محمدآصف محسنی

ویکی‌وحدت سے
محمدآصف محسنی
Ayatollah-asef-Mohseni.jpg
ذاتی معلومات
یوم پیدائش15 اپریل
پیدائش کی جگہقندہار افغانستان
یوم وفات5 اگست
وفات کی جگہکابل
اساتذہسید محسن حکیم، سید ابوالقاسم خوئی، حسین حلی ، سید عبدالاعلی سبزواری
مذہباسلام، شیعہ
اثرات
  • تقریب مذاهب از نظر تا عمل
  • جنگ در تاریکی (شیعه و سنی چه فرقی دارند)
  • همبستگی اسلامی
  • وحدت امت
مناصبعالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی کا رکن

آیت اللہ محمدآصف محسنی افغانستان میں شیعہ اثناء عشری مراجع تقلید میں سے اپنے عہد کے سب سے طاقتور مرجع اور اہم ترین مذہبی و جہادی رہنماء شمار کیے جاتے تھے۔ آپ اتحاد بین المذاہب اسلامی کے حامی، شورائے علماء شیعہ افغانستان کے سربراہ اور حوزہ علمیہ و جامعہ خاتم النبیین کابل کے بانی تھے۔ محمد آصف محسنی مجمع جہانی اہل بیت کی سپریم کونسل کے رکن، حرکت اسلامی افغانستان کے سابقہ رہنما اور تمدن ٹیلی ویژن چینل کے مؤسس تھے۔ آپ فقہ و اصول فقہ میں آیت اللہ سید محسن حکیم اور آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی کے شاگرد تھے اور آپ فارسی، عربی، پشتو اور اردو زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ حرکت اسلامی افغانستان کے بانی اور عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی کے رکن تھے۔

سوانح حیات

آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی قندہاری جو افغانستان کے بڑے شیعہ علماء اور عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے رکن تھے نیز افغانستان کی شورائے اخوت اسلامی کے سربراہ بھی تھے۔ آپ 26 اپریل 1935ء کو افغانستان کے شہر قندھار میں فارسی گو عالم دین محمد میرزا محسنی کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانہ قندھار کے اہل تشیع میں سے تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم قندھار سے ہی حاصل کی۔ بعد میں وہ اپنے والد کے ساتھ 1949ء میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ گئے اور وہاں اردو زبان سیکھنے کے علاوہ مزید تعلیم بھی حاصل کی۔

پھر آپ قندھار واپس چلے گئے اور ایوان صنعت و تجارت قندھار سے منسلک ہو گئے لیکن تحصیل علوم دینی کی خاطر اس کام کو خیرباد کہتے ہوئے جاغوری صوبہ غزنی چلے گئے اور وہاں ادبیات و منطق کی تعلیم ایک سال تک حاصل کی [1]۔

نظریہ

حقوق نسوان

محمد جواد برہانی نے جمعرات 25 اگست 2022ع‍ کی صبح، اسلامی علوم و ثقافت انسٹی ٹیوٹ کے کانفرنس ہال میں آیت اللہ آصف محسنی کی تیسری سالگرہ کے موقع پر منعقدہ سیمینار "تقریب مذاہب اسلامی نظر سے عمل تک" کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مطالعۂ نسواں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس طرح کے مطالعات عالم اسلام اور پوری دنیا میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں؛ افغانستان میں بھی اس سلسلے میں وسیع تحقیقات ہوئی ہیں؛ بالخصوص حالیہ برسوں میں، جب خواتین کے مسائل کو اہمیت ملی۔

جناب برہانی نے کہا: خواتین اور ان کے حقوق کے سلسلے میں مطالعے کے حوالے سے تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں: 1۔ ایک افراط اور انتہاپسندی پر مبنی نقطہ نظر ہے جو فیمنزم اور مغربی جدت پسندوں کی فکر سے متاثر ہے اور عورتوں اور مردوں کے درمیان مساوات پر منتج ہوتا ہے؛ 2۔ دوسرا نقطۂ نظر دوسری انتہا (تفریط) پر مبنی ہے جسے روایتی شیعہ علماء کی حمایت حاصل ہے۔ 3۔ تیسرا نقطۂ نظر اعتدال پسندانہ ہے، جو صحیح بھی ہے؛ آیت اللہ آصف محسنی اور آیت اللہ العظمی فیاض نے اس حوالے سے ایک جیسے نظریات پیش کئے ہیں۔

انھوں نے کہا: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عورت مجتہد بن سکتی ہے اور فتویٰ بھی دے سکتی ہے، لیکن اس میں اختلاف ہے کہ کیا عورت مرجع تقلید بھی بن سکتی ہے؟ خواتین کے قاضی اور سیاسی قائد بننے کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ آیت اللہ آصف محسنی نے ایک کتاب "زن در شريعت اسلامى" (عورت اسلامی شریعت میں) لکھی ہے۔ آیت اللہ العظمی اسحاق فیاض نے بھی ایک کتاب "جایگاہ زن در نظام سیاسی اسلام" (اسلام کے سیاسی نظام میں عورت کا مقام) لکھی ہے؛ ان دونوں نے حکومت اسلامی کے بارے میں بھی کتابیں لکھی ہیں؛ ادھر آیت الللہ آصف محسنی نے "توضیح المسائل سیاسی" اپنے بعد یادگار چھوڑی ہے۔

حقوق نسوان کے حوالے سے ان کا مبنا

پہلا مبنا

انہوں نے آیت اللہ آصف محسنی اور آیت اللہ العظمی اسحاق فیاض کے نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگر ہم ان دو علماء کے نظریات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں تو ان کا مبنا [اور ملاک و معیار] دیکھنا چاہئے۔ پہلا مبنا مرد اور عورت کی خلقت ہے جس میں دونوں مساوی اور برابر ہیں؛ یعنی یہ کہ کمال تک پہنچنے کے لئے مرد اور عورت کے درمیان فرق نہیں ہے، یہ مسئلہ مسلّمات میں سے ہے اور علمائے اسلام اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

دوسرا مبنا

دوسرا مبنا قاعدۂ اشتراک ہے، اور وہ یوں کہ اگر ہمیں شک ہو کہ کوئی حکم مرد کے لئے ہے یا عورت کے لئے، تو قاعدہ یہ ہے کہ "عورتوں اور مردوں کے احکام مشترک ہیں"، کیونکہ آسمانی فرائض کے سلسلے میں عورت اور مرد کے درمیان فرق نہیں ہے؛ گوکہ یہ بھی درست ہے کہ عورتوں اور مردوں کے بعض احکام مختلف اور متفاوت ہیں۔

تیسرا مبنا

تیسرا مبنا یا معیار "اباحہ" ہے، اور وہ یوں کہ اگر کہیں شک کریں کہ کوئی فعل حرام ہے یا حرام نہيں ہے، اور اس فعل کے بارے میں کوئی حدیث و روایت نقل نہ ہوئی ہو تو قاعدہ اباحہ کی طرف رجوع کیا جائے اور اس فعل کو مُباح" سمجھا جائے۔

چوتھا مبنا

چوتھا مبنا - جو آیت اللہ آصف محسنی اور آیت اللہ العظمی فیاض کی کتابوں میں مشہود ہے - یہ ہے کہ اس میں فتویٰ کی شہرت اور اجماع کی طرف توجہ نہیں دی گئی ہے؛ دونوں نے بہت سے موضوعات پر مشہور فتاویٰ کے خلاف بھی فتویٰ دیا ہے۔ ان سے پہلے بھی متعدد علماء نے اس مقام پر - جہاں حدیث و روایت موجود نہ ہو - فتواؤں کی شہرت کو لائق اعتنا نہيں سمجھا ہے۔

پانچواں مبنا

پانچواں مبنا - جو آیات محسنی اور فیاض کے درمیان مشترک ہے - یہ ہے کہ ضعیف اور زندگی کے تجربے سے تضاد رکھنے والی روایات کو معیار نہ قرار دیا جائے۔ بطور مثال ان کا کہنا ہے کہ جو روایت عورت کی زعامت و قیادت کی نفی کرتی ہے، ضعیف ہے؛ اور زندگی کے مسلّمہ اور قطعی تجربے نے اس کے برعکس، ثابت کیا ہے۔ برہانی نے عورتوں کے بارے میں آیت اللہ آصف محسنی کے نظریئے کے بارے میں مزید کہا: جناب محسنی کا کہنا ہے کہ عورتوں کی مرجعیت، قضاوت اور زعامت و قیادت کے عدم جواز کے بارے میں مراجع کے قتاویٰ فقہی احتیاط کا ثمرہ ہیں اور اس حرمت کے لئے فقہی دلیل موجود نہیں ہے۔

آیت اللہ العظمی فیاض بھی کہتے ہیں کہ عورت مرجع تقلید بھی بن سکتی ہے اور قاضی بھی۔ ان کا خیال ہے کہ عورت کی سیاسی زعامت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ دونوں بزرگ کہتے ہیں کہ ہر وہ کام جو مرد کے لئے جائز ہے، عورت کے لئے بھی جائز ہے۔ گوکہ اس کے لئے اسلامی احکام و قوانین کے دائرے میں پاکدامنی اور حجاب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ یہ مسئلہ حصول علم اور ورزش (سپورٹس) کے بارے میں ہے۔

مسئلہ تقریب اور اتحاد بین المسلمین

آیت اللہ آصف محسنی اور آیت اللہ فیاض خواتین کے سلسلے میں اعتدال پسندانہ رائے رکھتے ہیں اور یہ مسئلہ تقریب اور اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے بھی موضوع بحث ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ آیت اللہ آصف محسنی کی تیسری برسی کے موقع پر "تقریب مذاہب اسلامی نظر سے عمل تک" کے عنوان سے سیمینار عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی، اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا -، اسلامی علوم و ثقافت انسٹی ٹیوٹ، خاتم النبیین(ص) یونیورسٹی اور آیت اللہ آصف محسنی کی کاوشوں کی تدوین و اشاعت کے ادارے، کی شراکت سے، منعقد ہؤا[2]۔

افغانستان میں ان کی خدمات

آیت اللہ آصف محسنی ایک جدت پسند اور بابصیرت فقیہ تھے جنہوں نے افغانستان کے جہادی دور کے آغاز پر ایک عالم اور مجاہد کے طور پر اسلامی کانفرنس تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی اور اسلامی کانفرنس میں موجودگی کے موقع سے فائدہ اٹھا کر اسلامی ممالک کے سربراہوں سے فائدہ اٹھایا اور ان سے کہا کہ افغان قوم ایک ارب مسلمانوں کی نیابت کرتے ہوئے جہاد کر رہی ہے اور جس مورچے میں محمد علی (شیعہ) شہید ہو رہا ہے محمد عثمانی (سنی) بھی شہید ہو رہا ہے۔ یعنی ملت افغان کے درمیان اخوت قائم ہے۔

افغانستان پر اسلامی انقلاب کے اثرات

افغانستان پر اسلامی انقلاب کے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد افغانستان میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی اور یہ بیداری افغانستان کے مختلف علاقوں میں کمیونسٹ حکومت کے خلاف مسلحانہ تحریکوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی؛ آیت اللہ محسنی نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر "حزب حرکت اسلامی" کی بنیاد رکھی، جب دیکھا کہ افغان مجاہدین کو موصول ہونے والی امداد پاکستان پر مرکوز ہوئی ہے تو انھوں نے اپنا دفتر پاکستان منتقل کیا۔

حوزہ علمیہ خاتم النبیین(ص) کی بنیاد

حوزه علمیه خاتم النبیین کابل.jpg

انھوں نے کہا: جہاد کے دور کے بعد آیت اللہ آصف محسنی عبوری حکومت کے ترجمان مقرر ہوئے، کیونکہ وہ مذاہب سے بالاتر اور یکجہتی کے حامی تھے۔ افغانستان کا جمہوری دور ایک فقید المثال دور تھا۔ اس دور میں اہل تشیع نے یونیورسٹیاں اور تعلیمی مراکز قائم کئے؛ گوکہ اس دور میں ہمارے سیاستدانوں نے مواقع ضائع کئے، تاہم آیت اللہ آصف محسنی نے اس موقع سے استفادہ کیا اور سابق صدر حامد کرزئی کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بنا پر کابل میں ساڑھے تین ہیکٹر زمین حاصل کرکے مدرسۂ خاتم النبیین(ص) کی بنیاد رکھی؛

افغانستان میں مذہب اہل بیت(ع) کو سرکاری حیثیت

اور کہا کہ "میں نے مدرسے کو مورچہ نہیں بنایا، بلکہ اس کو علمی مرکز بنایا اور آج اس مدرسے میں تمام مذاہب کے طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں"۔ انھوں نے آیت اللہ آصف محسنی کی خدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس عالم دین نے افغانستان میں مذہب اہل بیت(ع) کو سرکاری حیثیت دلوائی، اور شیعیان افغانستان نے محسوس کیا کہ وہ تمام سختیاں جو وہ سہہ چکے تھے اور وہ تمام صعوبتیں جو وہ جھیل چکے تھے، نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہیں۔ انھوں نے شیعہ پرسنل اسٹیٹس لا منظور کروانے کی کوششیں بھی کیں؛ اور وہ فرصتوں سے بہت اچھا فائدہ اٹھاتے تھے۔

تنظیموں کے درمیان اخوت اسلامی

جہاد کے دور کے بعد، بہت سی تنظیمیں ملک کے اندر خانہ جنگی میں کود گئیں جبکہ آیت اللہ آصف محسنی ان تنظیموں کے درمیان اخوت اسلامی قائم کرنے میں کامیاب ہوئے؛ اور یہ اخوت یہاں تک پہنچی ہے کہ عاشورا کے دن - جب اہل تشیّع کے جذبات و احساسات عروج پر ہوتے ہیں - اہل سنت کے علماء فضائل اہل بیت(ع) بیان کرتے ہیں؛ اور اسلامی اخوت کا ثمرہ ہے۔

شیعہ علماء کونسل کی بنیاد

آیت اللہ آصف محسنی نے افغانستان کی شیعہ علماء کونسل کی بنیاد رکھی تھی جس کا اپنا منشور ہے؛ اس منشور کے مطابق تمام شیعہ علماء پر فرض ہے کہ تقریب مذاہب (اور شیعہ سنی اتحاد) کے لئے کوشش کریں۔ یہ کونسل 65 شعبوں اور 2000 اراکین پر مشتمل ہے۔ سماجی سلسلے میں بھی آیت اللہ آصف محسنی نے"تمدن ٹیلی وژن" کی بنیاد رکھی ہے[3]۔

آیت اللہ محسنی، ایک عالم سوگوار ہے

آیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد آصف محسنی 5 اگست 2019ء کو رحلت فرما گئے، اس روز ہم اپنے محبوب شہید علامہ عارف حسین الحسینی کا روز شہادت منا رہے تھے کہ غم فزوں تر ہوگیا۔ آیت اللہ آصف محسنی جہان علم و فضل میں بلند پایہ مقام رکھتے تھے، وہ مرد جہاد اور میدان سیاست کے کہنہ کار شناور بھی تھے۔ انھوں نے اتحاد امت کے لیے ایسی گراں قدر خدمات انجام دیں کہ ہر کوئی ان کے لیے رطب اللسان اور خراج عقیدت پیش کر رہا ہے۔

ان کی جدائی کا غم ہے کہ جس نے ایک عالم کو سوگوار کر دیا ہے۔ اتنا بڑا انسان ہم سے رخصت ہوا کہ ملکوں ملکوں، بستی بستی جس کی جدائی پر اہل ایمان و اسلام غم رسیدہ ہیں۔ کم لوگ ہوتے ہیں کہ جو دنیائے دانش میں کچھ نیا کرکے دکھاتے ہیں اور کاروان علم کو کسی نئی منزل تک پہنچاتے ہیں۔ آیت اللہ آصف محسنی انہی گنے چنے افراد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ علم حدیث میں ان کے چند کارنامے ہمیشہ اہل علم و تحقیق سے داد و تحسین پاتے رہیں گے۔

علم اخلاق پر ان کی کتاب قرن ہا قرن میں کیے ہوئے اس شعبے میں کارناموں میں ایک گرانبہا اور معتبر اضافہ ہے۔ جس میں ہر روایت صحت کے علمی اصولوں پر پرکھ کر شامل کی گئی ہے۔ علم اصول میں ان کی کتاب ماہرین علم اصول سے خراج تحسین وصول کرتی رہے گی۔ فقہ میں انھوں نے طبی اور جہادی موضوعات پر الگ سے رسالے مرتب کیے۔ انھوں نے اتحاد امت کے لیے بھی ایک فقیہ کی حیثیت سے فتاویٰ بیان کیے۔

تعلیمی سرگرمیان

انہوں نے ایک ایسی یونیورسٹی قائم کرکے دکھا دی، جس میں شیعہ سنی مکاتب فکر کے طلبہ اور علماء اپنے اپنے مکتب کے مطابق تعلیم دیتے اور تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ کلامی موضوعات پر بھی ان کا چھوڑا ہوا سرمایہ قابل قدر ہے۔ وہ شام، عراق، ایران، افغانستان اور پاکستان میں دینی اور علمی مراکز میں تدریس کرتے رہے۔ اس طرح سے ان کے طلبہ ملکوں ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔

ان کے علم کی دھاک ہر جگہ پر بیٹھی ہوئی ہے۔ افغانستان جیسے تباہ حال ملک میں انھوں نے تعمیری جذبے سے بہت سے کام کیے۔ جمہوری اور سیاسی عمل میں ان کا کردار نقش آٖفریں رہا۔ افغانستان کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ افغانستان انہی کی تحریک پر رکھا گیا۔ انھوں نے ایک ایسا آئین تیار کرنے میں کردار ادا کیا، جو سب کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور سنی اور شیعہ کو برابر کے شہری بنا دیتا ہے۔ انھوں نے تمدن کے نام سے ایک ٹی وی چینل شروع کیا، جو اسلامی افکار و تہذیب کا ترجمان بن گیا۔ ان کی کہی ہوئی باتیں سند کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ اپنی چوراسی سالہ فعال اور بھرپور زندگی میں ایک سو اسی کے قریب کتابیں چھوڑ کر جانا ایک پرکار ایمانی وجود کی اعجاز نمائی کے سوا اور کیا کہلا سکتا ہے[4]۔

علمی آثار

انہوں نے مذہب، سیاست، فقہ و دیگر موضوعات پر 64 سے زائد کتب تحریر کیں۔ ان کی چند اہم ترین کتابیں درج ذیل ہیں۔

  • قرآن یا سند اسلام
  • فوائد دین در زندگانی و عقاید اسلامی
  • اقتصاد معتدل
  • صراط الحق (علم کلام پر چار جلدوں میں)
  • حدود الشریعة فی محرماتها و واجباتها (علم فقه پر چار جلدوں میں)
  • حدود الشریعة فی واجباتها (دو جلد)
  • حکومت اسلامی
  • مشرعة بحارالانوار (دو جلدی)
  • الضمانات الفقهیة و اسبابها
  • القواعد الاصولیة و الفقهیة
  • روح از نظر دین
  • فوائد رجالیة
  • متافیزیک
  • معجم الاحادیث المعتبرة (آٹھ جلدوں میں)
  • الفقه و مسائل طبیة (دوجلد)
  • عقل و علم روحی جدید
  • تقریب مذاہب از نظر تا عمل
  • روش جدید اخلاق اسلامی
  • توضیح المسایل طبی (طب)
  • زن در شریعت اسلامی
  • جنگ در تاریکی (شیعه و سنی میں کیا فرق ہے)
  • مهدی موعد
  • تصویری از حکومت اسلامی در افغانستان
  • الارض فی الفقه
  • نظرة عابرة
  • خواست شیعیان افغانی
  • وظایف اعضای بدن
  • همبستگی اسلامی
  • حل 66 سؤال دینی
  • گوناگون(دو جلد)
  • عقاید، فقه و اخلاق
  • قضاء و شهادت
  • دین و اقتصاد
  • روابط انسان
  • راه ترقی ما
  • دین و زندگی
  • خود را بسازیم
  • وحدت امت
  • مقالات
  • توضیح المسایل سیاسی (کابل 1391 خ)
  • ‏عدالة الصحابه
  • توضیح المسایل جنگی
  • جهاد اسلامی(دو جلد)
  • عقاید برای ہمہ
  • خداشناسی منها دین
  • جوان و دوره جوانی

[5]۔

وفات

آیت اللہ محمد آصف محسنی 5 اگست 2019ء کو کابل میں وفات پا گئے۔ان کے جسد خاکی کو 6 اگست 2019ء کو حوزهٔ علمیه خاتم‌ النبیین ، کابل کی عمارت کے احاطے میں دفن کیا گیا۔

آیت اللہ آصف محسنی کے انتقال پر رہبر انقلاب اسلامی کا تعزیتی پیغام

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے ایک پیغام میں افغانستان کی شیعہ علما کونسل کے چیئرمین عالم مجاہد آیت اللہ حاج شیخ محمد آصف محسنی کے انتقال پر مرحو کے اہل خانہ اور افغانستان و ایران میں ان کے عقیدتمندوں کو تعزیت پیش کی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے افغانستان کے معروف عالم دین آیت اللہ محسنی کے انتقال پر اپنے تعزیتی پیغام میں مرحوم آیت اللہ محسنی کی سیاسی، ثقافتی، سماجی اور علمی شعبوں میں گرانقدر خدمات کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مرحوم آیت اللہ محسنی نے کئی سال تک مختلف شعبوں میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔

آپ نے عالم مجاہد آیت اللہ حاج شیخ محمد آصف محسنی کی کارکردگی کو گرانقدر اخلاقی و معنوی خزانے سے تعبیر کیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران اور افغانستان میں مرحوم کے چاہنے والوں اور اہلخانہ کو تعزیت اور تسلیت پیش کرتے ہوئے مرحوم کے لئے اللہ تعالی سے رحمت و مغفرت کی دعا کی۔

افغانستان کی شیعہ علماء کونسل کے صدر اور اتحاد کے داعی آیت الله محمد آصف محسنی دو روز قبل چوراسی سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کی میت کو منگل کے روز افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ آیت اللہ حاج شیخ آصف محسنی نے افغانستان کے بنیادی آئین کی تدوین اور اس ملک میں شیعہ مذہب کو باضابطہ طور پر تسلیم کروانے میں بنیادی کردار ادا کیا[6]۔

حوالہ جات

  1. نظریات علمی، اخلاقی و اجتماعی، آیت الله محسنی، ص 4 ـ 5
  2. برہانی: آیت اللہ آصف محسنی نے حکومت اسلامی پر کتاب لکھی تھی- شائع شدہ از:25 اگست 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 دسمبر 2024ء۔
  3. غفاری: آیت اللہ آصف محسنی جدت پسند اور بابصیرت فقیہ تھے- شائع شدہ از: 25 اگست 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 دسمبر 2024ء۔
  4. آیت اللہ محسنی، ایک عالم سوگوار ہے- شائع شدہ از: 9 اگست 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 دسمبر 2024ء۔
  5. آثار قلمی- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 دسمبر 2024ء۔
  6. آیت اللہ آصف محسنی کے انتقال پر رہبر انقلاب اسلامی کا تعزیتی پیغام- شائع شدہ از: 8 اگست 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 دسمبر 2024ء۔