ہر وقت حضور کے ساتھ رہتے تھے اس لئے خلافت ان کا حق ہے۔ دوسرےیہ کہ حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی حضرت عائشہ حضور کی زوجہ تھی اور یہ سسر تھے اور حضور کے صحابی بھی تھے۔ اس لیئے لوگوں کی اکثریت ان کے ساتھ تھی۔

(۲) دوسرا گروپ جو حضرت علی کو جانشین مانتا تھا، اُن کا نظریہ تھا کہ امامت حضور کے خاندان کے علاوہ کسی اور کا حق نہیں۔ وجہ یہ تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زندگی میں خدا کے حکم سے امام علی علیہ السلام کی امامت کا اعلان فرمایا تھا ۔ شیعوں نے متعدد قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث کے ذریعے امام علی علیہ السلام اور دیگر اماموں کی امامت ثابت کی ہے۔

(۳) تیسرا گروپ جو ان دونوں کو نہیں مانتا تھا اور وہ صرف حضور کو مانتا تھا وہ خارجی مسلمان کہلائے۔

(۴) چوتھا فرقہ پھر ایک صدی کے بعد معرض وجود میں آیا وہ تصوف (صوفی ازم ) کا تھا اور یہ پیران شیخ طریقت کہلائے۔ اس طرح اسلام کے چار فرقے بن گئے اور یہ

لوگ صرف اپنے اپنے اماموں کو ماننے لگ گئے ۔اس طرح اسلام میں امامت کے جھگڑے سے فرقوں کی بنیاد پڑی۔

اثنا عشری اماموں کی علامات وصفات

  • امام آئندہ ہونے والے واقعات بتا دے (علم غیب)۔
  • امام ہر زبان اور بولی کو جانتا ہو۔ انسانوں، حیوانوں، چرند، پرند کی بولیاں سمجھے
  • امام وہ ہے جو مختون ( ختنہ شدہ ) پیدا ہو۔
  • امام وہ ہے جو سامنے سے اور پیچھے بھی دیکھ سکے۔
  • امام کی ولادت وفات پر دوسرے امام کا موجود ہونا ضروری ہے۔
  • امام وہ ہوتا ہے جس کا جسم کو ظاہر سو رہا ہو مگر دل ہر وقت بیدار رہتا ہے۔

امامت

(1) امامت وہ امتیازی اصول ہے جو شیعہ فرقہ اور دوسرے اسلامی فرقوں کے درمیان حد فاصل ہے۔

(۲) امام گناہوں سے معصوم اور عیبوں سے بری ہوتا ہے۔

(۳) امام کی معرفت جزوایمان ہے۔

(۴) امامت کے حقدار صرف حضرت علی اور ان کی اولاد ہے۔

(۵) امام کا انتخاب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

(۶) امامت اہل تشیع کا اصل الاصول ہے [3]۔

رسول اور امام میں فرق

رسول کے پاس جبرائیل فرشتہ جب وحی لے کر آتا ہے تو رسول انہیں دیکھتے ہیں اُن سے بات چیت کرتے ہیں۔ جبکہ امام فرشتہ کی آواز سن سکتا ہے مگر اسے دیکھ نہیں سکتا۔

فقہ

مسائل شریعت کے علم کوفقہ کہتے ہیں۔شیعوں کی ایک فقہ ہے لیکن اہل سنت کے ہاں ہر امام کی فقہ علیحدہ علیحدہ ہے ۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ان سب کی اپنی اپنی فقہ ہے۔فقیہ ایسے عالم کو کہتے ہیں جو دین کی پوری سمجھ رکھتا ہو اور لوگوں کو دینی مسئلے ایسے سمجھائے کہ اُن کو سمجھ آجائے ۔ اہل سنت کے یہ چاروں امام اپنے وقت کے بڑے فقیہ کہلاتے ہیں۔

سب نے ان کی علمی برتری یعنی (اجتہاد ) کو مان لیا۔

ائمہ مجتہدین

(1) امام ابوحنیفہ (۲) امام مالک (۳) امام شافعی (۴) امام احمد بن حنبل کو سنی فرقے ائمہ مجتہدین کہتے ہیں۔

سواد اعظم

سواد اعظم سے مراد اہل سنت والجماعت ہے۔

جو فقہ کے چار ائمہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل کے مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اہلسنت و جماعت کے چار فرقے ہیں ان کا آپس میں اصولی طور پر اتفاق ہے ۔

سب اپنے آپ کو اہل سنت و جماعت کہتے ہیں۔ دو فرقوں یعنی فقہ اور تصوف کے درمیان نماز، روزہ، حج ، زکوۃ میں تقریباً کوئی اختلاف نہیں ۔ پانچ وقت نمازیں رمضان کا روزہ شادی بیاہ کے قوانین ایک جیسے ہیں۔ [4]۔

امام ابو حنیفہ

امام ابوحنیفہ کا نام نعمان ابن ثابت ابن زوطیٰ ہے۔ امام ابوحنیفہ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے، وفات ۱۵۰ ہجری میں پائی۔ اُن کی کل عمر 70 سال تھی۔ امام ابو حنیفہ اسلام میں پہلے عالم دین ہیں جنہوں نے فقہ اور اجتہاد کی بنیادرکھ کر ساری امت رسول پر احسان کیا۔ امام ابو حنیفہ تمام فقہاء و محدثین کے بلا واسطہ یا بالواسطہ استاد ہیں۔ امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل سب ان کے شاگرد ہیں ان کے علاوہ بلا واسطہ شاگرد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہیں جن میں سے اکثر محدثین ہیں ۔ اُمت محمدیہ کے بڑے بڑے اولیاء اللہ ،غوث و قطب، ابدال، اوتار امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں جس قدر اولیاء اللہ مذہب حنفی میں ہیں دوسرے مذہب میں نہیں ۔ مالکی شافعی حنبلی غرضیکہ یہ سب حنفی مذہب کے اولیاء اللہ ہیں ۔ آج تقریباً سارے اولیاء اللہ حنفی ہیں اس طرح تمام چشتی، قادری، نقشبندی اور سہروردی مشائخ سب حنفی ہیں۔

لقب امام اعظم

امام ابوحنیفه (امام اعظم ) شریعت کے امام اول ہیں اس لئے ان کو امام اعظم بھی کہتے ہیں ۔امام اعظم کا مذہب حنفی ہے ۔اکثر سنی مسلمان حنفی ہیں۔ تمام ائمہ نے اس بنیاد پر عمارت قائم کی۔ امام ابو حنیفہ تمام فقہا ء ومحد ثین کے اُستاد بھی ہیں۔ امام ابو حنیفہ نے حنیف کی نسبت سے یہ کنیت رکھی تھی کیونکہ وہ خدا کے معاملہ میں کسی کی رور عایت نہ کرتے تھے اور جو کچھ کہتے تھے حق سمجھ کر کہتے تھے۔ کیونکہ وہ دین حنیف کے ماننے والے تھے۔ نعمان ابوحنیفہ پرانے مسلمان نہ تھے ، سید نہ تھے، صدیقی فاروقی نہ تھے، عثمانی اور علوی نہ تھے، کسی بادشاہ کے بیٹے نہ تھے بلکہ فارسی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ مسلمان ہو جانے کے بعد زوطی کا نام بدل کر نعمان ہوا نعمان کے بیٹے ثابت اور ثابت کے بیٹے نعمان ابو حنیفہ ۔ امام اعظم صاحب نے اپنے دادا کے نام پر اپنا نام رکھ لیا تھا۔ امام ابو حنیفہ تابعی تھے۔ امام ابوحنیفہ نے ۹۳ بزرگوں اور بڑے عالموں سےتفسیر ، حدیث فقہ میں کسب فیض کیا۔انہوں نے امام باقر اور امام جعفر صادق سے بھی فیض حاصل کیا۔ انہوں نے وفات پائی تو قبل از دفن چھ بار نماز جنازہ پڑھی گئی۔ پہلی مرتبہ کم وبیش پچاس ہزار آدمیوں کا مجمع تھ۔ا دفن کے بعد ۲۰ دن تک لوگ جنازے کی نماز پڑھتے رہے۔ بغداد میں مقبرہ خیز رن کے باب الطاق میں دفن ہوئے۔ امام ابوحنیفہ نے مذہب کا قانون اتنا سلجا دیا کہ کسی مسئلہ میں الجھاؤ نہیں ہوتا۔ علماء کا خیال ہے کہ اگر امام ابوحنیفہ پیدا نہ ہوتے تو دین کی کتنی باتیں اندھیرے میں رہ جاتی۔

حنفی مذہب

امام ابوحنیفہ ثابت بن نعمان اپنے علمی وعملی کمالات کی بدولت امام اعظم بھی کہلاتے ہیں۔ تمام مشہور ائمہ فقہ میں سے تابعی ہونے کا شرف صرف امام ابو حنیفہ کو حاصل ہے۔ امام ابوحنیفہ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے۔ حنفی مسلک کے بانی بھی کہلاتے ہیں ۔امام ابوحنیفہ کے مسلک کا نام اہل قیاس کے نام سے بھی مشہور ہے۔ حنفی مسلک چونکہ سلطنت عباسیہ کا عدل وقضا کے باب میں سرکاری مسلک تھا اہل عراق کا بالعموم یہی مذہب تھا۔ سلطنت عثمانیہ کا بھی سرکاری فقہی مسلک یہی تھا۔ سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر ممالک یعنی ترکی ، مصر ، لبنان، تونس، البانی، بلقان، افغانستان، ترکستان، پاکستان و ہندوستان اور چین میں حنفی فقہ ہی غالب رہی ہے۔دنیا بھر کے دو تہائی مسلمان فقہی مسلک کے پیروکار ہیں۔

(1) یہ فقہ انسانی عقل و فکر سے قریب تر ہے۔

(۲) اس فقہ میں سادگی کا عنصر دوسرے مذاہب سے زیادہ ہے لہذا عوام کو اپیل کرتا ہے

(۳) اس فقہ میں ترامیم و اضافہ اور تغیر وتبدل کی وسیع گنجائش موجود ہے ۔

(۴) فقہ حنفی میں معاملات کے حصے میں وسعت اور استحکام جو تہذیب و تمدن کے لئے بہت ضروری ہے دوسری تمام فقہوں سے زیادہ ہے۔

(۵) فقہ حنفی نے غیر مسلم رعایا کو فیاضی سے حقوق بخشے ہیں جس سے نظام مملکت میں بڑی آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔

امام مالک

امام مالک ۹۰ھ میں مدینے کے اندر پیدا ہوئے۔ وفات: 179 ہجری میں ۸۹ سال کی عمر میں ہوئی ۔امام مالک کے باپ کا نام انس تھا اُن کےپردادا یمن کے رہنے والے تھے۔ عامر نام تھا اور مدینہ آگئے تھے۔ امام مالک کے دادا کا نام بھی مالک تھا۔ مالک بن عامر نے صحابہ کی زیارت کی تھی ۔ امام مالک جب تک نافع زندہ رہے ان کے حلقہ درس میں رہے۔ یہ نافع حضرت عائشہ کے بھانجے اور شاگرد تھے۔ جو لوگ حدیث کا علم رکھتے ہیں وہ شیخ الحدیث کا درجہ رکھتے ہیں روایتوں کو اس طرح لکھتے ہیں [5]۔مالک نے سنا نافع سے اور نافع نے سنا حضرت عبداللہ بن عمر سے اس کو سونے کی زنجیر کہ کربھی پکارتے ہیں[6]۔ امام مالک کی تمام تصانیف میں موطا کا درجہ سب سے بڑا ہے جسے علمائے دین نے قرآن کے بعد اول درجہ کی کتاب مانا ہے۔ اور یہی وہ پہلا حدیث کا مجموعہ ہے جو مدینہ سے ضیابار ہوا۔ قرآن کے بعد پہلی کتاب کلام الرسول ہے جو موطا کے نام سے اہل اسلام کے ہاتھ آئی۔ امام بخاری کی صحیح البخاری تقریبا سو سال بعد مرتب ہوئی تو یہ درجہ اس کو میسر آیا۔ ان کی فقہ کامدار اہلِ مدینہ کے علم و عمل پر ہے ۔مالکی مذہب حجاز، مصر، بصرہ، سوڈان اور طرابلس میں غالب رہا ہے۔ اس مسلک پر عمل کرنے والوں کی تعداد چار کروڑ سے زائد ہے۔ افریقہ میں اب تک مالکی مذہب غالب ہے مالکی فقہاء عقائد میں اشعری کے پیرو ہیں اور اشعریت میں انہیں غلو بھی ہے۔

مالکی فقہ کی خصوصیات

(1) اس فقہ میں اجتہاد کی کم نوبت آتی ہے زیادہ تر دارو مدار کتاب و سنت اور آثار صحابہ و تابعین پر رکھا جاتا ہے۔

(۲) کتاب وسنت اور اجماع و قیاس کے علاوہ اس فقہ میں عمل اہل مدینہ کو بھی ایک دلیل کا درجہ دیا جاتا ہے۔

(۳) اس فقہ میں مصالح مرسلہ ( مصلحت عامہ ) کو بھی اصول فقہ میں داخل کیا گیا ہے مالکی فقہ حنفی فقہ کے بالکل قریب ہے۔

(۴) اہل فقہ کے پیرو اہل حدیث کہلائے جب کہ حقیقی اہل الرائے کے لقب سے مشہور ہوئے۔

(۵) اس فرقہ میں تصنیف و تالیف کا وہ چرچا نہیں رہا جو حنفی اور شافعی مکاتب فقہ میں رہا ہے۔(6) امام مالک جبری طلاق کو خلاف شریعت سمجھتے تھے ۔امام مالک اگر کوئی جبر اور دباؤ سے طلاق دیدے تو اس طلاق کو طلاق نہیں مانتے اور زبردستی کی بیعت بھی خلاف شریعت سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بھی فتوی دے چکے تھے کہ خلافت نفس ذکیہ کا حق ہے ۔ فقہ مالکی بعض اوقات قیاس کو چھوڑ کر مصلحت عامہ کے موافق فتوی دیتے تھے اسے استحسان کہتے ہیں۔

مشہور کتب

مختصر کبیر، مختصر اوسط، مختصر صغیر، کتاب المبسوط علی مذهب المالکیہ ۔

امام شافعی

شافعی مذہب کے بانی امام محمد بن ادریس شافعی ۱۵۰ ھ میں صوبہ عسقلان بمقام غزہ میں پیدا ہوئے ۔ (۲۰۴ھ میں مصر میں وفات پائی۔ دو برس کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ماں کی آغوش میں پرورش پائی۔ دس برس کی عمر میں قرآن مجید اور موطا حفظ کر لیا۔ تیرہ سال کی عمر میں امام مالک کے درس میں شامل ہوئے۔ امام شافعی امام مالک کے شاگرد تھے۔ بڑے بڑے ماہرین لغت، ائمہ اور مجتہدین نے امام شافعی کو مجتہدین کا سرتاج کہا ہے۔ وہ کلام عرب کے ماہر تھے اور بڑی وسیع معلومات رکھتے تھے ایک اندازے کے مطابق دنیا کے دس کروڑ مسلمان اس مسلک کے پیرو کار ہیں جو مصر ،فلسطین ، اُردن، شام، لبنان، عراق، حجاز پاک و ہند میں پائے جاتے ہیں۔

شافعی فقہ

یہ مسلک امام محمد بن ادریس شافعی قریشی کی طرف منسوب ہے یہ امام مالک کے شاگرد تھے فقہ میں پہلے امام مالک کے پیرو تھے پھر کثرت اسفار اور تجربہ کی وسعت سے حنفی اور مالکی فقہ کے بین خود اپنا ایک الگ مسلک تجویز کیا۔ مصر آنے سے پہلے کے شافعی مذہب کو مذہب قدیم اور مصر آنے کے بعد والے مسلک کو مذہب جدید کہا جاتا ہے۔ مصر میں امام شافعی نے اپنے بہت اقوال سے رجوع کرکے جدید راے قائم کی تھی۔ انکی آمد سے پہلے حنفی اور مالکی تھا۔ لیکن اس کے بعد وہاں شافعی فقہ کا غلبہ ہوگیا۔ فاطمی حکومت نے اس فقہ کے رواج کو ختم کرایا مگر بعد میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے مصر کو فتح کر کے وہاں از سرنو شافعی فقہ رائج کی ۔ عراق اور فارس میں نظام الملک طوسی کے مدارس نے اور مصر و شام میں ایوبی خاندان کے حکمرانوں نے اس فقہ کو بہت تقویت پہنچائی۔

شافعی فقہ کے خصائص

  • یہ مسلک حنفی و مالکی مذاہب کے قریب قریب ہے۔ کیونکہ امام شافعی کو امام مالک اور محمد بن الحسن ہر دو کی شاگردی میسر آئی تھی۔
  • بر اختلافی مسئلہ میں امام شافعی کے دو قول ہیں قدیم اور جدید ۔
  • مذہب شافعی کے بانی اور شاگردوں کے فقہاء کو کثیر التصانیف ہونے کا شرف حاصل ہے۔
  • اکثر محدثین شافعی میں لہذا اب اہل الحدیث کا لقب مالکی کی بجائے تقریبا شافعی فقہاء کے لئے مخصوص ہو کہ رہ گیا ہے۔
  • اس مسلک میں استحسان اور مصالح مرسلہ کی نفی کی گئی ہے۔
  • علم عقائد و کلام میں اکثر شافعی حضرات اشعری ہیں۔
  • بڑے بڑے ائمہ تصوف بھی شافعی گزرے ہیں۔
  • علم اصول فقہ کی بنیاد و امام ابوحنیفہ نے رکھی لیکن امام شافعی اور اُن کے اصحاب و مقلدین نے بنایا۔
  • علم حدیث اور اصول حدیث کی خدمت میں بھی یہ حضرات پیش پیش رہے۔
  • امام شافعی لغت فقہ اور حدیث کے امام تھے اجماع ، اجتہاد کے موضوعات پر مفصل کلام کیا ۔ امام شافعی کی مشہور کتاب (الام) ہے جس میں انہوں نے عبادات، معاملات تعزیرات اور منا کات کے موضوعات پر فصل لکھا ہے۔

امام احمد بن حنبل

امام احمد بن حنبل قریش کے خاندان میں سے تھے ۔ان کا شجرہ نسب حضرت ابراہیم تک پہنچتا ہے۔ امام احمد بن حنبل شیبانی کی ولادت ۶۴ ھ بغداد میں ہوئی وفات ۲۳۱ ھ میں ہوئی ۔عمر 77سال تھی۔ بقول شاہ ولی اللہ کے امام احمد بن حنبل محدثین میں جلیل القدر تھے۔ امام احمد بن حنبل کے فقہی مسلک کی بنیاد پانچ اصولوں پر ہے۔

1) کتاب و سنت سے استدلال۔

(۲) صحابہ کے متفق علیہ فتاویٰ۔

(۳) صحابہ کے مختلف اقوال بشر طیکہ کتاب و سنت کے مطابق ہوں۔

(4) مرسل اور ضعیف احادیث

(5) قیاس: ظاہر ہے کہ اس مسلک میں اجتہاد و قیاس کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ مگران پر اجتہاد اور قیاس کی بجائے حدیث کا غلبہ ہے۔ آج کل سلفی بالحدیث کا لقب بالعموم حنبلی

حضرات کے لئے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔ حدیث کی کتاب مسند احمد کے علاوہ امام احمد بن حنبل کی اور بھی کئی تصانیف ہٰیں مثلاً کتاب الطاعة الرسول ، کتاب الصلوٰة

اور بھی بہت سی کتب ہیں۔ ابتدائی صدی میں حنبلی مذہب عراق تک محدود رہا پھر یہ مصر، شام تک پہنچا حنفی فقہ کے مانے والوں کی تعداد میں لاکھ سے زائد ہے [7]۔

حنبلی فقہ کی خصوصیات

(1) اس فقہ میں اجتہاد و قیاس کی نوبت شاذ و نادرہی ہے۔

(۲) حنبلی حضرات کا مسلک ظاہریہ سے قریب تر ہے وہ ظواہر حدیث اور الفاظ پر زیادہ انحصار رکھتے ہیں۔

(۳) ان حضرات میں تشدد و تعصب کا عنصر کافی حد تک نمایاں ہے۔ یہ لوگ سخت گیری سے امر بالمعرف ونہی عن المنکر کے قائل رہے ہیں ۔

(4) مشہور تصنیف المسند ہے اس میں چالیس ہزار سے زائد احادیث ہیں۔

(۵) امام احمد بن حنبل مسائل کا استنباط قرآن ، حدیث ، اقوال، وافتاء صحابہ کرام اور قیاس سے کرتے تھے۔

(۶) سعودی عرب کی حکومت کا یہ سرکاری فقہی مسلک ہے۔ اس فقہی مسلک کی اشاعت بہت کم رہی ہے موجودہ دور میں اس کا طوطی نجد حجاز میں بولتا ہے۔

ابن تیمیہ

شیخ تقی الدین احمد بن تیمیه مولانا شاہ ولی اللہ اپنی کتاب اشعری میں لکھتے ہیں کہ میں صفات الہی کے مسئلے میں اور اللہ کے فوق العرش ہونے کے بارے میں امام احمد کے مذہب پر ہوں اور اس میں شک نہیں کہ اللہ کو عرش کے ساتھ جو خصوصیت ہے وہ اور مخلوق کے ساتھ نہیں۔

(۲) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کو جانا ممنوع قرار دیتے ہیں ۔زیارت کو منع نہیں کیا بلکہ خاص زیارت کے ارادے سے سفر اختیار کرنے کو منع کیا ہے۔

(۳) غوث و قطب و خضر سے انکار کیا ہے اور صوفیہ کے ساتھ اس بات میں متفق نہیں۔

(۴) محمد بن حسن عسکری کو امام مہدی نہیں مانتے جو شیعہ کے نزدیک امام دواز دہم ہیں۔ یہی عقیدہ اہل سنت کا بھی ہے،

(۵) ابن تیمیہ کا طلاق کے باب میں یہ عقیدہ ہے کہ جب عورت کو ایک کلمے سے تین طلاقیں دی جائیں تو ایک ہی طلاق لازم آتی ہے [8]۔

حوالہ جات

  1. موسیٰ خان جلائر، ۷۳ فرقے، کی فکشن ہاؤس ۱۸۔ مزنگ روڈ لاہور ۔ (۲) ائمہ مجتبدین ، مولانا مقبول احمد ، مکتبہ رشید یه قاری منزل پاکستانی چوک کراچی، ص79
  2. اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ص257
  3. سید احمد حسین، بارہ امام،کتب خانہ اثنا عشری مغل حویلی اندرون موچی درواز و لاہور ص122
  4. محمد نجم الغنی خاں، مذہب سلام، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ص38
  5. پروفیسر میاں منظور احمد، فقہ واصول فقہ، علمی کتاب خانہ کبیر سٹریٹ اردو بازار لاہور، ص300
  6. پروفیسر میاں منظور احمد، فقہ واصول فقہ، علمی کتاب خانہ کبیر سٹریٹ اردو بازار لاہور، ص300
  7. چوہدری غلام رسول ایم ۔اے مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ ، ، علمی کتاب خانہ کبیر سٹریٹ اردو بازار لاہور، ص129
  8. نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا، موسی کاظم ریٹی گن روڈ لاہور، ص162