"شافعیه" کے نسخوں کے درمیان فرق
Sajedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Sajedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
| (2 صارفین 3 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے) | |||
| سطر 10: | سطر 10: | ||
| نظریہ = فقهی مسلک میں اهل حدیث اور اهل رائ کے درمیان معتدل راه کا انتخاب، کتاب و سنت کے متون کو سمجهنے میں ظاهر کومعتبر ماننا، اصول اور مصادرِ استنباط میں عملی اور نظری دونوں پہلو کی جمع۔ | | نظریہ = فقهی مسلک میں اهل حدیث اور اهل رائ کے درمیان معتدل راه کا انتخاب، کتاب و سنت کے متون کو سمجهنے میں ظاهر کومعتبر ماننا، اصول اور مصادرِ استنباط میں عملی اور نظری دونوں پہلو کی جمع۔ | ||
}} | }} | ||
'''شافعیه''' ؛ اہلِ سنت کے چار فقہی مذاہب میں سے ایک ہے۔ اس مذہب کو اہلِ حدیث کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ابنِ اثیر نے لفظ شافعی کو شین کے زبر اور فاء کے زیر کے ساتھ یعنی شَفِعی ضبط کیا ہے۔ یہ مذہب حنفیہ کے بعد اہلِ سنت کا سب سے بڑا فقہی مذہب ہے، اور دیگر اہلِ سنت مذاہب کی طرح احکامِ شرعیہ میں ایک منظم فقہی نظام رکھتا ہے، جس کی بنیاد محمد بن ادریس (امام شافعی) نے رکھی۔ | '''شافعیه''' ؛ [[اہل سنت|اہلِ سنت]] کے چار فقہی مذاہب میں سے ایک ہے۔ اس مذہب کو اہلِ حدیث کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ابنِ اثیر نے لفظ شافعی کو شین کے زبر اور فاء کے زیر کے ساتھ یعنی شَفِعی ضبط کیا ہے۔<ref>ابن اثیر، ''اللباب فی تهذیب الانساب''، ج 2، ص 175.</ref> یہ [[حنفی|مذہب حنفیہ]] کے بعد اہلِ سنت کا سب سے بڑا فقہی مذہب ہے، اور دیگر [[اہل السنۃ والجماعت|اہلِ سنت مذاہب]] کی طرح احکامِ شرعیہ میں ایک منظم فقہی نظام رکھتا ہے، جس کی بنیاد محمد بن ادریس (امام شافعی) نے رکھی۔ | ||
نیز شافعی مذہب کے پیروکار اہلِ سنت کے دیگر مذاہب، یعنی | نیز شافعی مذہب کے پیروکار اہلِ سنت کے دیگر مذاہب، یعنی [[حنفی|حنفیہ]]، مالکیہ اور [[حنبلی|حنابلہ]] کے ساتھ پوری دنیاے [[اسلام]] میں پائے جاتے ہیں۔<ref>ابوالقاسم بلخی، ''بیان الادیان''، ص 61.</ref><ref>جمعی از نویسندگان، ''دائرة المعارف الاسلامیة''، ج 13، ص 72.</ref><ref>احمد امین، ''ضحی الاسلام''، ج 2، ص 168.</ref><ref>محمد بن احمد خوارزمی، ''مفاتیح العلوم''، ص 46.</ref>. | ||
شافعیہ کو بعض دیگر ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے، جیسے شفعویہ اور شوافع۔ شفعویہ غالباً شافعیہ ہی کا دوسرا نام ہے اور یہ اہلِ حدیث کے مکاتب میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ دمشق کے لوگ اہلِ حدیث کے مذہب کے پیرو تھے اور ان کے فقہاء شفعویہ سے تعلق رکھتے تھے۔ | شافعیہ کو بعض دیگر ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے، جیسے شفعویہ اور شوافع۔ شفعویہ غالباً شافعیہ ہی کا دوسرا نام ہے اور یہ [[اہل حدیث|اہلِ حدیث]] کے مکاتب میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔<ref>محمدجواد مشکور، ''فرهنگ فرق اسلامی''، مشهد، انتشارات آستان قدس رضوی، سال 1372 ش، چ دوم، ص 257.</ref><ref>عبدالجلیل رازی، ''النقض''، ص 457.</ref> روایت میں آیا ہے کہ دمشق کے لوگ اہلِ حدیث کے مذہب کے پیرو تھے اور ان کے فقہاء شفعویہ سے تعلق رکھتے تھے۔<ref>شمسالدین ابوعبدالله محمد بن احمد مقدسی، ''احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم''، ص 154.</ref>. | ||
==شافعیه کے بانی== | ==شافعیه کے بانی== | ||
اس فقہی مکتب کے بانی محمد بن ادریس شافعی ہیں، جن کا نسب ان کے آبائی اجداد میں سے شافع بن سائب سے ملتا ہے۔ آپ کی ولادت 150 ہجری قمری میں فلسطین کے شہر غزہ میں ہوئی۔ آپ کے والد آپ کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد وفات پا گئے، چنانچہ آپ اپنی والدہ کے ساتھ بچپن ہی میں مکہ مکرمہ ہجرت کر گئے اور وہیں مقیم ہو گئے۔ | اس فقہی مکتب کے بانی محمد بن ادریس شافعی ہیں، جن کا نسب ان کے آبائی اجداد میں سے شافع بن سائب سے ملتا ہے۔ آپ کی ولادت 150 ہجری قمری میں [[فلسطین]] کے شہر [[غزہ]] میں ہوئی۔ آپ کے والد آپ کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد وفات پا گئے، چنانچہ آپ اپنی والدہ کے ساتھ بچپن ہی میں مکہ مکرمہ ہجرت کر گئے اور وہیں مقیم ہو گئے۔<ref>محمد ابوزهره، ''تاریخ المذاهب الاسلامیة''، ص ۴۰۷ - ۴۰۹.</ref> | ||
محمد بن ادریس نے اپنی علمی اور فقہی تعلیم کا آغاز مسلم بن خالد زنجی سے کیا، جو مکہ کے مفتی اور مسجد الحرام کے امام جماعت تھے۔ رفتہ رفتہ آپ نے فقہ میں اعلیٰ مہارت حاصل کر لی اور مسجد الحرام میں تدریس کا آغاز کیا۔ فقہ میں مہارت کے ساتھ ساتھ آپ ادبی علوم میں بھی صاحبِ اسلوب تھے۔ | محمد بن ادریس نے اپنی علمی اور فقہی تعلیم کا آغاز مسلم بن خالد زنجی سے کیا، جو مکہ کے مفتی اور مسجد الحرام کے امام جماعت تھے۔ رفتہ رفتہ آپ نے فقہ میں اعلیٰ مہارت حاصل کر لی اور مسجد الحرام میں تدریس کا آغاز کیا۔ فقہ میں مہارت کے ساتھ ساتھ آپ ادبی علوم میں بھی صاحبِ اسلوب تھے۔ | ||
اسی دوران آپ نے مدینہ منورہ کا سفر کیا اور وہاں امام مالک بن انس، جو مالکی مذہب کے سربراہ تھے، کے خاص شاگرد بنے۔ بعد ازاں بعض حالات و واقعات کے نتیجے میں آپ کو بغداد جانا پڑا، جہاں آپ کو حنفی مذہب کے بڑے فقہاء سے ملاقات اور استفادہ کا موقع ملا، نیز امام مالک کے فقہی مکتب سے بھی قریب سے آشنائی حاصل ہوئی، جو زیادہ تر نص اور حدیث پر مبنی تھا۔ اسی طرح آپ عقلگرا فقہاء، جنہیں اصطلاحاً اہلِ رائے کہا جاتا ہے، کے فقہی افکار سے بھی واقف ہوئے۔ | اسی دوران آپ نے مدینہ منورہ کا سفر کیا اور وہاں امام مالک بن انس، جو مالکی مذہب کے سربراہ تھے، کے خاص شاگرد بنے۔ بعد ازاں بعض حالات و واقعات کے نتیجے میں آپ کو بغداد جانا پڑا، جہاں آپ کو [[حنفی |حنفی مذہب]] کے بڑے فقہاء سے ملاقات اور استفادہ کا موقع ملا، نیز امام مالک کے فقہی مکتب سے بھی قریب سے آشنائی حاصل ہوئی، جو زیادہ تر نص اور حدیث پر مبنی تھا۔ اسی طرح آپ عقلگرا فقہاء، جنہیں اصطلاحاً اہلِ رائے کہا جاتا ہے، کے فقہی افکار سے بھی واقف ہوئے۔ | ||
اس کے بعد امام شافعی کا علمی سفر زیادہ تر مکہ اور بغداد کے درمیان رہا۔ بالآخر آپ 199 ہجری قمری میں مصر تشریف لے گئے اور وہیں اقامت اختیار کی، یہاں تک کہ 204 ہجری قمری میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ | اس کے بعد امام شافعی کا علمی سفر زیادہ تر مکہ اور بغداد کے درمیان رہا۔ بالآخر آپ 199 ہجری قمری میں مصر تشریف لے گئے اور وہیں اقامت اختیار کی، یہاں تک کہ 204 ہجری قمری میں آپ کا انتقال ہو گیا۔<ref>وهبة الزحیلی، ''المذهب الشافعی''، انتشارات مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، المذاهب الاسلامیة الخمسة، ص ۴۹۴ - ۴۹۸.</ref>. | ||
==شافعیہ کے پیروکار== | ==شافعیہ کے پیروکار== | ||
شافعی فقہ کے زیادہ تر مقلدین اصولِ عقائد میں اشعری کلامی مبانی کی پیروی کرتے ہیں۔ تاہم ابوالحسن اشعری (اشاعرہ کے مکتبِ فکر کے بانی) خود فقہی امور میں شافعی المسلک تھے، اور اسی گروہ کے اعتقادی اصولوں کو کلامی دلائل کے ذریعے ثابت اور مضبوط کرنے کے لیے انہوں نے اشعری مذہب کی بنیاد رکھی۔ | شافعی فقہ کے زیادہ تر مقلدین اصولِ عقائد میں اشعری کلامی مبانی کی پیروی کرتے ہیں۔ تاہم ابوالحسن اشعری (اشاعرہ کے مکتبِ فکر کے بانی) خود فقہی امور میں شافعی المسلک تھے، اور اسی گروہ کے اعتقادی اصولوں کو کلامی دلائل کے ذریعے ثابت اور مضبوط کرنے کے لیے انہوں نے اشعری مذہب کی بنیاد رکھی۔<ref>محمدجواد مشکور، ''فرهنگ فرق اسلامی''، مشهد، انتشارات آستان قدس رضوی، سال 1372 ش، چ دوم، ص ۵۵.</ref> | ||
اسی طرح اہلِ سنت کے بعض نامور متکلمین، جیسے امام جوینی، امام غزالی، فخرالدین رازی اور امام سیوطی بھی شافعی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ | اسی طرح اہلِ سنت کے بعض نامور متکلمین، جیسے امام جوینی، امام غزالی، فخرالدین رازی اور امام سیوطی بھی شافعی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔<ref>وهبة الزحیلی، وهبة الزحیلی، ''المذهب الشافعی''، انتشارات مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، المذاهب الاسلامیة الخمسة، ص ۵۲۳ - ۵۲۶.</ref>. | ||
==شافعیہ کی جغرافیائی تقسیم== | ==شافعیہ کی جغرافیائی تقسیم== | ||
موجودہ دور میں شافعی مذہب کے پیروکار بیشتر اسلامی ممالک میں پائے جاتے ہیں، تاہم | موجودہ دور میں شافعی مذہب کے پیروکار بیشتر اسلامی ممالک میں پائے جاتے ہیں، تاہم [[مصر]]، [[یمن]]، انڈونیشیا اور نیز کرد نشین علاقوں میں اس مذہب کے ماننے والوں کی تعداد نسبتاً زیادہ اور نمایاں ہے۔<ref>''همان،'' ص ۵۴۲ – ۵۴۵.</ref><ref>رضا اسلامی، ''مدخل علم فقه''، قم، ص ۴۷۵.</ref> | ||
اس کے علاوہ شافعی اور مالکی مذاہب کے اکابر علماء کو مصر کی جامعہ الازہر میں اساتذہ اور مشائخ کے درمیان نمایاں اور بالادست مقام حاصل ہے۔ | اس کے علاوہ شافعی اور مالکی مذاہب کے اکابر علماء کو مصر کی [[الازہر یونیورسٹی|جامعہ الازہر]] میں اساتذہ اور مشائخ کے درمیان نمایاں اور بالادست مقام حاصل ہے۔<ref>''همان''، ص۵۲۷.</ref> | ||
==شافعی مذهب کی خصوصیات== | ==شافعی مذهب کی خصوصیات== | ||
امام شافعی کا فقہی رجحان اہلِ حدیث اور اہلِ رائے کے درمیان ایک معتدل راہ ہے، کیونکہ انہوں نے امام ابو حنیفہ کے رجحان کو امام مالک کے رجحان کے ساتھ یکجا کیا۔ یعنی ایک طرف وہ اصول و مبانی کے اعتبار سے کسی حد تک ابو حنیفہ سے متفق تھے اور دوسری طرف حدیث کی قدر و قیمت میں امام مالک کے ہم نوا تھے۔ یہاں تک کہ عراق اور خراسان میں وہ اہلِ حدیث کے طور پر مشہور ہوئے اور بغداد کے لوگوں نے انہیں «یاورِ سنت» کا لقب دیا۔ | امام شافعی کا فقہی رجحان اہلِ حدیث اور اہلِ رائے کے درمیان ایک معتدل راہ ہے، کیونکہ انہوں نے امام ابو حنیفہ کے رجحان کو امام مالک کے رجحان کے ساتھ یکجا کیا۔ یعنی ایک طرف وہ اصول و مبانی کے اعتبار سے کسی حد تک ابو حنیفہ سے متفق تھے اور دوسری طرف حدیث کی قدر و قیمت میں امام مالک کے ہم نوا تھے۔ یہاں تک کہ عراق اور خراسان میں وہ اہلِ حدیث کے طور پر مشہور ہوئے اور بغداد کے لوگوں نے انہیں «یاورِ سنت» کا لقب دیا۔ | ||
امام شافعی نے جب حجاز اور عراق کے دو طریقوں (حدیث اور رائے) کے درمیان اختلاف دیکھا تو اس بارے میں اپنا موقف واضح کرنے اور ایک مستقل منہج اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔ اسی بنا پر انہوں نے حدیث اور بعض ضمنی مصادر سے استدلال کا ایک واضح پروگرام اپنایا، اس کا دفاع کیا اور اپنے مخالفین پر، خواہ وہ عراقی ہوں یا حجازی، تنقید کی۔ | امام شافعی نے جب حجاز اور [[عراق]] کے دو طریقوں (حدیث اور رائے) کے درمیان اختلاف دیکھا تو اس بارے میں اپنا موقف واضح کرنے اور ایک مستقل منہج اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔ اسی بنا پر انہوں نے حدیث اور بعض ضمنی مصادر سے استدلال کا ایک واضح پروگرام اپنایا، اس کا دفاع کیا اور اپنے مخالفین پر، خواہ وہ عراقی ہوں یا حجازی، تنقید کی۔ | ||
امام شافعی نے کتاب و سنت کے متون کو سمجھنے میں ظاہر کو معتبر ماننے کا مسلک اختیار کیا اور ظاہر سے آگے نہیں بڑھے، کیونکہ ان کے نزدیک ظاہر کے علاوہ کسی اور چیز کو بنیاد بنانا گمان اور وہم پر اعتماد کرنا ہے، جو بہت سی غلطیوں اور بہت کم درست نتائج کا سبب بنتا ہے۔ نیز احکام کو اس چیز پر قائم ہونا چاہیے جو دلیل کے دائمی اور غالب نتائج ہوں، نہ کہ ان امور پر جو کبھی کبھار دلیل سے نکل آتے ہیں۔ | امام شافعی نے کتاب و سنت کے متون کو سمجھنے میں ظاہر کو معتبر ماننے کا مسلک اختیار کیا اور ظاہر سے آگے نہیں بڑھے، کیونکہ ان کے نزدیک ظاہر کے علاوہ کسی اور چیز کو بنیاد بنانا گمان اور وہم پر اعتماد کرنا ہے، جو بہت سی غلطیوں اور بہت کم درست نتائج کا سبب بنتا ہے۔ نیز احکام کو اس چیز پر قائم ہونا چاہیے جو دلیل کے دائمی اور غالب نتائج ہوں، نہ کہ ان امور پر جو کبھی کبھار دلیل سے نکل آتے ہیں۔ | ||
| سطر 44: | سطر 44: | ||
امام شافعی کے نزدیک دینی قیادت صرف دو شرطوں کے ساتھ قابلِ قبول ہے: | امام شافعی کے نزدیک دینی قیادت صرف دو شرطوں کے ساتھ قابلِ قبول ہے: | ||
الف) رہبر کا قریشی ہونا | * الف) رہبر کا قریشی ہونا | ||
ب) عوام کا اس پر متفق ہونا | * ب) عوام کا اس پر متفق ہونا | ||
امام شافعی بیعت کے بغیر قیادت کو، ضرورت کے وقت کے سوا، ناجائز سمجھتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ حضرت علیؑ کی خلافت کو برحق مانتے ہیں اور ان کے مخالفین، جیسے معاویہ اور ان کے پیروکاروں کو «اہلِ بغی» قرار دیتے ہیں۔ وہ حضرت علیؑ کی جمل، صفین اور نہروان کی جنگوں کو دینی جنگیں سمجھتے ہیں، تاہم اس کے باوجود ان پر دشنام کو جائز نہیں سمجھتے۔ | امام شافعی بیعت کے بغیر قیادت کو، ضرورت کے وقت کے سوا، ناجائز سمجھتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ حضرت علیؑ کی خلافت کو برحق مانتے ہیں اور ان کے مخالفین، جیسے معاویہ اور ان کے پیروکاروں کو «اہلِ بغی» قرار دیتے ہیں۔ وہ [[علی ابن ابی طالب|حضرت علیؑ]] کی جمل، صفین اور نہروان کی جنگوں کو دینی جنگیں سمجھتے ہیں، تاہم اس کے باوجود ان پر دشنام کو جائز نہیں سمجھتے۔ | ||
امام شافعی کے نزدیک حدیث کا اطلاق صرف رسولِ خدا ﷺ کے قول پر ہوتا ہے۔ | امام شافعی کے نزدیک حدیث کا اطلاق صرف [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|رسولِ خدا]] ﷺ کے قول پر ہوتا ہے۔ | ||
صحابۂ کرام اور اہلِ بیتِ رسول ﷺ سے شدید محبت، مذہبِ شافعی کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے۔ | صحابۂ کرام اور اہلِ بیتِ رسول ﷺ سے شدید محبت، مذہبِ شافعی کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے۔ | ||
شافعیہ اولیائے الٰہی کے ذریعے توسل اور تبرک کے قائل ہیں اور ان کی کرامات کا انکار نہیں کرتے۔ | شافعیہ اولیائے الٰہی کے ذریعے توسل اور تبرک کے قائل ہیں اور ان کی کرامات کا انکار نہیں کرتے۔ | ||
| سطر 65: | سطر 65: | ||
[[زمرہ:مذاہب اور فرقے]] | [[زمرہ:مذاہب اور فرقے]] | ||
[[fa: شافعیه]] | |||
حالیہ نسخہ بمطابق 18:51، 24 دسمبر 2025ء
| شافعیه | |
|---|---|
| نام | شافعیه |
| عام نام | شافعیه، شفعویه، شوافع |
| بانی | محمد ابن ادریس شافعی |
| نظریہ | فقهی مسلک میں اهل حدیث اور اهل رائ کے درمیان معتدل راه کا انتخاب، کتاب و سنت کے متون کو سمجهنے میں ظاهر کومعتبر ماننا، اصول اور مصادرِ استنباط میں عملی اور نظری دونوں پہلو کی جمع۔ |
شافعیه ؛ اہلِ سنت کے چار فقہی مذاہب میں سے ایک ہے۔ اس مذہب کو اہلِ حدیث کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ابنِ اثیر نے لفظ شافعی کو شین کے زبر اور فاء کے زیر کے ساتھ یعنی شَفِعی ضبط کیا ہے۔[1] یہ مذہب حنفیہ کے بعد اہلِ سنت کا سب سے بڑا فقہی مذہب ہے، اور دیگر اہلِ سنت مذاہب کی طرح احکامِ شرعیہ میں ایک منظم فقہی نظام رکھتا ہے، جس کی بنیاد محمد بن ادریس (امام شافعی) نے رکھی۔
نیز شافعی مذہب کے پیروکار اہلِ سنت کے دیگر مذاہب، یعنی حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے ساتھ پوری دنیاے اسلام میں پائے جاتے ہیں۔[2][3][4][5]. شافعیہ کو بعض دیگر ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے، جیسے شفعویہ اور شوافع۔ شفعویہ غالباً شافعیہ ہی کا دوسرا نام ہے اور یہ اہلِ حدیث کے مکاتب میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔[6][7] روایت میں آیا ہے کہ دمشق کے لوگ اہلِ حدیث کے مذہب کے پیرو تھے اور ان کے فقہاء شفعویہ سے تعلق رکھتے تھے۔[8].
شافعیه کے بانی
اس فقہی مکتب کے بانی محمد بن ادریس شافعی ہیں، جن کا نسب ان کے آبائی اجداد میں سے شافع بن سائب سے ملتا ہے۔ آپ کی ولادت 150 ہجری قمری میں فلسطین کے شہر غزہ میں ہوئی۔ آپ کے والد آپ کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد وفات پا گئے، چنانچہ آپ اپنی والدہ کے ساتھ بچپن ہی میں مکہ مکرمہ ہجرت کر گئے اور وہیں مقیم ہو گئے۔[9]
محمد بن ادریس نے اپنی علمی اور فقہی تعلیم کا آغاز مسلم بن خالد زنجی سے کیا، جو مکہ کے مفتی اور مسجد الحرام کے امام جماعت تھے۔ رفتہ رفتہ آپ نے فقہ میں اعلیٰ مہارت حاصل کر لی اور مسجد الحرام میں تدریس کا آغاز کیا۔ فقہ میں مہارت کے ساتھ ساتھ آپ ادبی علوم میں بھی صاحبِ اسلوب تھے۔
اسی دوران آپ نے مدینہ منورہ کا سفر کیا اور وہاں امام مالک بن انس، جو مالکی مذہب کے سربراہ تھے، کے خاص شاگرد بنے۔ بعد ازاں بعض حالات و واقعات کے نتیجے میں آپ کو بغداد جانا پڑا، جہاں آپ کو حنفی مذہب کے بڑے فقہاء سے ملاقات اور استفادہ کا موقع ملا، نیز امام مالک کے فقہی مکتب سے بھی قریب سے آشنائی حاصل ہوئی، جو زیادہ تر نص اور حدیث پر مبنی تھا۔ اسی طرح آپ عقلگرا فقہاء، جنہیں اصطلاحاً اہلِ رائے کہا جاتا ہے، کے فقہی افکار سے بھی واقف ہوئے۔
اس کے بعد امام شافعی کا علمی سفر زیادہ تر مکہ اور بغداد کے درمیان رہا۔ بالآخر آپ 199 ہجری قمری میں مصر تشریف لے گئے اور وہیں اقامت اختیار کی، یہاں تک کہ 204 ہجری قمری میں آپ کا انتقال ہو گیا۔[10].
شافعیہ کے پیروکار
شافعی فقہ کے زیادہ تر مقلدین اصولِ عقائد میں اشعری کلامی مبانی کی پیروی کرتے ہیں۔ تاہم ابوالحسن اشعری (اشاعرہ کے مکتبِ فکر کے بانی) خود فقہی امور میں شافعی المسلک تھے، اور اسی گروہ کے اعتقادی اصولوں کو کلامی دلائل کے ذریعے ثابت اور مضبوط کرنے کے لیے انہوں نے اشعری مذہب کی بنیاد رکھی۔[11] اسی طرح اہلِ سنت کے بعض نامور متکلمین، جیسے امام جوینی، امام غزالی، فخرالدین رازی اور امام سیوطی بھی شافعی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔[12].
شافعیہ کی جغرافیائی تقسیم
موجودہ دور میں شافعی مذہب کے پیروکار بیشتر اسلامی ممالک میں پائے جاتے ہیں، تاہم مصر، یمن، انڈونیشیا اور نیز کرد نشین علاقوں میں اس مذہب کے ماننے والوں کی تعداد نسبتاً زیادہ اور نمایاں ہے۔[13][14] اس کے علاوہ شافعی اور مالکی مذاہب کے اکابر علماء کو مصر کی جامعہ الازہر میں اساتذہ اور مشائخ کے درمیان نمایاں اور بالادست مقام حاصل ہے۔[15]
شافعی مذهب کی خصوصیات
امام شافعی کا فقہی رجحان اہلِ حدیث اور اہلِ رائے کے درمیان ایک معتدل راہ ہے، کیونکہ انہوں نے امام ابو حنیفہ کے رجحان کو امام مالک کے رجحان کے ساتھ یکجا کیا۔ یعنی ایک طرف وہ اصول و مبانی کے اعتبار سے کسی حد تک ابو حنیفہ سے متفق تھے اور دوسری طرف حدیث کی قدر و قیمت میں امام مالک کے ہم نوا تھے۔ یہاں تک کہ عراق اور خراسان میں وہ اہلِ حدیث کے طور پر مشہور ہوئے اور بغداد کے لوگوں نے انہیں «یاورِ سنت» کا لقب دیا۔
امام شافعی نے جب حجاز اور عراق کے دو طریقوں (حدیث اور رائے) کے درمیان اختلاف دیکھا تو اس بارے میں اپنا موقف واضح کرنے اور ایک مستقل منہج اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔ اسی بنا پر انہوں نے حدیث اور بعض ضمنی مصادر سے استدلال کا ایک واضح پروگرام اپنایا، اس کا دفاع کیا اور اپنے مخالفین پر، خواہ وہ عراقی ہوں یا حجازی، تنقید کی۔
امام شافعی نے کتاب و سنت کے متون کو سمجھنے میں ظاہر کو معتبر ماننے کا مسلک اختیار کیا اور ظاہر سے آگے نہیں بڑھے، کیونکہ ان کے نزدیک ظاہر کے علاوہ کسی اور چیز کو بنیاد بنانا گمان اور وہم پر اعتماد کرنا ہے، جو بہت سی غلطیوں اور بہت کم درست نتائج کا سبب بنتا ہے۔ نیز احکام کو اس چیز پر قائم ہونا چاہیے جو دلیل کے دائمی اور غالب نتائج ہوں، نہ کہ ان امور پر جو کبھی کبھار دلیل سے نکل آتے ہیں۔
امام شافعی کے اصول اور مصادرِ استنباط میں عملی اور نظری دونوں پہلو باہم جمع ہیں۔ وہ فرضی مسائل کو اہمیت نہیں دیتے تھے اور صرف ان واقعی امور کے احکام پر بحث کرتے تھے جن کا خارجی وجود ہو۔ اسی لیے ان کے فقہ میں فرضی مسائل بہت کم پائے جاتے ہیں۔ امام شافعی کے اقوال میں ان کے قدیم اور جدید آرا کے درمیان بہت اختلاف ہے، یہاں تک کہ بعض مسائل میں انہوں نے تین آرا پیش کی ہیں۔ یہی اختلاف فقہِ شافعی کی پویائی اور زندگی کا سبب بنا اور ان کے بعد کے مجتہدین کو مختلف آرا کے سامنے لا کھڑا کیا تاکہ وہ حالات و ظروف کے مطابق جس رائے کو زیادہ مناسب سمجھیں، اختیار کریں۔
امام شافعی کے نزدیک دینی قیادت صرف دو شرطوں کے ساتھ قابلِ قبول ہے:
- الف) رہبر کا قریشی ہونا
- ب) عوام کا اس پر متفق ہونا
امام شافعی بیعت کے بغیر قیادت کو، ضرورت کے وقت کے سوا، ناجائز سمجھتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ حضرت علیؑ کی خلافت کو برحق مانتے ہیں اور ان کے مخالفین، جیسے معاویہ اور ان کے پیروکاروں کو «اہلِ بغی» قرار دیتے ہیں۔ وہ حضرت علیؑ کی جمل، صفین اور نہروان کی جنگوں کو دینی جنگیں سمجھتے ہیں، تاہم اس کے باوجود ان پر دشنام کو جائز نہیں سمجھتے۔
امام شافعی کے نزدیک حدیث کا اطلاق صرف رسولِ خدا ﷺ کے قول پر ہوتا ہے۔ صحابۂ کرام اور اہلِ بیتِ رسول ﷺ سے شدید محبت، مذہبِ شافعی کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے۔ شافعیہ اولیائے الٰہی کے ذریعے توسل اور تبرک کے قائل ہیں اور ان کی کرامات کا انکار نہیں کرتے۔ جمعہ، جماعت اور مسلمانوں کے دو بڑے عیدین کی نمازوں کی پابندی بھی شافعیہ کی خصوصیات میں سے ہے۔ قابلِ ذکر ہے کہ فقہِ شافعی میں ہر شہر میں صرف ایک نمازِ جمعہ قائم کی جانی چاہیے۔[16]
متعلقه تلاشیں
حوالہ جات
- ↑ ابن اثیر، اللباب فی تهذیب الانساب، ج 2، ص 175.
- ↑ ابوالقاسم بلخی، بیان الادیان، ص 61.
- ↑ جمعی از نویسندگان، دائرة المعارف الاسلامیة، ج 13، ص 72.
- ↑ احمد امین، ضحی الاسلام، ج 2، ص 168.
- ↑ محمد بن احمد خوارزمی، مفاتیح العلوم، ص 46.
- ↑ محمدجواد مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، مشهد، انتشارات آستان قدس رضوی، سال 1372 ش، چ دوم، ص 257.
- ↑ عبدالجلیل رازی، النقض، ص 457.
- ↑ شمسالدین ابوعبدالله محمد بن احمد مقدسی، احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم، ص 154.
- ↑ محمد ابوزهره، تاریخ المذاهب الاسلامیة، ص ۴۰۷ - ۴۰۹.
- ↑ وهبة الزحیلی، المذهب الشافعی، انتشارات مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، المذاهب الاسلامیة الخمسة، ص ۴۹۴ - ۴۹۸.
- ↑ محمدجواد مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، مشهد، انتشارات آستان قدس رضوی، سال 1372 ش، چ دوم، ص ۵۵.
- ↑ وهبة الزحیلی، وهبة الزحیلی، المذهب الشافعی، انتشارات مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، المذاهب الاسلامیة الخمسة، ص ۵۲۳ - ۵۲۶.
- ↑ همان، ص ۵۴۲ – ۵۴۵.
- ↑ رضا اسلامی، مدخل علم فقه، قم، ص ۴۷۵.
- ↑ همان، ص۵۲۷.
- ↑ شافعی مذهب کی خصوصیات( زبان فارسی) درج شده تاریخ: ... اخدشده تاریخ: 23/دسمبر/2025ء