"ابو الحسن علی حسنی ندوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک ہی صارف کا 3 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
{{Infobox person
{{Infobox person
| title =   ابو الحسن علی حسنی ندوی
| title =
| image = ابو الحسن علی حسنی ندوی.jpg
| image = ابو الحسن علی حسنی ندوی.jpg
| name =  ابو الحسن علی حسنی ندوی
| name =   
| other names = علی میاں
| other names = علی میاں
| brith year = 1913
| brith year = 1913 ء
| brith date =  
| brith date =  
| birth place = [[ہندوستان ]]
| birth place = [[ہندوستان ]]
| death year = 1999
| death year = 1999 ء
| death date =  
| death date = 31 دسمبر
| death place =  
| death place =  
| teachers =  
| teachers =  
سطر 75: سطر 75:
== حوالہ جات==  
== حوالہ جات==  
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
{{ہندوستان علماء}}
 
 
{{ہندوستان}}
{{ہندوستانی علماء}}
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:ہندوستان]]
[[زمرہ:ہندوستان]]

حالیہ نسخہ بمطابق 13:31، 2 جون 2024ء

ابو الحسن علی حسنی ندوی
ابو الحسن علی حسنی ندوی.jpg
دوسرے نامعلی میاں
ذاتی معلومات
پیدائش1913 ء، 1291 ش، 1330 ق
پیدائش کی جگہہندوستان
وفات1999 ء، 1377 ش، 1419 ق
یوم وفات31 دسمبر
مذہباسلام، سنی
اثرات
  • عالم عربی کا المیہ
  • دریائے کابل سے دریائے یرموک تک
  • دعوت فکر و عمل
  • انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر
مناصب
  • آکسفرڈ سینٹر برائے اسلامک اسٹڈیز کے صدر
  • رابطہ ادب اسلامی کے صدر

ابو الحسن علی حسنی ندوی ایک ہندوستانی اسلامی مفکر اور مبلغ ہیں، وہ تکیہ گاؤں ہندوستان میں 1333 / 1914 میں پیدا ہوئے اور 23رمضان المبارک 31 دسمبر 1999 کو وفات پائی۔

نام اور نسب

ابو الحسن علی بن عبدالحی بن فخر الدین الحسنی ان کا سلسلہ نسب عبداللہ الاشتر بن محمد ذوالنفس الزکیہ بن عبداللہ المحدث بن الحسن المثنیٰ بن الحسن پر ختم ہوتا ہے۔ ان کا خاندانی تعلق سادات کے مشہور حسنی سلسلہ سے ہے جو نواسۂ رسول سیدنا حضرت حسن بن علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ ان کے دادا قطب الدین محمد المدنی ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں ہندوستان ہجرت کر گئے [1]۔

ان کے والد عبد الحی ابن فخر الدین الحسنی ہندوستان کے ممتاز عالم دین تھے جنہوں نے آٹھ جلدوں پر مشتمل کتاب ”نزہۃ الخواطر“ لکھی جو بعد میں «الإعلام بمن في تاريخ الهند من الأعلام» کے نام سے شائع ہوئی، یہاں تک کہ انہیں ابن خلکان الہند کا خطاب ملا۔ ان کی والدہ مصنف اور قرآن مجید کی حافظ تھیں، وہ شاعری کرتی تھیں، اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں ایک قصیدہ تصنیف کیا تھا۔

تعلیم

ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن تکیہ، رائے بریلی میں حاصل کی۔اس کے بعد عربی، فارسی اور اردو میں تعلیم کا آغاز کیا۔ علی میاں نے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لکھنؤ میں واقع اسلامی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا۔ اور وہاں سے علوم اسلامی میں سند فضیلت حاصل کی۔ وہ بیک وقت مفکر، مدبر، مصلح، قائد، زمانہ شناس ، ادیب اور نباضِ وقت خطیب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فہم وفراست اور حکمت وبصیرت کے بڑے حصہ سے نوازا تھا۔

تبلیغ دین

دور حاضر کے تقاضوں اور نفسیات کے مطابق وہ دین وشریعت پیش کرنے کا کام اپنے قلم اور زبان سے لیا کرتے تھے، دنیا کے جس گوشے میں جاتے وہاں دل کی گہرائیوں سے اسلام کا پیغام لوگوں کو سناتے۔ خاص طور سے عالم عرب اور اسلامی ملکوں میں لوگوں کو یاد دلاتے کہ تمہارے گھر سے دیئے گئے پیغام کی بدولت ہندوستان میں ہمارے آباء واجداد اسلام لائے اور آج ہم جب اسلام لانے کی قیمت ادا کررہے ہیں تو تم محوِ خواب ہو۔ آپ نے عرب ممالک میں پاکستان کے اس پروپیگنڈہ کو بھی رد کیا کہ ہندوستان میں اب مسلمان نہیں رہ گئے، جو تھے وہ پہلے پاکستان منتقل ہوگئے یا بعد میں مار دیئے گئے۔ انہوں نے ہندوستان کی اسلامی تاریخ سے اپنی تحریر وتقریر کے ذریعہ عربوں کو اس خوبی سے متعارف کرایا کہ اس سے پہلے کوئی دوسرا یہ کام نہیں کرسکا۔ وہ ہمارے عہد کے واحد ہندوستانی تھے جو عربوں کو ان کی زبان اور ان کے لہجہ میں بغیر کسی مرعوبیت کے مخاطب کرتے تھے اور ایسی فصیح عربی بولتےا ور لکھتے تھے کہ اہل عرب بھی اس کے سحر میں کھو جاتے، اس میں تنقید واحتساب کی دعوت کے ساتھ ساتھ طاقت و توانائی حاصل کرنے کی راہ بھی دکھاتے، ان کے دکھ درد میں شریک رہتے، ان کے غم پر آنسو بہاتے اور بارگاہ الٰہی میں دعائیں بھی کرتے۔

مسئلہ فلسطین

عرب قومیت کا گمراہ کن نعرہ ہو یا فلسطین پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ اس کے خلاف زبان وقلم سے جہاد چھیڑ کر آپ نے واضح الفاظ میں عربوں کو متنبہ فرمایا کہ اسلامی صلاحیت اور دینی حمیت کا مطلوبہ معیار پورا کئے بغیر وہ قیادت کے مستحق نہیں ہوسکتے، عربوں کو جو بھی عزت نصیب ہوئی وہ اسلام اور محمد عربی کا فیض ہے ، یہ سرمایہ اگر عربوں سے چھن جائے تو ان کے پاس کچھ باقی نہیں بچے گا۔ اسی طرح فلسطین کے مسئلہ کو انہوں نے عربوں کا نہیں اپنا مسئلہ سمجھا، اس پر تقاریر کیں اور کتابیں لکھیں، مسئلہ فلسطین کے اسباب وعوامل بیان کئے اور حل کیلئے راہ دکھائی، بارہا اپنی تحریر وتقریر میں فرمایا کہ عربوں کے اس زوال وپستی کی بنیادی وجہ ان کے یقین کی کمزوری، شک وشبہ کا نفوذ اور احساسِ کمتری ہے۔ کویت اور سعودی عرب کی یہ تقریریں عالم عربی کے المیہ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں، جن میں نہایت بے باکی اور دلسوزی کے ساتھ عربوں کی اخلاقی کمزوری، دینی قدروں کی زبوں حالی، فکری انارکی، ابن الوقتی اور جھوٹے معیار کے آگے سپر اندازی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اتحاد امت اسلامی

ایران گئے تو شیعہ اورسنیوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا مشورہ دیا۔ہندوستان میں بھی شیعہ و سنی مسلکی اختلافات کو امت کے رستے ہوئے ناسور سے تعبیر کیا اور اس کے تدارک میں پیش پیش وفکر مند رہے۔ آپ نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جو خطبے دیئے، ان میں مسلمانان ہند کے لئے جہاں پرسنل لاء کو ناگزیر بتایا، وہیں اسے مسلمانوں کی عزت وآبرو کیلئے اہم قرار دیا اور اس کی حفاظت کو اسلامی تہذیب وتشخص کے تحفظ سے تعبیر فرمایا۔

تالیفات

آپ کے خطبات وتقاریر مختلف عنوانات کے تحت کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں، جن میں سے ایک اہم مجموعہ پاجا سراغ زندگی ہے۔ ان تقریروں میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلباء کو وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ شاخِ ملت انہیں کے دم سے ہری ہوسکتی ہے۔ امریکہ کے سفر پر گئے تو وہاں کی یونیورسٹیوں اور مجلسوں میں جو تقاریریں کیں وہ مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں اور نئی دنیا کے نام سے منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان تقاریر میں آپ نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ ’’امریکہ میں مشینوں کی بہار تو دیکھی، لیکن آدمیت اور روح کا زوال پایا‘‘۔وہاں کے مسلمانوں کو تعلق باللہ، اپنے کام میں اخلاص اور انابت کی روح پیدا کرنے پر زور دیا، یہی پیغام وہ ہر جگہ ہر ملک اور ہر شہر میں دیتے رہے، جو نیا نہیں تھا لیکن کچھ ایسے ایمانی ولولے، قلبی درد اور داعیانہ انداز میں اس کا اعادہ کرتے کہ سننے والوں کے قلوب گرما جاتے۔ اسی طرح یوروپ، برطانیہ، سوئزرلینڈ اور اسپین کی یونیورسٹیوں اور علمی مجلسوں میں تخاطب کے دوران یہ پیغام دیا کہ ’’وہاں کے مسلمان مغربی تہذیب و تمدن کے گرویدہ نہ ہوں کیونکہ اس کا ظاہر روشن اور باطن تاریک ہے، مسلمان اس سرزمین پر اسلام کے داعی بن کر رہیں، اسلام کی ابدیت پر مکمل اعتماد رکھیں اور مشرق ومغرب کے درمیان نئی نہر سوئز تعمیر کرنے کے لئے کام کریں [2]۔

اعزازات

  • انہیں 1956 ء میں دمشق میں عربی زبان اکیڈمی کے نامہ نگار کے طور پر منتخب کیا گیا ۔ انہوں نے 1962 میں مکہ میں سعودی عرب کے مفتی اعظم محمد بن ابراہیم آل شیخ کی نیابت کرتے ہوئے رابطہ عالم اسلامی کے قیام کے پہلے اجلاس کی صدارت کی - جس میں شاہ سعود بن عبدالعزیز ، لیبیا کے حکمران شاہ محمد ادریس السنوسی اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔صدارت کرتے ہوئے انہوں نے اپنا قیمتی مضمون پیش کیا جس کا عنوان تھا: اسلام قوم پرستی اور فرقہ واریت سے بالاتر ہے۔
  • انہیں 1962ء میں مدینہ اسلامی یونیورسٹی کی سپریم ایڈوائزری کونسل کے رکن کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ وہ کونسل کے تحلیل ہونے تک اس کے رکن رہے ۔
  • انہیں 1969 عیسوی میں اسلامی یونیورسٹیوں کی انجمن کا رکن منتخب کیا گیا۔
  • انہیں 1976 میں عرب ہندوستانی سائنسی اکیڈمی کے رکن کے طور پر منتخب کیا گیا ۔
  • انہیں 1980 میں اردنی عربی لینگویج اکیڈمی کے معاون رکن کے طور پر چنا گیا ۔
  • انہیں 1980 میں اسلامی خدمات کے لئے کنگ فیصل انٹرنیشنل ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا۔
  • انہیں 1981 میں کشمیر یونیورسٹی سے آرٹس میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا ۔
  • انہیں 1983ء میں آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز کا صدر منتخب کیا گیا ۔
  • انہیں 1983 میں رائل اکیڈمی فار ریسرچ آن اسلامک سولائزیشن (موسسہ آل البیت ) کا رکن منتخب کیا گیا۔
  • د 1984 ء میں انٹرنیشنل اسلامک لٹریچر ایسوسی ایشن کی بنیا رکھی گئی تو انہیں اس کا صدر منتخب کیا گیا ۔
  • جدہ کی بلند پایہ شخصٰت عبد المقصود خوجہ نے 1985ء میں جدہ میں ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی ۔
  • انہیں دسمبر 1988 میں کویت یونیورسٹی میں علمی نشریاتی مجلس کے ایک مجلہ ”شریعت اور اسلامی تحقیقات“ کے مشاورتی بورڈ کے رکن کے طور پر منتخب کیا گیا اور وہ اپنی وفات تک اس کے رکن رہے ۔
  • انٹرنیشنل اسلامک لٹریچر ایسوسی ایشن کی ہیئت عامہ کی چوتھی کانفرنس کے موقع پر 1996ء میں ترکی میں ان کی زندگی اور ادب اور دعوت و تبلیغ کے متعلق ان کی کاوشوں کے بارے میں ایک ادبی سمپوزیم منعقد ہوا ۔
  • انہیں رمضان المبارک 1419 ہجری میں سنہ 1998 عیسوی کی اسلامی شخصیت کے ایوارڈ سے نوازا گیا ، اور یہ ایوارڈ انھیں حکومت متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن راشد المکتوم نے پیش کیا ۔
  • انہیں 1998ء (1419ھ) میں آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز کی جانب سے اسلامی فکر کی شخصیات کی سوانح حیات کے موضوع پر سلطان حسن البلقیہ انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔
  • ہندوستان کے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نے انہیں سال 1999 کے لیے امام ولی اللہ دہلوی ایوارڈ سے نوازا تھا - جو پہلی بار دیا گیا تھا - اور انہیں اس ایوارڈ کے لیے ان کی زندگی میں ہی منتخب کر لیا گیا تھا لیکن وہ اس کے رسمی اعلان سے پہلے ہی انتقال کر گئے۔ اس لئے 7 شعبان 1421ھ (نومبر 2000ء) کو یہ ایوارڈ ان کی طرف سے ان کے بھتیجے محمد رابع الحسنی الندوی نے وصول کیا۔
  • اسلامک ایجوکیشنل، سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن (ISESCO) نے انہیں - ان کی ممتاز علمی فیض رسانی اور عرب اسلامی ثقافت کی عظیم خدمات کے اعتراف میں فرسٹ کلاس ایسسکو ایوارڈ سے نوازا ۔ یہ تمغہ ان کی طرف سے ان کے بھتیجے، ندوۃ العلماء کے جنرل سکریٹری محمد رابع الحسنی الندوی اور ندوۃ العلماء کے تعلیمی امور کے وکیل عبداللہ عباس الندوی نے 25 شعبان 1421 ھ کو رباط میں وصول کیا۔

اسلامی ادیبوں کا ایک عالمگیر اجلاس

1984 میں اسلامی ادیبوں کا ایک عالمگیر اجلاس ہندوستان کے شہر لکھنو میں منعقد ہوا جس میں پوری دنیا سے آئے ہوئے اہل علم و ادب نے ”رابطۃ الادب الاسلامی العالمیہ “کے نام سے اسلامی ادباءکی ایک بین الاقوامی تنظیم مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد کیلئے قائم کی۔

  • ادب اسلامی کی بنیادوں کو پختہ کرنا اور قدیم و جدید ادب اسلامی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا۔
  • ادبی تنقید کے اسلامی اصول وضع کرنا۔
  • ادب اسلامی کے مکمل نظریے کی تشکیل و تیاری
  • جدید ادبی علوم و فنون کے لئے اسلامی مناہج و اسالیب کی تیاری و تشکیل۔
  • مسلم اقوام کے ادب میں ادب اسلامی کی تاریخ کو از سر نو مرتب کرنا۔
  • ادب اسلامی کی نمایاں تخلیقات کو جمع کرنا اور ان کا عالم اسلام کی مختلف زبانوں اور دیگر بین الاقوامی زمانوں میں ترجمہ کرنا۔
  • بچوں کے ادب کی طرف، خصوصی توجہ دینا اور مسلمان بچوں کے ادب کا خصوصی طریقہ و منہج تیار کرنا۔
  • عالمی رابطہ ادب اسلامی کے پلیٹ فارم سے امت مسلمہ کو باہمی طورپر متحد ومنظم کرنا ۔
  • ادب اسلامی کی عالمگیریت کو نمایا کرنا۔
  • اسلامی ادباءکے مابین روابط و تعلقات کو بڑھانا ، اور ان کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دینا ، نیز میانہ روی اور اعتدال کے راستے پر چلتے ہوئے انتہاءپسندی اور افراط و تفریط سے بچتے ہوئے، انہیں حق پر متحد و متفق کرنا۔
  • مسلم نسلوں اور ایسی اسلامی شخصیات کی تیاری میں ، جنہیں اپنی دینی اقدار اور عظیم تہذیبی ورثے پر فخر ہو، ادب اسلامی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے مواقع پیدا کرنا۔
  • ارکان رابطہ کے لیے نشر و اشاعت کی سہولتیں مہا کرنا۔
  • رابطہ اور اس کے ارکان کے ادبی حقوق کا دفاع کرنا۔
  • غیر مسلموں کے حقوق کا اسلام کے دیئے ہوئے حقوق کے مطابق خیال کرنا [3]

حوالہ جات

  1. حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ، شخصیت اور خدمات، alsharia.org
  2. مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی کی فکر ونظر یومِ وفات کے موقع پر خصوصی مضمون، dailysalar.com
  3. سیّد ابو الحسن علی ندویؒ اور ان کی علمی و ادبی خدمات، [https://www.nawaiwaqt.com.pk/28-Oct-2016/523373