شامی علوی فرقه
| شامی علوی فرقه | |
|---|---|
| نام | شامی علوی فرقہ |
| عام نام | شامی علوی فرقہ |
| بانی |
|
| نظریہ | ائمه کے بارے میں غلو اور خدا کا امام علی علیه السلام میں حلول کرنے کا عقیده |
شامی علوی فرقه ، نصیریہ یا انصاریہ، شام میں شیعہ فرقوں میں سے ایک ہے۔ کچھ تاریخی ذرائع اور ملل و نحل کی کتابوں میں انہیں غالی فرقوں میں سے ایک کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس فرقے کی ابتدا تیسری صدی ہجری میں ہوئی اور نصیریوں کی اصل رہائش گاہ شمالی شام میں تھی۔
تاریخی پس منظر
شامی علویوں کو تاریخی ادوار میں ہمیشہ شام کی سنی حکومتوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ نصیریہ کا شیعہ ہونا اور اس فرقے کی بعض شاخوں کا غالیانہ رجحان، حکومتوں کی جانب سے ان پر دباؤ بڑھانے میں مؤثر کردار ادا کرتا رہا۔ نصیریہ شام کے علاوہ جنوبی ترکی، شمالی لبنان اور فلسطین میں بھی آباد ہیں۔ چودہویں اور پندرہویں صدی ہجری میں کئی صدیوں کی مصیبتوں اور بدبختیوں کے بعد وہ اقتدار میں آنے میں کامیاب ہوئے۔ شام کے صدر بشار الاسد کا تعلق علوی فرقے سے ہے۔
نصیریه فرقے کی ابتدا
فرقہ نصیریہ کی ابتدا محمد بن نصیر سے منسوب ہے، جو امام ہادی (علیہ السلام) کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور بعض ذرائع کے مطابق امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے اصحاب میں سے تھے۔ محمد بن نصیر نے امام ہادی (علیہ السلام) کے دور میں کچھ انحرافات ظاہر کیے جس کی وجہ سے امام نے اس سے لاتعلقی اختیار کی اور اسے خارج کر دیا۔ اس کے انحرافات ائمہ (علیہم السلام) کے حق میں غلو پر مرکوز تھے اور اس نے بابیت اور امام زمان (علیہ السلام) کی نیابت کا دعویٰ کیا۔
شامی علوی تاریخی مختلف ادوار میں
حمدانیان کا دور
حمدانیاں ایک شیعہ، امامی ریاست تھیں جس نے شام میں تشیع کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ سیف الدولہ حمدانی نے نصیریہ کے پھیلاؤ کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کیا اور نصیریہ کے رہنما، خصیبی، نے اس فرقہ کی بنیاد مضبوط کی۔
سلاجقه کا دور
دورہ سلاجقہ میں، سلاجقوں کی حکومت نے شام میں پہلی بار ضد شیعی اقدامات کا آغاز کیا۔ سلاجقوں کے دباؤ کی شدت نے علویوں کے لیے زندگی مشکل بنا دی، اور کئی محققین اس دباؤ کو علویوں کی حلب سے لاذقیہ ہجرت کا اصل سبب قرار دیتے ہیں۔ اس دور میں علویوں کو اپنی مذہبی شناخت اور حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کرنی پڑی۔
زنگیوں کا دور
سلجوقیوں کی شکست کے بعد، زنگی خاندان نے شام پر حکومت قائم کی اور علویوں پر دباؤ بڑھ گیا۔ نورالدین زنگی، جو ضدشیعی حکمرانوں میں سے ایک انتہائی متعصب تھے، نے شیعی عقائد اور رسومات کے خلاف جنگ شروع کر دی۔
ایوبیوں کا دور
ایوبیوں کے هاتھوں فاطمی خلافت کے زوال کے بعد، علویوں نے صلاح الدین ایوبی کی فتحوں میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم، فتح کے بعد، صلاح الدین نے دوبارہ علویوں پر حملہ کیا اور ان کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے۔
ممالیک کا دور
ممالیک دورے میں بھی علویوں کو بہت زیادہ ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک الظاهر بیبرس اور سلطان قلاوون نے تشیع کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا اور علویوں پر دباؤ برقرار رہا۔
عثمانی سلطنت کے دوران علویوں کی حالت
سلطان سلیمان اول کے زمانے میں، حلب میں علویوں کے خلاف قتل عام کیا گیا۔ سلیمان نے سنی علماء کے فتویٰ کے تحت علویوں کا بہیمانہ قتل عام کیا، اور بہت سے علوی افراد پہاڑوں اور نصیریہ کے پہاڑوں کی طرف فرار ہو گئے۔
فرانس نگرانی کے دوران علویوں کی حالت
1920ء میں، فرانسیسیوں نے جبال نصیریہ کو شام کے دیگر علاقوں سے الگ ایک آزاد علاقہ قرار دیا۔ 1922ء میں، علویوں کی سرزمینوں کو "علوی ریاست" کا نام دیا گیا اور جنرل بیوٹ کو اس کا حکمران مقرر کیا گیا۔ علویوں کی آزاد ریاست 1936ء تک قائم رہی اور اس کے بعد شام میں ضم ہو گئی۔
علویوں کی آزاد ریاست کی تشکیل
1925ء میں، علویوں کی خودمختاری کو ایک نئے مرحلے میں داخلہ ملا، جب فرانس نے علوی ریاست کے مکمل خود مختاری کا اعلان کیا۔ یہ ریاست 1936ء تک برقرار رہی۔ اس دوران، علویوں کی سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، اور سماجی ڈھانچوں میں اہم تبدیلیاں آئیں، اور یہ معاشرہ ایک الگ تھلگ کمیونٹی سے ایک متحرک معاشرے میں تبدیل ہو گیا، جو خاص طور پر سیاسی میدان میں ایک اہم موثر کردار کے طور پر ابھرا۔ سنہ 1936ء میں، فرانسیسی حکام نے قومی تحریکوں اور مخالف سیاسی جماعتوں کے احتجاج کی وجہ سے علوی ریاست کو ختم کر دیا اور اس کی سرزمین کو شام کے ساتھ ضم کر دیا گیا۔
علوی جوانوں کی فوج میں شرکت
جب علوی علاقوں کو شام میں ضم کیا گیا، تو علوی جوانوں نے فوجی کالجوں میں شامل ہو کر آہستہ آہستہ فوج میں ایک مؤثر حیثیت حاصل کی۔ علوی جوان افسران نے خود فقر، محرومیت، ظلم، اور دباؤ کا سامنا کیا تھا، اور وه دیهاتوں میں زندگی کرتے تھے جو انہیں ایک منفرد نقطہ نظر فراہم کرتی تھیں۔
انہوں نے اصلاحات ارضی کے نعرے کے تحت، علوی اور غیر علوی دونوں کسانوں اور دہقانوں کو جاگیرداروں اور روایتی عناصر کی مخالفت کے لیے اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ یہ تحریک نہ صرف ان کے اپنے حقوق کے لیے تھی بلکہ یہ ایک وسیع تر اصلاحات کا حصہ بھی تھی، جس کا مقصد پورے سماج کو متحرک کرنا تھا۔
شام کی حکومت میں علویوں کا اثر
یہ عمل شام میں بعث پارٹی کے ظہور کے ساتھ مزید شدت اختیار کر گیا، جس کے نتیجے میں عام لوگ، جن میں کسان، شہری اور دور دراز علاقوں کے باشندے شامل تھے، بعث پارٹی کی طرف مائل ہو گئے اور اشرافیہ اور نجی طبقے سے لڑائی شروع کر دی۔ اس دور میں شام کی فوج، جس میں علوی افسران کے ہاتھوں زیادہ طاقت تھی، اور بعث پارٹی کے درمیان تعلقات بڑھ گئے۔ 1960ء کی دہائی میں، بعث پارٹی نے فوج کی حمایت سے شام میں اقتدار حاصل کر لیا۔ آخر کار، حافظ اسد، شام کی فوج کے علوی افسران میں سے ایک اور بعث پارٹی کا اعتدال پسند رکن، 1971ء میں فضائیہ کے سربراہ، وزیر دفاع، وزیر اعظم اور بعث پارٹی کے سیکرٹری جنرل مقرر ہونے کے بعد، ایک بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قابض ہو گئے اور شام کے صدر بن گئے۔ ان کی موت کے بعد 2000ء میں، ان کے بیٹے بشار اسد صدر بن گئے۔ شام میں ۲۰۱۲ء کے بعد سے متعدد شدت پسند دہشت گرد گروہوں کی موجودگی اور ان کے مختلف علاقوں پر حمله کرکے قبضه جمانے کے بعد، شام کے علوی برادری کو ان دہشت گرد گروہوں کے متعدد حملوں کا شکار بنایا گیا۔
پورے شام میں علویوں کا انتشار
سوریہ کے ساحلی علاقوں میں، شمالی شام سے لے کر انطاکیہ اور جنوب میں لبنان کے پہاڑوں تک، اور حلب میں بھی، علوی آباد تھے۔ شام کی آبادی میں علوی تقریباً 12 سے 15 فیصد ہیں۔
علویوں کی مذهبی شاخیں
علوی مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں:
- جعفری: ان کی عقائد اثنا عشری شیعوں سے ملتے جلتے ہیں۔
- شمالی: وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سورج کے دل میں ظاہر ہوں گے۔
- کلازیہ: وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) چاند پر رہتے ہیں۔
- حیدریہ: علویوں کی شاخوں میں سے ایک ہے۔
- جنبلانیہ: اس مسلک کے بانی ابو محمد عبداللہ جنبلانی ہیں۔
علویوں کے عقیدے
علویان کو تاریخی لحاظ سے غلات ،شیعہ کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے۔ ان کے اہم عقائد میں شامل ہیں: حلول خداوند: ان کا عقیدہ ہے کہ خداوند امام علی (علیہ السلام) میں حلول کرتا ہے اور انہیں الٰہی حیثیت دیتے ہیں یه ان کے اهم عقاید میں شامل هے۔ حالیہ عرصے میں، بہت سے علوی خود کو اسلامی احکام کا پابند سمجھتے ہیں۔
شامی علویوں کے بارے میں معاصر علما کا نظریه
امام خامنہای اور دیگر مراجع نے شام کے علویوں کو اثنا عشری شیعہ قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر، مرجعِ تقلید آیت اللہ جعفر سبحانی، اور دیگر جدید علماء، علویوں کے عقائد میں اثنا عشری شیعہ کے ساتھ کوئی اختلاف نہ ہونے پر زور دیتے ہیں۔ لبنان اور شام کے علماء اور مراجع، جیسے سید محسن امین، سید حسن شیرازی، علامہ شرف الدین، امام موسی صدر، محمد جواد مغنیہ، محمد مهدی شمس الدین اور شیخ عبد الامیر قبلان، نے بھی شام کے علویوں کو امامی شیعوں میں شمار کیا ہے اور ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
شامی علویوں کے روحانی راهنما کا موقف
شامی علویوں کے روحانی قیادت اور «المجلس الإسلامي العلوي الأعلى في سوريا و المهجر» کے سربراهشیخ غزال غزال نے اپنی ایک بیان میں چند اہم موضوعات پر روشنی ڈالی، جن میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:
- . انسانی حقوق اور آزادیوں کی صورتحال:
انہوں نے شام میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کا ذکر کیا، جس میں غیر قانونی حراست، جبری گمشدگیوں، اور ہزاروں لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات کی عدم موجودگی شامل ہے۔ وہ بلاجواز تشدد جیسے کہ قتل، غیر قانونی حراست، اور بے گھر کرنے کی کارروائیوں پر بھی تنقید کرتے ہیں۔
- حکومت اور سیاسی نظام:
شیخ غزال نے واضح کیا کہ علوی معاشرے نے کبھی بھی ایک مذہبی یا فرقہ وارانہ ریاست کی خواہش نہیں کی، بلکہ وہ ایک ایسے شہری اور سیکولر حکومت کی طلبگاری کرتے ہیں جہاں دین اور سیاست کو الگ رکھا جائے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ صورتحال شام میں اس نظریے سے بہت دور ہے۔
- فدرالیزم اور طاقت کی عدم مرکزیت کی خواہش:
انہوں نے فدر ل یا غیر مرکزی سیاسی نظام کے نفاذ کی درخواست کی، یہ کہتے ہوئے کہ یہ محض دفاعی ردعمل نہیں بلکہ بہتر زندگی اور تمام طبقات کے درمیان تعاون کے حصول کے لئے ایک ضرورت ہے۔
حوالہ جات
- با علویان سوریه بیشتر آشنا شویم(آئیے شام کے علویوں کے بارے میں مزید جانیں۔) www.hawzahnews.com(زبان فارسی)- تاریخ درج شده:16/ دسمبر/ 2024ء۔ تاریخ اخذ شده: 25/مئی 2025ء