"خالد سیف الله رحمانی" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم |
|||
(2 صارفین 3 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے) | |||
سطر 4: | سطر 4: | ||
| name = خالد سیف الله رحمانی | | name = خالد سیف الله رحمانی | ||
| other names = | | other names = | ||
| brith year = 1956 | | brith year = 1956 ء | ||
| brith date = | | brith date = | ||
| birth place = [[ہندوستان]] | | birth place = [[ہندوستان]] | ||
سطر 10: | سطر 10: | ||
| death date = | | death date = | ||
| death place = | | death place = | ||
| teachers = {{ | | teachers = {{hlist | منت اللہ رحمانی |سید انظر شاہ کشمیری | محمود حسن گنگوہی | نظام الدین اعظمی | محمد سالم قاسمی}} | ||
| students = | | students = | ||
| religion = [[اسلام]] | | religion = [[اسلام]] | ||
| faith = [[سنی]] | | faith = [[سنی]] | ||
| works = {{ | | works = {{hlist | فقہی بصیرت| فکر اسلامی |قاموس الفقہ |جدید فقہی مسائل}} | ||
| known for = {{ | | known for = {{hlist | [[آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ]] جنرل سکریٹری}} | ||
}} | }} | ||
'''خالد سیف اللہ رحمانی''' ہندوستان کے ایک معروف مفتی، متعدد فقہی کتابوں کے مصنف اور شرعی علوم کے محقق ہیں۔ نیز [[آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ]] کے جنرل سکریٹری، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری، حیدرآباد دکن میں واقع المعہد العالی الاسلامی کے بانی، سہ ماہی بحث و نظر کے مدیر، [[دار العلوم ندوۃ العلماء]] کی مجلس انتظامیہ اور مجلس نظامت کے رکن اور متعدد مدارس اور تنظیموں کے سرپرست ہیں۔ | '''خالد سیف اللہ رحمانی''' ہندوستان کے ایک معروف مفتی، متعدد فقہی کتابوں کے مصنف اور شرعی علوم کے محقق ہیں۔ نیز [[آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ]] کے جنرل سکریٹری، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری، حیدرآباد دکن میں واقع المعہد العالی الاسلامی کے بانی، سہ ماہی بحث و نظر کے مدیر، [[دار العلوم ندوۃ العلماء]] کی مجلس انتظامیہ اور مجلس نظامت کے رکن اور متعدد مدارس اور تنظیموں کے سرپرست ہیں۔ | ||
سطر 23: | سطر 23: | ||
خالد سیف اللہ کا نانیہالی خاندان بہار کے مشہور بزرگ بشارت کریم گڑھلوی سے وابستہ تھا۔ اس خانوادہ کے مورث اعلیٰ ملا سید محمد علی ہیں جو ملا سیسو کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے سید احمد شہید کی تحریک جہاد میں شرکت کی اور معرکہ بالاکوٹ کے بعد بہار لوٹے <ref>پیام سیرت، مولف مولاناخالد سیف اللہ رحمانی(مضمون مصنف کتاب ایک تعارف از مولانامنورسلطان ندوی)، ص:21،ناشرعلامہ سید سلیمان ندوی ریسرچ سنٹر لکھنؤ، دوسرا ایڈیشن:2010</ref> | خالد سیف اللہ کا نانیہالی خاندان بہار کے مشہور بزرگ بشارت کریم گڑھلوی سے وابستہ تھا۔ اس خانوادہ کے مورث اعلیٰ ملا سید محمد علی ہیں جو ملا سیسو کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے سید احمد شہید کی تحریک جہاد میں شرکت کی اور معرکہ بالاکوٹ کے بعد بہار لوٹے <ref>پیام سیرت، مولف مولاناخالد سیف اللہ رحمانی(مضمون مصنف کتاب ایک تعارف از مولانامنورسلطان ندوی)، ص:21،ناشرعلامہ سید سلیمان ندوی ریسرچ سنٹر لکھنؤ، دوسرا ایڈیشن:2010</ref> | ||
== تعلیم == | == تعلیم == | ||
انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنی دادی، والدہ اور پھوپھا مولانا وجیہ الدین صاحب سے حاصل کی، [[فارسی]] اور [[عربی]] کی ابتدائی کتابیں اپنے والد سے پڑھیں، اس کے بعد مدرسہ قاسم العلوم حسینیہ دوگھرا (ضلع دربھنگہ) میں کسب فیض کیا، پھر یہاں سے جامعہ رحمانیہ مونگیر کا رخ کیا جو اس وقت ہندوستان کا معروف ادارہ اور تشنگان علم دین کا مرکز توجہ بنا ہوا تھا۔ انہوں نے یہاں متوسطات سے دورۂ حدیث تک کی تعلیم حاصل کی۔ یہاں منت اللہ رحمانی سے خصوصی استفادہ کا موقع ملا، ان کے علاوہ وہاں کے دیگر اساطین علم و اصحاب فضل اساتذہ سے بھی استفادہ کیا۔ خالد سیف اللہ کے اساتذہ میں سید شمس الحق صاحب، اکرام علی صاحب، حسیب الرحمن صاحب، فضل الرحمن قاسمی صاحب اور فضل الرحمن رحمانی وغیرہ شامل ہیں۔ <ref>قاموس الفقہ از خالد سیف اللہ رحمانی (مضمون حرفے چند صاحب کتاب کے بارے میں از مولانا مولانااشرف علی قاسمی) ج1،ص:200، ناشر کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، پہلا ایڈیشن، 2007</ref> | |||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} | ||
{{ہندوستان}} | |||
{{ہندوستانی علماء}} | |||
[[زمرہ:شخصیات]] | [[زمرہ:شخصیات]] | ||
[[زمرہ:جمعیت علمائے ہند ]] | [[زمرہ:جمعیت علمائے ہند ]] | ||
[[زمرہ:ہندوستان]] | [[زمرہ:ہندوستان]] |
حالیہ نسخہ بمطابق 12:23، 19 جون 2024ء
خالد سیف الله رحمانی | |
---|---|
پورا نام | خالد سیف الله رحمانی |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1956 ء، 1334 ش، 1375 ق |
پیدائش کی جگہ | ہندوستان |
اساتذہ |
|
مذہب | اسلام، سنی |
اثرات |
|
مناصب |
|
خالد سیف اللہ رحمانی ہندوستان کے ایک معروف مفتی، متعدد فقہی کتابوں کے مصنف اور شرعی علوم کے محقق ہیں۔ نیز آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری، حیدرآباد دکن میں واقع المعہد العالی الاسلامی کے بانی، سہ ماہی بحث و نظر کے مدیر، دار العلوم ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامیہ اور مجلس نظامت کے رکن اور متعدد مدارس اور تنظیموں کے سرپرست ہیں۔
سوانح عمری
10 جمادی الاولی 1376ھ مطابق نومبر 1956 میں بہار کے ایک قصبہ جالے کے معروف علمی گھرانہ میں آنکھیں کھولیں، تاریخی نام نور خورشید رکھا گیا جبکہ اصل نام خالد سیف اللہ طے پایا اور اسی نام سے معروف ہوئے۔ والد حکم زین العابدین علاقہ کے معروف لوگوں میں تھے، جبکہ دادا عبد الاحد صاحب دار العلوم دیوبند کے فاضل اور اس دور کے اہم علما میں تھے۔ وہ مدرسہ احمدیہ مدھوبنی کے شیخ بھی رہے ہیں جبکہ چچا مشہور عالم اور دینی و ملی رہنما قاضی مجاہد الاسلام قاسمی تھے، فقہ اور قضا کے باب میں جن کا مقام بلند معروف ومسلم رہا ہے۔
خالد سیف اللہ کا نانیہالی خاندان بہار کے مشہور بزرگ بشارت کریم گڑھلوی سے وابستہ تھا۔ اس خانوادہ کے مورث اعلیٰ ملا سید محمد علی ہیں جو ملا سیسو کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے سید احمد شہید کی تحریک جہاد میں شرکت کی اور معرکہ بالاکوٹ کے بعد بہار لوٹے [1]
تعلیم
انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنی دادی، والدہ اور پھوپھا مولانا وجیہ الدین صاحب سے حاصل کی، فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں اپنے والد سے پڑھیں، اس کے بعد مدرسہ قاسم العلوم حسینیہ دوگھرا (ضلع دربھنگہ) میں کسب فیض کیا، پھر یہاں سے جامعہ رحمانیہ مونگیر کا رخ کیا جو اس وقت ہندوستان کا معروف ادارہ اور تشنگان علم دین کا مرکز توجہ بنا ہوا تھا۔ انہوں نے یہاں متوسطات سے دورۂ حدیث تک کی تعلیم حاصل کی۔ یہاں منت اللہ رحمانی سے خصوصی استفادہ کا موقع ملا، ان کے علاوہ وہاں کے دیگر اساطین علم و اصحاب فضل اساتذہ سے بھی استفادہ کیا۔ خالد سیف اللہ کے اساتذہ میں سید شمس الحق صاحب، اکرام علی صاحب، حسیب الرحمن صاحب، فضل الرحمن قاسمی صاحب اور فضل الرحمن رحمانی وغیرہ شامل ہیں۔ [2]
حوالہ جات
- ↑ پیام سیرت، مولف مولاناخالد سیف اللہ رحمانی(مضمون مصنف کتاب ایک تعارف از مولانامنورسلطان ندوی)، ص:21،ناشرعلامہ سید سلیمان ندوی ریسرچ سنٹر لکھنؤ، دوسرا ایڈیشن:2010
- ↑ قاموس الفقہ از خالد سیف اللہ رحمانی (مضمون حرفے چند صاحب کتاب کے بارے میں از مولانا مولانااشرف علی قاسمی) ج1،ص:200، ناشر کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، پہلا ایڈیشن، 2007