مندرجات کا رخ کریں

دروزیہ

ویکی‌وحدت سے
دروزیہ
نامدروزیہ
عام نامدروز
بانی
  • حمزہ بن علی دروزی
نظریہتوحید پر یقین، خفیہ تعلیمات، تناسخ ارواح

دروزیہ دروز (Druze) مشرقی وسطی میں قائم ایک منفرد عقائد و نظریات کا حامل مذہبی فرقہ ہے جو کہ 10 ویں صدی میں وجود میں آیا۔ اس فرقے کے بعض عقائد اسلام، بعض ہندومت جبکہ اکثریت اسماعیلی شیعہ فرقہ سے اخذ ہوئے ہیں۔ ان کی تعداد بیسویں صدی کے وسط میں دو لاکھ تھی۔ ان میں سے زیادہ تر زراعت پیشہ اور زمیندار لوگ ہیں۔ دروزی مختلف اقوام مثلاً کرد، مارڈی عرب اور کم تہذیب یافتہ قبیلوں پر مشتمل ہیں۔ جنوبی لبنان میں گیارھویں صدی عیسوی میں مختلف اسلامی اور نسلی گروہ داخل ہوئے۔ مثلاً شیعہ، اسروری، ایرانی اور عربی وغیرہ۔ ان سب کے مل جل جانے سے دروزی جماعت وجود میں آئی۔ دروزیوں کے ظہور کے بعد کوہستان لبنان کی تاریخ مارونیوں اور دروزیوں کے تعلقات کے گرد گھومنے لگی۔ یہ فرقہ ایک چھوٹا مگر منفرد مذہبی اور نسلی گروہ ہے جو بنیادی طور پر لبنان، شام، اسرائیل اور اردن میں آباد ہے۔ ان کا مذہب اسلام کی اسماعیلی شاخ سے نکلا ہے، لیکن وقت کے ساتھ یہ ایک علیحدہ مذہب اور ثقافت کی صورت اختیار کر گیا۔

وجہ تسمیہ

ان کا نام کلمہ ”دروزی“ ، اس گروہ کے موسس کے نام سے لیا گیا ہے ، اس مذہب کا موسس حمزة بن علی دروزی تھا جو فاطمی خلیفہ الحاکم بامراللہ کو خدا کی روح سمجھتا تھا ، اس وقت یہ لوگ لبنان اور شام میں مقیم ہیں اور ان کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ اپنے آپ کو موحد کہتے ہیں [1]۔

عقائد

اکثر باطنی فرقوں کے عقیدے یونانی فلسفہ اور ایرانی مذہب کی تعلیم سے ماخوذ ہیں۔ چونکہ دروزیوں کے اکثر داعی ایرانی تھے۔ اس لیے ان کے عقیدے بھی اسی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ مثلاً حلول کے متعلق ان کا عقیدہ یہ کہ خدا کروڑوں سال کے حاکم کی شکل میں ظاہر ہوا۔ رعیت سے ناراض ہو کر غائب ہو گیا ہے۔ قیامت کے روز پھر ظاہر ہوگا اور تمام دنیا پر حکومت کرے گا۔ اس کے حکم سے ایک آگ اترے گی اور کعبے کو جلادے گی۔ پھر مردے زمین سے اٹھیں گے۔ عقل و نفس کے تمام مسائل یونانی فلسفہ پر مبنی ہیں۔

دروزی مذہب کے چار بڑے اصول

خدا کا علم خاص کر انسانی شکل ہیں

عقل کا علم جو سب سے اعلی موجود ہے۔ لیکن باوجود اس رتبہ کے وہ خدا کا بندہ اور غلام ہے۔ اس کا نام عیسیٰ کے زمانے میں لزراس Lazarus۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں سلمان فارسی اور حاکم کے زمانے میں حمزہ ہے۔

چار روحانی موجودات کا علم

دوسرے چار روحانی موجودات کا علم جو نفس کل، سابق یعنی سیدھا بازو اور لاحق یعنی دایاں بازو ہیں۔ ان چار موجودات نے اسسرور، محمد ( بن اسسرور )، سلیمان اور علی کی شکلیں اختیار کی ہیں۔

سات اخلاقی احکام کا علم

سات اخلاقی احکام کا علم، سچائی، بھائیوں کی محبت، بتوں کی عبادت ترک کرنا، شیطانوں اور جنوں کی تردید، خدا کی توحید ہر زمانے میں، خدا کے فعل پر خوش ہونا، ( یا مذہب پر تقیہ کرنا جیسا کہ بعض روایتوں میں ہے اور یہی صحیح ہے ) خدا کی مرضی کے تابع ہونا، انسان کو تناسخ کے دوران میں کچھ جزا تو مل جاتی ہے۔ لیکن حقیقی جزا اوور سزا قیامت ہی کے روز ملے گی۔

اسرائیلی فوج میں حماس کیخلاف لڑنے والے ’دروز‘ عرب کون ہیں؟

لبنان سے متصل اسرائیلی سرحد کے قریب واقع ایک عرب گاؤں ”حرفیش“ میں اس وقت زیادہ تر خواتین ہی موجود ہیں کیونکہ گاؤں سے بہت سے حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیلی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کیلئے اگلے محاذوں پر چلے گئے ہیں۔ یہ گاؤں عربوں میں پائی جانے والی ایک مذہبی اقلیت ”دروز“ کا مسکن ہے۔ الجلیل میں ہر طرف دروز اور اسرائیلی پرچم نظر آتے ہیں، دروز اسرائیلی حب الوطنی کے جذبے سے لبریز ہیں۔ حالانکہ حماس نے حملہ شمال سے بہت دور جنوبی اسرائیل پر کیا تھا لیکن اس غیر معمولی حملے نے حرفیش کو چوکنا کر دیا تھا، جس کے بعد یہ گاؤں اسرائیلی فوجیوں کی حمایت کے لیے حرکت میں آیا۔

جنگ شروع ہونے کے بعد حرفیش میں اسرائیلی فوج کے یونیفارم تیار کرنے کے لیے ایک فیکٹری شروع کی گئی ہے، یہاں کاروں پر اسرائیلی پرچم کے رنگ کے نیلے اور سفید عربی رسم الخط والے اسٹیکرز لگے ہوئے ہیں۔ حماس کے بے مثال حملے کے بعد تشکیل پانے والے مسلح دفاعی گروپ کے رہنما حسن ربخ نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ”اے ایف پی“ کو بتایا کہ 7 ہزار دیہاتیوں میں سے تقریباً 80 فیصد لوگ فوج، پولیس، انٹیلی جنس، یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کام کرتے ہیں۔

حرفیش کے رہنے والے مرد لبنان کے ساتھ شمالی اسرائیل کی سرحد پر مسلسل گشت کررہے ہیں۔ اس سرحد پر لبنان سے عسکریت پسند ملیشیا اور حماس کی اتحادی حزب اللہ کے درمیان سات اکتوبر کے بعد مسلسل کشیدگی پائی جاتی ہے۔ حسن ربخ نے بتایا کہ، ’لبنان کی سرحد سے صرف چار کلومیٹر دور ہیں، ہمارے گاؤں میں کوئی باڑ بھی نہیں ہے۔ اس لیے ہماری دو گاڑیاں مسلسل گشت کرتی رہتی ہیں‘۔

دنیا میں اقلیتی کمیونٹیز کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ”مائنورٹی رائٹس گروپ“ کے مطابق دروز ایک مذہبی کمیونٹی ہے جو نسلاً عرب ہیں اور عربی زبان بولتے ہیں۔ ان کا مذہب توحید پرستی پر مبنی ہے اور ان کے عقائد میں اسلام، یہودیت اور مسیحیت کے تصورات بھی شامل ہیں۔ دروز مذہب پر یونانی فلسفے اور ہندو مت کے اثرات بھی ہیں۔ گیارہویں صدی عیسوی کے بعد سے دروز اپنے مذہب کا پرچار نہیں کرتے۔

یہ فرقہ ہزار سال قبل اس پہاڑی علاقے میں رہنے کے لیے آیا تھا، جو کہ جنگ کی زد میں آنے والے تین ممالک میں بٹا ہوا ہے۔ دروز زیادہ تر ناصرف شام اور لبنان بلکہ اسرائیل میں بھی ہیں، جبکہ کچھ اردن میں رہتے ہیں۔ ہر ملک میں، دروز نے مذہبی وجوہات کی بناء پر مقامی جھنڈے سے وابستگی کا انتخاب کیا۔

حرفیش کے سیاسی رہنما موفد مراعی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہر دروز کا تعلق عقیدت کی حد تک اس زمین سے ہے جو اسے وہاں رہنے کی اجازت دیتی ہے۔ یہ ایک غیر متزلزل تعلق ہے‘۔ دروز اسرائیل کی آبادی کا صرف دو فیصد ہے، جس میں گولان کی پہاڑیوں سے منسلک دروز کے رہائشی بھی شامل ہیں جو بڑی حد تک اسرائیلی شہریت کو مسترد کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہیں اسرائیلی پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں میں خاطر خواہ نمائندگی حاصل ہے۔ مجموعی طور پر، عرب اسرائیلی اسرائیل کی آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے ان کا کہنا ہے کہ وہ نفرت کے بڑھتے ہوئے جرائم اور حملوں کی وجہ سے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔

لیکن اس سے پہلے بھی، حقوق کی تنظیموں نے اکثر اقلیتی گروہوں کو اسرائیلی شہریت رکھنے کے باوجود اور اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز میں دروز کمیونٹی سروس کے معاملے میں ان کے ساتھ ہونے والے باقاعدہ امتیازی سلوک کو اجاگر کیا۔

موفد مراعی کے مطابق، حالیہ ہفتوں میں دروز کمیونٹی کے 40 سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں، زیادہ تر 7 اکتوبر کو حماس کے حملہ آوروں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے کیے گئے فوجی آپریشن کے دوران مارے گئے تھے۔ اس وقت سے اب تک کل 300 سے زیادہ اسرائیلی فوجی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جن میں 53 غزہ میں مارے گئے ہیں[2]۔

جغرافیائی حدود

سوریا: تقریبا 10 لاکھ

لبنان: تقریبا 250000

اسرائیل اور مقبوضہ جولان: تقریبا 145000

وینزویلا: تقریبا 60000

امریکہ: تقریبا 50000

کنییڈا، اردن، آسٹریلیا و جرمنی: تقریبا 75000 دروز شام کی آبادی کا 3٪ لبنان کی آبادی کا 5۔5٪ جبکہ اسرائیل کی آبادی کا 1۔6٪ حصہ ہیں۔

تاریخ

دروز نامی فرقہ 10 ویں صدی میں فاطمی سلطنت کے دار الحکومت قاہرہ(مصر) میں وجود آیا۔ الحاکم بامر اللہ فاطمی سلطنت کا 16 واں خلیفہ تھا۔ اس کے کچھ مصاجبین اور اس کے قریبی حلقہ کے کئی لوگوں نے اپنے گمان میں الحالم بامر اللہ کو انسان کے بجائے خدا کا اوتار سمجھنا شروع کردیا جبکہ اس اعتقاد کو باقاعدہ مذہب کا درجہ "حمزہ بن علی احمد" نے دیا جو کہ الحاکم کا قریبی مصاحب تھا۔

آنے والے سالوں میں جہاں عامۂ الناس نے اس نئے مذہب کی شدید مخالفت کی اور اس کے خلاف مزاحمت کی وہیں الحاکم کے قریبی حلقہ میں دروزی مذہب کی مقبولیت میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوتا گیا۔ 1021 میں حمزہ کا قتل ہوگیا اور غالب امکان یہی ہے کہ اسے الحکاکم کے حکم پر قتل کیا گیا۔ جبکہ 12 فروری 1021 کی رات اچانک سے الحاکم بامر اللہ خود بھی لاپتہ ہوگیا اور آج تک اس کا کوئی سراغ نہ مل پایا۔

ان دونوں کی موت اور گمشدگی کے بعد دروز کی کمان " بہاء الدین المقتنی" کے ہاتھ آگئی اور 1043 میں اس نے اعلان کیا کہ:" اب سے مزید کوئی بھی شخص دروز میں داخل نہیں ہوسکتا"۔ تب سے لے کر اب تک یہود کی طرح دروز بھی کوئی دوسرے مذہب کا شخص نہیں داخل ہونے کا اہل نہیں۔ اس کے بعد طویل عرصے تک دروز کی تاریخ خاموش رہی۔

صلیبی جنگوں کے دوران

صلیبی جنگوں کے دوران دروزی فوج نے صلیبی افواج کے خلاف پہلے ایوبی سلطنت اور پھر مملوک سلطنت کا ساتھ دیا۔ 1305 میں، اسلام کی سلفی برانچ کے امام، ابن تیمیہ نے دروز کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ 16ویں اور17 ویں صدی میں دروز سلطنت عثمانیہ کے خلاف ان گنت مسلح بغاوتیں شروع کیں۔ جہیں عثمانیوں نے کچل ڈالا۔ 1860 میں فتوی میں شام میں دروز اور عیسائی گروپوں کے درمیان طویل جھڑپوں میں 12000 افراد مارے گئے۔

1910 میں لبنان و سوریا میں دروز جنگجووں نے ترک حکومت کے خلاف شدید نوعیت کی بغاوت چھیز دی جیسے ترک افواج نے کـچلتے ہوئے 2 ہزار باغیوں کو مار ڈالا اور ہزاروں کو زحمی و گرفتار کر لیا۔ عرب- اسرائیل جنگوں میں دروز واحد عرب گروہ تھا جو اسرائیلی فوج کے ساتھ مل کر عربوں اور فلسطین کے خلاف لڑے۔ موجودہ دور میں مجموعی طور پر دروز کو غیر مسلم تسلیم کیا جاتا ہے اور دروز بھی خود کو غیر مسلم گردانتے ہیں تاہم مصر کی جامعہ الازہر یونیورسٹی نے اپنے فتوی میں دروز کو مسلم قرار دیا ہے۔

شام میں دروز شامی حکومت جبکہ اسرائیل میں دروز اسرائیلی حکومت کو سپورٹ کرتے ہیں تاہم دروز نے اسرائیل یہودی ریاست ڈکلیئر کرنے کی حالیہ کوششوں کی مخالفت کی ہے۔ 2014 میں شام داعش کی ٹیک اوور کے ساتھ دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ دروز کو بھی داعش کے ہاتھوں بہاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

عقائد

دروز اپنے آپ کو " موحدین" کہتے ہیں اور ایک خدا یعنی اللہ پر یقین رکھتے ہیں۔ تا ہم یہ " وحدت الوجود" کے ماننے والے ہیں۔ الحاکم بامر اللہ کو دروز مہدی قرار دیتے ہيں۔ دورز کی مقدس کتاب" رسائل الحکمہ" ہے جس کا مصنف حمزہ بن علی بن احمد تھا اوری یہ کتاب 111 رسائل مشتمل ہے۔

دروز مذہب کی خصوصیات

1. توحید پر یقین: دروز خود کو "اہل التوحید" یعنی "واحد خدا کے ماننے والے" کہتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ایک انتہائی روحانی اور باطنی طرز کا ہے۔ 2. خفیہ تعلیمات: دروز مذہب کے کئی عقائد اور متون عام لوگوں سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں، صرف خاص تربیت یافتہ افراد (’عقال‘ کہلاتے ہیں) ہی ان تک رسائی رکھتے ہیں۔ 3. تنا‌سخ ارواح (Reincarnation) پر یقین رکھتے ہیں، یعنی روح ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتی ہے۔ 4. شریعت کی ظاہری پابندی نہیں: دروز عام طور پر اسلامی شریعت جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ کے پابند نہیں ہوتے، لیکن اخلاقیات اور باطنی طہارت کو اہمیت دیتے ہیں۔

دروز کے پیروکار

دروز کا آغاز 11ویں صدی میں مصر کے فاطمی خلفیہ الحاکم بامراللہ کے دور میں ہوا۔ ان کے پیروکاروں نے ان کی الوہیت کا عقیدہ اختیار کیا، جس کی بنیاد پر یہ اسلام سے علیحدہ ہو گئے۔ ان کے اہم مبلغین میں حمزہ بن علی اور درزی شامل تھے، جن کے نام پر ہی انہیں "دروز" کہا جانے لگا (اگرچہ وہ خود درزی کو گمراہ سمجھتے ہیں)۔ دروز کمیونٹی اپنی شناخت، ثقافت اور وفاداری کے لیے معروف ہے، اور اسرائیل میں یہ واحد عرب اقلیتی گروہ ہے جس کے افراد باقاعدہ طور پر اسرائیلی فوج میں بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. دائرة المعارف اسلام، مادہ دروز، بہ نقل ڈاکٹر مشکور ص 233
  2. اسرائیلی فوج میں حماس کیخلاف لڑنے والے ’دروز‘ عرب کون ہیں؟ - شائع شدہ از: 16 نومبر 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 4 مئی 2025ء