وفاق المدارس الشیعہ پاکستان
وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، شیعہ دینی مدارس کا واحد تعلیمی بورڈ ہے جسے پاکستان میں شیعہ دینی مدارس کے باہمی روابط کی خاطر سنہ 1958 کو جامعۃ المنتظر لاہور میں منعقد شیعہ علماء کے ایک ملک گیر اجلاس میں بنایا گیا۔ یہ ادارہ مارچ سنہ 1979 میں حکومت پاکستان کی جانب سے مختلف مکاتب فکر کے مدارس کو منظم کرنے کے لئے تشکیل دی جانے والی کمیٹی کا رکن بنا۔ شیعہ دینی مدارس کے لیے مشترکہ تعلیمی نصاب مرتب کرنا، سالانہ تعطیلات اور امتحانات کے نظام الاوقات کا اعلان، مختلف تعلیمی سطوح سے فراغت کے بعد طلباء کے لئے تعلیمی اسناد جاری کرنا، اسی طرح میٹرک سے لے کر ایم اے تک کی مساوی اسناد جاری کرنا اس ادارے کے بنیادی امور میں سے ہیں۔
تاسیس
پاکستان میں سنہ 1950 کی دہائی میں شیعہ مدارس کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہونے لگا تو سید صفدر حسین نجفی نے ان مدارس کے مابین ہماہنگی اور جامع نصاب ترتیب دینے کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے سنہ1958 میں وفاق المدارس کا ابتدائی ڈھانچہ مرتب کیا [1] اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں مدارس دینیہ کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن شیعہ مدارس دینیہ کی تاریخ کے مطابق موجودہ پاکستان میں سنہ 1914 میں شہر چکرالہ اور میانوالی میں دو دینی مدرسوں کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے بعد سنہ1925 میں ملتان میں مدرسہ علمیہ باب العلوم، سنہ1941 میں مدرسہ مخزن العلوم الجعفریہ، سنہ1951 میں سرگودھا میں مدرسہ محمدیہ، لاہور میں جامعہ امامیہ اور سنہ1954 میں لاہور میں جامعۃ المنتظر کی بنیاد رکھی گئی [2].
وفاق المدارس کی تاریخ
سنہ1958 میں سید صفدر حسین نجفی نے وفاق المدارس کا ابتدائی ڈھانچہ مرتب کیا اور امور کو مرحلہ وار انجام دینے کے لیے ایک تنظیم "مجلس نظارت شیعہ پاکستان" کے نام سے وجود میں لائی گئی۔ اس کے پہلے اجلاس میں شیعہ مدارس کے تعلیمی نظم و نسق کو چلانے کی ذمہ داری نصیر حسین نجفی کے سپرد کی گئی [3] .
سنہ1962 میں محمد حسین نجفی اس کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ مجلس نظارت کی کوئی خاص کارکردگی سامنے نہ آنے کی وجہ سے 17نومبر1976 کو پیر محمد ابراہیم کے زیر صدارت مدرسہ جعفریہ کراچی میں بین المدارس کے تیسرے اجلاس میں طے پایا کہ جامعہ المنتظر کا مجوزہ تعلیمی نصاب تمام شیعہ مدارس کے لیے لازم الاجراء ہوگا۔ پیر محمد ابراہیم کی وفات کے بعد یہ اقدام عملی نہیں ہوسکا۔
جنوری 1979 میں حکومت نے قومی کمیٹی برائے دینی مدارس بنائی جس میں تمام مدارس کے مشترکہ نصاب اور اسناد کے اجرا پر غور و خوض کیا گیا۔ اس کمیٹی میں دیگرمکاتب فکر کے علاوہ شیعہ مدارس کی نمائندگی علامہ سید صفدر حسین نجفی اورمولانا شبیہ الحسنین محمدی نے کی۔
29، 30 مارچ 1979 کو جامعۃ المنتظر میں تمام شیعہ مدارس کا عظیم اجتماع منعقد ہوا۔ جس میں حکومت سے مربوط اموراور دینی مدارس کے دیگر مسائل کے بارے میں غور و فکر کیا گیا۔ اس اجتماع میں متفقہ طور پر دینی مدارس کی باقاعدہ تنظیم کے قیام کو آخری شکل دینے اور اسے فعال بنانے کے فیصلے پر عمل درآمد ہوا اور مجلس نظارت جیسے سابقہ تنظیمی ڈھانچوں کے نتیجے میں وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
ادارے کے سربراہان
اپریل 1981ء میں عزیز المدارس چیچہ وطنی میں وفاق المدارس شیعہ پاکستان کا اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں دیگر امور کے علاوہ تمام علمائے کرام نے متفقہ طور پر علامہ سید صفدر حسین نجفی کو وفاق المدارس کا صدر منتخب کیا اور انہیں اس تنظیم کو فعال بنانے کے مکمل اختیارات سونپ دیے گئے۔ قومی کمیٹی برائے دینی مدارس کی 55 باقاعدہ نشستوں میں جامعہ کی نمائندگی کرتے ہوئے علامہ صاحب کی باقاعدہ شرکت اور انتھک محنت کے نتیجے میں ایک مشترکہ نصاب کی منظوری اور شیعہ طلبہ کے لیے درجہ سلطان الافاضل کی سند کو ایم۔ اے عربی اسلامیات کے مساوی منظور کرانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔
علامہ نجفی صاحب نے امتحانی بورڈ قائم کیا جس کے فرائض میں باقاعدہ امتحان کے بعد کامیاب طلبہ کو سند جاری کرنا شامل ہے۔ اس سند کی بدولت سینکڑوں شیعہ فارغ التحصیل طلبہ تعلیمی اداروں اور دیگر محکموں میں تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
2 جنوری 1987 کو صدر وفاق المدارس نے دستور کمیٹی اور نصاب کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں دستور کی باقاعدہ منظوری دی اور مرتبہ نصاب پر غور و فکر کے لیے جامعہ میں بزرگ علمائے کرام کی اہم نشست بلائی گئی جس میں اہم دینی مدارس کے اکثر مدرسین اعلیٰ اور اساتذہ نے شرکت فرمائی۔ اس اجلاس میں وفاق کا دستور متفقہ طور پر منظور کیا گیا اور سید صفدر حسین نجفی کو مزید 5 سالوں کے لیے وفاق کی صدارت کے فرائض سونپے گئے۔ دسمبر 1989 میں علامہ صاحب کی وفات کے بعد یہ عہدہ خالی ہو گیا۔
وفاق المدارس شیعہ پاکستان، جامعتہ المنتظر تمام دینی مدارس کی ترجمانی کے فرائض سر انجام دیتا ہے۔ وفاق المدارس شیعہ پاکستان، جامعتہ المنتظر لاہور کی طرف سے شائع شدہ دستور پر ملک بھر بزرگ علمائے کرام کے تائیدی دستخط جامعہ کے تمام مدارس کا نمائندہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ اور اس کے فیصلوں کو تمام مدارس کے علمائے کرام کی حمایت حاصل ہے۔ وفاق المدارس شیعہ پاکستان کے موجودہ سربراہ سید ریاض حسین نجفی صاحب ہیں جنہیں مجلس عاملہ نے 3 اپریل 2000ء کو آیندہ 5 سالوں کے لیے رئیس الوفاق منتخب کیا ہے [4].
نصاب ساز کمیٹی کی تشکیل
ابتدائی ایام میں شیعہ مدارس میں عربی ادبیات، عقائد اور فقہ و اصول کی کتابیں تدریس کی جاتی رہیں۔ وفاق المدارس شیعہ پاکستان نے ان میں بہتری لانے اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق ایک جامع نصاب کی تدوین کے سلسلے میں ایک نصاب سازکمیٹی تشکیل دی جس نے سنہ2007 میں 12 سالہ جامع نصاب تیار کیا جسے شیعہ مدارس کے سربراہان نے سنہ 2009 میں متفقہ طور پر منظور کیا۔ اس کے علاوہ میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے کی مساوی ڈگری جاری کرنے کے سلسلے میں بھی چار مراحل میں نصاب تدوین کیا گیا [5] ۔
ذمہ داریاں
وفاق المدارس شیعہ پاکستان کی بعض ذمہ داریاں مندجہ ذیل ہیں:
- شیعہ مدارس کے لیے نصاب سازی کرنا
- شیعہ مدارس میں مشترکہ نصاب لاگو کرنا
- سالانہ امتحانات کے نظام الاوقات جاری کرنا
- فارغ التحصیل طلاب کو اسناد جاری کرنا
- میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے اسناد کے خواہشمند طلبا کے لیے امتحان کا انعقاد اور اسناد کا اجراء
- سالانہ یا بوقت ضرورت مدارس دینیہ کے اساتذہ کا اجلاس بلانا۔
علمائے اسلام صہیونی مظالم کے بارے میں عوامی شعور بیدار کریں
ایرانی دینی مدارس کے سربراہ آیت اللہ اعرافی نے وفاق المدارس شیعہ پاکستان کے سربراہ آیت اللہ حافظ ریاض کے خط کے جواب میں کہا ہے کہ مقاومت کی حمایت کے ساتھ صہیونی حکومت کے مظالم اور عالمی برادری کے سکوت کے بارے میں عوامی شعور بیدار کرنا علمائے اسلام کی ذمہ داری ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی دینی مدارس کے سربراہ آیت اللہ علی رضا اعرافی نے وفاق المدارس شیعہ پاکستان کے سربراہ آیت اللہ حافظ ریاض حسین نقوی کے خط کے جواب میں کہا کہ فلسطین اور لبنان میں صہیونی حکومت کے مظالم کے بارے میں عوامی شعور کو بیدار کرنا علمائے اسلام کی ذمہ داری ہے۔
آیت اللہ اعرافی نے اپنے خط میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ اور دیگر مقاومتی رہنماؤں اور مقاومتی مجاہدین کی شہادت پر تعزیت پیش کی اور کہا کہ شہید حسن نصر اللہ اور دیگر شہداء نے جرائت اور بہادری کے ساتھ میدان نبرد میں اپنی جان قربان کی اور امت مسلمہ اور مقاومت کو مزید جذبہ عطا کیا۔
انہوں نے کہا کہ سید حسن نصر اللہ کی شہادت سے مقاومت کا پرچم سرنگوں نہیں ہوگا بلکہ پہلے سے زیادہ موثر طریقے سے صہیونی حکومت کی نابودی کے لئے فعالیت کرے گی۔ آیت اللہ اعرافی نے مزید کہا کہ علمائے اسلام کی ذمہ داری ہے کہ مقاومت مخصوصا فلسطین اور لبنان میں صہیونی حکومت کے ساتھ برسر پیکار مجاہدین کی مادی اور معنوی حمایت کریں اور صہیونی مظالم کے بارے میں عالمی برادری کی خاموشی اور بعض مغربی ممالک کی حمایت کے بارے میں دنیا کو آگاہ کریں۔
انہوں نے پاکستانی علماء، دینی جماعتوں اور عوام کی جانب سے مقاومت کی حمایت کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ وہ دن دور نہیں جب دنیا سفاک اور جعلی صہیونی حکومت کا زوال دیکھے گی اور خطے اور عالم اسلام سے شر کا منبع مٹ جائے گا [6]۔
حوالہ جات
- ↑ مرکزی دفتر وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، پانچ سالہ کارکردگی رپورٹ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان(2015تا2021)، 2021، ص5
- ↑ دفتر وفاق المدارس شیعہ پاکستان، معرفی نامہ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، بی تا، ص6
- ↑ دفتر وفاق المدارس شیعہ پاکستان، معرفی نامہ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، بی تا، ص7
- ↑ دفتر وفاق المدارس شیعہ پاکستان، معرفی نامہ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، بی تا، ص10
- ↑ دفتر وفاق المدارس شیعہ پاکستان، معرفی نامہ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، بی تا، ص21
- ↑ آیت اللہ اعرافی کا وفاق المدارس شیعہ پاکستان کے سربراہ کے خط کا جواب؛ علمائے اسلام صہیونی مظالم کے بارے میں عوامی شعور بیدار کریں-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 21 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 اکتوبر 2024ء۔