"طارق مسعود" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م (Mahdipor نے صفحہ مسودہ:طارق مسعود کو طارق مسعود کی جانب بدون رجوع مکرر منتقل کیا)
 
(ایک ہی صارف کا 2 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 15: سطر 15:
| faith = [[سنی]]
| faith = [[سنی]]
| works = {{افقی باکس کی فہرست| ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟|فیملی پلاننگ}}
| works = {{افقی باکس کی فہرست| ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟|فیملی پلاننگ}}
| known for = }}
| known for =  
}}
}}
'''طارق مسعود'''[[دیوبندیہ|دیوبندی]] مکتب فکر سے وابستہ [[پاکستان|پاکستانی]] عالمِ دین ہیں۔ آپ تبلیغی جماعت سے بھی وابستہ ہیں۔ طارق مسعود بطور مہمان اکثر پاکستانی ٹیلیوژن چینلز پر بطور اسکالر مدعو کیے جاتے ہیں اور اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بھی کافی مقبول ہیں۔
 
 
'''طارق مسعود''' [[دیوبندیہ|دیوبندی]] مکتب فکر سے وابستہ [[پاکستان|پاکستانی]] عالمِ دین ہیں۔ آپ تبلیغی جماعت سے بھی وابستہ ہیں۔ طارق مسعود بطور مہمان اکثر پاکستانی ٹیلیوژن چینلز پر بطور اسکالر مدعو کیے جاتے ہیں اور اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بھی کافی مقبول ہیں۔
== سوانح عمری ==
== سوانح عمری ==
آپ 4 مارچ 1975ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔
آپ 4 مارچ 1975ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔

حالیہ نسخہ بمطابق 09:58، 30 جون 2024ء

طارق مسعود
طارق مسعود.jpg
دوسرے ناممفتی
ذاتی معلومات
پیدائش1975 ء، 1353 ش، 1394 ق
یوم پیدائش4مارچ
پیدائش کی جگہکراچی پاکستان
اساتذہ
  • مفتی ابولبابہ شاہ منصور
  • رشید احمد لدھیانوی
مذہباسلام، سنی
اثرات
  • ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟
  • فیملی پلاننگ


طارق مسعود دیوبندی مکتب فکر سے وابستہ پاکستانی عالمِ دین ہیں۔ آپ تبلیغی جماعت سے بھی وابستہ ہیں۔ طارق مسعود بطور مہمان اکثر پاکستانی ٹیلیوژن چینلز پر بطور اسکالر مدعو کیے جاتے ہیں اور اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بھی کافی مقبول ہیں۔

سوانح عمری

آپ 4 مارچ 1975ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اس کے بعد کراچی منتقل ہو گئے جہاں وہ پاکستان نیوی میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کی پہلی شادی 2005ء میں ہوئی اس کے بعد 2008ء میں انہوں نے دوسری شادی کی جب کہ ان کی تیسری شادی 2018ء میں ہوئی اور ان کے 12 بچے ہیں۔

اس کے بعد نارتھ کراچی کی مشہور جامع مسجد الفلاحیہ میں گذشتہ دس سال سے امامت کروا رہے ہیں اس کے علاوہ جمعہ کے خطبات اور اتوار کو عشا کی نماز کے بعد درس دیتے ہیں۔

تعلیم

طارق مسعود نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی اس کے بعد سندھ مسلم سائنس کالج میں داخلہ لیا مگر انٹر کی تعلیم مکمل کرنے سے قبل ہی جامعۂ الرشید کراچی سے دینی تعلیم حاصل کی جہاں انہوں نے آٹھ سال درس نظامی کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد دو سال حدیث کی تعلیم مکمل کی۔

اساتذہ

  • مفتی ابولبابہ شاہ منصور
  • رشید احمد لدھیانوی

علمی آثار

  • ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟ (پارٹ 1)
  • ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟ (پارٹ 2)
  • فیملی پلاننگ

عازمین حج کے گروپ سے خطاب

معروف مبلغ اور عالم دین مولانا مفتی طارق مسعود نے عازمین حج کے گروپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب اللّٰہ تعالی کا حکم آجائے تو عقل و دلیل کی کوئی اہمیت نہیں، صرف اطاعت کی اہمیت ہے اور حکم بھی یہی ہے۔ مولانا مفتی طارق مسعود نے کہا کہ حج دین اسلام کا اہم رکن اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی سنت ہے جس میں انہوں نے شیطان کے بہکاوے اور اس کی تمام دلیلوں کو رد کرتے ہوئے اللّٰہ کے حکم پر لبیک کہا اور اپنی اکلوتی اولاد حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اپنے رب کے حضور پیش کی، اللّٰہ تعالی کو اپنے پیغمبر کی قربانی اتنی پسند آئی کہ اللّٰہ تعالی نے اس قربانی کو قیامت تک کے لیے حج جیسی بڑی عبادت میں لازم کر دیا۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ تمام عازمین حج اپنے سفر حج کے بعد اپنی زندگی کا نیا سفر شروع کریں، اپنے کاروبار میں مزید ایمانداری پیدا کریں، لوگوں سے نرمی سے پیش آئیں، اپنی خواتین ماں، بیوی، بہن اور بیٹیوں کے ساتھ خصوصی شفقت کا سلوک کریں یعنی پوری دنیا کو حج کی سعادت کے حصول کے بعد آپ کے اندر ایمانی تبدیلی نظر آئے، کوشش کریں دکھاوے سے بچیں، والدین کے ساتھ نرمی اور فرمانبرداری کا مظاہرہ کریں[1]۔

کیا اسلام میں ٹیٹو بنوانا جائز ہے؟

معروف عالم دین طارق مسعود نے جِلد پر ٹیٹو بنوانے کی مذمت کرتے ہوئے اس اقدام کو حرام اورگمراہ کن قرار دیا ہے۔ آج نیوز کے مطابق ایک پوڈکاسٹ کے دوران میزبان کی جانب سے ٹیٹو بنوانے سے متعلق سوال کیے جانے پر مفتی طارق مسعود نے ایسا کرنے والوں پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ :" حدیث کے مطابق آپﷺ نے جسم گنوانے پر لعنت فرمائی ہے۔ قرآن میں بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ شیطان نے کہا تھا کہ میں انسانوں کو ایسا گمراہ کروں گا کہ وہ اللہ کی تخلیق میں ردوبدل کریں گے"۔

کیا آپ میڈیکل گراؤنڈ پر بھی سزا معطلی کی درخواست کریں گے؟

جج افضل مجوکا کا بیرسٹر سلمان صفدر سے استفسار انہوں نے دو ٹوک گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ :" اس سے بڑی کوئی تبدیلی ہو نہیں سکتی کہ اللہ نے آپ کو بنایا ہو اور آپ نے اس کی بنائی ہوئی جلد میں کچھ کرواکر اس کی شکل تبدیل کردی ہو"۔ ان افراد کو مشورہ دیتے ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ :"یہ اسلام میں حرام ہے اور ناجائز بھی ہے۔ اگر کسی نے یہ بنوالیا ہے تو ممکن ہو تو اس کو مٹادیں اور اگرنہیں مٹ رہا تو سوائے توبہ کے ان کے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے"۔[2]۔

ٹیٹو کندہ کرنے کے بارے میں مذہبی وضاحت

نئے پروگرام علم یا علیم میں شمولیت اختیار کی ہے جس میں انہوں نے ٹیٹو کندہ کرنے کے بارے میں مذہبی وضاحت پیش کی. میزبان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے مفتی طارق مسعود نے کہا کہ اسلام میں سختی سے منع ہے کہ آپ اپنے جسم پر ٹیٹو کندہ کرائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیٹو اپنے جسم پر ٹیٹو کندہ کرنے والا ملعون ہے، یہ حرام اور ناقابل قبول ہے۔ مفتی طارق مسعود کا کہنا تھا کہ ٹیٹو بنوانے کے لیے آپ کو جلد یا جسم کاٹنا پڑتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹیٹو بنوانے کے لیے جسم گدوانے کی اصطلاح استعمال کی اور یہ بھی کہا کہ اسے زندگی بھر نہیں ہٹایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے اسے اپنی مرضی یا مرضی کے خلاف بنوایا ہے وہ اس کے ساتھ رہنے کے پابند ہوں گے اور وہ اسی حالت یعنی ٹیٹو کی موجودگی میں نماز پڑھ رہے ہوں گے۔ متعدد اسلامی اسکالرز نے بھی واضح کیا ہے کہ جسم پر ٹیٹو کے ساتھ وضو نہیں کیا ہوسکتا۔

عمران خان سے ملاقات

معروف دینی سکالراور سوشل میڈیا پر اپنے منفرد انداز سے شہرت حاصل کرنے والے مفتی طارق مسعود نے گذشتہ شب کراچی کے گورنر ہاؤس میں وزیراعظم عمران خان سے علماء و مشائخ کی ملاقات کا ایسا تفصیلی احوال بتا دیا کہ عمران خان کی مخالفت کرنے والےدینی حلقے بھی حیران و پریشان رہ جائیں ۔

تفصیلات کے مطابق یوٹیوب چینل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مفتی طارق مسعود کا کہنا تھا کہ میری وزیراعظم عمران خان سے پہلی ملاقات تھی اس سے پہلے میری اُن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی پہلے میں نے انہیں کبھی دور سے بھی نہیں دیکھا، گورنر ہاؤس جانے سے قبل ذہن میں تھا کہ بہت زیادہ سیکیورٹی اور وزیراعظم کا بہت زیادہ پروٹوکول ہو گا لیکن وہاں بہت سادگی دیکھنے میں آئی۔

گورنر ہاؤس میں بہت عام اور سادہ سا ماحول تھا ،دیگر علماء بھی وہاں موجود تھے،وزیراعظم کی فزیکل فٹنس سے میں بہت متاثر ہوا ،بعض لوگ ویڈیوز میں اچھے لگتے ہیں لیکن جب حقیقت میں دیکھا جائے تو اچھے نہیں لگتے ،بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ویڈیو میں اچھے نہیں لگتے لیکن حقیقت میں وہ زیادہ اچھے لگتے ہیں ،وزیراعظم کی فٹنس کا جو میرے دماغ میں تصور تھا 70 سال کی عمر میں اس سے زیادہ فٹنس مجھے نظر آئی۔ معروف عالم دین مفتی طارق مسعود کا کہنا ہے کہ جاپان میں مقیم پاکستانیوں میں فرقہ واریت سے پاک ماحول دیکھ کر خوشی ہوئی ہے، پاکستان میں بھی علمائے کرام کو فروعی اختلافات بھلا کر امت کو متحد کرنے پر کام کرنا چاہیے۔

جاپان کی ترقی سے پاکستان کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے

طارق مسعود اپنے دورہ جاپان کے دوران ان دنوں شہر ہانیو میں موجود ہیں۔ روزنامہ جنگ کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے مفتی طارق مسعود نے کہا کہ جاپان کے بارے میں جیسا سوچا تھا بالکل ویسا ہی پایا، یہاں کے عوام کم گو اور کام سے کام رکھنے والے امن پسند، ایماندار اور ایک دوسرے کا احترام کرنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جاپان کی ترقی سے پاکستان کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مفتی طارق مسعود کا کہنا ہے کہ جاپان کا یہ پہلا دورہ ہے، اس دوران مختلف مساجد میں خطابات کیے ہیں۔ یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ تمام مساجد میں مختلف فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد باجماعت نماز پڑھتے ہیں، یہاں اختلافات کم اور اتحاد زیادہ ہے۔

طارق مسعود نے جاپان کے ریلوے نظام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جاپان کا ریلوے نظام دنیا کا بہترین ریلوے نظام ہے۔ خاص طور پر یہاں کی بلٹ ٹرین کا سفر شاندار رہا۔ مفتی طارق مسعود نے کہا کہ وقت کی کمی کی وجہ سے وہ بہت زیادہ لوگوں سے ملاقات نہیں کرسکے لیکن ان شاء اللہ وہ عنقریب دوبارہ جاپان آئیں گے۔ دوران گفتگو انہوں نے اپنے میزبان ارشاد خان کی بھی تعریف کی جو انہیں جاپان کے مختلف شہروں کا دورہ کرارہے ہیں۔ واضح رہے کہ مفتی طارق مسعود عنقریب جاپان سے آسٹریلیا کے دورے پر روانہ ہونگے[3]۔

محبت نامہ

طارق مسعود نے اچھی بات کی ہے کہ اہل حدیث دیگر لوگوں سے بہتر ہیں۔ لیکن انہیں مزید خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی مفتی کو جزائے خیر عطا فرمائے اور توفیق بھی دے کہ جو چیزیں اہل حدیث میں درست ہیں، ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔ اختلاف صرف اہل حدیث کا ہی آپس میں نہیں ہے، ہر مسالک میں ایسے صاحبان علم ہوتے ہیں جو دلائل کی رو سے اپنے مکتب فکر میں رائج اقوال سے اختلاف کرتے ہیں، اس کی تازہ ترین مثال انڈیا کے حنفی حضرات کی ہے، جنہوں نے حنفی ہونے کے باوجود تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا ہے۔

اس سے پہلے جتنے بھی بڑے بڑے علمائے کرام گزرے ہیں، چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر اور مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، انہوں نے دلائل کی بنیاد پر رائج الوقت موقف سے اختلاف کیا ہے۔ مفتی نے فرمایا کہ آپ باقاعدہ اپنی فقہ کا اعلان کریں ورنہ امت تباہی کے راستے پر گامزن ہوجائے گی۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ اگر تو فقہ کا اعلان اس وجہ سے کرنا ہے کہ کوئی رائج موقف سے سر مو انحراف نہ کرے، تو یہ امر محمود نہیں ہے، یہ تعصب و جمود ہے، جسے خود اہل مذاہب اور ان کے سربراہ ائمہ کرام بھی پسند نہیں فرماتے تھے کہ واضح دلائل کے باوجود اپنے موقف سے صرف اس وجہ سے رجوع نہ کیا جائے کہ وہ مسلک کا نمائندہ موقف نہیں ہے۔

امام مالک کی کتاب بطور فقہ قانون

امام مالک کو کہا گیا کہ آپ کی کتاب کو بطور فقہی قانونی کے نافذ کردیا جاتا ہے، انہوں نے اس پر موافقت کا اظہار نہیں کیا تھا، کیونکہ بہرصورت کوئی بھی فقہ یا موقف یا کتاب یا عالم دین کو قرآن وسنت کی نصوص کا درجہ نہیں دیا جاسکتا کہ کوئی اس سے اختلاف نہ کرسکے۔ اور اگر باقاعدہ فقہ کی تدوین کا مطالبہ مفتی اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ علمائے کرام کا آپس میں اختلاف نہ رہے، تو یہ تو ان کے ہاں بھی ممکن نہیں۔

حالانکہ ان کے باقاعدہ مذاہب مرتب و مدون موجود ہیں، جیسا کہ تازہ مثال پیش کی گئی ہے کہ بعض حنفی علمائے کرام نے اہل حدیث کی طرح تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا ہے۔ مفتی ! ہماری یہی فقہ ہے کہ ہمارا قرآن وسنت کے علاوہ کوئی رائج دستور نہیں ہے کہ جس سے کوئی اختلاف نہ کرسکے۔ یہی ہمارا قانون ہے۔ جس طرح آپ کے پاس لوگ مسائل لے کر آتے ہیں اور آپ انہیں فقہی حنفی میں محصور ہو کر قرآن وسنت سے مسئلہ تلاش کرکے دیتے ہیں، اسی طرح جب ہمارے مفتیان کے پاس مسئلہ آتا ہے تو ہم اپنے منہج کے مطابق تمام مجتہدین و مذاہب کو سامنے رکھتے ہوئے براہ راست قرآن وسنت سے انہیں مسئلہ تلاش کرکے دیتے ہیں!! [4]۔

تبلیغی جماعت پر پابندی اور مذہبی طبقے کی پریشانیان

تبلیغی جماعت نے اگر وہاں بدامنی پیدا کی ہے تو ان افراد کیخلاف کارروائی کریں، پوری جماعت جو پوری دنیا میں امن پسندی کیوجہ سے معروف ہے، اس پر پابندی اور ان پر خلاف اسلام عقائد کا الزام لگانا درست نہیں ہے۔ اپنے مقابل نظریات کو برداشت کرنا، آزادی اظہار کا لحاظ رکھنا ہر ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو طارق مسعود کی اکثر ویڈیوز مناظرانہ رنگ میں رنگی ہوتی ہیں اور کچھ دن پہلے وہ مناظرہ کرنے جہلم بھی پہنچ گئے تھے۔

مگر ان کی زیادہ کلکس اور ناظرین لینے کی خواہش کو انجینئر محمد علی مرزا نے پورا نہیں ہونے دیا۔ ویسے بھی یہ امت میں مناظروں کا زمانہ نہیں ہے کہ اختلافات کو مزید ابھارا جائے اور جنگ و جدال کا ماحول پیدا کیا جائے۔ سعودی عرب نے تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کر دی اور اس جماعت کو گمراہ کن اور خلاف اسلام سرگرمیوں کا مرتکب بھی قرار دیا، جو حق کے راستے سے بھٹکی ہوئی جماعت ہے۔

سعودی عرب کا تبلیغی جماعت پر پابندی

بات اس تک محدود رہتی تو پھر بھی کوئی انتظامی توجیح کر لی جاتی، مگر ظلم یہ ہوا کہ مساجد کو کنٹرول کرنے والے محکمہ نے سرکاری طور پر یہ فیصلہ سنایا کہ گزرے جمعہ میں سعودی عرب کی تمام مساجد میں تبلیغی جماعت کی گمراہی کو سعودی عوام پر واضح کیا جائے گا۔ سعودی عرب کی تمام مساجد کے خطباء نے تبلیغی جماعت کے وہ وہ نقصانات بیان کیے اور توحید سے ہٹا اور جانے دیگر کیا کیا الزام دیا گیا کہ خدا کی پناہ۔ بات صرف عربی نوٹیفکیشن تک رہتی تو عوام کو سمجھ میں کم ہی آنا تھا، مگر ظلم تب ہوا جب یہ خطبات جمعہ اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجموں کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل گئے۔

اس وقت تبلیغی جماعت سے متعلق حلقوں میں کافی بے چینی محسوس کی گئی۔ اب تبلیغی جماعت کا نظام ردعمل کی اجازت نہیں دیتا، کوئی پابندی لگا دے تو یہ اسے بھی قبول کر لیتے ہیں اور اپنے لیے کوئی اور راستہ نکال لیتے ہیں، یہ الگ موضوع ہے۔ انڈیا سے سید سلمان ندوی کی بھرپور آواز اٹھی اور انہوں نے آل سعود کے حماقت پر مبنی اس اقدام کو چیلنج کیا، مگر اس پابندی اور تبلیغی جماعت کے خلاف خطبات جمعہ نے مذہبی طبقے کو بڑے امتحان میں ڈال دیا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ آل سعود کا اصل چہرہ سامنے لایا جاتا، مگر اسلام کی محبت کا نعرہ لگا کر آل سعود کے گن گانے والوں میں جرات اظہار اور حق کے بیان کی کمی محسوس کی گئی۔

ردعمل

ردعمل کی ساری ذمہ داری دینی سیاسی جماعتوں اور ان شخصیات پر آگئی، جن کی بات لوگ سنتے ہیں۔ یوں مالی مفادات، مفت عمروں، پروٹوکولز اور تبلیغی جماعت کی حمایت میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا وقت آگیا۔ کیا کیا جائے، یہ لوگ اتنے ماہر ہیں کہ ہر صورت میں اپنے لیے کوئی راہ شریعت کی روشنی میں نکال ہی لیتے ہیں۔ محترم مفتی طارق جمیل نے یہی کچھ کیا ہے کہ ان کی دلیل بڑی نرالی ہے۔

کہا اگر سعودی عرب کے خلاف کوئی بیان دیتے ہیں تو اس کا فائدہ لادینی قوتوں کو ہوگا۔ اس لیے ہم سعودی عرب کے خلاف کچھ نہیں کہیں گے۔ سبحان اللہ بڑی دور کی لائے ہیں۔ حرمین کا تقدس ایمان کا حصہ ہے، مگر وہاں کے حکمران بھی اسلام کے مقدسات میں داخل ہوگئے کہ ان کے کسی برے اقدام کو برا کہنے سے اسلام کو نقصان اور لادینوں کو فائدہ پہنچنے لگا، ایسی بات کرنا ہی بڑے دل گردے کی بات ہے۔

طارق مسعود کا رد عمل

طارق مسعود اور اس فکر کے دوستوں تک شائد وہ ویڈیوز نہیں پہنچیں، جہاں دنیا کی معروف ناچنے والیاں جدہ میں جمع ہیں۔ انڈیا کے معروف اداکاروں کو بلا کر ان کی شان میں محافل منعقد کی جا رہی ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک معروف مسجد کے خطیب کا پوسٹر جو بظاہر انہوں نے خود اپنے ٹویٹر پر شیئر کیا، اس میں فوجی وردی پہنے اداکاری کرتے نظر آرہے ہیں۔

ہمارے ہاں تو ابھی تک بات تصویر بنانے کی حلیت و حرمت پر ہو رہی تھی اور یہاں بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ ویسے یہی لوگ جو آج تبلیغی جماعت پر پابندی سے تھوڑا بہت تلملا رہے ہیں۔ یہ اس وقت خوشی محسوس کر رہے تھے، جب سید قطب اور مولانا مودودی کی مطبوعات پر سعودی عرب نے پابندی لگائی تھی۔

زمانہ اور ملک کی ضروریات کیسے تبدیل ہوتی ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک وقت تھا، جب سعودی عرب نے اپنے زعم میں امت کا نوبل پرائز سمجھا جانے والے کنگ فیصل ایوارڈ مولانا مودودی کو ان کی اسلام کے لیے اعلیٰ خدمات کے پیش نظر عطا کیا تھا۔ اب جب دیکھا کہ ان کا نظریہ ان کے جدید بے نظریہ سماج کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور مذہبی طبقہ اس سے استفادہ کرسکتا ہے تو اس پورے لٹریچر پر ہی پابندی لگا دی۔

تبلیغی جماعت اور اتحاد امت

ایک بات کو واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ موجودہ دور قومی ریاستوں کا دور ہے اور ہمیں کسی دوسرے ملک کے بارے میں بات کرنے اور اس پر لکھنے کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی، مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب حرمین کے دفاع کا تقاضا بھی ہم سے کیا جائے اور خادم الحرمین کی حیثیت سے ہم سے قربانیاں بھی مانگی جائیں اور اپنے اس تقدس کو امت مسلمہ کی بجائے خاندانی بادشاہت کے بچانے کے لیے استعمال بھی کیا جائے تو اس کے جواب میں پوری امت بھی یہ چاہے گی کہ آپ کو اسلام کی حدود کا خیال رکھنا چاہیئے۔ اصنام پرستی اور شعائر اسلام کی صریخ خلاف ورزیاں جن سے مسلمانوں کی دل آزاریوں ہوتی ہے، ان سے رکنا ہوگا۔

تبلیغی جماعت نے اگر وہاں بدامنی پیدا کی ہے تو ان افراد کے خلاف کارروائی کریں، پوری جماعت جو پوری دنیا میں امن پسندی کی وجہ سے معروف ہے، اس پر پابندی اور ان پر خلاف اسلام عقائد کا الزام لگانا درست نہیں ہے۔ اپنے مقابل نظریات کو برداشت کرنا، آزادی اظہار کا لحاظ رکھنا ہر ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ویسے طارق مسعود اور ان کے ہم فکر طبقے سے ایک سوال پوچھنا چاہوں گا۔

اگر یہی پابندی جمہوری اسلامی ایران نے لگائی ہوتی تو آپ اچھل اچھل کر ممبر توڑ دیتے اور آپ کی آوازیں سپیکروں کی صلاحیتوں کا امتحان ہوتیں۔ ہمیں مسلک پرستی سے نکل کر حق پرسی اور اسلام پرستی کی طرف آنا ہوگا، اسی میں اسلام اور اہل اسلام کا بھلا ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ اب خلاف اسلام کام فقط روضہ رسول کی جالیوں کو چومنا اور جنت البقیع میں مزارات کی زیارت ہی ہوگا۔ اب مطوے فقط دخترِ خاتم الانبیاء حضرت فاطمہؑ کی قبر مبارک کی زیارت کرنے والوں پر ہی کوڑے برسائیں گے [5]۔

حوالہ جات

  1. مولانا مفتی طارق مسعود کا عازمین حج کے گروپ سے خطاب-jang.com.pk- شائع شدہ از: 8 جولائی 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2024ء۔
  2. کیا اسلام میں ٹیٹو بنوانا جائز ہے؟ مفتی طارق مسعود نے بتادیا-dailypakistan.com.pk- شائع شدہ از: 9 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جون 2024ء۔
  3. جاپان کی ترقی سے پاکستان کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے:مفتی طارق مسعود- jang.com.pk-شائع شدہ از: 6 جنوری 2024ء- اخذ شدہ از: 25جون 2024ء۔
  4. مفتی طارق مسعود صاحب کا محبت نامہ-alulama.org- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25جون 2024ء۔
  5. تبلیغی جماعت پر پابندی اور مذہبی طبقے کی پریشانیاں- wifaqtimes.com- شائع شدہ از: 22دسامبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 جون 2024ء۔