مندرجات کا رخ کریں

حسن بن علی بن محمد

ویکی‌وحدت سے

امام حسن عسکری علیہ السلام اثنا عشری شیعوں کے گیا رہویں امام ہیں جو 232 ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد امام ہادی علیہ السلام کو اس وقت کے خلیفہ نے سامرہ بلوایا ۔ وہ بھی اپنے والد کے ساتھ اس شہر میں چلے آئے اور اپنی شہادت تک عباسی خلفاء کے کارندوں کی نگرانی میں رہے۔ متوکل، منتظر، مستعین، معتز، مہتدی اور معتمد نامی چھ عباسی خلفاء نے آپ کی مختصر زندگی میں حکومت کی اور آخر کار 28 سال کی زندگی اور 6 سال کی امامت کے بعد 260 ہجری میں معتمد کے حکم سے انہیں شہید کر کے دفن کیا گیا۔ آپ کو بھی سامرہ شہر میں اپنے والد امام ہادی علیہ السلام کی قبر کے پاس دفن کیا گیا۔

سوانح عمری

امام حسن عسکری علیہ السلام کی ولادت بروز جمعہ آٹھ ربیع الثانی سنہ 232 ہجری کو ہوئی۔ ان کے والد دسویں امام ہادی علیہ السلام ہیں۔ ان کی والدہ کے نام کے بارے میں مختلف روایات ہیں جو ام ولد بھی تھیں۔ بعض ذرائع میں، ان کا نام؛ "حدیث"، "سوسن" یا "سلیل" کا ذکر ہے [1]۔

ایک روایت کے مطابق، امام علی علیہ السلام کے ساتھ گفتگو میں پیغمبر اسلام نے گیارہویں امام سمیت تمام ائمہ کی ولادت کا اعلان کیا اور امام حسن عسکری کے بارے میں فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے امام ہادی علیہ السلام کے صلب میں ایک نطفہ قرار دیا جس کا نام اس نے حسن رکھا اور اسے شہروں میں نور کے طور پر رکھا، اسے اپنا خلیفہ بنایا اور زمین پر اپنے جد کی امت کے لئے باعث عزت اور ان کے شیعوں کا ہادی و راہنما بنایا اور ان کے لئے شفیع قرار دیا۔خدا نے انہیں ان کے مخالفین کے لیے عذاب کا ذریعہ بنایا اور انکے دوستوں اور انہیں اپنا امام ماننے والوں کے لیے حجت اور دلیل بنایا۔ [2]

امام حسن عسکری، ان کے والد اور دادا "ابن الرضا" کے نام سے مشہور تھے ۔اور 234ھ میں جب ان کی عمر دو سال سے زیادہ نہ تھی تو اپنے والد کے ساتھ متوکل کے بلاوے پر اپنے والد کے ساتھ سامرہ چلے گئے۔ اور اپنی بابرکت زندگی کے اختتام تک اسی شہر میں رہنے مجبور پر تھے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام نے نرجس (یا حکیمہ) (رومی قیصر کے بیٹے یشوعا کی بیٹی کہ جس کی ماں کا نسب حضرت عیسیٰ کے ایک حواری کی شمعون سے ملتا ہے) سے شادی کی۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کا ایک ہی بیٹا تھا جو حضرت مہدی علیہ السلام (امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف) اور شیعوں کے آخری امام ہیں۔

امام حسن عسکری کی کنیت اور لقب

ان کی کنیت ابو محمد ہے، اور یہ کنیت ان کے لئے امام ہادی علیہ السلام نے رکھی تھی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امام منتظر کے والد ہیں، جنہیں ائمہ طاہرین کی روایات میں نبی اکرم کا ہمنام کہا گیا ہے۔

آپ کے القاب میں سے ہر ایک آپ کی نمایاں اور اعلیٰ صفات کا آئینہ دار ہے:

  • خالص: وہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھے۔
  • ہادی: وہ کائنات کے لئے ہدایت کی علامت اور راہ تلاش کرنے اور سیدھے راستے پر چلنے کی علامت تھے۔
  • عسکری: سامرا کو ایک فوجی علاقہ سمجھا جاتا تھا اور امام کو وہاں (یا وہاں کے محلے میں ) رہنے کی وجہ سے "عسکری" کا لقب دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ جیسا کہ مورخین نے تصریح کی ہے کہ اگر صرف "عسکری" کا لقب استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب امام حسن عسکری ہے، نہ کہ ان کے والد۔
  • زکی: وہ اپنے زمانے کے سب سے شریف اور پاکیزہ انسان تھے اور انہوں نے نیک اعمال کی راہ میں اپنی روح اور دل کو پاک کیا تھا۔
  • ابن الرضا: یہ وہ لقب ہے جس کے لیے امام جواد اور امام عسکری مشہور ہیں۔ [3]

امامت

حضرت امام ہادی علیہ السلام نے اپنے ایک ساتھی کو لکھا: میرے بیٹے ابو محمد،،خلقت کے لحاظ سے، آل محمد سب سے صحت مند ہیں، اور ان کی حجت سب سے زیادہ مضبوط ہے، اور وہ میرے بیٹے اور جانشین ہیں اور امامت و علم کے حامل ہیں اور تم نے جو بھی مجھ سے پوچھا ہے اس سے پوچھو۔

شاہویہ بن عبداللہ کہتے ہیں: دسویں امام علیہ السلام نے مجھے اس مضمون کا ایک خط لکھا: " تم نے امام کے بارے میں سوال کیا اورتم اس کے لئے فکر مند ہو، لیکن تم پریشان نہ ہو! خدا لوگوں کو ہدایت کے بعد گمراہ نہیں کرتا... اب میرے بعدتمہارا امام میرا بیٹا ابو محمد ہے [4]۔

امام حسن اور قابل طلباء کی تربیت

امام حسن عسکری علیہ السلام دیگر معصوم ائمہ کی طرح شاگردوں کی تربیت کے لئے خاص اہتمام کیا۔ جیسا کہ شیخ طوسی نے آپ کے سو سے زائد اصحاب اور شاگردوں کا ذکر کیا ہے۔

شہادت امام حسن عسکری علیہ السلام

عبیداللہ بن خاقان کے بیٹے کہتے ہیں: ایک دن کچھ لوگ میرے والد کے پاس جو ایک معتبر وزیر تھے، خبر لائے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام بیمار ہیں۔

میرے والد نے جلدی سے یہ خبر خلیفہ کو دی۔ خلیفہ نے اپنے پانچ معتمدین کو، جن میں نحریر خادم بھی شامل تھا، حکم دیا کہ امام کے گھر پر نظر رکھی جائے اور روزانہ صبح و شام ان کے معائنہ کے لیے ایک طبیب مقرر کیا۔ دو دن کے بعد بتایا گیا کہ ان کی بیماری مزید شدید ہو گئی ہے۔

میرے والد امام کے پاس گئے اورطبیبوں کو حکم دیا کہ ان سے الگ نہ ہوں اور ساتھ ہی قاضی القضاۃ سے کہا کہ دس مشہور علما کو امام علیہ السلام کے ساتھ رکھیں۔

بظاہر یہ سب اس لئے تھا تاکہ سب کو یہی لگے کہ وہ اپنی طبیعی موت سے اس دنیا سے گئے ہیں۔ بہرحال امام شہید ہوئے اور اسی شہر سامرا میں اور اسی گھر میں دفن ہوئے جہاں ان کے والد کی تدفین ہوئی تھی۔ [5]

رہبر انقلاب اسلامی کی نظر میں امام حسن عسکری (ع) کی اہمیت

امام حسن عسکری علیہ السلام کی سیاسی روش میں سب سے اہم مسئلہ نظام مرجعیت کو عوام کے درمیان پہنچانا تھا اور دور غیبت کبری میں فقیہ کی حکومت کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں:

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے سامراء جیسے شہر میں رہ کر جو کہ ایک قید کی مانند تھا، شیعیت کی ترویج کے لئے بہت ہی عظیم کام انجام دیا تھا، امام نے ایک عظیم نیٹ ورک بنایا تھا جس کے ذریعے دینیات کے ساتھ ساتھ علوم اسلامی کی کھل کر تبلیغ ہو رہی تھی، یہ صرف اس بات تک ہی محدود نہيں تھا کہ آپ روزہ، نماز، طہارت اور نجاسات پر پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے تھے بلکہ عہدہ امامت کو اسی معنی میں جس معنی میں امامت کو ہونا چاہئے، قائم رکھا تھا... آپ امت سے پوری طرح وابستہ رہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی سیاسی روش میں سب سے اہم مسئلہ نظام مرجعیت کو عوام کے درمیان پہنچانا تھا اور دور غیبت کبری میں فقیہ کی حکومت کو عملی جامہ پہنانا تھا[6]۔

سامرا میں رہتے ہوئے امام حسن عسکری علیہ السلام نے پورے عالم اسلام سے رابطہ قائم کر لیا

امام حسن عسکری علیہ السلام کے فضائل کی گواہی دشمنوں نے بھی دی، امام نے سامرا میں محصور ہونے کے باوجود پورے عالم اسلام سے رابطہ قائم کر لیا، ڈھائی سو سالہ سرکاری دشمنی کے نشانے پر رہنے کے باوجود کیسے بچا رہا مکتب تشیع،

آیت اللہ العظمی خامنہ کا بصیرت افروز تجزیہ

فرزند رسول حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے ہم گیارہویں امام کے بارے میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی تقاریر کے چند اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

فضیلت تو وہ ہے جس کی گواہی دشمن بھی دے

ہمارے اس امام کے فضائل، علم و دانش، تقوی و طہارت، ورع و عصمت، دشمنوں کے مقابل بے مثال شجاعت اور سختیوں پر صبر و استقامت کی گواہی اپنے پرائے، معتقدین اور غیر معتقدین، موافقین و مخالفین سب دیتے ہیں۔ اس عظیم انسان نے، اس باشکوہ ہستی نے جب شہادت پائی تو آپ کی عمر مبارک کل اٹھائیس سال کی تھی۔ تشیع کی مایہ ناز تاریخ میں اس طرح کی مثالیں کم نہیں ہیں۔ ہمارے امام زمانہ علیہ السلام کے والد ماجد اتنے فضائل اور بلند مقامات کے بعد بھی دشمنوں کی مجرمانہ حرکت اور زہر خورانی کا نشانہ بن کر جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ محض اٹھائیس سال کے تھے۔

اس طرح حضرت، نوجوانوں کے لئے بہترین اسوہ ہیں۔ نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام جو جواد الائمہ سے ملقب ہیں پچیس سال کی عمر میں شہید کر دئے گئے اور گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اٹھائیس سال کی عمر میں اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ لیکن عظمت و کرامت کا یہ عالم ہے کہ صرف ہم (شیعہ) آپ کے قصیدہ خواں نہیں بلکہ مخالفین اور دشمن بھی، آپ کو امام نہ ماننے والے افراد بھی اس کے معترف ہیں۔

منصب امامت، اہل بیت رسول علیہم السلام سے حاکموں کے حسد کی وجہ

یہ بزرگوار ہستیاں، ہمیشہ جدوجہد میں مصروف رہیں۔ کیونکہ مسند حکومت پر جو قابض تھا وہ بھی اپنی دینداری کا دعویدار تھا۔ وہ بھی ظاہری طور پر دینی احکام پر عمل کرتا تھا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات دینی امور میں امام علیہ السلام کے نظریات کو قبول بھی کرتا تھا۔ (جیسے وہ واقعات جو آپ نے مامون کے تعلق سے سنے ہیں کہ اس نے صریحی طور پر امام علیہ السلام کی رائے تسلیم کی۔) یعنی ان کے نزدیک کبھی کبھی فقہی مسائل میں امام کی رائے پر عمل کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا۔

بلکہ اہل بیت کے خلاف ریشہ دوانیوں اور ان سے دشمنی کی وجہ یہ تھی کہ اہل بیت علیہم السلام خود کو امامت کا حقدار مانتے تھے اور اعلان کرتے تھے کہ ہم امام ہیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے جو منی تشریف لے گئے تھے، فرمایا؛ "إِنَ‌ّ رَسُولَ اللَّهِ کانَ الْاِمامُ" (یعنی بیشک رسول اللہ امام تھے۔) اس کے بعد آپ نے ایک ایک کرکے سارے نام لئے اور اپنے نام پر پہنچے تو فرمایا؛ میں امام ہوں۔ حاکمان وقت کے خلاف سب سے بڑی تحریک یہی تھی۔

کیونکہ جو حاکم بن بیٹھا تھا اور خود کو پیشوا اور امام سمجھ رہا تھا، وہ بھی دیکھتا ہے کہ امام کے اندر جن اوصاف اور قرائن کا ہونا ضروری ہے وہ سب حضرت میں موجود ہیں، جبکہ اس کے اندر نہیں پائے جاتے۔ اس لئے وہ امام کے وجود کو اپنی حکومت کے لئے خطرہ تصور کرتا تھا، کیونکہ امامت کا حقیقی دعویدار موجود ہے۔ حاکمان وقت اسی جذبے کے تحت جنگ کرتے رہے اور ائمہ علیہم السلام بھی ہرگز پیچھے نہیں ہٹے۔ ظاہر ہے کہ اس جدوجہد کے دوران ائمہ علیہم السلام جن تعلیمات، فقہی احکام اور اخلاقیات کی تبلیغ کرتے تھے وہ بھی اپنی جگہ پر خاص اہمیت رکھتے تھے۔

زیادہ سے زیادہ شاگردوں کی تربیت اور شیعوں کے آپسی رابطوں کا دائرہ روز بروز بسیع تر ہوتا گیا۔ انھیں چیزوں کی وجہ سے شیعوں کا وجود باقی رہا۔ ورنہ آپ ایک ایسے مسلک کے بارے میں سوچئے کہ ڈھائی سو سال تک حکومت جس کی دشمن رہی ہو۔ اس کا نام و نشان باقی نہیں رہےگا۔ ایسے مسلک کو مٹ جانا چاہئے۔ لیکن آج آپ دنیا میں دیکھئے کہ کیا عالم ہے؟! شیعہ فرقہ کہاں پہنچ چکا ہے؟! امام جعفر صادق، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام کی شان میں جو اشعار لکھئے گئے ہیں ان میں یہ نکتہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ان ہستیوں نے جد و جہد کی ہے اور اسی جدوجہد میں اپنی جان قربان کر دی۔ یہ ایک تحریک ہے جو اپنی طے شدہ منزل کی طرف بڑھ رہی ہے۔

ائمہ کی غریب الوطنی کی شدت جتنی بڑھی شیعوں کا رابطہ اتنا ہی وسیع تر ہوا

امام علی رضا، امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام کے زمانے میں شیعوں کا رابطہ دوسرے ادوار سے زیادہ وسیع تر ہوا ہے۔ کسی بھی دور میں امام سے شیعوں کے روابط اور پورے عالم اسلام کی سطح پر ان کا نیٹ ورک ایسا نہیں رہا جیسا امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام کے زمانے میں تھا۔ وکلا اور نائبین کی موجودگی، وہ واقعات جو حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے نقل کئے جاتے ہیں

کہ مثلا کوئی شخص پیسے لیکر آیا اور امام نے ہدایات دیں کہ کون کون سے کام انجام دئے جائیں، ان واقعات سے اس نکتے کی تائید ہوتی ہے۔ یعنی باوجودیکہ ان دونوں اماموں کو سامرا میں محصور کرکے رکھا گیا تھا اور ان سے پہلے امام محمد تقی علیہ السلام کو الگ انداز سے اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو کسی اور انداز سے محصور رکھا گیا تھا، مگر عوام سے ان کا رابطہ لگاتار وسیع تر ہوتا گیا۔ یہ رابطہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے زمانے سے پہلے بھی تھا، لیکن جب حضرت خراسان تشریف لائے تو آپ کی تشریف آوری کا اس رابطے کی وسعت پر بڑا اچھا اثر پڑا۔

یہ حقیقت ہے کہ یہ بزرگوار ہستیاں شدید غریب الوطنی کے عالم میں رہیں۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ مدینے سے دور، خاندان سے دور، مانوس ماحول سے دور، لیکن اس کے ساتھ ہی ان تینوں اماموں حضرت امام محمد تقی، حضرت امام علی نقی اور حضرت امام حسن عسکری علیہم السلام کے تعلق سے ایک بڑا اہم نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جیسے جیسے امام حسن عسکری کے دور امامت کے آخری ایام کی جانب بڑھتے ہیں، ہمیں نظر آتا ہے کہ غریب الوطنی کی شدت بڑھتی جاتی ہے، مگر ان تینوں اماموں کے زمانے میں ائمہ علیہم السلام کا اثر اور شیعوں کا دائرہ امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے کے مقابلے میں شاید دس گنا زیادہ وسیع تر ہو گیا اور یہ بڑی حیرت انگیز چیز ہے۔ ان ہستیوں کو اتنی زیادہ سختیوں اور زیادتیوں کا جو نشانہ بنایا گیا، شاید اس کی وجہ یہی چیز ہو۔

سامرا میں رہتے ہوئے امام حسن عسکری علیہ السلام نے پورے عالم اسلام سے رابطہ قائم کر لیا

امام علی رضا علیہ السلام کے ایران روانہ ہونے اور خراسان تشریف لانے کے بعد جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں ایک یہی تھا۔ غالبا یہ پہلو بھی بنیادی طور پر امام ہشتم علیہ السلام کے مد نظر رہا ہو۔ اس سے قبل تک شیعہ ہر جگہ اکا دکا بکھرے ہوئے تھے، مگر ان کا آپس میں رابطہ نہیں تھا۔ مایوسی کا عالم، کوئی واضح افق سامنے نہیں تھا، امید کی کوئی کرن نہیں تھی۔ خلفا کی حکومت کا تسلط ہر جگہ قائم تھا۔ اس سے پہلے ہارون تھا اپنی اس فرعونی قوت کے ساتھ۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام جب خراسان آئے اور اس راستے سے گزرے تو لوگوں کی نگاہ اس شخصیت پر پڑی جو علم، عظمت، شکوہ اور صدق و نورانیت کا مرقع تھی۔

لوگوں کی نگاہوں نے ایسی ہستی کو کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس سے پہلے کے ادوار میں کتنے شیعہ خراسان سے سفر کرکے مدینہ جا پاتے تھے اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت کرتے تھے؟ اس دفعہ اس طولانی مسافت کے دوران ہر جگہ لوگوں نے امام کو قریب سے دیکھا۔ بڑا حیرت انگیز منظر تھا۔ گویا لوگ پیغمبر اسلام کی زیارت کر رہے تھے۔ وہ ہیبت، وہ روحانی عظمت، وہ وقار، وہ اخلاق، وہ تقوی، وہ نورانیت، وہ علم کا متلاطم سمندر کہ جو بھی پوچھو، جو بھی چاہو، سب اس کے پاس موجود ہے۔ یہ تو کبھی (ان علاقوں کے) لوگوں نے دیکھا ہی نہیں تھا۔ ایک ہیجان برپا ہو گیا۔

امام خراسان اور مرو پہنچے۔ دار الحکومت مرو تھا، جو اب موجودہ ترکمانستان میں واقع ہے۔ ایک دو سال بعد حضرت کی شہادت ہوتی ہے اور لوگوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ امام علیہ السلام کی آمد، جو ان چیزوں اور اوصاف کی جلوہ نمائی کا باعث بنی جن کے لئے لوگوں کی آنکھیں ترسی ہوئی تھیں، اسی طرح حضرت کی شہادت کے نتیجے میں، جس سے عجیب غم طاری ہو گیا، ان علاقوں کے حالات شیعوں کے حق میں تبدیل ہو گئے۔ ایسا نہیں تھا کہ سب شیعہ ہو گئے ہوں، مگر اتنا ضرور ہوا کہ سب اہل بیت سے محبت کرنے لگے تھے۔

امام رضا علیہ السلام کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے وقت تک یہی ماجرا رہا۔ امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام اسی شہر سامرا میں پورے عالم اسلام سے وسیع روابط قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے، جو حقیقت میں کسی چھاونی کی مانند تھا۔ یہ کوئی بڑا شہر نہیں تھا۔ نو تشکیل یافتہ دار الحکومت تھا؛ «سُرّ من رأى»۔ حکومت کے عمائدین، عہدیداران اور درباری، جبکہ عوام الناس میں سے بس اتنے لوگ جو روز مرہ کی ضرورتیں پوری کر سکیں، وہاں بس گئے تھے۔ ششس جب ہم ائمہ علیہم السلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جس طرح جدوجہد کرتے تھے۔ یعنی صرف یہ نہیں تھا کہ وہ روزہ، نماز، طہارت اور نجاست کے مسائل سے متعلق سوالوں کے جواب دے دیا کرتے تھے۔ منصب امامت کے تمام پہلوؤں اور لوازمات کے ساتھ امام اس منصب پر جلوہ افروز ہوتے تھے اور عوام کے سامنے اپنی بات رکھتے تھے۔ میری نظر میں دیگر پہلوؤں کے ساتھ ہی یہ پہلو بھی قابل غور ہے۔

آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو مدینے سے سامرا لایا گيا اور جوانی کے سن میں، 42 سال کی عمر میں آپ کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ یا حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو 28 سال کے سن میں شہید کر دیا گيا۔ یہ سب پوری تاریخ میں ائمہ علیہم السلام، آپ کے اصحاب اور شیعوں کی تحریک کی عظمت و ہیبت کی نشانی ہے۔ درآنحالیکہ خلفا کی حکومتیں انتہائی سختگیر پولیس اسٹیٹ کی طرح کام کرتی تھیں لیکن اس کے باوجود ائمہ علیہم السلام نے اس انداز سے کارنامے رقم کئے۔ الغرض یہ کہ غریب الوطنی کے ساتھ ہی اس عظمت و وقار پر بھی نظر رہنی چاہئے [7]۔

امام حسن عسکری (ع) نے اسلام کی ترویج کے لئے بے پناہ جدوجہد کی

علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا: امام علیہ السلام کی عظمت و بزرگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پوری کائنات جس مسیحا کی منتظر ہے وہ انہی کے فرزند صالح حضرت امام مہدی عجل ہیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرکے انسانیت کو مسائل سے نجات دلائیں اور عدل و انصاف سے مزین معاشرے تشکیل دیں۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے 8 ربیع الاول امام حسن عسکری علیہ السلام کے یوم شہادت پر اپنے پیغام میں کہا: الحسن ابن علی، ابو محمد کنیت اور عسکری کا لقب پانے والے گیارہویں امام نے نہایت کٹھن اور نامساعد حالات میں اپنے والد گرامی حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت کے بعد منصب امامت سنبھالا۔

سنت و سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سمیت اپنے اجداد سے ودیعت ہونے والے علم، مرتبے، منزلت، روحانیت اور عمل کے ذریعہ اپنے وقت کے عام انسان، عام مسلمان اور حکمران کو رشد و ہدایت فراہم کی۔ جس کے اثرات ان کے دور میں ان کے معاشرے اور ماحول میں واضح انداز میں مرتب ہوئے اور لوگوں کی کثیر تعدادسچائی کی طرف متوجہ ہوئی۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا: محض 28 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہونے والے امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنی مختصرحیات طیبہ میں بھی دین کی ترویج و اشاعت اور حقیقی تعلیمات کے فروغ کے لئے بے پناہ جدوجہد کی اور اس راستے میں اس وقت کے حکمرانوں کے ظلم و ستم اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے مخلصین کے ذریعہ پیغام صداقت عوام تک پہنچایا۔

انہوں نے مزید کہا: فطری تقاضا ہے کہ جب بھی مشکلات گھیرے میں لیتی ہیں اور کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کی انتہا ہوتی ہے توانسانی معاشروں میں نا انصافی، بے عدلی، تشدد اور برائیوں کا رواج ہوتا ہے تو وہ ایک مسیحا کے منتظر ہوتے ہیں کہ جو انہیں مشکلات سے نکالے۔ ظلم کا خاتمہ کرکے معاشرے کو برائیوں سے پاک کرے، ایک پرامن، صالح اور نیکی پر مبنی معاشرہ قائم کرے چنانچہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی عظمت و بزرگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پوری کائنات جس مسیحا کی منتظر ہے وہ انہی کے فرزند صالح حضرت امام مہدی عجل ہیں۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا: دور حاضر میں دنیائے انسانیت کو بالعموم اور عالم اسلام کو بالخصوص جن بحرانوں اور چیلنجز کا سامنا ہے اور انسانی معاشرے جس گراوٹ کا شکار ہوچکے ہیں ان میں انسانوں کو ہدایت اور روحانیت کی ضرورت ہے جو انہیں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کرکے اور اس پر عمل کرکے حاصل ہوسکتی ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی سیرت پر عمل کرکے انسانیت کو مسائل سے نجات دلائیں اور حقیقی اسلامی و جمہوری سسٹم رائج کرکے عدل و انصاف سے مزین معاشرے تشکیل دیں اور اپنا انفرادی و اجتماعی کردار ادا کریں[8]۔

رہبر انقلاب اسلامی کی نظر میں امام حسن عسکری (ع) کی اہمیت

امام حسن عسکری علیہ السلام کی سیاسی روش میں سب سے اہم مسئلہ نظام مرجعیت کو عوام کے درمیان پہنچانا تھا اور دور غیبت کبری میں فقیہ کی حکومت کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں:

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے سامراء جیسے شہر میں رہ کر جو کہ ایک قید کی مانند تھا، شیعیت کی ترویج کے لئے بہت ہی عظیم کام انجام دیا تھا، امام نے ایک عظیم نیٹ ورک بنایا تھا جس کے ذریعے دینیات کے ساتھ ساتھ علوم اسلامی کی کھل کر تبلیغ ہو رہی تھی، یہ صرف اس بات تک ہی محدود نہيں تھا کہ آپ روزہ، نماز، طہارت اور نجاسات پر پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے تھے بلکہ عہدہ امامت کو اسی معنی میں جس معنی میں امامت کو ہونا چاہئے، قائم رکھا تھا... آپ امت سے پوری طرح وابستہ رہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی سیاسی روش میں سب سے اہم مسئلہ نظام مرجعیت کو عوام کے درمیان پہنچانا تھا اور دور غیبت کبری میں فقیہ کی حکومت کو عملی جامہ پہنانا تھا[9]۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مورخہ 10 مئی 2003 کے خطاب سے ماخوذ ایک اقتباس

سامرا میں رہتے ہوئے امام حسن عسکری علیہ السلام نے پورے عالم اسلام سے رابطہ قائم کر لیا

امام حسن عسکری علیہ السلام کے فضائل کی گواہی دشمنوں نے بھی دی، *امام نے سامرا میں محصور ہونے کے باوجود پورے عالم اسلام سے رابطہ قائم کر لیا، *ڈھائی سو سالہ سرکاری دشمنی کے نشانے پر رہنے کے باوجود کیسے بچا رہا مکتب تشیع۔ فرزند رسول حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے ہم گیارہویں امام کے بارے میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی تقاریر کے چند اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

فضیلت تو وہ ہے جس کی گواہی دشمن بھی دے

ہمارے اس امام کے فضائل، علم و دانش، تقوی و طہارت، ورع و عصمت، دشمنوں کے مقابل بے مثال شجاعت اور سختیوں پر صبر و استقامت کی گواہی اپنے پرائے، معتقدین اور غیر معتقدین، موافقین و مخالفین سب دیتے ہیں۔ اس عظیم انسان نے، اس باشکوہ ہستی نے جب شہادت پائی تو آپ کی عمر مبارک کل اٹھائیس سال کی تھی۔ تشیع کی مایہ ناز تاریخ میں اس طرح کی مثالیں کم نہیں ہیں۔ ہمارے امام زمانہ علیہ السلام کے والد ماجد اتنے فضائل اور بلند مقامات کے بعد بھی دشمنوں کی مجرمانہ حرکت اور زہر خورانی کا نشانہ بن کر جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ محض اٹھائیس سال کے تھے۔

اس طرح حضرت، نوجوانوں کے لئے بہترین اسوہ ہیں۔ نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام جو جواد الائمہ سے ملقب ہیں پچیس سال کی عمر میں شہید کر دئے گئے اور گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اٹھائیس سال کی عمر میں اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ لیکن عظمت و کرامت کا یہ عالم ہے کہ صرف ہم (شیعہ) آپ کے قصیدہ خواں نہیں بلکہ مخالفین اور دشمن بھی، آپ کو امام نہ ماننے والے افراد بھی اس کے معترف ہیں۔

منصب امامت، اہل بیت رسول علیہم السلام سے حاکموں کے حسد کی وجہ

یہ بزرگوار ہستیاں، ہمیشہ جدوجہد میں مصروف رہیں۔ کیونکہ مسند حکومت پر جو قابض تھا وہ بھی اپنی دینداری کا دعویدار تھا۔ وہ بھی ظاہری طور پر دینی احکام پر عمل کرتا تھا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات دینی امور میں امام علیہ السلام کے نظریات کو قبول بھی کرتا تھا۔ (جیسے وہ واقعات جو آپ نے مامون کے تعلق سے سنے ہیں کہ اس نے صریحی طور پر امام علیہ السلام کی رائے تسلیم کی۔) یعنی ان کے نزدیک کبھی کبھی فقہی مسائل میں امام کی رائے پر عمل کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا۔

بلکہ اہل بیت کے خلاف ریشہ دوانیوں اور ان سے دشمنی کی وجہ یہ تھی کہ اہل بیت علیہم السلام خود کو امامت کا حقدار مانتے تھے اور اعلان کرتے تھے کہ ہم امام ہیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے جو منی تشریف لے گئے تھے، فرمایا؛ «إِنَ‌ّ رَسُولَ اللَّهِ کانَ الْاِمامُ» (یعنی بیشک رسول اللہ امام تھے۔) اس کے بعد آپ نے ایک ایک کرکے سارے نام لئے اور اپنے نام پر پہنچے تو فرمایا؛ میں امام ہوں۔ حاکمان وقت کے خلاف سب سے بڑی تحریک یہی تھی۔ کیونکہ جو حاکم بن بیٹھا تھا اور خود کو پیشوا اور امام سمجھ رہا تھا، وہ بھی دیکھتا ہے کہ امام کے اندر جن اوصاف اور قرائن کا ہونا ضروری ہے وہ سب حضرت میں موجود ہیں، جبکہ اس کے اندر نہیں پائے جاتے۔

اس لئے وہ امام کے وجود کو اپنی حکومت کے لئے خطرہ تصور کرتا تھا، کیونکہ امامت کا حقیقی دعویدار موجود ہے۔ حاکمان وقت اسی جذبے کے تحت جنگ کرتے رہے اور ائمہ علیہم السلام بھی ہرگز پیچھے نہیں ہٹے۔ ظاہر ہے کہ اس جدوجہد کے دوران ائمہ علیہم السلام جن تعلیمات، فقہی احکام اور اخلاقیات کی تبلیغ کرتے تھے وہ بھی اپنی جگہ پر خاص اہمیت رکھتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ شاگردوں کی تربیت اور شیعوں کے آپسی رابطوں کا دائرہ روز بروز بسیع تر ہوتا گیا۔ انھیں چیزوں کی وجہ سے شیعوں کا وجود باقی رہا۔ ورنہ آپ ایک ایسے مسلک کے بارے میں سوچئے کہ ڈھائی سو سال تک حکومت جس کی دشمن رہی ہو۔ اس کا نام و نشان باقی نہیں رہےگا۔ ایسے مسلک کو مٹ جانا چاہئے۔

لیکن آج آپ دنیا میں دیکھئے کہ کیا عالم ہے؟! شیعہ فرقہ کہاں پہنچ چکا ہے؟! امام جعفر صادق، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام کی شان میں جو اشعار لکھئے گئے ہیں ان میں یہ نکتہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ان ہستیوں نے جد و جہد کی ہے اور اسی جدوجہد میں اپنی جان قربان کر دی۔ یہ ایک تحریک ہے جو اپنی طے شدہ منزل کی طرف بڑھ رہی ہے۔

ائمہ کی غریب الوطنی کی شدت جتنی بڑھی شیعوں کا رابطہ اتنا ہی وسیع تر ہوا

امام علی رضا، امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام کے زمانے میں شیعوں کا رابطہ دوسرے ادوار سے زیادہ وسیع تر ہوا ہے۔ کسی بھی دور میں امام سے شیعوں کے روابط اور پورے عالم اسلام کی سطح پر ان کا نیٹ ورک ایسا نہیں رہا جیسا امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام کے زمانے میں تھا۔ وکلا اور نائبین کی موجودگی، وہ واقعات جو حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے نقل کئے جاتے ہیں کہ مثلا کوئی شخص پیسے لیکر آیا اور امام نے ہدایات دیں کہ کون کون سے کام انجام دئے جائیں، ان واقعات سے اس نکتے کی تائید ہوتی ہے۔

یعنی باوجودیکہ ان دونوں اماموں کو سامرا میں محصور کرکے رکھا گیا تھا اور ان سے پہلے امام محمد تقی علیہ السلام کو الگ انداز سے اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو کسی اور انداز سے محصور رکھا گیا تھا، مگر عوام سے ان کا رابطہ لگاتار وسیع تر ہوتا گیا۔ یہ رابطہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے زمانے سے پہلے بھی تھا، لیکن جب حضرت خراسان تشریف لائے تو آپ کی تشریف آوری کا اس رابطے کی وسعت پر بڑا اچھا اثر پڑا۔

یہ حقیقت ہے کہ یہ بزرگوار ہستیاں شدید غریب الوطنی کے عالم میں رہیں۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ مدینے سے دور، خاندان سے دور، مانوس ماحول سے دور، لیکن اس کے ساتھ ہی ان تینوں اماموں حضرت امام محمد تقی، حضرت امام علی نقی اور حضرت امام حسن عسکری علیہم السلام کے تعلق سے ایک بڑا اہم نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جیسے جیسے امام حسن عسکری کے دور امامت کے آخری ایام کی جانب بڑھتے ہیں، ہمیں نظر آتا ہے کہ غریب الوطنی کی شدت بڑھتی جاتی ہے، مگر ان تینوں اماموں کے زمانے میں ائمہ علیہم السلام کا اثر اور شیعوں کا دائرہ امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے کے مقابلے میں شاید دس گنا زیادہ وسیع تر ہو گیا اور یہ بڑی حیرت انگیز چیز ہے۔ ان ہستیوں کو اتنی زیادہ سختیوں اور زیادتیوں کا جو نشانہ بنایا گیا، شاید اس کی وجہ یہی چیز ہو۔

امام علی رضا علیہ السلام کے ایران روانہ ہونے اور خراسان تشریف لانے کے بعد جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں ایک یہی تھا۔ غالبا یہ پہلو بھی بنیادی طور پر امام ہشتم علیہ السلام کے مد نظر رہا ہو۔ اس سے قبل تک شیعہ ہر جگہ اکا دکا بکھرے ہوئے تھے، مگر ان کا آپس میں رابطہ نہیں تھا۔ مایوسی کا عالم، کوئی واضح افق سامنے نہیں تھا، امید کی کوئی کرن نہیں تھی۔ خلفا کی حکومت کا تسلط ہر جگہ قائم تھا۔ اس سے پہلے ہارون تھا اپنی اس فرعونی قوت کے ساتھ۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام جب خراسان آئے اور اس راستے سے گزرے تو لوگوں کی نگاہ اس شخصیت پر پڑی جو علم، عظمت، شکوہ اور صدق و نورانیت کا مرقع تھی۔

لوگوں کی نگاہوں نے ایسی ہستی کو کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس سے پہلے کے ادوار میں کتنے شیعہ خراسان سے سفر کرکے مدینہ جا پاتے تھے اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت کرتے تھے؟ اس دفعہ اس طولانی مسافت کے دوران ہر جگہ لوگوں نے امام کو قریب سے دیکھا۔ بڑا حیرت انگیز منظر تھا۔ گویا لوگ پیغمبر اسلام کی زیارت کر رہے تھے۔ وہ ہیبت، وہ روحانی عظمت، وہ وقار، وہ اخلاق، وہ تقوی، وہ نورانیت، وہ علم کا متلاطم سمندر کہ جو بھی پوچھو، جو بھی چاہو، سب اس کے پاس موجود ہے۔ یہ تو کبھی (ان علاقوں کے) لوگوں نے دیکھا ہی نہیں تھا۔ ایک ہیجان برپا ہو گیا۔

امام خراسان اور مرو پہنچے۔ دار الحکومت مرو تھا، جو اب موجودہ ترکمانستان میں واقع ہے۔ ایک دو سال بعد حضرت کی شہادت ہوتی ہے اور لوگوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ امام علیہ السلام کی آمد، جو ان چیزوں اور اوصاف کی جلوہ نمائی کا باعث بنی جن کے لئے لوگوں کی آنکھیں ترسی ہوئی تھیں، اسی طرح حضرت کی شہادت کے نتیجے میں، جس سے عجیب غم طاری ہو گیا، ان علاقوں کے حالات شیعوں کے حق میں تبدیل ہو گئے۔ ایسا نہیں تھا کہ سب شیعہ ہو گئے ہوں، مگر اتنا ضرور ہوا کہ سب اہل بیت سے محبت کرنے لگے تھے۔

امام رضا علیہ السلام کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے وقت تک یہی ماجرا رہا۔ امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام اسی شہر سامرا میں پورے عالم اسلام سے وسیع روابط قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے، جو حقیقت میں کسی چھاونی کی مانند تھا۔ یہ کوئی بڑا شہر نہیں تھا۔ نو تشکیل یافتہ دار الحکومت تھا؛ «سُرّ من رأى»۔ حکومت کے عمائدین، عہدیداران اور درباری، جبکہ عوام الناس میں سے بس اتنے لوگ جو روز مرہ کی ضرورتیں پوری کر سکیں، وہاں بس گئے تھے۔

جب ہم ائمہ علیہم السلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جس طرح جدوجہد کرتے تھے۔ یعنی صرف یہ نہیں تھا کہ وہ روزہ، نماز، طہارت اور نجاست کے مسائل سے متعلق سوالوں کے جواب دے دیا کرتے تھے۔ منصب امامت کے تمام پہلوؤں اور لوازمات کے ساتھ امام اس منصب پر جلوہ افروز ہوتے تھے اور عوام کے سامنے اپنی بات رکھتے تھے۔ میری نظر میں دیگر پہلوؤں کے ساتھ ہی یہ پہلو بھی قابل غور ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو مدینے سے سامرا لایا گيا اور جوانی کے سن میں، 42 سال کی عمر میں آپ کو شہید کر دیا جاتا ہے۔

یا حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو 28 سال کے سن میں شہید کر دیا گيا۔ یہ سب پوری تاریخ میں ائمہ علیہم السلام، آپ کے اصحاب اور شیعوں کی تحریک کی عظمت و ہیبت کی نشانی ہے۔ درآنحالیکہ خلفا کی حکومتیں انتہائی سختگیر پولیس اسٹیٹ کی طرح کام کرتی تھیں لیکن اس کے باوجود ائمہ علیہم السلام نے اس انداز سے کارنامے رقم کئے۔ الغرض یہ کہ غریب الوطنی کے ساتھ ہی اس عظمت و وقار پر بھی نظر رہنی چاہئے[10]۔

حواله جات

  1. طبرسی، فضل بن حسن، الوری کا اعلان الہدی کی نشانیاں، جلد 2، ص 131، قم، آل البیت انسٹی ٹیوٹ (علیہ السلام)، پہلا ایڈیشن، 1417 ہجری؛ ابن شہر اشوب مازندرانی، مناقب آل ابی طالب علیہ السلام، جلد 4، ص 422، قم، علامہ پبلی کیشنز، پہلا ایڈیشن، 1379 ہجری
  2. شیخ مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ج ‏2، ص 313، کنگره شیخ مفید، چاپ اول، قم، ‏ 1413 ق
  3. مناقب ابن شہر آشوب، ج4، ص421؛ بحار الانوار، ج 50، ص 236۔ نورالابصار، ص 166
  4. بندوں کے خلاف خدا کے دلائل جاننے میں رہنمائی، جلد 2، صفحہ 320
  5. الکافی، ج1، ص503۔
  6. رہبر انقلاب اسلامی کی نظر میں امام حسن عسکری (ع) کی اہمیت-شائع شدہ از: 31 اگست 2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 31اگست 2025ء
  7. سامرا میں رہتے ہوئے امام حسن عسکری علیہ السلام نے پورے عالم اسلام سے رابطہ قائم کر لیا- شائع شدہ از: 31 اگست 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 اگست 2025ء
  8. امام حسن عسکری (ع) نے اسلام کی ترویج کے لئے بے پناہ جدوجہد کی- شائع شدہ از: 1 ستمبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 ستمبر 2025ء
  9. رہبر انقلاب اسلامی کی نظر میں امام حسن عسکری (ع) کی اہمیت- شائع شدہ از: 24 اکتوبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1اکتوبر 2025ء
  10. سامرا میں رہتے ہوئے امام حسن عسکری علیہ السلام نے پورے عالم اسلام سے رابطہ قائم کر لیا- شائع شدہ از: 20 دسمبر 2015ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 اکتوبر 2025ء