شبلی نعمانی
| شبلی نعمانی | |
|---|---|
| دوسرے نام | علامہ شبلی نعمانی |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1857 ء، 1235 ش، 1273 ق |
| یوم پیدائش | 3 جون |
| پیدائش کی جگہ | اعظم گڑھ ہندوستان |
| یوم وفات | 18نومبر |
| وفات کی جگہ | اعظم گڑھ |
| اساتذہ | مولانا فاروق چڑیا کوٹی |
| مذہب | اسلام، سنی |
| اثرات |
|
| مناصب |
|
شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں4 /جون 1857ء کو ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم گھر ہی پر مولوی فاروق چریاکوٹی سے حاصل کی۔ 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت بھی کی مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب ترک کر دی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔
سوانح عمری
شبلی نعمانی کی پیدائش ایک مسلمان راجپوت گھرانے میں ہوئی۔ ان کے دادا شیوراج سنگھ جو بیس النسل تھے، نے کئی دہائیوں قبل حبیب اللہ اور مقیمہ خاتون کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ ان کا نام ایک صوفی بزرگ، ابو بکر شبلی کے نام پر "شبلی" رکھا گیا، جو جنید بغدادی کے شاگرد تھے۔ بعد میں انھوں نے اپنے نام میں "نعمانی" کا اضافہ کر لیا۔
تعلیم
اگر چہ ان کے چھوٹے بھائی تعلیم کے لیے لندن، انگلینڈ گئے (اور بعد میں واپس آئے، وہ ایک بیرسٹر کی حیثیت سے الہ آباد ہائی کورٹ میں ملازم تھے)، لیکن شبلی نعمانی نے روایتی اسلامی تعلیم حاصل کی۔ ان کے استاد کا نام مولانا فاروق چڑیا کوٹی تھا، جو ایک منطقی عالم اور سر سید احمد خان کے خلاف کھل کر کلام کرنے والے مخالفین میں شامل تھے۔ اس سے ان کا علی گڑھ اور سر سید کے ساتھ تعلق کی وجہ معلوم ہوتی ہے۔ چڑیا کوٹ سے تعلق خاص اہمیت رکھتا ہے، ڈیویڈ لیلی ویلڈ کہتا ہے کہ "چڑیا کوٹ علما کی ایک منفرد عقلیت پسند اور فلسفی مکاتب کا مرکز تھا، جس نے معتزلہ الہیات، شروعاتی عرب یونانی سائنس اور فلسفے کی ترقی کے ساتھ ساتھ سنسکرت اور عبرانی جیسی زبانوں کا علم حاصل کیا۔"
اس لیے نعمانی کے پاس علی گڑھ کی طرف متوجہ اور دور ہونے کی وجوہات تھیں۔ حتی کہ علی گڑھ میں فارسی اور عربی کے استاد کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی، انھوں نے کالج میں فکری ماحول کو ہمیشہ مایوس کن پایا اور آخر کار علی گڑھ چھوڑ دیا کیوں کہ انھیں یہ غیر سازگار معلوم ہوا، حالانکہ انھوں نے 1898ء میں سر سید کی وفات کے بعد تک رسمی طور پر کالج سے استعفا نہیں دیا تھا۔
تعلیمی خدمات
انیسویں صدی میں عثمانی خلافت اپنے وجود وبقا کی جنگ لڑ رہا تھا، مغربی طاقتیں مسلم سلطنتوں کا یکے بعد دیگرے خاتمہ کر رہی تھیں۔ ادھر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا، 1857ء کی بغاوت انگریزوں کے خلاف ہندوستانی مسلمانوں کی ایک آخری کوشش تھی مگر اس کا انجام بھی بہت پر بھیانک ہوا۔ مغلیہ سلطنت آخری تاجدار گرفتار ہوا، سیکڑوں علماء پھانسی پر لٹکا دیئے گئے اور مغلیہ سلطنت کا چراغ ہمیشہ ہمیش کے لئے گل ہوگیا۔ اس کے بعد ہندوستان میں بہت سی عظیم ہستیوں نے مسلمانوں کی عظمت رفتہ واپس لانے کے لیے جدوجہد شروع کی۔
چند علماء نے دارالعلوم دیوبند کے قیام کے ذریعہ اسلام کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا تو دوسری طرف سرسید احمد خان نے جدید تعلیم کے ذریعہ مسلمانوں کے کھوئے ہوئے عظمت کو واپس لانے کی جدوجہد شروع کی، مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جدید تعلیم یافتہ انگریزی داں طبقہ مغرب کی ہر چیز کو تقدس کی نگاہ سے دیکھنے لگا تو دوسری طرف علماء کرام کے طبقہ نے جدید علوم کو یکسر خارج کردیا۔ اکبر الہ آبادی کی زبان میں
| ادھر ضد ہے کہ لیمن بھی چھو نہیں سکتے | ادھر یہ دھن ہے کہ ساقی صراحئ میلا |
مشرقی وسطی میں
اس افراط وتفریط کے بیچ ہندوستان کے علمی میدان میں ایک ایسی شخصیت جلوہ گر ہوئی، جس نے ترکی، شام اور مصر کے دانش گاہوں کو قریب سے دیکھا تھا اور برطانوی اسکالروں کے ساتھ رہ کر اور جدید تعلیم کے مرکز میں تدریسی خدمات انجام دے کر نہ صرف یہ کہ علوم جدید کی اہمیت وافادیت سے واقف تھا بلکہ اس کا ایک پرزور حامی اورو کیل بھی تھا، مگر اس کی یہ شرط تھی کہ خذ ما صفا ودع ما کدر، اس نے ایک ایسا نظریہئ تعلیم پیش کیا جس کے اثرات آج بھی ہندوپاک کے مدارس پر دیکھے جا سکتے ہیں اور اس کے مرنے کے سو سال بعد بھی اس کے مخالفین اور موافقین دونوں نظریہئ تعلیم کی افادیت اور اہمیت کے متفق ہیں۔ اس عظیم شخصیت کا نام علامہ شبلی نعمانی ہے۔
مغربی افکار ونظریات سے ڈائریکٹ واقفیت
اس کالج میں آپ کی ملاقات پروفیسر تھوماس آرنلڈ اور دیگر برطانوی اسکالروں سے ہوئی، جہاں آپ کو مغربی افکار ونظریات سے ڈائریکٹ واقفیت کا موقع ملا۔ پروفیسر آرنلڈ کے ساتھ آپ نے 1892ء میں ترکی، شام اور مصر وغیرہ کا دورہ کیا اور وہاں تقریباً چھ ماہ قیام کیا۔ ترکی کے قیام کے دوران خلافت عثمانیہ نے آپ کی علمی عظمت ورفعت کے اعزاز میں آپ کو تمغہ مجیدیہ سے نوازا۔جب علامہ شبلی ترکی سے ہندوستان واپس آئے تو علی گڑھ میں آپ کے اعزاز میں مختلف جلسے منعقد ہوئے۔ چنانچہ آپ کی شہرت وعظمت کے چرچے برطانوی حکومت کے ایوان میں بھی ہونے لگے۔ لہٰذا برطانوی حکومت نے آپ کو شمس العلماء کے خطاب سے نوازا۔
علامہ شبلی نے محمدن اینگلو اورینٹل کالج میں تقریباً سولہ سال تدریسی خدمات انجام دی۔ سرسید احمد خان کا 1898ء میں جب انتقال ہوگیا تو آپ اعظم گڑھ واپس آگئے پھر 1901ء میں آپ حیدرآباد کوچ کر گئے اور حیدرآباد اسٹیٹ کے ایجو کیشن ڈپارٹمنٹ میں بطور مشیر کار کام کرنا شروع کر دیا اور وہاں کے تعلیمی نظام میں بہت سی اصلاحات کیں اور آپ کی کئی مشہور تصانیف انہیں ایام کی یادگار ہیں۔ 1905ء میں آپ حیدرآباد سے لکھنؤ چلے آئے، جہاں دنیا کی مشہور اسلامک یونیورسٹی دارالعلوم ندوۃ العلماء جو ابھی ابتدائی مرحلے میں تھا کے معتمد تعلیم کی ذمہ داری سنبھالی۔دارالعلوم ندوۃ العلماء کا قیام 1894ء میں ہوا۔
ندوۃ العلماء کی تحریک علامہ شبلی کے دل کی آواز تھی۔ روزِ اول سے و ہ نہ صرف یہ کہ اس کی ساری سرگرمیوں میں شریک تھے بلکہ وہ اس ادارہ کی تعمیر وترقی کو اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھتے تھے۔ جب ندوہ کے حالات خراب ہو گئے تو علامہ شبلی 1904ء میں اپنی ملازمت چھوڑ دی اور لکھنؤ چلے آئے، پھر 1905ء سے 1910ء تک تقریبا پانچ سال اس گلشنِ علم وادب کی آبیاری کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج یہ عظیم الشان یونیورسٹی جو کچھ بھی ہے اس میں علامہ شبلی کے پانچ سال کا بڑا رول ہے۔
مدارس کے نصابِ تعلیم کی اصلاح
علامہ شبلی کی زندگی کا سب سے عظیم کارنامہ مدارس کے نصابِ تعلیم کی اصلاح تھی۔ چنانچہ علامہ شبلی نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم کی حیثیت سے ندوہ میں جو تعلیمی اور نصابی اصلاحات کیں وہ خود علامہ کی زندگی اور ندوہ کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ اگر وہ نصابی اصلاحات باقی رہتیں اور ان پر عمل کیا جاتا تو ہمیں علامہ سید سلیمان ندوی، عبدالسلام ندوی، مسعود عالم ندوی اور ابو الحسن علی ندوی فارغینِ ندوہ کے ہر بیچ میں ملتے، مگر بدقسمتی سے قدامت پرست علماء کے گروپ میں علامہ شبلی کی اصلاحات کونہ صرف خارج کردیا بلکہ علامہ شبلی کو ندوہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔
آج سو سال گزرنے کے بعد امت مسلمہ اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ علامہ شبلی کا نظریہئ تعلیم یقینا ایک انقلاب آفریں نظریہئ تعلیم تھا اور آج ہند وپاک کے جن مدارس کے نصاب تعلیم میں جو کچھ بھی تبدیلیاں آئی ہیں، ان کا کہیں نہ کہیں سہرا علامہ شبلی کی مساعی اور فکر ونظر کو جاتا ہے۔
صرف پانچ سالوں میں علامہ شبلی نے اپنا نصاب ندوہ میں نافذ کرکے ایسے انقلاب آفریں نتائج پیدا کیے تھے کہ اس دور کی عظیم شخصیات کو بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا تھا۔ندوہ کے بعض قدامت پرست علماء اور اہل کاروں کو علامہ شبلی کی نصابی اصلاحات سے سخت اختلاف تھا۔ جب ہواؤں کے رخ بدل گئے، ندوہ کی زمین تنگ ہونے لگی تو اس صدی کی اس عظیم شخصیت نے ندوہ کو چھوڑنا مناسب سمجھا اور اپنے آبائی وطن اعظم گڑھ آکر مقیم ہوگئے اور پھر وہاں اپنے دیرینہ خواب دار المصنّفین کے قیام کی کوششیں شروع کر دیں، جس کو آپ کی وفات کے بعد آپ کے شاگرد رشید علامہ سید سلیمان ندوی نے پورا کیا۔ پھر اس کے ایک مختصر عرصے کے بعد علامہ شبلی نعمانی 18/ نومبر 1914ء کو اعظم گڑھ ہی اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔
مشہور تصانیف
جہاں تک علامہ شبلی کی تصنیفی خدمات کا تعلق ہے تو آپ کی مشہور تصانیف ہیں:
- الفاروق،
- سوانح مولانا روم،
- علم الکلام،
- المامون،
- موازنہ انیس ودبیر،
- شعرالعجم،
- الغزالی،
- سیرت النعمان وغیرہ وغیرہ۔
ان کے علاوہ سیرت النبی علامہ شبلی کی سب سے معرکۃ الاراء اور شاہکار تصنیف تسلیم کی جاتی ہے۔ علامہ شبلی نے سیرت النبی کی صرف دو جلدیں لکھی، اس کے بعد آپ کا انتقال ہوگیا۔ پھر تقریباً پچیس سالوں میں ان کے شاگرد رشید نے بقیہ چھ جلدیں مکمل کیں، جس کا ترجمہ دنیا کی کئی زبانوں میں ہوچکا ہے اور جو پوری دنیا میں بہترین کتب سیرت میں شمار کی جاتی ہے[1]۔
علامہ شبلی نہ صرف یہ کہ ایک عظیم قلم کار، محقق، مصنف، ادیب اور اسلامی اسکالر تھے بلکہ ایک بہترین شاعر بھی تھے۔ یوں تو آپ نے شاعری 19/ سال کی عمر سے ہی شروع کر دی تھی، مگر علی گڑھ کے زمانے سے آپ کی شاعری کی بھی دھوم مچنے لگی۔ عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں شاعری کی، مگر فارسی میں 38/ سال تک طبع آزمائی کی۔ اردو میں مثنوی ”صبح امید“ آپ کی بہت ہی مشہور نظم ہے۔ علامہ شبلی کا مشہور شعر ہے۔
| یہ مانا گرمئ محفل کے ساماں چاہیے تم کو | دکھائیں ہم تمھیں ہنگامہئ آہ وفغاں کب تک |
| یہ مانا قصہ غم سے تمہارا جب بہلتا ہے | سنائیں تم کو اپنے دردِ دل کی داستان کب تک |
بالآخر ان کے شاگردوں نے خاص طور سے سید سلیمان ندوی نے اپنے استاذ کا یہ خواب پورا کیا اور اعظم گڑھ میں دار المصنفین قائم کیا۔ ادارے کا پہلا افتتاحی اجلاس علامہ کی وفات کے تین دن کے اندر 21 نومبر 1914ء کو ہوا۔
علمی تعارف
اس کا شمار اردو تنقید کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت اردو دنیا میں بطورشاعر، مورخ، سوانح نگار اورسیرت نگار کی حیثیت سے بھی مسلم ہے۔ شبلی کے تنقیدی نظریات و افکار مختلف مقالات اور تصانیف میں بکھرے ہوئے ہیں لیکن یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کو شاعری اور شاعری کی تنقید سے خاص انسیت تھی۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ شاعری اور اس کے دیگر لوازمات سے متعلق اپنے نظریات کو مفصل طور سے "شعرالعجم" میں پیش کیا بلکہ عملی تنقید کے نمونے "موازنۂ انیس و دبیر" میں پیش کیے۔
"موازنے" میں مرثیہ نگاری کے فن پر اصولی بحث کے علاوہ فصاحت، بلاغت، تشبیہ و استعارے اور دیگر صنعتوں کی تعریف و توضیح اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بھی شبلی نے روشنی ڈالی ہے، جس سے ہمیں ان کے تنقیدی شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔ شبلی کے نظریۂ تنقید کو سمجھنے کے لیے ان کی مذکورہ دونوں کتابیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں یعنی "شعرالعجم" اور موازنۂ انیس و دبیر۔ انھوں نے "شعرالعجم" کی چوتھی اور پانچویں جلدمیں شاعری، شعر کی حقیقت اور ماہیت، لفظ و معنیٰ اور لفظوں کی نوعیتوں پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
اس لحاظ سے ان کی یہ تصنیف خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے، کیوں کہ انھیں میں انھوں نے اردو کی جملہ کلاسیکی اصناف شاعری کا محاکمہ کیا ہے۔ اردو کی شعری تنقید کو سمجھنے کے لیے ہم اردو والوں کے لیے یہ کتابیں نوادر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیوں کہ انھیں دونوں میں مندرجہ بالا تمام امور کی صراحت و وضاحت انھوں نے پیش کی ہے۔
وہ شاعری کو ذوقی اور وجدانی شے کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاعری کی جامع تعریف پیش کرنا آسان نہیں بلکہ مختلف ذریعوں سے اور مختلف انداز میں اس حقیقت کا ادراک ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: " شاعری چونکہ وجدانی اور ذوقی چیز ہے، اس لیے اس کی جامع و مانع تعریف چند الفاظ میں نہیں کی جا سکتی اِس بنا پر مختلف طریقوں سے اس کی حقیقت کا سمجھانا زیادہ مفید ہوگا کہ ان سب کے مجموعہ سے شاعری کا ایک صحیح نقشہ پیش نظر ہو جائے۔" [2]۔
علمی آثار
- سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
- الفاروق
- الغزالی
- سفر نامہ روم و مصر و شام
- سوانح مولانا روم
- علم الکلام
- المامون
- موازنہ دبیر و انیس
- شعر العجم
- مقالات شبلی
- سیرت النعمان
- شبلی کی آپ بیتی مرتبہ ڈاکٹر خالد ندیم (دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ، نشریات لاہور)
- اردو ترجمہ مکاتیب شبلی از ڈاکٹر خالد ندیم (دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ)
- شبلی شکنی کی روایت از ڈاکٹر خالد ندیم (نشریات لاہور)
شبلی کی سوانح نگاری، ان کی اہم تصانیف کی روشنی میں
اردو میں باقاعدہ سوانح نگاری کا آغاز خواجہ الطاف حسین حالیؔ سے ہوا، لیکن جس شخصیت نے اِس صنف کو عروج پر پہونچا دیا، وہ علامہ شبلی نعمانی ہیں، اُن کی نو سوانحی تصانیف کئی معنوں میں اپنے پیش رو سرسید، ڈپٹی نذیراحمد اور حالیؔ سے زیادہ مکمل اور نسبتاً بہتر ہیں، اِن سوانح عمریوں میں المامون، النعمان، الفاروق، الغزالی، سوانح مولانا روم اور سیرۃ النبیؐ کو شاہکار کا درجہ حاصل ہے۔ جن میں اپنے عہد کی عظیم المرتبت ہستیوں کے بارے میں اُردو زبان میں اِتنا معتبر اور مستند مواد جمع ہوگیا ہے کہ اُن کے حالاتِ زندگی، علمی کارنامے اور فکری بصیرت مربوط طریقہ سے سامنے آجاتے ہیں۔
لیکن شبلی کی سوانح عمریوں میں سوانح نگاری کے ساتھ تاریخی اجزاء بھی اِتنے مدغم ہوگئے ہیں کہ وہ تاریخ کے ضمن بھی زیربحث آتی رہیں گی، اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شبلی کے پیشِ نظر صرف سوانح نگاری نہیں ماضی پرستی بھی تھی، انہوں نے جدید طرز کے مطابق نئے مباحث پر محققانہ اور عالمانہ بحث کرکے اُنہیں مغربی تصانیف کی ہمسری کے قابل بنادیا، دلچسپی اور شگفتگی ایسی پیدا کی کہ وہ سب کے پڑھنے کے قابل بن گئیں۔ حالیؔ و شبلی سے پہلے اُردو میں سوانح نگاری فارسی و عربی کے اسلوب کے مطابق تھی۔
اُس میں جدید ذوق ورجحان کا مطلق خیال نہیں رکھا گیا ، اوّل اتنی خشک کہ کوئی پڑھنے کی ہمت نہ کرے یا دلچسپی کا اِتنا سامان کہ وہ تاریخ کے معیار سے گرجائیں، شبلیؔ نے اِن نقائص کو دور کیا، جدید طرز کے مطابق نئے مباحث پر محققانہ اور نظرڈال کر اُنہیں مغرب کی ہمسری کے قابل بنایا۔ کارلائل کا ایک مشہور فقرہ ہے کہ "تاریخِ عالم صرف عظیم انسانوں کی تاریخ کا نام ہے" شبلی کی سوانح نگاری بھی اِس فقرہ کا پرتو نظر آتی ہے، اُن کے دل میں مشاہیرِ اسلام پر لکھنے کا داعیہ کیوں پیدا ہوا اِس کا کچھ اندازہ ’’حیاتِ شبلی‘‘ میں علامہ سیّد سلیمان ندوی کی اِس تحریر سے ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
"مسلمانوں کی بیماری کا علاج ایک (سرسیّد) کے نزدیک یہ تھا کہ مسلمان مذہب کے سوا ہر چیز میں انگریز ہوجائیں اور دوسرے (مولانا شبلی) کے نزدیک یہ تھا کہ صحیح اسلامی عقائد کی حفاظت اور بقاء کے ساتھ ساتھ نئے زمانے کی صرف مفید باتوں کو قبول کیا جائے" [3]۔
شبلیؔ مغربی تہذیب اور اُس کے ادب سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے
شبلیؔ مغربی تہذیب اور اُس کے ادب سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے، سرسیّد کے رفقاء میں وہ تنہا تھے جو آخری عمر تک اسلامی تہذیب و ادب کے دفاع میں اپنے قلم سے جہاد کرتے رہے، انہوں نے یورپی اسکالروں کی اُس بہتان طرازی اور اختراپردازی کا پردہ چاک کیا، جو مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقہ کے ذہنوں پر شب خون مارنے کے لئے منصوبہ بند طریقے سے آزمائی جارہی تھی اور اُس کی وجہ سے نوجوان طبقہ اپنے مشاہیر کے عقائد اور تہذیب پر شرمندگی محسوس کرکے اُن کے مخالفوں کی ہمنوائی کرنے لگا تھا۔ شبلی خود کہتے ہیں:
"یورپ کے بے درد واقعہ نگاروں نے سلاطینِ اسلام کی غفلت شعاری ، عیش پرستی اور سیہ کاری کے واقعات کو اُس بلند آہنگی سے تمام عالم میں مشہور کیا کہ خود ہمیں یقین آچلا اور تقلیدپرست تو بالکل یورپ کے ہم آہنگ بن گئے"[4]۔ اِس احساسِ کمتری بلکہ ذہنی غلامی سے نکالنے کی واحد صورت یہ تھی کہ تاریخِ اسلام کے تابناک پہلوؤں سے مسلمانوں کا تعارف کرایا جاتا اور اُنہیں محرومی و پسپائی سے نجات دلاکر عظمتِ رفتہ کا احساس دلایا جاتا، تاریخِ اسلام کی نامور شخصیتوں پر قلم اُٹھانے سے شبلی کا ایک اور مقصد اُردو ادب کو علم و فن کے بیش بہا سرمایہ سے مالا مال کرنا تھا، اِس مقصد سے انہوں نے اہلِ قلم حضرات کو عربی و فارسی کے بجائے اُردو میں تصنیف و تالیف کی ترغیب دی اور خود بھی اِس زبان میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔
سوانح نگاری کے میدان میں قدم رکھنے کا مقصد
اِس تمہید سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سوانح نگاری کے میدان میں قدم رکھنے سے علامہ شبلی کے دو مقاصد تھے اوّل مشاہیرِ اسلام کے احوال سے مسلمانوں کو اپنی عظمتِ رفتہ کا اِحساس دلانا، دوم زبان وادب کے دامن کو وسیع کرنا، پہلا مقصد کافی دقت طلب اور اُس سے زیادہ نازک تھا، شبلیؔ چاہتے تھے کہ مشاہیرِ اسلام کے تعارف میں اُن کے کارناموں کو اِتنے شرح و بست کے ساتھ پیش کیا جائے کہ مخالفینِ اسلام مرعوب ہوکر اپنے اعتراضات پر خود شرمندہ ہوجائیں۔
اِس اہم مقصد نے شبلی کو سوانح نگاری سے تجاوز کرکے تاریخ نگاری کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور کیا اور وہ سوانح کے اصولوں سے واقف ہونے کے باوجود تاریخ نگاری کی وسعتوں میں داخل ہوگئے کیونکہ اِس کے بغیر اُن کا مقصد پورا نہیں ہوتا تھا۔
المامون طرز سوانح عمری نگاری
’’المامون‘‘ ۱۹۸۸ء میں شائع علامہ شبلیؔ کی پہلی مستقل تصنیف ہے۔ جو اُردو میں حالیؔ کی حیاتِ سعدی کے بعد جدید طرز کی دوسری سوانح عمری ہے۔ سرسیّد نے اِس کتاب پر جو مختصر دیباچہ لکھا ہے ، اُس میں کتاب کی جس خصوصیت پر رشنی ڈالیگئی ہے، اِس کا اطلاق صرف ’المامون‘ پر نہیں، شبلی کی تمام سوانحی کتب پر ہوتا، شبلیؔ کا ارادہ پہلے عباسی خاندان کی تاریخ رقم کرنے کا تھا، بعد میں انہوں نے فرمانروایانِ اسلام لکھنے کا منصوبہ بنایا، لیکن مصروفیت کی وجہ سے یہ بھی عملی جامہ نہیں پہن سکا لہٰذا شبلیؔ نے ’ہیروز آف اسلام‘ سلسلہ کی پہلی کڑی کے طور پر عباسی خلیفہ مامون الرشید پر قلم اُٹھایا۔
شبلیؔ خود بھی علم کے پیکر تھے، اُنہیں فلسفہ وکلام سے گہری رغبت تھی، مسلمانوں میں فلسفہ وکلام کی اصل اشاعت مامون کے دور میں ہوئی، اِس عہد میں آزادئ فکر کا جو ماحول تھا، بالخصوص مذہبی آزادی ، علم وفضل اور تہذیب و تمدن کی جو فضا چھائی ہوئی تھی، اُسے شبلی مغربی نقادوں کے الزامات کا جواب تصور کرتے تھے اِسی لئے انہوں نے خلقِ قرآن کے فتنہ کو بھی نظرانداز کرکے مامون کو اسلامی ہیرو کے طور پر پیش کیا، ’المامون ‘بظاہر ایک سوانح عمری ہے لیکن اِس میں بھی شبلیؔ کا سوانحی انداز ، تاریخی انداز سے بہت متاثر ہے، اِسی لئے ’المامون‘ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ نہ تو مکمل تاریخ ہے، نہ قطعاًسوانح ہے۔
شبلیؔ نے اِس میں فن سے زیادہ مقصد کو پیش نظر رکھا ہے، حالانکہ شبلی اِس رائے کے حامی تھے کہ سوانح نگار کو شخصیت کے مثبت و منفی دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالنا چاہئے ، اِس بناء پر اُنہوں نے ’حیاتِ جاوید‘ کو مدلّل مداحی سے تعبیر کیا ہے لیکن ’المامون‘ میں متعدد مقامات پر اُن کا رویہ اس کے برعکس نظر آتا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ شبلی مامون کی شخصی کمزوریوں سے زیادہ اُن کارناموں کو بیان کرنا چاہتے ہیں ، جو ہیروز کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ مامون پر قلم اُٹھانے شبلی کا مدعا، اسلامی تاریخ کے اُس عہد زرّیں کو پیش کرنا تھا، جو خوشحالی مادّی ترقی اور آزاد خیالی کے لحاظ سے دورِ حاضر کا ہمسر نظر آتا ہے، اپنے اِس مقصد میں وہ نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ اُس کے نتیجہ میں اردو ادب کو ایک شاہکار سوانحی تصنیف بھی میسر آگئی۔
سیرۃ النعمان
’’سیرۃ النعمان‘‘ ۱۸۸۹ء میں شائع ہوئی، جو علامہ شبلی کی تیسری تصنیف اور دوسری اہم سوانح ہے، شبلی کو امام اعظم ابوحنیفہ سے جو تعلق خاطر تھا، اُسی موانست کی بناء پر اُن کا لقب نعمان ہوا، یہ اُن کے والد کے نام کا بھی جزو تھا، سید صاحب کے خیال میں یہی تعلق اور جذبہ ’سیرۃ النعمان‘ لکھنے کا باعث بنا لیکن ایک بڑا محرک یہ بھی تھا کہ حالاتِ زمانہ کے لحاظ سے جو حقیقت پسندی، میانہ روی ، اسلامی نظامِ قانون کو برسرِکار لانے کے لئے شبلی ضروری سمجھتے تھے، اُس میں امام ابوحنیفہ کا طریقۂ کار معاون ثابت ہوتا تھا۔ اِسی لئے ’سیرۃ النعمان‘ کا کلامی اور اصلاحی پہلو کافی اہم ہے۔
’سیرۃ النعمان‘ کے دیباچہ کا ’المامون‘ کے دیباچہ سے تقابل کیا جائے تو اِس میں ایک لطیف لیکن اہم فرق یہ نظر آتا ہے کہ مامون پر لکھتے وقت شبلی کا ارادہ ’رائل آف ہیروز‘ یعنی نامور فرماں روایانِ اسلام کا ایک سلسلہ رقم کرنے کا تھا لیکن ’سیرۃ النعمان ‘ کے دیباچہ میں یہ ارادہ نامورانِ اسلام لکھنے میں تبدیل ہوگیا، وہ خود لکھتے ہیں :
’’ اُن کا شروع سے خیال تھا کہ سلطنت کے مختلف سلسلۂ نسب کے ساتھ ساتھ علوم وفنون کے جدا جدا خاندان قائم کئے جائیں اور اُن کے ناموروں کے حالات درج ہوں، اِسی مقصد سے اُنہوں نے فقہ کے بانی امام ابوحنیفہ کا انتخاب کیا۔ اِس سوانح کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شبلی کو مواد کی کمی نے کافی پریشان رکھا اور وہ ایسا مواد قلم بند کرنے پر مجبور ہوئے، جو نہ سوانح کے لحاظ سے مستحسن تھا، نہ تاریخ کے اعتبار سے معاون، پھر بھی شبلی نے زیادہ سے زیادہ مستند واقعات کا انتخاب کرکے تحقیق کا حق ادا کردیا ہے، سوانح کے اوّل حصے میں ذاتی حالات اور شخصیت کا بیان ہے۔
دوسرے حصّے میں امام کے طرزِ اجتہاد اور اصول استنباط پر بحث کی گئی ہے، جو بقول شبلی اُن کی محنتوں کی ’’تماشگاہ‘‘ ہے، یہی کتاب کی جان اور مصنف کی علمیت ، غوروفکر، سلیقۂ استدلال اور مشکل مسائل کو حل کرنے کی قابلیت کا شاہکار ہے۔ سوانح میں امام ابوحنیفہ کی بشری کمزوریوں اور مناظرات میں اِدعا نیز جوش مقابلہ کے اثرات کا ذکر کرکے اُنہیں امام کی تواضع اور بے نفسی کے خلاف قرار دیا ہے، ’النعمان‘ کی یہی خوبیاں اور خصوصیات ہیں جس کی بنا پر وہ خوش اعتقادی کم اور حقیقت بیانی زیادہ نظر آتی ہے اور شبلی کے شعورِ فن کا اعلیٰ مظاہرہ قرار پاتی ہے۔
الفاروق
’’الفاروق‘‘ علامہ شبلی نے ۱۸۹۹ء میں لکھی، اِس کا آغاز ایک مقدمہ سے ہوتا ہے ، جس میں اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار ، اُن کی خصوصیات اور مؤرخین کے فرائض سے بحث کی گئی ہے، یورپین مورخوں کی بے اعتدالی اور اسلام کے بارے میں اُن کے گمراہ کن نظریات کا ذکر بھی ہے۔ حالانکہ حضرت عمر فاروقؓ کی سوانح پر عربی، فارسی اور اردو میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔
لیکن شبلی کی ’الفاروق‘ بے مثال ہے۔ اِس سوانح کو مرتب کرنے میں شبلی نے نہ صرف ہندوستان کے جملہ ذخیرۂ معلومات کا استعمال کیا بلکہ روم، شام اور مصر کے کتب خانوں کو بھی چھان مارا ہے، جس کا نتیجہ اِس حد تک کامیابی کی صورت میں نکلا کہ یہ اردو زبان کے لئے سرمایہ افتخار بن گئی۔ خود شبلی کو اِس کتاب پر بڑا ناز تھا، وہ ’الفاروق‘ کے سوا دوسری سوانح نہ لکھتے تب بھی بے مثلہ مورخ و محقق قرار پاتے۔ علامہ شبلی میدانِ تحقیق کے بڑے شہسوار ہیں، ڈاکٹر سید عبداللہ کے بقول ’الفاروق‘ میں اُنہوں نے اصولِ صداقت کو برتنے میں کمالِ احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔
انہوں نے جتنی احتیاط اِس کتاب میں برتی شاید کسی اور کتاب میں ملحوظ رکھی ہو، اِسی لئے مہدی افادی بھی ’الفاروق‘ کو عمروں کی کمائی قرار دیتے ہوئے کتاب کے اِس خاص وصف کو سراہتے ہیں۔ شبلی کی دوسری سوانح حیات کی طرح ’الفاروق‘ بھی دو حصّوں میں تقسیم ہے۔ اِس کے حوالے اُن کتب سے لئے گئے ہیں جو قابلِ اعتبار اور تحقیق کے نقطۂ نظر سے معیاری ہیں، حصّہ اوّل میں حضرت عمر فاروقؓ کے حسب ونسب ، ولادت، سنِ رُشد، قبول اسلام اور ہجرت خلافتِ اسلامیہ کے لئے اُن کے انتخاب اور اُن کے عہد کی فتوحات کا بیان ہے
جبکہ دوسرے حصّے میں عہدِ فاروقی کی فتوحات کا جائزہ لیتے ہوئے اسبابِ فتوحات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اِس کے علاوہ حکومت کی نوعیت، ملک کی تقسیم،عہدیدارانِ سلطنت کے فرائض، رشوت سے متعلق دلچسپ معلومات، صیغۂ محاصل اور محکمۂ عدالت کی کاروائیاں، پولس اور فوجداری محکمہ کی کارکردگی نیز محکمہ مالیات اور دفاع سے متعلق تفصیلات مذکر ہیں۔ ’الفاروق‘ کو تاریخ وادب کا اتحاد بھی کہا جاسکتا ہے۔
الفاروق تاریخ وادب کا اتحاد
اِس میں رزم ہو یا بزم، فتح ہو یا شکست، خانہ جنگی کا تذکرہ ہو یا آراضی کا بندوبست، خراج کی وصوسلی کا نظام ہو یا زمین کی پیمائش کا انتظام، مالِ غنیمت کی تقسیم ہو یا ذمیوں کے حقوق اور مسلمانوں کے باہمی معاملات تمام تفصیلات کی مرقع آرائی علامہ شبلی کے سحرکار قلم نے اِس طرح کی ہے کہ اُس دور کا پورا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے اور خوبی یہ ہے کہ تاریخ کے اصولوں سے انحراف بھی نہیں ہوتا ، وہ ایسی زبان وبیان اختیار کرتے ہیں، جس میں شستگی وشائستگی، برجستگی ورعنائی، بے ساختگی و ہمواری اور ایجازواختصار نقطۂ عروج پر نظر آتا ہے ، ایک اقتباس ملاحظہ ہو ، حضرت عمر فاروقؓ کی جامعیت پر روشنی ڈالتے ہیں:
’’قانون فطرت کے نکتہ شناس جانتے ہیں کہ فضائل انسانی کی مختلف انواع ہیں اور ہر فضیلت کا جدا راستہ ہے ۔ ممکن بلکہ کثیرالوقوع ہے کہ ایک شخص ایک فضیلت کے لحاظ سے تمام دنیا میں اپنا جواب نہیں رکھتا لیکن اور فضائل سے اِس کو بہت کم حصّہ ملا تھا۔ سکندر سب سے بڑا فاتح تھا لیکن حکیم نہ تھا، ارسطو حکیم تھا لیکن کشورستاں نہ تھا بڑے بڑے کمالات ایک طرف چھوٹی چھوٹی فضیلتیں بھی ایک شخص میں مشکل سے جمع ہوتی ہیں۔ بہت سے نامور گزرے ہیں جو بہادر ہیں لیکن پاکیزہ اخلاق نہ تھے ، بہت سے پاکیزہ اخلاق تھے لیکن صاحبِ تدبیر نہ تھے۔
بہت سے دونوں کے جامع تھے لیکن علم و فضل سے بے بہرہ تھے۔ آپ حضرت عمرؓ کے حالات اور اُن کی مختلف حیثیتوں پر نظر ڈالئے صاف نظر آئے گا کہ وہ سکندر بھی تھے اور ارسطو بھی ، مسیح بھی تھے اور سلیمان بھی، تیمور بھی تھے اور نوشیرواں بھی ، امام ابوحنیفہ بھی تھے اور ابراہیم ادہم بھی‘‘۔ اب ذرا اِس اقتباس پر نظر ڈالئے جس میں حضرت عمرؓ کی سادگی اور جلالت شان کا ذکر ہے۔
شبلی نعمانی کے اسلوب نگارش
شبلی نعمانی کے اسلوب نگارش کا یہی طرہ امتیاز ہے کہ انھوں نے خشک اور بے کیف موضوعات میں بھی انشاء پردازی سے ایسی شان پیدا کردی کہ اُن کی تحریریں دلآویز اور دلنشیں ، مؤثر اور اثرانگیز ہوگئیں۔ ’الفاروق‘ کوئی ادیب لکھتا تو صرف انشاء کی رنگینی و رعنائی ہوتی، کوئی شاعر لکھتا تو شاہنامہ ہوجاتی۔ کوئی مورخ لکھتا تو محض واقعات کا مجموعہ ہوتی اور کوئی فلسفی لکھتا تو فلسفہ کے بے کیف مباحث ہوتے لیکن اس کا مصنف جامع العلوم تھا۔ وہ ادیب بھی تھا، شاعر بھی تھا، ناقد بھی، متکلم بھی تھا، فلسفی بھی اور ماہرِ تعلیم بھی تھا، مصنف کی اسی جامعیت اور گوناگوں خصوصیات سے ’الفاروق‘ تاریخ وادب کا شاہکار بن گئی ہے۔
علامہ شبلی کے دل میں حمیت اسلامی کا جو دریا موجزن تھا، اُس سے مغلوب ہوکر انہوں نے ’المامون‘ ، ’الفاروق‘ ، ’سیرۃ النبی‘ جیسی بلند پایہ کتب رقم کیں، اِس سلسلہ کی اہم کڑی عمر بن عبدالعزیزؒ کی ذات گرامی اورسلطان صلاح الدینؒ کی فتوحات بھی ہیں، شاید بہت سے لوگوں کو یہ حسرت رہی ہو کہ شبلی کا سحرانگیز قلم اُن کے کارنامے بھی بیان کرتا۔
وفات
علامہ شبلیؔ کی سوانح نگاری کا یہ تذکرہ اُن کی دیگر سوانحی تصانیف کے بغیر نامکمل ہے بالخصوص ’’سیرۃ النبیؐ‘‘ جو قامت و قیمت دونوں میں بے مثال ہے اور علامہ اُسے حاصلِ زندگی قرار دیتے تھے، اِس پر بھی گفتگو ہونا چاہئے تھی لیکن اِس ’بحرِ8 بیکراں ‘کو ایک مختصر تحریر میں سمونا ناممکن نہیں تو محال ضرور ہے[5]۔
حوالہ جات
- ↑ نقی احمد ندوی، علامہ شبلی نعمانی- حیات وخدمات- شائع شدہ از: 18 اگست 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 اکتوبر 2025ء
- ↑ شعر العجم، جلد چہارم، ص1
- ↑ حیاتِ شبلی، ص120
- ↑ مقالاتِ شبلی، ص39
- ↑ عارف عزیز(بھوپال)، شبلی کی سوانح نگاری، ان کی اہم تصانیف کی روشنی میں-شائع شدہ از: 18 اگست 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 اکتوبر 2025ء