حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ
محمد بن عبد اللہ بن عبد المطّلب بن ہاشم اللہ کے آخری نبی، پیغمبر اسلام اور اولو العزم انبیاء میں سے ہیں۔ آپ کا اہم ترین معجزہ قرآن ہے۔ آپ یکتا پرستی کے منادی اور اخلاق کے داعی ہیں۔ آپ عرب کے مشرک معاشرے میں پیدا ہوئے تھے تاہم بتوں کی پرستش اور معاشرے میں رائج اخلاقی برائیوں اور قباحتوں سے پرہیز کرتے تھے۔ یہاں تک کہ چالیس سال کی عمر میں آپؐ مبعوث برسالت ہوئے۔ آپ کا اہم ترین پیغام توحید اور یکتا پرستی تھا۔ مکارم اخلاق اور اچھائیوں کی تکمیل آپ کی بعثت کے اہداف میں سے تھے۔ مکہ کے مشرکوں نے اگرچہ کئی سال تک آپ اور آپ کے پیروکاروں کو اذیت اور آزار کا نشانہ بنایا مگر آپ اور آپ کے پیروکار کبھی بھی اسلام سے دستبردار نہیں ہوئے۔ مکہ میں تیرہ سال تک تبلیغ کے بعد آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینے کی طرف آپ کی ہجرت کو اسلامی تاریخ کا آغاز قرار دیا گیا۔ مشرکین مکہ کی طرف سے آپ کو مدینے میں متعدد جنگوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان جنگوں میں مجموعی طور پر مسلمانوں کو کامیابی نصیب ہوئی۔ رسول خدا کی کوششوں سے عربوں کا جاہلیت زدہ معاشرہ مختصر سے عرصے میں ایک توحیدی معاشرے میں بدل گیا اور تقریباً پورے جزیرہ نمائے عرب نے آپ کی حیات طیبہ کے دوران ہی اسلام قبول کرلیا۔اس کے بعد سے آج تک اسلام کا فروغ جاری ہے اور آج دین اسلام مسلسل فروغ پانے والا دین سمجھا جاتا ہے۔ جب آپ دنیا سے جا رہے تھے تو آپ نے اپنے بعد ہدایت کیلئے مسلمانوں کو قرآن اور اہل بیت کا دامن تھامے رکھنے کی وصیت فرمائی۔ واقعہ غدیر سمیت مختلف مواقع پر امام علی علیہ السلام کو اپنے جانشین کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔
نسب، کنیت اور القاب
مُـحـمّـد بـن عـبـد الله بن عبد المطّلب بن هاشم بن عبد مَناف بن قُصَىّ (زيد) بن كلاب بن مُرّة بن كَعب بن لُؤىّ بن غالب بن فِهر بن مالك بن نَضر بن كنانة بن خُزَيمة بن مُدركة بن الياس بن مضر بن نِزار بن مَعَدّ بن عدنان عليهم السلام.
ابھی آپ 6 سال 3 مہینے یا ایک قول کی بنا پر 4 سال کے تھے کہ آپ کی والدہ ماجدہ آمنہ بنت وہب آپ کو آپ کے ننیہال والوں سے ملاقات کے لئے مدینہ لے گئیں تھیں لیکن مکہ واپسی کے وقت ابواء کے مقام پر آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا اورانہیں وہیں سپرد خاک کیا گیا۔ شیعہ امامیہ کے نزدیک ابو طالب، آمنہ بنت وہب، عبداللہ بن عبدالمطلب اور حضرت آدم تک رسول خدا کے تمام اجداد کے مؤمن ہونے پر اجماع قائم ہے [1]۔
کنیت اور القاب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم اور ابو ابراہیم ہے۔ ان کے القاب میں سے کچھ یہ ہیں: مصطفیٰ، حبیب اللہ، صفی اللہ، نعمت اللہ، خیرۃ خلق اللہ، سید المرسلین، خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین، نبی امی۔
ولادت
شیعہ علماء میں مقبول رائے کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کی ولادت 17 ربیع الاوّل کو ہوئی اور اہل سنت کی مقبول رائے کے مطابق 12 ربیع الاول کو ہوئی۔ ان دو تاریخوں کے درمیان وقفے کو شیعوں اور سنیوں کے درمیان اتحاد کا ہفتہ کہا جاتا ہے۔علامہ مجلسی نے لکھا ہے کہ اکثر شیعہ علماء کی رائے کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کی ولادت 17 ربیع الاول کو ہوئی ہے۔البتہ محمد بن یعقوب کلینی نے کتاب الکافی میں اور شیخ صدوق نے کمال الدین میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کا ذکر 12 ربیع الاول کو کیا ہے۔
رسول جعفریان کے مطابق شیخ مفید کے بعد تمام شیعہ علماء 17 ربیع الاول کو پیغمبر اکرم (ص) کا یوم ولادت مانتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی تفصیلات کے بارے میں سنی علماء کی مختلف آراء ہیں۔ بعض نے آپ کی پیدائش عام الفیل میں اور بعض نے عام الفیل کے دس سال بعد قرار دی ہے۔ چونکہ مورخین نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی وفات 63 سال کی عمر میں 632 عیسوی میں ہوئی، اس لیے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت اور عام الفیل کا اندازہ 569 سے 570 عیسوی کے درمیان لگایا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یوم ولادت کے بارے میں بھی اہل سنت کے درمیان اختلاف ہے۔ 12 ربیع الاول، دوسری ربیع الاوّل، 8 ربیع الاوّل، 10 ربیع الاوّل اور ماہِ رمضان ان تبصروں میں سے ہیں۔
پیدائش کی جگہ
پیغمبر اسلام (ص) شعب ابی طالب میں اس گھر میں پیدا ہوئے جو بعد میں عقیل بن ابی طالب کے حصے میں آیا۔اولاد عقیل نے یہ گھر حجاج بن یوسف کے بھائی محمد بن یوسف کو بیچ دیا جس نے اسے محل بنا دیا۔ بنی عباس کے دور حکومت میں عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی والدہ خضران نے اس گھر کو خرید کر مسجد میں تبدیل کر دیا۔
گیارہویں صدی کے محدث علامہ مجلسی بیان کرتے ہیں کہ ان کے زمانے میں مکہ میں اس نام کی ایک جگہ تھی اور لوگ اس کی زیارت کرتے تھے۔ یہ عمارت حجاز میں آل سعود کی حکومت تک قائم رہی۔ آل سعود نے اسے وہابی مذہب کے عقائد کی بنا پر منہدم کر دیا [2].
ولادت کے وقت واقعات
تاریخی ذرائع نے پیغمبر اسلام (ص) کی ولادت کی رات رونما ہونے والے واقعات نقل کیے ہیں جو ارشادات کے نام سے مشہور ہوئے۔
ان میں سے کچھ واقعات یہ ہیں: ایوان کسریٰ کا ہلنا اور اس کے 14 کنگروں کا گرنا، فارس کے آتش کدہ میں ایک ہزار سال بعد آگ کا بجھ جانا، دریائے ساوہ کا خشک ہو جانا اور ساسانی بادشاہ اور کاہنوں کے عجیب و غریب خواب [3].
بچپن سے جوانی
ابھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت نہیں ہوئی تھی یا دوسری روایتوں کے مطابق آپ کی ولادت کو چند ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ آپ کے والد عبداللہ شام کے تجارتی سفر سے واپس آتے ہوئے مدینہ میں وفات پا گئے[4] ۔
اس لیے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شروع ہی سے یتیم تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی ولادت کے چار ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کوصحرائی قبیلے بنی سعد کی حلیمہ نامی عورت کو دودھ پلانے کے لیے دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم تقریباً چار سال تک قبیلہ بنی سعد میں حلیمہ کے ساتھ رہے اور آپ کی پیدائش کے پانچویں سال حلیمہ انہیں ان کی والدہ آمنہ کے پاس لے آئیں۔ آپ کی ولادت کے ساتویں سال، آپ کی والدہ آپ کو اپنے چچا سے ملانے مدینہ لے گئیں، اور مکہ واپسی کے دوران "ابواء" نامی نامی مقام پر ان کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد آنحضرت(ص) کی ولایت سب سے پہلے آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب کے ہاتھ میں تھی اور آپ کے بعد آپ کے چچا ابو طالب کے ہاتھ میں۔پیغمبر اسلام کے بچپن اور جوانی کے اہم واقعات میں سے درج ذیل کا ذکر کیا جا سکتا ہے:
- اپنے چچا حضرت ابو طالب علیہ السلام کے ساتھ شام کے تجارتی سفر پر جانا اور بحیرہ نصرانی سے ملاقات کرنا جو اپنے زمانے کے عیسائی علماء میں سے تھا۔بحیرہ کاحضرت ابو طالاب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی نبوت کی خبر دینا اور یہودیوں کے خطرہ سے متنبہ کرنا۔
- چرواہے کا کام اختیار کرنا جو اکثر انبیاء کا کام تھا۔
- حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے تجارتی قافلے کی نگرانی کو قبول کرنا اور اس سفر کے دوران تجارت کے معاملے میں اپنی خوبیوں کا مظاہرہ کرنا اور اچھے منافع کے ساتھ واپس آنا۔
- امانت داری کی وجہ سے امین کے نام سے مشہور ہونا۔
شام کا پہلا سفر اور راہب کی پیش گوئی
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم بچپن میں اپنے چچا ابوطالب کے ہمراہ ایک کاروباری سفر میں شام گئے۔راستے میں بصریٰ نامی علاقے میں بحیرا نامی ایک مسیحی راہب نے آپؐ کے چہرے پر نبوت کی نشانیاں دیکھی اور آپ کے چچا ابو طالب سے آپ کے متعلق سفارش کی اور بطور خاص کہا کہ اس بچے کو یہودیوں کے گزند سے محفوظ رکھے کیوں یہ لوگ آپؐ کے دشمن ہیں۔ مؤرخین کے مطابق جب قافلہ بحیرا کے ہاں سے چلاگیا تو بحیرا نےآپ کو اپنے یہاں روک لیا اور کہا: میں آپ کو لات و عُزی کی قسم دیتا ہوں کہ میں جو پوچھتا ہوں آپ اس کا جواب دیں۔ اس وقت آپ نے جواب دیا: مجھ سے لات و عزی کے نام پر کچھ نہ پوچھو کیونکہ میرے نزدیک کوئی چيز ان دونوں سے زيادہ قابل نفرت نہيں ہے۔ اس کے بعد بحیرا نے آپ کو خدا کی قسم دی [5]۔
حلف الفضول
حضرت محمد (ص) کی شادی سے پہلے کے اہم واقعات میں سے حلف الفضول نامی معاہدے میں آپ کی شرکت ہے جس کے تحت بعض اہل مکہ نے حلف اٹھایا کہ وہ ہر مظلوم کی حمایت کریں گے اور اس کو اس کا حق دلا ئیں گے۔ رسول الله(ص) بعد میں اس معاہدے کی تعریف کرتے اور فرماتے تھے کہ اگر انہیں ایک بار پھر اس طرح کے معاہدے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو وہ اس میں شامل ہوجائیں گے [6]۔
شام کا دوسرا سفر
حضرت محمد (ص)25 برس کے تھے کہ ابو طالبؑ نے آپ سے کہا: قریش کا تجارتی قافلہ شام جانے کے لئے تیار ہے۔ خدیجہ بنت خویلد نے اپنے بعض اعزاء و اقارب کو سرمایہ دیا ہے کہ وہ ان کے لئے تجارت کریں اور منافع میں شریک ہوں۔ اگر آپ چاہے تو وہ آپ کو بھی شریک کے طور پر قبول کریں گی۔ اس کے بعد ابو طالب نے اس سلسلے میں خدیجہ سے بات چیت کی اور خدیجہ مان گئی۔ ابن اسحٰق سے مروی ہے کہ چونکہ خدیجہ حضرت محمدؐ (ص)کی امانت داری اور بزرگواری کو پہچان گئی تھیں اس لئے انھوں نے آپ کو پیغام بھجوایا کہ "اگر آپ میرے سرمائے پر تجارت کرنے کے لئے تیار ہیں تو میں آپ کو منافع میں سے دوسروں کی نسبت زیادہ حصہ دوں گی [7]۔
شادی
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے 25 سال کی عمر میں خدیجہ سے شادی کی۔ خدیجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی پہلی بیوی تھیں اور وہ تقریباً 25 سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ساتھ رہیں۔ ان کی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی نبوت کے دسویں سال میں ہوئی۔
خدیجہ کی وفات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمع بن قیس کی بیٹی سودہ سے شادی کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج میں عائشہ بنت ابوبکر ، حفصہ، زینب بنت خزیمہ بن حارث ، ام حبیبہ بنت ابو سفیان ، ام سلمہ، زینب بنت جحش، جویریہ بنت حارث، صفیہ بنت حی بن اخطب ، میمونہ بنت حارث بن حزن، اور ماریہ قبطیہ شامل ہیں [8]۔
بچے
ابراہیم کے سوا نبی کریم (ص) کی سبھی اولاد جناب خدیجہ کے بطن سے تھیں۔ ابراہیم کی والدہ کا نام ماریہ قبطیہ تھا۔ آپ کی سبھی اولاد، سوائے حضرت فاطمہ(س) کے، سب پیغمبر اکرم(ص) کی زندگی میں فوت ہوئی اور آپ کی نسل صرف جناب فاطمہ(س) کے ذریعہ چلی۔ آپ کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں:
- قاسم، پہلا بیٹا جو مکہ میں بچپن میں فوت ہوا۔
- زینب کی وفات 8 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔
- رقیہ کی وفات 2 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔
- ام کلثوم کی وفات 9 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔
- حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سنہ 11 ہجری میں مدینہ منورہ میں شہید ہوئیں ۔
- عبداللہ بعثت کے بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور وہیں وفات پائی۔
- ابراہیم کی وفات 10 ہجری میں مدینہ میں ہوئی [9].
حجر اسود کی تنصیب
زمانہ جاہلیت میں ایک بار سیلاب کعبہ میں داخل ہوگیا جس سے کعبے کی دیواریں ٹوٹ گئی۔ قریش نے دیواریں اونچی کر دیں لیکن جب حجر اسود کو نصب کرنا چاہا تو قبیلوں کے سربراہوں میں جھگڑا ہو گیا۔
ہر قبیلے کا سربراہ یہ اعزاز حاصل کرنا چاہتا تھا۔ قبیلے کے بزرگ خون سے بھرا ہوا ایک پیالہ لائے اور اس میں اپنے ہاتھ ڈبوئے۔ یہ اس بات کا عہد تھا کہ وہ جیتنے کے لیے لڑیں گے۔ پھر وہ بنی شیبہ کے دروازے سے سب سے پہلے مسجد میں داخل ہونے والے شخص کو قاضی تسلیم کرنے اور جو کچھ وہ کہے اسے تسلیم کرنے پر راضی ہوگئے۔ داخل ہونے والے پہلے شخص محمد(ص) تھے۔
انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے فیصلے کو قبول کیا اور آپ کے حکم سے حجر اسود کو کپڑے کے درمیان رکھ دیا اور ہر قبیلے کے سربراہ نے کپڑے کا ایک ایک کونا اٹھا لیا، جب انہوں نے کپڑا اٹھایا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجر اسود کواٹھا کرا س کی جگہ پر رکھ دیا۔
بعثت
شیعہ امامیہ کے مشہور قول کے مطابق رسول اللہؐ 27 رجب المرجب کو مبعث بہ رسالت ہوئے۔
بعثت جس قدر قریب تر آرہی تھی آپ لوگوں سے دور خدائے یکتا کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ آپ ہر سال ایک مہینہ حرا نامی پہاڑی میں غار حراء میں گوشہ نشینی اختیار کرکے عبادت میں مصروف رہتے۔ اس زمانے میں جو غریب افراد آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے آپ انہیں کھانا کھلاتے۔ عبادت کا مہینہ ختم ہونے کے بعد مکہ تشریف لاکر گھر واپس جانے سے پہلے سات یا کچھ زیادہ مرتبہ خانۂ کعبہ کا طواف فرماتے اور اس کے بعد اپنے گھر تشریف لے جاتے تھے [10]۔
گوشہ نشینی کے ان ہی برسوں کے دوران ایک سال آپ حرا میں مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ حضرت محمدؐ فرماتے ہیں: جبرائیل میرے پاس آئے اور کہا: پڑھو! میں نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ جبرائیل نے ایک بار پھر کہا: پڑھو! میں نے کہا: کیا پڑھوں؟ جبرائیل نے کہا: إقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ(ترجمہ: پڑھئے اپنے پروردگار کے نام کے سہارے سے جس نے پیدا کیا) جیسا کہ مشہور ہے بعثت کے وقت رسول اللہؐ کی عمر چالیس سال ہو چکی تھی [11]
رسول خدا بعثت کے وقت سورۂ علق کی ابتدائی آیات کریمہ کے نازل ہونے کے بعد اپنی خلوت گاہ سے اپنے گھر مکہ تشریف لائے۔ آپ کے گھر تین افراد: آپ کی زوجۂ مکرمہ جناب خدیجہ، آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابیطالب اور زید بن حارثہ تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے توحید کی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا اور جو سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے وہ آپ کی زوجہ مکرمہ سیدہ خدیجہ اور مردوں میں آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابیطالب تھے جو اس وقت رسول اللہؐ کے زیر سرپرستی تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ کہ ابوبکر اور زید بن حارثہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھ [12]
عوامی دعوت
بعثت کے بعد آپ نے تین سال تک خفیہ طور پر لوگوں کو دعوت دی۔ ابتدا میں پیغمبر اکرم (ص) نے لوگوں کو بت پرستی چھوڑ کر خدا کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ جب نماز پڑھتے اور خدا کی عبادت کرتے تو مسلمان لوگوں سے چھپ جاتے اور مجمع سے دور جگہوں پر نماز پڑھتے۔
جیسا کہ مشہور ہے کہ جب بعثت کے تین سال گزر گئے تو آپ کو اپنی دعوت عام کرنے کا حکم دیا گیا۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ جب تنبیہ والی آیت "اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ" نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دعوت کی جس میں خاندان عبد المطلب کے چالیس کے قریب افراد موجود تھے۔ جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے چاہا کہ گفتگو شروع کرے، ابولہب نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو جادوگر کہہ کر مجلس میں خلل ڈال دیا۔
طبری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اپنے رشتہ داروں کو دعوت دی اور فرمایا کہ میں تمہارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں اور خدا نے حکم دیا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور مزید کہا: تم میں سے جو بھی اس کام میں میری مدد کرے گا وہ میرا بھائی، ولی اور خلیفہ ہوگا۔ سب خاموش ہوگئے ۔ حضرت علی (ع) نے کہا: یا رسول اللہ! میں آپ کی مدد کا وعدہ کرتا ہوں. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: یہ تم میں میرا ولی اور خلیفہ ہے، اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ اس وقت مہمان کھڑے ہوئے اور ہنستے ہوئے ابو طالب سے کہا، محمد نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنے بیٹے کی بات سنیں اور اس کی اطاعت کریں [13].
قریش کی دشمنی اور اس کے نتائج
قبائلی معاہدوں کی وجہ سے قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ کیونکہ اس صورت میں وہ بنی ہاشم سے لڑنا پڑے گا اور دوسرے قبیلے بھی اس مہم میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے ان کی مخالفت بہتان اور معمولی نقصان کی حد سے نہیں بڑھی ۔البتہ انہوں نے بے بس نئے مسلمانوں کو جتنا نقصان پہنچا سکتے تھے، پہنچایا۔ [14]
جب قریش کے بزرگ مسلمانوں کی تعداد میں اضافے سے پریشان ہوئے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے چچا ابو طالب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کو اس دعوت سے باز رکھیں جو انہوں نے شروع کی ہے۔ ایک دن انہوں نے جناب ابو طالب سے کہا کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ اسے قتل کر دیں اور اس کے بدلے عمارہ بن ولید کو لے لیں، جو ان کے نزدیک ایک خوبصورت نوجوان اور عقلمند تھا۔ ابو طالب نے اس پیشکش کو سختی سے مستترد کر یا۔
یہ بھی منقول ہے کہ قریش نے ابو طالب سے کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کو اس راستے سے روک دے جس پر وہ چل رہا ہے۔ ابو طالب نے ان کی باتوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خدا کی قسم اگر وہ میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں اس وقت تک اپنی دعوت سے دست بردار نہیں ہوں گا جب خدا مجھے اس معاملے میں کامیاب نہ کر دے یا اس راہ میں میری جان نہ چلی جائے۔
ہجرت حبشہ
جیسے جیسے مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی محمدؐ(ص) کے ساتھ قریش کی دشمنی اور مخالفت میں اسی انداز سے اضافہ ہو رہا تھ۔باہم پیغمبر کو ابو طالبؑ کی حمایت حاصل تھی اور قریش قبائلی معاہدوں کی وجہ سے آپ کو جانی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ لیکن نہتے اور کمزور مسلمانوں سمیت آپ کے پیروکاروں کو کسی قسم کی اذیت و آزار پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ ان نو مسلموں کو پہنچنے والی اذیت پیغمبر پر بہت گراں گذرتی تھی۔ چنانچہ آپ نے انہیں مجبوری کی وجہ سے حکم دیا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرجائیں [15]۔
آپ نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: اس سرزمین پر ایک بادشاہ ہے جس کی طرف سے کسی پر ظلم نہيں کیا جاتا۔ وہیں چلے جاؤ اور وہیں رہو یہاں تک کہ خداوند متعال تمہیں اس مصیبت سے نجات دلائے۔ قریش کو جب یہ معلوم ہوا کہ نومسلم حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے ہیں تو انھوں نے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس روانہ کیا تاکہ انہیں وہاں سے لوٹا دیں۔ نجاشی نے قریش کے نمائندوں کا موقف اور مسلمانوں کا جواب سننے کے بعد مسلمانوں کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا اور یوں قریش کے نمائندے خالی ہاتھوں مکہ واپس آگئے۔
بنی ہاشم کا محاصرہ
مکہ میں اسلام کی ترقی اور نجاشی کی طرف سے نو مسلموں کی واپسی کی مخالفت کے بعد، قریش نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور بنی ہاشم پر اقتصادی اور سماجی پابندیاں لگا دی۔ انہوں نے ایک معاہد لکھا اور عہد کیا کہ بنی ہاشم اوربنی عبدالمطلب کو نہ اپنی بیٹیاں دیں گے، نہ ان کی بیٹیاں لیں گے، نہ انہیں کوئی چیز فروخت کریں گے اور نہ ان سے کوئی چیز خریدیں گے۔ انہوں نے عہدنامہ کو خانہ کعبہ میں لٹکادیا۔ اس کے بعد بنی ہاشم نے شعب ابی یوسف میں قیام کیا جسے بعد میں شعب ابی طالب کہا گیا [16]۔
بنی ہاشم کا محاصرہ دو تین سال تک رہا۔ اس زمانے میں جب وہ سختی میں تھے تو ان کے کچھ رشتہ دار رات کو ان کے لیے گندم لے جایا کرتے تھے۔ایک شب بنی ہاشم سے شدید دشمنی رکھنے والے ابو جہل کو اس واقعہ کا علم ہوا اور اس نے حکیم بن حزام کو خدیجہ کے لیے گندم لے جانے سے روک دیا۔ اس کی وجہ سے لوگوں کا ایک گروہ اپنے کئے پر پشیمان ہوا اور بنی ہاشم کی حمایت کے لیے کھڑا ہوگیا۔ان کا کہنا تھا کہ آخر کیوں بنی مخزوم خوشحالی میں رہیں اور ہاشم اور عبدالمطلب کی اولاد مشقت میں ؟۔
آخر میں، انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کو منسوخ کیا جانا چاہئے۔ معاہدے کے شرکاء کے ایک گروپ نے اسے پھاڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ سیرت نگار ابن اسحاق کے مطابق جب وہ لوگ اس جگہ پہنچے جہاں انہوں نے عہد نامہ لٹکایا تھا تو انہوں نے دیکھا کہ دیمک اسے کھا گئی ہے اور اس میں سے صرف "بسمک اللہم" کا جملہ باقی رہ گیا ہے۔
دوسری صدی ہجری کے محدث اور مؤرخ ابن ہشام کے مطابق ابو طالب قریش کی جماعت کے پاس گئے اور کہا: میرا بھتیجا کہتا ہے کہ دیمک نے آپ کا لکھا ہوا معاہدہ کھایا اور صرف خدا کا نام چھوڑ دیا۔ دیکھو اگر وہ سچ کہہ رہا ہے تو ہمارا محاصرہ توڑ دو اور اگر وہ جھوٹ بول رہا ہے تو میں اسے تمہارے حوالے کر دوں گا۔ وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس گئے تو دیکھا کہ دیمک خدا کے نام کے سوا سب کچھ کھا چکی ہے۔ اس طرح بنی ہاشم کا محاصرہ ختم ہو گیا۔
شعب ابی طالب سے نکلنے کے کچھ ہی عرصے بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو اپنے دو حامیوں، خدیجہ اور ابو طالب کی موت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ نے طائف کے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے وہاں کا سفر کیا۔ لیکن وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساتھ بدسلوکی کی اورآپ مکہ واپس آگئے۔
مدینہ کی طرف ہجرت
بعثت کے گیارہویں سال حج کے موقع پر قبیلہ خزرج کے چھ افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم سے ملے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان کے سامنے اپنا دین پیش کیا۔ انہوں نے اپنے لوگوں تک آپ کے دین کا پیغام پہنچانے کا وعدہ کیا۔ اگلے سال حج کے دوران مدینہ کے بارہ لوگوں نے عقبہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ہاتھوں پر بیعت کی کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے، چوری نہ کریں گے، زنا نہ کریں گے، اپنے بچوں کو قتل نہ کریں گے، غیبت نہ کریں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و آلہ و سلم کے نیک کاموں میں ان کی اطاعت کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مصعب بن عمیر کو ان کے ساتھ یثرب بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو قرآن سکھائیں اور انہیں اسلام کی دعوت دیں اور انہیں شہر کی حالت اور لوگوں کے قبول اسلام سے آگاہ کریں۔
سنہ 13 بعثت میں حج کے موسم میں قبیلہ خزرج کے 73 مرد و خواتین حج سے فارغ ہو کر عقبہ میں جمع ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ ان کے پاس تشریف لے گئے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے عباس نے تقریر کرتےہوئے کہا: اے خزرج کے لوگو! محمد ہم میں سے ہیں اور ہم نے انہیں لوگوں سے جتنا ممکن تھابچائے رکھا۔
اب یہ آپ کے پاس آنا چاہتا ہے۔ اگر تم اس کی حمایت اور مخالفین کے شر کو اس سے روکنے کی طاقت رکھتے ہو تو بہتر ہے، ورنہ اسے ابھی جانے دو۔ عباس کے جواب میں انہوں نے کہا: ہم نے آپ کی باتیں سن لی ہیں، اب ائے اللہ کے رسول! کہئے جو آپ کو اور آپ کے خدا کو پسند ہے! نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی آیات کی تلاوت کی اور پھر فرمایا: "میں تم سے بیعت لیتا ہوں کہ تم اپنے لوگوں کی طرح میری حمایت کرو۔" اہل مدینہ کے نمائندوں نے آپ کی بیعت کی کہ وہ آپ کے دشمنوں کے دشمن اور اس کے دوستوں کے دوست رہیں گے اور جو بھی آپ کے ساتھ جنگ میں جائے گا اس سے لڑیں گے۔ یوں اس معاہدہ کو جنگ کا معاہدہ کہا گیا۔ اس معاہدہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مسلمانوں کو یثرب جانے کی اجازت دے دی۔
دار الندوۃ کی سازش
قریش جب یثرب کے لوگوں کے ساتھ رسول اللہ کے عہد و پیمان سے مطلع ہوئے تو انہوں نے اپنے قبیلوں کے عہد و پیمان کی پرواہ کئے بغیر رسول خدا کے قتل کا منصوبہ بنالیا۔ لیکن آپ ؐ کو قتل کرنا آسان کام نہ تھا کیونکہ آپ ؐ کے قتل ہو جانے کی صورت میں بنو ہاشم خونخواہی کا مطالبہ کرتے۔ قریش نے اس کے مناسب حل کیلئے دار الندوۃ میں ایک میٹنگ بلائی ۔باہمی صلاح و مشورہ سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ہر قبیلہ سے ایک نوجوان لیا جائے۔ تمام افراد بیک وقت رسول اللہ پر حملہ آور ہوں اور انہیں اکٹھے قتل کر دیں۔ اس صورت میں قاتل ایک شخص نہیں ہوگا اور بنی ہاشم کیلئے تمام قبیلوں سے انتقام لینا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ تمام قبائل سے جنگ کرنا ان کیلئے ناممکن ہو گا اور وہ مجبور ہو کر خون بہا پر راضی ہو جائیں گے۔
اس منصوبے پر عمل درآمد کی رات خدا کے فرمان کے مطابق رسول اللہ حضرت علی کو اپنی جگہ سلا کر مکہ سے نکل گئے۔(دیکھیں:شب ہجرت)رسول خدا ابو بکر بن ابی قحافہ کے ساتھ مدینہ کی جانب عازم سفر ہوئے اور 3 دن تک مکہ کے نزدیک غار ثور میں ٹھہرے رہے تا کہ ان کا پیچھا کرنے والے نا امید ہو جائیں۔ اس کے بعد آپؐ نے غیر معروف راستے سے یثرب کی طرف ہجرت فرمائی۔ [17]۔
ہجرت مدینہ
رسول خدا کے مکہ سے نکلنے اور مدینہ پہنچنے کی تاریخ کے متعلق مؤرخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ابن ہشام جس نے رسول اللہ کی ہجرت کا مکمل نقشہ بیان کیا، وہ لکھتا ہے کہ رسول اللہ ربیع الاول کی 12ویں تاریخ بروز پیر ظہر کے بعد قبا پہنچے۔ابن کلبی نے رسول اللہ کے مکہ سے باہر نکلنے کی تاریخ 1 ربیع الاول اور قبا پہنچنے کی تاریخ اسی مہینے کی 12 بروز جمعہ ذکر کی ہے۔بعض نے وہاں پہنچنے کی تاریخ 8 ربیع الاول لکھی ۔متاخرین اور یورپین مؤرخین نے کہا ہے کہ آپ بعثت کے 12ویں سال ربیع الاول کے 9 دن سفر میں رہے اور 12 تاریخ بمطابق 24 ستمبر سن 622 عیسوی مدینے کے نزدیک قبا کے مقام پر پہنچے۔یغمبر کی مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت مسلمانوں کیلئے اسلامی تاریخ کا مبدا اور آغاز قرار پائی۔ رسول خدا نے قبا میں توقف کے دوران مسجد تعمیر کی جسے مسجد قبا کہا جاتا تھا.
حضرت علی رسول اللہ کی ہجرت کے بعد تین دن تک مکہ میں رہے اور آپ نے رسول خدا کے پاس موجود لوگوں کی امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کی۔ پھر حضرت فاطمہ سمیت بنی ہاشم کی خواتین کو لے کر مدینہ کی طرف گئے اور قبا میں کلثوم بن ہدم کے گھر رسول اللہ سے جا ملے۔
رسول خدا 12 ربیع الاول کو بنی نجار کے ہمراہ مدینے روانہ ہوئے ۔پہلی نماز جمعہ قبیلۂ بنی سالم میں پرھائی۔آپ کے مدینہ میں داخلے کے موقع پر وہاں ہر قبیلہ کا سربراہ اپنے اہل خانہ سمیت چاہتا تھا کہ وہ آپ کو اپنے گھر لے جائے تا کہ دوسروں کی نسبت آپ کی مہمان نوازی کا شرف اسے حاصل ہو جائے ۔ رسول اللہ دعوت دینے والوں کے جواب میں کہتے میرا اونٹ مامور ہے اور وہ جانتا ہے کہ کس جگہ جانا ہے ؟ گھوڑا بنی مالک بن نجار کے گھروں کے درمیان دو یتیموں کی زمین پر بیٹھ گیا ۔رسول خدا نے ان یتیموں کے سرپرست معاذ بن عقراء سے زمین خرید لی اور اس میں مسجد بنائی گئی جو مسجد نبوی کی بنیاد ہے ۔ابوایوب انصاری رسول اللہ کا سامان اپنے گھر لے گئے اور آپ حجرے کی تعمیر تک انہی کے گھر رہے۔
رسول خدا مسجد کی تعمیر میں صحابہ کی مدد فرماتے تھے ۔مسجد کی ایک طرف ایک چبوترہ ”صفہ“ بنایا گیا تا کہ وہاں ضرورت مند حضرات رہ سکیں۔ وہاں رہنے والوں کو اصحاب صفہ کہا گیا۔دن بدن مہاجروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور انصار انہیں اپنا مہمان بناتے رہے ۔رسول اللہ نے ان کے درمیان رشتۂ اخوت قائم کیا اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی بنایا۔
ایک چھوٹی سی جماعت جو دلی طور پر ایمان نہیں لائے تھے ظاہری طور ایمان لائے تھے انہیں منافقین کہا جاتا تھا۔ مدینے میں کچھ دیر قیام کے بعد آپؐ نے مدینے کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تاکہ ایک دوسرے کے معاشرتی حقوق کی رعایت کی جاسکے۔
منافقین اور یہودی
گو کہ عوام کی اکثریت مسلمان تھی یا پھر رسول اللہؐ کی حامی لیکن ایسا نہیں تھا کہ پورا شہر اور اس کے نواحی علاقے مکمل طور پر مطیع اور پرسکون ہوں۔ عبداللہ بن ابی ـ جس کی بادشاہت کا انتظام مدینہ میں مکمل ہوچکا تھا اورحضرت محمدؐ(ص) کے مدینہ پہنچنے پر وہ اس منصب سے محروم ہو گیا تھا ـ چین سے نہيں بیٹھا تھا اور باوجوداس کے کہ بظاہر مسلمان کہلواتا تھا، خفیہ طور پر نبی کریم (ص) اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا اور یہودیوں کے ساتھ بھی ساز باز میں مصروف تھا [18]۔
اس گروہ نے ـ جسے قرآن کی پہلی مدنی آیات میں منافقین کے نام سے پکارا گیا ہے ـ رسول اللہؐ اور مسلمانوں کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کی۔ ان لوگوں کا علاج مشرکین اور یہودیوں کے علاج کی نسبت بہت مشکل تھا۔ کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کے ہاں مسلمان کہلواتے تھے اور پیغمبر اسلام، خدا کے ظاہری حکم کے تحت، ان کے خلاف جنگ نہيں لڑ سکتے تھے۔خداوند متعال کبھی قرآنی آیات کے ذریعے انہيں ڈراتا اور خبردار کرتا تھا کہ خدا اور اس کا رسول تمہارے کرتوتوں کی خبر رکھتا ہےاور جانتا ہے کہ تم نے اسلام کو اپنے تحفظ کے لئے ڈھال بنا رکھا ہے:إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَ سُولُ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَ سُولُهُ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ[19]
اسلام کی راہ میں عبداللہ بن ابی کی طرف سے روڑنے اٹکانے اور خلل اندازی کا سلسلہ سنہ 9 ہجری میں اس کی موت کے لمحات تک جاری رہا۔ یہودی بھی ـ جنہیں میثاق مدینہ کے تحت کافی حقوق اور مراعاتوں سے سے نوازا گیا تھا، یہاں تک کہ جنگی غنائم میں بھی حصہ پاتے تھے، وہ ابتدائی طور پر مسلمانوں کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے تھے اور کئی یہودیوں نے اسلام بھی قبول کیا تھا لیکن آخر کار ناسازگاری اور بےہم آہنگی کے راستے پر گامزن ہوئے۔ سبب یہ تھا کہ وہ نہ صرف یثرب کی معیشت پر مسلط تھے بلکہ صحرائی عربوں اور مشرکین مکہ کے ساتھ بھی لین دین کرتے تھے؛ انہیں توقع تھی کہ عبداللہ بن ابی مدینے کا حکمران بنے گا اور یوں مدینہ کی معیشت پر ان کے اثر و نفوذ میں مزید اضافہ ہوگا؛ لیکن جب حضرت محمدؐ (ص)اس شہر میں تشریف لائے اور اسلام کو مدینہ میں فروغ ملا تو یہ امر یہودیوں کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر ورسوخ کے راستے میں رکاوٹ بن گیا
علاوہ ازیں یہودی اپنی نسل سے باہر کسی شخص کو ہرگز نبی کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ چنانچہ انھوں نے کچھ عرصہ بعد حضرت محمدؐ(ص) کے ساتھ اپنی مخالفت آشکار کردی۔ بظاہر عبداللہ بن ابی کا کردار بھی ان کو اکسانے اور مشتعل کرنے میں مؤثر تھا۔یہودیوں نے کہا: جس پیغمبر کا ہم انتظار کررہے تھے وہ محمدؐ نہیں ہیں اور وہ قرآنی آیات کے مقابلے میں تورات اور انجیل کے حوالے دیتے اور ان پر فخر و مباہات کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جو کچھ ہماری کتابوں میں ہے اور جو کچھ قرآن میں ہے، وہ ایک نہیں ہے۔ اس یہودی سازش کے جواب میں قرآن مجید کی متعدد آیات نازل ہوئیں اور ان آیات کے ضمن میں کہا گیا کہ تورات اور انجیل وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تحریف کا شکار ہوئی ہیں اور یہودی علماء نے اپنے خاص مقاصد اور مفادات کی خاطر ان کی آیات میں تحریف اور تبدیلی کی ہے۔
بالآخر قرآن نے یکبارگی یہود و نصاریٰ کے ساتھ اسلام کا تعلق ختم کر دیا تا کہ عرب کو سمجھا سکے کہ وہ یہودیوں سے بالکل الگ ایک جداگانہ امت ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا عرب ابراہیم کے دین پر ہیں اور ابراہیم اسرائیل کے جد اعلیٰ ہیں يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَ اهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّوْرَ اةُ وَالْإِنجِيلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ هَا أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَ اهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَ انِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ كِينَ۔
قبلہ کی تبدیلی
علامہ طباطبائی کے بقول اکثر منابع کے مطابق قبلہ کی تبدیلی ہجرت کے دوسرے سال رجب کے مہینے میں ہوئی۔امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس سے پہلے مسلمان مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تہمت لگاتے تھے اور کہتے تھے:محمد کے پاس اپنا قبلہ بھی نہیں تھا یہاں تک کہ ہم نے اسے بتایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے مغموم ہوئے یہاں تک کہ ایک دن آپ مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور نماز کے درمیان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا رخ کعبہ کی طرف کر دیا اور آیت قبلہ۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 144 نازل ہوئی۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اپنی نماز کی دو رکعتیں یروشلم کی طرف اور دو مزید رکعتیں کعبہ کی طرف ادا کیں جس کے نتیجے میں یہودی اور منافقین غیظ و غضب کا شکار ہو گئے، [20]
مدینہ میں جنگیں اور تنازعات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں مشرکین اور یہودیوں کے ساتھ بہت سی جنگیں اور لڑائیاں ہوئیں۔
جنگ بدر
جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے ساتھ عقبہ کا دوسرا معاہدہ کیا، اسی وقت سے قریش کے ساتھ تصادم کی توقع کی جا رہی تھی۔پہلا غزوہ ہجرت کے دوسرے سال صفر کے مہینے میں ہوا جسے ابواء یا ودان کی مہم کہا جاتا ہے۔اس مہم میں کوئی تصادم نہیں ہوا۔ اس کے بعد ربیع الاول میں بواط کی مہم ہوئی۔اس میں بھی کوئی تصادم نہیں ہوا۔ جمادی الاول میں یہ خبر پہنچی کہ قریش کا قافلہ ابوسفیان کی قیادت میں مکہ سے شام کی طرف روانہ ہو رہا ہے۔پیغمبر نے ذات العشیرة تک اس قافلے کا تعاقب کیا۔ لیکن قافلہ پہلے ہی اس مقام سے گذر چکا تھا۔ یہ غزوات اس لئے بے نتیجہ رہ جاتے تھے کہ مدینہ میں قریش کے جاسوس رسول الله کے فیصلوں سے آگاہ ہوجاتے تھے اور مسلمانوں کے فوجی دستوں کے روانہ ہونے سے قبل ہی قریشی قافلوں تک پہنچ جاتے تھے اور انہیں خطرے سے آگاہ کردیتے تھے چنانچہ ان کے قافلے یا تو راستہ بدل دیتے تھے یا پھر تیزرفتاری کے ساتھ مسلمانوں کی پہنچ سے نکل جاتے تھے [21]
ہجرت کے دوسرے سال مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان سب سے اہم فوجی معرکہ ہوا جو جنگ بدر کے نام سے مشہور ہوا۔ اگرچہ مسلمانوں کی تعداد مکہ والوں سے کم تھی، لیکن وہ فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور بہت سے مشرکین مارے گئے اور پکڑے گئے۔
اس جنگ میں ابوجہل اور کچھ دوسرے قریش مارے گئے اور اتنی ہی تعداد میں پکڑے گئے۔ 14 مسلمان شہید ہوئے۔ اس جنگ میں مکہ کے کئی بہادر جو اپنی بہادری کے لیے مشہور تھے، امام علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
یہودیوں کے ساتھ تنازعہ
یہودیوں کے ساتھ پہلی لڑائی جنگ بدر کے چند ہفتے بعد ہوئی۔ بنی قینقاع کے یہودی مدینہ شہر کے باہر ایک قلعے میں رہتے تھے اور وہ سنار اور لوہار کا کام کرتے تھے۔ لکھا ہے کہ ایک دن ایک عرب عورت بازار گئی اور بنی قینقاع کے بازار میں اپنا سامان بیچنے لگی اور ایک سنار کی دکان کے دروازے پر بیٹھ گئی۔ایک یہودی نے اس کے کپڑے اس کی پیٹھ پر باندھ دئے، جب وہ عورت کھڑی ہوئی تو اس کے کپڑے ایک طرف چلے گئے اور یہودی اس پر ہنسنے لگے۔ عورت نے مسلمانوں کو مدد کے لیے بلایا۔ ایک مسلمان نے اس عورت کی مدد سے ایک یہودی کو قتل کر دیا۔ یہودیوں نے فساد کیا اور اس مسلمان کو قتل کر دیا۔
اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے فرمایا کہ اگر وہ یہاں رہنا چاہتے ہیں تو ہتھیار ڈال دیں۔ بنی قینقاع نے کہا کہ اہل مکہ کی شکست آپ کو دھوکہ نہ دے، وہ جنگی آدمی نہیں تھے۔ اگر ہم آپ سے لڑیں گے تو ہم آپ کو دکھادیں گے کہ ہم کیا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا۔یہ محاصرہ 15 دن اور راتوں تک جاری رہا اور جب انہوں نے ہتھیار ڈال دیے تو عبداللہ بن ابی کے اصرارکے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قتل کرنے کے بجائے شام کی طرف جلاوطن کردیا۔ یہودیوں کے اس گروہ کا محاصرہ ہجرت کے دوسرے سال شوال کے مہینے میں ہوا [22].
جنگ احد
ہجری کے تیسرے سال قریش نے اپنے اتحادی قبائل سے مسلمانوں کے خلاف مدد طلب کی اور ابو سفیان کی کمان میں مسلح لشکر کے ساتھ مدینہ کی طرف کوچ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے مدینہ میں قیام کا ارادہ کیا، لیکن آخر کار آپ نے مشرکین مکہ کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
کوہ احد کے قریب دو لشکر آمنے سامنے ہوئے۔ اگرچہ شروع میں مسلمانوں کو فتح ہوئی لیکن خالد بن ولید کی چال سے اور مسلمانوں کے ایک گروہ کی غفلت کا فائدہ اٹھا کر مشرکین نے پیچھے سے حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے چچا حمزہ بن عبدالمطلب شہید ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم بھی زخمی ہوئے اور آپ کی موت کی افواہ نے مسلمانوں کے حوصلے پست کر دیے۔ ابن ہشام کی ابن اسحاق سے روایت ہے کہ غزوہ احد 15 شوال بروز ہفتہ پیش آیا [23].
جنگ بنی نضیر اور جنگ دومۃ الجندل
سنہ 4 ہجری میں مدینہ کے نواحی علاقوں کے قبائل سے اکا دکا جھڑپیں ہوئیں ۔یہ وہ قبائل تھے جو نئے دین کو اپنے لئے مفید نہيں سمجھتے تھے اور ممکن تھا کہ وہ آپس میں متحد ہوکر مدینہ پر حملہ کردیں۔ رجیع اور بئر معونہ کے دو واقعات، ـ جن کے دوران متحدہ قبائل کے جنگجؤوں نے مسلم مبلغین کو قتل کیا، اسی قبائلی اتحاد نیز مدینہ میں اسلام کے فروغ کے سلسلے میں رسول اللہؐ کی مسلسل کوششوں کی دلیل، ہیں۔اس سال رسول الله کی ایک اہم جنگ مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلے بنی نضیر کے ساتھ ہوئی۔ رسول اللہؐ نے یہودیوں کے ساتھ مذاکرات شروع کئے لیکن یہودیوں نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا۔آخرکار بنی نضیر کے یہودیوں کو علاقے سے جلاوطن ہوکر کوچ کرنا پڑا۔
اگلے سال، رسول الله اور مسلمان شام کی سرحدوں کے قریب دومۃ الجَندَل نامی مقام پر پہنچے۔ جب سپاہ اسلام اس مقام پر پہنچی تو دشمن بھاگ کھڑا ہوا تھا اور وہ واپس مدینہ پلٹ آئے [24]
احزاب، بنی قریظہ اور بنی مصطلق کی جنگیں
پانچویں ہجری میں ابوسفیان نے سات سے دس ہزار آدمیوں کا لشکر فراہم کیا جن میں سے چھ سو گھڑ سوار تھے۔ فوج چونکہ مختلف عرب قبائل پر مشتمل تھی اس لیے اس جنگ کو احزاب یعنی مختلف گروہ کی جنگ کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس جنگ میں خیبر میں رہنے والے بنو نضیر کے یہودیوں کے ایک گروہ نے قریش اور قبیلہ غطفان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے خلاف اتحاد کیا۔
بنی قریظہ کے یہودی جو مدینہ کے آس پاس رہتے تھے اور قریش کی مدد نہ کرنے کا عہد کر چکے تھے، معاہدہ توڑ کر اہل مکہ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے سامنے ان کی صرف تین ہزار فوج تھی جن میں چند کے سوا باقی سب پیادہ تھے۔
چند مسلمانوں نے بنی قریظہ اور غطفان سے رابطہ قائم کیا اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف شک میں ڈال دیا۔ آندھی اور سردی بھی آگئی اور مکہ کی فوجوں کے لیے مشکل ہو گئی۔ چنانچہ ابو سفیان نے واپسی کا حکم دیا اور پندرہ دن کے محاصرے کے بعد مدینہ خطرے سے باہر ہو گیا اور جنگ ختم ہو گئی۔ اس جنگ کے بعد حالات کا رخ مسلمانوں کے حق میں بدل گیا۔ بعض قدیم عرب اسلام کی طرف مائل ہوئے اور ابو سفیان اور قریش کی پوزیشن متزلزل ہوگئی۔
احزاب کی لڑائی ختم ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی قریظہ کے یہودیوں کے پاس گئے۔ میثاق مدینہ کے مطابق وہ اس وقت تک محفوظ ہیں جب تک مسلمانوں کے خلاف بغاوت نہیں کرتے۔ لیکن جنگ احزاب میں انہوں نے اسلام کے دشمنوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان کا محاصرہ کیا اور 25 راتوں کے بعد انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔
قبیلہ اوس نے جس کا بنی قریظہ سے اتحاد تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: بنی قریظہ ہمارے حلیف ہیں اور وہ اپنے کیے پر پشیمان ہیں۔ ان کے ساتھ بھی خزرج کے اتحادیوں(بنی قینقاع) جیسا سلوک کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بنی قریظہ کے اسیروں کا فیصلہ قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کو سونپا۔ بنی قریظہ نے بھی اتفاق کیا۔ سعد نے کہا: میرا رائے یہ ہے کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسی کر لیا جائے۔ سعد کے فیصلے کے مطابق گڑھا کھودا گیا اور اس پر بنی قریظہ کے آدمیوں کو قتل کر دیا گیا۔
بعض مورخین اس واقعے سے اختلاف کرتے ہیں۔ سنہ 6 ہجری میں مسلمانوں نے بنی مصطلق کو شکست دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جمع ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ [25].
جنگ خیبر
7 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے خیبر کے یہودیوں پر فتح حاصل کی جو دشمنوں کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف کئی بار سازشیں کر چکے تھے۔ خیبر کا قلعہ مدینہ منورہ کے قریب واقع تھا۔ مسلمانوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہودی اس علاقے میں کاشتکاری جاری رکھیں گے اور ہر سال اپنی فصل کا ایک حصہ مسلمانوں کو دیں گے۔
جنگ خیبر میں ایک قلعے کو فتح کرنا مشکل ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بالترتیب ابوبکر بن ابی قحافہ اور عمر بن خطاب کو فتح کرنے کے لیے بھیجا۔ لیکن وہ ناکام رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے علم حضرت علی علیہ السلام کو دیا۔حضرت علی نے قلعہ فتح کر لیا [26]۔
صلح حدیبیہ
جنگ احزاب ، بنی قریظہ کے یہودیوں کا ہتھیار ڈالنا اور دو تین جنگیں جو ہجرت کے چھٹے سال میں ہوئیں اور مسلمانوں کے مفاد میں ختم ہوئیں اور ان جنگوں سے جو مال غنیمت حاصل ہوا ان سب سے اسلام کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ جزیرہ نما کے باشندوں میں سے بہت سے قبیلے مسلمان ہو گئے یا انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کر لیا۔
سن 6 ہجری کے ذیقعدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم مدینہ منورہ سے 1500 لوگوں کے ساتھ عمرہ کرنے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ جب قریش کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے آپ کو روکنے کی تیاری کی۔ سب سے پہلے انہوں نے مسلمانوں کو مکہ پہنچنے سے روکنے کے لئے خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابی جہل کو بھیجا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم حدیبیہ نامی جگہ پر اترے جہاں سے حرم کا علاقہ شروع ہوتا ہے اور اہل مکہ کو پیغام دیا کہ ہم جنگ کے لیے نہیں بلکہ حج کے لیے آئے ہیں۔ قریش نے قبول نہیں کیا۔
آخرکار آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اور اہل مکہ کے درمیان صلح کا معاہدہ ہوا جس کے مطابق دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ نہیں ہوگی۔ اس سال مسلمان مکہ میں داخل نہیں ہوں گے لیکن اگلے سال ان دنوں شہر کے لوگ مسلمانوں کی زیارت کے لئے مکہ خالی کر دیں گے۔ اس معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ اہل مکہ میں سے جو بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس آئے گا اسے مکہ واپس کر دیا جائے گا، لیکن اگر کوئی مدینہ سے مکہ گیا تو قریش اس کو واپس کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ معاہدے کی دوسری شق یہ تھی کہ ہر قبیلہ قریش کے ساتھ معاہدے یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ساتھ معاہدے میں شامل ہونے کے لیے آزاد ہے۔
بعد میں قریش نے اس شرط کی تعمیل نہیں کی جو فتح مکہ کا سبب بنا۔
خدا کے گھر کی زیارت
7 ہجری کے ذیقعدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم صلح حدیبیہ کی وجہ سے مکہ تشریف لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور مسلمانوں کا مسجد الحرام میں داخل ہونا اور عمرہ ادا کرنا، اس تقریب کی شان و شوکت اور وہ حترام اور تقدس جس کا مظاہرہ مسلمانوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیا اس سے قریش کی نظروں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کی عظمت بڑھ گئی اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب ان میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ چنانچہ اس قبیلے کے دو بزرگ خالد بن ولید اور عمرو بن عاص مدینہ پہنچ کر مسلمان ہو گئے۔
فتح مکہ
میثاق حدیبیہ کے تحت قرار پایا تھا کہ ہر قبیلہ قریش یا مسلمانوں میں سے کسی ایک کے ساتھ معاہدہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ خزاعہ نے حضرت محمدؐ کے ساتھ اور بنوبکر نے قریش کے ساتھ معاہدہ کیا۔ سنہ 8 ہجری میں بنوبکر اور خزاعہ کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور قریش نے خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی اور یوں میثاق حدیبیبہ منسوخ ہوگیا ۔ ابوسفیان فوری طور پر تجدید عہد کیلئے مدینہ پہنچا لیکن اسے ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ رمضان سنہ 8 ہجری کو 10 ہزار افراد کے ہمراہ مکہ روانہ ہوئے۔ آپؐ نے نقل و حرکت کا منصوبہ اس طرح سے ترتیب دیا تھا کہ کوئی بھی اس عزیمت سے باخبر نہ ہو۔ جب مسلمانوں کا لشکر مرُّ الظہران کے علاقے میں پہنچا، تو آپ کے چچا عباس نے رات کو خیمے سے باہر نکل کر مکہ کے لوگوں سے ملنے کا ارادہ کیا۔ وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ قریش ہلاک ہونے سے قبل رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں۔ اس رات عباس ابن عبد المطلب نے ابوسفیان کو پناہ دی اور اسے رسول اللہؐ کی خدمت میں لے کر آئے ۔ ابو سفیان مسلمان ہوگیا۔ مسلمانوں اور مکہ کی عوام کے درمیان اِکّا دُکّا جھڑپیں ہوئیں۔ پیغمبرؐ مسجد میں داخل ہوئے اور سوار ہوتے ہی سات مرتبہ کعبہ کا طواف کیا اور کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر فرمایا: لا اله الا الله وحده لا شریك له صدق وعده ونصر عبده وهزم الاحزاب وحده کوئی بھی معبود نہیں ہے سوائے خدائے یکتا کے جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہيں ہے، اس نے (غلبہ اسلام کے سلسلے میں) اپنا وعدہ پورا کرکے دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے تمام احزاب (اور لشکروں) کو شکست دے دی۔
رسول الله دو ہفتوں تک مکہ میں رہے اور انہوں نے شہر کے امور و معاملات کو سدھارا۔ آپ نے کچھ افراد مکہ کے اطراف میں بھجوا کر بت خانوں کو منہدم کروادیا اور کعبہ میں موجود بت بھی منہدم کر وادئے۔آپ نے اہل مکہ کے ساتھ ایسا رویہ رکھا جس کے بموجب اسلام کی بردباری اور اس دین مبین کے پیغمبر کی عظمت و کرامت مخالفین کی نظروں کے سامنے جلوہ گر ہوئی۔ جب انھوں نے رسول اللہؐ سے سنا کہ "آج میں نے تم سب کو آزاد کردیا"، تو اسی لمحے انہوں نے اسلام دشمنوں کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے مکہ میں قیام کو پندرہ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ جزیرہ نما عرب کے متعدد غیر مسلم قبیلے آپ کے خلاف متحد ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم مسلمانوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ مکہ سے نکلے اور جب حنین نامی گاؤں میں پہنچے تو آس پاس کی وادیوں میں چھپے ہوئے دشمنوں نے تیر اندازی شروع کردی۔ تیر اندازی کی شدت اس قدر تھی کہ اسلام کا لشکر پیچھے ہٹ گیااور ایک چھوٹا سا گروہ آگے رہ گیا، لیکن آخر کار فرار ہونے والے واپس آگئے اور دشمن کے لشکر پر حملہ کر کے انہیں شکست دی۔ [27]
فتح مکہ کے بعد مختلف قبائل کے بہت سے وفود مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس آئے اور اسلام اور اطاعت کا دعویٰ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شفقت، محبت اور توجہ کے ساتھ قبول کیا۔ اس لیے اس سال کو سنۃ الفود کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مباہلہ
نویں صدی ہجری میں رسول اللہ نے مختلف حکومتوں کے سربراہوں کو خطوط لکھے۔ایک خط نجران کے ساکنین کے نام بھی لکھا جس میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔اس کے جواب میں انہوں نے 30افراد پر مشتمل ایک وفد تحقیق کیلئے مدینہ بھیجا ۔ وہ رسول خدا سے گفت و شنید سے کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو بات مباہلے پر ختم ہوئی ۔ طے پایا کہ طرفین مدینے سے باہر صحرا میں اکٹھے ہوں ۔مباہلے کے روز رسول خدا اپنے ہمراہ حضرت علی ،حضرت فاطمہ ، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہم السلام کو لے کر آئے ۔جب نصارا نے انہیں دیکھا تو انہوں نے مباہلہ سے انکار کیا اور صلح کی پیش کش کی ۔ رسول خدا نے اسے قبول کیا۔ رسول خدا اور نجران کے وفد کے درمیان ایک صلحنامہ لکھا گیا۔
حجۃ الوداع اور غدیر خم کا واقعہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذیقعدہ سنہ 10 ہجری کو اپنے آخری حج کے لئے مکہ روانہ ہوئے۔ اسی سفر کے دوران آپؐ نے لوگوں کو احکام حج کی تعلیم دی۔ قریش نے اسلام سے قبل اپنے لئے بعض حقوق اور امتیازات مختص کر رکھے تھے۔ وہ خانہ کعبہ کی کلید داری، پردہ داری، ضیافتیں دینے اور حاجیوں کو پانی دینے (سقایت) جیسے عہدوں کو اپنے لئے مختص کرچکے تھے اور علاوہ ازیں آداب زیارت میں بھی اپنے لئے دوسرے قبائل کی نسبت جدا اور ممتاز حیثیت کے قائل تھے۔
اس سفر کے دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان تمام چيزوں کا خاتمہ کیا جنہيں قریش زیارت خانۂ خدا میں، اپنے لئے، امتیازی خصوصیت سمجھتے تھے۔ ان میں سے ایک چیز یہ تھی کہ جاہلیت کے زمانے میں یہ لوگ سمجھتے تھے کہ خانہ کعبہ کا طواف پاکیزہ لباس پہن کر بجا لانا چاہئے اور کپڑا صرف اس وقت پاک ہوتا ہے جب وہ قریش سے خریدا جاتا ہے۔ اگر قریش کسی کو طواف کا کپڑا نہ دیتے تو اس کو برہنہ ہوکر طواف کرنا پڑتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ قریشی دیگر حجاج کی مانند عرفات سے حج کے لئے کوچ نہیں کرتے تھے بلکہ مزدلفہ سے کوچ کیا کرتے تھے اور اس عمل کو اپنے لئے فخر و اعزاز سمجھتے تھے۔ قرآن نے یہ امتیازی خصوصیت قریش سے چھین لی اور فرمایا:
ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ۔ اور پھر چل کھڑے ہو جس طرح کہ اور لوگ چل کھڑے ہوتے ہیں۔
اور لوگوں نے دیکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو خود قریش میں سے ہیں دوسرے لوگوں کے ہمراہ عرفات سے کوچ کررہے ہیں۔ اسی سفر میں رسول اللہؐ نے فرمایا: اے لوگو! نہیں معلوم کہ میں اگلے سال کو دیکھ سکوں گا یا نہيں! اے لوگو! میں جاہلیت کے زمانے میں بہایا گیا خون پاؤں تلے روندتا ہوں [اور پرانے بدلے منسوخ کرتا ہوں]؛ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر حرام ہے اس وقت تک کہ اپنے خدا سےملاقات کرلو۔
غدیر خم
جب اپ حج کرکے مدینہ واپسی کے لئے مکہ سے نکلے تو غدیر خم کے نام سے مشہور مقام پر جہاں مصر، حجاز اور عراق کے لوگوں کا راستہ جدا ہوتا ہے، خدا کا حکم آیا کہ آپ علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کریں، اور واضح طریقے سے اسلامی حکومت کی تقدیر کا فیصلہ کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مسلمانوں سے فرمایا جن کی تعداد نوے ہزار یا ایک لاکھ تھی:
”من كنت مولاه فهذا على مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه واحبّ من احبّه وابغض من ابغضه وانصر من نصره واخذل من خذله وأدار الحق معه حیث دار“
حج سے واپسی کے بعد جب کہ اسلام کی فکر روز بروز بڑھ رہی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی صحت کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ لیکن بیماری کے باوجود آپ نے جنگ موتہ کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے اسامہ بن زید کی سربراہی میں لشکر تیار کیا۔ لیکن اس لشکر کے مشن پر جانے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنے رب سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ جب اللہ کا نبی اپنے پروردگار سے ملاقات کے لئے روانہ ہوا تو آپ کی برکت سے پورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلامی اتحاد قائم ہو چکا تھا اور اسلام ایران اور روم کی دو عظیم سلطنتوں کی سرحدوں تک پہنچ چکا تھا۔
وفات
سن 11 ہجری قمری کے آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم بیمار ہو گئے۔ جب آپ کی بیماری شدید ہوگئی تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو آپس میں حسن سلوک کا حکم دیا اور فرمایا: اگر میری گردن پر کسی کا حق ہے تو وہ اسے حلال کرے اور اگر میں نے کسی کی دل آزاری کی ہے تو میں بدلے کے لئے تیار ہوں۔
اہل سنت کی سب سے اہم کتاب بخاری کی مستند روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی زندگی کے آخری ایام میں جب صحابہ کی ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی عیادت کے لیے گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک قلم اور کاغذ لے آؤ تاکہ میں تمہارے لئے کچھ لکھ سکوں جس کی برکت سے تم کبھی گمراہ نہیں ہوں گے۔ وہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے کہا: بیماری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم پر قابو پالیا ہے (اور وہ بدحواس ہیں) اور ہمارے پاس قرآن ہے اور ہمارے لیے یہی کافی ہے۔
وہاں موجود لوگوں میں ہنگامہ اور اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا: قلم دوات لے آؤ تاکہ نبی لکھیں اور بعض نے دوسری بات کہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: اٹھو اور میرے پاس سے چلے جاؤ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات گیارہویں قمری سال کی 28 صفر کو 63 سال کی عمر میں ہوئی۔ جیسا کہ نہج البلاغہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو پیغمبر کا سر امام علی علیہ السلام کے سینے اور گردن کے درمیان تھا [28].
اس وقت آپ کی اولاد میں سے حضرت فاطمہ (س) کے علاوہ کوئی زندہ نہیں تھا۔ ان کے دوسرے بچے جن میں ابراہیم بھی شامل تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک یا دو سال پہلے پیدا ہوئے تھے، سب کا انتقال ہو چکا تھا۔ حضرت علی (ع) نے اپنے خاندان کے کچھ دوسرے افراد کی مدد سے پیغمبر اکرم (ص) کے مقدس جسم کو غسل دیا اور کفن دیا اور اپنے گھر میں دفن کیا جو اب مسجد النبی کے اندر ہے۔
آپ کی شخصیت
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بعثت سے قبل 40 سال تک عوام کے درمیان رہے ۔ آپ کی زندگی ہر قسم کی منافقت اور ناپسندیدہ خصوصیات و کیفیات سے خالی تھی۔ آپ لوگوں کے نزدیک صادق اور امین سمجھے جاتے تھے۔ جب آپ نے تبلیغ رسالت کا آغاز کیا تب بھی مشرکین کبھی آپ کی ذات کو نہیں جھٹلاتے تھے بلکہ آیات کا انکار کرتے تھے؛ جیسا کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:
قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَ ؛ہمیں معلوم ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، وہ آپ کو یقینا رنج پہنچاتا ہے تو وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے ہیں بلکہ وہ ظالم اللہ کی آیتوں کا جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں
منقول ہے کہ ابوجہل نے آپؐ سے کہا: "ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ ان آیات کو نہیں مان سکتے۔ رسول اللہؐ نے اعلان رسالت کے آغاز پر قریش سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اگر میں تم سے کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے لشکر ہے تو کیا میری بات مان لوگے؟ سب نے کہا: ہاں، ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے کبھی بھی آپ کو جھوٹ بولتے ہوئے نہيں دیکھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: تو پھر جان لو کہ میں خداوند متعال کی طرف سے لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ [29]۔
اخلاق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلیٰ ترین اور سب سے نمایاں خصوصیت آپ کی اخلاق تھا۔ اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے ’’تم اخلاق کے عظیم درجے پر فائز ہو۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اخلاق اور اوصاف کے متعلق مروی ہے کہ آپ اکثر خاموش رہتے تھے اور ضرورت کے سوا کچھ نہیں بولتے تھے۔ آپ نے کبھی اپنا منہ پوری طرح سے نہیں کھولا، آپ زیادہ تر مسکرایا کرتے تھے اور کبھی اونچی آواز میں نہیں ہنستے تھے۔جب آپ کسی کی طرف متوجہ ہونا چاہتے تھے تو اپنے پورے جسم کے ساتھ اس کی طرف مڑ جاتے تھے۔
آپ کو صفائی اور خوشبو سے اتنی دلچسپی تھی کہ جب آپ کسی جگہ سے گزرتے تو یچھے آنے والے خوشبو کے اثر سے آپ کی موجودگی کو پا لیتے تھے۔ آپ مکمل سادگی سے رہتے تھے، زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور کبھی تکبر نہیں کرتے تھے۔
آپ نے کبھی پیٹ بھرکر کھانا نہیں کھایا۔کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا تھا جب آپ مکمل فاقہ کرتے تھے۔
مسلمانوں اور یہاں تک کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بھی آپ کا برتاؤ ہمدردی، بڑائی، درگزر اور مہربانی پر مبنی تھا۔ ان کی سیرت اور زندگی مسلمانوں کےلئے اس قدر خوشنما تھی کہ وہ اس کی تمام تر تفصیلات سینہ بہ سینہ بیان کرتے تھے اور آج بھی اسے اپنی زندگی اور مذہب کے لیے بطور نمونہ استعمال کرتے ہیں۔
آپ کی خاکساری ایسی تھی کہ آپ نوکروں کی طرح زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق جب سے آپ بھیجے گئے ہیں کبھی ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھایا۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے چہرے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو سابقہ آشنائی کے بغیر دیکھتا وہ ہیبت زدہ ہوجاتا اور جو آپ کے ساتھ میل جول رکھتا اور آپ سے آشنا ہوجاتاوہ آپ سے محبت کرتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنی نگاہیں صحابہ کے درمیان بانٹ لیتے تھے اور سب کو برابری کی نظر سے دیکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی سے مصافحہ کرتے تو اس وقت تک ہاتھ نہیں چھڑاتے تھے جب تک سامنے والا نہ چھڑا لے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص سے اس کی استطاعت اور عقل کے مطابق بات کرتے تھے۔ جس نے بھی آپ پر ظلم کیا ،اسے معاف کر دیا۔یہاں تک کہ آپ نے اسلام کے پرانے دشمن ابو سفیان کو بھی معاف کردیا۔
جناب حمزہ کے قاتل وحشی نے بھی جب اسلام قبول کیا تو آپ نے اسے بھی معاف کر دیا بس اتنا کہا کہ میری نظرو ں سے دور رہو [30]۔
زہد
پیغمبر اکرم زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ نے پوری زندگی میں اپنے لئے کوئی خانہ و کاشانہ بنانے کا اہتمام نہیں کیا اور مسجد کے گرد آپ کی زوجات کے گارے کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ ان کی چھتیں کھجور کی لکڑی سے بنی ہوئی تھیں اور دروازوں کے بجائے ان پر بکری یا اونٹ کی پشم کے بنے پردے لٹک رہے تھے۔ آپ ایک تکيہ سونے کے لئے استعمال کرتے تھے جسے کھجور کے پتوں سے بھر دیا گیا تھا۔ کھجور کے پتوں سے بھری ہوئی چمڑے کی ایک گدی تھی جسے آپ ساری زندگی سونے کے لئے استعمال کرتے رہے۔ آپ کا زیریں لباس کھردرے کپڑے کا بنا ہواتھا جو بدن کو کھا لیتا تھا اور آپ کی ایک ردا تھی جو اونٹ کی پشم سے بنی ہوئی تھی۔ حالانکہ جنگ حنین، کے بعد آپ نے چار ہزار اونٹ، 40 ہزار سے زیادہ بھیڑ بکریاں اور بہت بڑی مقدار میں چاندی اور سونا لوگوں کو بخش دیا۔
گھر اور گھر کے ساز و سامان کے حوالے سے آپ کا کھانا پینا آپ کی زاہدانہ روش سے بھی زیادہ زاہدانہ تھا۔ بسا اوقات کئی مہینوں تک آپ کے گھر میں چولہا بجھا رہتا تھا اور سب کا کھانا کھجوروں اور جو کی روٹی تک محدود رہتا تھ۔ آپ نے کبھی بھی دو روز مسلسل پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، کبھی بھی ایک روز دو بار پیٹ بھر کر دسترخوان سے نہیں اٹھے۔ بارہا اور بارہا آپ اور آپ کے اقرباء راتوں کو بھوکے سوتے تھے۔
ایک روز جناب فاطمہ سلام اللہ علیہھا جَو کی ایک روٹی آپ کے لئے لائی اور عرض کیا: بابا جان ! میں نے روٹی پکائی اور میرا دل راضی نہ ہوا کہ یہ روٹی آپ کے لئے نہ لے کر آؤں؛ رسول الله نے وہ روٹی تناول فرمائی اور فرمایا: "جان پدر! یہ پہلا کھانا ہے جو تمہارا باپ گدشتہ تین دنوں میں کھا رہا ہے!۔ ایک دن ایک انصاری کے نخلستان میں کھجور تناول فرما رہے تھے، فرمایا: آج چوتھا دن ہے کہ میں نے کچھ نہيں کھایا ہے۔ کبھی کبھی تو آپ انتہائی بھوک کے عالم میں سو جاتے ۔
وفات کے وقت آپ کی زرہ جَو کے تیس پیمانوں کے عوض ایک یہودی کے پاس گروی تھی [31]
نظم و انضباط اور آراستگی
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کے معاملات بہت زيادہ منظم تھے۔ آپ نے مسجد بنانے کے بعد ہر ستون کا ایک نام متعین کیا تاکہ معلوم ہو کہ ہر ستون کے پاس کس قسم کے معاملات انجام پاتے ہیں؛ جیسے ستون وفود (وفدوں کے بیٹھنے کا مقام)، تہجد کا ستون ۔نماز کی صفوں کو اس طرح منظم فرمایا کرتے تھے کہ گویا تیروں کی لکڑیوں کو منظم کررہے ہیں اور فرماتے تھے: اے بندگان خدا! اپنی صفوں کو منظم کرو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف پڑ جائے گا۔
شب و روز کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے؛ کچھ وقت عبادت الہی کے لئے مختص فرمایا کرتے تھے، کچھ وقت اہل خانہ کو دیتے تھے اور کچھ وقت اپنے لئے قرار دیتے تھے اور پھر اپنے وقت کو لوگوں کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔
آپؐ آئینہ دیکھتے تھے، اپنے سر کے بالوں کو منظم کرتے اور ان میں کنگھی کیا کرتے تھے اور نہ صرف اپنے خاندان کے افراد کو آراستہ پیراستہ کرتےتھے بلکہ اپنے اصحاب کی آراستگی کا اہتمام بھی فرمایا کرتے تھے۔آپ سفر کے دوران بھی اپنی ظاہری صورت کی طرف توجہ دیا کرتے تھے اور پانچ چیزیں ہر وقت آپ کے پاس موجود رہتی تھیں: آئینہ، سرمہ دانی، کنگھی، مسواک اور قینچی [32]
حوالہ جات
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج 15، ص 117
- ↑ مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۱۷۴
- ↑ ابونعیم اصفهانی، دلائل النبوة، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۳۹، ح۸۲؛ بیهقی، دلائل النبوة، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۱۲۶و۱۲۷
- ↑ منتهی الآمال فی تواریخ النبی و الآل، شیخ عباس قمی، ج۱، ص۴۷
- ↑ شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص38
- ↑ ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1، ص141-142
- ↑ ابن اسحاق، السيرة النبويہ، جزو 1، ص59
- ↑ ایتی، تاریخ پیغمبر اسلام، 1378، صفحہ 56-60
- ↑ ابن اسحاق، سیره ابن اسحاق، ۱۳۹۸ق، ص۲۴۵؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۶۰-۶۱
- ↑ شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص41
- ↑ شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص41۔
- ↑ ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1، ص264، 266
- ↑ طبری، تاریخ الطبری، ج۳، ص۱۱۷۲
- ↑ شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص49
- ↑ شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 51-52
- ↑ شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص53
- ↑ شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 60
- ↑ شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 68-67
- ↑ منافقون 1
- ↑ تاریخ تحلیلی اسلام، صص 69-71۔
- ↑ شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 73
- ↑ شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص 79-80
- ↑ ابن هشام، السیرة النبویة، دار احیاءالتراث العربی، ج۳، ص۱۰۶
- ↑ ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج3، ص224
- ↑ ابن ہشام، السيرة النبويہ، دار احیاءالتراث العربی، ج۳، ص۳۰۲
- ↑ ایتی، تاریخ پیغمبر اسلام، 1378، صفحہ 411-410
- ↑ واقدی، ج۲، ص۸۸۵
- ↑ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام(ص)، ص۵۳۷
- ↑ ابن ہشام، السيرة النبويہ، ج1
- ↑ هیثمی، مجمع الزوائد، ج9، ص15
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج16، ص219
- ↑ حلبی، السیرة الحلبیة، ج3، ص352