وہابیت
| وہابیت | |
|---|---|
![]() | |
| تشکیل کا سال | 1835 ء، 1213 ش، 1250 ق |
| تشکیل کی تاریخ | 1157 ھ |
| بانی | محمّد بن عبدالوہاب |
| نظریہ | آیات اور روایات کے ظاہر پر عمل کرنا |
وہابیتایک سلفی اسلامی تحریک ہے جو محمد بن عبد الوہاب سے منسوب ہے۔ اور یہ فرقہ اہل سنت کے ایک فرقے کا نام ہے جو بارہویں صدی کے اواخر اور تیرہویں صدی کے اوائل میں سعودی عرب میں محمد بن عبدالوہاب کے ذریعے وجود میں آیا۔ اس فرقے کے پیروکاروں کو وہابی کہا جاتا ہے۔ وہابی فروع دین میں احمد بن حنبل کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت جزیرہ نمائے عرب کے مشرقی حصے میں مقیم ہے۔ اس فرقے کے مشہور مذہبی پیشواؤں میں ابن تیمیہ، ابن قیم اور محمد بن عبدالوہاب قابل ذکر ہیں۔
وہابی افکار کی بنیاد
وہابی افکار کی تبلیغ باقاعدہ طور پر 698 ھ میں شام میں ابن تیمیہ کے توسط سے عقائد میں شدید انحراف اور اسلامی فرقوں کے کفر و شرک کے اثبات کی بناء پر شروع ہوئی جسے اہل سنت اور شیعہ علماء کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا. ابن تیمیہ نے 727ھ میں دمشق کے ایک زندان میں وفات پائی اس کی موت کے ساتھ ہی اس کے افکار بھی دفن ہو گئے۔
1158ھ میں محمد بن عبد الوہاب نے حاکم درعیہ محمد بن سعود کے تعاون سے سرزمین نجد میں نئے سرے سے ابن تیمیہ کے افکار کو زندہ کیا جس کے نتیجہ میں سخت لڑائی ہوئی اور وہابیوں نے سواحل خلیج فارس اور حجاز کے تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا[1]۔
وہابی افکار کی ترویج
وہابی افکار کی سب سے زیادہ ترویج حج کے موسم میں ہوتی ہے حج کے فریضہ الہی ہونے کے پیش نظر لاکھوں کی تعداد میں مسلمان سعودی عرب میں جمع ہوتے ہیں اور اس دوران آل سعود حجاج کو وہابی افکار کی ویکسینیشن کرتے ہیں اور جب حجاج اس ملک سے واپس جاتے ہیں تو بجائے اس کے مرکز اسلام و مقام وحی سے دین حقیقی کو حاصل کر کے واپس جائیں اپنے اُس دین کو بھی گنوا بیٹھتے ہیں جس پر وہ یہاں آنے سے پہلے ہوتے ہیں۔
حرمین شریفین یعنی مکہ و مدینہ کے ادارہ وزارت حج کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس دوران وہابیت کی تبلیغ کے لیے کتابیں، رسالے، بروشرز اور دیگر چیزیں لوگوں کے درمیان مفت تقسیم کرتا ہے اور لوگوں کو وہابی افکار سے آشنا کرتے ہوئے دیگر اسلامی عقائد کو غلط اور بے بنیاد ثابت کرتا ہے۔ سعودی عرب میں وہابیوں نے اپنے افکار کو مضبوط بنانے کے لیے جگہ جگہ علمی مراکز قائم کر رکھے ہیں۔
جن کی اہم ذمہ داریاں یہی ہیں کہ وہ وہابی افکام و نظریات پر مشتمل کتابیں لکھیں، ان کے مطابق قرآن کی تفسیر کریں، دوسرے ممالک میں جا کر لوگوں کو عربی زبان سکھلائیں، دنیا کے کونے کونے میں دینی مدارس قائم کروائیں۔ سعودی حکام، وہابی افکار اور امریکی دین کو پھیلانے میں اپنا تمام سرمایہ لگانے کو تیار ہیں اور لگا رہے ہیں۔
ان ثقافتی اداروں کی ایک اہم فعالیت آل سعود کے نظام کو پہچنوانے اور فرقہ ضالہ سے لوگوں کو آشنا کرانے کے لیے ریڈیو، ٹی وی اور سیٹلائٹ جیسے ذرائع ابلاغ کا استعمال کرنا ہے وہ ان ذرائع کے ذریعے یہ کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کو یہ باور کروا دیں کہ دین وہابیت ہی قرآن و سنت نبوی کے مطابق ہے اور یہی درست فرقہ ہے اس کے علاوہ نہ شیعہ مذھب راہ حق پر ہے اور نہ کوئی سنی فرقہ۔
وہابیوں کی تبلیغ کرنے کا طریقہ
وہابیوں کے حکمران آل سعود، تیل اور حج کے عظیم سرمائے سے پوری دنیا میں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو یہ یقین دلا دیں کہ سعودی حکومت قرآن اور سنت کے سائے میں تشکیل یافتہ حکومت ہے اور اس کا ہر عمل عین قرآن و سنتِ رسول ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں آل سعود کے پاس تیل اور حج سے حاصل ہونے والا سرمایہ اس قدر زیادہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے تاجر ملک اس سرمائے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں۔
وہابیت کو پروان چڑھانے والی قوم آل سعود اپنا تمام تر سرمایہ اس فرقہ ضالہ کی تبلیغ و ترویج پر خرچ کر رہی ہے۔ خود سعودی عرب میں آل سعود جو تقریبا چار ہزار ہیں نے اس ملک کی تمام کلیدی پوسٹوں پر قبضہ جما رکھا ہے اور پورے ملک پر حکومت کر رہے ہیں اور تمام ملکی سرمائے کو اپنے ہاتھوں میں رکھے ہوئے ہیں۔
آل سعود کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ زور و زبردستی سے دوسروں کو اپنے افکار قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور عصر حاضر میں وہ پیسے اور لاٹھی کے زور پر تقریبا تمام مسلمانوں پر اپنے افکار تھوپنے میں کامیاب ہو گئے ہیں صرف شیعہ ایسا مذہب ہے جس نے ابھی تک ان کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ہیں اور نہ ہی کبھی ٹیک سکتا ہے۔
ماڈرن ترین کتب خانوں کی تاسیس
وہابی فرقے کی تبلیغ کے لیے آل سعود کا ایک اہم طریقہ کار یہ ہے کہ انہوں نے سعودی عرب سمیت دنیا کے کونے کونے میں ماڈرن اور پیشرفتہ کتب خانے قائم کئے ہیں۔ درج ذیل ان پیشرفتہ کتب خانوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو سعودی عرب میں وہابیوں کے پیشرفتہ ترین کتب خانے ہیں:
- ریاض میں ملک سعود‘‘ نام کی یونیورسٹی کا کتب خانہ جس میں ایک کروڑ دس لاکھ کتابیں موجود ہیں اور ۶۰۰ نادرالوجود خطی کتابیں ہیں۔
- ملک عبد العزیز‘‘ کتب خانہ جس میں دو لاکھ ایسی کتابیں ہیں جو اکثر خطی اور کمیاب ہیں۔
- مدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹی کا کتب خانہ جس میں تین لاکھ چونتیس ہزار کتابیں اور دیگر ہر طرح کی سہولیات فراہم ہیں۔
- انجمن امور عامہ کتب خانہ جس میں ۱۷ لاکھ ستر ہزار عربی اور انگریزی میں کتابیں اور نشریات موجود ہیں۔
- ملک فیصل نامی کتب خانہ جس میں ۳۷ ہزار عربی، انگریزی اور فرانسوی کتابیں موجود ہیں۔
- ملک فہد قومی کتب خانہ جس میں سعودی عرب کی تاریخ سے متعلق ۳۰ ہزار اسناد و دستاویزات موجود ہیں۔
یہ وہ کتب خانے ہیں جو صرف ریاض اور مدینہ کے اندر موجود ہیں اس کے علاوہ دوسرے شہروں اور دیگر ممالک میں کتنے کتب خانے ہیں جس کا محاسبہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ان کتب خانوں میں عربی، انگریزی، فارسی اور اردو کی ایسی ایسی کتابیں موجود ہیں جو صرف سلفیت اور وہابیت کی تفسیر کرتی ہیں یعنی ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن کثیر اور محمد بن عبد الوہاب کے نظریات پر مشتمل ہیں اور اس کے علاوہ شیعہ اور سنی عقاید کی تردید میں ہزاروں کتابیں ان کتب خانوں میں بھری پڑی ہیں۔
انقلاب اسلامی ایران کے بعد شیعت کے خلاف وہابیوں کی تبلیغ اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے عصر حاضر میں وہ سالانہ لاکھوں کتابیں شیعت کے خلاف سعودی عرب میں چھپتی ہیں اور حج و عمرہ کے علاوہ خود دوسرے ممالک میں مسلمانوں کے درمیان مفت تقسیم کی جاتی ہیں۔ ان کتابوں میں ایک اہم چیز جو وہابی علماء اور مولفین بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام اور سنت نبوی کی تفسیر مرکز وحی یعنی حرمین شریفین سے مخصوص ہے حقیقی اسلام مکہ و مدینہ میں پایا جاتا ہے جو عقیدہ مکہ و مدینہ میں اپنایا جائے وہی درست اور عین اسلام ہے اس کے علاوہ کسی کے نظریہ کی کوئی اہمیت نہیں حرمین شریفین کی حدود سے باہر رہتے ہوئے اگر کوئی اسلام کی کوئی تفسیر کرتاہے تو وہ بالکل باطل اور غلط ہے۔
تکفیریت کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا قتل عام
وہابی علماء اور مفتی صرف خود کو جہان اسلام کا ٹھیکیدار اور ذمہ دار سمجھتے ہیں اور پورے جہان اسلام کی رہبریت کے خواب دیکھتے ہیں وہ اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے دوسرے ممالک سے افراد کو جذب کرتے ہیں اور کتب خانوں کے علاوہ دیگر امکانات ان کے لیے فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ ان کتب خانوں میں وہابیت کا اچھے طریقے سے مطالعہ کریں اور اس کے بعد اپنے اپنے ممالک میں جا کر علمی مراکز قائم کریں اور لوگوں کو اس فرقہ ضالہ کی طرف دعوت دیں۔
سعودی عرب میں مبلغین کی تربیت کا کام بہت بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے انہیں سعودی عرب میں نہ صرف وہابی افکار کی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے فرقوں سے مقابلے کی ٹکنیکیں بھی سکھائی جاتی ہیں انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ ظاہری طور پر نرم لہجے اور خوش اخلاقی سے لوگوں کے ساتھ معاشرت کی جائے اور انہیں دھیرے دھیرے اپنے افکار کی طرف کھینچا جائے لیکن جہاں پر یہ محسوس ہو کہ لوگ ان کے افکار کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں وہاں اندرونی طور پر اپنے آلہ کار تیار کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔
لہذا وہابی واضح طور پر یہ فتویٰ صادر کرتے ہیں کہ وہ لوگ وہابی افکار کے قائل نہیں ہیں وہ واجب القتل ہیں ان کا خون کرنا جائز ہے اب چاہے وہ شیعہ مذہب سے تعلق رکھنے والے ہوں چاہے کسی سنی فرقے سے۔ ان کی نگاہ میں نہ شیعہ مسلمان ہیں اور نہ ہی سنی۔ وہ پہلی فرصت میں چرب زبانی سے لوگوں کو اپنے قریب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر یہ طریقہ موثر ثابت نہ ہو تو قتل و غارت ان کا دوسرا حربہ ہوتا ہے[2]۔
وہابیت کی تاریخ
وہابیت کے اعتقادات اور نظریات، اِبن تِیمیّہ کے مبانی پر مبتنی ہے۔ مذہب حنبلی کے پیروکار ابن تیمیہ نے آٹھویں صدی میں ایسے اعتقادات اور نظریات کا اظہار کیا جو اس سے پہلے کسی بھی اسلامی فرقے نے مطرح نہیں کیا تھا۔[2] اس وقت کے نامور اہل سنت علماء نے ان کے نظریات کو ٹھکرایا اور اسلامی قلمرو میں بہت سارے مذہبی علماء نے ان کی مخالفت کی۔ بعض نے انہیں کافر قرار دیا جبکہ بعض نے انہیں جیل بھیجنے کا مطالبہ کیا۔
ان علماء کی مخالفت کی وجہ سے ابن تیمیہ کے اعتقادات کو بارہویں صدی ہجری تک خاطر خواہ رونق نہیں ملی۔ بارہویں صدی ہجری میں محمّد بن عبدالوہاب نجدی نے ان کے اعتقادات اور نظریات کو دوبارہ زندہ کیا۔ ابتداء میں ان کا کوئی پیروکار نہیں تھا یہاں تک کہ سنہ1160 ہجری میں وہ نجد کے مشہور شہر دِرعیہ چلا گیا۔ وہاں کے حاکم محمّد بن مسعود نے عبدالوہاب کے اعتقادات کو اپنی حکومت کی تقویت کیلئے مناسب سمھجتے ہوئے محمّد بن عبدالوہاب کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا۔
جس کے تحت اس نے حکومتی سربراہی میں عبد الوہاب کے اعتقادات اور نظریات کا پرچار شروع کیا اس شرط کے ساتھ کہ عبدالوہاب بھی دینی اور مذہبی پیشوا ہونے کے عنوان سے ان کی حکومت کی حمایت اور تائید کرے۔ اس کے بعد انہوں نے مختلف شہروں پر لشکر کشی کی اور ہر اس شخص کو کافر قرار دیتے ہوئے قتل کر دیتے جو ان کے اعتقادات اور نظریات کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔
اس طرح آل سعود کی حاکمیت اور قدرت میں روز بروز اضافہ ہونے لگا جس کے سائے میں وہابیت کے اعتقادات اور نظریات پر پھیلنے لگی۔ جب نوآبادیاتی نظام کے ہاتوں خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا تو سعودی عرب کو آل سعود کے لئے چھوڑ دیا گیا چونکہ ایک طرف ان کی حکومت کافی مستحکم ہو چکی تھی تو دوسری طرف سے ان کے اعتقادات اور نظریات نوآبادیاتی نظام کے اہداف میں رکاوٹ بھی نہیں بن رہے تھے۔اس وقت سے لے کر اب تک سعودی عرب کا سرکاری مذہب وہابیت قرار پایا اور اس پورے عرصے میں اپنے نظریات اور اعتقادات کو پوری دنیا میں پھیلانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور لگا رہے ہیں۔
عقائد
وہابی فرقہ کے عقائد دو طرح کے ہیں: وہ عقائد جن کے بارے میں قرآن یا سنت میں کوئی نص موجود ہے، اس سلسلہ میں وہابیوں کا یہ خیال ہے کہ وہ ایسے عقائد کو براہ راست کتاب و سنت سے حاصل کرتے ہیں اوراس بارے میں کسی مجتہد کی طرف رجوع نہیں کرتے چاہے وہ مجتہد صحابی ہو یا تابعی اوریا کوئی امام ہو۔
دوسرے وہ عقائد جن کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں ہے اس کے لئے وہ اپنے خیال کے مطابق امام احمد بن حنبل اور ابن تیمیہ کے فقہی فتووں کی طرف رجوع کرتے ہیں[3]
شعائر دینی کے بارے میں نظریہ
وہابی دینی شعائر اور دوسرے فرقوں کے مقدسات کی نسبت انتہائی بربریت کا اظہار کرتے ہیں پیغمبروں کی قبروں پر گنبد کی تعمیر، مردوں کی قبروں کی زیارت اور ان کے لیے فاتحہ خوانی، مردوں کے لیے ختم قرآن کے مراسم اور بزرگان دین سے شفاعت طلب کرنے کو بدعت قرار دیتے ہوئے ان چیزوں کو سماج سے کلی طور پر ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ وہابیوں کی تمام کتابیں، رسالے، ان کے خطیبوں کی تقاریر خاص طور پر مسجد النبی(ص) کے امام کے خطبے سب کے سب توحید، شرک اور بدعت کے بارے میں اور لوگوں کو دعا، توسل اور شفاعت سے روکنے کے سلسلے میں ہوتے ہیں۔
وہابیوں کا خدا
وہابیت جو اپنے آپ کو توحید اور بطور خاص توحید عبادی کا مدافع معرفی کرتی ہے، خدا کو ایک جسمانی موجود قرار دیتی ہے۔ وہابیت کی نگاہ میں خدا کی اہم ترین خصوصیات درج ذیل ہیں:
- خدا جسم رکھتا ہے پس جسمانی امور سے منزہ نہیں ہے۔
- خدا ہر رات آسمان سے زمین پر آتا ہے۔
- خدا تمام انسانی اعضاء کا حامل ہے سوائے داڑھی اور شرمگاہ کے۔
مشترکہ اعتقادات: وہابیوں کے بعض دیگر اعتقادات درج ذیل ہیں
حضرت نوح (ع) پہلے نبی ہیں؛ خدا کو آخرت میں دیکھا جا سکتا ہے؛ انبیاء صرف مقام تبلیغ میں معصوم ہیں لہذا جس وقت تبلیغ میں مشغول نہیں ان کا گناہ کے مرتکب ہونے اور اپنی شریعت کے برخلاف قدم اٹھانے کا بھی امکان ہے۔
اہم شخصیات
ابن تیمیہ
ابو العباس احمد بن عبد الحلیم حرّانی جو ابن تیمیہ کے نام سے معروف تھا، مذہب حنابلہ کے ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے علماء میں سے تھا۔ چونکہ ان کے نظریات اپنے ہم عصر علماء کے نظریات سے مخالف تھے اسی بنا پر دوسرے علماء نے ان کے کافر ہونے کا فتوا لگایا یوں اسے جیل بھیج دیا گیا۔ شام پر مغلوں کے حملے کے وقت شام سے قاہرہ فرار کیا، سنہ 712 ھ کو دوبارہ دمشق واپس آیا اور سنہ 728 ھ کو قلعہ دمشق میں وفاتی پائی۔
ابن تیمیہ باوجود اس کے کہ وہ اور ان کا والد مذہب حنابلہ کے پیروکار تھے، لیکن فقہی مسائل میں احمد بن حنبل کی پیروی کرنے کا پایبند نہیں تھا۔ اسی طرح کلامی مسائل میں مسئلہ توحید پر زیادہ تاکید کی خاطر شہرت اور اجماع کے مخالف بہت زیادہ نظریات کا حامل تھا۔
ابن قیم
شمس الدین ابو عبد اللّہ محمد جو ابن قیم جوزی کے نام سے معروف ہے،(691-751 ھ) ابن تیمیہ کا شاگرد تھا اور اپنے استاد کی طرح ان کے مذکورہ نظریات کا دفاع کرتا تھا اسی بنا پر دین اسلام میں بدعت گذاری کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا۔
محمد بن عبدالوہاب
نجد کے شہر عینیہ میں پیدا ہوا اور اپنے والد کے یہاں سے فقہ حنابلہ کی تعلیم حاصل کی۔ توحید کے مسئلے میں افراطی نظریات خاص کر توسل، تبرک اور زیارت قبور جیسے مسائل میں مشہور کی مخالفت کی وجہ سے سنہ 1106 ھ میں درعیہ سے نکال باہر کیا گیا لیکن یہاں کے حاکم، محمد بن سعود نے اپنی حکومت کی بقا کی خاطر ان کی مدد اور حمایت کا اعلان کیا۔ یوں اس نے تھوڑی مدت میں اپنی رعایا کو "نجد" کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا اور محمد
بن سعود کی مدد سے "نجد" پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بعد میں اس نے حکومت کو محمد بن سعود کے بیٹے عبدالعزیز کے حوالے کر دیا اور وہ خود سنہ 1206 ھ میں اپنی وفات تک انے نظریات کی تدریس اور ترویج میں مشغول رہے۔
وہابیوں کے بعض خلاف شرع اقدامات
سعودی عرب میں حکومت پر قابض ہونے کے بعد وہابیوں نے اپنے اعتقادات کے مطابق بہت سارے کام انجام دیئے ان کے بعض اہم اقدامات درج ذیل ہیں:
- انہدام جنت البقیع سنہ 1221 ھ
- سنہ 1216 ھ میں حرم امام حسین (ع) کی تخریب، ضریح سمیت قیمتی اشیاء کی چوری، زائرین کا قتل عام اور عورتوں کو اسیر بنانا
- سنہ 1221 ھ میں حرم امام علی (ع) کو منہدم کرنے کی قصد سے نجف پر حملہ
تبلیغ
اس فرقہ کے علماء نے شروع سے اپنے اعتقادات اور نظریات کی ترویج اور نشرواشاعت کیلئے سخت کوششیں کی اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔ افریقہ: موجودہ دور میں ایک کثیر رقم مختص کرکے افریقہ اور برصغیر میں وہابیت کی ترویج کیلئے بہت کوشش کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگ اس مذہب میں داخل ہو رہے ہیں۔
برصغیر
میں پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم سے پہلے سر سید احمد خان (1817-1898 ء) کو وہابیت کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے 1822ء میں اپنے سفر حج کے دوران مذہب وہابیت اختیار کیا اور واپسی پر پنجاب میں اس مذہب کی طرف لوگوں کو دعوت دینا شروع کیا۔ انہوں نے اس منطقہ میں سعودی عربیہ میں وہابی حکومت کی طرز پر ایک ریاست بنائی اور یہاں تک پیشرفت کیا کہ شمالی ہند کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ وہ اس منطقہ میں موجود علماء اور دینی رہنماؤوں کو وہابیت کی طرف دعوت دیتے اور جو بھی ان کے نظریات کو قبول نہ کرتے ان کے ساتھ اعلان جہاد کرتا تھا۔
الجزائر
میں امام سنّوسی حج کیلئے مکہ چلا گیا اور وہاں پر انہوں نے اس مذہب کو اختیار کیا پھر وطن واپسی پر اس مذہب کی ترویج شروع کی۔
یمن
میں مقبل بن ہادی وادعی (متوفی 1422 ھ) نے وہابیت کی ترویج کی۔ ان اواخر میں اپنے اعتقادات کی ترویج اور تبلیغ کیلئے بروئے کار لائے جانے والے وہابیوں کے بعض اقدامات درج ذیل ہیں:
وہابیت کا دوسرا نام امریکی اسلام
فرقہ وہابیت نے اپنے وحشیانہ اور شدت پسندانہ اعمال کے ساتھ پوری دنیا میں اس قدر حقیقی اسلام کا حقیقی چہرہ مسخ کر دیا ہے کہ آج اُس اسلام کو جو دین محبت ہے تشدد اور قتل و غارت کا دین سمجھا جانے لگا ہے۔ سلف صالح کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے اسلامی اور دینی رنگ دھار کر مختلف احزاب اور گروہوں کی شکل میں امریکہ اور اسرائیل کے اسلحے سے شام، عراق، لبنان، پاکستان، بحرین اور دیگر ممالک میں شیعہ، سنی، عیسائی، یہودی سب کے خون سے ہولی کھیلنے والا اگر کوئی فرقہ ہے تو وہ صرف وہابی فرقہ ہے۔
تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ خود کو اس گمراہ فرقے سے الگ کریں اور اپنا دامن بچاتے ہوئے اس فرقے کے ساتھ اعلان جنگ کریں تاکہ سب کے لیے یہ آشکار ہو جائے کہ وہابیت نامی ٹولے کا اسلام حقیقی سے کوئی سروکار نہیں ہے یہ اگر مسلمان ہیں تو اسلام محمدی (ص) کے مسلمان نہیں بلکہ امریکی اسلام کے مسلمان ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ وہابیت عقل و شریعت کی نگاہ میں- اخذ شدہ بہ تاریخ: 18 اپریل 2025ء
- ↑ وہابیت کا دوسرا نام امریکی اسلام-اخذ شدہ بہ تاریخ: 18 اپریل 2025ء
- ↑ وہابیت کے چہرے- اخذ شدہ بہ تاریخ: 18 اپریل 2025ء
