مندرجات کا رخ کریں

"محمد حسین ذاکری" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 14: سطر 14:
| religion = [[اسلام]]  
| religion = [[اسلام]]  
| faith = [[شیعہ]]
| faith = [[شیعہ]]
| works = {{عمودی باکس کی فہرست |[[امام خمینی میموریل ٹرسٹ کرگل انڈیا|امام خمینی میموریل انسٹی ٹیوٹ]]
| works = {{عمودی باکس کی فہرست|[[امام خمینی میموریل ٹرسٹ کرگل انڈیا|امام خمینی میموریل انسٹی ٹیوٹ]]}}
| known for =  
| known for =  
}}
}}

نسخہ بمطابق 11:39، 25 دسمبر 2025ء

محمد حسین ذاکری
ذاتی معلومات
پیدائش1942 ء، 1320 ش، 1360 ق
وفات2016 ء، 1394 ش، 1436 ق
یوم وفات28 جولائی
وفات کی جگہکرگل ہندوستان
مذہباسلام، شیعہ
اثرات

محمد حسین ذاکری خطۂ لداخ کے ضلع کرگل کے ممتاز شیعہ عالمِ دین، خطیب، معلم اور سماجی مصلح تھے۔ وہ ان شخصیات میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے کرگل جیسے دور افتادہ اور جغرافیائی طور پر دشوار خطے میں دینی شعور، تعلیمی بیداری اور سماجی اصلاح کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کی زندگی علم، تبلیغ، خدمتِ خلق اور اہلِ بیتؑ سے وابستگی کی روشن مثال تھی۔

زندگی نامہ

شیخ محمد حسین ذاکری کارگیلی کی پیدائش کرگل کے ایک مذہبی اور دیندار خاندان میں ہوئی۔ ابتدائی عمر ہی سے ان میں علمِ دین کے حصول اور دینی خدمات کا شوق نمایاں تھا۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی سادگی، تقویٰ اور عوامی خدمت کے ساتھ گزاری اور علاقے کے دینی و سماجی مسائل کو اپنی ذمہ داری سمجھا۔ کرگل کے عوام انہیں ایک مخلص عالم، درد مند رہنما اور بے لوث خادمِ دین کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

تعلیم و علمی تربیت

انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے کرگل میں حاصل کی اور بعد ازاں باقاعدہ دینی تعلیم کے لیے حوزوی نظامِ تعلیم سے استفادہ کیا۔ فقہ، اصولِ فقہ، تفسیرِ قرآن، حدیث اور عقائدِ اسلامی ان کے خصوصی موضوعات تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں خطابت، تدریس اور دینی تبلیغ کے عملی اسالیب پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان کی علمی تربیت نے انہیں ایک ایسے عالم کے طور پر تیار کیا جو کلاسیکی دینی علوم کو مقامی سماجی و ثقافتی تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

دینی و تعلیمی خدمات

شیخ محمد حسین ذاکری کارگیلی نے کرگل میں دینی تعلیم کے فروغ کو اپنی زندگی کا مرکزی مقصد بنایا۔ انہوں نے مساجد، مدارس اور دینی مراکز میں تدریسی خدمات انجام دیں اور قرآنِ کریم، سیرتِ اہلِ بیتؑ، فقہی مسائل اور اخلاقی تعلیمات کو عام فہم انداز میں لوگوں تک پہنچایا۔ انہوں نے نوجوانوں اور طلبہ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور انہیں دینی شناخت، اخلاقی اقدار اور سماجی ذمہ داری کا شعور عطا کیا۔ ان کی درسی اور تبلیغی سرگرمیوں نے کرگل میں ایک باشعور اور دین سے وابستہ نسل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔

ثقافتی، سماجی اور اصلاحی سرگرمیاں

سماجی میدان میں بھی ان کی خدمات نہایت قابلِ ذکر ہیں۔ انہوں نے کرگل کے معاشرے میں **اخلاقی اصلاح، سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری** کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کیے۔ مذہبی اجتماعات، مجالس، علمی نشستوں اور عوامی پروگراموں کے ذریعے انہوں نے لوگوں کو باہمی اتحاد، دینداری اور سماجی ذمہ داری کی طرف متوجہ کیا۔ وہ مقامی ثقافت اور دینی تشخص کے تحفظ کے حامی تھے اور جدید چیلنجز کے مقابلے میں اسلامی اقدار کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرتے تھے۔

کارگل میں ایک ایسی چنگاری روشن کی تھی جو آج ایک دہکتے ہوئے الاؤ میں بدل چکی ہے

بادامی آنکھوں والے اس شیخ نے چالیس دن قبل دارِ فانی سے کوچ کیا؛ ہمالیہ کے پہاڑوں کے درمیان کسی مقام پر۔ خاموشی سے۔ تین دہائیاں قبل انہوں نے کشمیر کے کارگل علاقے میں ایک ایسی چنگاری روشن کی تھی جو آج ایک دہکتے ہوئے الاؤ میں بدل چکی ہ جسے"امام خمینی میموریل انسٹی ٹیوٹ" کہا جاتا ہے؛ ایسی آگ جسے تہران اور دہلی میں بیٹھے بعض سرد مہر صاحبانِ اقتدار بھی بجھا نہ سکے۔

شیخ حسین ذاکری، جنہوں نے بے فائدہ اور مہنگی کانفرنسوں اور سیمیناروں کے برعکس، اسلامی انقلاب کے افکار کے لیے کم ترین وسائل میں عظیم ترین خدمات انجام دیں، چالیس دن قبل رحمتِ الٰہی میں جا بسے۔ جو کچھ ان کی یاد میں باقی ہے وہ ان کی ہمیشہ مسکراتی ہوئی صورت اور میرے مرحوم والد کی زبان سے سنی گئی ان کی انتھک محنتوں کی یادیں ہیں؛ کیسا خوبصورت راستہ اور کیسی خوبصورت منزل۔ اللہ انہیں اپنی رحمت میں جگہ دے۔

ہماری بے توجہی میں امام خمینیؒ کے ایک اور عالمی فرزند ہم سے جدا ہو گئے۔ چالیس دن قبل شیخ حسین ذاکری، جنہوں نے تنِ تنہا چین اور بھارت کی سرحد پر واقع ایک دورافتادہ اور دشوار گزار علاقے میں امام اور انقلاب کا نام زندہ رکھا، اپنے انقلابی پیشوا سے جا ملے۔ انہوں نے کارگل (بھارت) میں ایک انقلابی نسل کی تربیت کی جو وہاں انقلابِ اسلامی کے گفتمان کو آگے بڑھا رہی ہے۔ ہم کارگل کے معروف عالمِ دین مولانا انور حسین شرف الدین کے پاس گئے تاکہ وہ ہمیں شیخ حسین ذاکری کی سرگرمیوں کے بارے میں بتائیں۔

شیخ حسین کا سب سے بڑا چیلنج متحجر ذہنیت رکھنے والے لوگ تھے

کارگل، کشمیر (بھارت) کا ایک جغرافیائی طور پر انتہائی دورافتادہ، نہایت دشوار گزار، محروم اور مستضعف علاقہ ہے۔ یہ شیعہ اکثریتی پہاڑی خطہ چین کی سرحد سے متصل ہے جہاں زیادہ تر بودھ مت کے ماننے والے آباد ہیں، جبکہ دوسری جانب پاکستان کی سرحد بھی واقع ہے۔

بھارت کی حکومت غیر مسلم ہے اور غیر مسلموں پر مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ توجہ دیتی ہے، اسی وجہ سے کارگل ہر لحاظ سے محروم ہے۔ اس کے باوجود یہاں کے لوگ انتہائی دیندار ہیں اور علما و مراجع کی بھرپور پیروی کرتے ہیں۔

ایران میں انقلاب کی کامیابی کے بعد، کارگل کے بعض علما اور نوجوانوں نے انقلاب کا پیغام پھیلانا شروع کیا۔ ابتدا میں دیواری اخبارات کے ذریعے ایران کی خبریں کارگل پہنچائی جاتیں۔ ریڈیو جمہوریہ اسلامی ایران سنا جاتا اور خبریں لکھ کر عوامی مقامات پر چسپاں کی جاتیں۔ عوام بھرپور ساتھ دیتے تھے۔ بعد ازاں انقلابیوں کا دہلی میں واقع ایرانی ثقافتی مرکز سے رابطہ ہوا اور بعض لوگ ایران بھی گئے۔ شیخ ذاکری بھی ایران آتے جاتے رہے۔

کارگل میں قدیم زمانے سے ایک دینی مدرسہ موجود تھا جس کے بعض افراد انقلاب اور امام کے بارے میں بدگمان خیالات رکھتے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے ایران میں بھی بعض علما خطِ امام سے ہم آہنگ نہ تھے۔ ان کے افکار انجمنِ حجتیہ جیسے تھے اور وہ امام مہدیؑ کے ظہور سے قبل اسلامی حکومت کے قائل نہ تھے۔ جب شیخ حسین ذاکری اور ان کے ساتھیوں نے انقلابی سرگرمیاں شروع کیں تو ان لوگوں نے مخالفت شروع کر دی۔ ان کی طرف سے ایک الزام یہ لگایا گیا کہ یہ لوگ “تیرہ اماموں” کے قائل ہیں!

انقلابِ ایران نے کارگل کے نوجوانوں کو دوبارہ دیندار بنایا

انقلاب سے پہلے تقریباً 90 فیصد نوجوان اور تعلیم یافتہ افراد دین اور روحانیت سے لاتعلق اور تقریباً سیکولر تھے۔ ان کا رجحان زیادہ تر مارکسی نظریات کی طرف تھا۔ کارگل کی روایتی روحانیت ان نوجوانوں کو جذب کرنے اور ان کے سوالات کا جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔ لیکن ایران میں انقلاب کی کامیابی کے بعد نوجوانوں میں دین کی طرف ایک نیا رجحان پیدا ہوا۔

اسی وجہ سے شیخ حسین ذاکری نے محسوس کیا کہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا جانا چاہیے جو نوجوانوں کو اسلام اور انقلاب کی طرف راغب کرے۔ روایتی طبقے نے اس ادارے کی تشکیل کی بھی مخالفت کی۔ گزشتہ تقریباً تیس برسوں میں شیعوں کے درمیان ان اختلافات نے ہمیں شدید مادی اور معنوی نقصان پہنچایا۔

روایتی افراد عوام کے اذہان کو انقلابیوں کے خلاف مشوش کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ان سرگرمیوں سے بھارتی حکومت ہم پر حساس ہو جائے گی۔ اس کے برعکس انقلابی نوجوان اور علما جوش و جذبے سے انقلابِ اسلامی کے گفتمان کو فروغ دے رہے تھے۔ عوام امام اور انقلاب سے اس قدر محبت کرنے لگے تھے کہ گویا کارگل بھی ایران کا حصہ ہو۔ مثال کے طور پر ایران۔عراق جنگ کے دوران عوام خود بخود مالی امداد جمع کر کے دہلی میں ایرانی سفارت خانے تک پہنچاتے تھے۔

امامؒ کے لیے مسلسل چالیس دن کی مجالس — صرف ایران اور چین۔بھارت سرحد پر!

جب امام خمینیؒ کا انتقال ہوا تو شیخ ذاکری اور ان کے ساتھیوں نے فاتحہ کے انعقاد کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ یہ مجالس روزانہ مسلسل چالیس دن تک جاری رہیں۔ اس سے قبل علاقے میں کسی فرد کے لیے چالیس دن مسلسل مجالس کا کوئی رواج نہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ صرف ایران اور چین و بھارت کی سرحد پر واقع دورافتادہ کارگل ہی وہ مقامات تھے جہاں ایسا ہوا۔

مجالس کے تسلسل پر روایتی افراد نے اعتراض کیا اور کہا کہ دیگر مراجع کے لیے دو تین دن سے زیادہ مجالس نہیں ہوتیں۔ مگر انقلابیوں کا کہنا تھا کہ امامؒ دیگر سب سے مختلف ہیں اور ہم یہ مجالس جاری رکھیں گے۔ بعض شخصیات وفات کے بعد ایک نئی زندگی پاتی ہیں، امام خمینیؒ بھی انہی میں سے تھے۔

چالیسویں کے دن یہ طے ہوا کہ ایرانی سفارت خانے سے کسی مقرر کو بلایا جائے۔ شیخ ذاکری دہلی گئے۔ کارگل سے دہلی کا سفر بس کے ذریعے تقریباً دو دن کا ہے۔ کارگل میں جون کے مہینے میں بھی شدید سردی ہوتی ہے۔ سردیوں میں چھ ماہ تک راستے مکمل طور پر بند رہتے ہیں۔ اس سال اگرچہ چالیسواں جولائی کے آخر میں تھا مگر برف ابھی پگھلی نہیں تھی۔ شیخ ذاکری کو 10 تا 15 کلومیٹر پیدل چلنا پڑا۔ کئی دنوں کی سخت مشقت کے بعد وہ دہلی پہنچے اور سفارت خانے میں درخواست دی[1]۔

کارگل میں نعرہ: “دستِ خدا بر سرِ ما، خامنہ‌ای رہبرِ ما”

چالیسویں کے دن خود ایران کے سفیر کارگل آئے اور خطاب کیا۔ عوام نے شاندار استقبال کیا۔ نعرے وہی تھے جو ایران میں لگتے تھے۔ اس وقت رہبر معظم آیت اللہ خامنہ‌ایؑ کو حال ہی میں قیادت ملی تھی اور نعرہ “دستِ خدا بر سرِ ما، خامنہ‌ای رہبرِ ما”

خود ایران میں بھی نیا تھا، مگر چین۔بھارت سرحد پر واقع کارگل کے نوجوان اسی جوش سے یہ نعرہ لگا رہے تھے۔ اس تقریب میں مختلف سیاسی دھڑوں اور اہل سنت کے اکابرین بھی شریک تھے۔

امام خمینی میموریل انسٹی ٹیوٹ کی دینی، انقلابی اور سماجی سرگرمیاں

بعد ازاں "امام خمینی میموریل انسٹی ٹیوٹ" قائم ہوا۔ اس کے تحت دینی، ثقافتی اور فلاحی شعبے کام کر رہے ہیں۔ اراکین نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک چھوٹا سا اسپتال بنایا جہاں ڈاکٹر ہفتے میں چند گھنٹے مفت علاج کرتے ہیں۔ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت بھی کی جاتی ہے۔

شیخ ذاکری نے کویتی تاجروں سے روابط قائم کر کے امداد حاصل کی۔ دفترِ رهبری بھی علاقے میں فعال ہے، لیکن اس کے باوجود غربت موجود ہے۔ امداد کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ بھوکے نہ سوئیں اور بھیک پر مجبور نہ ہوں۔ محرم اور رمضان میں تبلیغی پروگرام، دروسِ قرآن اور مختلف نشریات شائع کی جاتی ہیں۔

شیخ حسین ذاکری کے ہاتھوں انقلابی نسل کی تربیت

انہوں نے شہید مطہری غیر سرکاری اسکولوں کی بنیاد رکھی۔ ان اسکولوں میں عام نصاب کے ساتھ دینی و اخلاقی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ان اسکولوں کے قیام سے قبل علاقے میں تعلیمی حالت انتہائی خراب تھی۔ بچے نویں دسویں جماعت تک اردو صحیح پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ نتیجتاً یہ اسکول ایسے نوجوان تیار کرنے میں کامیاب ہوئے جنہوں نے پورے بھارت میں اعلیٰ تعلیمی کامیابیاں حاصل کیں۔

ان اسکولوں میں یتیم بچوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ بعد میں طلبہ کے لیے ہاسٹل بھی قائم کیے گئے۔ قرآنی مدارس اور ایک انقلابی حوزۂ علمیہ بھی قائم کیا گیا جو تعلیمی معیار کے لحاظ سے روایتی مدارس سے بہتر ہے۔ یہ سب ادارے امام خمینی میموریل انسٹی ٹیوٹ کے اراکین نے اپنی ذاتی کوششوں اور وسائل سے قائم کیے، ابتدا میں ایران سے کسی قسم کی مالی مدد حاصل نہیں کی گئی۔

کرگل میں کردار اور اثرات

شیخ محمد حسین ذاکری کارگیلی کا کردار کرگل کی دینی و سماجی تاریخ میں نہایت اہم ہے۔ انہوں نے ایک ایسے ماحول میں دینی و تعلیمی خدمات انجام دیں جہاں وسائل محدود تھے، مگر عزم مضبوط تھا۔ ان کی کوششوں سے کرگل میں دینی تعلیم کو استحکام ملا، مذہبی شعور میں اضافہ ہوا اور سماجی زندگی میں نظم و ضبط اور اخلاقی اقدار کو تقویت ملی۔ آج بھی کرگل کے دینی و سماجی حلقوں میں ان کا نام احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے اور ان کی خدمات کو اس خطے کی فکری و مذہبی ترقی کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔

حوالہ جات

  1. شیخ محمدحسین ذاکری، خمینی انقلاب اسلامی کشمیر / فیلم- شائع شدہ از: 20 مہر 1395ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 دسمبر 2025ء