بقیع

    ویکی‌وحدت سے
    بقیع.jpg

    بقیع جنت البقیع مدینہ منورہ میں واقع اہم قبرستان ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت علیھم السلام ،امہات المومنین، جلیل القدر اصحاب، تابعین اور دوسرے اہم افراد کی قبریں موجود ہیں۔ ان مطہر اور مبارک قبروں پر بنے گنبدوں کو آل سعود نے 8 شوال 1344 ہجری قمری میں شہید کردیا تھا۔ جنت البقیع کے انہدام ، آل رسول (ص) ، امہات المؤمنین اور صحابہ کرام کی قبروں کی توہین اور انھیں شہید کرنے کے بعد سعودی عرب کے جاہل و نادان حکمرانوں کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے مزید نمایاں ہوگيا۔

    وجہ تسمیہ

    مدینہ منورہ میں موجود قبرستان ہے۔ یہاں اصحابِ رسول، اہلِ بیتِ رسول اور کئی معزز شخصیات مدفون ہیں۔ بقیع اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جنگلی پیڑ پودے بکثرت پائے جاتے ہوں اور چونکہ بقیع قبرستان کی جگہ میں پہلے جھاڑ جھنکاڑ اور کانٹے عوسج یعنی غرقد کے پیڑ بکثرت تھے اس لیے اس قبرستان کا نام بھی بقیع غرقد پڑ گیا۔

    عربی میں بقیع ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں مختلف قسم کے جنگلی درخت پائے جاتے ہوں بقیع غرقد کی وجہ تسمیہ یہی ہے کہ یہاں کانٹے دار غرقد نامی درخت کی کثرت تھی جس کی وجہ سے اس جگہ کا نام بقیع غرقد پڑگیا۔

    جنت البقیع

    مدینہ منورہ کا قدیمی قبرستان، سر زمین بقیع کو قرار دیا گیا جسے بعد میں بعد قبرستان جنت البقیع کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔

    محل وقوع

    اس کا محل وقوع یہ ہے کہ یہ قبرستان مدینہ منورہ کی آبادی سے باہر مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں واقع ہے، اس کے ارد گرد مکانات اور باغات تھے اور تیسری صدی میں جو مدینہ منورہ کی فصیلی دیوار تعمیر ہوئی اس سے یہ ملا ہوا تھا، اس فصیل کی تجدیدات متعددبار ہوئی ہے، جن میں آخری تجدید عثمانی ترکی دور میں سلطان سلیمان قانونی کے زمانہ میں ہوئی، پھر اس ملک میں امن قائم ہوجانے کے بعد اس فصیلی دیوار کو منہدم کر دیا گیا۔

    پھر مسجد نبوی شریف کی آخری توسیع میں اس قبرستان اور مسجد نبوی شریف کے درمیان جو مکانات تھے ان سب کو منہدم کر دیا گیا، ان دنوں کے درمیان جو محلہ آباد تھا، وہ اغوات کے نام سے مشہور تھا، مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں اب یہ بقیع قبرستان مسجد نبوی شریف کے خارجی صحن سے مل چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات مہاجرین رضوان اللہ اجمعین نے جب مدینہ منورہ کو ہجرت کر کے اپنا مسکن و وطن بنایا۔

    تو اس شہر مبارک میں مزید تعمیری و تمدنی ترقی ہونے لگی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ کوئی مناسب جگہ مسلمانوں کی اموات کی تدفین کے لیے متعین ہو جائے، اسی مقصد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس (بقیع کی) جگہ تشریف لائے، تو ارشاد فرمایا:" مجھے اس جگہ (یعنی بقیع) کا حکم (قبرستان کے لیے) دیا گیا ہے" [1]۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس (بقیع کی) جگہ مسلمانوں کا قبرستان بنانے کا حکم فرمایا تھا اور یہیں سے اس جگہ یعنی بقیع قبرستان کی فضیلت کی ابتدا ہوتی ہے۔

    موجودہ حدود

    عصر حاضر میں شہر مدینہ کی توسیع کے بعد جنت البقیع شہر کے وسط میں قرار پا گیا ہے۔ مسجد نبویؐ اور جنت البقیع کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے۔بقیع کے موجودہ حدود میں وہ علاقہ بھی شامل کر لیا گیا ہے جہاں خلیفہ سوم عثمان بن عفان کی قبر تھی جو اصل جنت البقیع کے حدود کے باہر یہودیوں کا قبرستان تھا ۔

    جنت البقیع میں مدفون پہلی اسلامی شخصیت

    عام طور پر مشہور یہ ہے کہ جنگ بدر کے بعد سب سے پہلے صحابی رسول عثمان بن مظعون کی وفات کے موقع پر نبی اکرمؐ نے انہیں بقیع میں دفن کرنے کا حکم دیا۔ آپ ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ ان کی قبر مبارک پر علامت کے طور پر ایک پتھر رکھا اور حکم دیا کہ اس کے اطراف میں اور مرحومین کو دفن کیا جائے۔ بعض مورخین نے بقیع میں مدفون پہلی شخصیت اسعد ابن زرارہ کی بیان کی ہے جس کی توجیح اس طرح ممکن ہے کہ شاید بقیع میں دفن ہونے والی انصار کی پہلی شخصیت اسعد بن زرارہ کی تھی۔

    قبر جناب ابراہیم ابن رسولؐ

    جب پیغمبراسلامؐ کے فرزند جناب ابراہیم کی وفات ہوئی تو آپ نے انہیں بھی جناب عثمان بن مظعون کے پہلو میں دفن کرنے کا حکم دیا اس طرح قبرستان بقیع میں نسل پیغمبر اسلامؐ کے دفن کا سلسلہ شروع ہوا۔

    بقیع میں مدفون ائمہ معصومینؑ

    پیغمبر اسلامؐ کے بارہ جانشینوں میں سے چار معصوم امام یعنی امام حسنؑ، امام زین العابدین ؑ ، امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کی قبریں ہیں۔ ایک احتمال کے مطابق صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر مطہر بھی اسی قبرستان میں ہے ان قبروں پر بنے ہوئے قبہائے مطہرہ کو آل سعود کے ظالم و جابر حکمرانوں نے منہدم کر دیا۔ عالم اسلام اس عظیم سانحہ پر سوگوار ہے۔

    بقیع میں مدفون دیگر شخصیات

    پیغمبر اسلامؐ کے اعزاء مثلاً آپ کے چچا جناب عباس بن عبد المطلب، آپ کے چچا زاد بھائی، جناب عقیل بن ابیطالب، آپ کے اصحاب مقداد ابن اسود، خزیمہ ذوالشہادتین، زید ابن حارثہ، جابر ابن عبداللہ انصاری کے علاوہ بہت سے اصحاب تابعین مدفون ہیں ان کے علاوہ پیغمبر اسلام کی ازواج آپ کی پھوپھیاں وغیرہ کے ساتھ ساتھ جناب عباسؑ علمدار کی والدہ جناب ام البنین بھی اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔

    جنت البقیع میں موجود قبے اور روضے

    تاریخی حوالوں اور زایرین کے اقوال کے مطابق جنت البقیع میں اولاد رسول کی قبروں پر قبے اور روضے تعمیر تھے اس کے علاوہ شہزادی کونین حضرت فاطمہ ص کی یادگار بیت الحزن بھی تعمیر تھا استعماری سازشوں کے نتیجے میں وجود میں آنے والی سعودی حکومت نے وہابی نظریات کے اتباع میں ان مقدس بارگاہوں کو منہدم کر دیاانہدام کی یہ کاروایی دو مرتبہ دہرایی گئی۔ پہلی بارسنہ۱۲۲۰ھ اور دوسری بارسنہ ۱۳۴۴ھ پہلی بار انہدام کے بعدسنہ۱۲۳۴ھ میں عثمانی حکومت کے فرماںرواسلطان محمود ثانی کے حکم سے ان میں سے بعض بار گاہیں دوبارہ تعمیر ہوئیں۔

    انہدام کے محرکات

    استعماری طاقتوں نے اپنے ناپاک مقاسد کے لیے ہمیشہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے ان کے درمیان نفرتیں پھیلانے اور ان کی صفوں میں اختلاف پیدا کرنے کے لیے نئے نئے اعتقادات اور نظریات کا سہارا لیا ہے چنانچہ ابن تہمیہ کے نظریات کو بنیاد بناکر وہابیت کی شکل میں ایک نیا مذہب پیدا کیا محمد ابن عبدالوہاب نامی خود سر جوان کو اہنے مشن کی کامیابی کے لیے آلہ کار بنایا درعیہ کے حاکم کو پورے علاقہ کی حکومت کا لالچ دیکر عبد الوہاب کا تابع بنایا اور اس طرح مسمانوں میں ایک طویل مدت کشمکش پیدا کر دی۔ شروع شروع میں پوری دنیا کے عام مسلمانوں نے اس غیر اسلامی حرکت کے خلاف احتجاج کیا

    لیکن پھر آہستہ آہستہ دولت کی بنیاد پر وہابیت نےاپنی ترویج کے ذریعہ پوری دنیا میں اپنے ہمنوا پیدا کرلیے اگرچہ انصاف پسند مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی آج تک وہابیت کے اس اقدام کی مذمت کر رہے ہیں وہابیوں نے طائف جدہ مکہ مدینہ میں مذہبی مقامات کے علاوہ کربلا اور نجف میں بھی اس قسم کے اقدامات کی کوشش کی لیکن وہاں کے بہادر عاشقان اہل بیت ع کی مزاہمت کے سامنے کامیاب نہ ہو سکے ۔

    انہدام بقیع

    آل سعود اور وہابی تکفیری دہشت گردوں نے یہ سیاہ کارنامہ 8 شوال 1344 ہجری قمری میں انجام دیا۔ انھوں نے یہ مجرمانہ عمل اسلامی تعلیمات کی آڑ میں انجام دیا ، جبکہ اہلسنت علماء اور شیعہ علماء قبور کی تعمیر اور ان کی حرمت کے قائل ہیں ۔ شیعہ اور سنی علماء اور دانشور انبیاء، اولیاء، اوصیاء ، صحابہ کرام ، آئمہ معصومین (ع) اور امہات المؤمنین کی قبور کی بے حرمتی کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔

    وہابی تکفیریوں نے اہلسنت کا لبادہ اوڑھ کر جنت البقیع میں انبیاء، اولیاء، اوصیاء ، صحابہ کرام ، آئمہ معصومین (ع) اور امہات المؤمنین کی قبور کو شہید اور منہدم کردیا، وہابیوں کے اس اقدام کی سن 1344 ہجری سے لیکر آج تک مذمت کا سلسلہ جاری ہے، عالم اسلام میں 8 شوال کے دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جنت البقیع مدینہ کا سب سے پہلا اور قدیم اسلامی قبرستان ہے۔ شیعہ اماموں میں سے چار آئمہ(ع)، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ، صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اکابرین اسلام اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔

    انہدام بقیع پر مسلمانوں کا احتجاج

    آئمہ معصومین(ع) اور بعض دوسرے اکابرین کی قبروں پر گنبد و بارگاہ موجود تھی، جسے پہلی بار تیرہویں صدی ہجری اور دوسری بار چودہویں صدی ہجری میں وہابیوں نے شہید اور منہدم کردیا، جس پرپاکستان ، ایران اور ہندوستان سمیت مختلف اسلامی ممالک کے شیعہ اور سنی علماء اور عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ جنت البقیع قبرستان میں موجود چار آئمہ معصومین (ع) اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بیت الحزن پر موجود گنبد جو بیت الاحزان کے نام سے معروف تھا، وہابیوں کے پہلے حملے میں شہید ہو گئے۔

    8 شوال 1344 قمری میں سعودی عرب کی حکومت نے قبور اہلبیت (ع) کی زیارت کو شرک اور بدعت قراردیتے ہوئے قبرستان بقیع کے تمام اسلامی اور تاریخی آثار کو شہید اور منہدم کر دیا۔ انبیا اور اولیاء ، اہلبیت (ع) اور صحابہ کرام کی قبور پر گنبد کی تعمیرکو اہلسنت اور شیعہ علماء جائز سمجھتے ہیں جبکہ وہابی علماء بے بنیاد اور سازشی وجوہات کی بنا پر ناجائز سمجھتے ہیں، وہابیوں نے مال و زر اور طاقت کے زور پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے اسلامی آثار کو بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ محو کردیا اور آج بھی وہابی دہشت گرد تنظیمیں اولیاء کرام اور ممتاز اسلامی شخصیات کے مزاروں کو شہید اور منہدم کرنے کے عقیدے پر گامزن ہیں۔

    دنیا بھر کے شیعہ اور سنی مسلمانوں کو وہابیوں کے اس مکروہ ،بھیانک ، ناپاک اور گمراہ کن عقیدے کا باہمی اتحاد اور اتفاق کے ذریعہ مقابلہ کرنا چاہیے۔ تاریخ اسلام کے مطابق مغربی طاقتوں کی ایما پر خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کے بعد وہابی تکفیری دوبارہ حجاز میں داخل ہوئے۔ اِس مرتبہ بھی انھوں نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ تمام اسلامی و تاریخی ورثہ کو مسمار کر دیا۔

    اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں واقع قبرستان "جنت المعلی” اور نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آبائی گھر کو گرا دیا۔ وہابی تکفیریوں نے اپنی طاقت کے اظہار کے لئے سرزمینِ حجاز کا نام بدل کر سعودی عرب رکھ دیا۔اس قبیح فعل کے ردِ عمل میں تمام اسلامی دنیا نے صدائے احتجاج بلند کیا گيا۔ متحدہ ہندوستان میں آلِ سعود کے مذکورہ اقدام کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ ایران ،عراق ،مصر ، انڈونیشیا اور ترکی میں مظاہرے ہوئے۔

    مکہ مکرمہ میں جن محترم و بزرگ ہستیوں کی قبور کو منہدم کیا گیا ان میں حضرت بی بی آمنہ (س) حضرت خدیجہ بنتِ خویلد (س) حضرت ابو طالب (ع) اور حضرت عبدالمطلب (ع) کی قبریں شامل ہیں۔ جبلِ احد پر حضرت حمزہ (ع) اور دوسرے شہدا اور جدہ میں حضرت بی بی حوا (س) کی قبریں بھی آلِ سعود کے وحشانہ عقیدے کا نشانہ بنیں۔

    اس کے علاوہ بنو ہاشم کے مخصوص افراد کے گھر بھی ڈھا دیے گئے جن میں حضرت علی (ع) سیدہ فاطمہ زہرا (ع) اور حضرت حمزہ (ع) کے گھر شامل ہیں۔ مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان جنت البقیع میں دخترِ رسول حضرت فاطمہ زہرا (س)، امام حسن (ع)، امام زین العابدین (ع)، امام محمد باقر (ع) اور امام جعفر صادق (ع) کے روضوں کو منہدم کیا گیا۔

    فرزندِ رسول حضرت ابراہیم (ع) ازواجِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ حضرت فاطمہ بنتِ اسد (س) حضرت ام البنین (س) حضرت حلیمہ سعدیہ (س) حضرت عثمان (رض) اور دوسرے صحابہ کرام (رض) کی قبور کی اونچائی کو ختم کر دیا گیا۔ زائرین کو قبور کے پاس جانے اور فاتحہ خوانی کی اجازت نہیں کیونکہ آج بھی سرزمین حجاز (سعودی عرب) پر آلِ سعود قابض ہیں۔ آلِ سعود کی سرپرستی میں اسلامی مقدسات کے انہدام اور توہین کا سلسلہ آج بھی جاری ہے[2]۔

    انہدم جنت البقیع کے اسباب

    جنت البقیع کے انہدام پرپوری مسلم دنیا نے احتجاج کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے سنی بھائیوں نے اس واقعہ کو بھلا دیا اور آج فقط شیعہ 8 شوال کو یوم انہدام جنت البقیع کو منا کر اہلبیت رسول اللہ(ص) سے محبت کا فریضہ اور اجر رسالت ادا کرتے ہیں۔

    حوزہ نیوز ایجنسی।قالت سیدۃ زینب سلام اللہ علیہا:’’فَوَ اللَّهِ لَا تَمْحُو ذَکَرْنَا وَ لَا تُمِیتُ وَحْیَنَا و لا تدرک أمرنا ‘‘[3]۔ 8 شوال عالم اسلام کا ایک غم انگیز دن ہے آج سے چند سال پہلے 1344 ھ۔ ق 1926/ء کو استعمار اور طاغوت کے پرورش یافتہ فرقہ وہابیت نے مدینۃ الرسول کے تاریخی قبرستان’’ جنت البقیع‘‘ میں موجود قبروں منہدم و مسمار کر دیا تھا۔ قبرستان جو کہ مدینہ منوّرہ کے جنوب مشرقی حصے میں واقع ہے ۔جس میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجداد،اہلبیت علیھم السلام(امام حسن مجتبیٰؑ،امام زین العابدینؑ،امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ)، امہات المؤمنین اور ان کے علاوہ کتنے ہی جلیل القدر اصحاب اور تابعین کی قبور بھی موجود ہیں ۔

    پیغمبر گرامی اسلام(ص) جب بھی بقیع کے قبرستان سے گزرتے فرماتے تھے:’’السلام علیکم من دیار قوم مؤمنین وانّا ان شاء اللہ بکم لاحقون‘‘۔امّ قیس کہتی ہیں: بقیع کے قبرستان میں رسول خدا(ص) کے ساتھ کھڑی تھی؛ حضرت(ص) نے فرمایا: ’’امّ قیس! ان قبروں سے ۷۰ ہزار ایسے لوگ مدفون ہیں جو بغیر حساب وکتاب کے بہشت میں داخل ہوں گے‘‘۔ لیکن اپنے آپ کو خادم حرمین شریفین کہلانے میں فخر محسوس کرنے والوں نے ایسے عظیم المرتبت افراد کی قبور کو منہدم ومسمار کر دینےمیں ذرّہ برابر بھی شرم محسوس نہ کی؛ اس لئے ان محرکات اور اسباب کا جاننا نہایت ضروری ہے جن کی وجہ سے اس تاریخی قبرستان کو مسمار کیا گیا۔بطور اختصار انہدام کرنے کے چند ایک اہم عوامل کو یہاں پربیان کر رہے ہیں ۔

    1۔ صحیح دینی عقائد سے انحراف

    جس دین میں شعائر اللہ کی تعظیم کو ایک پسندیدہ امر اور ثواب کا باعث شمار کیا گیا اسی دین میں وہابی فرقے کے بنیان گذار محمد بن عبد الوہاب نے تفسیر بالرائے اور اپنے غلط عقائد کو استعمال میں لاتے ہوئے آل سعود کے ساتھ خاص معاہدوں کی بنا پر ان غلط عقائد کا پرچار کروایا ۔گذشتہ چودہ صدیوں سے پورے عالم اسلام میں قبور کی زیارت، احترام،تعمیر ومرمت اور دیکھ بھال ہوتی آ رہی تھی اچانک اس نئے فرقے کے غلط عقائد نے ان تمام اعمال کو کفر و شرک کے زمرے میں شمار کرنا شروع کر دیا ۔ یہی غلط عقیدہ سبب بنا کہ جنت البقیع میں واقع اہلبیت رسول اللہ (ص) اور عظیم و جلیل القدر اصحاب کی قبور کو منہدم و مسمار کر دیا گیا۔

    2۔ فکری اور مذہبی انتشار

    انیسویں اور بیسیوں صدی میں اسلامی دنیا کے اندر ہلچل مچی ہوئی تھی اور یہ عیناً وہی وقت تھا جب وہابیت حجاز کے اندر جڑ پکڑ رہی تھی۔ طاغوتی اور استعماری طاقتوں نے اس فکری اور مذہبی انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محمد بن عبد الوھاب جیسے افراد کی پشت پناہی شروع کر دی جس کے نتیجے میں آل سعود نے محمد بن عبد الوھاب کے ساتھ کئے گئے معاہدوں اور ان بد نظمیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی ارزشمند آثار کو خراب اور مسمار کرنا شروع کردیا ۔ جس کے نتیجے میں اہل بیت علیھم السلام اور اصحاب رسول(ص) کی قبور بھی آل سعود کے مظالم کے سامنے محفوظ نہ رہ سکیں۔

    3۔ اھلبیت(ع) سے دشمنی:

    قبرستان جنت البقیع کو مسمار کرنے کے باوجود ؛ پیغمبر گرامی اسلام (ص) کے روضے کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا اور یہ چیز خود اس بات کا ثبوت ہے کہ جنت البقیع کو منہدم کرنے کا مسئلہ کوئی فقہی مسئلہ نہیں تھا بلکہ اہلبیت علیھم السلام سے ان کی دیرینہ دشمنی اور بغض وکینہ کی وجہ سے شرک و کفر کی آڑ آئمہ معصومین علیھم السلام کی قبروں کو مسمار کیا گیا ہے۔

    جنت البقیع کے انہدام پرپوری مسلم دنیا نے احتجاج کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے سنی بھائیوں نے اس واقعہ کو بھلا دیا اور آج فقط شیعہ 8 شوال کو یوم انہدام جنت البقیع کو منا کر اہلبیت رسول اللہ(ص) سے محبت کا فریضہ اور اجر رسالت ادا کرتے ہیں[4]۔

    انہدام جنت البقیع کے خلاف احتجاجات

    پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ وہابیوں کے اس اقدام کے خلاف خود سعودی عرب میں مقیم مسلمانوں نے اس عمل کی مزمت کی پوری دنیا کے شیعہ ہر سال ۸ شوال کو انہدام جنت البقیع کے نام سے سوگ مناتے ہیں۔ اس دن عزاداری کے ساتھ ساتھ وہابیت کے خلاف غم اور غصہ کا اظہار کرتے ہیں اور تمام اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے انصاف پسند حکمراں اور عوام سعودی حکمرانوں سے بقیع کے مزارات کی دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔

    جنت بقیع کے انہدام پر علماء اسلام کا رد عمل

    آیت اللہ العظمی سیدابوالحسن اصفہانی سمیتنجف اور قم کے دیگر بزرگان نے وہابیوں کے اس عمل کی شدید مذمت کی۔ کہا جاتا ہے کہ قبرستان بقیع کے انہدام کی وجہ سے حوزہ علمیہ قم کے بانی آیت اللہ حائری نے اپنےکلاس درس میں گریہ کیا اور اپنے درس و تدریس کو معطل کردیا۔ آیت اللہ بروجردی نے اپنا نمایندہ محمدتقی طالقانی (آل احمد) کو حالات کا جائزہ لینے کیلئے مدینہ روانہ کیا۔ کراچی میں اسلامی کانفرنس میں بھی محمد حسین کاشف الغطاء اور آیت الله بروجردی کے نمائندے، محمد تقی طالقانی نے سعودیہ عربیہ کے سفیر کے ساتھ ملاقات کی اور قبرستان بقیع کی تعمیر اور مرمت کی ضرورت پر زور دیا۔

    آیت اللہ سید محسن امین عاملی خود حالات کا جائزہ لینے حجاز گئے اور اپنی تحقیقات کے نتائج کو اپنی کتاب کشف الارتیاب میں مسلمانوں کے سامنے رکھا۔ اسی طرح بہت سارے فقہاء نے قبرستان بقیع کی تعمیر نو اور مرمت کے ضروری ہونے کا فتویٰ دیا۔

    انہدام بقیع کے سلسلہ میں کتابوں کی اشاعت

    اس واقعے کے خلاف علماء اسلام کے دیگر اقدامات میں اولیاء الہی کے قبور کی تعمیر کے حوالے سے فقہی منابع اور احکام پر مشتمل کتابوں اور جرائد کی اشاعت تھی۔محمد جواد بلاغی نے اپنی کتاب رد الفتوی بہدم قبور الائمۃ فی البقیع میں قبور کی مسماری کے جواز کے حوالے سے وہابیوں کی فکر اور سوچ کو مخدوش کیا۔ اس کے علاوہ بقیع کی ویرانی کے حوالے سے مختلف کتابیں لکھی گئیں جن میں سے سید عبدالرزاق موسوی مقرم نے اپنی کتاب ثامن شوال میں سنہ ۱۳۴۳ھ ق کے واقعےکو تفصیل سےذکر کیا ہے۔

    اسی طرح یوسف ہاجری کی کتاب ’البقیع قصۃ تدمیر آل سعود للآثار الاسلامیہ‘ اور عبدالحسین حیدری موسوی کی کتاب ’قبور ائمۃ البقیع قبل تہدیمہا‘میں ائمہ بقیع کی بارگاہوں کی ویرانی کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حسن آل برغانی کی کتاب ’بقیع الغرقد‘ میں مدینہ پر وہابیوں کے پہلے حملے اور بقیع کی ویرانی کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر شعبہ ہای زندگی سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی جانب سے قبرستان بقیع کے انہدام پر اظہار افسوس اور ندامت کو مختلف شاعروں نے اپنے اشعار میں قلم بند کیا ہے۔محمد جواد بلاغی کی کتاب ’دعوی الہدی الی الدرع فی الافعال و التقوی‘ اور ’معجم ما الفّہ علماء الاسلام رداً علی الوہابیہ‘ بھی اسی نوعیت کی ہیں[5]

    قم المقدسہ میں یوم انہدام جنت البقیع کے موقع پر انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد

    انٹرنیشل بقیع.jpg

    قم المقدسہ میں واقع مدرسہ امام خمینیؒ کے شہید عارف حسینی ہال میں یوم انہدام جنت البقیع کے موقع پر "تحریر پوسٹ" کے زیر اہتمام ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف مقررین نے آل سعود کے مظالم کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور جلد از جلد جنت البقیع کی تعمیر کا مطالبہ کیا۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آج مورخہ 10 اپریل 2025ء بروز جمعرات، قم المقدسہ میں واقع مدرسہ امام خمینیؒ کے شہید عارف حسینی ہال میں یوم انہدام جنت البقیع کے موقع پر تحریر پوسٹ، انجمن آل یاسین، مرکز افکار اسلامی جیسی انجمنوں کے زیر اہتمام ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

    جس میں مختلف مقررین نے آل سعود کے مظالم کے خلاف اپنی آوازیں بلند کیں اور جنت البقیع کی تعمیر کا مطالبہ کیا، ساتھ ہی گذشتہ۱۰2 سال کے نشیب و فراز کا تذکرہ کیا، شعرائے کرام جیسے جناب ندیم سرسوی اور جناب علی مہدی نے بقیع اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کے حوالے سے اشعار پیش کئے۔نظامت کے فرائض حجۃ الاسلام والمسلمین سید مظفر مدنی نے انجام دیئے۔

    پروگرام کا باقاعدہ آغاز جناب عاشق حسین میر نے تلاوت قرآن کریم سے کیا۔ اس کے بعد جنت البقیع کے سلسلے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی اور آیت اللہ العظمی شیخ صافی گلپائیگانی قدس سرہ کے بیانات پر مبنی کلپ چلائی گئی۔ کانفرنس کے پہلے خطیب "تحریک تعمیر بقیع" کے سرپرست حجۃ الاسلام والمسلمین سید محبوب مہدی عابدی تھے۔ جنہوں نے یو-ایس-اے سے اپنے ویڈیو خطاب کے ذریعہ شرکاء کانفرنس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: بقیع ایک صدی سے ہم پر وہ قرض ہے جو بدقسمتی سے بھلایا جا چکا ہے، یا جسے دشمنان اہلبیت (ع) کے تئیں خاکِ مدینہ میں دبایا جا چکا ہے۔ اسی کے ساتھ دوسرا ظلم یہ ہے کہ اس دن کو اس طرح نہیں منایا جاتا جس طرح اس کا حق ہے۔

    انہوں نے کہا: بقیع زمین کا صرف ایک ٹکڑا نہیں بلکہ انصاف و انسانیت کا نمونہ اور تاریخ کا محافظ ہے۔ بقیع کی فریاد کسی بھی قبیلے یا گروہ سے ہٹ کر ایک کاملاً ایمانی، انسانی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ چونکہ ہم ان قبور کی حرمت کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو مظلومیت کی صدا ہیں، جو تخریب اور ٹوٹ جانے کے باوجود بیدار دلوں کے ساتھ گفتگو کرتی ہیں اور ان کے ضمیروں کو جھنجھوڑ رہی ہیں چونکہ اہلبیت عصمت و طہارت (ع) کی قبور مطہرہ اور ان کے حرموں کے ساتھ یہ ظلم ہمارے زمانے میں واقع ہوا ہے لہذا ہم سب اس کے مقابلے میں مسئول ہیں اور کل ہمیں خدا کی بارگاہ میں جوابدہ ہونا ہے۔

    حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر حسین عبدالمحمدی نے اپنے خطاب میں کہا: دشمن یہ چاہتا ہے کہ وہ مسئلہ انہدام جنت البقیع کو لوگوں کے ذہنوں سے مٹا دے لہذا مومنین کے لیے ضروری ہے کہ جنت البقیع کے سلسلے میں مجلس، احتجاج، کانفرنس اور مختلف تحریکیں چلائیں اور اہلبیت علیہم السّلام کی مظلومیت کو دنیا کو بتائیں اور آئمہ بقیع کے کارناموں کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور ان ذوات مقدسہ کا تعارف کرائیں، اس طرح کی کانفرنس منعقد ہونا ضروری ہے تا کہ بقیع کا پیغام پہنچ سکے۔

    انہوں نے کہا: ابن تیمیہ سے پہلے تمام اہل سنت علماء ائمہ معصومین علیہم السلام کا خاص احترام کیا کرتے اور حتی انہوں نے بہت زیادہ کتب اسیس سلسلہ میں لکھی ہیں۔ ابن تیمیہ اور پھر اس کے بعد عبدالوہاب نے مسلمانوں میں فساد پھیلایا اور توہین معصومین علیہم السلام کا نیا مذہب ایجاد کیا جسے پھر آل سعود نے مزید بڑھاوا دیا۔

    حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید حنان رضوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا:ہمیشہ سے ظلم نے حق کا لبادہ اوڑھ کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج غزہ کو دیکھیں یا یمن و لبنان کو اور اسی طرح بقیع پر بھی مسلمانوں کو شرک سے بچانے جیسے ڈھنگوسلوں کا سہارا لیا گیا اور اسلام کی شکل ہی تبدیل کر کے رکھ دی گئی۔

    حجۃ الاسلام والمسلمین محسن دادسرشت تہرانی نے اپنے خطاب کے دوران کہا: قرآن کریم میں آیت قرآن کریم "مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ" [6]۔ جیسی آیات میں جو "معیت" کا تذکرہ ہے وہ وہ ان صرف ان مومنین کے لئے استعمال کی گئی ہیں جو ہر حال میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ موجود رہے چاہے سختیاں ہوں یا آسانیاں۔ لہذا ان کا خاص احترام ہے اب بعض نافہم اور نام نہاد مسلمان اس احترام کو خراب کریں اور دنیا کے سامنے اسلام کا غلط نظریہ لائیں تو یقینا یہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبول نہیں ہے۔ یہ لوگ یعنی اس وقت آل سعود اسلام کے دشمن ہیں، نہ صرف اسلام بلکہ مسلمان اور اسلامی آثار کے بھی دشمن ہیں، کیوں کہ قبلہ اول کی حفاظت کے بجائے یہودیوں کو مدد کر رہے ہیں۔

    کانفرنس کے آخری خطیب حجۃ الاسلام والمسلمین محمد تقی مہدوی تھے جنہوں نے اپنے خطاب کے دوران کہا: قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ "وَمَن يُعَظِّمۡ شَعَـٰٓئِرَ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقۡوَى ٱلۡقُلُوبِ" [7]۔ تمام اعضاء و جوارح کے تقوا کا اپنا مقام ہے اور بے شک سب سے بہترین تقوا نیت اور دل کا تقوا ہے جسے شعائر الہی کے احترام میں قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے "إِنَّ الصَّفا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعائِرِ اللهِ" [8]۔

    یعنی یہاں صفا و مروہ پہاڑیوں کو شعائر الہی میں سے قرار دیا گیا ہے تو اب قربانی کا جانور ہو یا اس کا قلیدہ اور پٹہ یا جیسے اس آیت میں پہاڑ، ان کا احترام خدا کی نظر میں خاص مقام رکھتا ہے تو وہ مقدس ہستیاں جنہیں خدا نے خود احترام دیا اور جن کے لئے یہ ساری کائنات بنائی ان کے احترام کا کیا مقام ہو گا!؟۔

    اس کانفرنس کا اختتام جنت البقیع کی تعمیر کے سلسلے میں دعائیہ کلمات اور دعای امام زمانہ (عجل) پر ہوا اور آخر میں سب شرکاء نے جنت البقیع کی تعمیر کے مطالبہ پر مشتمل پوسٹرز ہاتھ میں پکڑ کر جنت البقیع کی تعمیر کا پرزور مطالبہ بھی کیا[9]۔

    حوالہ جات

    1. مستدرک امام حاکم 11/193)
    2. جنت البقیع میں آل رسول (ص) اور صحابہ کرام کی قبروں کا انہدام آل سعود کے وحشیانہ جرائم کا مظہر- شائع شدہ از: 10 مئی 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 اپریل 2025ء۔
    3. مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) –ج۴۵،ص۱۳۵، بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.
    4. انہدم جنت البقیع کے اسباب- شائع شدہ از: 21 مئی 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 اپریل 2025ء۔
    5. قبرستان جنت البقیع کا ایک مختصر تعارف- شائع شدہ از: 29 مئی 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 اپریل 2025ء۔
    6. سورہ فتح، آیہ 29
    7. سورہ حج آیہ 32
    8. سورہ بقرہ، آیہ 158
    9. قم المقدسہ میں یوم انہدام جنت البقیع کے موقع پر انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد / جنت البقیع کی تعمیر نو کا پرزور مطالبہ- شائع شدہ از: 11 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 اپریل 2025ء۔