محسن اراکی
| محسن اراکی | |
|---|---|
| پورا نام | محسن اراکی |
| دوسرے نام |
|
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش کی جگہ | نجف |
| اساتذہ | |
| مذہب | اسلام، شیعہ |
| مناصب |
|
آیت اللہ محسن محمدی عراقی، جسے محسن اراکی کے نام سے جانا جاتا ہے، اسلامی علوم کے مجتہد ہیں، یونیورسٹی آف پورٹماؤتھ، لندن سے تقابلی فلسفے میں ڈاکٹریٹ، قم حوزه علمیہ میں فقہ و اصول کے درس خارج کے استاد ہیں اور عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی کے تیسرے سیکرٹری جنرل ہیں۔ اس سے پہلے آپ انگلستان میں مسلم امور میں آیت اللہ سید علی حسینی خامنہ ای کے نمائندے تھے، آپ مجلس خبرگان رہبری میں مرکزی صوبے کے نمائندے اور اہل بیت عالمی اسمبلی کے سپریم کونسل کے رکن بھی ہیں۔ آپ انگلستان کے اسلامی مرکز اور قم میں اسلامی فکر کے فورم کے بانی ہیں[1]۔
سوانح حیات
محسن اراکی 1965 میں عراق کے شہر نجف میں پیدا ہوئے۔ آپ کی شادی 1977 میں ہوئی اور ان کے 9 بچے ہیں۔
تعلیم اور استاد
انہوں نے یونیورسٹی آف پورتموث، لندن سے تطبیقی فلسفہ کے شعبے میں گریجویشن کیا۔
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم منتدی النشر اسکول میں مکمل کی جو محمد رضا مظفر کی نگرانی میں چلایا جاتا تھا اور اسی اسکول میں سیکنڈری اسکول کی پہلی جماعت تک پڑھتا رہا۔ اس کے بعد اپنے والد کی رہنمائی سے 1347 میں حوزوی تعلیم حاصل کی۔
انہوں نے تعارفی اور انٹرمیڈیٹ کورسز اور کچھ اے کورس اپنے والد سے اور باقی تعلیم نجف حوزه کے اساتذہ جیسے سید عزالدین بحرالعلوم، سید کاظم حائری، شیخ محمد تقی جوہری، شیخ عبدالمجید روشنی، سید محمود ہاشمی شاہرودی، سے حاصل کی۔ سید عباس خاتم یزدی، سید حسن مرتضوی، مصطفی خمینی، محمد ہادی معرفت، سید محمد باقر حکیم، شیخ عباس قوچانی گزرے ہیں۔ اور سید ابوالقاسم خوئی، سید محمد باقر صدر، سید روح اللہ خمینی کے فقہ و اصول درس خارج میں شرکت کی۔
سیاسی سرگرمیاں
انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز نجف میں کیا۔ اس کی امام خمینی کی حمایت میں سرگرمیاں تھیں اور ان سرگرمیوں کے نتیجے میں آپ عراقی حکومت کے سیکورٹی اداروں کو مطلوب تھا۔ آپ 1975 میں قم گئے اور انہیں ساواک میں بلایا گیا اور ایران پہنچنے کے آغاز سے ہی ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔
علمی سرگرمیاں
آپ لندن اور قم میں متعدد مذہبی اور علمی اداروں کے بانی تھے۔ آپ نے نجف کے مدرسے مقدماتی دورس پڑھائے۔ نیز، آیت اللہ سید علی حسینی خامنہ ای کی جانب سے دورہ انگلینڈ کے آغاز سے اور اس ملک کے دار الحکومت (لندن) میں مدرسہ کے قیام کے بعد، آپ نے فقہ (اسلامی حکومتی مباحث اور قضا) اور اصول کا درس خارج شروع کیا۔ فلسفہ، رسائل، مکاسب، حلقہ اصول جیسے مختلف دورس کے علاوہ آپ فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں میں قرآن کی تفسیر میں بھی مصروف رہے۔ اس وقت آپ حوزه قم میں فقہ و اصول کے درس خارج کے ساتھ ساتھ تفسیر اور حدیث کی تدریس کرتے ہیں۔
تصانیف
فارسی
- اصول فقه نوین (5جلد)؛
- فقه نظام سیاسی اسلام (6 جلد)؛
- فقه نظام اقتصادی اسلام (5 جلد)؛
- امامت در قرآن (ترجمه: نظریة النص علی الإمامة فی القرآن الکریم)؛
- نگاهی به رسالت وامامت؛
- کاوشهایی در مبانی نظری حکومت دینی؛
- نظریه شناخت (عنوان سابق: مبانی جهانبینی اسلامی)؛
- فقه عمران شهری(1جلد)؛
- فلسفۀ جبر و اختیار یا آزادی و علیت؛
- درآمدی بر عرفان اسلامی؛
- اصول عرفان ناب اسلامی در معارف سجادی؛
- دورهها وپیشگامان بیداری اسلامی؛
- گفتمان بیداری اسلامی؛
- داستان انسان نخستین.
عربی
- مدخل إلی منهج المعرفة الإسلامیّة؛
- المعرفة الإسلامیة، منهجاً و تصوراً؛
- نظریة النص علی الإمامة فی القرآن الکریم؛
- حوار فی الإمامة؛
- سنن القیادة الالهیة فی التاریخ؛
- سنن التطور الاجتماعی فی القرآن الکریم؛
- المختار من مقتل الحسین فی بحار الأنوار؛
- الموازین الشرعیّة للشعائر الحسینیة؛
- الولایة الإلهیّة وولایة الفقیه؛
- الأسس النظریة للدولة الإسلامیة؛
- أساس الحکم فی الإسلام؛
- نظریة الحکم فی الإسلام؛
- معالم الفکر الأصولی الجدید؛
- حجّیة سنة الصحابی؛ دراسة و نقد؛
- کتاب الخمس (2جلد)؛
- فقه القضاء؛
- ملکیّة المعادن فی الفقه الاسلامی؛
- ثبوت الهلال؛
- مدخل إلی العرفان الإسلامی؛
- الصحوة الإسلامیة المعاصرة
انگلش
Contemporary Islamic Awakening.1.
Free Will between Islamic Contemporary Philosophy and Western Contemporary PhilosopHY .2.
عہدے
- آبادان اور خرمشہر کی اسلامی انقلاب عدالتوں کے سربراہ۔
- خوزستان کی اسلامی انقلاب عدالتوں کے سربراہ اور 1361 میں انہوں نے اپنے عہدے کو برقرار رکھتے ہوئے خوزستان کے سربراہ جسٹس کا عہدہ سنبھالا۔
- عدلیہ سے مستعفی ہونے کے بعد ذمہ داریاں؛ مثال کے طور پر: شرعی حکمران خوزستان لینڈ اسائنمنٹ بورڈز (1373-1362) کے ساتھ ساتھ اہواز کی شاہد چمران یونیورسٹی میں سپریم لیڈر کے نمائندے (1374-1369) کے انچارج تھے۔
- 1366-1375 ہجری تک، وہ بدر کور کی افواج میں سپریم لیڈر کی نمائندگی کے ذمہ دار بھی تھے، اور 1362 ہجری میں، اس نے عراق کے اسلامی انقلاب کی سپریم اسمبلی کی ملٹری برانچ قائم کی، جو بعد میں "عراق" کے نام سے مشہور ہوئی۔ "نویں بدر کور"۔
- 1369 ہجری میں آپ کو خوزستان کے لوگوں کی طرف سے لیڈر شپ ماہرین کی اسمبلی کے لیے منتخب کیا گیا۔
- 1373 میں انہیں یورپ میں آیت اللہ خامنہ ای کے نمائندے کے طور پر انگلینڈ بھیجا گیا۔
اگر تکفیری شام میں کامیاب ہوگئے تو ایران کو بھی نشانہ بنائیں گے
آیت اللہ محسن اراکی نے کہا کہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ حرم کی حفاظت کے لیے دوبارہ تیار ہو جائیں کیونکہ اگر تکفیری کامیاب ہو گئے تو یہ خطرہ ایران تک پہنچ جائے گا۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حوزہ علمیہ کی اعلیٰ کونسل کے رکن، آیت اللہ محسن اراکی نے اپنے درس خارج میں شام کی موجودہ صورتحال اور دہشت گرد تکفیریوں کے حملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے ترکی اور امریکہ کے تعاون سے ایک نئی سازش کا آغاز کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ حرم کی حفاظت کے لیے دوبارہ تیار ہو جائیں کیونکہ اگر تکفیری کامیاب ہو گئے تو یہ خطرہ ایران تک پہنچ جائے گا۔ آیت اللہ اراکی نے کہا کہ شام کے خلاف پہلے سے تیار کردہ سازش ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے، جس میں اسرائیل، ترکی اور امریکہ پیش پیش ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مسلمانوں نے تکفیریوں کی پیش قدمی کو نہ روکا تو نہ صرف حضرت زینب (س) کا حرم اور شام بلکہ عراق بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ تکفیریوں کا اصل ہدف ایران ہے۔ اگر وہ شام میں کامیاب ہو گئے تو ان کا اگلا ہدف ایران ہوگا۔ اس لیے مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ سخت جدوجہد کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ آیت اللہ اراکی نے کہا کہ ممکن ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے حامی داخلی عناصر عوام کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کریں۔ ہمیں ان سازشوں سے بھی ہوشیار رہنا چاہیے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا کہ ان شاء اللہ فتح حق کے حامیوں کی ہوگی اور تمام مسلمانوں کو امام زمانہ (عج) کی نصرت اور اہل بیت (ع) کے حرم کی حفاظت کے لیے تیار رہنا چاہیے[2]۔
مصنوعی ذہانت کے اہم مسائل کی شناخت اور ان کا تجزیہ ایک شرعی فریضہ
حوزہ علمیہ کی اعلیٰ کونسل کے رکن نے کہا: آج مصنوعی ذہانت (Artificial intelligence) معاشروں کی طاقت اور برتری کے بنیادی ستونوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ اس لئے مبلغین کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک مصنوعی ذہانت کے اہم مسائل کی شناخت اور ان کا تجزیہ ہے۔ یہ ایک شرعی فریضہ اور واجب کفائی ہے جو علمائے دین پر عائد ہوتا ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ کی اعلیٰ کونسل کے رکن آیت اللہ محسن اراکی نے قم میں صوبہ مازندران کے طلبہ کے لیے مصنوعی ذہانت کے خصوصی کورس کے شرکاء سے ملاقات میں اسلامی معاشروں کی برتری میں مصنوعی ذہانت کے کردار پر زور دیا اور مبلغین کی طرف سے اس ٹیکنالوجی کے فقہی، اخلاقی اور قانونی مسائل کے جائزے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس میدان میں تعلیم اور مہارت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
مجلس خبرگانِ رہبری کے نائب صدر نے قرآن کریم کی آیت "﴿ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ﴾" کا حوالہ دیتے ہوئے ہر میدان میں اسلامی اقتدار کی ضرورت کو بیان کیا اور کہا: ایمان دنیا پر برتری کی شرط ہے اور یہ برتری علم، معیشت اور ٹیکنالوجی میں ظاہر ہونی چاہیے۔ آج کے دور میں مصنوعی ذہانت معاشروں کی طاقت اور برتری کے بنیادی ستونوں میں سے ایک جانی جاتی ہے اور یہ عسکری، علمی اور ثقافتی میدانوں میں بھی انتہائی مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔
آیت اللہ اراکی نے علم اور ٹیکنالوجی کے حصول میں حوزہ علمیہ کے کردار کو انتہائی اہم قرار دیا اور کہا: آج مبلغین کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک مصنوعی ذہانت کے اہم مسائل کی شناخت اور ان کا تجزیہ ہے۔ یہ ایک شرعی فریضہ اور واجب کفائی ہے جو علمائے دین پر عائد ہوتا ہے[3]۔
مصنوعی ذہانت (AI) علم اور طاقت میں اضافہ کا باعث ہے
حوزہ علمیہ کی اعلی کونسل کے رکن نے کہا: مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) علم اور طاقت میں اضافہ کا باعث ہے۔ یہ ٹیکنالوجی فقہی اور قانونی مسائل پر بحث کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اگر ہم مصنوعی ذہانت کے فلسفے کے حوالے سے درست اور واضح بیانات پیش نہیں کر سکتے تو فقہی اور قانونی مسائل بھی درست اور دقیق نہیں ہوں گے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، حوزہ علمیہ کی اعلی کونسل کے رکن آیت اللہ محسن اراکی نے "اقتصاد اسلامی مآخذ سے عملی نمونوں تک" کے عنوان سے منعقدہ ایک نشست میں خطاب کے دوران کہا: نظامِ اسلامی میں تمام شعبے جیسے سیاسی، ثقافتی، اقتصادی و اجتماعی وغیرہ افعال ہیں یعنی ان کی بنیاد فرد کے عمل پر نہیں بلکہ معاشرے پر ہے۔
انہوں نے کہا: معاشرہ حکومت اور عوام کا ایک مرکب ہے، جہاں دونوں اجتماعی رویے اپناتے ہیں۔ اجتماعی رویوں میں "نظام" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے کیونکہ یہ اجتماعی افعال ہیں اور اجتماعی افعال کو منظم ہونا چاہیے تاکہ معاشرہ انتشار کا شکار نہ ہو۔ یہ نظام حکومتی اداروں اور عوام دونوں میں ہونا چاہیے۔ مجلس خبرگان رہبری کے اس رکن نے کہا: اطاعت سے مراد ظلم نہیں ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اطاعت اور ولایت ظلم ہے لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ تمام معاشروں کو چلانے کے لیے ایک مرکز حکم اور حاکمیت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مسئلہ میں اسلامی اور غیر اسلامی نظام کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے[4]۔
مسجد اسلامی نظام کی حکمرانی کا مرکز ہے
حوزہ علمیہ کی اعلیٰ کونسل کے رکن نے کہا: اگر ہم مساجد کو ان کا حقیقی مقام واپس دینا چاہتے ہیں تو عوامی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو شہر کی جامع مسجد کے گرد قائم اور ترتیب دینا ہو گا کیونکہ اسلامی ثقافت میں ہر شہر کا ایک خاص ڈھانچہ ہوتا ہے جسے مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، آیت اللہ حسن اراکی نے آیہ مبارکہ «أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ» کی تلاوت کرتے ہوئے کہا: طاغوت ہمیشہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ خدا کا کام صرف خلق اور تخلیق ہے اور حاکمیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں جبکہ دینی متون بشمول یہ آیت کریمہ اس کے برعکس حقیقت بیان کرتے ہیں۔
آیت اللہ اراکی نے مزید کہا: شیعہ نظریے کے مطابق، خدا حقیقی معنوں میں حاکم ہے اور کوئی بھی دوسرا حاکم خدا کی جانب سے مقرر ہونا چاہیے۔ صرف امامت کی شرائط کا حامل ہونا کافی نہیں ہے۔ مجلس خبرگان رهبری نے رکن کہا: روایات کے مطابق مساجد خدا کا گھر ہیں یعنی وہی خدا جو فرمانروائی کرتا ہے۔ اس لحاظ سے مسجد خدا کی حکمرانی کا مرکز شمار ہوتی ہے اور امام معصوم (ع) کے قیام کی جگہ ہے۔ اسی وجہ سے ائمہ (ع) کو "ولیّ امر" کے طور پر پہچانا جاتا ہے[5]۔
حوزہ علمیہ قم آج دنیا کے مسائل کا حل پیش کر رہا ہے
رکن مجلس خبرگان رہبری اور مجمع تشخیص مصلحت نظام کے رکن، آیت اللہ محسن اراکی نے کہا ہے کہ آج حوزہ علمیہ قم ہزاروں علماء کی تربیت کر رہا ہے اور علم کو جنم دینے والی شخصیات کے ساتھ دنیا بھر کے مسائل میں اپنا مؤثر کردار ادا کر رہا ہے، حوزہ آج مشکلات کو آسان کرنے اور مسئلے کو حل کرنے والا ادارہ بن چکا ہے۔
انہوں نے حوزہ علمیہ قم کی سو سالہ تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حوزہ کو تین زاویوں سے دیکھنا ضروری ہے:
تشکیل و ترقی، سیاسی فعالیت اور علمی کارکردگی۔ ان کے بقول، اگرچہ حاج شیخ عبدالکریم حائری نے سو سال قبل اسے دوبارہ منظم کیا، لیکن حوزہ قم کی بنیادیں پہلے صدی ہجری میں رکھی جاچکی تھیں جب شیعہ علما اور محدثین کوفہ اور ایران کے دوسرے شہروں سے قم ہجرت کر آئے تھے۔
آیت اللہ اراکی نے واضح کیا کہ قم کے محدثین کا طریقہ بغداد اور ری کے علما سے مختلف تھا؛ یہاں حدیث کی قبولیت میں سختی برتی جاتی تھی۔ حوزہ قم کے قدیمی پس منظر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قاجار اور ابتدائی پہلوی دور میں قم میں حوزہ کی سرگرمیاں محدود تھیں کیونکہ شاہی حکومتیں مذہبی مراکز کو طاقتور نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حاج شیخ عبدالکریم حائری کی آمد اور ابتدائی پہلوی حکومت کی کمزوری نے حوزہ قم کو دوبارہ زندگی بخشی۔ حاج شیخ کی ساکھ اتنی مضبوط تھی کہ حکومت ان کے احترام میں کئی فیصلے روک دیتی تھی۔ ان کا نرم مگر مدبرانہ رویہ حوزہ کے استحکام اور طلاب کی حفاظت کا باعث بنا۔
آیت اللہ اراکی نے کہا کہ مرحوم حاج شیخ عبدالکریم کے بعد مراجع ثلاثہ یعنی آیات حجت، خوانساری اور صدر کے زمانے میں حوزہ علمی اور مالی طور پر مستحکم ہوا۔ اس دور میں علمائے کرام اور طلاب کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا اور معاشرتی رابطے مضبوط ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ مدرسہ فیضیہ میں سخت حکومتی دباؤ کے باوجود علم کا سلسلہ جاری رہا، لیکن بعد میں رضاشاہ کے تبعید اور محمدرضا کے کمزور دور میں حوزہ کو وسعت ملی۔
انہوں نے کہا کہ آیت اللہ بروجردی کے قم آنے اور ان کے دور میں حوزہ نے علمی اور تبلیغی میدانوں میں شاندار ترقی کی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بنیاد پر قیام کیا، اور علماء کی اس مضبوط نیٹ ورک نے انقلاب اسلامی میں کلیدی کردار ادا کیا[6]۔
آیت اللہ اراکی نے زور دے کر کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے حوزہ علمیہ قم کو عالمی سطح پر دینی، علمی اور سیاسی مرکز میں بدل دیا۔ فقہ و اصول کے دائرے سے نکل کر کلام، تفسیر اور فلسفہ جیسے شعبوں میں ترقی نے حوزہ کو جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کیا۔
انہوں نے کہا کہ آج حوزہ علمیہ قم دنیا کے جدید علمی مباحث میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قانون اساسی جیسی عظیم دستاویز کی تدوین حوزہ کی علمی گہرائی کا نتیجہ ہے۔ ان کے مطابق یہ قانون نہ صرف ایران بلکہ شام اور لبنان جیسے ملکوں میں بھی ایک مضبوط ماڈل کے طور پر اثرانداز ہو رہا ہے۔
آیت اللہ اراکی نے کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے نظام اسلامی کی بنیاد رکھی اور آج کی قیادت اسے استقامت کے ساتھ سنبھالے ہوئے ہے۔ ان کے بقول، ایک نظام کو قائم کرنا جتنا مشکل ہے، اسے برقرار رکھنا اس سے کہیں زیادہ دشوار عمل ہے۔
ہم حسینی ہیں، جان دے سکتے ہیں لیکن دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہو سکتے
مجلس خبرگانِ رہبری اور حوزه علمیہ کی سپریم کونسل کے رکن آیت اللہ محسن اراکی نے مدرسہ علمیہ فیضیہ قم میں حوزوی طلاب و اساتذہ کے عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم راہِ حسین علیہ السلام کے پیروکار ہیں، اور باطل کے آگے سر جھکانا ہمارے لیے حرام ہے۔
انہوں نے صہیونی حکومت کے خلاف حالیہ آپریشنز، خاص طور پر "وعده صادق ۳" کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے اپنے 'پالتو کتوں' کو چھوڑ کر غزہ، لبنان، یمن اور ایران کے مظلوم عوام پر ظلم کی نئی لہر چھیڑ دی ہے، تاکہ جبهہ ولایت و اسلام کو جھکنے پر مجبور کر سکے؛ لیکن وہ جان لے کہ ہم ظلم کے آگے کبھی سر تسلیم خم نہیں کریں گے۔
آیت اللہ اراکی نے حضرت علی علیہ السلام کی خیبر میں شجاعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پرچم لیا اور در خیبر کو اکھاڑ دیا، اسی دن سے وہ حیدر خیبر شکن کہلائے اور آج ہم اسی حیدر کے علمبردار ہیں[7]۔
امریکہ اور اسرائیل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، صیہونی جرائم سے امریکہ کی برأت نادانی ہے
حوزہ علمیہ قم کے ممتاز استاد اور مجلسِ خبرگان رہبری کے رکن نے کہا کہ 12 روزہ جنگ میں امریکہ کو اسرائیل کے جرائم سے علیحدہ کرنا محض نادانی ہے، کیونکہ شروع سے ہی امریکہ غاصب صیہونی حکومت کا شریکِ جرم رہا ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ محسن اراکی نے قم میں ٹیلی ویژن کی اعلیٰ کونسل کے منتظمین کے اجلاس میں، 12 روزہ جنگ کے دوران قوم کی حوصلہ افزائی، مزاحمت اور مقاومت کے لیے قومی میڈیا کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا۔
اور صیہونی حکومت کے قومی ٹیلی ویژن کی شیشے کی عمارت پر حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ محترمہ سحر امامی اور تمام میڈیا اراکین کی اس مشکل وقت میں مزاحمت، ایرانی قوم کی مزاحمت کی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے اور یہ سیرتِ علوی اور حسینی کا عملی نمونہ ہے۔
مجلسِ خبرگان رہبری کے رکن نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ٹیلی ویژن کی مستحکم کارکردگی نے اس حساس وقت میں جنگ کے بیانیوں کے توازن کو اسلامی ایران کے حق میں موڑ دیا، کہا کہ مسلط کردہ 12 روزہ شدید جنگ میں، آپ نے عوامی رائے کی منظم قیادت کے ذریعے اسلامی ایران کی فوجی طاقت کو حق اور حقیقت کی سمت موڑ دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حقیقتاً میڈیا کے کارکنان نے اس مدت میں اسلامی جمہوریہ ایران کی قوت کو دنیا کے سامنے بھرپور طریقے سے پیش کیا۔ آیت اللہ اراکی نے قرآن و احادیث کی روشنی میں اسلام کی تاریخ میں میڈیا کے کردار پر نیز تاکید کی۔
انہوں نے منحوس غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ 12 روزہ جنگ کو دفاع مقدس سے بھی زیادہ اہم اور مشکل قرار دیا اور کہا کہ اسلامی ایران نے امریکہ جیسی استکباری قوتوں کے خلاف دلیرانہ مقابلہ کر کے یہ ثابت کیا کہ میدان کا حقیقی فاتح کون ہے۔
آیت اللہ محسن اراکی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ رہبرِ معظم انقلاب اسلامی، عوام، مسلح افواج اور میڈیا نے اس دوران جو کچھ کیا ہے وہ علوی طاقت اور تشخص کی علامت ہے، کہا کہ اس شناخت کو حق و صداقت کے ذرائع ابلاغ کی کوششوں کے ذریعے بیان کیا جانا چاہیے اور اسے برقرار رکھنا چاہیے۔
امریکہ اور اسرائیل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، صیہونی جرائم سے امریکہ کی برأت نادانی ہے: آیت اللہ اراکی انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہی امریکہ کے ساتھ میدان جنگ میں حتمی فاتح ہے کہا کہ اسلامی ایران امریکہ کے خلاف نعروں میں نہیں، بلکہ میدان جنگ میں بھی سینہ تان کر، طاقت، اقتدار اور قابلیت کے ساتھ کھڑا ہے اور یہ قوم کی یقینی فتح کے سوا کچھ نہیں ہے۔
انہوں نے امریکہ کی طرف سے جنگ بندی کی درخواست کو دشمن کو ناکام بنانے میں اسلامی ایران کی فتح کی ایک اور دلیل قرار دیا اور کہا کہ اس 12 روزہ جنگ میں اسرائیل کے جرائم سے امریکہ کو علیحدہ کرنا نادانی کے سوا کچھ نہیں ہے، کیونکہ شروع سے ہی امریکہ اسرائیل کا اہم شریکِ جرم رہا ہے[8]۔
اسلامی ممالک کی غزہ کے متعلق خاموشی؛ شرمناک اور ذلت آمیز ہے
آیت اللہ محسن اراکی نے غاصب صیہونی ریاست کے غیر انسانی جرائم کے خلاف بعض اسلامی ممالک کی خاموشی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم غزہ کے بعض ہمسایوں کی شرمناک اور ذلت آمیز خاموشی کے گواہ ہیں، جبکہ غزہ کے بے گناہ لوگ انتہائی بھیانک طریقے سے قتل ہو رہے ہیں، عرب ہمسایے نہ صرف کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتے، بلکہ ان جرائم کو نظر انداز بھی کر رہے ہیں؛ یہ خاموشی امت مسلمہ کے نظریات سے غداری ہے۔
آیت اللہ محسن اراکی نے قم المقدسہ میں، مسلط کردہ 12 روزہ جنگ میں شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہونے والے شہداء کے چہلم کی مناسبت سے منعقدہ مجلسِ عزاء سے خطاب میں ایرانی قوم کے عالمی استکباری طاقتوں کے خلاف تاریخی اور اہم کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:"یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِهِ فَسَوْفَ یَأْتِی اللَّهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ أَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافِرِینَ یُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَلَا یَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِکَ فَضْلُ اللَّهِ یُؤْتِیهِ مَنْ یَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ". اے ایمان والو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا (وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا) خدا آئندہ ایک ایسا گروہ لے آئے گا جسے وہ دوست رکھتا ہے اور وہ لوگ (بھی) اسے دوست رکھتے ہیں؛ جو مؤمنین کے سامنے متواضع اور کفار کے مقابلے میں طاقتور ہیں وہ راہِ خدا میں جہاد کریں گے اور سرزنش کرنے والوں کی سرزنش سے نہیں ڈرتے۔ یہ خدا کا فضل و کرم ہے، وہ جسے چاہتا ہے (اور اہل سمجھتا ہے) عطا کرتا ہے اور (خدا کا فضل) وسیع ہے اور خدا جاننے والا ہے[9]۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے تاریخ میں پہلی بار عالمی سطح پر اسلام کا پرچم بلند کیا اور استکباری طاقتوں کو جنگ بندی پر مجبور کیا۔
ایران، عالمی استکبار کے خلاف جنگ میں پیش پیش
انہوں نے حالیہ مسلط کردہ 12 روزہ جنگ اور شہدائے اقتدار کی عظیم قربانیوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس وقت ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں ایرانی قوم نے تاریخ میں پہلی مرتبہ پوری طاقت کے ساتھ عالمی متحدہ استکباری قوتوں کے خلاف مزاحمت کر کے ان کو ایک سنگین ضرب کے ذریعے پیچھے ہٹنے اور تسلیم ہونے پر مجبور کیا۔
آیت اللہ اراکی نے مزید کہا کہ یہ عظیم کامیابی صرف ایک فوجی فتح نہیں ہے، بلکہ اسے انسانیت کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ ایران نے اپنے فرزندوں کی ایمانی طاقت اور جدوجہد کے ساتھ دنیا کو اپنی قوم کی ارادے کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا۔
غزہ کے ہمسایہ ممالک کی غزہ میں جاری قتلِ عام پر خاموشی، شرمناک اور ذلت آمیز
آیت اللہ محسن اراکی نے غاصب صیہونی ریاست کے غیر انسانی جرائم کے خلاف بعض اسلامی ممالک کی خاموشی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم غزہ کے بعض ہمسایوں کی شرمناک اور ذلت آمیز خاموشی کے گواہ ہیں، جبکہ غزہ کے بے گناہ لوگ انتہائی بھیانک طریقے سے قتل ہو رہے ہیں، عرب ہمسایے نہ صرف کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتے، بلکہ ان جرائم کو نظر انداز بھی کر رہے ہیں؛ یہ خاموشی امت مسلمہ کے نظریات سے غداری ہے۔
استادِ حوزہ علمیہ نے شیعہ اور اہل سنت کی کتب میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|پیغمبرِ اِسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و منزلت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اہل سنت کی معتبر کتب میں بھی آیا ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مسلمانوں سے اس لیے بیعت لی تھی، تاکہ وہ حق کے لیے کھڑے ہوں اور اس کی راہ میں جنگ کریں۔ یہ بیعت اللہ کی ولایت کے لیے عہد تھا؛ یہ ایسی ولایت ہے جو پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے شروع ہوئی اور اس کا عروج امام علی علیہ السّلام کی ولایت میں جلوہ گر ہوا۔
آیت اللہ محسن اراکی نے نظام اسلامی میں ولایتِ فقیہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہماری نصرت اور ہماری اور اسلام کی بقاء کا راز، ولایتِ الہیٰ کو قبول کرنے میں مضمر ہے؛ اس ولایت کا مظہر، خدا کی ذاتِ اقدس، پیغمبرِ اعظم (ص) کی ذات اور موجودہ دور میں رہبرِ انقلابِ اسلامی کا وجود ہے[10]۔
شرم الشیخ اجلاس بعض ممالک کے سربراہان کی ٹرمپ کے سامنے تحقیر کا واضح منظر تھا
آیت اللہ اراکی کا حوزات علمیہ میں تبلیغی امور کے صوبائی سربراہان سے خطاب؛ دشمنوں کا سب سے کامیاب ہتھیار نفسیاتی جنگ ہے / تبلیغ کے میدان میں ہمارا اہم فریضہ اسی نفسیاتی جنگ کا مقابلہ کرنا ہے آیت اللہ اراکی نے تحقیقی امور کے سربراہان کے تیرہویں اجلاس میں خطاب کے دوران کہا: شرم الشیخ اجلاس بعض ممالک کے سربراہان کی ٹرمپ کے سامنے تحقیر کا واضح منظر تھا۔ اس نے اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو ذلیل کیا حالانکہ یہی لوگ صہیونیت اور امریکہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ مصر کے صدر نے برسوں مقاومتی تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن ٹرمپ کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہ تھی اور وہ ذلیل ہوئے۔
آیت اللہ اراکی نے حوزات علمیہ میں تبلیغی امور کے صوبائی سربراہان کے ساتھ مجتمع یاوران مہدی (عج) جمکران کے کانفرنس ہال میں منعقدہ نشست میں خطاب کے دوران کہا: دشمنوں کا سب سے کامیاب ہتھیار نفسیاتی جنگ ہے۔ فوجی محاذ پر دشمن ہارتا ہے اور اگر جنگ عملی محاذ تک پہنچ جائے تو ہم فتح یاب ہوں گے۔ جو چیز فتح حاصل کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے، وہ دشمن کی جنگ سے پہلے کی نفسیاتی جنگ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: دشمن نفسیاتی جنگ کے ذریعے ہمیں کمزور کرتا ہے۔ وہم پیدا کرنا، خوف، ارادے کو کمزور کرنا اور عوام کو مایوس کرنا دشمن کے اوزار ہیں۔ تبلیغ کے میدان میں ہمارا ایک اہم فریضہ اسی نفسیاتی جنگ کا مقابلہ کرنا ہے۔ دشمن کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم واقعی طاقتور ہیں۔
آیت اللہ اراکی نے کہا: ہمیں انقلاب اسلامی کے میدان، اس کی کامیابیوں اور فتوحات کو عوام خصوصاً نوجوان نسل کے سامنے واضح کرنا چاہیے۔ نوجوانوں کو یہ جاننا چاہیے کہ دشمن اس انقلاب سے کیوں دشمنی رکھتا ہے۔ ہمیں دشمنیوں کی اساس و بنیاد کو بیان کرنا چاہیے تاکہ نئی نسل میں ایمان اور بصیرت مضبوط ہو۔
حوزہ علمیہ کی اعلی کونسل کےاس رکن نے امریکہ کے سامنے بعض حکمرانوں کی تذلیل کی مثال دیتے ہوئے کہا: شرم الشیخ کانفرنس بعض ممالک کے رہنماؤں کی ٹرمپ کے سامنے تحقیر کا واضح منظر تھا۔ اس نے اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو ذلیل کیا حالانکہ یہی لوگ صہیونیت اور امریکہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ مصر کے صدر نے برسوں مقاومتی تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن ٹرمپ کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہ تھی اور وہ ذلیل ہوئے۔
آیت اللہ اراکی نے مزید کہا: پوری دنیا نے ایران کی تعریف کی کہ اس نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ یہ عزت ہماری قوم کے ایمان اور استقلال کا نتیجہ ہے۔ ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ہم نے نفسیاتی جنگ کے محاذ پر کتنا کام کیا ہے اور ہمیں اس میں مزید بہتری کے لئے کون سے اقدامات کرنے چاہئیں[11]۔
حواله جات
- ↑ اراکی کی سوانح عمری
- ↑ اگر تکفیری شام میں کامیاب ہوگئے تو ایران کو بھی نشانہ بنائیں گے: آیت اللہ اراکی-ur.hawzahnews.com/news- شائع شدہ از: 2 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 دسمبر 2024ء۔
- ↑ مصنوعی ذہانت کے اہم مسائل کی شناخت اور ان کا تجزیہ ایک شرعی فریضہ اور واجب کفائی ہے-شائع شدہ از: 11 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:11 دسمبر 2024ء
- ↑ مصنوعی ذہانت (AI) علم اور طاقت میں اضافہ کا باعث ہے / اطاعت سے مراد ظلم نہیں ہے- شائع شدہ از: 31جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 جنوری 2025ء۔
- ↑ مسجد اسلامی نظام کی حکمرانی کا مرکز ہے / مساجد کو ان کا حقیقی مقام واپس لوٹائیں- شائع شدہ از: 16 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 فروری 2025ء۔
- ↑ حوزہ علمیہ قم آج دنیا کے مسائل کا حل پیش کر رہا ہے: آیت اللہ اراکی-شائع شدہ از:27 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 اپریل 2025ء
- ↑ ہم حسینی ہیں، جان دے سکتے ہیں لیکن دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہو سکتے، آیت اللہ محسن اراکی- شائع شدہ از: 17 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:17جون 2025ء
- ↑ امریکہ اور اسرائیل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، صیہونی جرائم سے امریکہ کی برأت نادانی ہے: آیت اللہ اراکی- شائع شدہ از: 15 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 جولائی 2025ء
- ↑ سورۂ مبارکۂ مائدہ، آیت 54
- ↑ اسلامی ممالک کی غزہ کے متعلق خاموشی؛ شرمناک اور ذلت آمیز ہے: آیت اللہ اراکی- شائع شدہ از: 25 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 جولائی 2025ء
- ↑ شرم الشیخ اجلاس بعض ممالک کے سربراہان کی ٹرمپ کے سامنے تحقیر کا واضح منظر تھا- شائع شدہ از: 16 اکتوبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 اکتوبر 2025ء