"خوارج" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م Saeedi نے صفحہ مسودہ:خوارج کو خوارج کی جانب منتقل کیا |
(کوئی فرق نہیں)
| |
نسخہ بمطابق 19:59، 28 نومبر 2025ء
| خوارج | |
|---|---|
| نام | خوارج |
| تشکیل کا سال | 1 ق، 622 ء، 1 ش |
| نظریہ | 1. تکفیر۔ 2. عوام کو مسلمانوں کے خلیفہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔ لہٰذا خلیفہ کا انتخاب متن اور جانشینی سے نہیں ہوتا اور قریش وغیرہ ہونا خلافت کے امیدوار کے لیے امتیازی حیثیت نہیں رکھتا۔ 3. عربوں اور مولا کے درمیان مساوات۔ 4. گنہگار ابدی سزا کے مستحق ہیں۔ |
خوارج، ایسے خودسر افراد کا گروہ تھا جو جنگِ صفّین میں حضرت علی بن ابیطالبؑ کی سپاہ کا حصہ تھے۔ جب مسئلۂ حکمیت پیش آیا اور امام نے اسے قبول فرمایا تو انہوں نے اس کی مخالفت کی اور حضرت سے الگ ہو کر اُن کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے۔ خوارج کی نظر میں حکمیت ایک خطا تھی اور جو بھی اس پر راضی ہوا تھا—خصوصاً حضرت علیؑ—اسے اس غلطی سے توبہ کرنا لازمی سمجھا جاتا تھا۔
خوارج کی مفہوم شناسی
لغوی طور پر خوارج، خارجی کی جمع ہے، اور عام اصطلاح میں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے برحق امام کے خلاف سرکشی اور بغاوت کریں[1]۔ لیکن خاص اصطلاح میں خوارج اُس مخصوص گروہ کو کہا جاتا ہے جو سال 36 اور 37 ہجری میں جنگِ صفّین کے دوران، مسئلۂ حکمیت کو قبول کیے جانے کی وجہ سے بغاوت پر اُتر آئے اور امامِ برحق کے خلاف کھڑے ہوگئے۔
مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات میں یہ دوسرا بڑا اختلاف شمار ہوتا ہے۔[2][3][4].
خوارج کے پیدا ہونے کی علت
تاریخی شواہد اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ فرقہ اُس وقت وجود میں آیا جب حضرت علی علیہالسّلام نے معاویہ کی طرف سے حکمیت کے فیصلے کی خلافورزی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اگرچہ مسئلۂ حکمیت سب سے پہلے خود خوارج ہی نے پیش کیا تھا، لیکن جب امام علی علیہالسّلام نے اس تجویز کو قبول کرلیا اور جنگ ختم ہوگئی، تو وہ اپنے ہی فیصلے پر پشیمان ہوگئے۔ انہوں نے «لا حکم الا لله» کا نعرہ لگایا، جنگ جاری رکھنے کا مطالبہ کیا، حکمیت کو کفر قرار دیا اور امام سے توبہ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے حضرت امیرالمؤمنینؑ سے کہا: آپ نے خدا کے دین میں فیصلہ مردوں کے سپرد کردیا، جبکہ خدا فرماتا ہے کہ حکم صرف اللہ ہی کا ہے۔ لیکن امامؑ نے آیتِ اوفوا بالعقود [مائدہ: 1] کے مطابق اپنے عہد اور معاہدے کو پورا کیا اور اسے توڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ بعدازاں، جب امام علیؑ کوفہ اور معاویہ شام واپس لوٹے، تو حکمیت کے مخالفین امام سے الگ ہوگئے اور کوفہ کے قریب حروراء نامی علاقے میں جا بسے[5][6]۔ بعد میں یہی لوگ خوارج یا حروریہ کہلائے۔
حکمیت کے دوران عمرو بن عاص—جو شام کی طرف سے نمائندہ تھا—نے ایک فریب کارانہ حربے سے عراق کے نمائندے ابوموسی اشعری کو دھوکا دیا۔ امام علیؑ کے لشکر کے کچھ افراد جب اس سازش سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے حضرت سے احتجاج کیا کہ آپ کو حکمیت قبول نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ابتدا میں ان کی تعداد کم تھی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ بڑھتے گئے اور آخرکار حروراء میں جمع ہوکر اعلانِ جنگ کردیا۔ اس جنگ میں امامؑ نے انہیں سخت شکست دی۔ اگرچہ خوارج فوجی لحاظ سے تقریباً ختم ہوگئے، لیکن ان کا فکری انحراف اسلامی تاریخ میں باقی رہا اور ایک مستقل مکتب کی شکل اختیار کر گیا—جس کی فکری جڑیں آج بھی داعش اور دیگر تکفیری گروہوں کی سوچ میں موجود ہیں۔
اسلامی معاشرے پر خوارج کے اثرات
خوارج اسلام کی تاریخ میں ایک پُراثر اور پُرحاشیہ گروہ کے طور پر سامنے آئے۔ اس گروہ کا سب سے اہم اثر یہ تھا کہ انہوں نے سپاہِ امام علی علیہالسّلام کے اندر تفرقہ اور دو حصوں میں تقسیم پیدا کی[7][8]۔ یہی واقعہ اسلام میں پہلے مذہبی معارض گروہ کی بنیاد بنا[9][10][11] ۔ ابتدا میں خوارج کی تحریک خالصتاً سیاسی نوعیت رکھتی تھی، لیکن عبدالملک بن مروان کے دورِ خلافت میں انہوں نے اپنی روش بدلتے ہوئے اپنے تعلیمات میں مباحثِ کلامی بھی شامل کرلیے[12]. ۔ تاریخی مورخین جیسے طبری اور ابنِ اعثم کوفی کے مطابق، خوارج کا امام علی علیہالسّلام کے مقابل کھڑا ہونا—جو آخرکار آپؑ کی شہادت کا باعث بنا—معاویہ کے لیے حکومت پر قبضے کا راستہ ہموار کرنے کا سبب بنا[13][14].۔ البتہ امام حسن علیہالسّلام کے دور میں خوارج، معاویہ کے خلاف جنگ کے لیے امام کی سپاہ میں شامل ہوگئے[15][16].، اور صلح کے بعد بھی انہوں نے معاویہ اور بنیامیہ کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھی[17][18][19][20].۔
خوارج، بنیامیہ اور ان کے پیروکاروں کو کافر سمجھتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ ظلم کو ختم کرنے کے لیے ہر کافر کے خلاف جنگ کرنا ضروری ہے[21]۔ اس مقصد کے تحت وہ ان معروف قیاموں میں شریک ہوئے جو بنیامیہ کے خلاف اٹھے، اور انہوں نے عبداللہ بن زبیر، زید بن علی اور ابومسلم خراسانی جیسے افراد کی مدد کی[22][23][24][25]. ۔ اس کے باوجود بعض مواقع پر وہ اموی حکام کے ساتھ بھی مل گئے اور ان کی طرف سے مختلف مناصب تک پہنچے[26][27][28]۔ کچھ حالات میں تو انہوں نے خود خلافت کا دعویٰ کیا اور مختلف شہروں کے کچھ علاقوں میں خلیفہ، امام اور امیرالمؤمنین جیسے القاب کے تحت حکومت بھی کی[29][30][31][32]. ۔ بنیامیہ نے عراق اور ایران جیسے علاقوں میں خوارج کو سختی سے کچلنے کی کوشش کی[33][34]۔ لیکن یہی مسلسل جھڑپیں آہستہ آہستہ اموی حکومت کو کمزور کرتی گئیں، یہاں تک کہ آخرکار انہی کشمکشوں کی شدت نے دولتِ امویہ کے زوال کی بنیاد رکھ دی۔[35][36][37].
خوارج کے اعتقادی مبانی
خوارج کے اہم اعتقادی اصول درج ذیل ہیں:
تکفیر
خوارج کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہو، وہ کافر ہے اور جہنم کا دائمی رہائشی ہوگا[38][39].۔ خوارج کے اس مخصوص عقیدے—جو شیعہ، مرجئہ اور معتزلہ کے نظریات کے خلاف تھا[40][41]—کے ردِّعمل میں مرجئہ اور معتزلہ جیسے مکاتب فکر وجود میں آئے۔ اس عقیدے سے دو بنیادی نکات سامنے آتے ہیں: نکتہ اوّل: وہ سرزمین جس پر خوارج حکومت نہ کریں، دارالکفر ہے، اور جو شخص ایسی سرزمین میں رہے وہ کافر قرار پاتا ہے؛ لہٰذا اس کے خلاف جنگ کرنا واجب ہے۔ اسی طرح اگر کوئی خلیفہ یا دینی حاکم گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرے تو وہ مسلمان نہیں رہتا اور اس کے خلاف اقدام لازم ہوجاتا ہے[42][43]. ۔ نکتہ دوم: خوارج کسی ایسے علاقے کو جو ان کے نزدیک فاسق یا بدعتی حکمران کے زیرِ اثر ہو، سرزمینِ کفر سمجھتے ہیں اور اس کے باشندوں کے خون بہانے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اسی عقیدے کے تحت انہوں نے تاریخ بھر میں بڑی سطح پر قتل و غارت کی، جو آج بھی بعض انتہاپسند گروہوں میں دیکھی جاسکتی ہے[44][45][46]۔
خلافت
خوارج کا عقیدہ ہے کہ خلیفہ کا انتخاب عوام کریں گے۔ یہ ان کے نظریۂ خلافت کی بنیاد ہے۔ لہٰذا: خلافت نصّ (الٰہی نامزدگی) یا استخلاف (سابق خلیفہ کی نامزدگی) کے ذریعے ثابت نہیں ہوتی۔ خلیفہ کے لیے قریشی ہونا شرط نہیں۔ خلیفہ کو یہ حق نہیں کہ حکومت کے فیصلوں میں کسی کو حکم (جج/داور) مقرر کرے[47][48][49][50].۔ وہ خلافتِ ابوبکر اور عمر کو درست مانتے ہیں، اور خلافتِ عثمان کو بھی ابتدائی برسوں تک صحیح سمجھتے ہیں؛ لیکن ان کے نزدیک چونکہ عثمان بعد میں بدعتوں کے مرتکب ہوئے، اس لیے انہیں معزول کرنا بلکہ قتل کرنا واجب ہوگیا۔ اسی طرح چونکہ خلافت انتخابی ہے، اس لیے وہ نظریۂ شیعہ—یعنی امام علیؑ اور ان کی نسل کی نصّ کے ذریعے ولایت—کو قبول نہیں کرتے، بلکہ کہتے ہیں کہ علیؑ بھی عوام کے انتخاب سے ہی خلیفہ بن سکتے ہیں[51]۔ مزید یہ کہ بدعت گزار یا سنت شکن امام کے خلاف خروج واجب ہے—یہ خوارج کا بنیادی نعرہ تھا۔
عرب اور موالی میں برابری
خوارج عرب اور موالی (غیر عرب مسلمان) کے حقوق اور ذمہ داریوں کو برابر سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک گناہگار افراد ہمیشہ کے لیے عذاب کے مستحق ہوتے ہیں۔[52][53][54][55].
متعلقہ تلاشیں
حوالہ جات
- ↑ محمد بن عبدالکریم شهرستانی، الملل و النحل، تحقیق احمد فهیمی، بیروت، انتشارات دارالکتب العلمیة، ج ۱، ص۱۳۱.
- ↑ نصر بن مزاحم منقری، وقعة صفین، تحقیق عبدالسلام محمد هارون، قاهره، انتشارات مؤسسة العربیة الحدیثة، سال ۱۳۸۲ ش، چ اول، چاپ افست قم، انتشارات مکتبة المرعشی النجفی، ص ۲۱۱ به بعد.
- ↑ محمد بن عبدالکریم شهرستانی، الملل و النحل، تحقیق احمد فهیمی، بیروت، انتشارات دارالکتب العلمیة، ج ۱، ص ۱۰۶.
- ↑ ابن خلدون عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، تحقیق خلیل شحادة، بیروت، انتشارات دارالفکر، چ دوم، سال ۱۴۰۸ ق، ج ۳، ص ۱۷۸.
- ↑ نصر بن مزاحم، همان، ص ۵۱۳-۵۱۴.
- ↑ جریر طبری، تاریخ الطبری، بیروت، سال ۱۴۰۳ ق، ج ۵، ص۶۳، ۷۲، ۷۸.
- ↑ احمد بن یحیی بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، سال ۱۴۱۷ ق، ج ۳، ص۱۱۳.
- ↑ جریر طبری، همان، ص ۶۲.
- ↑ عامر النجار، الخوارج عقیدة و فکرا و فلسفة، سال ۱۹۸۸ م، ص ۱۴۴.
- ↑ معیطه احمد، الاسلام الخوارجی، سال ۲۰۰۶ م، ص ۱۴، ۱۷.
- ↑ ناصر بن عبدالکریم العقل، الخوارج اول الفرق فی تاریخ الاسلام، سال ۱۴۱۹ ق، ص ۲۴-۲۵.
- ↑ ابوالنصر، الخوارج فی الاسلام، سال ۱۹۴۹ م، ص ۴۱، ۱۰۱-۱۰۲.
- ↑ جریر طبری، همان، ص ۷۸.
- ↑ ابن اعثم کوفی، الفتوح، سال ۱۴۱۱ ق، ج ۵، ص ۵۷-۵۸.
- ↑ شیخ مفید، الارشاد فی معرفة حجج اللّه علی العباد، سال ۱۴۱۴ ق، ج ۲، ص۱۰.
- ↑ بهاء الدین اربلی، کشف الغمّة فی معرفة الائمة، سال ۱۴۰۵ ق، ج ۲، ص ۱۶۲.
- ↑ احمد بن یحیی بلاذری، همان، ج ۵، ص ۱۶۹.
- ↑ جریر طبری، همان، ص ۱۶۵-166.
- ↑ جعفر مرتضی عاملی، علی (ع) و الخوارج، سال ۱۴۲۳ ق، ج ۲، ص ۵۱.
- ↑ سهیر قلماوی، ادب الخوارج فی العصر الاموی، سال ۱۹۴۵ م، ص۱۵۰-۱۵۱
- ↑ جعفر سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، سال ۱۳۷۱ ش، ج ۵، ص ۱۵۸-۱۷۴.
- ↑ محمد بن اسماعیل بخاری، التاریخ الصغیر، سال ۱۴۰۶ ق، ج ۱، ص ۱۹۲ -۱۹۳.
- ↑ احمد بن یحیی بلاذری، همان، ج ۵، ص۳۶۰، ۳۷۳.
- ↑ مولف ناشناخته، اخبار الدولة العباسیة، سال ۱۹۷۱ م، ص ۲۹۷-۳۰۰.
- ↑ نشوان بن سعید الحمیری،الحور العین، سال ۱۹۷۲ م، ص ۱۸۵-۱۸۷.
- ↑ ابن اعثم کوفی، همان، ج ۴۷، ص ۲۷۴.
- ↑ شیخ مفید، الاختصاص، سال ۱۴۰۲ ق، ص۱۲۲.
- ↑ جعفر مرتضی عاملی، همان، ص ۷۱-۷۶، ۹۴-۹۶.
- ↑ علی بن حسین مسعودی، مروج الذهب، بیروت، ج ۴، ص ۲۶-۲۷.
- ↑ ابن حزم اندلسی، الفصل فی الملل والاهواء والنحل، سال ۱۳۲۰ ق، ص ۳۸۶.
- ↑ یاقوت حموی، معجم الادباء، سال ۱۹۹۳ م، ج ۱ ، ص ۲۸ .
- ↑ ابن کثیر، البدایة والنهایة، سال ۱۴۰۷ ق، ج ۱۰، ص۳۰.
- ↑ احمد بن یحیی بلاذری، همان، ج ۶، ص۳۰.
- ↑ ابن قتیبه دینوری، الأخبار الطوال، سال ۱۹۶۰ م، ص۲۷۰-۲۷۷.
- ↑ جعفر مرتضی عاملی، دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام، سال ۱۴۱۴ ق، ج ۱، ص ۳۹-۴۰.
- ↑ نویسنده ناشناخته،اخبار الدولة العباسیة،سال ۱۹۷۱م، ص۲۵۱.
- ↑ علی بن حسین مسعودی، همان، ج ۴، ص ۷۹-۸۰
- ↑ مطهر بن طاهر مقدسی، البدء و التاریخ، بور سعید، انتشارات مکتبة الثقافة الدینیة، بیتا، ج ۵، ص ۱۴۲،
- ↑ ابن عبری، تاریخ مختصر الدول، بیروت، انتشارات دار الشرق، چ سوم، سال ۱۹۹۲ م، ص ۹۷.
- ↑ مطهر بن طاهر مقدسی، همان.
- ↑ علی بن حسین مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، ج ۳، ص ۱۳۸، تحقیق اسعد داغر، قم، انتشارات دارالهجرة، چ دوم، سال ۱۴۰۹ ق.
- ↑ مطهر بن طاهر مقدسی، آفرینش و تاریخ، ترجمه محمدرضا شفیعی کدکنی، تهران، انتشارات آگاه، چ اول، سال ۱۳۷۴ ش، ج ۱، ص ۹۴ .
- ↑ علی بن حسین مسعودی، همان.
- ↑ ابوحنیفه احمد بن داود دینوری، الاخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر، قم، انتشارات الرضی، سال ۱۳۶۸ ش، ص ۲۰۵ - ۲۰۶ .
- ↑ عبدالرحمن بن محمد ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، تحقیق خلیل شحادة، بیروت، انتشارات دارالفکر، چ دوم، سال ۱۴۰۸ ق، ج ۲، ص ۶۳۹ .
- ↑ همان، ج ۳، ص ۱۸۲.
- ↑ ابوالحسن اشعری، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، تحقیق محییالدین عبدالحمید، قاهره، مکتبة النهضة المصریة، سال ۱۳۶۹ ق ج ۱، ص ۴۵۴ .
- ↑ همان، ص 157.
- ↑ محمد بن عبدالکریم شهرستانی، الملل و النحل، تحقیق احمد فهیمی محمد، بیروت، نشر دارالکتب العلمیة، ج ۱، ص ۱۳۴.
- ↑ همان، ص 119.
- ↑ همان، ص ۱۳۵.
- ↑ همان، ص۱۳۲.
- ↑ عبدالقاهر بن طاهر بغدادی، الفرق بین الفرق، تحقیق و تصحیح محمد محیالدین عبدالحمید، مصر (قاهره)، مکتبة محمد صبیح و اولاده، بیتا، ص ۲۵ .
- ↑ همان، ص 73.
- ↑ همان، ص ۷۳ ـ ۷۴.