"غلام محمد وستانوی" کے نسخوں کے درمیان فرق
سطر 35: | سطر 35: | ||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} | ||
{{ہندوستان}} | |||
{{ہندوستانی علماء}} | {{ہندوستانی علماء}} | ||
[[زمرہ:شخصیات]] | [[زمرہ:شخصیات]] | ||
[[زمرہ:جمعیت علمائے ہند ]] | [[زمرہ:جمعیت علمائے ہند ]] | ||
[[زمرہ:ہندوستان]] | [[زمرہ:ہندوستان]] |
حالیہ نسخہ بمطابق 12:22، 19 جون 2024ء
غلام محمد وستانوی | |
---|---|
پورا نام | غلام محمد وستانوی |
ذاتی معلومات | |
پیدائش کی جگہ | ہندوستان |
مذہب | اسلام، سنی دیوبندی |
مناصب |
|
غلام محمد وستانوی ایک ہندوستانی مسلمان عالم اور دارالعلوم دیوبند کے سابق وائس چانسلر ہیں۔ انہوں نے دارالعلوم کے اداروں میں طب اور انجینئرنگ جیسے مضامین متعارف کروا کر مدرسہ کی تعلیم کی اصلاح میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں دارالعلوم دیوبند کے وائس چانسلر کے عہدے سے برطرف کیا گیا تھا کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مودی کی تعریف کی لیکن انہوں نے اس کی تردید کی۔ دیوبند کے ادارے نے بھی اس کی تردید کی۔ اور وہ پہلے شخص تھے جنہیں اس سے پہلے ہٹایا گیا جب انہوں نے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دیا تھا، یا عہدے پر انتقال کر گئے تھے۔
پیدائش و تعلیم
غلام محمد وستانوی کی پیدائش 1 جون 1950ء کو ایک چھوٹا سا گاؤں وستان سورت، گجرات میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام محمد اسماعیل ہے۔ محمد غلام وستانوی صاحب نے قرآن مجید اپنے وطن کو ساری ہی کے مدرسہ قوۃ الاسلام میں پڑھا، اس کے بعد آپ اپنے نانیہال سورت، گجرات اور مدرسہ شمس العلوم بڑودہ میں ابتدائی کتابیں مختلف اساتذۂ کرام سے پڑھیں۔ 1964 میں گجرات کے مشہور ومعروف مدرسہ فلاح دارین ترکیسر میں داخل ہوئے اور مسلسل آٹھ سال رہ کر 1982ء کے اوائل میں سند فراغت حاصل کی۔ ان کے اساتذۂ کرام فلاح دارین ترکیسر میں احمد بیمات، عبد اللہ کاپودروی، شیر علی افغانی اور ذو الفقار علی رحمھم اللہ جیسے نامور علماء شامل ہیں۔ مدرسہ فلاح دارین سے فراغت کے بجھانے کے لیے 1982ء کے اواخر میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور تشریف لائے ۔ وہاں حافظ حدیث محمد یونس جونپوری سے صحیح البخاری اور دیگر اساتذۂِ دورۂ حدیث سے دورۂ حدیث کی کتابیں پڑھ کر 1973ء میں سند فراغت حاصل کی [1]
درس
فراغت کے بعد گجرات کے قصبہ بوڈھان (سورت ضلع کے ایک گاؤں) میں انہوں نے کل دس دن پڑھایا، اس کے بعد 1973ء کے اواخر میں دار العلوم کنتھاریہ (بھروچ) تشریف لے گئے اور وہاں ابتدائی فارسی سے لے کر متوسطات تک کی مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھائیں۔کنتھاریہ کے زمانۂ قیام ہی میں 1980ء میں جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کی بنیاد ڈالی، جس کی ابتدا مکرانی پھلی محلہ سے کی گئی، ابتدا میں ان کا قیام کنتھاریہ میں ہی رہا، اس دوران یعقوب خانپوری (ناظم مکاتب و ناظم تعمیرات) اور ان کے برادر حافظ محمد اسحاق (نائب مہتمم) نظامت سنبھالتے رہے۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ یہاں رہتے ہوئے مکمل نظم وضبط دشوار ہوگا تو پھر استعفی دے کر مستقل اکل کوا تشریف لے آئے، جب سے اب تک رئیس الجامعہ کے عہدے پر فائز ہیں۔جامعہ اکل کنواں کی بنیاد کا پس منظر کے بارے.
1980 میں مکتب شروع ہوا اور 1981 میں دار الاقامہ شروع ہوگیا، طلبہ رہنے لگے،
جامعہ اشاعت العلوم اکل کنواں کی ابتدا ایک استاذ اور چھ بچوں سے ہوئی تھی۔ آج اس ادارہ کے احاطہ میں 16 ہزار طلبہ دینی اور عصری علوم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں میں اس ادارہ کے زیر اہتمام جو مکاتب، مدارس، اسکول اور کالج چل رہے ہیں ان میں سات ہزار سے زائد اساتذہ اور دو لاکھ کے قریب طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہسپتال، ووکیشنل سینٹرس اور دوسرے فلاحی ادارے الگ ہیں۔
دارالعلوم دیوبند
1998 میں صاحب کو مجلس شورٰی دار العلوم دیوبند کا رکن بنایا گیا تھا، اور مرغوب الرحمن بجنوری کے انتقال کے بعد مجلس شورٰی دار العلوم دیوبند کے اجلاس منعقدہ 11-10 جنوری 2011 میں آپ کو ایشا کی عظیم درس گاہ دارالعلوم دیوبند کا مہتمم بنایا گیا تھا، لیکن صرف سات ماہ بعد کچھ ناگزیر وجوہات کے بنا پر منصب اہتمام سے استعفی دینا پڑا تھا. دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ اہتمام سے استعفیٰ کے بعد آپ نے فرمایا کہ “
دارالعلوم دیوبند سے ہمارا روحانی، قلبی اور علمی تعلق ہے وہ ہمیشہ برقرار رہے گا، جہاں تک اہتمام سے استعفی کی بات ہے وہ ہمارا فیصلہ تھا، ہاں یہ ضرور ہے کہ طلبہ کا غلط استعمال کیا گیا، دارالعلوم دیوبند میں کچھ لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر سیاست کی اور اس عظیم ادارے کی عظمت کو نقصان پہونچایا۔