مندرجات کا رخ کریں

الغدیر فی الکتاب والسنّة والأدب(کتاب)

ویکی‌وحدت سے

الغدیر فی الکتاب والسنّة والأدب جو الغدیر کے نام سے معروف ہے عربی زبان میں لکھی گئی ایک ایسی کتاب ہے جسے واقعہ غدیر خم میں امام علی علیہ السلام کی امامت و خلافت بلافصل کی اثبات کیلئے علامہ عبدالحسین امینی نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب 11 جلدوں میں مرتب ہوئی ہے جس کی پہلی جلد میں حدیث غدیر پر تحقیق کی گئی ہے۔ علامہ امینی حدیث غدیر کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول احادیث میں سب سے یقینی اور متواترترین حدیث قرار دیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے آپ اس حدیث کی سند کو اہل سنت منابع سے صحابہ و تابعین سے لے کر چودویں صدی کے علماء تک ذکر کرتے ہیں۔

کتاب کا تعارف

اس کتاب کی پہلی جلد میں آپ نے پہلے اس حدیث کو نقل کرنے والے110صحابی اور 84 تابعی کا نام ذکر کرتے ہیں۔ علامہ امینی نے بعد والے 6 جلدوں میں غدیر پر شعر لکھنے والے شاعروں کی معرفی کرتے ہوئے ان کے اشعار کو بیان کیا ہے۔ آخری جلدوں میں بھی شاعروں کی معرفی کے علاوہ بعض شیعہ اور سنی اختلافات جیسے خلفائے ثلاثہ کے مقام و منزلت اور شیعوں کا ان پر اعتراضات فدک، ایمان ابوطالب، معاویہ بن ابوسفیان کے رفتار و کردار کی توجیہ وغیرہ کو بھی ذکر کیا ہے۔

علامہ امینی اس کتاب کو لکھنے کی خاطر مختلف ممالک کی لائبریریوں من جملہ ہندوستان، مصر اور شام وغیرہ کا سفر کیا ہے. الغدیر کے مصنف فرماتے ہیں کہ میں نے ایک لاکھ سے زائد کتابوں کی طرف مراجعہ اور دس ہزار سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کیا ہے. الغدیر کی کتابت پر 40سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے۔الغدیر کے بارے میں کئی کتابیں اور تھیزز لکھے گئے ہیں۔ اسی طرح الغدیر میں پیش کیے گئے موضوعات کو 27 جلدوں پر مشتمل مجموعے کی صورت میں بھی منظر عام پر لایا گیا ہے[1]۔

اردو میں ترجمہ

کتاب کا پورا نام الغدیر فی الکتاب والسنۃ والادب ہے جوصرف صاحبان تحقیق کی آرزو ہی نہیں بلکہ ایسا آبشار حقیقت اور بے نظیر دائرۃ المعارف ہے جس کے ذریعہ ہر شخص دین اسلام کے معارف کی واقعی شناخت حاصل کر سکتا ہے۔ اردو میں انہیں گیارہ جلدوں کا ترجمہ کیاگیاہے اور اسے چھ حصوں میں شائع کیاگیاہے۔ اس کتاب کی عظمت و اہمیت کا اعتراف علمائے فریقین نے کیاہے ، الغدیر کی اشاعت کے بعد فارسی اور اردو میں بے شمار چھوٹی بڑی کتابیں اس سے استفادہ کرتے ہوئے تالیف کی گئی ہیں اور شائع ہوئی ہیں.

ادیب عصر عالی جناب مولانا سید علی اختر رضوی شعور گوپال پوری مرحوم نے وقت کی اہم ترین ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے آج سے تقریباً بیس سال قبل اس عظیم کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا تھا ۔ حضرت ادیب عصر ؒکی اہل بیت کرام سے ارادت و عقیدت بڑی شدید ، والہانہ اور فطری ہے ، توارث و ماحول کے علاوہ ان کی اپنی تحقیق و کاوش بہت وقیع ہے پھر یہ کہ وہ وکیل آل محمد کی حیثیت سے تقریر و تحریر دونوں میدانوں میں سرگرم عمل رہے ہیں ، آپ نے فضائل اہل بیت اور ولایت کو اپنی تحریر و تقریر میں بڑی شدت سے پیش کیاہے ، آپ ہمیشہ کوشاں رہتے تھے کہ اردو داں طبقہ حقیقی ولایت و فضائل اہل بیت سے آشنا ہو چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں متعدد مضامین قلم بند کئے

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس عظیم کتاب کی دو ( چھٹی اور گیارہویں )جلدیں ایک سفر کے دوران مولانا مرحوم سے چرا لی گئی تھیں جس کا قلق مولانا مرحوم کو آخر عمر تک تھا لیکن جب اشاعت کا زمینہ فراہم ہوا تو راقم الحروف سید شاہد جمال رضوی ( فرزند مترجم الغدیر ) نے اپنی استطاعت بھر کوشش کرکے غائب شدہ جلدوں کا ترجمہ مکمل کیا تاکہ ترجمۂ الغدیر کا یہ سیٹ بطور کامل منظر عام پر آسکے۔

مؤلف کا تعارف

کتاب کے مؤلف علامہ عبدالحسین الامینی نجفی ہیں جو ۱۳۲۰ہجری کو شہر تبریز میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم اور سطوح کے دروس تبریز میں حاصل کر کے نجف اشرف تشریف لے گئے اور وہاں جید علمائے کرام اور آیات عظام سے کسب فیض کیا ، آپ کو بہت سے آیات عظام نے اجازہ اجتہاد و روایت عطا فرمایا ۔علامہ امینیؒ کا زیادہ تر وقت تالیف و تحقیق میں گزرتا تھا اسی لئے الغدیر کےعلاوہ دیگر کتابیں بھی زیور طبع سے آراستہ ہوئیں. اس کتاب کے مترجم ادیب عصر مولانا سید علی اختر رضوی گوپال پوری ہیں جنہوں نے دیہات کی زندگی میں وسائل و آسائش حیات کی کمی کے باوجود اس کا ترجمہ کیاہے۔

کتاب غدیر؛عالم اسلام کا عظیم سرمایہ

غدیر ہمارے عقائد و کردار کی بنیاد ہے ، ہماری ثقافت کی شہ رگ حیات ہے ، ہم اسی سے لو لگائے جیتے آئے ہیں اور اسی پر مرتے رہیں گے ، اس کا سر چشمہ قرآن کی ابد آثار آیات سے ملتاہے اور اس کی آبیاری مسلسل تیس سالہ سیرت رسول نے کی ہے ۔ آنحضرت(ص) نے اعلان غدیر کی اہمیت و عظمت کے پیش نظر اسے آنے والی تمام نسلوں کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کا خصوصی حکم دیاہے چنانچہ آپ کا ارشاد ہے : الا فیبلغ الشاھد الغائب خبردار ! حاضرین ، غائب افراد تک یہ پیغام پہونچا دیں۔آنحضرت کا یہ آفاقی اعلان آج بھی ہمارے ذہنوں کو ٹہوکا دے رہاہے کہ ہم اس دینی فریضہ سے غافل نہ ہوں اور اپنی مقدور بھر کوشش کر کے غدیر کی بات معاشرے میں عام کریں اور دنیا کے گوشے گوشے میں پہونچائیں۔

قابل مبارکباد ہیں وہ افراد جو الا فیبلغ الشاھد الغائبکو اپنی زندگی کا اہم ترین مقصد سمجھتے ہوئے زبان و قلم کے ذریعہ غدیر کی صحیح تصویر اور حقیقی پیغام مودت و ولایت دنیا کے گوشے گوشے میں پہونچا کر رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی تائید حاصل کررہے ہیں۔ کتاب غدیر اسی سلسلے کی عمدہ اور اہم ترین کڑی ہے ، جسے وقت کے جید عالم حضرت علامہ شیخ عبدالحسین امینی طاب ثراہ نے ہزاروں کتابوں کی چھان بین کے بعد تحریر کیاہے ۔ یہ کتاب صرف صاحبان تحقیق کی آرزو ہی نہیں بلکہ ایسا آبشار حقیقت اور بے نظیر دائرة المعارف ہے جس کے ذریعہ ہر شخص غدیر کی واقعی شناخت حاصل کرسکتاہے ۔

یہ کتاب علامہ امینی کی عرفان انگیز پیش کش اور معرکة الآراء کارنامہ ہے، یہ آپ کی خانوادہ ٔ عصمت و طہارت سے بے پناہ عقیدت کا بین ثبوت بھی ہے ، اس میں جہاں حق کی حمایت دیدہ زیبی اور عرق ریزی سے کی گئی ہے وہیں باطل اور باطل پرستوں کے کریہہ چہروں سے نقاب کشائی بھی نہایت سلجھے اور موثر انداز میں کی گئی ہے۔ ظاہر ہے جس کتاب میں حقائق و معارف کا سمندر موجزن ہو اس کا ترجمہ دنیا کی ہر ترقی یافتہ زبان میں ہونا چاہئے تاکہ یہ انوکھا پیغام مودت دنیا کے گوشے گوشے میں عام ہوسکے

یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ اصل کتاب الغدیر گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے لیکن کتاب کی ضخامت اور اردو داں حضرات کی سہولت کو پیش نظر رکھتے ہوئے گیارہ جلدوں کو چھ جلدوں میں شائع کیاگیاہے، پہلی جلد جداگانہ طور پر شائع ہوئی ہے جس میں صرف حدیث غدیر سے متعلق بحث و گفتگو ہوئی ہے ، شروع میں مترجم الغدیر ادیب عصر مولانا سید علی اختر رضوی شعور گوپال پوری کی اجمالی سوانح حیات کے ساتھ ساتھ ان کے متعلق علماء کے تاثرات بھی موجود ہیں جنہیں گوشۂ شعور کے عنوان کے تحت شامل کیاگیاہے ، بہت سے علماء نے کتاب اور مؤلف و مترجم الغدیر کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیاہے جن میں سرکار شمیم الملة مولانا سید شمیم الحسن ، آفتاب شریعت مولانا سید کلب جواد ، استاد الاساتذہ مولانا محمد شاکر امروہوی ، مولانا سید احمد حسن ، مولانا سید محمد جابر جوراسی، مولانا ناظم علی خیرآبادی ، مولانا نیاز علی ، مولانا سید ممتاز علی اور مولانا سید ضمیر الحسن شامل ہیں۔ متذکرہ علماء نے مترجم الغدیر کی علمی و ادبی حیثیت کو بیان کرنے کے بعد عہد حاضر میں اس کتاب کی شدید ضرورت پر روشنی ڈالی ہے اور اس بات کی صراحت کی ہے کہ مترجم الغدیر نے اس عظیم کتاب کو اردو زبان میں منتقل کرکے عالم تشیع پر بہت بڑا احسان کیاہے۔

یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ یہ کتاب اب تک دو مرتبہ شائع ہوچکی ہے ، جسے لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور پہلے ایڈیشن کی تمام کاپیاں بہت جلد ختم ہوگئیں ، پہلی مرتبہ قم ایران سے قرآن و عترت فائونڈیشن نے شائع کیا اور اس کے چھ مہینے بعد پاکستان سے بھی شائع ہوئی اور اب تیسری مرتبہ ہندوستان سے شائع ہورہی ہے ،اس سلسلے میں ہمیں آپ کے کسی بھی طرح کے تعاون کی شدید ضرورت ہے ، خدا سے دعا ہے کہ ہندوستان میں بھی اس کتاب کا اسی طرح استقبال ہو جس طرح ایران اور پاکستان میں ہوا تھا[2]۔

الغدیر اور اسلامی اتحاد

ہمارے زمانے کے مصلحین اور روشن فکر دانشوراسلامی فرقوں کے اتحاد ویک جہتی کو ملت اسلامیہ کی بنیادی ترین ضرورتوں میں شمارکرتے ہیں بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ دشمن چاروں طرف سے اسلام ومسلمین پر حملے کررہا ہے اور مختلف وسائل و ذرایع استعمال کرکے مسلمانوں کے درمیان پرانے اختلافات کو دوبارہ ھوادےکر نئے طریقوں سے ان کو تفرقہ و تشتت میں مبتلا کرنے کی کوشش کررہا ہے بنیادی طور پر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ شارع مقدس اسلام نے اتحاد کو نہایت اھمیت دی ہے اور اتحاد کو اسلام کے اہم ترین مقاصد میں شامل کیا ہے اس امر کی گواہی قرآن و سنت بھی دے رہے ہیں بنابریں بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آسکتاہے کہ "الغدیر”جیسی کتاب کی اشاعت کہ جس کا موضوع مسلمانوں کا بنیادی اختلافی مسئلہ ہے کیا اسلامی اتحاد جیسے مقدس و اعلی ھدف میں رکاوٹ نہیں ہے؟

اس سوال کا واضح واطمئنان بخش جواب دینے کے لئے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ اسلامی اتحاد کا مفہوم کیا ہےاور اس کی حدود کہاں تک ہیں اسکے بعد ہم گرانقدر کتاب الغدیر اور اس کے جلیل القدر مصنف علامہ امینی رضوان اللہ علیہ کے کردار پر روشنی ڈالیں گے۔

اسلامی اتحاد

اسلامی اتحاد سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ مراد ہے کہ اسلامی مذاھب میں ایک کا انتخاب کیا جاۓ اور دیگر مذاھب کو کنارے لگادیا جاۓ ،یا یہ مراد ہے کہ تمام مذاھب کے اشتراکات کو لیکر مفترقات کو مسترد کردیا جاے اورایک نیا مذھب بنایا جاے کہ اس طرح سارے مذاھب کالعدم ہوجائیں ؟یا اتحاد اسلامی سے مراد مذاھب کا اتحاد نہیں بلکہ مسلمانوں کا اتحاد ہے ؟وہ اس طرح سے کہ اسلامی مذاھب کے پیرو اپنے اختلافات کو ہاتھ لگاے بغیر مشترکہ دشمن کے مقابل متحد ہوجائیں۔

اسلامی اتحاد کے مخالف اتحاد کو غیر منطقی اور غلط معنی میں پیش کرکے کہتے ہیں کہ اتحاد سے مراد مذاھب کا اتحاد ہے تاکہ پہلے ہی مرحلے میں وہ شکست سے دوچار ہوجاے۔ صاف روشن ہے کہ علماء اور روشن فکراسلامی دانشوروں کے نزدیک اتحاد یہ نہیں ہے کہ تمام مذاھب کو ملاکر ایک کردیا جاے یاتمام مذاھب کے مشترکات کو لےلیا جاے یا ان کے مفترقات کو ترک کردیا جاے کیونکہ یہ نہ معقول ہے نہ منطقی بلکہ ان لوگوں کے کہنے کا یہ مقصد ہے کہ مسلمانوں کو مشترکہ دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد اور ایک ہوجانا چاہیے۔

علماء اور دانشوروں کے نزدیک اتحاد

مسلمان علماء اور دنشوروں کا کہنا ہےکہ مسلمانوں کے پاس اتحاد کے بہت سے اسباب ہیں جو مسلمانوں کے اتحاد کا باعث بن سکتے ہیں سارے مسلمانان ایک خدا ،ایک رسول پر ایمان رکھتے ہیں سارے مسلمانوں کی ایک کتاب ہے یعنی قرآن کریم ،اور سب کا قبلہ بھی ایک ہی ہے سارے مسلمان ایک ساتھ ایک دن اور ایک ہی جگہ پر حج بجالاتے ہیں ان کی عبادات و معاملات کے احکام ایک جیسے ہیں کچھ جزئی امور میں اختلاف کے علاوہ ان کے مابین اختلاف نہیں ہے مسلمان ایک ہی نظریہ کائینات رکھتے ہیں ان کی ایک ہی تہذیب و تمدن ہے اور سب اس عظیم تہذیب و تمدن میں برابر کے شریک ہیں ۔ان تمام امور میں اتحاد مسلمانوں کو امت واحدہ میں تبدیل کرسکتاہے اوروہ ایسی عظیم طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں جس کے سامنے دنیا کی تمام طاقتیں جھکنے کو مجبور ہوجائیں گی ۔

قرآن کریم نے اتحاد پر بے حد زور دیا ہے قرآن کے صریحی حکم کے مطابق مسلمان بھائی بھائی ہیں اور ان کے حقوق اور ذمہ داریاں انہیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہیں تاہم مسلمان ہرطرح کے وسائل وذرایع کے مالک ہونے کے باوجود ان سے استفادہ کیوں نہیں کرتے؟ علماء کی نظر میں اس بات کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ مسلمان اتحاد کے لئے اپنے مذھب کے اصول و فروع پر کسی طرح کا سمجھوتہ کریں اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں ہےکہ اپنے اصولی اور فروعی اختلافات کے سلسلے میں بحث واستدلال اور تحقیقات نہ کریں

بلکہ اتحاد کے لئے جس چیزکی ضرورت ہے وہ یہ ہےکہ مسلمان یہ کوشش کریں کہ ایک دوسرے کے جذبات مجروح نہ ہوں ،ایک دوسرے کو برابھلا نہ کہیں ،ایک دوسرے پر تہمت وبہتان نہ لگائیں اور کم ازکم ان اصولوں کی پابندی کریں جو اسلام نے غیر مسلمانوں کو اسلام کی دعوت دینے کی غرض سے وضع کیےتھے ۔ اتحاد کے بارے میں بعض لوگ یہ منفی سوچ رکھتے ہیں کہ جو مذاھب صرف فروع میں اختلاف رکھتے ہیں جیسے شافعی اور حنفی وہ آپس میں ایک ہوسکتے ہیں لیکن جو مذاھب اصول میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں ان کے مابین اتحاد ممکن نہیں ہے۔

اس فکر کے حامل لوگوں کا کہنا ہےکہ اصول مذھب بہم پیوستہ تعلیمات کا ایسا مجموعہ ہے جس میں ایک اصل پرلچک دکھانے سے گویا سارے اصول ناکارہ ہوجاتے ہیں ۔ علماءو دانشور ان لوگوں کویہ جواب دیتے ہیں کہ ضروری نہیں ہےکہ ہم اصول دین کو بہم پیوستہ اصولوں کا مجموعہ سمجھیں اور "یا سب یا کچھ بھی نہیں "کے اصول کی پیروی کریں بلکہ یہاں پر یہ قاعدہ لاگوکیا جاے گا کہ المیسور لایسقط بالمعسور،ومالایدرک کلہ لایترک کلہ یعنی ناممکن امر کی بناپر ممکن امر کو ترک نہیں کیا جاسکتاہے اور جس چیزکو مکمل طرح سے درک(حاصل ) نہیں کیاجاسکتا اسے مکمل طرح سے چھوڑابھی نہیں جاسکتا۔

اس سلسلے میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت ہمارے لئےبہترین نمونہ عمل ہے آپ نے مسلمانوں کو تفرقہ و تشتت سے بچانے کے لئے ایسا بے مثال منطقی اور معقول موقف اپنایا تھا جو آپ کی عظیم شخصیت کے شایان شان تھا،آپ نے اپنے حق کی بازیابی کے لئے اپنی طاقت بھر کوشش کی امامت کے احیاء کے لئےکوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا لیکن کبھی بھی "یا سب یا کچھ نہیں "کے اصول پر عمل نہیں کیا بلکہ برعکس مالایدرک کلہ لایترک کلہ کے اصول کو اپنی روش کی بنیاد قراردیا۔

امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنے حق کے غاصبوں کے خلاف قیام نہیں کیا اور آپ کا قیام نہ کرنا مجبوری کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ آپنے سوچ سمجھ کر یہ موقف اختیار کیا تھا،آپ موت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ شہادت آپ کی دیرینہ آرزو تھی اور آپؑ نے فرمایا ہے کہ آپؑ موت سے اس طرح مانوس تھے جس طرح بچہ اپنی ماں کے دودھ سے مانوس ہوتاہے ،حضرت علی علیہ السلام نے اپنے زمانے میں اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ ان حالات میں ترک قیام بلکہ تعاون ضروری ہے آپؑ نے متعدد مرتبہ اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے ،مالک اشتر کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ

فامسکت یدی حتی رایت راجعۃ الناس قد رجعت عن الاسلام و اھلہ یدعون الی محق دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ فخشیت ان لم انصر الاسلام و اھلہ اری فیہ ثلمااوھدما تکون المصیبۃ بہ علی اعظم من فوت ولایتکم التی انما ھی متاع ایام قلائل "ان حالات میں میں نے اپنا ہاتھ روکے رکھایہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ مرتد ہونے والے اسلام سے مرتد ہوکر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو مٹاڈالنے کی دعوت دے رہے ہیں اب میں ڈرا کہ اگر کوئی رخنہ یا خرابی دیکھتے ہوئے میں اسلام ومسلمین کی مدد نہ کرونگا تو یہ میرے لئے تمہاری خلافت کے ہاتھ سے چلے جانے سے بڑی مصیبت ہوگی جوکہ چند دنوں کا اثاثہ ہے”۔

چھ افراد پر مشتمل شوری میں عثمان کے خلیفہ چنے جانے کے بعد آپ نے شوری کو مخاطب کرکے کہا کہ لقد علمتم انی احق الناس بھامن غیری واللہ لاسلمن ماسلمت امور المسلمین ولم یکن فیھا جورالاعلی خاصۃ (خطبۃ 72 )"تم جانتے ہوکہ مجھے اوروں سے زیادہ خلافت کا حق پہنچتاہے خدا کی قسم جب تک مسلمانوں کے امورکا نظم ونسق برقراررہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم وجور کا نشانہ بنتی رہے گی میں خاموشی اختیار کرتارہونگا تاکہ (اس صبرپر)اللہ سے اجر و ثواب طلب کروں اور اس زیب وزینت و آرائیش کو ٹھکرادوں جس پر تم مرمٹے ہو”۔

ان امور سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے کبھی بھی یا سب کچھ یا کچھ نہیں کے اصول پر عمل نہیں کیا بلکہ اس طرزفکر کو مسترد کیا یہاں اس مختصر مقالے میں اتحاد قائم رکھنے کے سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام کےاقدامات کااحصاء نہیں کیاجاسکتا آپ کی سیرت پر لکھی گئی کتابوں میں ان امور کا تفصیل سے مطالعہ کیا جاسکتا ہے ۔

علامہ امینی کا نظریہ

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ علامہ امینی کتاب الغدیر کے مولف کی سوچ کیا ہے اور کیا وہ صرف تشیع میں اتحاد کو منحصر سمجھتے ہیں یا یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اسلامی اتحاد کا دائرہ وسیع تر ہے اور کلمہ شہادتین کی ادائیگی کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق بن جاتے ہیں اور قرآن کے مطابق ان کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم ہوجاتاہے۔علامہ امینی نے اتحاد کے بارے میں اپنے نظریات متعدد مرتبہ بیان کیے ہیں اور یہ بھی واضح الفاظ میں بیان کردیا ہےکہ الغدیر جیسی کتاب اتحاد بین المسلمین میں مثبت کردار کی حامل ہے۔

علامہ امینی نے دشمنوں کی صف یا خود اپنے حلقے میں موجود اعتراض کرنے والوں کا جواب دیتے ہوے عالم اسلام میں کتاب الغدیر کی افادیت اور مثبت کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا یہ کام خدمت دین اعلائےکلمہ حق اور امت اسلامی کو زندہ کرنے کے لئےہے علامہ امینی الغدیرکی تیسری جلد میں نقدواصلاح کے زیر عنوان ابن تیمیہ ،آلوسی ،اور قصیمی کی یہ افتراپردازی کہ شیعہ اھل بیت کے بعض افراد جیسے زید بن علی کو دوست نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ "اس طرح کے جھوٹے الزامات اور تہمتیں فساد کاباعث ہوتی ہیں اور امت اسلامی میں دشمنی پھیلاتی ہیں اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالتی ہیں امت کو متشتت کردیتی ہیں اور مسلمانوں کے مفادات کے منافی ہیں”

علامہ کا رشید رضا کو جواب

علامہ امینی الغدیر کی تیسری جلد میں سید رشید رضا کے ان الزامات کا جواب دیتے ہیں کہ شیعہ مسلمانوں کی ہرشکست سے خوش ہوتے ہیں یہاں تک کہ ایران میں روس کےہاتھوں مسلمانوں کی شکست کا بھی جشن منایا گیاتھا علامہ امینی ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ جھوٹے الزامات خود سید رشید رضا کی ذھنی اختراع ہیں وہ لکھتے ہیں کہ اس طرح کے الزامات عراق و ایران کے شیعہ مسلمانوں پر لگاے جاتے ہیں لیکن ان دونوں ملکوں کا سفر کرنے والے سیاحوں مستشرقین اور اسلامی ممالک کےنمائندوں کو ایسی کوئی چیزنہیں دکھائی دی۔

شیعہ بلااستثناء تمام مسلمانوں کے جان و مال و آبرو کو محترم سمجھتاہے اور جب بھی عالم اسلام میں کسی بھی علاقے اور کسی بھی فرقے پر براوقت پڑا ہے اہل تشیع نے ان کے ساتھ غم بانٹا ہے شیعہ نے کبھی بھی اسلامی اخوت کو جس پرقرآن و سنت نے تاکید کی ہے عالم تشیع میں محدود نہیں سمجھا ہے اور اتحاد کےسلسلے میں شیعہ وسنی میں کبھی فرق نہیں کیا ہے۔

قدماء کی کتابوں سے استفادہ

علامہ امینی اپنی کتاب کی تیسری جلد میں قدماءکی بعض کتابوں جیسے

  • ابن عبدربہ کی عقد الفرید ،
  • ابوالحسین خیاط معتزلی کی الانتصار ،
  • ابومنصوربغدادی کی الفرق بین الفرق ،
  • محمد بن عبدالکریم شہرستانی کی الملل والنحل ،
  • ابن تیمیہ کی منھاج السنۃ ،ابن کثیر کی البدایہ والنھایہ

بعض متاخرین کی کچھ کتابیں

اور بعض متاخرین کی کچھ کتابیں جیسے

  • شیخ محمد خضری کی الامم الاسلامیہ ،
  • احمد امین کی فجرالاسلام ،
  • محمد ثابت مصری کی الجولۃ فی ربوع الشرق الادنی ،
  • قصیمی کی الصراع بین الاسلام والوثنیہ والشیعہ

شیخ امینی ان پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کتابوں پر تنقید کرنے سے ہماراہدف یہ ہے کہ ہم عالم اسلام کو خبردار کریں مسلمانوں کو بیدار کریں کہ یہ کتابیں عالم اسلام کے لئے شدید ترین خطرات کاباعث ہیں کیونکہ اسلامی اتحاد کونشانہ بنایا ہواہے ان سے مسلمانوں کی صفوف میں شگاف پڑجائیں گے ان کتابوں کی طرح سے کوئی اور شی مسلمانوں کے اتحاد کو نقصان نہیں پہنچاتی اور ان کے رشتہ اخوت کو پارہ نہیں کرتی۔

مصر کے ایک محقق کو جواب

علامہ امینی نے اپنی گرنقدر کتاب کی پانچویں جلد میں نظریۃ کریمہ کی زیرعنوان مصر کے ایک مصنف کے تعریفی خط کا جواب دیا ہے۔ جس سے یہ بالکل واضح ہوجاتاہےکہ آپ اتحاد بین المسلمین کے بڑے حامیوں میں سے تھے علامہ امینی لکھتے ہیں کہ "مذاھب کےبارے میں آراءو نظریات کا اظہار کرنا آزاد ہے اس سے رشتہ اخوت اسلامی کو کہ جس پر قرآن نے انماالمومنوں اخوہ کی مھرلگائی نقصان نہیں پہنچتا گرچہ علمی بحث ومباحثہ ،کلامی ومذھبی مجادلہ اپنے عروج ہی کوکیوں نہ پہنچاہو۔

وہ لکھتے ہیں اس سلسلے میں ہمارے لئے ماسلف بالخصوص صحابہ وتابعین کی سیرت نمونہ عمل ہے۔ علامہ امینی لکھتے ہیں کہ ہم مصنفین ومولفین جو دنیا کہ گوشہ وکنار میں ہیں ہم اصول وفروع میں تمام اختلافات کے باوجودایک جامع مشترکہ قدر کےحامل ہیں اور وہ خداورسول پر ایمان جوہمارےوجود میں رچابساہے اور یہی اسلام کی روح اور کلمہ اخلاص ہے ”

علامہ امینی لکھتے ہیں کہ ہم اسلامی مصنفین سب کے سب پرچم اسلام کے تحت زندگی گزاررہے ہیں اور قرآن و رسالت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں اپنافریضہ اداکررہے ہیں ہمارا پیغام یہ ہےکہ ان الدین عنداللہ الاسلام اور ہمارانعرہ یہ ہےکہ لاالہ الااللہ ومحمد رسول اللہ جی ہاں ہم حزب اللہ ہیں اور اس کے دین کےحامی ہیں ۔ علامہ امینی اپنی کتاب کی آٹھویں جلد میں "الغدیر یوحد الصفوف فی الملاء الاسلامی "کے زیر عنوان اسلامی اتحاد میں کتاب الغدیر کے کردار پرروشنی ڈالتے ہیں اس باب میں وہ ان لوگوں کے الزامات کاجواب دیتے ہیں جوغدیر کو مسلمانوں کےدرمیان تفرقہ کا سبب سمجھتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ الغدیر سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجاتاہے اور مسلمان ایک دوسرے کےقریب آتےہیں اس کے بعد غیر شیعہ علماء کے اعترافات نقل کرتےہیں اور آخر میں شیخ محمد سعید دحدوح کا خط بھی قارئین کی سامنے پیش کرتے ہیں۔

اھل تشیع پر عائد دسیوں بےبنیاد الزامات کا مستدل جواب

اسلامی اتحاد میں الغدیر اس طرح مفید ثابت ہوئی ہےکہ سب سے پہلے اھل تشیع کا نقطہ نظر بیان کرتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہےکہ اسلام کا یہ بڑا فرقہ پروپگینڈوں کے برخلاف سیاسی نسلی اور خاندانی مسائل کی بناپر معرض وجود میں نہیں آیا بلکہ اھل تشیع قرآن و سنت پر استوار مستحکم نظریاتی نظام کے حامل ہیں ،دوسری بات یہ ہے کہ الغدیر اس وجہ سے بھی اتحاد کےلئے مفید ہےکہ اھل تشیع پر عائد دسیوں بےبنیاد الزامات کا مستدل جواب پیش کرتی ہے جن کو پڑہ کرمنصف مزاج لوگ یقینا اس نتیجہ پر پہنچتے ہونگے کہ الزام تراشی سے صرف اور صرف دشمنان دین کے مفادات فراہم ہوتے ہیں اور امت اسلامیہ میں تفرقہ پھیلتا ہے۔ تیسری بات یہ ہےکہ الغدیر امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کوجوکہ اسلام کی مظلوم ترین شخصیت ہے اور جو تمام مسلمانوں کارہبر بننے کے قابل ہے ان کی اور ان کی ذریت کی شناخت کرواتی ہے ۔

الغدیر کے بارے میں علماء اسلام کے نظریات

عالم اسلام کے علماء اور دانشورجو تعصب سے مبرا ہیں الغدیر کے بارے میں وہی نظریات رکھتے ہیں جوہم نے بیان کیے ہیں ۔ محمدعبدالغنی حسن مصری الغدیر کی پہلی جلد طبع دوم کے مقدمے پر تقریظ میں لکھتے ہیں کہ خدا آپ کی اس غدیر کو کہ جس میں صاف وشفاف پانی ہے شیعہ اور سنی بھائیوں کےدرمیان صلح ودوستی کا باعث قراردے کہ وہ متحد ہوکر امت واحدہ کی بنیاد رکھیں ۔

مصر کے الکتاب رسالے کے مدیر عادل غضبان الغدیر کی تیسری جلد کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ یہ کتاب اھل تشیع کی منطق کوواضح کرتی ہے اور اھل سنت اس کتاب کےذریعے شیعہ فرقے کے بارے میں صحیح شناخت حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ شیعوں کی شناخت سے شیعہ سنی نظریات قریب آئیں گے اور مجموعی طور سے سب ایک صف میں آجائیں گے ۔ جامع الازھر کے شعبہ اصول دین میں فلسفہ کے "استاد ڈاکٹر محمد غلاب" الغدیر کی چوتھی جلد کے مقدمےمیں لکھتے ہیں کہ

"آپکی کتاب بہت مناسب وقت میں مجھے موصول ہوئی کیونکہ میں اس وقت مسلمانوں کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں اوریہ چاھتاہوں کہ اھل تشیع کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کروں آپ کی کتاب سے مجھے بڑی مدد حاصل ہوگی اور میں شیعوں کےبارے میں دوسروں کی طرح غلطیاں نہیں کرونگا ۔

"ڈاکٹر عبدالرحمن کیالی حلبی" الغدیر کی چوتھی جلد کے مقدمے میں دور حاضر میں مسلمانوں کےانحطاط کےاسباب کاذکر کرتے ہوئے اس انحطاط سے نجات حاصل کرنے کی راہوں کی نشاندھی بھی کرتے ہیں ان میں ایک راہ وصی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شناخت کو بھی قراردیتے ہیں وہ کہتے ہیں "کتاب الغدیر اور اس کے مستدل مطالب ایسے مطالب ہیں جن سے ہرمسلمان کو آگاہ ہونا چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہوکہ مورخین نے کس طرح غلطیان کی ہیں اور حقیقت کہاں ہے کیاہے ہمیں اس کتاب کے ذریعے ماضی کی تلافی کرنی چاہیے اور کوشش کرکے اتحاد قائم کرنا چاہیے تاکہ اجر وثواب کے مستحق بن سکیں[3]۔

حواله جات

  1. الغدير في الكتاب والسنة والأدب- شائع شدہ از: 1 جون 1994ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 جون 2025ء
  2. غدیر، قرآن،حدیث اور ادب میں- شائع شدہ از:4 اگست 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 جون 2025ء
  3. الغدیر اور اسلامی اتحاد- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 جون 2025ء