علی رضا اعرافی
علی رضا اعرافی | |
---|---|
![]() | |
پورا نام | آیت الله اعرافی |
دوسرے نام | ڈاکٹر علی رضا اعرافی |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1338 ش، 1960 ء، 1378 ق |
پیدائش کی جگہ | ایران یزد |
اساتذہ | حاج شیخ مرتضی حائری، آیت الله محمد فاضل لنکرانی، آیت الله وحید خراسانی |
مذہب | اسلام، شیعہ |
مناصب | ، امام جمعہ قم ، ایران کے تمام دینی مدارس کے سربراه، خبرگان رهبری کونسل کے رکن، المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سابق سربراه اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے موجوده رکن، ایران کے ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے ممبر |
علی رضا اعرافی قم کےامام جمعہ ، ایران کے تمام دینی مدارس کے سربراه، خبرگان رهبری کونسل کے رکن، المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سابق سربراه اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے موجوده رکن، ایران کے ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے ممبر اور دیگر دسوں تعلیمی ، ثقافتی اور سماجی ادارات اور تنظیموں کے سربراه یا اهم رکن ہیں ، وه حوزه علمیه قم کے مدرس اور ایران کی اهم یونیورسٹیوں کے اعلی دورس کے ممتاز اساتذه میں سے ہیں۔ انهوں نے اپنی زندگی میں سیاسی اور سماجی نمایاں کارکردگی کے علاوه بے شمار علمی اور تحقیقاتی کارنامے سرانجام دیے ہیں۔
پیدائش
علیرضا اعرافی سنه 1959ء کو ایران ، صوبہ یزد کے شہر میبود کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد آیت اللہ محمد ابراہیم اعرافی رحمۃ اللہ علیہ ان بے باک ، بہادر اور انسان دوست علماء میں سے تھے جنہوں نے خطے میں اسلامی اقدار اور الہامی رسومات کے احیاء میں مرکزی کردار ادا کیا اوروه ایران کی شهنشاهی حکومت کے مذهب مخالف اقدامات اور ناانصافی کے خلاف ایک مضبوط رکاوٹ شمار هوتے تھے۔ آیت الله اعرافی کے والد امام خمینی کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔اسلامی انقلاب سے برسوں پہلے، آپ نے جمعہ کی نماز کا اہتمام اور لوگوں کو مظاهروں کی دعوت اور علاقے اور ملک کے لیے مومن، عالم اور انقلابی نسل کی پرورش کرکے میبود یزد کے عوام کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔ آیت اللہ اعرافی کی والدہ بھی آیت اللہ شیخ کاظم ملک افضلی اردکانی (رح) کی اولاد میں سے تھیں، جو اس وقت کی نیک اور پرہیزگار خواتین میں سے ایک تھیں، جنہوں نے ان کے والد کے ساتھ مل کر بچوں کی پرورش اور اسلامی اہداف کو آگے بڑھانے کے لئے بهت کوشش کی ۔
تحصیل
آیت اللہ اعرافی نے اپنے والد اور دیگر اساتذه کی خدمت میں بچپن کی عمر میں قرآن کریم، عربی گرامر اور احکام کے بنیادی مسائل سیکھنے کے بعد سنه 1970ء کو قم کی طرف ہجرت کی اور با قاعده طور پر عصری تعلیم کے حصول میں مصروف هوگئے اور سنه 1971ء کو حوزوی دورس کا آغاز کیا۔ ان کی ذاتی صلاحیت اور قابل تعریف کوشش کی بدولت انهوں نے کم عرصه میں حوزے کے ابتدائی اور سطح کے دورس کو مکمل کیا.
اس طرح که وه سنه 1977ء کو درس خارج فقه اور اصول کے لئے برزگان حوزه کے دورس میں حاضر هوئے۔آیت اللہ اعرافی ان مذہبی اور شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے مختلف علمی شعبوں میں بہت سے اساتذه کے کے دورس میں شرکت کی اور ان میں سے ہر ایک کے علمی سمندر سے سیراب هوئے۔ انهوں نے درس خارج فقه اور اصول کے لئے آیت اللهالعظمی حاج شیخ مرتضی حائری(ره)، آیت اللهالعظمی فاضل لنکرانی(ره)، آیتاللهالعظمی وحید خراسانی(دامت برکاته) اور آیتاللهالعظمی جواد تبریزی(ره) کی شاگردی اختیار کی ۔ تفسیر کا علم آیت الله میرزا علی مشکینی(ره) سے حاصل کیا اور فلکیات علامه حسنزاده آملی(حفظه الله) سے سیکھے۔ شهید صدر کی کتاب اقتصادنا اور فلسفتنا دونوں آیت الله سید کاظم حائری کے پاس پڑھی۔
وه اپنے تحصیل کے دوران فلسفه کےدورس میں حصه لینے سے باز نهیں آئے ، اسفار اربعه، برهان شفا، فصولالحکم و تمهید القواعد آیت الله جوادی آملی کی خدمت میں پڑھی اور اسفار کا ایک حصه آیت الله شهید مطهری سے حاصل کیا جبکه آیت الله مصباح یزدی سے فلسفه سے متعلق مختلف موضوعات کا علم حاصل کیا ۔ ان تمام سالو ں میں انهوں نے درس اخلاق میں شرکت اور استاتید اخلاق کی خدمت میں حاضری دینے میں کوتاهی نهیں کی اور حوزے کی قدیم روایات کی بنیاد پر تعلیم کے ساتھ ساتھ تهذیب اور تربیت کو بھی اپنے اهداف میں شامل کیا ۔انهوں نے اپنے رفتار اور گفتار میں محاسبه اور مراقبه اور اخلاقیات میں برزگوں خاص اپنے والد کے طرز عمل کی پیروی کرنے کی کوشش کی ۔
علمی اور سماجی خدمات
آیت الله اعرافی کو اپنے دور کے علم اور تقوا کی بلندیوں پر فائز علما اور استاتذه کی شاگردی اختیار کرنے اور ان کے افکار اور نظریات سے آشنا هونے کا شرف حاصل هوا ، ان کی فکری اور اخلاقی بنیاد ، ان علما کی قرآنی آیات اور ائمه معصومین (ع) کے فرامین پر مبنی سیرت سے تشکیل پائی جس کے نتیجے میں جب انهوں نے نئی دنیا کے مختلف علمی شعبوں اور نئے موضوعات کا سامنا کیا تو وه مکمل تیاری کے ساتھ علمی اور فکری میدانوں میں نت نئے سماجی مسائل سے نمٹنے کے لئے ابھرے اور ان تمام میدانوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی.
اس سلسلے میں ان کی عربی اور انگریزی زبانوں کے سیکھنے اور ریاضی اور مغربی فلسفہ، انسانی علوم اورمعاشرتی علوم کے شعبوں میں ان کے بہت سے مطالعے اور ان کتابوں کا مطالعه ( جو عام طور پر حوزے میں رائج نهیں تھا) ،نے انہیں معاشرے کے نئے ماحول کو سمجھنے میں مدد فراہم کی۔ .تا هم حوزه اور دانشگاه تحقیقاتی مرکز کی جانب سے تعلیم و تربیت اور انسانی علوم کے عنوان سے منقده تحقیقاتی دورے میں ان کی شرکت نے ان کو ایک خاکه دیا که نئے مکاتب اور نئے نظریات کے ساتھ کیسے سامنا کرنا هے.
ان کے ساتھ کیسے گفتگو کرنا هےاور کیسے ان پر تنقید کرنا هے؟ سب سے اهم بات یه هے که انهوں نے اس جدو جهد کے نتیجے میں دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کی نئی نسل کی پهچان اور ان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے راهنمائی حاصل کی ۔ اور گزشتہ چار دہائیوں کے دوران بین الاقوامی میدان میں ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں سے ہمیشہ رابطے میں رہے اور مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے هیں.
آیت اللہ اعرافی نے تحصیل کے دوراں چھٹیوں کے وقت تفسیر المیزان اور نہج البلاغہ اور دیگر علمی کتابوں کا مباحثه کیا اور اس کے ذریعےکلام وحی اور معصومین(ع) کے ارشادات کی روشنی میں اپنے فکری، علمی اور اخلاقی بنیادیں مضبوط کی ۔آخر کار اس ثقافتی اور سماجی تحریک نے انہیں تعلیم اور تربیت کے حوالے سے مطالعے اور تحقیق کی طرف راغب کیا۔ اس شعبے کی ضرورت اور اس میں موجود خلا نے کو قدیم کتابوں میں موجود موضوعات کو نئے موضوعات کے ساتھ موازنه کرنے اور ان میں نئے مباحث شامل کرکے فقه التربیه کی تدریس کرنے اور انسانی علوم (بشَریات) اور اس کا فلسفه خاص کر تربیتی علوم اور فلسفه تربیت میں فقه تربیتی، فقه سماجی تعلقات اور فقه اخلاق جیسے ابواب کی تاسیس پر مجبور کیا۔ اس طرح کہ انہیں اسلامی تعلیم و تربیت کے میدان میں جدت اور نظریہ سازی کا عالمی اسلامی ہیومینٹیز ایوارڈ سے نوازا گیا۔
یہ واقفیت برسوں کی تحقیق، تبلیغ اور تدریس کے دوران ہوئی جب ان کا اسفار اربعه اور درس خارج فقه اور اصول کی تدریس کا سلسله جاری تھا اور فقه ، اصول اور فلسفه کے موضوعات پر تدریس کا موقع فراهم هونے اور طلبا کی طرف سے درخواست کی وجه سے حوزه علمیه قم کے ممتاز اساتذه کی جماعت میں شامل هوئے ۔ آیت الله اعرافی مختلف علوم کا از حد مطالعه ، دنیا کے بہت سے ممالک کے علمی اور دینی مدارس کے قریب سے مشاہدہ، بین الاقوامی علمی اور دینی کنفرانسوں اور سمیناروں میں نمایاں شرکت کے علاوه دینی علوم پر مکمل عبور اور حوزے کے اعلی سطح کےدورس کی تدریس کی وجه سے آپ کا شمار ان چند علمی شخصیات میں هوتا هے.
جنهوں نے دینی مدارس کا نئے دور میں داخل هونے اور اسلامی انقلاب کا چوتھی دهائی(یعنی تصادم اور تعامل کا عشره) میں داخل هوتے وقت مختلف سیاسی ، سماجی اور فکری موضوعات کی شناخت اور ان کے حوالے سے مواقع اور خطرات کی تشخیص دینے کا ذمه داری به احسن وجه ادا کی هیں ۔ آیت اللہ اعرافی کے علمی اور انتظامی فرایض اور ذمہ داریاں ان کے مذهبی ، علمی اور اخلاقی مقام کا بہترین اظہار ہیں.
اس طرح کہ وہ ایک ہی وقت میں جامعه مدرسین قم کے رکن ہیں اور حوزے کے بزرگوں ، علماء اور قم کے تعلیمی مراکز کے ساتھ ان کے تعلقات برقرار هونے کے ساتھ ساتھ قم کے امام جمعه هونے کی وجه سے عوام کے ساتھ بھی ان کے گهرے تعلقات هیں جبکه ملک بھر کے مدارس کے انتظامی امور کے سربراه هونے کے ناطے پورے ملک کے ممتاز علمی اور سماجی شخصیات سے همیشه رابطے میں رهتے ہیں۔
سیاسی بصیرت
آیت اللہ اعرافی جو خود جہاد اور اجتہاد کے گھر میں پلے بڑھے اور بچپن سے ہی اپنے والد کی جدوجہد اور انقلاب کے حامیوں کی اپنے گھر میں موجودگی کو دیکھتے رہے هیں، انقلاب کی فتح کے دوران انقلابیوں کے ساتھ همراهی اور همکاری کا تجربه بھی کیا اور 16 سال کی عمر میں انهی انقلابی کار ناموں کی وجه سے ان کو جیل میں بھیجا گیا۔ انقلاب کی فتح کے بعد انہوں نے حاصل شدہ اقدار کے دفاع میں ایک لمحہ بھی آرام نہیں کیا۔
مقدس دفاعی سالوں میں وہ کئی بار محاذ جنگ پر حاضر ہوئے اور اسلام کے جنگجوؤں کی حوصلہ افزائی کی۔ دشوار حالات میں ولایت مداری کے جذبے کے ساتھ شہداء کے خون اور حاصل شدہ اقدار کی حفاظت کرتے ہوئے عوام کے شانہ بشانہ کھڑے رہے اور فرض شناسی کی بنیاد پر اسلام اور انقلاب نے جو ذمه داری ان کے کندھوں پر ڈالی ان کی ادائیگی میں کبھی کوتاهی نهیں کی۔ .
ولایت فقیه کی حمایت ، شہداء کے خون سے حاصل ہونے والی الہی اور انسانی اقدار کا تحفظ، مذہبی جمہوریت اور قانون اور عوام کے ووٹ کا احترام، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے معاشرتی عارضوں سے نمٹنے اورسیاسی میدان میں اسلامی اخلاقیات اور شائستگی کا خیال رکھنا وغیره ان کے سیاسی اور سماجی تحفظات میں شامل تھے۔
عهدے اور ذمه داریاں
- شهر مقدس قم کے امام جمعه
- ایران کے تمام دینی مدارس کے سربراه
- شورای نگهبان کی فقها کمیٹی کے رکن
- خبرگان رهبری کونسل کے رکن
- المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سابق سربراه اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن
- ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے رکن
- وزارت تعلیم کے ثقافتی شعبے کے ممبر
- حوزه و دانشگاه تحقیقاتی مرکز کے سربراه
- حوزه و دانشگاه تحقیقاتی مرکز کے تحقیقاتی مشیر
- امام خمینی تعلیمی اور تحقیقاتی مرکز کے تربیتی علوم شعبے کے مدیر
- حوزه علمیه قم کے انتظامی مرکز کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن
- یزد صوبے کے شهر میبد کے امام جمعه
- پیام نور یونیورسٹی اور الهیات کالج کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن
- "هدی" انٹر نیشنل فاونڈیشن کے سربراه
- حوزه علمیه قم کے انتظامی اور تحقیقاتی امور کے سربراه
- حوزه و دانشگاه ششماهی رساله کے چیف اڈیٹر
- جامعه مدرسین قم کے رکن
- مؤسسه اشراق اور عرفان کے موسس، سربراه اور انتظامی گروه کے ممبر
تالیفات اور تحقیقاتی فعالتیں
آیت الله اعرافی نے اپنی با برکت عمر میں تحقیق کے شعبے میں بھی نمایاں کارکردگی دیکھائی ہیں اور وقت کی ضرورت، اسلامی بنیادوں پر ہونے والے جدید اعتراضات کے جواب اور نئی نسل کے فکری اور ذهنی خلا کو اسلامی تعلیمات سے پورا کرنے کے لئے نئے موضوعات پر بهت سے کتابیں لکھی ہیں:
- مجسمه و نقاشی
- وحدت حوزه و دانشگاه
- فقہ تربیتی
- بررسی فقهی فلسفہ ورزی و فلسفہ آموزی
- قواعد فقهیہ
- نفاق شناسی
- احکام تربیت فرزند
- درآمدی بر تفسیر ترتیبی
- ضمیر نا خود آگاه در قرآن
- روشهای دربیت
- هرمنوتیک
- در آمدی بر اجتهاد تمدن ساز
- حوزه علمیه چیستی ، گذشته ، حال و آینده
- قلمرو دین و گستره شریعت
- بررسی فقهی سب و دشنام
- خورشید عاشورا
- تبلیغ
- شیطان شناسی
اتحاد کی اهمیت اور ضرورت آیت الله اعرافی کی نظر میں
آیت اللہ اعرافی نے 27/ جنوری / 2013ء کو "المصطفی یونیورسٹی" نیوز سنٹر میں ایک تقریر کے دوران عالم اسلام کے دو بڑے خطرات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا: آج عالم اسلام کو دو بڑے خطرات لاحق ہیں، پہلا خطرہ اسلامی ممالک کی سرحدوں کی تقسیم کا ہے، جو سوڈان میں ہوا ۔ سوڈان ایک عظیم اسلامی ملک تھا جس کو دو ملکوں میں تقسیم ہو گیا، اور شام میں بھی دشمن کا یہ منصوبہ، جو کہ مزاحمت کا محور ہے اور ترکی، بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان میں بھی عملی کرنا چاهتا هے۔ مذہبی اختلاف اسلامی ممالک کو دشمنوں کی طرف سے دوسرا بڑا خطرہ ہے۔ دشمن، اسلامی ممالک کے درمیان نسلی اور مسلکی اختلافات پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ امت اسلامیہ سے ایمان اور اسلام کی طاقت چھین لیں تاکہ ان کے خلاف سانس لینے کی طاقت خطے میں باقی نہ رہے، لیکن شیعه اور سنی دونوں مکتب فکر کے ماننے والوں کو فکری اختلافات کے با وجود اس لئے که ان دونوں کا تعلق اسلام سے ہے ، انہیں اپنے اتحاد اور یکجہتی کو برقرار رکھنا چاہیے۔ [2]
استکبار کے خلاف جدوجہد کا علم اسٹوڈنٹس کے ہاتھ سے کبھی جھک نہیں پائے گا
حوزہ علمیہ کے سرپرست نے "اسٹوڈنٹ ڈے" کے موقع پر جاری اپنے پیغام میں کہا: استکبار کے خلاف جدوجہد کا علم اسٹوڈنٹس کے ہاتھ سے کبھی نہیں گرے گا اور ہمیشہ اور آخری حجت الٰہی کے ظہور تک یہ جدوجہد پوری قوت کے ساتھ جاری رہے گی۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ کے سرپرست آیت اللہ علی رضا اعرافی نے "6 دسمبر اسٹوڈنٹس ڈے" (یہ دن 16 آذر 1332 ہجری شمسی / 7 دسمبر 1953ء کو تہران یونیورسٹی کے تین طلباء کے قتل کی برسی ہے۔
یہ دن ان تین طالب علموں کی یاد میں منایا جاتا ہے جو 16 آذر 1332 کو اس وقت امریکہ کے نائب صدر رچرڈ نکسن کے سرکاری دورے کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے شہید کر دئے گئے تھے) کے موقع پر پیغام جاری کیا ہے جس کا متن حسب ذیل ہے:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
«قُلْ إِنَّمَا أَعِظُکُمْ بِوَاحِدَةٍ ۖ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَیٰ وَفُرَادَیٰ ثُمَّ تَتَفَکَّرُوا» "کہہ دو، میں تمہیں ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کی خاطر دو دو اور اکیلے اکیلے اٹھ کھڑے ہو جاؤ، پھر غور و فکر کرو۔" (سورہ سبأ، آیت 46)
16 آذر 1332 (7 دسمبر 1953ء) ایران کی تاریخ کے ان یادگار دنوں میں سے ایک ہے جو ملتِ ایران کی استکبار کے خلاف جدوجہد اور مقاومت کی علامت ہے۔ یہ دن ہمیشہ ایران کے کیلنڈر میں یادگار رہے گا۔ یہ قابلِ فخر دن ایران کے نوجوانوں اور اسٹوڈنٹس کو مبارک ہو۔
16 آذر کے واقعہ میں، جہاں طلبہ نے اس وقت کے امریکی نائب صدر نکسن کی ایران آمد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، وہیں اس تحریک کی جڑیں مزید مضبوط ہوئیں۔ انقلاب سے قبل یہ تحریک پروان چڑھی اور آج یہ ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔
اسٹوڈنٹس کسی بھی معاشرے میں ترقی، پختگی اور سماجی توانائی کی علامت ہیں۔ 16 آذر کا دن ان کی عظمت اور مقام کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا بہترین موقع ہے۔
ایران کی تیز رفتار ترقی، جو آج تعلیمی اداروں کے علمی ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے، امید اور روشنی کے سفر کو آگے بڑھا رہی ہے اور یہ حرکت رُکنے والی نہیں۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کی جانب سے شروع کی گئی فلسطین کی حمایت آج مشرق و مغرب میں پھیل چکی ہے۔ دنیا بھر کے اسٹوڈنٹس کی فلسطین اور غزہ کے مظلوم عوام کے حق میں تحریکیں اور اسرائیل کے مظالم کے خلاف احتجاج عالمی سطح پر انصاف کی جدوجہد کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ تحریکیں امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کی راہ ہموار کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔
اگر اسٹوڈنٹس اپنے کسی بھی سیاسی رجحان کے باوجود اگر دشمن کی سازشوں کو حقیقی طور پر پہچانیں اور ان عناصر کا خاتمہ کریں جو یونیورسٹیز کے علمی ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں، تو وہ یقیناً استکبار اور اس کے مخفی ایجنٹوں کے خلاف ایک ثقافتی اور سیاسی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔
16 آذر استکبار کے خلاف قربانی دینے والے شہداء کی یاد کا دن ہے۔ اسٹوڈنٹس ان پاکیزہ خونوں کے محافظ ہیں اور اپنے شہید ساتھیوں کے راستے کو جاری رکھنے کے سب سے زیادہ اہل ہیں۔
ہم 16 آذر کے شہداء، دفاع مقدس کے شہداء اسٹوڈنٹس اور اپنے شہید سائنسدانوں جیسے ڈاکٹر علی محمدی، محسن فخری زادہ، داریوش رضائی نژاد، مجید شہریاری، اور مصطفی احمدی روشن کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ استکبار کے خلاف جدوجہد کا علم اسٹوڈنٹس کے ہاتھ سے کبھی نہیں گرے گا۔ یہ جدوجہد ہمیشہ جاری رہے گی اور حجت الٰہی کے ظہور تک مضبوطی سے آگے بڑھتی رہے گی۔
علی رضا اعرافی
مدیر حوزہ علمیہ
06 دسمبر 2024ء[3]۔
اہل سنت ائمہ جمعہ و جماعت سے خطاب
امت واحدہ کی تقویت کے لیے علمی و فکری مراکز کے دروازے کھلے رکھنے کی ضرورت۔ حوزہ علمیہ ایران کے سربراہ نے اہلسنت علماء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج صرف اسلام نہیں بلکہ تمام دینی افکار حملوں کی زد میں ہیں، لہذا امت واحدہ کی تقویت کے لیے علمی و فکری مراکز کے دروازے کھلے رکھنے کی ضرورت ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ ایران کے سربراہ آیت اللہ علی رضا اعرافی نے کردستان کے اہلسنت ائمہ جمعہ و جماعت کے ایک وفد سے ملاقات میں کہا کہ آج کے دور میں نہ صرف اسلام بلکہ تمام دینی افکار کو حملوں اور خطرات کا سامنا ہے۔ انہوں نے تاکید کی کہ توحیدی ادیان، خاص طور پر مسلمانوں کو، ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد اور تعامل کو فروغ دینا چاہیے۔
یہ ملاقات قم میں سربراہ حوزہ علمیہ ایران کے دفتر میں ہوئی، جہاں آیت اللہ اعرافی نے امت واحدہ کی تشکیل اور وحدت کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ علمی اور فکری مراکز کو تمام اسلامی مذاہب کے لیے کھلا ہونا چاہیے تاکہ امت اسلامی کو مضبوط کیا جا سکے۔ آیت اللہ اعرافی نے "جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ادارے نے شیعہ، اہل سنت، اور مشترکہ مراکز کے ذریعے اسلامی مذاہب کے مابین علمی اور فکری تعامل کو فروغ دیا ہے، جو دنیا میں اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ علمی نظامات ایسے ہونے چاہئیں جو مکالمے، تعامل، اور باہمی تعاون کو فروغ دیں۔ اس سلسلے میں، الازہر مصر اور دنیا کے دیگر دینی مراکز کو دعوت دی کہ وہ اس ماڈل کو اپنائیں۔ آیت اللہ اعرافی نے کہا کہ امت اسلامیہ کی شناخت اور اس کی تقویت بنیادی حیثیت رکھتی ہے، لہذا اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسلامی مذاہب ایک دوسرے کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھیں اور اس حوالے سے جامعۃ المصطفیٰ میں اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ علمی و فکری مراکز کے درمیان مکالمے اور امت واحدہ کی شناخت کو مضبوط کرنے کے لیے دروازے کھلے رکھنا ضروری ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان تعامل اور مشترکہ کام کو دنیا کے موجودہ حالات کے مطابق فروغ دینا چاہیے۔
آخر میں، آیت اللہ اعرافی نے تاکید کی کہ تمام اسلامی مذاہب کو آج کے دنیاوی چیلنجز پر توجہ دینی چاہیے اور اتحاد و ہم آہنگی کے ذریعے ان کا سامنا کرنا چاہیے۔ اس ملاقات کے آغاز میں، ائمہ جمعہ و جماعت اہل سنت کردستان نے امت مسلمہ کی وحدت کے حوالے سے اپنی آراء اور تجاویز پیش کیں[4]۔
جدید عالمی مسائل کا حل فراہم کرنا حوزہ علمیہ کی اہم ذمہ داری ہے
سربراہ حوزہ علمیہ ایران آیت اللہ علی رضا اعرافی نے کہا کہ حوزہ علمیہ کو اپنی اصل شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے جدید وسائل، خاص طور پر میڈیا اور علمی میدان میں، اسلامی تعلیمات کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے گزشتہ شب قم المقدسہ میں جامعہ مدرسین کے اجلاس میں خطاب کیا، انہوں نے علماء، شہداء، اور اسلامی تحریک کے مجاہدین کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حوزہ علمیہ کو ایک موثر ادارے کے طور پر اسلامی معاشرے میں اپنا مقام مضبوط کرنا چاہیے۔
حوزہ علمیہ کی ثقافتی اہمیت
انہوں نے اسلامی ثقافت میں مدارس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ ادارے ہمیشہ اسلامی علوم، دینی تعلیمات، اور اہل بیت علیہم السلام کی معرفت کے تحفظ اور ترویج میں مرکزی کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ نہ صرف دینی علوم میں بلکہ انقلاب اسلامی اور اسلامی اقدار کے دفاع میں بھی ان کا کردار نمایاں ہے۔
عالمی میدان میں مدارس کا کردار
آیت اللہ اعرافی نے کہا کہ حوزہ علمیہ کو عالمی سطح پر اسلامی تعلیمات کے علمی اور ثقافتی مراکز کے طور پر پہچانا جانا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ مدارس عالمی تبدیلیوں اور چیلنجوں کے پیشِ نظر اسلام کا حقیقی پیغام دنیا تک پہنچائیں۔
رہبرِ معظم کی ہدایات
انہوں نے رہبرِ معظم انقلاب کی ہدایات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ رہبر ہمیشہ حوزہ کے علمی، اخلاقی، اور سماجی کردار پر زور دیتے ہیں اور ان کی ترقی کے لیے قیمتی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
جدید تقاضوں کا جواب
آیت اللہ اعرافی نے کہا کہ آج کا دور ٹیکنالوجی، ثقافت، سیاست، اور معیشت میں بڑی تبدیلیوں کا ہے۔ مدارس کو جدید طریقوں اور وسائل کے ذریعے اسلامی معارف کو دنیا بھر میں موثر انداز میں پیش کرنا چاہیے۔ جدید عالمی مسائل کا حل فراہم کرنا حوزہ علمیہ کی اہم ذمہ داری ہے۔
عوام سے رابطہ مضبوط کرنا
انہوں نے عوام سے حوزہ کے تعلق کو مزید مستحکم کرنے اور سماجی مسائل کے حل میں عملی کردار ادا کرنے پر زور دیا تاکہ عوام کا اعتماد بڑھایا جا سکے۔
حجت الاسلام رحیمیان کی خدمات کا اعتراف
انہوں نے حجت الاسلام والمسلمین رحیمیان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی تاکید کی اور حجت الاسلام والمسلمین فرخفال کو حوزہ علمیہ کے دبیرخانہ کے نئے ذمہ دار کے طور پر متعارف کرایا۔ انہوں نے کہا: مدارس دینی کو آج کے عالمی چیلنجز کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اسلامی معارف کو مؤثر طریقے سے پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی تمدن کو تقویت دی جا سکے[5]۔
شامی عوام اپنی عزت اور خودمختاری کا خاتمہ برداشت نہیں کریں گے
قم المقدسہ میں نماز جمعہ کے خطیب آیت الله علی رضا اعرافی نے کہا کہ نرم اور ادراکی جنگ میں سب سے اہم کام قوموں کی تاریخی شناخت کو مٹانا ہے، ہر خاندان اور قوم کی ایک تاریخی پہچان اور شناخت ہوتی ہے، جو ان کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری ہے، اور اگر یہ شناخت ان سےچھین لی جائے تو وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ میں نماز جمعہ کے خطیب آیت اللہ علی رضا اعرافی نے کہا کہ نرم اور ادراکی جنگ میں سب سے اہم کام قوموں کی تاریخی شناخت کو مٹانا ہے، ہر خاندان اور قوم کی ایک تاریخی پہچان اور شناخت ہوتی ہے، جو ان کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری ہے، اور اگر یہ شناخت ان سے چھین لی جائے تو وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے اپنے خطبے میں کئی اہم موضوعات پر روشنی ڈالی، جن میں نرم جنگ، تاریخی شناخت، اعتکاف، اور عبادات میں معرفت کی اہمیت شامل ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ دشمن، خاص طور پر موجودہ دور میں، نرم اور ادراکی جنگ کے ذریعے قوموں کی شناخت اور تاریخی پہچان کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ تبدیلیاں قومی اور تاریخی شناخت کو کمزور کرنے کے مقصد سے کی جاتی ہیں تاکہ استعمار کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ تاریخی شناخت میں تاریخی آگاہی، کامیابیاں، اور قوم کی شناخت کے مؤثر عناصر شامل ہیں، اور اگر یہ چیزیں ختم ہو جائیں تو معاشرہ زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ کامیابیوں کو کم کرنا، کمزوریوں کو نمایاں کرنا، اور تاریخ کو تحریف کرنا دشمن کے نرم جنگ کے اہم ہتھکنڈے ہیں۔ آیت اللہ اعرافی نے زور دیا کہ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے آگاہی، بصیرت، اور قومی و مذہبی اقدار کو محفوظ رکھنے کی کوشش ضروری ہے۔
خطبے کے ایک اور حصے میں، انہوں نے اعتکاف کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اسے خدا کے ساتھ خلوت اور روحانی تقویت کا ایک موقع قرار دیا۔ اعتکاف نہ صرف ایک انفرادی عبادت ہے، بلکہ یہ ایک ثقافتی اور سماجی تحریک بھی ہے جو معاشرے کی ترقی میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
آیت اللہ اعرافی نے عبادات میں معرفت کی اہمیت پر بھی بات کی اور کہا کہ عبادت بغیر معرفت اور بصیرت کے نامکمل ہے۔ انہوں نے عبادت میں معرفت کے چار پہلوؤں کا تذکرہ کیا: خدا کی معرفت، عبادات کے اسرار اور باطن کی معرفت، عبادات کے احکام اور آداب کی معرفت، اور عبادات کے نتائج اور فوائد کی معرفت۔ انہوں نے زور دیا کہ عبادت میں جتنی زیادہ معرفت ہو گی، عبادت اتنی ہی زیادہ قیمتی اور خالص ہو گی۔
آخر میں، انہوں نے دشمنوں کے خلاف مزاحمت اور قوموں کی خودمختاری اور عزت کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ آزاد دنیا کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہوشیار رہیں اور دشمنوں کی سازشوں کے خلاف ڈٹ جائیں[6]۔
ادارہ ISC عالم اسلام کے لیے ایک اسٹریٹجک اقدام / قم میں 6 ہزار محققین سرگرم ہیں
سربراہ حوزہ علمیہ ایران، آیت اللہ علیرضا اعرافی نے کہا کہ Institute for Science Citation (ISC) کا قیام ایران اور عالم اسلام کے لیے ایک اسٹریٹجک، اہم اور بنیادی اقدام ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہفتہ، 25 جنوری کی شام، ادارہ آئی ایس سی کے سربراہ اور معاونین سے ملاقات کے دوران، سربراہ حوزہ علمیہ ایران آیت اللہ اعرافی نے کہا: "میں اس ادارے کے قیام کے آغاز سے اس کے پروگراموں سے کسی حد تک آگاہ رہا ہوں۔ اس ادارے نے نہ صرف ایران بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک شاندار خدمت انجام دی ہے، جس پر تعریف اور شکریہ واجب ہے۔"
انہوں نے مزید کہا: "یہ اقدام ایک اسٹریٹجک اور اہم کام ہے، جو اسلامی دنیا میں علم کی نشر و اشاعت کے لیے ایک بڑی پیش رفت ثابت ہوا ہے۔" آیت اللہ اعرافی نے حوزہ علمیہ قم اور دیگر مقامات پر موجود علمی و تحقیقی صلاحیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: حوزہ علمیہ کے نظام میں 100 سے زائد علمی مجلات، 30 علمی انجمنیں، 6 ہزار سے زائد محققین، سینکڑوں تحقیقی ادارے، اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں نور کمپیوٹر ریسرچ سینٹر جیسے نمایاں ادارے سرگرم ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: "اس وقت حوزہ میں 100 منصوبے زیر عمل ہیں، جن میں سے 20 تحقیقی شعبے سے متعلق ہیں۔ تاہم، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سرگرمیوں کو جدید دنیا کی زبان میں پیش کیا جائے۔ حوزہ علمیہ قم، اپنی ایک ہزار سالہ فکری اور علمی تاریخ میں، علم اور نظریات کے میدان میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔"
آیت اللہ اعرافی نے کہا: "ملکی اور بین الاقوامی علمی اداروں کے ساتھ تعاون میں پیش رفت ہوئی ہے، لیکن مزید کام کی ضرورت ہے تاکہ ان صلاحیتوں کو ایران اور اسلامی دنیا کے علمی طبقے کے لیے بہتر طور پر متعارف کرایا جا سکے۔" انہوں نے Institute for Science Citation (ISC) اور حوزہ علمیہ کے شعبہ تحقیق کے مابین مزید تعاون پر زور دیا[7]۔ تشیع اور انقلاب اسلامی کی شناخت کا نام مہدویت ہے == سربراہ حوزہ علمیہ ایران آیت اللہ علی رضا اعرافی نے کہا ہے کہ مهدویت، تشیع اور انقلاب اسلامی کی شناخت ہے اور آج مختلف سازشوں اور الزامات کا سامنا کر رہی ہے، لہٰذا اس عقیدے کو مضبوط کرنا حوزہ ہائے علمیہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ اعرافی نے مشرقی آذربائیجان کے دینی مدارس کے اساتذہ اور منتظمین سے خطاب کرتے ہوئے انقلاب اسلامی ایران کی سالگرہ کے موقع پر مبارکباد پیش کی۔
انہوں نے حوزہ علمیہ کے اصلاحاتی منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج دینی مدارس مستقبل کی منصوبہ بندی اور عملی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اور متعدد بڑے اصلاحاتی پروجیکٹ نافذ کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس راہ میں حائل چیلنجز کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ باوجود مشکلات کے، ان منصوبوں کا ایک بڑا حصہ کامیابی سے مکمل ہو چکا ہے۔
آیت اللہ اعرافی نے مهدویت کے مسئلے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ نہ صرف اہل تشیع کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے بلکہ انقلاب اسلامی کا بھی مرکزی نکتہ ہے۔ تاہم، موجودہ دور میں مهدویت کو مختلف شبہات اور الزامات کا سامنا ہے، جن کا مقابلہ کرنا اور اس عقیدے کو مستحکم کرنا دینی مدارس کی اہم ذمہ داری ہے۔
انہوں نے آئندہ منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے فقه معاصر، طلاب و اساتذہ کے لیے مالی فوائد کی بہتری، اور علمی و تبلیغی سطح کو بلند کرنے جیسے موضوعات پر بھی روشنی ڈالی۔ اپنے خطاب کے اختتام پر، انہوں نے مشرقی آذربائیجان کے حوزہ علمیہ کے اساتذہ اور منتظمین کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ اس خطے کی درخشاں تاریخ دینی مدارس اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقبل میں اہم کردار ادا کرے گی[8]۔
شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت، مزاحمتی تحریک کے لیے نئی روح
حوزہ علمیہ ایران کے سربراہ، آیت اللہ علی رضا اعرافی نے حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل، شہید سید حسن نصراللہ اور ان کے وفادار ساتھی، شہید سید ہاشم صفی الدین کی شہادت کو امت مسلمہ اور حریت پسندوں کے لیے ایک عظیم نقصان قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ شہادتیں دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے اور مزاحمتی تحریک کو مزید طاقتور کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ ایران کے سربراہ، آیت اللہ علی رضا اعرافی نے حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل، شہید سید حسن نصراللہ اور ان کے وفادار ساتھی، شہید سید ہاشم صفی الدین کی شہادت کو امت مسلمہ اور حریت پسندوں کے لیے ایک عظیم نقصان قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ شہادتیں دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے اور مزاحمتی تحریک کو مزید طاقتور کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔
آیت اللہ اعرافی نے اپنے تعزیتی بیان میں امام صادق علیہ السلام کی حدیث نقل کرتے ہوئے کہا کہ "جب ایک عالم دین کا انتقال ہوتا ہے تو اسلام میں ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جسے کوئی چیز پر نہیں کر سکتی۔" انہوں نے سید حسن نصراللہ کی شہادت کو ایسا ہی ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔ سربراہ حوزہ علمیہ نے کہا: لبنان میں ان شہداء کی نماز جنازہ ایک تاریخ ساز اجتماع میں تبدیل ہو گئی، جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔
جنازے میں مسلمانوں، مسیحیوں اور مختلف سیاسی مکاتب فکر کے نمائندوں کی موجودگی نے لبنانی معاشرے میں مزاحمت کی جڑوں کو مزید مضبوط کر دیا۔ حزب اللہ اور تحریک أمل کی مشترکہ کوششوں نے اس قومی وحدت کو مزید تقویت بخشی اور دشمن کی فرقہ وارانہ تقسیم کی سازشوں کو خاک میں ملا دیا۔ آیت اللہ اعرافی نے کہا کہ صہیونی حکومت نے شہید نصراللہ کو شہید کر کے حزب اللہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی، لیکن حقیقت میں یہ اقدام دشمن کے لیے ایک بڑی شکست میں تبدیل ہو گیا۔ انہوں نے قرآن کی آیت نقل کرتے ہوئے کہا: "ہم مجرموں سے انتقام لیں گے۔" جنازے میں بہنے والے آنسو اور مظلومیت کے یہ لمحات، درحقیقت دشمن کے خلاف ایک نئی مزاحمتی لہر کا پیش خیمہ بن گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لبنان کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک میں بھی ان شہداء کے لیے تعزیتی اجتماعات منعقد کیے گئے، جو اس بات کی علامت ہیں کہ مزاحمتی تحریک اب صرف ایک مقامی تحریک نہیں رہی بلکہ عالمی حریت پسندوں کی پہچان بن چکی ہے۔ آیت اللہ اعرافی نے اس عوامی بیداری کو دشمن کے لیے ایک اور واضح پیغام قرار دیا۔
آیت اللہ اعرافی نے زور دے کر کہا کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت ایک دینی فریضہ ہے، جو قرآن، سنت اور اسلامی تعلیمات سے ماخوذ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حوزہ علمیہ قم نے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ذریعے جنازے میں شرکت کر کے اس دینی فریضے کی حمایت کا عملی ثبوت دیا۔
آیت اللہ اعرافی نے آخر میں تمام مسلمانوں، مذاہب کے پیروکاروں اور آزادی کے حامیوں کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے اس عظیم شہید کی تشییع جنازہ میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ شہداء کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا اور ان شاء اللہ، صہیونی ریاست کی نابودی کی منزل قریب ہے۔(و ما النصر إلا من عند الله العزیز الحیکم)[9]۔
اسلام اور تشیع کو کسی بھی قوم، نسل یا جغرافیائی سرحد میں محدود نہیں کیا جا سکتا
سربراہ حوزہ علمیہ ایران نے کہا کہ اسلام اور تشیع کسی مخصوص قوم، نسل یا جغرافیائی حدود تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ ایک عالمی پیغام ہے جو پوری دنیا تک پہنچایا جانا چاہیے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیتالله علی رضا اعرافی نے انٹرنیشنل ولایت چینل کے سربراہان اور ذمہ داران سے ملاقات کے دوران ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ "اسلام اور تشیع کی تعلیمات کو پوری دنیا میں عام کیا جانا چاہیے تاکہ یہ ایک عالمی فکر بن جائے، نہ کہ اسے کسی ایک قوم یا علاقے تک محدود سمجھا جائے۔"
انہوں نے آیتالله مکارم شیرازی کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "انہوں نے دینی میڈیا کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور ان کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں۔" آیتالله اعرافی نے ماہ مبارک رمضان کی عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ "یہ مہینہ محض ایک مخصوص وقت نہیں، بلکہ ایک روحانی حقیقت ہے جو انسان کی تربیت اور روحانی ترقی کا موقع فراہم کرتی ہے۔ روزہ، تلاوتِ قرآن، دعا اور عبادات اس ماہ کی باطنی حقیقت تک پہنچنے کے ذرائع ہیں۔"
ماہ رمضان اور دینی میڈیا کا کردار
انہوں نے دینی میڈیا کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ "دینی چینلز کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماہ رمضان کی حقیقت اور برکات کو صحیح طور پر عوام تک پہنچائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس بابرکت مہینے سے فیض حاصل کر سکیں۔ دینی تعلیمات کی نشر و اشاعت میں علمی دقت ضروری ہے
سربراہ حوزہ علمیہ ایران نے دینی تعلیمات کی نشر و اشاعت میں علمی تحقیق اور فقہی دقت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "جو پیغامات دینی میڈیا میں پیش کیے جاتے ہیں، انہیں معتبر اور مستند ہونا چاہیے۔ قرآن و حدیث کی تشریح کے لیے علماء اور فقہاء کی رہنمائی ضروری ہے تاکہ دین کے پیغام کو صحیح اور مستند انداز میں پیش کیا جا سکے۔"
میڈیا میں جدید ٹیکنالوجی اور عصری زبان کا استعمال
آیتالله اعرافی نے جدید میڈیا کے بدلتے تقاضوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "دینی میڈیا کو جدید ٹیکنالوجی اور عصری زبان کے استعمال پر توجہ دینی چاہیے۔ جیسے کہ شہید مطہری نے مغربی فلسفے کو سمجھ کر اسلامی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگ کیا، اسی طرح آج بھی دینی پیغام کو موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق مؤثر انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "زبان، تصویر اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دینی پیغام کو زیادہ مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں مختلف زبانوں میں اہل بیت (ع) کی تعلیمات کو پیش کرنے کے لیے جدید ذرائع ابلاغ سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔"
دینی میڈیا میں مستقبل کی منصوبہ بندی ضروری
آیتالله اعرافی نے دینی میڈیا کی ترقی کے لیے مضبوط منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "صرف وقتی اور جزوی منصوبے کافی نہیں، بلکہ ہمیں طویل المدتی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی تاکہ ہمارا پیغام دیرپا اثرات مرتب کرے۔"
انہوں نے دینی میڈیا کو درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں اپنے مخالفین اور میڈیا کے میدان میں درپیش خطرات کو بھی سمجھنا ہوگا۔ اگر ہم ان چیلنجز سے غافل رہے تو ہماری دینی شناخت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔"
سربراہ حوزہ علمیہ نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: "ہمیں دینی میڈیا کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا ہوگا، اسلامی تعلیمات کو قومی اور لسانی حدوں سے نکال کر ایک عالمی پیغام کی شکل میں پیش کرنا ہوگا اور اس میدان میں اہل بیت (ع) کی تعلیمات کو عالمی سطح پر عام کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔"[10]۔
حوالہ جات
- ↑ زندگینامه استاد علیرضا اعرافی ( استاد علی رضا اعرافی کی سوانح حیات )- arafi.ir (زبان فارسی )-تاریخ درج شده:اگست/2021ء۔تاریخ اخذ شده:7/ دسمبر/ 2024ء
- ↑ بیوگرافی آیت الله علیرضا اعرافی ( استاد علی رضا اعرافی کی سوانح عمری )- biographyha.com (زبان فارسی )- تاریخ درج شده:9/ستمبر//2014ء۔تاریخ اخذ شده: 7/ دسمبر/ 2024ء
- ↑ استکبار کے خلاف جدوجہد کا علم اسٹوڈنٹس کے ہاتھ سے کبھی جھک نہیں پائے گا-ur.hawzahnews.com/news- شائع شدہ از: 7 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 دسمبر 2024ء۔
- ↑ امت واحدہ کی تقویت کے لیے علمی و فکری مراکز کے دروازے کھلے رکھنے کی ضرورت-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 10 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 دسمبر 2024ء۔
- ↑ جدید عالمی مسائل کا حل فراہم کرنا حوزہ علمیہ کی اہم ذمہ داری ہے: آیت اللہ اعرافی- شائع شدہ از: 6 جنوری 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 جنوری 2024ء۔
- ↑ دشمن ایرانیوں کی تاریخی شناخت مٹانا چاہتا ہے / شامی عوام اپنی عزت اور خودمختاری کا خاتمہ برداشت نہیں کریں گے- شائع شدہ از: 11 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 جنوری 2025ء۔
- ↑ ادارہ ISC عالم اسلام کے لیے ایک اسٹریٹجک اقدام / قم میں 6 ہزار محققین سرگرم ہیں: آیتالله اعرافی- شائع شدہ از: 26 جنوری 2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 == جنوری 2025ء۔
- ↑ تشیع اور انقلاب اسلامی کی شناخت کا نام مہدویت ہے: آیت اللہ اعرافی- شائع شدہ از: 14 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 فروری 2025ء۔
- ↑ شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت، مزاحمتی تحریک کے لیے نئی روح: آیت اللہ اعرافی- شائع شدہ از: 27 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 فروری 2025ء۔
- ↑ اسلام اور تشیع کو کسی بھی قوم، نسل یا جغرافیائی سرحد میں محدود نہیں کیا جا سکتا: آیتالله اعرافی- شائع شدہ از: 11 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 مارچ 2025ء۔