زیدیہ
| زیدیہ | |
|---|---|
| نام | زیدیہ |
| عام نام | زیدیہ |
| بانی |
|
زیدیہ اہل تشیع کا ایک فرقہ ہے جس میں حضرت امام سجاد (پیدائش 702ء) کی امامت تک اثنا عشریہ اہل تشیع سے اتفاق پایا جاتا ہے یہ فرقہ امام زین العابدین کے بعد امام محمد باقر کی بجائے ان کے بھائی امام زید بن زین العابدین کی امامت کے قائل ہیں۔ یہ فرقہ اپنی نسبت زید بن علی بن حسین بن علی کی طرف کرتا ہے۔ان کے عقیدے کے مطابق ائمہ عام انسان ہی ہوتے ہیں مگر علی بن ابی طالب پیغمبر اسلام کے بعد سب سے افضل ہیں، زیدیہ صحابہ میں سے کسی کی تکفیر نہیں کرتا اور نہ تبرا کرتا ہے۔ یمن میں ان کی اکثریت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی زیدیہ موجود ہیں۔
امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے بعد زیدی شیعوں میں کوئی بھی ایسا فاطمی سید خواہ وہ امام حسن کے نسل سے ہوں یا امام حسین کے نسل سے امامت کا دعوی کر سکتا ہے، زیدیوں کے نزدیک پنجتن پاک کے علاوہ کوئی امام معصوم نہیں، کیونکہ ان حضرات کی عصمت قرآن سے ثابت ہے۔ زیدیوں میں امامت کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ یہ فرقہ اثنا عشری کی طرح امامت، توحید، نبوت اور معاد کے عقائد رکھتے ہیں تاہم ان کے ائمہ امام زین العابدین کے بعد اثنا عشری شیعوں سے مختلف ہیں۔ لیکن یہ فرقہ اثنا عشری کے اماموں کی بھی عزت کرتے ہیں اور ان کو "امام علم" مانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ زیدی کتابوں میں امام باقر، امام جعفر صادق اور امام عسکری وغیرہ سے بھی روایات مروی ہیں۔
لغوی معنی
زیدیہ زید کی طرف منسوب ہے، اس سے مراد زیدی فرقہ ہے۔ ان کا یہ نام زید بن علی نامی ایک شخص کی طرف نسبت کی وجہ سے پڑا۔ زیدیہ شیعہ کے فرقوں میں سے ایک فرقہ جو زید بن علی بن حسین کے پیروکار ہیں، جن کا عقیدہ ہے کہ مرتکبِ کبیرہ مخلد فی النار ہوگا، ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج (بغاوت) جائز ہے اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی امامت (خلافت) صحیح ہے۔
تاریخی پس منظر
ایک شیعی فرقہ ہے، اس کی نسبت اس فرقہ کے بانی زید بن علی زین العابدین کی طرف ہے، جو ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی امامت کی صحت کے قائل تھے، اور ان میں سے کسی نے بھی کسی ایک بھی صحابی کی تکفیر نہیں کی۔ ان کے کچھ عقائد یہ ہیں:
- افضل شخص کی موجودگی میں مفضول شخص کی امامت جائز ہے، کوئی بھی امام معصوم نہیں اور نہ ہی ائمہ کے حق میں نبی ﷺ کی وصیت ثابت ہے۔ یہ لوگ نہ ہی رجعت (یعنی شیعہ کے تمام ائمہ کا دوبارہ زندہ ہو کر حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے) کے قائل ہیں اور نہ ہی امامِ غائب (شیعوں کے مہدی منتظر محمد بن الحسن العسکری) کو مانتے ہیں۔
- مؤمنین میں سے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب ہیں وہ مخلد فی النار ہوں گے۔
- ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کو جائز قرار دیتے ہیں۔
- فاسق امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
- اللہ تعالیٰ کی ذات اور اعمال میں اختیار کے بارے میں وہ اعتزال کی طرف مائل ہیں۔
- نکاحِ متعہ کے بارے میں عام شیعوں سے اختلاف کرتے ہیں اور اسے ناپسند گردانتے ہیں۔
- زکاتِ خمس اور بوقتِ ضرورت تقیہ کے جائز ہونے میں عام شیعوں کے ساتھ متفق ہیں۔
فرقے
زیدیہ تین ذیلی فرقوں میں بٹ گئے:
جارودیہ
یہ ابو الجارود زیاد بن منذر عبدی (متوفی 150 هـ) کے پیروکار ہیں۔ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت ترک کرنے کے دعوی کی بنیاد پر صحابۂ کرام کی تکفیر کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ نبی ﷺ نے وصف کے ذریعہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی تنصیص کی ہے، تاہم نام لے کر صراحت نہیں کی ہے۔
سلیمانیہ
یہ سلیمان بن جریر زیدی کے پیروکار ہیں۔ انہیں ’جریریہ‘ بھی کہتے ہیں۔ اس فرقہ کا عقیدہ ہے کہ امامت کی بنیاد شورائیت ہے، اور یہ اچھے مسلمانوں میں سے دو آدمیوں کے عقد سے صحیح ہوجائے گی، نیز مفضول کی امامت بھی صحیح ہو سکتی ہے اگرچہ فاضل شخص ہر حال میں افضل ہے۔ یہ شیخین یعنی ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کی صحت کے قائل ہیں، مگر انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں پیش آنے والے حادثات کی بنیاد پر ان کی تکفیر کی ہے۔
نیز انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے کی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا، زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہما کے کفر کے بھی قائل ہیں اور رافضی شیعوں کے ’بَداء‘ اور ’تقیہ‘ کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے ان پر لعن طعن کرتے ہیں۔
بَتْریّہ
یہ کثیرُ الثواب (متوفی 169 ھ تقریباً) جس کا لقب الأبتر تھا، کے پیروکار ہیں۔ امامت کے متعلق ان کا مذہب بھی سلیمانیہ کے مذہب ہی کی طرح ہے، تاہم وہ عثمان رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں وارد نصوص کا ان کی طرف منسوب حادثات سے متعارض ہونے کی وجہ سے اُن کے کفر کے بارے میں توقف اختیار کرتے ہیں، اسی طرح وہ قاتلینِ عثمان کی تکفیر میں بھی توقف کرتے ہیں[1]۔
حوالہ جات
- ↑ زیدیہ (فرقۂ زیدیہ)-شائع شدہ از: 8 جون 2025ء