مندرجات کا رخ کریں

"احمد شعبانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 57: سطر 57:


شیخ احمد شعبانی نے مزید مرحوم مغفور آیت اللہ العظمی سید محمد سعید الحکیم رضوان الله علیہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مرحوم مغفور آیت اللہ العظمی سید محمد سعید الحکیم کا نام حوزہ علمیہ نجف اشرف کے چار بڑے مراجع عظام میں سے ہے جنمیں دیگر مرجع تقلید جہان تشیع حضرت آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی حفظہ اللہ، حضرت آیت اللہ العظمی بشیر نجفی اور آیت الله العظمی اسحاق فیاض (حفظہ اللہ) کے نام شامل ہیں، شیخ احمد شعبانی نے تمام مراجع عظام جہان تشیع کے سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں بھی کی<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/372094/%D8%A2%DB%8C%DB%83-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B8%D9%85%DB%8C-%D8%B3%D8%B9%DB%8C%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%DB%8C%D9%85-%D8%B2%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%82%DB%8C%D8%AF-%D8%B1%DB%81%D8%AA%DB%92-%DB%81%D9%88%D8%A6%DB%92-%D8%A8%DA%BE%DB%8C-%D9%82%D9%88%D9%85-%DA%A9%DB%92 آیۃ اللہ العظمی سعید الحکیم زندان میں قید رہتے ہوئے بھی قوم کے لئے خدمات انجام دیتے رہے، حجۃ الاسلام شیخ احمد شعبانی]- شائع شدہ از: 6 ستمبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جولائی 2025ء</ref>۔
شیخ احمد شعبانی نے مزید مرحوم مغفور آیت اللہ العظمی سید محمد سعید الحکیم رضوان الله علیہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مرحوم مغفور آیت اللہ العظمی سید محمد سعید الحکیم کا نام حوزہ علمیہ نجف اشرف کے چار بڑے مراجع عظام میں سے ہے جنمیں دیگر مرجع تقلید جہان تشیع حضرت آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی حفظہ اللہ، حضرت آیت اللہ العظمی بشیر نجفی اور آیت الله العظمی اسحاق فیاض (حفظہ اللہ) کے نام شامل ہیں، شیخ احمد شعبانی نے تمام مراجع عظام جہان تشیع کے سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں بھی کی<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/372094/%D8%A2%DB%8C%DB%83-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B8%D9%85%DB%8C-%D8%B3%D8%B9%DB%8C%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%AD%DA%A9%DB%8C%D9%85-%D8%B2%D9%86%D8%AF%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%82%DB%8C%D8%AF-%D8%B1%DB%81%D8%AA%DB%92-%DB%81%D9%88%D8%A6%DB%92-%D8%A8%DA%BE%DB%8C-%D9%82%D9%88%D9%85-%DA%A9%DB%92 آیۃ اللہ العظمی سعید الحکیم زندان میں قید رہتے ہوئے بھی قوم کے لئے خدمات انجام دیتے رہے، حجۃ الاسلام شیخ احمد شعبانی]- شائع شدہ از: 6 ستمبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جولائی 2025ء</ref>۔
== مولانا شیخ احمد شعبانیؒ کی رحلت پر علمائے ہند اور حوزاتِ علمیہ کا اظہارِ تعزیت ==
بااخلاق، باعمل اور بااخلاص عالم دین حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا شیخ احمد شعبانیؒ کی رحلت پر پورا علمی و دینی معاشرہ سوگوار ہے۔ کرگل سے تہران تک علما و حوزات نے اس علمی چراغ کے بجھ جانے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
ملتِ تشیع ہندوستان کا ایک قیمتی سرمایہ، مردِ مومن، باعمل عالمِ دین، مخلص مربی اور حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا شیخ احمد شعبانیؒ کی رحلت کی خبر نے کرگل، دراس، ممبئی سمیت تمام علمی و دینی حلقوں کو سوگوار کر دیا ہے۔ وادیِ کرگل پر غم کا سایہ چھا گیا ہے، زبانیں گُنگ اور آنکھیں اشکبار ہیں۔ وہ چراغ بجھ گیا جو علم، اخلاص، دیانت اور ہدایت کی روشنی بکھیر رہا تھا۔
مرحوم اُن جلیل القدر علما میں سے تھے جنہوں نے خدمتِ دین کو کبھی شہرت یا ذاتی منفعت کا ذریعہ نہ بنایا، بلکہ اُسے ایک الٰہی امانت سمجھ کر عمرِ عزیز کا ہر لمحہ اس کی ادائیگی میں صرف کیا۔ مشہد اور نجف کے نورانی علمی ماحول سے سیراب ہو کر انہوں نے ممبئی، تھائی لینڈ، کرگل اور دیگر مقامات پر علم و ہدایت کے چراغ روشن کیے۔ وہ صرف ایک عالم نہیں بلکہ ایک مکمل ادارہ، ایک فکری مکتب، اور ایک متحرک تحریک تھے۔
اس موقع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری (ممبئی) نے کہا: مرحوم مولانا شعبانیؒ فقط ایک عالم نہیں، بلکہ علم و اخلاص کا تابندہ چراغ تھے۔ ان کی گفتگو علم کی ترازو ہوا کرتی، اور ان کی رہنمائی دلوں پر اثر انداز ہو کر عمل کی شمع روشن کر دیتی۔ ان کی زندگی میں شائستگی، وقار، اور دینی غیرت کا عکس صاف نظر آتا تھا۔"
جامعہ [[علی ابن ابی طالب|امیرالمؤمنینؑ]] ممبئی (نجفی ہاؤس) کے مدیر حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید احمد علی عابدی نے فرمایا: مولانا شعبانیؒ حوزہ علمیہ کے اُن بنیادی اور بااخلاص اساتذہ میں سے تھے جنہوں نے تنظیم، تربیت، اور سادگی کے ساتھ گرانقدر علمی خدمات انجام دیں۔ وہ سچے معنوں میں 'عاش سعیداً و مات سعیداً' کا مصداق تھے۔"
تہران سے مولانا حسن عباس نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا: اس دورِ قحط‌الرجال میں مولانا شعبانیؒ جیسے باعمل، سادہ زیست اور مخلص عالم کا وجود ایک نعمت تھا۔ ان کی پوری حیات واقعی نمونۂ عمل تھی۔"
حوزہ علمیہ [[علی بن محمد|امام ہادیؑ]]، نورخواہ اُوڑی کشمیر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: علماء اسلام کے لیے قلعوں کی مانند ہوتے ہیں، جو دین اور معاشرے کے تحفظ کی چار دیواری ہیں۔ آج ایک قلعہ منہدم ہوا ہے، اور اس کا درد دلوں کو چیر رہا ہے۔ ان کی رحلت ایک ایسا علمی و روحانی خلا چھوڑ گئی ہے جس کا پر ہونا دشوار ہے۔"
مولانا سید مسعود اختر رضوی نے کہا: مرحوم استاد شیخ احمد شعبانیؒ ایک سادہ، بااخلاق، منظم اور مخلص معلم تھے۔ ان کی علمی جدوجہد اور قربانیاں آئندہ نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔"
امام جمعہ دراس مولانا شیخ حسین خان برامو نے علاقے کی جانب سے مشترکہ تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا: آپ کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ علاقہ دراس اس غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہم مرحوم کے پسماندگان، خصوصاً ان کے فرزندان اور دخترِ گرامی کے ساتھ گہرے رنج و غم میں شریک ہیں<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/410972/%D9%85%D9%88%D9%84%D8%A7%D9%86%D8%A7-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%B4%D8%B9%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D8%AD%D9%84%D8%AA-%D9%BE%D8%B1-%D8%B9%D9%84%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%92-%DB%81%D9%86%D8%AF-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AD%D9%88%D8%B2%D8%A7%D8%AA-%D8%B9%D9%84%D9%85%DB%8C%DB%81 مولانا شیخ احمد شعبانیؒ کی رحلت پر علمائے ہند اور حوزاتِ علمیہ کا اظہارِ تعزیت]- شائع شدہ از: 24 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 جولائی 2025ء</ref>۔
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}

نسخہ بمطابق 23:32، 24 جولائی 2025ء

احمد شعبانی
دوسرے نامشیخ احمد شعبانی
ذاتی معلومات
وفات2025 ء، 1403 ش، 1446 ق
یوم وفات23 جولائی
وفات کی جگہکرگل ہندوستان
مذہباسلام، شیعہ

شیخ احمد شعبانی حوزہ علمیہ کے جید، باعمل اور متواضع استاد حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ احمد شعبانی نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ ان کے سانحہ ارتحال کی خبر سے علمی و دینی حلقوں میں رنج و غم کی فضا چھا گئی، جس نے ان کے شاگردوں، ہم عصروں اور متعلقین کو غمزدہ کر دیا۔ باعمل اور متواضع عالم دین، حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ احمد شعبانیؒ طویل علالت کے بعد داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ان کے سانحہ ارتحال کی خبر سے نہ صرف کرگل کی فضائیں سوگوار ہو گئیں بلکہ ایران، عراق، ہندوستان، اور دیگر علمی و دینی مراکز میں بھی رنج و غم کی لہر دوڑ گئی۔ علمی و حوزوی حلقے، ان کے شاگرد، ہم عصر علما اور متعلقین اس غمناک موقع پر شدید صدمے سے دوچار ہیں۔

علم و عمل کا مجسم نمونہ

مرحوم کی زندگی سادگی، تقویٰ، نظم و ضبط اور بے لوث خدمت دین سے عبارت تھی۔ وہ صرف ایک عالم نہیں، بلکہ ایک ایسا ادارہ تھے جس نے دین، تربیت، اخلاص اور حکمت کا حسین امتزاج پیش کیا۔ ان کی زندگی علم و عمل، حلم و اخلاص اور زہد و بصیرت کی عملی تفسیر تھی۔

علمی و روحانی سفر

شیخ احمد شعبانیؒ کا تعلق کرگل، لداخ کی عظیم دینی سرزمین سے تھا، مگر ان کا علمی سفر ایران کے شہرِ علم مشہد مقدس اور عراق کے نجف اشرف جیسے روحانی مراکز تک پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے وہاں کے علما سے علم حاصل کر کے اس کے نور کو نہ صرف کرگل، بلکہ مشرقی ایشیا، ممبئی، تھائی لینڈ اور دیگر مقامات پر عام کیا۔

علمی و تعلیمی خدمات

مدرسہ امام امیرالمؤمنینؑ، ممبئی

مشہد و نجف سے واپسی کے بعد آپ نے ایمان فاؤنڈیشن (نجفی ہاؤس) ممبئی کے تحت "مدرسہ امام امیرالمؤمنینؑ" کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہاں وہ محض کتابیں پڑھانے والے استاد نہیں تھے، بلکہ طلبہ کی زندگی، سوچ، اخلاق اور دینی غیرت کی تشکیل کرنے والے مربی بھی تھے۔

جامعۃ البتول، ممبئی

خواتین کی دینی تعلیم کے لیے "نجفی ہاؤس" کے زیر انتظام جامعۃ البتول کی بنیاد میں بھی ان کی دور اندیشی اور اخلاص شامل تھا۔ یہ ادارہ آج بھی ان کی علمی و تربیتی فکر کی روشن مثال ہے۔

مدرسہ امام الہادیؑ، تلوجہ

مہاراشٹر میں علم دین کے فروغ کے لیے "مدرسہ امام الہادیؑ" کی تاسیس و استحکام میں ان کا نمایاں کردار رہا۔ اس ادارے نے علاقائی سطح پر نوجوانوں کی دینی پیاس بجھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

طلبہ سے بے لوث محبت

مرحوم کی حیاتِ مبارکہ طلبہ کی اصلاح، تربیت اور روحانی بلندی کے لیے وقف تھی۔ وہ نماز شب کی پابندی خود بھی کرتے اور طلبہ کو بھی ہمیشہ اس کی تلقین فرماتے۔ مطالعے کے اوقات میں طلبہ کے ساتھ دارالمطالعہ میں موجود رہتے اور اپنے عمل سے اخلاق و کردار کی تعلیم دیتے۔

رہنمائی زائرین و حجاج

شیخ شعبانیؒ کئی برسوں تک قافلۂ حج و زیارت کے ہمراہ زائرین کی علمی، شرعی اور روحانی رہنمائی کرتے رہے۔ ان کا انداز بے حد سادہ، لب و لہجہ نرم، مگر مدلل ہوتا۔ وہ نہ کبھی فتویٰ میں جلد بازی کرتے اور نہ قیاس کو دخل دیتے۔ گویا وہ ایک متحرک، خاموش، مگر عملی رہنما تھے۔

ان کی شخصیت کے نمایاں اوصاف

  • گفتار میں شائستگی، کردار میں وقار
  • تنقید سے گریز، مگر حق گوئی پر ثابت قدمی
  • زہد و دیانت، اخلاص و بصیرت
  • عہدے سے بے نیاز، مگر ذمہ داریوں کے امین
  • شہرت سے دور، مگر خدمت میں آگے

کرگل کی وادی میں ایک چراغ بجھا، لیکن…

آج جب وہ ہم میں نہیں رہے، کرگل کی وادی ایک تابندہ چراغ سے محروم ہو گئی۔ لیکن وہ روشنی جو ان کے علم، تربیت، اداروں اور شاگردوں کے ذریعے پھیلی، وہ آنے والی نسلوں کو دین و اخلاص کی راہ دکھاتی رہے گی۔ ان کی بیماری طویل ضرور تھی، لیکن اس دوران بھی ان کے چہرے پر صبر، زبان پر شکر، اور دل میں سکون تھا[1]۔

آیۃ اللہ العظمی سعید الحکیم زندان میں قید رہتے ہوئے بھی قوم کے لئے خدمات انجام دیتے رہے

مرجع کبیر مرحوم مغفور آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم رضوان اللہ علیہ سے لے کر خود مرحوم مغفور آیت اللہ العظمی سید محمد سعید الحکیم رحمتہ اللہ علیہ کے زندان میں دوران قید انجام دئے گئے دینی خدمات اور خاندان حکیم کے گزرے شہداء کے خدمات شامل ہے۔

کرگل/مرجع عالیقدر جہان تشیع حضرت آیت الله العظمی سید محمد سعید الحکیم رضوان اللہ علیہ کے ایصال ثواب کیلئے احاطہ حوزہ علمیہ اثنا عشریہ کرگل میں جمعیت العلماء اثنا عشریہ کرگل، لداخ کے زیر اہتمام مسلسل دو روز مجلس ترحیم اور فاتحہ خوانی کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں جمعیت العلماء اثنا عشریہ کے صدر، اراکین اور ضلع کے مختلف علاقوں سے علماء اور مومنین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

اس موقع پر مجلس ترحیم سے اپنے خطاب میں بزرگ عالم دین حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ احمد شعبانی نے خاندان آیت اللہ العظمی سید محمد سعید الحکیم رحمتہ اللہ علیہ کے دینی خدمات اور مکتب تشیع کے بقا کیلئے دی گئی قربانیوں کے بارے میں لوگوں کو تفصیل سے جانکاری دی جن میں مرجع کبیر مرحوم مغفور آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم رضوان اللہ علیہ سے لے کر خود مرحوم مغفور آیت الله العظمی سید محمد سعید الحکیم رحمتہ اللہ علیہ کے زندان میں دوران قید انجام دئے گئے دینی خدمات اور خاندان حکیم کے گزرے شہداء کے خدمات شامل ہے۔

شیخ احمد شعبانی نے مزید مرحوم مغفور آیت اللہ العظمی سید محمد سعید الحکیم رضوان الله علیہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مرحوم مغفور آیت اللہ العظمی سید محمد سعید الحکیم کا نام حوزہ علمیہ نجف اشرف کے چار بڑے مراجع عظام میں سے ہے جنمیں دیگر مرجع تقلید جہان تشیع حضرت آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی حفظہ اللہ، حضرت آیت اللہ العظمی بشیر نجفی اور آیت الله العظمی اسحاق فیاض (حفظہ اللہ) کے نام شامل ہیں، شیخ احمد شعبانی نے تمام مراجع عظام جہان تشیع کے سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں بھی کی[2]۔

مولانا شیخ احمد شعبانیؒ کی رحلت پر علمائے ہند اور حوزاتِ علمیہ کا اظہارِ تعزیت

بااخلاق، باعمل اور بااخلاص عالم دین حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا شیخ احمد شعبانیؒ کی رحلت پر پورا علمی و دینی معاشرہ سوگوار ہے۔ کرگل سے تہران تک علما و حوزات نے اس علمی چراغ کے بجھ جانے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔

ملتِ تشیع ہندوستان کا ایک قیمتی سرمایہ، مردِ مومن، باعمل عالمِ دین، مخلص مربی اور حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا شیخ احمد شعبانیؒ کی رحلت کی خبر نے کرگل، دراس، ممبئی سمیت تمام علمی و دینی حلقوں کو سوگوار کر دیا ہے۔ وادیِ کرگل پر غم کا سایہ چھا گیا ہے، زبانیں گُنگ اور آنکھیں اشکبار ہیں۔ وہ چراغ بجھ گیا جو علم، اخلاص، دیانت اور ہدایت کی روشنی بکھیر رہا تھا۔

مرحوم اُن جلیل القدر علما میں سے تھے جنہوں نے خدمتِ دین کو کبھی شہرت یا ذاتی منفعت کا ذریعہ نہ بنایا، بلکہ اُسے ایک الٰہی امانت سمجھ کر عمرِ عزیز کا ہر لمحہ اس کی ادائیگی میں صرف کیا۔ مشہد اور نجف کے نورانی علمی ماحول سے سیراب ہو کر انہوں نے ممبئی، تھائی لینڈ، کرگل اور دیگر مقامات پر علم و ہدایت کے چراغ روشن کیے۔ وہ صرف ایک عالم نہیں بلکہ ایک مکمل ادارہ، ایک فکری مکتب، اور ایک متحرک تحریک تھے۔

اس موقع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری (ممبئی) نے کہا: مرحوم مولانا شعبانیؒ فقط ایک عالم نہیں، بلکہ علم و اخلاص کا تابندہ چراغ تھے۔ ان کی گفتگو علم کی ترازو ہوا کرتی، اور ان کی رہنمائی دلوں پر اثر انداز ہو کر عمل کی شمع روشن کر دیتی۔ ان کی زندگی میں شائستگی، وقار، اور دینی غیرت کا عکس صاف نظر آتا تھا۔"

جامعہ امیرالمؤمنینؑ ممبئی (نجفی ہاؤس) کے مدیر حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید احمد علی عابدی نے فرمایا: مولانا شعبانیؒ حوزہ علمیہ کے اُن بنیادی اور بااخلاص اساتذہ میں سے تھے جنہوں نے تنظیم، تربیت، اور سادگی کے ساتھ گرانقدر علمی خدمات انجام دیں۔ وہ سچے معنوں میں 'عاش سعیداً و مات سعیداً' کا مصداق تھے۔"

تہران سے مولانا حسن عباس نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا: اس دورِ قحط‌الرجال میں مولانا شعبانیؒ جیسے باعمل، سادہ زیست اور مخلص عالم کا وجود ایک نعمت تھا۔ ان کی پوری حیات واقعی نمونۂ عمل تھی۔"

حوزہ علمیہ امام ہادیؑ، نورخواہ اُوڑی کشمیر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: علماء اسلام کے لیے قلعوں کی مانند ہوتے ہیں، جو دین اور معاشرے کے تحفظ کی چار دیواری ہیں۔ آج ایک قلعہ منہدم ہوا ہے، اور اس کا درد دلوں کو چیر رہا ہے۔ ان کی رحلت ایک ایسا علمی و روحانی خلا چھوڑ گئی ہے جس کا پر ہونا دشوار ہے۔"

مولانا سید مسعود اختر رضوی نے کہا: مرحوم استاد شیخ احمد شعبانیؒ ایک سادہ، بااخلاق، منظم اور مخلص معلم تھے۔ ان کی علمی جدوجہد اور قربانیاں آئندہ نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔" امام جمعہ دراس مولانا شیخ حسین خان برامو نے علاقے کی جانب سے مشترکہ تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا: آپ کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ علاقہ دراس اس غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہم مرحوم کے پسماندگان، خصوصاً ان کے فرزندان اور دخترِ گرامی کے ساتھ گہرے رنج و غم میں شریک ہیں[3]۔

حوالہ جات