مندرجات کا رخ کریں

سید جمال الدین افغانی

ویکی‌وحدت سے
سید جمال الدین افغانی
دوسرے نامسید جمال الدین افغانی اسد آبادی
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہاسد آباد ایران
یوم وفات5 شوال
وفات کی جگہترکی استانبول
اساتذہسید محمد صادق طباطبائی، شیخ مرتضی انصاری
مذہباسلام، شیعہ
مناصبرساله نیجریه

سید جمال الدین افغانیمسلمان رہنما۔ پورا نام سید محمد جمال الدین افغانی۔ والد کا نام سید صفدرخان۔ مشرقی افغانستان کے کنڑ صوبے کے اسعد آباد میں پیدا ہوئے۔ پان اسلام ازم یا وحدت عالم اسلام و ہندو مسلم اتحاد کے زبردست داعی اور انیسویں صدی میں دنیائے اسلام کی نمایاں شخصیت تھے۔

سوانح عمری

تیرہویں صدی ہجری کے عظیم اسلامی مفکر، با بصیرت عالم، فقیہ، مولف، مصنف، معلم اور مجاہد علامہ سید جمال الدین اسدآبادی ماہ شعبان ۱۲۵۴ ؁ھ کو اسد آباد ہمدان (ایران) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ہمدان کے ایک دینی اور علمی خاندان سے تھا۔ آپ کے والد ماجد جناب سید صفدر رحمۃ اللہ علیہ اور والدہ ماجدہ محترمہ سکینہ بیگم رضوان اللہ تعالی علیہا دونوں ایک خاندان سے تھے، جنکا سلسلہ نسب چند واسطوں سے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔

سید جمال الدین نے کچھ عرصہ امیردوست محمد خان اور ان کے جانشینوں کی خدمت کی۔ افغانستان کے حکمرانوں کی خدمت کے دوران انھوں نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی بھی زیارت کی۔ 1869ء میں انھوں نے یہ ملازمت ترک کردی۔ افغانستان کو خیرباد کہا۔ ہندوستان آئے۔ یہاں سے قاہرہ گئے۔ وہاں ایک دو ماہ کے قیام کے دوران میں اسلامی اتحاد کی ضرورت و اہمیت پر لیکچر دیے اور قاہرہ سے قسطنطنیہ گئے اور 1871ء میں قاہرہ واپس آگئے۔ مصر میں ان کی سرگرمیاں، خاص طور پر وہاں کی قومی تحریک کے لیے ان کی عملی حمایت سے انگریز حکام مشکوک ہو گئے۔


تیرہویں صدی ہجری کے عظیم اسلامی مفکر، با بصیرت عالم، فقیہ، مولف، مصنف، معلم اور مجاہد علامہ سید جمال الدین اسدآبادی ایک اہم پیغام جو آپ نے رہتی دنیا تک کے عالم اسلام کے مبلغین کو دیا وہ یہ کہـــ’’ میںنے عوام کےساتھ ساتھ حکمراں طبقہ کی بیداری کے لئےبھی ان سے ملا ، عوام میں ہماری باتوں کا اثر ہوا لیکن حکمراں طبقہ کے سلسلہ میں ہمیں ناکامی ملی کیونکہ مردہ زمینوں میں کھیتی ممکن نہیں ہے[1]۔

تعلیم

سید جمال الدین جب چار برس کے ہوئے تو اہل علم والدین کے سامنے زانوئے ادب تہہ کر کے قرآن کریم کی تعلیم سے علمی سفر کا آغاز کیا، انہیں ابتدائی برسوں میں ہی قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ہی عربی ادب اور دیگر ابتدائی تعلیم بھی مکمل کر لی۔ اسد آباد میں قبائلی اختلاف کے سبب مزید تعلیم ممکن نہ تھی لہٰذا اپنے والد کے ہمراہ قزوین چلے گئے اور چار برس وہاں قیام فرمایا۔ انہوں نے اس شہر کے حوزہ علمیہ میں مستعدی سے تعلیم حاصل کی۔

پورے جوش و خروش سے مختلف علوم کو حاصل کئے یہاں تک کہ عربی ادب ، منطق اور فقہ و اصول میں اپنے ہم جماعت طلاب پر سبقت حاصل کر لی۔ آپ مدرسہ میں جس موضوع کی بھی کوئی ایک کتاب پڑھتے تو اپنی ذہانت کی بنا پر اس موضوع کی دوسری کتابوں کا خود سے مطالعہ کرتے، مباحثہ کرتے اور اس کا درس دیتے تھے۔ آپ علم کی شدید تشنگی محسوس کرتے جس کی بنا پر اس کے حصول کی راہ میں کبھی تھکن کا احساس نہیں کیا۔

تہران

۱۲۶۶ ؁ھ میں اپنے والد کے ہمراہ تہران تشریف لے گئے۔ تہران میں مختصر آرام کے بعد وہاں کے سب سے بڑے عالم و مجتہد آیۃ اللہ سید محمد صادق طباطبائی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شامل ہوئے اور اپنی علمی استعداد اور ذہانت کے سبب بہت جلد استاد کے شاگردِ خاص بن گئے۔ تہران کے علمی حلقوں میں آپ کا شہرہ ہو گیا۔ استاد نے اپنے عزیز شاگرد کی استعداد کو دیکھتے ہوئے سر پر دستار فضیلت یعنی عمامہ رکھ دیا۔علامہ سید جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم علمی شخصیت کے سبب تہران میں موجود اہل علم ان سے ملاقات کے مشتاق رہتے۔

نجف اشرف

جناب سید صفدر اسد آبادی نے اپنے نور نظر کی علمی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے تہران میں زیادہ دن قیام مناسب نہ سمجھا لہٰذا پختہ ارادہ کر لیا کہ جتنی جلدی ممکن ہو انہیں اس وقت کے عظیم شیعہ حوزہ علمیہ نجف اشرف منتقل کر دیا جائے لہٰذا تہران سے نجف کے لئے روانہ ہوئے۔ تین ماہ بروجرد میں قیام فرما کر نجف اشرف پہنچ گئے۔ جہاں استاذ الفقہاء آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ مرتضی انصاری رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شامل ہوئے۔ سید جمال الدین نے نجف اشرف میں چار سال قیام کیا اور اس مدت میں تفسیر ، حدیث ، فقہ، اصول ، کلام ، منطق ، فلسفہ ، ریاضی ، طب ، تشریح ، ہیئت اور نجوم جیسے علوم میں ایسی مہارت حاصل کی کہ نجف، کربلا اور سامرہ کے علماء حیرت میں پڑ گئے۔

لیکن جہاں تعریف کرنے والوں کی کمی نہ تھی وہیں حسد اور کینہ رکھنے والے بھی موجود تھے۔ لہٰذا آیۃ اللہ العظمی شیخ مرتضی انصاری کی نصیحت پر۱۲۷۰ ؁ھ میں نجف اشرف سے بمبئی ہندوستان کے لئے روانہ ہوگئے اور دریائی راستہ سے آپ بمبئی پہنچے۔ بندرگاہ ہونے کے سبب بمبئی قدیم الایام سے ہندوستان کا ایک تجاری شہر اور اقتصادی مرکز رہا ہے۔

ہندوستان

چونکہ علامہ سید جمال الدین ایک علمی شخصیت تھے اس لئے وہ بمبئی میں اجنبیت محسوس کرتے لہٰذا کلکتہ پہنچے ، آپ نے تقریباً دو برس ہندوستان میں قیام کیا اور مختلف علماء، دانشوروں اور نامور شخصیتوں سے ملاقات کے بعد احساس کیا کہ ہندوستان پوری طرح برطانیہ کے قبضہ میں آچکا ہے، اگرچہ برطانیہ ہندوستان کے ایک صوبہ کے برابر بھی نہیں ہے اور نہ آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کے برابر ہے لیکن پورے ہندوستان پر قابض ہو گیا ہے اور یہاں کے تمام فوائد و منابع پر مسلط ہو گیا ہے ، ہندوستانی عوام اپنے ہی ملک میں نہ صرف غریب و محروم ہیں بلکہ ان کی جان، مال، عزت و ناموس بھی محفوظ نہیں ہے۔

سیاسی اور اصلاحی سرگرمیوں کا آغاز

یہی وہ وقت تھا جب آپ نے سیاسی اور اصلاحی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور حالات کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ان کی تحلیل اور مشکلات کے راہ حل کی جستجو شروع کی۔ لیکن آپ کا ہندوستان میں مزید قیام ممکن نہ ہو سکا اور فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ حج کے بعد مدینہ، اردن ، دمشق ، حمص ، حلب ، موصل ، بغداد اور نجف اشرف گئے، جہاں بھی تشریف لے گئے وہاں کے حالات کا بغور جائزہ لیا اور آخر میں اپنے وطن ہمدان پہنچ گئے۔

لیکن ایرانی بادشاہ ناصر الدین شاہ قاجار آپ کے وجود سے خوفزدہ تھا جس کے سبب ایران میں قیام ممکن نہ ہو سکا اور آپ افغانستان تشریف لے گئے۔ پانچ چھ برس افغانستان میں قیام کیا، حکومت اور عوام کو عالمی استعمار کے خطرات سے آگاہ کرتے رہے اور اس سلسلہ میں کتابیں لکھی اور میگزین بھی شائع کی۔

آخر کار افغانستان میں بھی آپ کا مزید قیام ممکن نہ ہو سکا تو دوبارہ ہندوستان تشریف لائے، بمبئی میں مقیم ایرانیوں نے آپ کا زبردست استقبال کیا اور یہ محرم کا زمانہ تھا۔ بمبئی میں مساجد اور امام بارگاہوں میں منعقد ہونے والی مجالس میں آپ شرکت کرتے جس سے برطانوی استعمار نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے آپ کو پہلے صرف دو ماہ قیام کی اجازت دی لیکن جب آپ نے اپنی تقریروں کے ذریعہ استعمار کی سازشوں کو بے نقاب اور اسلامی امت کو بیدار کرنے لگے تو ایک ماہ کے اندر ہی آپ کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

مصر

ہندوستان سے مصر تشریف لے گئے، جامعہ الازہر میں علماء سے ملاقات کی اور اپنی قیام گاہ پر عرب جوانوں کو درس دینے میں مصروف ہو گئے۔ جس میں انہیں علم دین کے ساتھ عصری علوم سے بھی آگاہ کرنے لگے تا کہ مصر میں عالمی استعمار کی مکر و سازش سے لوگ با خبر ہوں، لیکن یہ سلسلہ چالیس دن ہی چل سکا اور مصری حکومت نے آپ کو مصر سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔

ترکی

علامہ سید جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ مصر سے استانبول ترکی تشریف لے گئے جہاں حکومت نے آپ کی علمی استعداد کو دیکھتے ہوئے استقبال کیا اور حکومت میں آپ کا اثر و رسوخ ہو گیا لیکن درباریوں خصوصاً درباری ملّا یعنی عثمانی شیخ الاسلام کو حسد اور کج فکری کے سبب آپ کا وجود کھٹکنے لگا، لہٰذا آپ نے استانبول میں مزید قیام میں بہتری نہ سمجھی اور سیر و سیاحت کے بہانے۱۲۸۷ ؁ھ میں دوبارہ مصر کی جانب روانہ ہو گئے۔ اس بار مصر میں حکومت نے آپ کا خاطر خواہ استقبال کیا اور قدر کی جس کے سبب آپ اپنی قیام گاہ پر کلاس کے انعقاد کے علاوہ جامعہ الازہر میں بھی درس دینے لگے۔

گذشتہ مطالب سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ آپ کے درس و تبلیغ کا عنوان امت مسلمہ کی بیداری اور استعمار کی سازشوں سے آگاہ کرانا تھا لہٰذا اس سلسلہ میں آپ طلاب اور علماء کے علاوہ دیگر طبقات سے بھی ملاقات کرتے اور اپنی فکر سے آگاہ کرتے یہاں تک کہ آپ چائے کے ہوٹلوں پربھی جاتے اور وہاں بھی لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے تھے، مصر میں بھی آپ نے میگزین کا سلسلہ شروع کیا تا کہ لوگ اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کے دشمنوں کو پہچانیں اور اپنے ملک سے ان کے اثر و رسوخ کو ختم کریں۔جہاں ایک جانب مغربی استعمار کے خلاف آپ سرگرم تھے وہیں دوسری جانب استعمار بھی آپ کے خلاف سرگرم تھا جس کے سبب آپ مصر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

مصر سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، حج کی ادائیگی کے بعد تیسری بار ہندوستان تشریف لائے۔ اس بار جب آپ ہندوستان تشریف لائے تو جہاں آپ کا مقابلہ برطانوی استعمار سے تھا وہیں اس کے حامی سر سید احمد خان کے خلاف بھی میدان میں اترے۔ علامہ سید جمال الدین نے سر سید احمد خان کے افکار کی رد میں فارسی زبان میں کتاب لکھی جس کا اردو اور عربی میں ترجمہ ہوا، نیز آپ نے سر سید احمد خان کی تفسیر کے جواب میں تفسیر مفسر تالیف فرمائی۔

انگریزوں نے علامہ سید جمال الدین کو حیدر آباد دکن بھیج دیا جہاں عمومی مقامات اور عام مجمع میں جانا منع تھا، لہٰذا آپ نے پوشیدہ طور پر ’’عروہ‘‘ نامی انجمن تشکیل دی تا کہ بہادر اور عظیم جوان کو تربیت دے سکیں کہ بعد میں علامہ محمد اقبال جیسے مفکرین نے اسی انجمن سے تربیت پائی اور آپ کی افکار کو نشر کیا ۔انہیں استعمار مخالف سرگرمیوں کے سبب علامہ سید جمال الدین کو ہندوستان سے ایک بار پھر نکالا گیا، پہلے آپ کا ارادہ تھا کہ امریکہ جائیں لیکن بعد میں ارادہ بدل گیا، جمادی الآخر یا رجب۱۳۰۰ ؁ھ کو لندن پہنچ گئے۔

لندن

کچھ عرصہ لندن میں علمی اور ثقافتی سرگرمیوں میں مصروف رہے کہ اچانک آپ نے لندن کو خیر باد کہا اور فرانس کے شہر پیرس چلے گئے۔ علامہ سید جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ ایک عالمی دینی، علمی اور جہادی شخصیت تھے کہ اکیلے دم پر دنیا کے طاقتور ملکوں کو خوف زدہ کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے یورپ کے علمی اور سیاسی حلقوں میں آپ کی علمی اور سیاسی شخصیت پر مقالے لکھے جا چکے تھے اور تقریریں بھی ہوئی تھیں لہٰذا ہر انسان آپ کی زیارت کا مشتاق اور ملاقات کا خواہاں تھا۔

عروۃ الوثقیٰ میگزین کی بنیاد

یورپ میں آپ نے عروۃ الوثقیٰ میگزین کی بنیاد رکھی، معروف فرانسوی حکیم اور مورخ ارنست رنان سے علمی مذاکرہ کئے جس کے نتیجہ میں اسلام کے سلسلہ میں اس کی غلط فہمیاں کافی حد تک ختم ہو گئی۔ نیز یورپ کے علمی اور سیاسی شخصیات سے گفتگو کی، یورپ میں آپ کو سوڈان کی بادشاہت کی دعوت دی گئی تو آپ ناراض ہو گئے اور فرمایا کہ یہ تمہاری سیاسی غلطی ہے مجھے تعجب ہے کہ کیا تم سوڈان کے مالک ہو جو مجھے وہاِں کا بادشاہ بنا رہے ہو؟ اور انکار کر دیا۔

یورپ میں تین ماہ کے ناکام مذاکرات کے بعد آپ نے جزیرۃ العرب کا ارادہ کیا لیکن ایرانی بادشاہ ناصر الدین شاہ قاجار کی دعوت پر۲۳ ؍ربیع الاول ۱۳۰۴ ؁ھ کو تہران پہنچے۔ پہلے تو بادشاہ نے بلایا لیکن جب آپ پہنچ گئے تو آپ کو ایران سے نکل جانےکا حکم دے دیا لہٰذا آپ ایران سے روس چلے گئے۔ روسی حکومت نے آپ کو روسی مسلمانوں کا رہبر بنانا چاہا تو آپ نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے حقوق کا پاسبان ہوں مجھے یہاں محدود نہ کرو۔

اسی زمانے میں ناصر الدین شاہ کو یورپ میں دعوت دی گئی ، وہ پہلے روس گیا تو وہاں آپ کی شخصیت اور عظمت سے کافی متأثر ہوا اور جب یورپ پہنچا تو ہر جگہ علامہ سید جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر ہی سنا لہٰذا وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہوا اور ایران واپس پہنچ کر آپ کو دوبارہ ایران آنے کی دعوت دی تا کہ ایران کے علمی اور اقتصادی امور میں مدد لے، ملک و ملت کی خاطر آپ نے اس دعوت کو قبول کیا۔ محرم ۱۳۰۷ ؁ھ کو روسیوں سے مذاکرہ کیا جس میں روسی ایران کے جن امتیازات کے قائل نہ تھے انہیں قائل کیا اور ربیع الاول ۱۳۰۷ ؁ھ میں ایران تشریف لے گئے۔

ایران آئے ہوئے ابھی آپ کو چھ ماہ نہ گذرے تھے کہ آپ کے خلاف سازشوں کا بازار گرم ہو گیا۔ ناصر الدین شاہ نے آپ کو ایران سے نکلنے کا تحریری حکم بھیجا جس کے ملتے ہی آپ شہر ری میں امام زادہ حضرت عبدالعظیم حسنی علیہ السلام کے روضہ مبارک پہنچے اور شاہ کی خیانتوں کے خلاف تقریر کی اور روضۂ مبارک میں احتجاجاً بیٹھ گئے۔ برطانوی سفارت کے حکم پر ناصر الدین شاہ نے دوبارہ شدید حکم دیا اور اس کے کارندوں نے آپ کو ملک کے مغربی علاقہ میں بھیج دیا۔

علامہ سید جمال الدین رحمۃ اللہ علیہ ایران سے عراق کے شہر بصرہ پہنچے اور سامرہ میں موجود مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کو خط لکھ کر شاہ ایران کے مظالم اور خیانتوں سے آگاہ کیا نیز تنباکو کے سلسلہ میں ایرانی عوام کے مفادات کے خلاف ناصر الدین شاہ کے برطانوی معاہدے کے سلسلہ میں استفتاء کیا جس کے نتیجہ میں تنباکو کی حرمت کا تاریخی فتویٰ صادر ہوا جس نے عالمی استعمار اور ان کے زر خریدوں کی نیندیں اڑا دیں۔ نیز آپ نے علمائے اسلام کو بھی خط لکھ کر استعمار کی سازشوں اور شاہ ایران کے مظالم اور خیانتوں سے آگاہ کیا۔

عراق سے آپ لندن گئے اوروہاں اخبارات میں بھی ناصرالدین شاہ کی خیانتوں کی شائع کرایا ۔ آپ کی انسانی اقدار کی پاسبان سرگرمیوں اور امت کی بیداری تحریک بلکہ تمام سرگرمیوں پر برطانوی حکومت نے پابندی لگا دی۔ آپ کی انہیں سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ترکی حاکم سلطان عبا الحمید نے موقع کو غنیمت جانا کہ اگر ان کا ساتھ دیا گیا تو کل نہ صرف ترکی بلکہ پورے عالم اسلام کی پیشوائی اس کا مقدر ہو گی لہٰذا اس نے آپ کو استانبول بلا لیا۔ استانبول میں چار برس آپ کی سرگرمیوں کو دیکھ کر اسے اندازہ ہوا کہ اس سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے، عالم اسلام کی پیشوائی تو دور کی بات خود اپنی حکومت کو اس عظیم مقصد میں قربان کرنا پڑ جائے گا۔


جمال الدین افغانی اور ہندوستانی علماء

اب جبکہ جمعیۃ علماء نے دیوبند میں منعقد ہونے والی تیسویں کانفرنس میں حکومت کو متنبہ کردیا ہے کہ مؤخر الذکر نصاب مدارس میں جدید مضامین کو داخل کرنے کی کوششوں سے باز رہے، میں انیسویں صدی کے عالم گیر اسلام کے زبردست موید سید جمال الدین کا بیش بہا مشورہ یاد کرنے کا خواہاں ہوں۔ واضح ہو کہ ہندوستان کے روایتی علماء جمال الدین افغانی کے لئے دیدۂ و دل فرش راہ کئے رہتے ہیں [2]۔

وہ ایک ایسے ممتاز عالم تھے جنہوں نے مغربی استعماریت کے خلاف متعدد ملکوں میں مسلمانوں کو متحرک کرنے کے لئے اپنی بیش بہا زندگی وقف کردی۔ انہوں نے انتہائی چابکدستی سے استعماریت سے نبرد آزما ہونے کے لئے مذہب کو قوت محرکہ بنایا اور یہی وجہ ہے کہ انہیں دور جدید کے پہلے کل۔ اسلامی بطلِ عظیم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ کئی سالوں تک ایران، فارس اور ترکی میں رہے۔ انہوں نے کچھ وقت فرانس میں بھی گزارا۔ انہوں نے 1880سے لے کر 1882تک ہندوستان میں قیام کیا۔ اس عرصے میں انہوں نے اپنے سیاسی ایجنڈا کو بروئے کار لانے کے لئے عوامی تقریروں کے ساتھ ساتھ طویل رسالے تحریر کئے۔

انہیں ہندوستانی علماء کے درمیان کافی مقبولیت ملی۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ اولاً ان کی برطانیہ مخالف سرگرمیاں اور دوئم سرسید کی انتہائی شدت سے فضیحت وملامت۔ انہوں نے سرسید کی مخالفت میں ایک مضمون بھی تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا: ’’نیچریوں (مادّہ پرستوں کے بارے میں حقائق۔‘‘) سرسید کی مخالفت کے باوجود افغانی نے انہیں کی طرح فلسفے اور جدید سائنس کی افادیت پر زور دیا۔ انہوں نے علماء سے فرط جذبات کے ساتھ اپیل کی وہ جدید سائنس کو اپنائیں اور علم وآگہی کو اسلامی اور مغربی خطوط پر تقسیم نہ کریں۔

کلکتہ میں خطاب

کلکتہ میں ’’تعلیم و تعلم‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ’’تمام بڑی سلطنتیں بشمول یورپی فاتحین کو سائنس کا تعاون حاصل تھا۔ سائنس نے جہل کو ہمیشہ مغلوب کیا ہے، اور سائنس ہی تمام میدانوں میں ترقی یافتہ تکنالوجی کی اساس رہی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید فرمایا کہ ’’یہ کوئی فرانسیسی یا برطانوی قوتیں نہیں تھیں جنہوں نے غیر یورپی دنیا کو مسخر کرکے اپنی نو آبادیاتی کالونی بنالیا بلکہ یہ کارنامہ سائنس کی عظیم قوت نے انجام دیا۔

فلسفے کی عظمت بیان کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ’وہ سائنس جسے ایک جامع روح کا مقام اور ایک محافظ قوت کا منصب حاصل ہے، وہ در اصل فلسفے کی سائنس ہے کیوں کہ اس کے موضوعات آفاقی ہیں۔ اپنے مناسب مقام پر ہر سائنس پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔‘ اس معرکۃ الآرا خطاب میں انہوں نے علماء ہند کی تنقید کی اور کہا کہ ان کی فکر پر مُلاّ صدرا اور مُلاّ محمود جونپوری اور ان کی ساتویں صدی کی کلاسیکی تصنیف ’’شمسِ بازغہ‘‘ مسلط ہے۔

انہوں نے ان کو پھٹکارتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو درویش ظاہر کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کوتاہ علم ہیں اور علم و آگہی کے بحرِ ذخّار کی غواصی سے گریزاں ہیں۔ انہوں نے فرمایا: ’’وہ کبھی نہیں پوچھتے کہ بجلی کس طرح پیدا ہوتی ہے، وہ کبھی دریافت نہیں کرتے کہ بھاپ سے چلنے والی کشتیاں یا ریلیں کیا ہوتی ہیں۔‘‘ افغانی نے فرمایا کہ وہ اس بات پر متعجب ہیں کہ علماء نے سائنس کو مسلم سائنس اور یورپی سائنس میں تقسیم کردیا ہے اور اپنی درسگاہوں میں انتہائی مفید علوم کی تحصیل پر پابندی لگا رکھی ہے۔

انہوں نے مزید فرمایا کہ ’’وہ لوگ جو سائنس اور علم کی ممانعت کرتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس طرح مذہب اسلام کا تحفظ کررہے ہیں، تو جان لیں کہ درحقیقت وہی اسلام کے دشمن ہیں۔‘‘ افغانی کا خیال تھا کہ اسلام وہ دینی نظام ہے جو جدید سائنسوں سے غیر ہم آہنگ نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’’مولویان مجرم ہیں جنہیں نہ صرف سائنس بلکہ پوری دنیا کے تئیں اپنا رویہ تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے، جس نے گزشتہ چند صدیوں میں نہایت تیز قدمی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ انہوں نے مسلم علما کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ایک ننھے سے دئے کی مانند ہے جو نہ خود اپنے ماحول کو منور کرسکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ہوسکتا ہے۔‘‘

مقالات جمالیہ میں انہوں نے علما کے ’’اس بے جا مذہبی جوش پر انہیں متنبہ کیا جس نے علم ودانش اور سائنسوں کے تئیں مسلمانوں میں نفرت پیدا کی اور انہیں صنعت و حرفت اور ایجاد و اختراع سے بیزار کردیا۔‘‘ کیا اکیسویں صدی کے علما، انیسویں صدی کی اس ہوشمندانہ اور تعقل پسندانہ آواز پر کان دھریں گے یا پھر یہ صدا بصحرا ثابت ہوگی[3]۔

سید جمال الدین افغانی اور آمریت

سیّد جمال الدین افغانی ۱۸۳۸ء میں افغانستان کے ایک گاؤں اسد آباد میں پیدا ہوئے تھے (بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اسد آباد ہی میں پیدا ہوئے تھے، لیکن یہ گاؤں ایران کے صوبے ہمدان میں واقع ہے)۔وہ عام طورپر افغانی کے نام سے مشہور ہیں، لیکن ایران میں اسدآبادی کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے بعض اوقات خود کو ’’الحسینی‘‘ یا استنبولی بھی لکھا۔ بعض ایرانی مصنّفین کے نزدیک وہ اہل تشیع تھے [4]۔ چونکہ وہ مسلمانوں کی اکثریت کو، جو سنیوں پر مشتمل تھی، متحد کرنے کے لیے کوشاں تھے، اس لیے انھوں نے کبھی اپنا ذاتی عقیدہ ظاہر نہیں کیا۔

وہ ۱۸۹۱ء میں لندن پہنچے اور اسی سال قسطنطنیہ واپس آگئے۔ سلطان عبدالحمید نے جمال الدین کا شاہانہ استقبال کیا۔ سلطان کا خیال تھا کہ اس کی مطلق العنانی اور آمریت کے قیام و استحکام میں افغانی بطور آلہ کار مددگار ثابت ہوں گے، لیکن سلطان کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ افغانی نے اس کی مدد کرنے کی بجائے، الٹا ترکی میں آئینی تحریک کی تائید و حمایت کی۔ ۹مارچ ۱۸۹۷ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انھیں سلطان عبدالحمید کی ہدایت کے مطابق زہر دلوایا گیا تھا۔

براؤن لکھتا ہے: ’’اِس غیر معمولی شخص نے اپنے کسی بھی ہم عصر کے مقابلے میں اسلامی مشرق کے حالات و واقعات کا دھارا بدلنے میں، کم از کم بیس برسوں کے عرصے میں، نمایاں خدمات انجام دیں‘‘ افغانی نے مصر میں قومی انقلاب برپا کرنے کی تحریک میں حصہ لیا۔ ایران میں آئین پسندی کی تحریک ان کی ترغیب و تشویق پر منظم کی گئی۔ ترکی میں آئین پسندی کی تحریک کو ان کی تائید و حمایت حاصل رہی۔ علاوہ ازیں انھوں نے یورپی استعمار کے خطرے کے خلاف اسلام کے تحفظ کے لیے مسلم ریاستوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی۔

انھوں نے سنی اور شیعہ کے درمیان حائل خلیج پاٹنے کے لیے جدوجہد کی۔ جمال الدین افغانی نے خلافتِ عثمانیہ کے بارے میں اس تنازعے میں حصہ نہیں لیا کہ عثمانیوں کا قریشی نسب سے متعلق نہ ہونے کے باعث منصبِ خلافت پر بھی کوئی حق نہیں۔ اس متنازعہ صورت حال کو انھوں نے حقیقت پسندانہ اور عملی نقطۂ نظر سے دیکھا۔ ان کا خیال تھا کہ قائم شدہ خلافت کے تحت مسلمانانِ عالم کا اتحاد ایک مذہبی و سیاسی ضرورت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بعض روایت پسند علما اور اعتدال پسند لوگ ان کی حمایت کرتے تھے۔ تاہم وہ تبلیغ اِس بات کی کرتے تھے کہ سلطان/ خلیفہ سے وفاداری مشروط ہونی چاہیے۔ مشروط سے ان کی مراد یہ تھی کہ خلافت کو ’’آئینی‘‘ ہونا چاہیے اور یہ ان کا نیا ’’اجتہاد‘‘ تھا۔ مسلم حکمران ابھی ماضی میں جی رہے تھے، جبکہ زمانہ بدل گیا تھا۔ وہ مطلق العنان تھے۔ جابر و آمر تھے۔ نااہل اور ناقابل تھے، اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر رعایا کے مفادات کو قربان کرسکتے تھے[5]۔

آثار

  • رساله نیجریه
  • مقالات در روزنامه «عروةالوثقی»
  • مقاله در رد خطابه ارنست رنان
  • نامه‌ها
  • مقالات در نشریه «ضیاءالخافقین»
  • تتمة البیان فی تاریخ الافغان
  • تاریخ مختصر ایران از ابتدا تا زمان سید جمال،

وفات

دوسری جانب انہیں ایام میں ناصر الدین شاہ کا قتل ہو گیا اور یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ قاتل علامہ سید جمال الدین کا خاص ہے لہٰذا سلطان عبا الحمید نے آپ کے قتل میں ہی عافیت سمجھی ، آپ کو زہر دلا دیا اور ۵؍ شوال المکرم ۱۳۱۴ ؁ھ کو استانبول میں آپ شہید ہو گئے۔ استانبول میں آپ کو دفن کیا گیا بعد میں وصیت کے مطابق استانبول سے جنازہ کابل لایا گیا اور کابل یونیورسٹی میں دفن ہوئے۔

آپ کا جسم زیر خاک چلا گیا لیکن آپ کی بلند روح افلاک میں محو پرواز ہے آپ کا پیغام کہ ہم اللہ کی اشرف مخلوق انسان ہیں ، جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نبیوں میں سب سے افضل اسی طرح ان کی امت بھی امتوں میں سب سے افضل ہے۔ لہٰذا اسلامی امت کا بیدار ہونا بے حد ضروری ہے۔

جو درد آپ کو مسلسل پریشان کر رہا تھا وہ حکمرانوں کا ظلم، مسلمانوں کی جہالت اور بے خبری اور تہذیب و ثقافت میں پسماندگی تھی، مسلمانوں میں توہم پرستی، غیر دینی اور غیر عقلی رسموں کا رواج اور صدر اسلام کے عقائد و افکار سے دوری تھی، مسلمانوں میں فرقہ وارانہ اختلافات تھا، اسلامی ممالک میں مغربی استعمار کا نفوذ تھا۔

انہیں جیسے دردوں کے علاج کے کے لئے آپ نے پوری زندگی سفر کیا ایک شہر سے دوسرے شہر ، ایک ملک سے دوسرے ملک تشریف لے گئے۔ آپ اگر استعمار کی جانب ہاتھ بڑھاتے تو ایک یونیورسٹی کیا پورے ملک کی حکومت اور قیادت مل جاتی، ایک "سر" کا لقب کیا بلکہ شیخ الاسلام بن جاتے لیکن حرام کے ذریعہ کسی حلال کی انجام دہی آپ کے نزدیک حرام تھی لہٰذا جہاں عالمی استعمار کے سامنے ڈٹے رہے وہیں اس کے زر خریدوں سے بھی دست و گریباں رہے چاہے وہ زر خرید حاکم کی شکل میں ہوں یا کسی دانشور کی شکل میں ہوں۔

آج اسلامی امت کی بیداری آپ ہی کی محنتوں کا نتیجہ ہے اگر کل آپ نے امت اسلامیہ کے اذہان میں اس کا بیج نہ بویا ہوتا تو آج یہ سایہ دار اور ثمردار درخت بھی وجود میں نہ آتا اگر چہ اس بہار کو دیکھنے کے آپ مشتاق تھے لیکن نہ دیکھ سکے ۔

ایک اہم پیغام جو آپ نے رہتی دنیا تک کے عالم اسلام کے مبلغین کو دیا وہ یہ کہـــ’’ میںنے عوام کےساتھ ساتھ حکمراں طبقہ کی بیداری کے لئےبھی ان سے ملا ، عوام میں ہماری باتوں کا اثر ہوا لیکن حکمراں طبقہ کے سلسلہ میں ہمیں ناکامی ملی کیونکہ مردہ زمینوں میں کھیتی ممکن نہیں ہے ، اے کاش ! ہماری ساری سرگرمی عوام کے لئے ہوتی۔ ‘‘ کیونکہ حکمراں طبقہ کو ان کی حکومت نے بیداری سے روک دیا تھا[6]۔

حوالہ جات

  1. تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
  2. مترجم: محمد صغیرحسین
  3. جمال الدین افغانی اور ہندوستانی علماء، عارف محمد خاں(مترجم: محمد صغیرحسین)- شائع شدہ از: 12 اکتوبر 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 ستمبر 2025ء
  4. تحریر : جاوید اقبال
  5. سید جمال الدین افغانی اور آمریت، تحریر : جاوید اقبال-شائع شدہ از: 21 جنوری 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 ستمبر 2025ء
  6. جمالِ اسلام سید جمال الدین رحمۃ اللّٰہ علیہ- شائع شدہ از: 13 مئی 2021ء -اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 ستمبر 2025ء