حج

حج مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں، اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اور ان انجام دی جانے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں۔ دین اسلام میں حج ہر صاحب استطاعت بالغ مسلمان پر زندگی بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے۔
حج کے لغوی اور اصطلاحی معنی
"الحج القصد إلى الشيء المعظم وفي الشرع قصد لبيت الله تعالى بصفة مخصوصة في وقت مخصوص بشرائط مخصوصة." [1]۔ حج کے لغوی معنی عظیم چیز کا ارادہ کرنے کے ہیں، اور شریعت کی اصطلاح میں "خاص طریقے سے خاص وقت میں خاص شرائط کے ساتھ بیت اللہ کا ارادہ کرنے کو" حج کہتے ہیں۔
حج کی فرضیت
حج کی فرضیت میں اختلاف ہے، بعض نے سنہ 6 ہجری اور بعض نے سنہ 7 ہجری کا اور بعض نے سنہ 8 ہجری کا قول نقل کیا ہے، لیکن جمہور علماـءِ کرام نے سنہ 6 ہجری کا قول اختیار کیا ہے ۔اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے سنہ 9 ہجری کے قول کو صحیح قرار دیا ہے[2]۔
حج قرآن میں
﴿وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ﴾ [3]۔ حج اسلام کے 5 ارکان میں سب سے آخری رکن ہے، جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے: «اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زكوة دينا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔ " مناسک حج کی ابتدا ہر سال 8 ذوالحجہ سے ہوتی ہے۔
حاجی متعین میقات حج سے احرام باندھ کر کعبہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوتے ہیں،وہاں پہنچ کر طواف قدوم کرتے ہیں، پھر منی روانہ ہوتے ہیں اور وہاں یوم الترویہ گزار کر عرفات آتے ہیں اور یہاں ایک دن کا وقوف ہوتا ہے، اسی دن کو یوم عرفہ، یوم سعی، عید قربانی، یوم حلق و قصر وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد حجاج رمی جمار (کنکریاں پھینکنے) کے لیے جمرہ عقبہ جاتے ہیں، بعد ازاں مکہ واپس آکر طواف افاضہ کرتے ہیں اور پھر واپس منی جاکر ایام تشریق گذارتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج دوبارہ مکہ واپس آکر طواف وداع کرتے ہیں اور یوں حج کے جملہ مناسک مکمل ہوتے ہیں۔
اسلام سے پہلے
حج کی عبادت اسلام سے قبل بھی موجود تھی۔ مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ حج گذشتہ امتوں پر بھی فرض تھا، جیسے ملت حنیفیہ (حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پیروکاروں) کے متعلق قرآن میں ذکر ہے: ﴿وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ﴾ [4]۔ حضرت ابراہیم اور ان کے بعد بھی لوگ حج کیا کرتے تھے، البتہ جب جزیرہ نما عرب میں عمرو بن لحی کے ذریعہ بت پرستی کا آغاز ہوا تو لوگوں نے مناسک حج میں حذف و اضافہ کر لیا تھا۔
ہجرت کے نویں سال حج فرض ہوا، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سنہ 10ھ میں واحد حج کیا جسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ اس حج میں حج کے تمام مناسک کو درست طور پر کر کے دکھایا اور اعلان کیا کہ: « خذوا عني مناسككم» ترجمہ: اپنے مناسک حج مجھ سے لے لو [5]۔ نیز اسی حج کے دوران میں اپنا مشہور خطبہ حجۃ الوداع بھی دیا اور اس میں دین اسلام کی جملہ اساسیات و قواعد اور اس کی تکمیل کا اعلان کیا۔
حج کا وجوب
زندگی میں ایک بار صاحب استطاعت پر حج فرض ہے اور اس کے بعد جتنے بھی حج کیے جائیں گے ان کا شمار نفل حج میں ہوگا؛ ابو ہریرہ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے: "لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، چناں چہ حج ادا کرو"، صحابہ نے سوال کیا: "یا رسول اللہ! کیا ہر مسلمان پر ہر سال حج فرض ہے؟" تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاموش ہو گئے، دوبارہ سہ بارہ یہی سوال کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: "اگر میں ہاں کہہ دیتا تو واقعی فرض ہوجاتا اور ایسا تم لوگ نہیں کرپاتے»، پھر کہا «جتنا میں کہوں اتنا سنو، اس سے آگے نہ پوچھو"
حج کے شرائط
فرضیت حج کی پانچ شرائط ہیں:
- پہلی شرط مسلمان ہونا، غیر مسلموں پر حج فرض نہیں اور نہ ان کے لیے مناسک حج ادا کرنا جائز ہے۔
- دوسری شرط عقل ہے، پاگل مجنون پر حج فرض نہیں
- تیسری شرط بلوغ ہے، نابالغ بچے پر حج فرض نہیں۔
- چوتھی شرط آزادی ہے، غلام و باندی پر حج فرض نہیں
- پانچویں شرط استطاعت ہے، استطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ حج محض ان افراد پر فرض ہے جو اس کی جسمانی و مالی استطاعت رکھتے ہوں (عورت ہے تو شرعی محرم بھی لازم ہے)
طواف اورسعی کا مقام
مسلمانوں کا ایمان ہے کہ حج میں بے شمار روحانی فوائد اور برکتیں رکھی گئی ہیں۔ مختلف مسلم مکاتب فکر جیسے سنی اور شیعہ ایک ہی طریقہ پر مناسک حج ادا کرتے ہیں، تاہم اہل تشیع ائمہ معصومین (شیعی عقیدہ کے مطابق)، اہل بیت اور بعض صحابہ کرام کی قبروں کی زیارت کو بھی مستحب سمجھتے ہیں۔
حج کی تاریخ
آغاز حج کی تاریخ بعثت محمدی سے ہزاروں سال قبل ابراہیم علیہ السلام کے دور میں ملتی ہے۔ اسلامی روایات کے مطابق، جب ابراہیم علیہ السلام صحراء شام میں آئے تو ان کے ہاں باندی ہاجرہ سے ایک لڑکا اسماعیل ہوا، یہ دیکھ کر ان کی بیوی سارہ انتہائی غمژدہ ہوگئیں، کیونکہ ان کے یہاں کوئی اولاد نرینہ موجود نہیں تھی اور سارہ حضرت ابراہیم کو ان کی باندی کے حوالہ سے تنگ کرنے لگیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ معاملہ بارگاہ الہی میں پیش کیا، وہاں سے حکم ہوا کہ ہاجرہ اور اسماعیل کو دوسرے مقام پر منتقل کر دیں، حضرت ابراہیم نے دریافت کیا:" انھیں کس جگہ لے کر جاؤں؟" ارشاد ہوا: "مکہ! میرا حرم، جسے میں نے زمین میں سب سے پہلے تخلیق کیا تھا"۔ بعد ازاں حضرت جبریل علیہ السلام براق لے کر حاضر ہوئے اور اس پر تینوں (ابراہیم، ہاجرہ و اسماعیل) کو سوار کر کے روانہ ہو گئے۔
حضرت ابراہیم جس سرسبز و شاداب خطہ سے گذرتے تو کہتے، جبریل! یہی جگہ ہے، لیکن جبریل کہتے، نہیں! ابھی اور آگے چلیں۔ مقام کعبہ پر پہنچ کر ہاجرہ اور اسماعیل کو اتار دیا وہاں اترنے کے بعد ان لوگوں کو ایک درخت نظر آیا، جس پر ہاجرہ علیہا السلام نے ایک چادر ڈال کر سائبان سا بنا لیا۔ چونکہ حضرت ابراہیم نے اپنی زوجہ سارہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ محض ان لوگوں کو چھوڑ کر واپس آجائیں گے۔
لہذا انھوں نے واپسی کا ارادہ کیا تو ہاجرہ نے کہا: آپ ہمیں ایسی جگہ چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں جہاں کوئی مونس ہے، نہ پانی اور کھیتی؟" ابراہیم علیہ السلام نے کہا: "یہ میرے رب کا حکم ہے" اور روانہ ہوتے ہوئے جب ذی طوی کے ایک پہاڑ پر پہنچے تو ان کی طرف منہ کر کے دعا کی: ﴿رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ﴾ [6]۔ ابراہیم واپس چلے گئے اور ہاجرہ و اسماعیل علیہما السلام اس بے آب و گیاہ زمین میں ٹھہر گئے۔
جب دوپہر ہوئی تو اسماعیل علیہ السلام کو پیاس لگی، چناں چہ حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں نکلیں۔ اور مقام سعی پر پہنچ کر آواز لگائی: "اس وادی میں کوئی مونس ہے؟" اسی وقت اسماعیل ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تو وہ فوراً صفا پہاڑی پر چڑھ گئیں، تو انھیں وادی کے اندر پانی کا سراب نظر آیا، چناں چہ وہ دوڑتی ہوئی وادی میں اتریں اور مروہ تک پہنچ گئیں لیکن پانی نہیں ملا اور اسماعیل بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
حج کی قسمیں
حج کی تین قسمیں ہیں۔ تمتع، افراد اور قران۔ حج تمتع ان افراد کا فریضہ ہے جن کے وطن اور مکہ کے درمیان سولہ فرسخ سے زیادہ فاصلہ ہو جبکہ افراد و قران مکہ کے رہنے والوں اور ان لوگوں کا فریضہ ہے جن کے وطن اور مکہ میں سولہ فرسخ سے کم فاصلہ ہو۔
جن کا فریضہ حج تمتع ہو ان کے لیے حج افراد و قران اور اسی طرح جن کا فریضہ قران و افراد ہو ان کے لیے حج تمتع کافی نہیں ہے لیکن کبھی کھبی حج تمتع والے کا فریضہ تبدیل ہو کر حج افراد ہو جاتا ہے جس کا ذکر آگے آئیگا اور یہ حکم حج الاسلام کا ہے جب کہ مستحب حج نذر کردہ اور وصیت کردہ وہ حج جن کی قسم معین نہ کی ہو تو دور والوں اور قریب والوں کو تینوں اقسام حج میں اختیار ہے اگر چہ حج تمتع افضل ہے۔
دور کا رہنے والا اگر مکہ میں رہائش اختیار کر لے تو جب وہ تیسرے سال میں داخل ہوگا فریضہ تمتع سے تبدیل ہو کر افراد یا قران ہو جائے گا۔ لیکن تیسرے سال میں داخل ہونے سے پہلے اس پر حج تمتع واجب ہوگا اور اس حکم میں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ مکہ میں رہائش سے پہلے مستطیع ہوا ہے اور حج اس پر واجب ہوا ہے یا رہائش کے دوران مستطیع ہوا ہے اور حج اس پر واجب ہوا ہے اسی طرح اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ مکہ کو وطن قرار دے کر یا قرار نہ دے کر رہائش اختیار کرے اور یہی حکم ان افراد کیلیے بھی ہے جو مکہ کے اطراف سولہ فرسخ میں رہائش اختیار کریں ۔
1۔ حج تمتع
یہ حج دو عبادتوں حج اور عمرہ سے مل کر بنتا ہے۔ کبھی کبھی صرف حج کو حج تمتع کہتے ہیں حج تمتع میں عمرہ تمتع کو پہلے انجام دینا واجب ہے ۔ عمرہ تمتع میں پانچ چیزیں واجب ہیں۔
- کسی ایک میقات سے احرام باندھنا جس کی تفصیل آگے آئیگی ۔
- خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنا۔
- نماز طواف
- صفا مروہ کے درمیان سعی کرنا ۔
- تقصیر۔ یعنی سر، داڑھی یا مونچھوں کے کچھ بال کٹوانا۔
جب حاجی تقصیر انجام دیدے تو احرام سے فارغ ہو جاتا ہے لہذا احرام کی وہ چیزیں جو اس پر حرام ہوئی تھیں وہ اس پر حلال ہو جائیں گی ۔ مکلف پر واجب ہے کہ نویں ذی الحجہ کے نزدیک ہونے پر خود کو اعمال حج کے لیے تیار کرے ۔
واجبات حج
واجبات حج تیرہ ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
- مکہ سے احرام باندھنا
- وقوف عرفات یعنی نویں ذی الحجہ کے دن زوال آفتاب کے بعد غسل اور ظہر و عصر کی اکٹھی نماز ادا کرنے کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک عرفات کے مقام پر قیام کرے۔ عرفات مکہ سے چار فرسخ کے فاصلے پر ہے ۔
- وقوف مزدلفہ یعنی شب عید قربان کے کچھ حصے سے طلوع آفتاب سے کچھ پہلے تک مزدلفہ (مشعر ) میں قیام کرنا۔ مزدلفہ عرفات و مکہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔
- رمی جمرہ عقبہ (کنکر مارنا) عید قربان کے دن منی کے مقام پر رمی کرنا، منی مکہ سے تقریبا ایک فرسخ کے فاصلے پر ہے ۔
- عید کے دن یا ایام تشریق (۱۱،۱۲،۱۳ذی الحجہ) میں منی کے مقام قربانی کرنا ۔
- سر منڈوانا یا سر، داڑھی یا مونچھوں کے کچھ بال کاٹنا (حلق یا تقصیر) اور اس کے بعد احرام کی وجہ سے حرام ہونے والی چیزیں حلال ہو جائیں گی سوائے احیتاط واجب کی بنا پر عورت، خوشبو اور شکار کے ۔
- مکہ واپس آنے کے بعد خانہ خدا کی زیارت کا طواف کرنا ۔
- نماز طواف ادا کرنا۔
- صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا۔ اس عمل کے بعد خوشبو بھی حلال ہو جائے گی ۔
- طواف النساء ۔
- نماز طواف النساء۔ اس عمل کے بعد عورت (بیوی) بھی حلال ہوجائیگی ۔
- گیارہ اور بارہ کی رات منی میں گزارنا بلکہ بعض صورتوں میں تیرھویں کی شب بھی منی میں گزارنا جس کا ذکر آگے آئے گا۔
- رمی جمرات گیارہ اور بارہ کو دن کے وقت تینوں جمرات (اولی، وسطی اور عقبہ) کو کنکریاں مارنا بلکہ اظہر یہ ہے کہ جو شخص تیرھویں رات منی میں گزارے وہ تیرھویں کے دن بھی رمی کرے۔
حج تمتع میں ذیل میں درج چیزیں شرط ہیں
- نیت۔ یعنی حج تمتع کو ادا کرنے کی نیت کرے لہذا اگر کسی دوسرے حج کی نیت کرے یا نیت میں تردد کرے تو یہ حج صحیح نہیں ہوگا۔
- عمرہ اور حج دونوں کو حج کے مہینوں (شوال، ذی القعدہ، ذی الحجہ) میں انجام دے لہذا اگر عمرہ کا ایک حصہ شوال سے پہلے انجام دے تو عمرہ صحیح نہیں ہوگا۔
- عمرہ اور حج ایک ہی سال میں انجام دینا ضروری ہے لہذا اگر ایک سال عمرہ تنتع اور دوسرے سال حج تمتع انجام دے تو حج تمتع صحیح نہ ہوگا اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اگلے سال تک مکہ میں قیام کرے یا عمرہ کے بعد وطن واپس لوٹ جائے اور دوبارہ آئے اور اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ عمرہ کے بعد، تقصیر کے بعد احرام کھول دے یا آئندہ سال تک حالت احرام میں باقی رہے۔
- حالت اختیار میں حج کا احرام شہر مکہ سے باندھے اور بہترین مقام مسجدالحرام ہے لیکن اگر کسی وجہ سے مکہ سے حرام نہ باندھ سکے تو جہاں سے ممکن ہو وہاں سے باندھ لے۔
- ایک شخص کی طرف سے عمرہ تمتع اور حج تمتع کے تمام اعمال ایک ہی شخص انجام دے سکتا ہے۔ لہذا اگر دو افراد کو اس طرح سے نائب بنایا جائے کہ ایک کو عمرہ تمتع کے لیے اور دوسرے کو حج کے لیے تو یہ صحیح نہیں ہوگا۔ چاہے منوب عنہ زندہ ہو یا مردہ اسی طرح اگر ایک ہی شخص عمرہ و حج دونوں کرے لیکن عمرہ ایک کی جانب سے اور حج دوسرے کی جانب سے تو یہ بھی صحیح نہیں ہوگا۔
حج افراد
حج تمتع کے دو جز ہیں ایک عمرہ تمتع اور دوسرا حج۔ اس کا پہلا جز دوسرے جز سے ملا ہوا ہے اور عمرہ، حج پر مقدم کیا جاتا ہے۔ جبکہ حج افراد خود ایک مستقل عمل ہے اور جیسا کہ بتایا جا چکا ہے یہ مکہ اور اس کے اطراف سولہ فرسخ میں رہنے والوں کا فریضہ ہے اور مکلف کو اخیتار ہے کہ حج افراد انجام دے یا قران۔ جب مکلف حج افراد کے ساتھ عمرہ مفردہ بھی انجام دے سکتا ہو تو مستقل طور پر عمرہ مفردہ بھی واجب ہو جائے گا۔
لہذا اگر کوئی حج افراد و عمرہ میں سے کوئی ایک عمل انجام دے سکتا ہو تو صرف وہ عمل واجب ہوگا جو خود انجام دے اور اگر ایک وقت میں ایک عمل کو انجام دے سکتا ہو اور دوسرے وقت میں دوسرے عمل کو تو اس پر واجب ہے کہ ان اوقات میں اپنے فریضہ کو انجام دے۔ اگر ایک ہی وقت میں دونوں کو انجام دینا ممکن ہو تو دونوں کو انجام دینا واجب ہے۔ اس صورت میں فقہاء کے درمیان مشہور ہے کہ حج افراد کو عمرہ مفردہ سے پہلے انجام دے اور یہی احوط ہے ۔
حج قران
حج قران حج افراد کے ساتھ تمام پہلو میں مشترک ہے۔ سوائے اس کے کہ حج قران میں احرام باندھتے وقت حاجی کو قربانی ساتھ رکھنا ہوتی ہے اور اسی لیے اس پر قربانی واجب ہے۔ حج قران میں احرام تلبیہ کہنے کے علاوہ اشعار (حیوان پر علامت لگانا) اور تقلید (حیوان کی گردن میں کسی چیز کا لٹکانا) سے بھی منعقد ہو سکتا ہے اور جب کوئی حج قران کا احرام باندھ لے تو اس کے لے حج تمتع کی طرف عدول جائز نہیں ہے[7]۔
آب زمزم
پھر انھیں صفا پہاڑی کی جانب سراب نظر آیا، تو پانی کی تلاش میں پھر وادی میں اتریں، لیکن جب اسماعیل نظر نہ آئے تو واپس صفا پہاڑ پر چڑھیں؛ اس طرح ہاجرہ علیہا السلام نے سات چکر لگائے، ساتویں چکر میں جب وہ مروہ پہاڑی پر تھیں تو انھیں اسماعیل کے قدموں کے نیچے پانی بہتا ہوا نظر آیا، وہ واپس ہوئیں اور چشمہ آب کے ارد گرد مٹی جمع کر کے بہتے پانی کو روکا، اسی لیے اس پانی کا نام زمزم پڑ گیا۔
اس وقت قبیلہ جرہم ذو المجاز اور عرفات میں فروکش تھا، مکہ میں پانی نکلنے کے بعد یہاں چرند پرند آنے جانے لگے، چناں چہ جرہم نے ان پرندوں کا تعاقب کیا اور بالآخر وہ ایک عورت اور بچے کے پاس پہنچے جو ایک درخت کے نیچے فروکش تھے اور پانی ان کے پاس سے بہہ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر قبیلہ جرہم کے سردار نے کہا: "تم کون ہو؟ اور یہاں اس بچے کے ساتھ کیا کر رہی ہو؟"۔
حضرت ہاجرہ نے کہا کہ "میں ابراہیم خلیل اللہ کے فرزند کی ماں ہوں، یہ انہی کا بیٹا ہے اور اللہ نے ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے"۔ ان لوگوں نے پوچھا کہ" کیا ہم لوگ آپ کے قریب یہاں پڑاؤ کر سکتے ہیں؟" انھوں نے کہا: "میں ابراہیم سے پوچھ لیتی ہوں"۔ تیسرے دن جب ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے تو ہاجرہ نے واقعہ سنایا، حضرت ابراہیم نے قبیلہ جرہم کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔
چنانچہ پورا قبیلہ یہیں فروکش ہو گیا، ہاجرہ اور اسماعیل ان لوگوں سے خوب مانوس ہو گئے۔ جب ابراہیم دوسری بار آئے اور اتنے سارے افراد کو دیکھا تو انتہائی خوش ہوئے۔ حضرات ہاجرہ و اسماعیل علیہما السلام قبیلہ جرہم کے ساتھ ہی گذر بسر کرتے رہے، جب اسماعیل سن شعور کو پہنچ گئے تو اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا، کعبہ کی تعمیر اسی جگہ کرنا تھا جہاں آدم علیہ السلام پر قبہ نازل ہوا تھا، لیکن حضرت ابراہیم کو یہ علم نہیں تھا کہ کعبہ کس جگہ تعمیر کرنا ہے، کیونکہ مذکورہ قبہ طوفان نوح کے وقت اللہ نے اٹھا لیا تھا۔
خانہ کعبہ کی تعمیر
لہذا اللہ تعالی نے جبریل کو بھیجا، وہ آئے اور حضرت ابراہیم کو مطلوبہ جگہ کی نشان دہی کی۔ بنیادیں جنت سے اتاری گئیں اور ان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ تعمیر کیا، تعمیر کے لیے حضرت اسماعیل ذی طوی سے پتھر لاتے تھے۔ اس کے بعد مقام حجر اسود کی نشان دہی کی گئی، چناں چہ وہاں سے حجر اسود کو نکال کر اسے اصل جگہ پر رکھا، اس تعمیر میں کعبہ کے دو دروازے رکھے گئے، ایک مشرق کی سمت اور دوسرا مغرب کی جانب، اس مغربی دروازہ کا نام مستجار رکھا۔ پھر اس پر اذخر کی پتیاں وغیرہ ڈالیں اور ہاجرہ علیہا السلام نے کعبہ کے دروازہ پر ایک چادر لٹکا دی۔
کعبہ کی تعمیر سے فراغت پر حضرات ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے حج کیا، آٹھ ذو الحجہ یوم الترویہ کو جبریل ان کے پاس آئے اور کہا: "ابراہیم! پانی یہاں سے بھر لو"، چونکہ منٰی اور عرفات میں پانی نہیں تھا اس لیے پانی یہیں سے لے جاتے تھے اور اسی وجہ سے اس دن کا نام یوم الترویہ پڑ گیا۔ جب ابراہیم علیہ السلام کعبہ کی تعمیر سے مکمل فارغ ہو گئے تو دعا کی: ﴿اے اللہ! اس شہر کو پرامن بنادے اور یہاں کے باشندگان میں سے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیں، انھیں پھلوں سے روزی دے﴾۔
چنانچہ ابراہیم و اسماعیل اور دیگر انبیا علیہم السلام کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اہل ایمان ہر سال کعبہ کا حج کرتے تھے اور حج کی یہ عبادت اس وقت تک جاری رہی جب تک اہل عرب میں بت پرستی نہیں پھیلی تھی۔ پھر سردار مکہ عمرو بن لحی خزاعی کے زمانے میں جب بت پرستی کا رواج ہونے لگا، تو مناسک حج میں حذف و اضافہ ہونے لگا اور عبادت حج حنیفی طرز پر نہیں رہی۔
بت پرستی کی ابتداء
بعد ازاں عرب معاشرہ میں بت پرستی کے اثرات گہرے ہونے لگے تو وہ لوگ کعبہ کے اردگرد خودتراشیدہ بتوں اور اپنے معبودوں کے مجسمے نصب کرنے لگے اور مکہ کے بعض قبائل موسم حج میں تجارت بھی کرنے لگے، نیز بلا لحاظ مسلک و مذہب تمام قبائل کو حج بیت اللہ کی پوری اجازت دے دی گئی۔ تاہم بت پرستی پھیل جانے کے بعد بھی بعض افراد دین حنیف اور مسیحیت پر قائم تھے، ایسے افراد بھی حج کے لیے آیا کرتے تھے۔
پھر بعثت محمدی کے 9 یا 10 سال بعد مسلمانوں پر بھی حج فرض ہو گیا، جیسا کہ سورہ آل عمران میں ارشاد ہے:"اور جنھیں استطاعت میسر ہے، ان پر اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے"۔ تاہم مسلمانوں نے 631ء تک حج نہیں کیا، 631ء میں جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ فتح کیا تو مسجد حرام میں موجود تمام بتوں اور مجسموں کو ہٹا دیا اور اس کے بعد تمام مسلمانوں نے حج کے جملہ مناسک ادا کیے، اس دن سے حج کی یہ عبادت مستقل جاری ہے۔
حواله جات
- ↑ باب الحاء / 111 / ط : دار الکتاب العربی
- ↑ حج کی لغوی اور شرعی تعریف اور حج کی مشروعیت- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 مئی 2025ء
- ↑ سورہ حج، آیہ 26
- ↑ سورہ حج، آیہ 27
- ↑ عوالی اللئالی، ج۱، ص۲۱۵
- ↑ سورہ ابراہیم، آیہ 37
- ↑ حج کی قسمیں- اخذ شدہ بہ تاریخ: 13مئی 2025ء