"محمود الحسن دیوبندی" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
| سطر 13: | سطر 13: | ||
| students = | | students = | ||
| religion = [[اسلام]] | | religion = [[اسلام]] | ||
| faith = | | faith = [[اہل السنۃ والجماعت|سنی]]] | ||
| works = {{افقی باکس کی فہرست |ترجمہ [[قرآن]]|الابواب والتراجم للبخاری|مختصرالمعانی|ابوداؤد شریف|ایضاح الادلہ|}} | | works = {{افقی باکس کی فہرست |ترجمہ [[قرآن]]|الابواب والتراجم للبخاری|مختصرالمعانی|ابوداؤد شریف|ایضاح الادلہ|}} | ||
| known for = قائد اعظم ہند| تحریک ریشمی روحال، خلافت اور ترک کا بانی | | known for = قائد اعظم ہند| تحریک ریشمی روحال، خلافت اور ترک کا بانی | ||
نسخہ بمطابق 15:53، 21 اکتوبر 2025ء
| محمود الحسن دیوبندی | |
|---|---|
| دوسرے نام | شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1851 ء، 1229 ش، 1266 ق |
| پیدائش کی جگہ | ہندوستان دیوبند |
| وفات کی جگہ | دیوبند |
| اساتذہ | امداد اللہ مہاجر مکیع رشید احمد گنگوہی |
| مذہب | اسلام، سنی] |
| اثرات |
|
| مناصب | قائد اعظم ہند |
محمود الحسن دیوبندی (پیدائش1851ء وفات 1920ء)شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی متحدہ ہندوستان کے متفقہ قائد اعظم شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ تحریک ریشمی رومال، تحریک خلافت، تحریک ترک موالات کے قائد زندانِ مالٹا کے اسیر دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تحریک آزادی کے عظیم مجاہد تھے۔
پیدائش
شیخ الہند 1268ھ مطابق 1851ء بمقام بریلی پیدا ہوئے جہاں آپکے والد مولانا ذوالفقار علی دیوبندی بوجہ ملازمت مقیم تھے ۔ چھ سال کی عمر میں تعلیم شروع کی قرآن پاک میاں جی منگلو اور میاں جی مولوی عبدالطیف سے پڑھا ۔ فارسی اور عربی کی کتابیں اپنے چچا مولانا مہتاب علی سے پڑھیں ۔
تعلیم
دارلعلوم دیوبند کی ابتداء حضرت کی طالب علمی:
حضرت شیخ الہند کی عمر پندرہ سال تھی کہ15محرم1683ھ 30مئی 1866ء کو دیوبند کے شہر میں ایک عربی مدرسہ کا قیام عمل میں لا یاگیا بانی دارالعلوم مولانا محمد قاسم نانوتوی کی تجویز پر ملا محمود کو اس مدرسہ کا پہلا استاد مقرر کیا گیا ۔ دیوبند کی مشہور مسجد چھتہ میں تعلیم کا آغاز ہوا حضرت شیخ الہند نے اس جگہ پہلے شاگرد کی حیثیت سے اپنی تاریخی ، علمی زندگی کی ابتداکی ۔ ۱۲۸۶ھ ۸۶۹ا/ ۱۸۷۰ء میں صحاح ستہ اور بعض دیگر کتب حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی سے پڑھیں ۔ مولانا قاسم نانوتوی میرٹھ اور دہلی تشریف لے جاتے تو شیخ الہند بھی آپ کے ساتھ جاتے اس طرح سفر و حضر میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔
دستار بندی اور تدریس
19 ذی قعدہ1290ء مطابق1873ء کو مدرسہ کے جلسہ دستاربندی میں اس وقت کے اکابر علما ء کرام و شیو خ عظام کی موجودگی میں آپکی دستار بندی ہوئی اور آپکو دارالعلوم دیوبند کا مدرس مقرر کیا گیا ۔
مسندِ صدارت
1305 ھ 1888ء میں مولانا سید احمد دہلوی صدر مدرس دارالعلوم دیوبند کے مستعفی ہونے کے بعد حشیخ الہند کو دارلعلوم دیوبند کی منصب صدارت تفویض کر دی گئی ۔
آزادی کی پہلی اینٹ
شیخ الہند نے برطانوی استعمار سے آزادی کیلئے سب سے پہلے میدان جہاد میں اس وقت قدم رکھا جب پورے اہل ہند پر سکوت طاری تھا ۔ انگریز کی محالفت گویا موت کو دعوت د یناتھی ۔1878ء کو شیخ الہند نے ثمرۃ التربیت کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد رکھی ۔اور منظم طریقہ سے نوجوانوں میں انقلابی روح پھونکنے کا عزم لے کر اٹھے ۔ حضرت مدنی فرماتے ہیں شروع شروع میں قیاس سے بھی زیادہ مشکلات سامنے آئیں اور تند آندھیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔
باد سموم کے جھلسا دینے والے تھپڑوں نے طماچے مارے احباب و اقارب مار آستین بن گئے ہر شخص ناصح و خیر خواہ بن کر سد راہ بنا اور کیوں نہ بنتا انگریز نے اس قدر پیش بندی کر رکھی تھی کہ سیاست کی طرف آنکھ اٹھانا ۱۸۵۷ء کا سماں باندھنا تھا ۔ آزادی اور انقلاب کو اگر کوئی خواب میں بھی دیکھ لیتا تو پِتہ پانی ہو جاتا تھا ۔ چاروں طرف خفیہ پولیس کا جال بچھا ہوا تھا پھر کس طرح امید کی جا سکتی تھی کہ کوئی شخص ہم خیال اور ہم زبان باہم عمل ہو سکتا ہے ۔
بہر حال مولانا شیخ الہند نے تمام خطرات سے قطع نظر ضروری سمجھا اور یر چہ بادا بادمن کشتی در آب اندا ختم کہتے ہوئے اللہ کا نام لے کر اس بحر ذخار میں اور ہولنا طوفان میں کود کر آگے بڑھے او ر لوگوں کو ہم خیال اور رفیق سفر بنانے لگے ۔ بڑے بڑے علماء و مشائخ سے چونکہ نا امید اور مایوس تھے اس لئے تلا مذہ اور مخلص سمجھدار مریدوں کو ہم خیال بناتے رہے [1]۔
جمعیت الانصار کا قیام
1990ء میں شیخ الہند نے جمعیتہ الانصار قائم فرمائی ۔ مولانا عبیدا للہ سندھی فرماتے ہیں1327ھ میں شیخ الہندنے مجھے دیوبند طلب فرمایا اور مفصل حالات سن کر دیوبند میں رہ کر کام کرنے کا حکم دیا چار سال تک جمعیتہ الانصار میں کام کرتا رہا اس تحریک کی تا سیس میں مولانا محمد صادق صاحب سندھی اور مولانا ابو محمد صاحب لاہوری اور عزیزی مولوی احمد علی میرے ساتھ شریک تھے ۔ پھر شیخ الہند کے ارشاد سے میرا کام دیوبند سے دہلی منتقل ہوا [2]۔
دارالعلوم دیوبند کے قیام کا مقصد
مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں کہ ایک دن کچھ ایسا ہوا کہ مولانا حبیب الرحمان عثمانی نائب مہتمم نے فقیر کو یاد فرمایا اور کہا کہ تم شیخ الہند سے مل کر دریافت کرو کہ واقعی سیاسیاست میں حضرت والا کا صحیح مسلک کیا ہے ؟ میں خود حیران ہوں کہ اتنے اہم مسئلے کے متعلق مولانا حبیب الرحمان نے مجھ جیسے کسمپر س آدمی کا انتخاب کیوں کیا؟ لیکن اب کیا کیجئے کہ واقعی یونہی پیش آیا شائد ظہر کی نماز کے بعد کا واقعہ ہے مسجد کے احاطہ میں ایک کمرہ تھا جسے اس زمانہ میں دارالتصنیف کا نام دیاگیا تھا اس کمرے میں شیخ الہند رحمتہ اللہ علیہ اپنی زندگی کے آخر مشغلہ یعنی ترجمہ قرآن مجید کا کام کچھ دیر کیا کرتے تھے فقیر تو اس احاطہ کا باشندہ ہی تھا نماز کے بعد حضرت اپنی تصنیف و ترجمہ کے اسی کمرے میں تشریف لے گئے۔
تنہا تھے موقع پر فقیر بھی پیچھے سے حاضر ہو کر عرض رسا ہوا کہ کچھ عرض کرنا ہے جیسا کہ قائدہ تھا خندہ جبینی سے فرمایا آئو کیا کہنا چاہتے ہو بیٹھ گیا اور جوپیغام میرے سپرد کیاگیا تھا اسے پہنچادیا سنتے رہے اپنی بات جب ختم کرچکا تو دیکھا کہ حضرت پر ایک خاص حال طاری ہے اور اپنے استاذ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب بانی دارالعلوم جن کو وہ حضرت الاستاذ کے لفظ سے یاد کرتے تھے انہی کا نام لے کر فرمایا حضرت لاستاذ نے اس مدرسہ کو کیا درس و تدریس تعلیم و تعلم کے لئے قائم کیا تھا؟
مدرسہ میرے سامنے قائم ہوا جہاں تک میں جانتا ہوں ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کی ناکامی کے بعد یہ ادارہ قائم کیاگیاکہ کوئی ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے زیر اثر لوگوں کو تیار کیا جائے تا کہ 1857ء کی ناکامی کی تلافی کی جائے ۔ حضرت والاکی تقریر سے دل میں جو اثر اس وقت قائم ہوا تھا اسی اثر کے نتائج کی تعبیر اپنے الفاظ میں کردی گئی ہے آخر میں ارشاد ہوا تعلیم و تعلم، درس و تدریس جن کا مقصد اور نصب العین ہے میں ان کی راہ میں مزاحم نہیں ہوں لیکن خود اپنے لئے تو اسی راہ کا میں نے انتخاب کیا ہے جس کے لئے دارالعلوم کا یہ نظام میرے نزدیک حضرت الاستاذ نے قائم کیا تھا
اس کے بعد دو راہیں مختلف ہوگئیں ایک راہ تعلیم و تعلم دینی نشرواشاعت کی تھی اور دوسری راہ وہی تھی جسے بالآخر حضرت شیخ الہند نے اختیار فرمایا اور اسی مسلک کے ساتھ اپنے مالک سے جا ملے خیال آتا ہے کہ حضرت نے یہ بھی فرمایا تھا کہ فرائض الہیہ جس حد تک بن پڑا ادا کرتا رہا اب آخری کام رہ گیا ہے جسے اپنے حد تک تو میں کر گزروں گا۔ اور اسی کو وہ کر گزرے خاکسار نے جو کچھ سنا تھا وہی ان لوگوں تک پہنچادیا جنہوں نے اپنا پیغام دے کر بھیجا تھا[3]۔
تحریک آزادی کے مراکز
سر سید احمد خان اس وقت مسلمانوں کے مصلح اعظم تھے ان کی تمام تر سرگرمیوں کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو انگریز حکومت پر مکمل بھروسہ کرنا چاہیے وہی ان کے حقوق کا تحفظ کرسکتی ہے سر سید کا منشایہ تھا کہ مسلمان انگریز کی غلامی میں جکڑے رہیں انگریز ہندوستان سے نہ جائیں غلامی کے ایسے تاریک دور میں جب روشنی کی ایک ہلکی سی کرن بھی نہیں دکھائی دیتی تھی شیخ الہند وہ پہلے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے ہندوستان کی مکمل آزادی کیلئے غوروفکر کرکے جدوجہد اور قربانی کا ایک لائحہ عمل تیار کیا
آپ نے پوری رازداری کے ساتھ خفیہ طور پر سرفروشوں مجاہدوں اور جانبازوں کی ایک جماعت تیار کی جس میں ہندومسلمان سکھ سب ہی شریک تھے حضرت نے اپنے مکان کے قریب ایک مستقل مکان کرایہ پر لے رکھا تھا جس کو کوٹھی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا حضرت نے اپنے محاذ آزادی کے کئے مرکز دیوبند، دہلی، کراچی، دین پور شریف، چکوال، امروٹ سندھ وغیرہ ہندوستان میں قائم کئے اور ہر جگہ مختلف حضرات کی سربراہی میں تحریک آازادی کے لئے مجاہدین سے بیعت جہاد لی جارہی تھی
اور لوگ جوق درجوق تحریک میں شریک ہو رہے تھے آزاد قبائل کو جدجہد کا عملی مرکزمقرر کیا وہاں مولانا سیف الرحمن مولانا فضل محمود اور مولانا محمد اکبر کو ہندوستان سے روانہ کرکے برطانوی حکومت پر حملہ کے لئے مجاہدین کومنظم کرنے کا حکم دیا ۱۹۱۴ ء کی جنگ عظیم میں جب انگریزوں کی چیرہ دستیاں اہل ہند اور مسلمانان عالم کے خلاف حد سے زیادہ ہوگئیں توحضرت شیخ الہندنے اپنے خاص سپہ سالار حاجی ترنگزئی کو مطلع کیا کہ اب مزید انتظار کا وقت نہیں ہے مناسب وقت دیکھ کر فوراً طبل جنگ بجاد یا جائے۔
چنانچہ حاجی صاحب کی قیادت میں انگریز کے کیمپوں پر حملہ کردیا گیا اور باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی جس میں برطانیہ کو جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا جنگ میں وسائل مہیا کرنے کے لئے شیخ الہند نے پہلے ہی مختلف ملکوں کی طرف اپنے سفیرمولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا محمد میاں منصور انصاری، مولانا سیف الرحمن وغیرہ روانہ کردیئے تھے یہ حضرات بھیس بدل کر بڑی سختیاں برادشت کرتے ہوئے اپنے مراکز پر نہایت کامیابی کے ساتھ سرگرم عمل رہے [4] ۔
آزادی ہند کا سب سے بڑا منصوبہ تحریک ریشمی رومال
تحریک ریشمی رومال ایک جامع منصوبہ بندی اور انقلابی پروگرام تھا کہ برٹش سامراج کے خلاف ملک بھر میں عام بغاوت کرائی جائے اور ملک کو فرنگی استبداد سے کرانے کیلئے شمالی مغربی سرحدی صوبہ سے قبائلی عوام اور ترکی افواج کے ذریعہ حملہ کیا جائے ترکی فوج کے حملہ آور ہونے کیلئے راستہ میں افغانستان کی حکومت کو بھی ہموار کرنا تھا اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے 1905 میں دس جامع منصوبے بنائے گئے جن کی تکمیل 1914 میں ہوئی منصوبے یہ تھے کہ ہندو مسلم مکمل اتحاد،علمائے فکرِ قدیم وجدید تعلیم یافتہ طبقے میں اشتراک فکروعمل ،انقلاب کے بعد عبوری حکومت کے خاکے کی ترتیب ،بغاوت کے خفیہ مراکز کا قیام ،بیرون ملک امدادی مراکز کا تعین ،ترکی کی حمایت کیلئے دوسروں ملکوں سے رابطہ،باہر سے حملہ کیلئے راستوں کی نشاندہی ،بیک وقت بغاوت اور حملے کیلئے تاریخ کا تعین ۔
جمعیت علماء ہنداور شیخ الہند
شیخ الہند ابھی تک مالٹامیں پابندِسلاسل تھے کہ ہندوستان کے علماء نے سیاسی میدان میں منظم طریقے سے اترنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے جمعیت علمائے ہند کے نام سے اپنی الگ جماعت بنائی جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء شامل تھے اور سب نے متفقہ طورپرحضرت شیخ الہندکی رہائی تک حضرت شیخ الہندکے شاگردِرشیدمفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی کو جمعیت کا عارضی صدراور سحبان الہندحضرت مولانا احمدسعید دہلوی کو عارضی ناظم اعلیٰ منتخب کیاگیا مستقل صدارت کاعہدہ حضرت شیخ الہندؒکے لئے خالی رکھاگیا اور جونہی حضرت شیخ الہندرہاہوکر ہندوستان پہنچے تو جمعیت علمائے ہند صدارت کا عہدہ حضرت شیخ الہندؒکے حوالے کردیاگیا
اورجمعیت کا دوسراسالانہ اجلاس دہلی میں آپ ہی کی صدارت میں منعقدہواجس میں حضرت شیخ الہند کوجمعیت کا مستقل صدرمنتخب کیاگیا اور اس کا اعلان بھی کردیاگیا لیکن حضرت شیخ الہندؒاس اجلاس کے ٹھیک ایک ہفتے بعد دہلی ہی میں اللہ کوپیارے ہوگئے ۔
جمعیت علماء ہند کی بنیاد
برصغیر ہندوپاکستان میں مسلمانوںکی واحد مذہبی ،سیاسی ،حریت پسند،انقلابی جماعت جمعیت علمائے ہند کا سنگِ بنیاد 24؍نومبر1919ء میں بمقام دہلی علمائے کرام کی ایک مجلس میں رکھاگیا اس میں حنفی ،اہل حدیث،دیوبندی اور فرنگی محل مکاتب فکر کے علماء کے علاوہ الہ آباد،بدایواں وغیرہ کے علمی خانوادوں بزرگ بھی شامل تھے ۔یہ اجتماع خلافت کانفرنس کے موقع پر اس کے پہلے اجلاس مورخہ 23نومبر1919ء سے فارغ ہونے کے بعد ہواتھا مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تحریک اور مولانا امیرالزماں سلام آبادی چاٹ گامی کی تائیدسے اجتماع کے صدر مولانا عبدالباری فرنگی محل قرارپائے ۔
اولاًجمعیت کے قیام کی ضرورت پر بحث کی گئی ۔اتفاق کے بعد جمعیت علمائے ہند نام قرارپایا۔ جمعیت کے آئین کا مسودہ مرتب کرنے کے لئے مولانا محمداکرم (بنگال )اور مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی کو ذمہ دار قراردیاگیا مولانا ثناء اللہ امرتسری نے عارضی صدراور ناظم کے لئے مولانا مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمدسعید دہلوی کانام پیش کیا جو متفقہ طور پرمنظورہوگیاآیندہ جلسہ ٔامرتسر کے لئے مولانا ثناء اللہ اور مولانا سید محمددائودغزنوی نے اراکین جمعیت کو دعوت دی تھی جو قبول کرلی گئی تھی[5]
جمعیت علمائے ہندکا باقاعدہ قیام
28؍دسمبر1919ء کو بعدنمازعصرامرتسر کے اسلامیہ ہائی سکول کے وسیع کمرے میں جمعیت علمائے ہندکا پہلاجلسہ منعقدہوا۔مختلف مکاتب فکر اور علاقہ جات کے علمائے کرام نے شرکت فرمائی ،اس نشست کے صدرمولانا عبدالباری فرنگی محلی قرارپائے اس اجلاس میں جمعیت کے قیام کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ۔اس سلسلہ میں مولانا ثناء اللہ امرتسری ۔مولانا ابوتراب محمدعبدالحق ،مولانا عبدالرزاق،سیدجالب ایڈیٹر ہمدم لکھنومولانا مفتی کفایت اللہ ،غازی محمود،مولوی منیرالزمان ،اور حکیم محمداجمل خان وغیرہ نے اظہار خیال فرمایا ۔
اس نشست میں قواعدوضوابط کا اجمالی خاکہ پیش کیا گیا اور مستقل سیاسی اصول وضوابط اور نظان عمل کی تالیف کے لئے مولانا مفتی کفایت اللہ ،مولانا ابوالوفا ،مولانا محمداکرم خان ،اور مولوی منیرالزماں خان پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی ۔مولانا عبدالباری کی تحریک پر حکیم محمداجمل خان کا نام بھی کمیٹی میں اضافہ کیاگیا ۔جمعیت کے اجلاس کی دوسری نشست30؍دسمبر1919ء کو منعقدہوئی اس نشست کے صدر مفتی کفایت اللہ ؒ ،قرارپائے اس اجلاس میں سلطان عبدالحمید خان کے نام کا خطبہ پڑھنے اور صلح کا نفرنس میں ہندوستانی مسلمانوں کے بھیجنے کے بارے میں تجاویزپاس کی گئیں۔[6]۔
جمعیت کی صدارت کے لئے حضرت شیخ سے درخواست
6؍ستمبر1920ء کو جمعیت علمائے ہندکا ایک خصوصی اجلاس کلکتہ میں منعقدہوا اس میں من جملہ دیگرتجاویز ایک تجویز (نمبر۶) یہ تھی ۔جمعیت علمائے ہند کا یہ اجلاس یہ تجویز کرتاہے کہ جمعیت کا آیندہ اجلاس دہلی میں منعقدکیا جائے اور اس کی صدارت کے لئے شیخ الہند حضرت مولانامحمودحسن صاحب قبلہ سے درخواست کی کہ وہ صدارت منظورفرمائیں[7]۔
جمعیت علمائے ہندکی مستقل صدارت کا اعلان
امرتسر کے اجلاس کی تیسری نشست مورخہ یکم جنوری ۱۹۲۰ء کی تجویزنمبر(۱)کے مطابق جمعیت کے سیاسی اصول اور قواعدوضوابط کا مسودہ اجلاس امرتسر کی روداد کے ساتھ جمعیت کے ناظم (عارضی)مولانااحمدسعید دہلوی نے شائع کردیاتھا اور اراء کے حصول اور غور وفکر کے بعد جمعیت کے دوسرے اجلاس دہلی منعقدہ نومبر1920ء منظوری کے بعد جمعیت کی جانب سے شائع کردیاگیاتھا ۔اجلاسِ دہلی کی منظوری کے بعدجمعیت کے مستقل عہدے دار مندجہ ذیل حضرات قرارپائے:
- الہند مولانا محمود حسن دیوبندی صدر
- مولانامفتی کفایت اللہ دہلوی نائب صدر
- مولانا احمدسعید دہلوی ناظم
- ہرصوبے کی جمعیت کا صدر اعزازی نائب صدر
- مولانا عمردرازبیگ مراد آبادی ،مولانا عقیل الرحمن ندوی سہارنپوری معین ناظم
- شیخ فضل الرحمن سوداگر دہلی امین (خزانچی)
[8]۔
علمی آثار
ترجمہ قرآن” کو آپ نےآسان اردو میں منتقل کر کے اہل علم وقلم اور عوام پر ایک بڑا احسان کیا ہے،واضح رہے کہ یہ پہلابامحاورہ "اردو ترجمہ قرآن "تھا۔ یہ کام تو آپ نے سن 1327ھ میں دیوبند ہی میں شروع کر دیا تھا ؛لیکن اس کی تکمیل اسارت مالٹا کے دور میں ہوئی۔
آپ کا دوسرا اہم کارنامہ جو آپ نے دنیا والوں کے لئے بطور مثال چھوڑ گئے ہیں،وہ ” الابواب والتراجم للبخاری” ہے ان کے علاوہ آپ نے غیر مقلدیت کے رد میں "ادلہ کاملہ” اور "ایضاح الادلہ” نیز حاشیہ "مختصرالمعانی” اور تصحیح "ابوداؤد شریف” اور بھی دیگر مختلف علمی علمی رسائل آپ کی یادگار ہیں[9]۔
وفات
18ربیع الاول 1339ھ 30 نومبر 1920 ء بروز ہفتہ سات بجے کے قریب بہت تغیر ہوگیا اور حضرت دنیا سے بالکل غافل ہوگئے تنفس طویل اور غیر طبعی ہوگیا اور انقطاع عن الدنیا وتوجہ الی الرفیق الاعلی کا گمان غالب ہوگیا چار پائی کے گرد حاضرین خاموش اور آہستگی سے ذکر اللہ میں مشغول تھے اسی حالت میں حضرت نے اس غیر فانی اور واجب الو جود ہستی کو یاد کیا جس کے نام پر آپ نے اپنے آپ کو مٹایا تھا یعنی بلند آواز سے تین مرتبہ اللہ اللہ اللہ فرمایا مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب نے سورہ یاسین شروع کی مگر وہ جوش گریہ اور ادب کی وجہ سے بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتے تھے اس پر مولانا حافظ محمد الیاس صاحب دہلوی نے پڑھنا شروع کیا
سورہ قریب الختم ہوئی تو حضرت نے خود بخود حرکت کرکے اپنے بدن کو سیدھا اور درست کرلیا اور ہاتھوں کی انگلیاں کھول کر سیدھی کرلیں اور آٹھ بجے جب مولانا سورۃ کے آخر میں پہنچے تو حضرت نے ذرا آنکھ کھولی اور تصدیق قلبی کی تائید کے لئے زبان کو حرکت دی اور خاص الیہ ترجعون کی آواز پر قبلہ رخ ہو کر ہمیشہ کے لئے آنکھ بند کرلی آسانی و سہولت کے ساتھ سانس منطقع ہوگیا اور روح مقدس روح و ریحان و جنت نعیم کی بہار دیکھنے کے لئے تمام اہل اسلام کو یتیم وبے کس چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئی اور رفیق اعلی سے جا کر مل گئی انا اللہ وانا الیہ راجعون[10]۔
امیرامان اللہ خان کا مشن ِشیخ الہندپوراکرنے کااعلان
افغانستان کے باد شا ہ امیر امان اللہ خان نے شیخ الہند کی وفات پر تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ مولانا محمود حسن یک کام راشروع کردندمن اورا پورا میکنم(حضرت شیخ الہند نے ایک کام شروع کیا تھا اور میں اس کو پایہ تکمیل تک پہنچائوں گایہ دراصل ہندستان کوانگریزوں سے آزادکرانے کاوعد ہ تھا انگریز اس کو کب برداشت کر سکتے تھے سازش کر کے امان اللہ خان کو سلطنت سے برخاست کردیا[11]۔
سیاسی سرگرمیاں
مولانا محمود حسن دیوبندی کا شمار برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کے ان عظیم راہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے برطانوی استعمار کی غلامی کے دورِ عروج میں سورج غروب نہ ہونے والی سلطنت کے غلبہ و استعلا کو نہ صرف یہ کہ خود ذہنی اور شعوری طور پر قبول نہ کیا بلکہ فکر و عمل، جہد و استقامت اور عزم و استقلال کی شمع کو اپنے خون سے روشن کر کے برادرانِ وطن کو آزادی اور استقلال کی اس شاہراہ پر گامزن کر دیا جس پر چلتے ہوئے اس خطہ کے عوام نے غلامی کی ہولناک دلدل کو عبور کر کے حریت کے میدان میں قدم رکھا۔
محمود حسن کا تعارف دیوبند کی فکری اور علمی درس گاہ کے پہلے طالب علم کی حیثیت کرایا جاتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ دیوبند کے قصبہ کی مسجد چھتہ میں انار کے درخت کے زیر سایہ ۱۸۶۶ء کے دوران قائم ہونے والے دینی مدرسہ کے پہلے طالب علم تھے اور اس سبقت کا تاج سعادت آپ کے سر پر حسن و خوبی کے ساتھ جگمگا رہا ہے۔ مگر میرے نزدیک شیخ الہندؒ کا اصل تعارف یہ ہے کہ وہ ان آہوں، تمناؤں، آرزوؤں، سحر خیز دعاؤں اور آنسوؤں کا ثمرۂ طیبہ تھے جو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اس خطۂ زمین میں دین اسلام اور ملت اسلامیہ کے مستقبل کے بارے میں پریشان و مضطرب ہزاروں کڑھتے جلتے دلوں اور جل تھل آنکھوں سے رواں دواں تھے۔
دیوبند ایک علمی، فکری اور سیاسی تحریک کا عنوان ہے اور اس عنوان کے ساتھ اگر کسی شخصیت کو ایک جامع اور مکمل علامت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے تو وہ مولانا محمود حسن کی ذاتِ گرامی ہے۔ اس نے جس دور میں شعور کی آنکھ کھول کر اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالی تو یہ وہ دور تھا جب برطانوی سامراج کے غلبہ کا ناقوس دنیا کے کم و بیش ہر خطہ میں بج رہا تھا اور عالم اسلام کے بیشتر ممالک برطانوی، فرانسیسی اور ولندیزی استعمار کی غلامی کے شکنجے میں جکڑے جا چکے تھے۔
استعماری قوتوں کا مقابلہ
کم و بیش پانچ سو سال تک عالم اسلام کی قیادت و حفاظت کا فریضہ سرانجام دینے والی ترکی کی خلافت عثمانیہ ’’یورپ کا مردِ بیمار‘‘ کا لقب پا کر عالمِ نزع میں قدم رکھ رہی تھی اور خلافت عثمانیہ کی گرفت میں کمزوری کے احساس کے ساتھ ہی عالم اسلام کے روحانی مراکز مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور بیت المقدس کے خلاف استعماری قوتوں کی سازشوں کا دائرہ وسیع ہونا شروع ہوگیا تھا۔ چنانچہ دیوبند میں چالیس سال سے زائد عرصہ تک تعلیمی خدمات سرانجام دینے کے بعد جب آپ نے اپنی تدریسی و تعلیمی محنت کے ثمرات کو مجتمع کرنے کے لیے ’’جمعیۃ الانصار‘‘ کی تشکیل کی طرف اپنے شاگردوں کی راہنمائی فرمائی۔
تو یہ نقطۂ آغاز تھا آپ کی اس جدوجہد کا جو بہت تھوڑے سے عرصہ میں نہ صرف متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئی بلکہ اس کے اثرات افغانستان، ترکی، حجاز مقدس اور عالمِ اسلام کے دیگر حصوں تک وسیع ہوگئے۔ اور آپ نے نہ صرف برصغیر پاک و ہند کی آزادی کی تحریک کی راہنمائی اور قیادت کی بلکہ آپ کی فکری جدوجہد سے افغانستان، ترکی اور حجاز کی تحریکات نے بھی استفادہ کیا۔ اور اس موقع پر محض جذبات و عقیدت کے حوالہ سے نہیں بلکہ واقعات اور شواہد کے تجزیہ کی بنیاد پر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کے اس ارشاد کی تصویب و تصدیق کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں رہ جاتا کہ حضرت مولانا محمود حسنؒ کے لیے شیخ الہند کا لقب ان کی علمی حیثیت اور جدوجہد کی وسعت سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ انہیں شیخ العالم کے لقب سے یاد کر کے ہی ان کی شخصیت اور جدوجہد کے اصل دائرہ کار کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔
افغانستان اپنے بہادر عوام کی دینداری اور غیرت و حمیت کی وجہ سے بے سروسامانی کے باوجود ہندوستان کے مجاہدین آزادی کا ایک روایتی پشت پناہ تھا اور اس کی سرحد کے ساتھ ساتھ آزاد قبائل کی پٹی ہندوستان کی آزادی کی جنگوں کا بیس کیمپ بنی ہوئی تھی جہاں حاجی صاحب ترنگزئی کی قیادت میں عملی جہاد کا سلسلہ جاری تھا۔ برطانوی استعمار نے اس پریشانی سے جان چھڑانے کے لیے افغانستان پر قبضہ کرنے کو اپنی حکمت عملی کا حصہ بنا لیا اور باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا۔ مگر اس جنگ کے آغاز سے قبل شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے تلمیذ خاص مولانا عبید اللہ سندھیؒ کابل پہنچ کر افغانستان میں شیخ الہند کے شاگردوں، خوشہ چینوں اور آزاد قبائل کے حریت پسندوں کے درمیان رابطہ اور اعتماد کا ایک ایسا نظام قائم کر چکے تھے جس کا سامنا برطانوی استعمار کی منظم افواج نہ کر سکیں۔
مولانا سندھیؒ نے کابل میں بیٹھ کر افغانستان اور آزاد قبائل میں شیخ الہندؒ کے علمی و فکری اثرات کو مجتمع کر کے ایک ایسی قوت کی شکل دے دی جس نے افغانستان کی جنگِ استقلال میں بنیادی کردار ادا کیا اور بالآخر برطانوی استعمار اس بات پر مجبور ہوگیا کہ افغانستان کی آزادی اور استقلال کا احترام کرتے ہوئے اس کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد قرار دے کر اسے عبور نہ کرنے کا سمجھوتہ کرے۔
ترکی کی خلافت عثمانیہ پانچ سو سال تک مسلمانوں کی خدمات سرانجام دینے کے بعد اضمحلال کا شکار ہونے کے باوجود ایک حد تک مسلمانوں کی وحدت کی علامت اور قوت و شوکت کے نشان کی حیثیت اختیار کیے ہوئے تھی۔ یورپ کی صلیبی قوتوں کو عثمانی خلفاء بالخصوص سلطان محمد فاتح کی مجاہدانہ یلغار ابھی تک یاد تھی اور قسطنطنیہ پر مسلمانوں کے ہاتھوں ان کے دلوں میں لگنے والے گھاؤ مندمل نہیں ہو پائے تھے۔ اس لیے ان صلیبی قوتوں کی تمام تر حکمت عملی اور پالیسیوں کا محور یہ نکتہ قرار دیا گیا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو خلافت عثمانیہ کا تیاپانچہ کر کے نہ صرف عالم اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے
بلکہ کوئی ایسی صورت اختیار کی جائے کہ بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین کر یہودیوں کے حوالے کیا جا سکے تاکہ اس عظیم احسان کے صلہ میں صیہونی اور صلیبی قوتوں کے درمیان اشتراک و اتحاد کی راہ ہموار ہو اور یہودیوں کی دولت عالمی اثرات اور سازشی ذہن کو مغربی استعمار کے حق میں استعمال کرنے کی صورت پیدا ہو۔ چنانچہ خلافت عثمانیہ کے ایک صوبہ حجاز مقدس کے گورنر شریف مکہ حسین کو انگریزوں نے پورے عرب کی خلافت کا لالچ دے کر بغاوت کے لیے تیار کیا اور ترکوں کی خلافت کے خلاف فتویٰ کی آڑ میں ان کے خلاف عالم اسلام میں نفرت اور غیظ و غضب کی آگ بھڑکانے کا سامان مہیا کیا۔
شریف مکہ حسین کے ایما پر ترکوں کے خلاف فتویٰ جب مرتب ہوا اور اس کی ترتیب و اشاعت میں ہندوستان کے بعض علماء بھی شریک کار ہوئے تو حضرت شیخ الہندؒ ان دنوں حجاز میں تھے، آپ کے سامنے یہ فتویٰ پیش ہوا مگر آپ نے کمالِ بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فتویٰ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ ترکوں کے خلاف یہ فتویٰ شریف مکہ کی بغاوت کی بنیاد بنا جس کے نتائج پر ایک نظر ڈال لیجئے:
آج آپ افغانستان میں روس جیسی عالمی استعمار اور سپرپاور کے خلاف صف آرا افغان مجاہدوں اور حریت پسندوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو ان میں ایک بڑی تعداد ان علماء کی نظر آئے گی جو حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور حضرت مولانا عبد الحق کے صرف دو واسطوں سے شیخ الہند مولانا محمود حسن کی شاگردی کا شرف رکھتے ہیں۔ اور اس طرح عملاً افغانستان کے جہاد کی کڑیاں بھی شیخ الہند کی اسی تحریک سے جا ملتی ہیں جس کا مقصد عالم اسلام کو ہر قسم کے استعمار اور سامراج سے نجات دلا کر مکمل آزادی اور غلبۂ اسلام کی منزل سے ہمکنار کرنا تھا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمدؒ مدنی اور شیخ الحدیث مولانا عبد الحقؒ کے فکر و عمل اور ایثار و قربانی کے وارث افغان مجاہدین پورے عالم اسلام کے تشکر کے مستحق ہیں کہ انہوں نے:
بے سروسامانی کی حالت میں اپنے وطن کی دینی غیرت و تشخص کا تحفظ کیا۔ پاکستان اور مشرق وسطیٰ کی طرف روسی استعمار کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیا۔
اپنی جرأت و استقامت اور جذبۂ جہاد کے ساتھ روس کی ان مسلم ریاستوں میں دینی بیداری کی لہر دوڑا دی جو روسی سامراج کے آہنی شکنجہ میں جکڑی ہوئی ہیں۔ اور آج جب روس جیسی عالمی قوت اپنے زیر تسلط مسلم علاقوں بالخصوص قازقستان اور ازبکستان میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی دینی بیداری سے خوفزدہ ہو کر افغانستان سے واپسی کی راہیں تلاش کر رہی ہے تو فکر و نظر کی جبینِ نیاز عالمِ تصور میں اس عظیم شخصیت کے سامنے خم ہونے کے لیے بے چین ہے جسے دنیا شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے نام سے یاد کرتی ہے[12]۔
حوالہ جات
- ↑ بیس بڑے مسلمان،ص، 241
- ↑ علماء حق کے مجاہدانہ کارنامے،ص 123
- ↑ احاطہ دارالعلوم دیوبند میں بیتے ہوئے دن،ص 170
- ↑ مولانا حسین احمد مدنی ایک تاریخی وسوانحی مطالعہ،ص 173
- ↑ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدمدنی کی سیاسی ڈائری، ج2؍،ص 85
- ↑ ایضاً2؍87
- ↑ ایضاً۲؍۱۵۹
- ↑ ایضاً2؍196
- ↑ حضرت شیخ الہند: مختصر حیات وخدمات، تحریر: انوارالحق قاسمی، نیپال- شائع شدہ از: شائع شدہ از: 1 نومبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 اکتوبر 2025ء
- ↑ حیات شیخ الہند 188
- ↑ مولانا عبیداللہ سندھی کے علوم وافکار 134
- ↑ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، شیخ الہند سوسائٹی، گوجرانوالہ- شائع شدہ از:11مارچ 1987ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 اکتوبر 2025ء