مندرجات کا رخ کریں

"احمد شعبانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
«{{Infobox person | title = | image = شیخ احمد شعبانی.jpg | name = | other names = شیخ احمد شعبانی | brith year = | brith date = | birth place = | death year= 2025ء | death date =23 جولائی | death place = کرگل ہندوستان | teachers = | students = | religion = اسلام | faith = شیعہ | works = | known for = }} '''شیخ احمد شعبانی''' حوزہ علمیہ کے...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 7: سطر 7:
| brith date =
| brith date =
| birth place =  
| birth place =  
| death year= 2025ء
| death year =2025 ء
| death date =23 جولائی   
| death date =23 جولائی   
| death place = کرگل ہندوستان
| death place = کرگل ہندوستان

نسخہ بمطابق 14:43، 24 جولائی 2025ء

احمد شعبانی
دوسرے نامشیخ احمد شعبانی
ذاتی معلومات
وفات2025 ء، 1403 ش، 1446 ق
یوم وفات23 جولائی
وفات کی جگہکرگل ہندوستان
مذہباسلام، شیعہ

شیخ احمد شعبانی حوزہ علمیہ کے جید، باعمل اور متواضع استاد حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ احمد شعبانی نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ ان کے سانحہ ارتحال کی خبر سے علمی و دینی حلقوں میں رنج و غم کی فضا چھا گئی، جس نے ان کے شاگردوں، ہم عصروں اور متعلقین کو غمزدہ کر دیا۔ باعمل اور متواضع عالم دین، حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ احمد شعبانیؒ طویل علالت کے بعد داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ان کے سانحہ ارتحال کی خبر سے نہ صرف کرگل کی فضائیں سوگوار ہو گئیں بلکہ ایران، عراق، ہندوستان، اور دیگر علمی و دینی مراکز میں بھی رنج و غم کی لہر دوڑ گئی۔ علمی و حوزوی حلقے، ان کے شاگرد، ہم عصر علما اور متعلقین اس غمناک موقع پر شدید صدمے سے دوچار ہیں۔

علم و عمل کا مجسم نمونہ

مرحوم کی زندگی سادگی، تقویٰ، نظم و ضبط اور بے لوث خدمت دین سے عبارت تھی۔ وہ صرف ایک عالم نہیں، بلکہ ایک ایسا ادارہ تھے جس نے دین، تربیت، اخلاص اور حکمت کا حسین امتزاج پیش کیا۔ ان کی زندگی علم و عمل، حلم و اخلاص اور زہد و بصیرت کی عملی تفسیر تھی۔

علمی و روحانی سفر

شیخ احمد شعبانیؒ کا تعلق کرگل، لداخ کی عظیم دینی سرزمین سے تھا، مگر ان کا علمی سفر ایران کے شہرِ علم مشہد مقدس اور عراق کے نجف اشرف جیسے روحانی مراکز تک پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے وہاں کے علما سے علم حاصل کر کے اس کے نور کو نہ صرف کرگل، بلکہ مشرقی ایشیا، ممبئی، تھائی لینڈ اور دیگر مقامات پر عام کیا۔

علمی و تعلیمی خدمات

مدرسہ امام امیرالمؤمنینؑ، ممبئی

مشہد و نجف سے واپسی کے بعد آپ نے ایمان فاؤنڈیشن (نجفی ہاؤس) ممبئی کے تحت "مدرسہ امام امیرالمؤمنینؑ" کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہاں وہ محض کتابیں پڑھانے والے استاد نہیں تھے، بلکہ طلبہ کی زندگی، سوچ، اخلاق اور دینی غیرت کی تشکیل کرنے والے مربی بھی تھے۔

جامعۃ البتول، ممبئی

خواتین کی دینی تعلیم کے لیے "نجفی ہاؤس" کے زیر انتظام جامعۃ البتول کی بنیاد میں بھی ان کی دور اندیشی اور اخلاص شامل تھا۔ یہ ادارہ آج بھی ان کی علمی و تربیتی فکر کی روشن مثال ہے۔

مدرسہ امام الہادیؑ، تلوجہ

مہاراشٹر میں علم دین کے فروغ کے لیے "مدرسہ امام الہادیؑ" کی تاسیس و استحکام میں ان کا نمایاں کردار رہا۔ اس ادارے نے علاقائی سطح پر نوجوانوں کی دینی پیاس بجھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

طلبہ سے بے لوث محبت

مرحوم کی حیاتِ مبارکہ طلبہ کی اصلاح، تربیت اور روحانی بلندی کے لیے وقف تھی۔ وہ نماز شب کی پابندی خود بھی کرتے اور طلبہ کو بھی ہمیشہ اس کی تلقین فرماتے۔ مطالعے کے اوقات میں طلبہ کے ساتھ دارالمطالعہ میں موجود رہتے اور اپنے عمل سے اخلاق و کردار کی تعلیم دیتے۔

رہنمائی زائرین و حجاج

شیخ شعبانیؒ کئی برسوں تک قافلۂ حج و زیارت کے ہمراہ زائرین کی علمی، شرعی اور روحانی رہنمائی کرتے رہے۔ ان کا انداز بے حد سادہ، لب و لہجہ نرم، مگر مدلل ہوتا۔ وہ نہ کبھی فتویٰ میں جلد بازی کرتے اور نہ قیاس کو دخل دیتے۔ گویا وہ ایک متحرک، خاموش، مگر عملی رہنما تھے۔

ان کی شخصیت کے نمایاں اوصاف

  • گفتار میں شائستگی، کردار میں وقار
  • تنقید سے گریز، مگر حق گوئی پر ثابت قدمی
  • زہد و دیانت، اخلاص و بصیرت
  • عہدے سے بے نیاز، مگر ذمہ داریوں کے امین
  • شہرت سے دور، مگر خدمت میں آگے

کرگل کی وادی میں ایک چراغ بجھا، لیکن…

آج جب وہ ہم میں نہیں رہے، کرگل کی وادی ایک تابندہ چراغ سے محروم ہو گئی۔ لیکن وہ روشنی جو ان کے علم، تربیت، اداروں اور شاگردوں کے ذریعے پھیلی، وہ آنے والی نسلوں کو دین و اخلاص کی راہ دکھاتی رہے گی۔ ان کی بیماری طویل ضرور تھی، لیکن اس دوران بھی ان کے چہرے پر صبر، زبان پر شکر، اور دل میں سکون تھا[1]۔

آیۃ اللہ العظمی سعید الحکیم زندان میں قید رہتے ہوئے بھی قوم کے لئے خدمات انجام دیتے رہے

مرجع کبیر مرحوم مغفور آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم رضوان اللہ علیہ سے لے کر خود مرحوم مغفور آیت اللہ العظمی سید محمد سعید الحکیم رحمتہ اللہ علیہ کے زندان میں دوران قید انجام دئے گئے دینی خدمات اور خاندان حکیم کے گزرے شہداء کے خدمات شامل ہے۔

کرگل/مرجع عالیقدر جہان تشیع حضرت آیت الله العظمی سید محمد سعید الحکیم رضوان اللہ علیہ کے ایصال ثواب کیلئے احاطہ حوزہ علمیہ اثنا عشریہ کرگل میں جمعیت العلماء اثنا عشریہ کرگل، لداخ کے زیر اہتمام مسلسل دو روز مجلس ترحیم اور فاتحہ خوانی کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں جمعیت العلماء اثنا عشریہ کے صدر، اراکین اور ضلع کے مختلف علاقوں سے علماء اور مومنین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

اس موقع پر مجلس ترحیم سے اپنے خطاب میں بزرگ عالم دین حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ احمد شعبانی نے خاندان آیت اللہ العظمی سید محمد سعید الحکیم رحمتہ اللہ علیہ کے دینی خدمات اور مکتب تشیع کے بقا کیلئے دی گئی قربانیوں کے بارے میں لوگوں کو تفصیل سے جانکاری دی جن میں مرجع کبیر مرحوم مغفور آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم رضوان اللہ علیہ سے لے کر خود مرحوم مغفور آیت الله العظمی سید محمد سعید الحکیم رحمتہ اللہ علیہ کے زندان میں دوران قید انجام دئے گئے دینی خدمات اور خاندان حکیم کے گزرے شہداء کے خدمات شامل ہے۔

شیخ احمد شعبانی نے مزید مرحوم مغفور آیت اللہ العظمی سید محمد سعید الحکیم رضوان الله علیہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مرحوم مغفور آیت اللہ العظمی سید محمد سعید الحکیم کا نام حوزہ علمیہ نجف اشرف کے چار بڑے مراجع عظام میں سے ہے جنمیں دیگر مرجع تقلید جہان تشیع حضرت آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی حفظہ اللہ، حضرت آیت اللہ العظمی بشیر نجفی اور آیت الله العظمی اسحاق فیاض (حفظہ اللہ) کے نام شامل ہیں، شیخ احمد شعبانی نے تمام مراجع عظام جہان تشیع کے سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں بھی کی[2]۔

حوالہ جات