اسماعیلیہ
اسماعیلیہ | |
---|---|
نام | اسماعیلیہ |
تشکیل کی تاریخ | امام صادق علیہ السلام کی شہادت کے بعد |
بانی |
|
نظریہ | نفی صفات خداوند، ادوار نبوت و مراتب امامت |
اس فرقہ کا اعتقاد ہے کہ امام جعفر صادقؑ کے بیٹے حضرت اسماعیل امام ہیں اور اسماعیلیہ فرقہ اسی امام کی نسبت سے اسماعیلی کہلاتاہے اس فرقے کی تین شاخیں ہیں۔ اسماعیلیہ خالصہ یعنی وہ جماعت جو امام اسماعیل کی حیات وغیبت کی معتقد اور ان کی واپسی کی امیدوار تھی۔ دوسری جماعت مبارکیہ کے نام سے موسوم ہوئی۔ یہ اسما عیلیہ فرقہ کی سب سے قدیم شاخ معلوم ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک امام اسماعیل کے بعد محمد بن اسماعیل امام ہیں اور محمد کو یہ لوگ خاتمہ الائمہ جانتے ہیں اور کہتے ہیں وہی قائم منتظر اور مہدی موعود ہیں۔ مبارکیہ مبارک کی طرف منسوب ہے جوکہ محمد بن اسماعیل بن امام جعفر صادقؑ کا غلام تھا ۔اسے خوشنویسی ، نقش و نگار اور دستکاری میں کمال حاصل تھا۔ اس غلام نے امام اسماعیل کی وفات کے بعد کوفے میں شیعوں کو مذہب اسماعیلیہ کی ترغیب دی اور اپنے پیروکاروں کا نام مبارکیہ رکھا۔ابن خلکان کی ایک روایت کے مطابق اس فرقے کے اماموں کی ترتیب اس طرح ہے : امام جعفر صادق، امام اسماعیل، امام محمد (المکتوم )، عبدالله (الرضی )، احمد (الوفی )، الحسین (النقی )، عبد الله (المهدی)۔ تیسری جماعت قرامطہ کے نام سے معروف ہوئی۔ شہرت واثر کے اعتبار سے تیسری جماعت کو سبقت حاصل ہے ۔ بعض لوگ قرامطہ کو اسما عیلیہ کا مترادف خیال کرتے ہیں۔
قرامطہ کے معنٰی
لفظ ”قرامطہ“ جمع کا صیغہ ہے۔ اس کا واحد قرمطی ہے جو قرمط کا اسم منسوب ہے۔ کہا جاتا ہے قرمط حمدان بن اشعت کالقب ہے جس نے اس فرقے کی بنیاد ڈالی۔ عربی زبان میں قرمط کے معنٰی نزد یک نزدیک قدم رکھ کر چلنے کے ہیں۔ حضرت علی کے بعد امامت درجہ بہ درجہ منتقل ہو کر امام جعفر صادق کے حصہ میں آئی۔ ان کے بعد ان کے بیٹے اسماعیل میں آگئی۔ قرامطہ دنیا کو بارہ جزیروں میں تقسیم کرتے ہیں ہر جزیرہ میں ایک حجت کی موجودگی لازمی ہے۔ جس کو نائب امام تصور کرتے ہیں۔ حجت کا نائب داعی اور داعی کا نائب (ید ) ہوتا ہے۔ حجت بمنزلہ باپ، دائی بمنزلہ ماں اور ید بمنزلہ بیٹا ہوتا ہے۔ قرامطہ کے چار درجے ہیں امام، حجت ، داعی اور ید ۔ قرامطہ کا قول تھا کہ حضور صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد صرف سات ائمہ ہوئے ہیں حضرت علی سے امام جعفر صادق تک اور ساتویں محمد بن اسماعیل بن جعفر ہیں۔ محمد بن اسماعیل مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں ( قائم اور مہدی وہی ہیں ) اور ان کو رسالت کا مرتبہ بھی حاصل ہے[1]۔
خطابیہ
شیعہ فرقوں میں وقتا فوقتا امامت کے تعین سے اختلاف ہوتا گیا جو جدا گانہ مسلک کی شکل اختیار کر لیتا تھا۔ اس طرح اسماعیلیہ میں خطابیہ کے باقیات بھی شامل ہو گئے۔ چونکہ خطابیہ فرقہ نے کچھ مخصوص عقائد اور ایک نہایت موثر طریقہ کار اپنا لیا تھا۔ اس طرح خطابیہ کی شمولیت اسماعیلیہ فرقہ کی تقویت کا سبب ہوگئی ۔ خطابیہ اور اسماعیلیہ کے روابط کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ابومحمد حسن بن موسیٰ نوبختی نے جو تیسری صدی کے ایک معتبر شیعہ مصنف تھے اپنی ایک کتاب فرق الشیعہ میں اسماعیلیہ اور خطابیہ کو باہم متحد قرار دیا ہے۔ اس طرح خطابیہ کا ایک فرقہ محمد بن اسماعیل کے فرقہ میں داخل ہو گیا۔ خطابیہ اور اسماعیلیہ کی آمیزش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نیا فرقہ بنا جو بعد میں اسماعیلیہ کے نام سے موسوم ہوا [2]۔
خطابیہ فرقہ
خطابیہ فرقے کا بانی ابو الخطاب محمد بن ابی زینب الاسدی ہے۔ بعض لوگوں کا عقیدہ تھا کہ امام جعفر صادق کی روح ابوالخطاب میں حلول کرگئی تھی اور ابوالخطاب کے بعد وہی روح محمد بن اسماعیل اور ان کی اولاد میں حلول کرگئی ۔ ابوالخطاب کے فرقے کو خطابیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ خطابیہ کہتے ہیں کہ الٰہیت نور ہے۔ عالم نبوت اور امامت ان انوار سے کبھی خالی نہیں رہتا۔ خطابیہ ہر مومن کی گواہی کو حلف کر کے سچا جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مومن کبھی جھوٹا حلف نہیں کرتا ۔ بعض اشخاص جو اس نواع کے عقائد رکھتے تھے اس فرقے سے علیحدہ ہو گئے اور ایک نیا فرقہ قائم کیا اسی فرقے کو قرامطہ کہتے ہیں۔ ابوالخطاب کو بعض مورخین نے قرامطہ کے معتقدین میں شمار کیا ہے۔ان کے اقوال و تصانیف قرامطہ اور اسماعیلیہ میں عام طور پر رائج تھیں۔ ان کو بعض شیعہ فرقے مستند خیال کرتے تھے ۔شیعہ محدثین نے ان کی بعض روایات اس سے نقل کی ہیں لیکن سنی محد ثین اس کو ساقطہ الاعتبار قرار دیتے ہیں۔
باطنیہ فرقہ
باطنیہ فرقہ : باطنی شیعوں کا شمار غالی شیعوں میں ہوتا ہے۔ غالی شیعوں کے اٹھارہ فرقے ہیں۔ سب سے پہلا فرقہ سبائی ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی نہ مرے نہ قتل ہوئے بلکہ اُن کا ہم شکل دوسرا شخص قتل ہوا۔ سبائی اور باطنی مذہب میں قرامطہ نصیریه، دروزیہ، باببه، بہائیہ، کاملیہ، خطابیہ، آغا خانی اور اسماعیلی فرقے اور مذاہب بھی پیدا ہوئے۔ ان فرقوں میں وحدت الوجود اور اتحادکا عقیدہ پایاجاتا ہے۔ اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ واحد کسی مخلوق رسول یا ولی اللہ کے اندر حلول کرتا ہے یعنی کہ اللہ انسانی شکل میں اوتار لیتا ہے۔ وحدت الوجود کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ساری چیزیں مثلاً پہاڑ دریا سمندر اور حیوانات سب کے سب اللہ ہیں۔
اسماعیلی فرقہ میں امامت
اسماعیلی شیعہ فرقے کی ایک شاخ ہے اور امام جعفر صادق کے بیٹے اسماعیل کی طرف منسوب ہے۔ امام جعفر صادقؑ تک اثنا عشری اور اسماعیلی دونوں متحد ہیں۔ ان کے بعد اثنا عشری اور اسماعیلی فرقے الگ ہو جاتے ہیں۔ امام جعفر صادق کے دو صاحبزادے تھے (1) بڑے بیٹے کا نام اسماعیل (۲) چھوٹے بیٹے کا نام موسیٰ کاظم۔ اسماعیل اپنے باپ امام جعفر صادق کے جانشین تھے۔ لیکن اسماعیل کا انتقال امام جعفر صادقؑ کی زندگی میں ہو گیا تھا۔ شیعوں کے نزدیک چونکہ امامت منجانب اللہ ہے اس لئے اسماعیلی فرقہ کے لوگ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اگر کسی امام کی نامزدگی ہو جائے تو اُس کے بعد اخراج نہیں ہوتا اس لئے اسماعیلی فرقہ اسماعیل ہی کو امام مانتا ہے۔ لیکن اثنا عشری کے نزدیک چونکہ اسماعیل مر گئے ہیں اور جو مر جائے وہ امام نہیں ہو سکتا۔
اسماعیلی اس بات کے قائل ہیں کہ امام اسماعیل نے وفات نہیں پائی بلکہ روپوش ہو گئے ہیں۔وہ اسماعیل کو زندہ مانتے ہیں اور آغا خان (روحانی پیشوا ) اُن کی شاخ کے حاضر امام ہیں۔ اسماعیلی فرقہ اثنا عشری اماموں میں سے صرف پہلے چھ اماموں کے قائل ہیں :
- حضرت علی
- امام حسن
- امام حسین
- امام زین العابدین
- امام باقر
- امام جعفر صادق
- امام اسماعیل
جبکہ دوسرے شیعہ امام حسن عسکری کے بیٹے، امام محمد مہدی تک بارہ اماموں کو امام مانتے ہیں۔ یہ فرقہ امامیہ ، اثناعشری یا صرف شیعہ کے نام سے معروف ہے۔ لیکن اسماعیلی اثنا عشری (یعنی بارہ امامی) نہیں ہیں۔ اس فرقے کے نزدیک ہر ظاہر کا ایک باطن ہوتا ہے ۔اس لئے اس فرقے کو باطنی شیعہ بھی کہتے ہیں۔ باطنی شیعہ کہتے ہیں کہ کتاب وسنت میں وضو، تمیم، نماز، روزہ، زکوۃ، حج، بهشت، دوزخ اور قیامت وغیرہ کی نسبت جو کچھ وارد ہوا ہے دو ظاہر پر محمول نہیں ہے سب کے اور ہی معنی ہیں۔لغت میں جو ان کے معنی ہیں وہ شارع کی مراد نہیں ہے۔ مثلا حج سے مراد امام کے پاس پہنچنا ہے اور روزہ سے مذہب کا مخفی رکھنا اور نماز سے مراد امام کی فرمانبرداری وغیرہ ہیں۔ اسماعیلیہ، اسماعیل کے موت کے بعد دنیا میں لوٹ آنے کے قائل ہیں۔ اسماعیلیہ کا قول ہے کہ ایک جزو الٰہی نے ائمہ میں حلول کیا۔ حضرت علی بن ابی طالب مستحق امام ہیں۔ اسماعیلیہ کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر ومختار نہیں ہے۔ وہ جب کسی چیز کو پسند کرتا ہے تو وہ اُس سے بے اختیار وجود میں آجاتی ہے جیسے سورج کی شعاع بے اختیار نکلنے لگتی ہے اسماعیلیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحب ارادہ نہیں ہے بلکہ جو کچھ اُس سے صادر ہوتا ہے وہ اُس کی ذات کو لازم ہے جیسے آگ کی گرمی اور آفتاب کی روشنی۔ اسماعیلیہ کے نزدیک ائمہ میں عصمت کا ہونا شرط ہے۔ یہی نظریہ امامیہ فرقے کا بھی ہے [3]۔
امامت کے بارے میں اسماعیلوں کا عقیدہ
اسماعیلیہ کا اماموں کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ عالم کبھی امام سے خالی نہیں ہوتا اور نہ ہو گا جو کوئی امام ہو گا اُس کا باپ بھی امام رہا ہوگا اور پھر اس کے باپ کا باپ اور یہ سلسلہ حضرت آدم تک جاتا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ازل تک کیونکہ وہ عالم کو قدیم مانتے ہیں۔ اس طرح امام کا بیٹا امام ہوگا اور خُدا کو امام سے پہچانا جاتا ہے اور بغیر امام کے خداشناسی حاصل نہیں ہوتی۔ پیغمبروں نے ہر زمانہ میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ شریعت کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن۔ اصل باطن یہی ہے۔ اسماعیلی امام اسماعیل کو اولوالعز م بھی کہتے ہیں۔ اسماعیلی عقیدہ کے مطابق سات اشخاص اولو العزم کا مرتبہ رکھتے ہیں ۔ اولو العزم کا مطلب ہمت و صبر والے ۔ اس میں حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسی ، حضرت عیسی ، حضرت محمد ، حضرت علی اور محمد بن اسماعیل ہیں ۔اسماعیلیہ کو سبیعہ بھی کہتے ہیں اور یہ نام اس فرقے کے عقیدے کی وجہ سے پڑا۔ کیونکہ ان کے نزدیک شریعت پہنچانے والے صرف سات اشخاص ہیں۔
اسماعیلی فرقے کے بانی
عام طور پر اسماعیلی مصر کے فاطمی خلفاء کو اپنا سیاسی اور مذہبی سربراہ مانتے تھے۔ اسماعیلی فرقوں کا اختلاف ان کے خلفاء کی جانشینی پر ہوا۔ اسماعیلی فرقے کے خلیفہ مولانا الامام المستنصر با اللہ علیہ السلام کے دو بیٹے تھے ایک کا نام نزار تھا اور دوسرے کا نام مستعلی تھا۔ خلیفہ کی وفات کے بعد ان دونوں میں جانشینی پر جھگڑا ہوا۔ فدائیان قلعہ الموت ایران سب نزار کے طرفدار تھے اور اہل یمن سب مستعلی کے طرفدار تھے۔ اس طرح خلیفہ مستنصر کے دونوں بیٹوں کے ماننے والوں کے دو فرقوں کا آغاز ہوا ۔مستعلویہ اور نزاریہ
مستعلویہ
مستعلی سے جو فرقہ چلا وہ مستعلویہ کہلایا۔ بوہرے خلیفہ مستنصر کے چھوٹے بیٹے مستعلی کی جانشینی کے قائل ہیں۔انہیں اپنا امام مانتے ہیں اور اپنا سلسلہ ان سے چلاتے ہیں اور اسماعیلی آغا خانی فرقے کی نفی کرتے ہیں اور آغا خان کی امامت کے منکر ہیں۔ مصر اور یمن کے اسماعیلی مستعلی کی امامت کے قائل ہیں اور قدیم مذہبی روایات کے پابند ہیں۔ بوھروں کے ہاں یمن بہت مبارک مقام سمجھا جاتا ہے۔
نزاریہ
نزار سے جو فرقہ چلا اُس کی ترجمانی آغا خانی خوجے کرتے ہیں ۔
اسماعیلیہ جماعت میں دو شخصوں نے بطور صاحب جریدہ کے نام پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ایک کا نام سیدنا حکیم ناصر خسرو اور دوسرے حسن بن صباح ۔نزاری عام طور پر خوجے کہلاتے ہیں۔ نزاریہ کے سب سے بڑے داعی حسن بن صباح ہے جس کا پورا نام حسن بن علی بن محمد بن جعفر بن حسین بن الصباح الحمیری تھا۔ ایرانی شخص ،حسن بن صباح جو شہر طوس میں رہتا تھا اپنا سلسلۂ نسب قدیم عربی نژاد نامور صباح حمیر سے ملاتاہے ۔اسماعیلیوں کے سب سے بڑے داعی حسن بن صباح نے حکیم ناصر خسرو کے زیر اثر خلیفہ مستنصر کی بیعت لی اور وہ نزار کی امامت کی تبلیغ کرتا تھے کہ خلیفہ مستنصر کے بعد نزار امامت کا حقیقی مالک ہے۔ ایران میں حسن بن صباح نے دعوت نزار یہ پھیلانی شروع کی جس کا اثر تقریبا ڈیڑھ سو سال باقی رہا۔ اس فرقے کے لوگ اب بھی موجود ہیں [4]۔
حسن بن صباح نے مشہور قلعہ الموت ( ایران کے نزدیک ایک نہایت دشوار گزار اور تقریبا نا قابل تسخیر پہاڑی قلعہ ہے جس کو الموت یعنی آشیانہ عقاب کہا جاتا ہے ) پر قبضہ کیا اور اپنے ماننے والوں کو ایسی تعلیم دی کہ وہ سب ان کے ادنٰی اشارے پر اپنی جان فدا کرتے تھے اس وجہ سے ان کو فدائی بھی کہتے ہیں۔ حسن بن صباح نے اسماعیلی مذہب کو نئے سرے سے ترتیب دیا۔ تبلیغ کے نئے اصول وضع کئے اور اس نے ظاہری عبادت کی جگہ باطنی عبادت کو فرض کیا۔ آغا خان کا خاندانی پس منظر نہ تو نزار سے چلا ہے نہ مستعلی سے لیکن پھر بھی آغا خانی نزاری کہلاتے ہیں ۔
قاضی نعمان
اہل سنت والجماعت کے نامور امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت ہیں۔ فاطمی مذہب میں ایک دوسرے قاضی نعمان ہیں۔ ابو عبد اللہ نعمان بن محمد بن منصور بن احمد بن حيون التمیمی الاسماعیل المغربی ہیں۔ جن کی کنیت ” ابوحنیفہ“ ہے۔ فقہ حنفی کے امام ابو حنفیہ کی کنیت سے التباس کے ازالہ کے لئے مورخین اور محققین آپ کو آپ کے پڑ دادا حیون کی نسبت ابن حیون کہکرممتاز کرتے ہیں۔ مورخین اور محققین کا آپس میں اختلاف ہے۔ بعض ان کو مالکی مسلک بتاتے ہیں۔ بعض حلقے ان کو پیدائشی اسماعیلی خیال کرتے ہیں۔ قاضی نعمان نے چار فاطمی خلفاء کے دور کو نہایت قریب سے دیکھا ہے۔ پہلے خلیفہ مہدی کی حکمرانی کے ایام میں آپ نے ماتحت رہ کرنو برس تک خدمت کی ۔اس کے بعد خلیفہ قائم بامر اللہ، تیسرے خلیفہ منصور الفاطمی، چوتھے معز لدین اللہ کے دور میں عروج و کمال کی بلندیوں کو چھونے لگے۔
فاطمی اسماعیلی فقہ
فاطمی اسماعیلی فقہ کے موئس اول فاطمی کتب کے مصنف اول: جامعہ میں پہلے پڑھائی جانے والی کتاب الاقتصار تھی ۔ تاریخ مصر اور تاریخ قضاة مصر کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ قاضی نعمان کے بیٹے ابوالحسن علی بن نعمان جامعہ کے پہلے شیخ اور متولی تھے۔ قاضی نعمان کی مغرب میں امام عبداللہ المہدی سے ملاقات ثابت ہے ۔ انہی امام مہدی نے اپنی حکومت ۲۹۶ھ میں تشکیل دی تھی۔ قاضی نعمان کی وفات ۳۶۲ھ میں ہوئی۔ قاضی نعمان جو عہد فاطمی کے بڑے مستند عالم گزرے ہیں جنہوں نے فقہ ، حدیث ، تاریخ، تاویل، عقائد ، مناظرہ، وغیرہ میں کتابیں لکھیں۔ ان تصنیفوں کی تعداد چوالیس بتائی جاتی ہے جن میں سے تقریبا بائیس کتابیں اسماعیلیوں کے خزانوں ( کتب خانوں ) میں موجود ہیں ۔ اسماعیلی حضرات کتب خانہ میں جو مذہبی کتابیں جمع کرتے ہیں اُن کو خزانہ کہتے ہیں۔ یعنی اسماعیلی دعوت کی کتابوں کا خزانہ۔ قاضی نعمان کی کتابوں میں اہم فقہی کارنامہ "دعائم الاسلام" ہے جو اب تک اسماعیلی عقائد اور فقہ کی ایک مستند کتاب ہے جسے سند کا درج حاصل ہے۔ اس کتاب میں قرآن کو بحیثیت متن اور احادیث و سنت کو بحیثیت شرح پیش کیا گیا ہے جس میں عبادات معاملات کا مکمل نقشہ مرتب ہو جاتا ہے۔ ان ابواب میں ولایتہ ، طہارۃ ، صلوۃ ، زکوۃ ، صوم، حج ، جہاد، بیوع ، مواریث ، نکاح، طلاق وغیرہ کا ذکر ہے۔ اس فقہ کی دوسری تصنیف "الایضاح" ہے جس میں دو سو بیس کتابیں شامل ہیں۔ ان کتابوں کے مصنف قاضی نعمان ابو حنیفہ النعمان بن محمد التمیمی ہیں جو فاطمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کتاب کے متعدد قلمی نسخے موجود ہیں مگر پوری کتاب تا حال شائع نہیں ہوئی۔ اس کتاب میں سے الحاد اور المقدمات کو جناب آصف بن علی اصغر فیضی نے ۱۹۵۱ء میں مصر میں چھپوا کر شائع کیا [5]۔
دعائم الاسلام
دعائم الاسلام : اس کے دوجز ہیں ۔اس میں فقہ کے احکام اور امامت پر بحث اور شرعی احکام لکھے ہیں۔ان کی تاویل ایک علیحدہ کتاب میں بیان کی ہے جس کا نام" تاویل دعائم الاسلام" ہے۔
تاویل دعائم الاسلام
تاویل دعائم الاسلام: فقہ کے احکام کی تاویلیں اور اسما عیلی دعوت کا نظم و نسق ۔ اس کتاب میں احکامات اور فرائض کی باطنی تاویلات کا بیان ہے۔ یہ کتاب اسماعیلی تاویلات کی اہم ترین بنیاد ہے ۔ ان کے علاوہ ان کی اہم کتابیں حسب ذیل ہیں:
اساس: ( اساس سے مراد حضرت علی ہیں ) اساس التاویل یعنی تاویل کے اصول
اختلاف اصول المذاہب ۔ اسماعیلی مذہب کے اصول کا دوسرے اصول سے تقابل ۔
افتتاح الدعوة وابتداء الدولته : قاضی نعمان بن محمد نے اس کتاب میں ظہور مہدی اور ابتدائی فتوحات کے متعلق بحث کی ہے۔
شرح الا اخبار فی فضائل الائمہ الاظہار: اس کتاب کے آخری حصہ میں ظہور کے متعلق حدیثیں ہیں ۔ تاویل کے بعد مذہبی فلسفے میں اسماعیلی اپنی اصطلاح کو حقیقت کہتے ہیں۔ اس میں عالم کی ابتدا اور انتہاء رسالت و و صایت ، امامت ، قیامت ، بعث اور حشر وغیرہ کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ اسماعیلیہ اپنے ائمہ کو خُدا کا اوتار یا مجسم خدا تصور کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ائمہ باہم باپ بیٹے کا رشتہ رکھتے ہیں لیکن باطن میں ایک روح ایک امام کے قالب سے منتقل ہو کر اُس کے جانشین میں آجاتی ہے۔ نیز ان کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ انسان کے بعد اُس کی رُوح دوسرے انسان میں منتقل ہوتی ہے ۔ اسماعیلی آغا خان کو حضرت علیؑ کا اوتار تصور کرتے ہیں۔
حکیم سیدناصر خسرو
حکیم سید ناصرخسرو کا پورا نام ابومعین ناصر بن خسر و بن حارث ہے ۔ان کا وطن بلخ اور لقب " حجت یا " حجت خراسان و بدخشان" تھا۔ دعوت فاطمی سے پہلے وہ خراسان کے وزیر تھے۔ حسن بن صباح انہی کے زیر اثر اسماعیلی ہوئے۔ ان کی تمام تصانیف فارسی میں ہیں۔ سید ناصر کی تصانیف دیوان ، روشنائی نامه، سعادت نامه، وجه دین، زاد المسافر، سفرنامه، دلائل المتحیرین،خوان الاخوان ، مصباح ، مفتاح ، دلائل گشائش و ر ہائش ہیں۔ سلطان محمد شاہ نے فرمایا کہ سیدناحکیم ناصر خسروکا فلسفہ مولانا رومی کے مثنوی کے فلسفے سے بھی کہیں زیادہ گہرا ہے۔ گذشتہ زمانے میں حضرت عیسی ، پیر صدرالدین ، سیدناحکیم ناصر خسرو پیر شمس اور مولانا رومی جیسے انسان راہ حقیقت پر گامزن ہوئے ۔ ( کلام امام مبین حصہ اول ص ۳۵۵) اسماعیلیوں کے داعی حکیم حضرت سیدنا پیر شاہ ناصر خسر و علوی کی شہرہ آفاق کتاب ” وجہ دین" فقہی موضوعات و مسائل کی تاویلات کا ایک عدیم المثال مجموعہ ہے۔ ناصر خسرو کی کتاب وجہ دین جو دو حصوں میں تاویل میں لکھی گئی ہیں،اسماعیلیوں کے ہاں تاویل اور حکمت کی کتا بیں بام افلاک ( یعنی عرش اعلیٰ ) کی سیڑھی کے مانند سمجھی جاتی ہیں [6]۔
تاویل کے معنی
عربی زبان میں تاویل کے معنی اول کی طرف لوٹنے کے ہیں۔ شیعوں کے تمام فرقے تاویل کے قائل ہیں ۔ تاویل کو شریعت کی حکمت ، دین کا راز اور علم روحانی بھی کہتے ہیں۔ ہر نبی اپنا ایک وصی مقرر کرتا ہے۔ نبی کا کام یہ ہےکہ وہ لوگوں کو شریعت کے ظاہری احکام بتائے اور وصی کا کام یہ ہے کہ وہ ان کو ان کی تاویلوں سے آگاہ کرے۔ چنانچہ حکیم ناصر خسرو نے بھی اسی تاویل کی اہمیت کے پیش نظر کتاب" وجہ دین" کی اساس اکیاون(51) گفتاروں پر رکھی ہے۔ ہر حقیقی اسماعیلی دانشمند پر اکیاون کے عدد کی حقیقت کھل جاتی ہے ۔وہ یہ ہے کہ اب سے تقریبا ۹۰۰ سو سال پہلے ناصر خسرو علم تاویل کی روشنی میں اکیاون رکعات کی تاویلی پیش گوئی جان چکے تھے۔
اسماعیلی دعوت کا نظام
اسماعیلی شیعہ نبی مرسل کو "ناطق" اس لئے کہتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے کتاب و شریعت لاتے ہیں اور ظاہر بیان کرتے ہیں ۔ اسماعیلیوں کے عقیدے کے مطابق انبیاء ومرسلین میں سات " نطقاء " ہیں اور ہرنبی ناطق کے قائم مقام ہوتا ہے۔ جسے "اساس" اور" وصی" کہا جاتا ہے۔ "صامت" اس لئے کہتے ہیں کہ وہ ظاہر کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔نبی صاحب تنزیل ہوتے ہیں اور وصی صاحب تاویل۔
- نبی ظاہری شریعت کی تعلیم دیتے ہیں ۔
- نبی کے بعد وصی جس کا دوسرا نام صامت ہے۔ان کا عقیدہ ہے کہ ہر دور میں دو پیغمبر ہوتے ہیں۔ جن میں سے ایک ناطق (نبی) ہوتا ہے۔ دوسرا وصی (صامت)
- وصی کے بعد امام ظاہر ی شریعت کی حفاظت اور باطنی علوم کی تعلیم دیتا ہے ۔
- داعی البلاع ،داعی مطلق، داعی الدعاۃ ۔ سب داعیوں کے صدر کو داعی الدعاۃ کہتے ہیں ۔داعی لوگوں کو امام کی طرف بلاتا ہے اور جو شخص داعی کی دعوت کا جواب ہوتا ہے اسے مستجیب کہتے ہیں اور جب مستجیب آمادگی ظاہر کرتا ہےتو داعی اُس سے معاہدہ (میثاق) لیتا ہے جسے اسماعیلی عہد الاولیا" کہتے ہیں۔
- ماذون :مستجیب سے عہد و میثاق لیتا ہے۔
- مکاسر: ان کے باطل مذہبوں کو رد کر کے اپنا مذہب بتاتا ہے۔ مکاسر کے معنی توڑنے والے کے ہیں کیونکہ وہ باطل مذہبوں کو توڑتا ہے۔
عبادات کے احکام کی چند تا ویلیں:
- وضو :گناہوں سے نفس کو پاک کرنا، حضرت علی کا اقرار کرنا کیونکہ وضو اور حضرت علی ہر ایک لفظ میں تین حروف ہیں۔
- کلی کرنا: امام کا اقرار اور اس کی اطاعت کرنا۔
- منہ دھونا: امام اور سات ناطقوں اور سات اماموں کا اقرار کرنا کیونکہ انسان کے چہرے میں سات سوراخ ہیں ۔
- سیدھا ہاتھ دھونا:نبی یا امام کی اطاعت کرنا ۔
- بایاں ہاتھ دھونا: وصی یا حجت کی اطاعت کرنا۔
- سر کا سح کرنا: رسول خدا کا اقرار کرنا اُن کی شریعت پر چلنا۔
- سیدھے پاؤں کا مسح کرنا: امام یا داعی کا اقرار کرنا۔
- بائیں پاؤں کا مسح کرنا: حجت یا ماذون کا اقرار کرنا۔
- دھونا یعنی طاعت کرنا۔
- مسح کرنا یعنی اقرار کرنا [7]۔
نماز
نماز کی مجموعاً تین قسمیں ہیں جو فریضہ، سنت اور تطوع کہلاتی ہیں۔ تطوع کو نافلہ بھی کہتے ہیں۔ نماز فریضه متم (امام) پر دلیل ہے۔ متم سے مراد امام زمان ہے ۔یعنی چھ ائمہ کے بعد جو ساتویں امام ہوئے وہ متم کہلاتے ہیں۔ (نوٹ : تقریبا آدھی رات گذری ہو عربی زبان میں اس وقت کو منتصف اللیل کہتے ہیں یعنی متم (امام) کی آخری حدود ہوتی ہے۔ جس میں اہل باطن اہل ظاہر سے اپنا حق دلا سکتا ہے یعنی ان کے لئے انصاف کر سکتا ہے۔) نماز سنت حجت پر دلیل ہے جس کو متم ( امام زمان ) نے مقررفرمایا ہے۔ تطوع داعی پر دلیل ہے۔ تطوع جس کا مطلب بیٹے کا بیٹا ہوتا ہے جو ماذون پر دلیل ہے اور وہ داعی کا قائم مقام ہوتا ہے۔ نماز فریضہ امام کی دلیل ، سنت حجت کی دلیل ، نافلہ داعی کی دلیل ہے۔ نماز جمعہ ناطق کی دلیل ، نماز عید الفطر اساس کی دلیل ، نماز عید الضحٰی ، قائم علیہ افضل التحیہ والسلام کی دلیل ہے، نمازجنازہ مستجیب کی دلیل ، طلب بارش کی نماز خلیفہ قائم کی دلیل ، نماز کسوف جو سورج گہن یا چاند گہن کے موقع پر پڑھی جاتی ہے امام مستور کی دلیل ہے۔ ان نو نمازوں کے بعد نماز خوف ،نماز مسافر، نماز حاضر وغیرہ بھی ہیں۔ نماز کی حدبندیاں سات ائمہ اور سات نطقاء کی تعداد کے برابر ہے۔ ان میں سے چار تو فریضے ہیں جن کے بغیر نماز روا نہیں ۔تین سنتیں ہیں جن کے بغیر نما ز روا نہیں۔ عقل کل / قبله، نفس كل/ وقت، ناطق / نیت، اساس/ طهارت، امام/ اذان، حجت / اقامت، داعی / جماعت ۔ نمازی ان سات فرائض کو بجا لاتا ہے تو اُس کی نماز مکمل ہو جاتی ہے۔
سات ناطق : آدم ، نوح، ابراہیم ،موسیٰ، عیسی، محمد ؐ اور قائم۔ سات اساس : مولانا شیت، مولانا سام، مولانا اسماعیل، مولانا ہارون، مولانا شمعون ، مولانا علی اور خلیفہ قائم ۔ سات امام: ہر چھوٹے دور کے سات ائمہ۔ ساتویں عدد پر اسماعیلیوں کا بڑا دار و مدار ہے کیونکہ وہ اعداد میں پہلا عدد کامل ہے۔ سات رنگ، سات آوازیں ، سات دھاتیں، سات آسمان، سات زمین، سات سیارے ، سات یوم، سات سمندر۔ الغرض ہر چیز سات تھی۔ اور اس سارے نظام کو قائم رکھنے کے لئے اللہ نے سات امام مذکورہ بالا مقرر فرمائے اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اس کے سات دور مقرر کئے جن کے سات ناطق آئے ۔ اسی وجہ سے اسماعیلی سبعیہ“ کہلاتے ہیں۔ باب ، حجت ، داعی، ماذون اور پانچ حدود علوی یعنی عقل، نفس، جد، فتح اور خیال۔ اذ ان دعوت ظاہر کی دلیل ہے ۔پہلا مرتبہ ماذون کا دوسرا داعی کا تیسرا حجت کا چوتھا امام کا پانچواں اساس کا چھٹا ناطق کا۔ بسم اللہ خُدا کا نام ہے اور خدا کا حقیقی نام تو امام زمان ہے۔ وصی اور رسول دونوں اپنے اپنے وقت میں خداکاحقیقی نام ہے۔ کیونکہ انہی کے ذریعہ کسی کوخدا کی پہچان ہوسکتی ہے۔انسان سویاہو یا بیدار ناک برابر سانس لیتی رہتی ہے۔ اسی طرح (امام علیہ السلام) متواتر و مسلسل اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ ہمیشہ لوگوں پر فیض برساتے رہتے ہیں۔
(1 ) نماز پڑھنا، داعی کی دعوت میں داخل ہونا یا رسول خدا کا اقرار کرنا کیونکہ صلوٰۃ اور محمد ہر ایک لفظ میں چار حروف ہیں۔ (۲) قبلہ کی طرف متوجہ ہونا ، امام کی طرف متوجہ ہونا قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ والسلام اور قبلہ عقل کل پر دلیل ہے۔ (۳) ظہر کی نماز ، رسول خدا کی دعوت میں داخل ہونا۔ (۴) عصر کی نماز ، حضرت علی یا صاحب القیامہ کی دعوت میں داخل ہونا ۔ (۵) مغرب کی نماز ، آدم کی دعوت میں داخل ہونا آدم میں تین حروف ہیں اور مغرب کی تین رکعتیں ہیں ۔ (۶) عشاء کی نماز ، چار نقیبوں کی دعوت میں داخل ہونا۔ (۷) فجر کی نماز ، مہدی کی دعوت میں داخل ہونا۔ (۸) تکبیرہ الاحرام، امام، حجت اور سات ناطقوں کا اقرار کرنا۔ (9) رکوع و سجود، حجت اور امام کی معرفت اور اطاعت ۔ ( ۱۰) نماز خفتن رات کی تاریکی میں پڑھی جاتی ہے ۔نماز صبح کونماز پیشین کہتے ہیں۔
روزہ
(1) ماہ رمضان کے روزے رکھنا ، شریعت کا باطنی علم اہل ظاہر سے چھپانا ۔ (۲) تیس روزے، حضرت علی اور امام مہدی کے درمیان دس حجتیں اور دس ابواب ہیں۔ (۳) لیلتہ القدر خاتم الائمہ کی حجت یا حضرت فاطمہ جن کی طرف یہ رات منسوب ہے۔ (۴) عیدالفطر ، امام مہدی کا ظہور ۔ (۵) عید الاضحٰی ، صاحب القیامہ کا ظہور۔
حج
(1) بیت اللہ کا قصد ، امام کی طرف متوجہ ہونا۔ امام ہی در حقیقت مسجد الحرام ہے اور داعی اس کی محراب ہے۔ محراب کا رُخ مسجد الحرام کی طرف ہوتا ہے۔ اسی طرح داعی کا چہرہ امام کی طرف ہوتا ہے۔ (۲) کعبہ، حضرت رسول خدا۔ (۳) باب کعبہ، حضرت علی ۔ (۴) حجر اسود، امام الزمان کی وہ حجت جوان کے بعد امام ہو۔ (۵) لبیک کہنا ، امام کی دعوت کا جواب دینا۔ (۶) خانۂ کعبہ کا سات بار طواف کرنا ، سات اماموں کے احکام کی پیروی کرنا جن میں ساتواں قائم ہوتا ہے۔
لا الہ الا اللہ
کلمہ اخلاص (1) لا ( کلمه اول ) ، اساس (۲) اله ( کلمه دوم ) ، ناطق (۳) الا ( کلمه سوئم ) ، لوح (۴) اللہ (کلمہ چہارم ) کلمہ سات ناطق یا سات امام۔
نظریہ قیامت
اسماعیلی عقیدے کے مطابق قیامت صرف روحانی ہے۔ بہشت اور دوزخ دونوں معنوی (باطنی ) ہیں۔ ہر ایک شخص کی قیامت اس کی موت ہے۔
بہشت
بہشت حقیقت میں عقل کل ہی ہے یا عقل کل ہی در حقیقت بہشت ہے ۔اور بہشت کا دروازہ اپنے زمانے میں رسول ہیں اور ان کے وصی اپنے مرتبے میں اسی حیثیت سے ہیں اور امام زمان اپنے عصر میں یہی درجہ رکھتے ہیں ۔اور بہشت کے دروازہ کی کلید کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ ہے ۔ پس جو شخص شہادت اخلاص ( بے ریائی ) سے کہتا ہے تو گویا اسے بہشت کا درواز یعنی رسول مل چکا ہے۔ پس رسول بہشت کے دروازو کی حیثیت رکھتے ہیں اور بہشت کا دروازہ کھولنے والے ان کے دصی( علی علیہ اسلام) ہیں ۔ نیز ہر زمانے میں سارے مومنوں کے لئے دروازہ جنت کھولنے والا امام زمان ہیں۔
حکیم سید ناصر خسرو کہتے ہیں حق تعالی نے انسان کو خوف اور امید کے لئے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ خدا نے اس کو بہشت کے ذریعہ اُمید دلائی اور دوزخ کے ذریعہ ڈرایا ہے۔ انسان کے نفس میں جو خوف پایا جاتا ہے وہ دوزخ کا نشان ہے اور انسان میں جو امید پائی جاتی ہے وہ بہشت کا اثر ہے۔ یہ دونوں چیزیں ( یعنی جزوی خوف اور جزوی اُمید ) جو انسانی فطرت میں پوشیدہ ہیں وہ دوزخ اور بہشت ہیں۔ "وجہ دین" میں لکھا ہے کہ ہمیشہ دنیا سے آخرت اور آخرت سے دنیا پیدا ہوتی رہتی ہے اور دین کے نظریات کا مدار و محور یہی ہے۔
امام مہدی
اسماعیلیوں کے ہاں حضرت علی کی نسل سے قیامت تک آئمہ قائم ہوں گے آخری امام قائم القیامہ ہوگا جو دور کشف کا پہلا امام ہوگا۔ اسماعیلیوں کے ہاں ” مہدی“ کا ظہور ہو چکا ہے۔ اور ان کی نسل سے قیامت کے روز جو امام ظاہر ہوں گے وہ قائم القیامۃ ہوں گے۔ اسماعیلیوں کے لحاظ سے مہدی کی ولادت ۲۶۰ھ میں عسکر مکرم میں ہوئی۔ پھر ان کا باپ انہیں سلمیہ لے گیا جو ائمہ مستور ین کا مستقر تھا ( استنار الامام ص ۵۹) امام عبدالله بن الحسین المستورہی ” مہدی“ ہیں جو گیارہویں امام اور فاطمیین کے ظہور کے پہلے خلیفہ ہیں۔ اسماعیلیوں کے مطابق ہر زمانے میں ایک امام کا وجود ضروری ہے۔ زمین کبھی امام سے خالی نہیں رہ سکتی ورنہ وہ متزلزل ہو جائے ۔ اماموں کا سلسلہ روز قیامت تک حضرت فاطمہ ہی کی نسل میں جاری رہے گا۔ باپ کے بعد بیٹا خواہ وہ عمر میں بڑا ہو یا چھوٹا، بالغ ہو یا نا بالغ، امام ہوتا رہے گا۔
سنی عقیدہ یہ ہے کہ ایک شخص قریش یا بنی فاطمہ میں سے ہوگا جس کا نام محمد اور جس کے والد کا نام عبداللہ ہوگا اور جو قیامت سے قبل نمودار ہوگا ۔ قرامطہ محمد بن اسماعیل کو زندہ خیال کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہی امام مہدی کی حیثیت سے دوبارہ نمودار ہوں گے ۔کیسانیہ حضرت محمد ابن حنفیہ کے متعلق اسی قسم کا اعتقاد رکھتے تھے۔ امامیہ اثنا عشری کے مطابق امام حسن عسکری کے فرزند،امام محمد مہدی جو وفات سے قبل دشمنوں کے خوف سے مستور ہو گئے تھے امام مہدی ہیں۔
دولت فاطمیہ کا پہلا امام مہدی محمد بن اسماعیل کی نسل سے ہے ۔اسما عیلی حضرات عبداللہ کو مہدی سمجھتے ہیں ۔ امام مہدی کا مسئلہ اسما عیلیہ عقیدہ کی اصل بنیاد سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کے خاندان میں ایک شخص عبداللہ نامی تھا جس کو اسماعیلی محمد بن اسماعیل اور ان کے مخالفین میمون قداح کا فرزند بتاتے ہیں۔ اسماعیلی اعتقاد کے لحاظ سے امام عبداللہ بن حسین المستور ہی مہدی ہیں جو دور ظہور کے پہلے امام ہیں ۔ مہدی کی ولادت ۲۶۰ ھ میں عسکر مکرم میں ہوئی ( نوٹ : عسکر مکرم جگہ کا نام ہے )۔ حضرت محمد بن اسماعیل کے ایک بیٹے عبداللہ جو اسماعیلی روایت کے مطابق اپنے والد کے جانشین ہوئے ان کے بیٹے احمد بن عبد اللہ اسماعیلی جماعت کے پیشوا ہوئے پھر حسین ابن احمد کے انتقال کے بعد ان کے فرزند عبد اللہ جو بعد میں مہدی کے لقب سے ملقب ہوئے اس وقت بالغ نہ تھے ان کی پروش کا شرف حضرت حسین کے بھائی محمد الحبیب کے حصہ میں آیا۔ جب عبد اللہ بالغ ہو گئے تو باپ کی وصیت کے مطابق امامت ان کو منتقل ہوگئی [8]۔
ائمه مستورین
اسماعیل بن جعفر صادق کے بعد جو ائمہ گزرے وہ ہمیشہ بنوعباس کے خوف سے اپنے آپ کو چھپایا کرتے تھے۔ یہاں تک کے محمد بن اسماعیل نے جیسا کہ ابن خلدون نے بیان کیا، بنو عباس کے خوف سے اپنے آپ کو اتنا پوشیدہ رکھا کہ ان کا نام ” محمد مکتوم“ پڑ گیا۔ میمون القداح امام محمد بن اسماعیل کا فرضی نام تھا جو صرف عباسیوں کے ڈر سے بچنے کے لئے اختیار کیا تھا۔ میمون القداح کوئی علیحدہ شخص نہیں ہے۔ عوام الناس محمد بن اسماعیل کو میمون القداح سمجھتے ہیں۔ محمد بن اسماعیل کے بیٹے عبد اللہ نے آنکھوں کے معالجہ کا پیشہ اختیار کیا اس لئے وہ قداح کے نام سے مشہور ہو گئے ۔ مختلف فرضی ناموں کا اختیار کرنا اسماعیلیوں کے ہاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اکثر اوقات ائمہ مستورین نے ایسا کیا ہے۔ محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق اور عبد اللہ بن میمون القداح ( جنہیں غیب دان کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے ) دونوں کا وجود تاریخ سے ثابت ہے۔ اکثر مورخین نے مہدی کو عبد اللہ بن میمون القداح کی طرف منسوب کیا ہے۔
کتامہ
کتامہ قبیلے کا نام ہے جس کے معنی چھپانے کے ہیں ۔یہ لوگ اپنے مذہب کو بہت چھپاتے تھے ۔کتامہ کتمان سے مشتق نہیں ہے صرف ایک قبیلے کا نام ہے جس کے اکثر افراد حلوانی فرقے کے زیر اثر اسماعیلیت اختیار کر چکے تھے۔ اسماعیلیہ کے تین ائمہ مستورین مشہور ہیں ۔حضرت امام محمد ( المکتوم ) کے انتقال کے بعد (۱) عبد اللہ ( الرضی ) (۲) احمد ( الوفی ) (۳) حسین (التقی ) ۔ یہ تینوں ائمہ مستورین کہلاتے ہیں۔ ان کے مستور ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ان تینوں نے بہت پوشیدہ طور پراپنی زندگی بسر کی۔ حسین تین ائمہ مستور ین کے آخری امام مستور کہلاتے ہیں ۔حسین نے اپنے انتقال کے وقت یہ پیشین گوئی کی تھی کہ میرا لڑکا ( عبد اللہ ) مہدی موعود ہو گا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنادین ظاہر کرے گا۔
اسماعیلیوں کی دوسری جماعت
آغا خانی خوجوں کی نسبت ان کے نظام و عقائد خاص طور پر غیر اسلامی ہیں۔ اس جماعت کا دائرہ بڑا وسیع ہے اور ان میں کئی ایسے طبقے شامل ہیں جن کا اسلام سے بہت دور کا تعلق ہے۔خوجوں کے دوسرے مبلغ شاہ شمس تھے جو ملتان میں مدفون ہیں۔ انہیں عام طور پر شاہ شمس تبریز کہا جاتا ہے۔ خوجہ روایات کے مطابق وہ ایران کے شہر سبزوار سے تشریف لائے۔ ملتان کے بعض خوجے امام آغا خان کو اپنادیو تا تسلیم کرتے ہیں اور اپنے آپ کو شاہ شمس کے نام پر شمسی کہلاتے ہیں۔ اسماعیلی خوجہ جماعت کے سب سے بڑے داعی جنہوں نے عام نزاری عقائد کو ہندوستانی ماحول کے مطابق نئے سرے سے ترتیب دیا پیر صدرالدین ہیں جو خراسان سے پاکستان آئے اور اب ریاست بہاول پور کے ایک گاؤں ترنڈہ گور گنج میں مدفون ہیں اور وہیں پر ان کا مزار تعمیر ہوا۔ قریب ہی پیر صدرالدین کے بیٹے پیر غیاث الدین مدفون ہیں۔ بہاولپور میں پیر صدرالدین کو چوراسی روضہ والا بھی کہتے ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ ان کی اولاد میں چوراسی اولیاء ہوئے ۔ آغا خانیوں کے مطابق آغا خان کے ایک مورث اعلیٰ شاہ اسلام نے پیر صدر الدین کو داعی بنا کر ایران سے بھیجا تھا اور بہت سے لوگ ان کے یا ان کی اولاد کے ہاتھوں اسماعیلی ہوئے ۔ پیر صدالدین نے ایران سے آکر ہندوستان میں اسماعیلیوں کی تین جماعتیں منظم کیں۔1۔پنجاب میں مکھی سیٹھ شام داس لاہوری ۲۔ کشمیر میں مکھی سیٹھ تلسی داس 3۔سندھ میں مکھی تریکم تھے۔ سندھ اور مغربی پنجاب میں لوہا نہ قوم کے بہت سے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔اسماعیلیوں کا پہلا جماعت خانہ سندھ کے گاؤں ہاڑہ میں پیر صدرالدین کے ہاتھوں قائم ہوا۔ پیر صدالدین اپنا سلسلہ امام حسین سے تیئیسویں (۲۳) پشت سے ملاتے ہیں۔ پیر صدرالدین اور ان کے بیٹے سید کبیر الدین حسن نے اسماعیلیوں میں نئی روح پھونک دی اور اشاعت مذہب کے لئے یادگار چھوڑی۔
پیر صد الدین نے ایک کتاب دس او تار کے نام سے لکھی یا رائج کی۔ اس کتاب میں رسول اکرمؐ کو برہما کہا۔ حضرت علی کو وشنو اور حضرت آدم علیہ سلام کو شنو سے تعبیر کیا ہے۔ یہ کتاب خوجہ قوم کی مقدس کتاب سمجھی جاتی ہے اور مذہبی تقریبوں پر اور نزاع کے وقت مریض کے بستر کے قریب پڑھی جاتی ہے ۔ خوجوں کی ایک اور مقدس کتاب گنان ہے۔ اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کو پیر صدرالدین کے بیٹے نے مرتب کیاہے۔ اگرچہ بعض خوبے اس کتاب کو ان کے والد پیر صدرالدین سے منسوب کرتے ہیں ۔ پیر صدرالدین کے پانچ بیٹے تھے حسن کبیر الدین ، ظہر الدین، غیاث الدین، رکن الدین ، تاج الدین۔ سندھی خوجے پیر صدرالدین کے بڑے بیٹے حسن کبیر الدین کے بڑے معتقد ہیں اور انہیں ان کے والد کی طرح پیر کا خطاب دے رکھا ہے۔ پیر کبیر الدین حسن کا نام حسن دریا بھی مشہور ہے ۔ سندھی خوجوں میں اثنا عشری اور اسماعیلی رسوم پر اختلاف ہے۔وہاں بعض خوبے تعزیے نکالتے ہیں۔ آغا خان اول نے اس کی مخالفت کی۔ اس بنا پر وہاں ایک حصہ جماعت سے الگ ہو گیا۔ ان کے دو بڑے مرکز شمالی پنجاب اور چترال اور دوسرے کچھ کاٹھیاواڑ اور مغربی ہندوستان میں بھی ہیں ۔ پیر صدرالدین اور ان کا بیٹا پیر حسن کبیر الدین دونوں خوجے فرقے کے بانی تھے۔ پیر صدرالدین وہ واحد آدمی تھے جنہوں نے خوجہ کمیونٹی کو ایک نام دیا۔ خوجگان دراصل آغا خانی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد آغا خان جماعت نے کئی فلاحی ادارے قائم کئے۔ آغا خان میڈیکل کالج ، آغا خان یونیورسٹی اور آغا خان ہسپتال قابلِ ذکر ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں بھی فلاحی ادارے کھولے ہیں۔
اثنا عشری شیعہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔ لیکن اسماعیلی جماعتوں نے امامت کو صرف سات اماموں تک محدود نہیں کیا۔ بلکہ اس سلسلہ کو جاری رکھا ہے ۔ ہر زمانہ میں حاضر امام کا ہونا لازمی ہے۔ پیر صدرالدین کی ایک مذہبی کتاب جس کا نام انہوں نے دسا اوتار ( دس اوتار ) رکھا۔ اس مذہبی کتاب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دسواں اوتار مانا ۔ اسماعیلی خوجوں نے اس کتاب کو ابتداء ہی سے بطور آسمانی کتاب کے مانا اور مرتے وقت وہ کتاب ہمیشہ برکت کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ اسی طرح بہت سے مواقع پر اُس کتاب کو پڑھا جاتا ہے۔ خوجوں نے آغا خان کو اسماعیلی خاندان کا امام اور اپنا روحانی پیشوا تسلیم کیا ہے۔ آغا خان کو اسماعیلی نسل سے ہونے کی وجہ سے امام تسلیم کیا گیا ہے۔ جب مصر میں سلاطین اسماعیلیہ کی حکومت کو زوال آیا تو آغا خان کے آباؤ اجداد ایران کے مشرقی حصہ میں آباد ہو گئے ۔ بہر صورت ایران میں سکونت اختیار کرنے کے بعد عرصہ دراز تک آغا خان کے اسلاف کے تاریخی حالات کا پتہ نہیں چلتا ۔ حسن علی شاہ جب ہندوستان میں آئے تو سرحدی جرگے اُن کی سربراہی کو تسلیم کرتے تھے۔
واحد شخص
واحد شخص سے مراد امام حق ہے۔ اس واحد شخص سے دنیا ہرگز خالی نہیں ۔کیونکہ اس واحد شخص (امام حق) کے بغیر مخلوق قائم نہیں رہ سکتی اور صرف واحد شخص ( امام حق ) مخلوق کی نگہداشت اور حفاظت کر سکتا ہے ۔اگر واحد شخص اس جہان سے چلا جائے تو لازماً تمام مخلوق کی بہتری بھی ختم ہو جائے گی۔ امام حق درخت کے میووں کی دلیل ہے کہ میوے اپنے درخت کی زینت بھی بن سکتے ہیں اور اس کی آئندہ نوع کو بھی باتی و جاری رکھ سکتے ہیں۔ امام آل رسول ( یعنی علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرا کی اولاد) سے ہونا چاہئے اور وہ امام دینی امور کے لئے زندہ اور حاضر ہونا چاہئے۔ اگر چہ ہر امام اپنے زمانے میں روئے زمین پر خدا کا خلیفہ ہے ۔جو شخص مرے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے تو وہ جاہلانہ موت مرتا ہے اور ایسا شخص دوزخ میں جا گرتا ہے۔ پس جو شخص امام کو پہچانے تو اس پر امام کی اطاعت واجب ہوتی ہے۔ پس مومن پر فرض ہے کہ اپنے امام زمان کو پہچانے تا کہ امام کی اطاعت کرسکے۔ اے ایمان والو! خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان فرمان کی اطاعت کرو جو خدا کی طرف سے تمہارے درمیان ہیں۔ "امرت لصلاح دنیا کم ونجاۃ آخر تکم" یعنی میں تمہاری دنیاوی بہتری اور اخروی نجات کے لئے مامور ہوا ہوں۔
آغا خان اول تا چهارم
آغا خان اسماعیلی فرقے کے امام کا اعزازی لقب ہے جو سب سے پہلے آقائے حسن علی شاہ کو ملا۔ سلسلہ امامت میں اب تک چار آغا خان ہو چکے ہیں [9]۔
آغا خان اول
آغا خان اول : 1800ء تا 1881ء پورا نام حسن علی شاہ ہے۔ فتح علی شاہ قا چار کے منظور نظر داماد تھ۔ے ان کے والد شاہ جلیل صوبہ کرمان کے گورنر تھ۔ے ان کی وفات کے بعد شہنشاہ ایران فتح علی شاہ نے آغا حسن علی شاہ کو کرمان کا گورنر مقرر کیا اور ان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی ۔ اس وقت سے دربار ایران میں ان کے خاندان کا نام آغا خان پڑ گیا جو آگے چل کر خاندانی لقب بن گیا۔ آغا خان کا لقب نہ تو امام یا پیر کی مانند کوئی مذہبی لقب ہے اور نہ ہی اسم معرفہ بلکہ محض ایک عرف ہے جو ان کے خاندان کے لئے مخصوص ہوا۔ ۱۸۳۸ء میں کرمان میں بغاوت ہوگئی اور آغا حسن علی شاہ سندھ چلے آئے۔
آغا خان دوم
آغا خان اول کے بعد اُن کے بیٹے آغا علی شاہ ان کے جانشین ہوئے۔ وہ اپنی خُدا ترسی اور علمیت کی وجہ سے اپنے وقت کی ایک مشہور شخصیت تھے۔ آغا علی شاہ ۱۸۸۵ء میں فوت ہوئے۔ انہوں نے صرف چار برس اسماعیلی(آغا خانی) فرقے کی امامت کی۔
آغا خان سوم
سلطان محمد شاہ ۲۰ نومبر ۱۸۷۷ء کو کراچی میں پیدا ہوئے جو تاریخ میں سر آغا خان کے لقب سے مشہور ہوئے۔وہ اسماعیلیہ فرقے کے اڑتالیسویں امام ہوئے۔ ۱۹۴۹ء میں حکومت ایران نے انہیں ایرانی قومیت عطا کی اور " والا حضرت ہمایوں“ کا اعزار بخشا۔۱۹۵۱ء میں حکومت شام نے انہیں " شان بنوامیہ " عطا کیا۔ ۱۹۵۳ء میں انڈو نیشیا نے" گل سرخ و گل سفید" سے نوازا۔ سر آغا خان فرقہ اسما عیلیہ کے پہلے امام تھے جو اپنے مریدوں میں ہیرے، جواہرات ، سونے، اور پلاٹینم میں تو لے گئے ۔ ۱۹۳۵ ء اور ۱۹۴۵ ء میں ان کی قیمت ایک کروڑ ۶۵ لاکھ روپے کے قریب تھی ۔ پہلی شادی ۲۸ برس میں چچازاد بہن سے ہوئی۔ دوسری شادی تھرسیا میلیانو اور تیسری آندرے جوزفین لیونی کاغوں سے ہوئی۔ ان کا اسلامی نام ام حبیبہ تھا اور عام طور پر "ماتا سلامت" کے لقب سے مشہور تھیں۔ سر آغا خان 11 جولائی ۱۹۵۷ ، کو سوئٹزر لینڈ میں درسوا کے مقام پر فوت ہوئے۔ اسوان ( مصر ) میں دفن ہوئے۔
آغا خان چهارم
شہزاده کریم آغا خان ۱۳ دسمبر ۱۹۳۶ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ء کو دنیا بھر کے اسماعیلی فرقے کے انچاسویں حاضر امام چنے گئے۔ امامت پر فائز ہونے کی پہلی رسم ۱۳ جولائی ۱۹۵۷ء کو جینوا میں ادا ہوئی۔۲۶ اکتوبر کو نیروبی میں ، ۲۳ جنوری کو کراچی میں اور۲۱ مارچ کو بمبئی میں ان کی گدی نشینی کی رسوم ادا کی گئی۔
نزاری خوجے اور شمسی ہندو ان کو اپنا معبود تصور کرتے ہیں اور مختلف ناموں حاضر امام، خداوند ، شاه پیر، گور پیر وغیرہ سے اپنی دُعاؤں میں مخاطب کرتے ہیں۔ پرنس کریم آغا خان چہارم دنیا بھر کے اسماعیلی فرقے کے انچاسویں (۴۹) حاضر امام ہیں۔ پرنس کریم آغا خان کے تین بچے شہزادہ رحیم، شہزادی زہرہ اور شہزادہ حسن ہیں۔اب موجودہ آغا خان کے پیروکار امامی اسماعیلی اور عرف عام میں آغا خانی کہلاتے ہیں۔ ہندو پاک میں ان کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہیں ۔ گلگت چترال میں اسما عیلیہ فرقے کی کافی آبادی موجود ہے۔ چوغان کے نواح میں اور افغانستان ، ترکستان، کوہ پامیر کی وادیوں میں اب بھی موجود ہیں ۔ اسماعیلیہ بوہروں اور خوجوں سے زیادہ منظم اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں [10]۔
اسماعیلی خوجے
یہ فرقہ امامی اسماعیلی بھی کہلاتا ہے اور بمبئی و مدراس وغیرہ میں پھیلا ہوا ہے۔ خاص کر کاٹھیاواڑ کے جزیرہ نما میں زیادہ رہتے ہیں ۔انہوں نے اپنی تجارتی نو آبادیاں افریقہ کے مشرقی کنارے پر قائم کی ہیں ۔ بمبئی میں بہت کم تعداد میں سنی خوجوں کی جماعت ہے۔ باقی تمام اسماعیلی خوجے آغا خانی ہیں اور سر ہائی نس آغا خان کو اپنا حاضر امام اور اپنا روحانی پیشوائے مذہب تسلیم کرتے ہیں۔
مگر فروری ۱۹۰۰ ء سے آغا خانی جماعت کے دو حصے ہو گئے ۔
1۔ ایک وہ جو آغا خانی یعنی امامی اسماعیلی ہیں۔
2۔دوسرے خوجے وہ ہیں جو اثنا عشری مذہب پر ایمان رکھتے ہیں ۔اثنا عشری خوجوں نے اپنی ایک بڑی مسجد ،امام باڑہ اور مدرسہ و غیرہ تعمیر کیے ہیں۔ ان میں بھی کافی پڑھے لکھے لوگ ہیں۔
ہندوستان میں اسماعیلی فرقہ کے پیر صدرالدین تقریبا چار سو برس پہلے ہندوستان آئے اور انہوں نے اسماعیلی فرقے کی بنیاد رکھی۔ ہندوستان میں سب سے پہلے خوجوں کو اسماعیلی بنانے کے لئے پیر صدر الدین ہی آئے تھے ۔ یہ مضمون سلطان محمد شاہ آغا خان کے بیان سے ماخودہے۔ (انسائیکلو پیڈیا آف انڈیا کی دوسری جلد کے صفہ نمبر ۱۳۵ میں لکھا ہے )
خوجوں نے آغا خان کو اسماعیلی خاندان کا امام اور اپنا روحانی پیشوا تسلیم کیا۔ آنا خان خاندان نزاریہ میں سے ہیں نہ کہ مستعلویہ میں سے۔ یہی وجہ ہے کہ بوہرے جو مستعلو یہ عقیدہ پر ہیں آغا خان کی امامت کے منکر ہیں۔
اسماعیلی ( آغا خانی)
اس فرقے کے چند فروعی و شرعی مسائل جو زباں زدعام ہیں وہ اس طرح ہیں ( واللہ عالم بالصواب ) کہ اسما عیلیہ فرقہ کا کلمہ طیبہ کچھ یوں ہے - اشهد ان لا اله إلا الله و اشهد ان محمد رسول الله واشهدان على ولى اللہ۔ نماز کی جگہ وہ تین وقت کی دُعا جماعت خانہ میں پڑھتے ہیں۔ اسماعیلی اپنی عبادت کو دُعا کا نام دیتے ہیں۔ ان کی عبادت میں اٹھارہ رکعتیں شامل ہوتی ہیں۔ اسماعیلی بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح جمعہ کو عبادت کے لئے جماعت خانہ میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ بیشتر جماعت خانوں میں ایک مکھی ہوتا ہے جو عہدے میں بڑا ہوتا ہے اور چھوٹا کماد یہ جسے اس کا نائب جانا جاتا ہے جماعتی فرائض انجام دیتے ہیں۔ جماعت خانوں میں مرد اور عورتیں علیحدہ علیحدہ قطاروں میں بیٹھتے ہیں۔ مردوں کی سر براہی کا فریضہ مکھی اور کماد یہ صاحبان انجام دیتے ہیں۔ دعا میں قیام و سجدے کرتے ہیں اور اپنا رخ قبلہ (امام) کی طرف کرتے ہیں۔ ان کے جماعت خانہ میں محراب اور ممبر نہیں ہوتے۔ ان کی ہاں اذان نہیں ہوتی۔ حج حاضر امام کا دیدار ہے۔ سلام علیکم کی جگہ یا علی مدد، مولاعلی مدد کہتے ہیں۔ اسماعیلی آمدنی کا ساڑھے بارہ فیصد حصہ زکوۃ کے طور پر دیتے ہیں ۔ان کا بولتا قرآن حاضر امام کی صورت میں موجود ہے۔ روزہ نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ روز ہ در اصل کان، آنکھ اور زبان کا ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں ان کا امام اس زمین پر خدا کا مظہر ہے۔
اسماعیلی عقائد
اسماعیلی خوجوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آغا خان فرقہ اسماعیلیہ کے حاضر امام ہیں اور ان کو حضرت علی سے روشنی ملتی ہے ۔یہ لوگ سارے اماموں کا سلسلہ حضرت علی تک پہنچاتے ہیں۔
1۔امامی اسماعیلی ایران میں اللہ عطائی کہلاتے ہیں۔
2۔ایشیائے متوسط اور چینی ترکستان میں مولائی کہلاتے ہیں۔
3۔شام اور مصر اور شمالی افریقہ میں اسماعیلیہ کہلاتے ہیں۔ شام میں اُن کو دروس بھی کہتے ہیں اور افغانستان میں مولائی بھی کہلاتے ہیں۔
4۔۔ ہندوستان میں بول چال میں بدخشانی کہلاتے ہیں۔
دسواں
آغا خانی لوگ اپنی نذریں آغا خان کو دیتے ہیں۔ یہ اپنی آمدنی میں سے بارہ فیصد حصہ آغا خان کو دیتے ہیں اور اس نذر کو دو سونگ ( پیداوار کا دسواں حصہ یا عشر) کے نام سےجاناجاتا ہے۔ دو سونگ کو ان کے مذہب میں کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ اُن کی مقدس کتاب گنان میں اس کی ہدایت موجود ہے ۔ خوجوں کا فرض ہے کہ اپنے امام کو نذریں دیں۔ گنان میں اور بہت سے بیانات ہیں۔ آغا خانی اپنی نذریں اپنے حاضر امام کو اس لئے دیتے ہیں کہ اس جہان میں سرسبز ہوں ۔آغا خانی لوگ آغا خان کو خدا کا قائم مقام تصور کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن میں حضرت علی کا نور ہے ۔جو امام زندہ اور موجود ہے اس کو حاضر امام کہتے ہیں۔ گنان میں یہ لکھا ہوا ہے کہ حاضر امام کی پیشکش میں کسی کو حصہ دار نہ بنایا جائے۔ ان کے ہاں دُعا میں تمام اماموں کے نام پڑھے جاتے ہیں اور تمام پیروں کے نام لئے جاتے ہیں۔ خوجے موجودہ آغا خان کے جد امجد آغا حسن علی شاہ مرحوم کو امام مانتے ہیں اور وہ دُنیا کے کئی حصوں میں پیر بھی کہلاتے ہیں ۔ ولادت اور شادی کے مواقع پر بھی نذر دی جاتی ہے۔ نذرو نیاز کا ایک اور بھی طریقہ ہے جو سر بندی کہلاتا ہے۔ یعنی کوئی آدمی اپنی جائیداد حاضر امام کو بیہ کر دے ۔خو جے ان رسومات بندگی کو بہت سختی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔
اول سفرہ
اس رسم میں چند چیزوں کا نیلام ہوتا ہے جس کے لئے جماعت خانے کے ممبر بولی دیتے ہیں اور پھر بڑی بڑی قیمتوں میں وہ چیز یں خریدی جاتی ہیں۔ پھر اس رقم سے آغا خان ( حاضر امام ) کے لئے چیزیں خریدی جاتی ہیں۔
کھادا خورا
کھادا خورا کی رسم بھی ہے جس کا مقصد کھانے پینے کی اشیاء میں سے آغا خان (حاضر امام) کو چندے کے طور پر ادائیگی کرنا ہے۔ دعوت جس قسم کی بھی ہو ایک حصہ آغا خان ( حاضر امام ) کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔ اُس خوراک کو جماعت خانہ میں لا کر نیلام کر دیا جاتا ہے اور اس سے جو آمدنی وصول ہوتی ہے وہ آغا خان (حاضرامام)کو دی جاتی ہے۔ اسماعیلی جھولی کے نام سے حاضر امام کو نذرانے پیش کرتے ہیں۔
دس اوتار
دس اوتار سے مراد ہے کہ خدا نے دس جسم اختیار کئے تھے اور گواہ نےبھی کہا کہ میں علی اللہ سے یہ سمجھتا ہوں کہ علی میں خُدا کا نور ہے اور حضرت علی دسویں اوتار ہیں ۔
حاضر امام آغا خان کا نام دُعا میں سترہ دفعہ لیا جاتا ہے اور ہر دفعہ جب اُن کا نام لیتے ہیں تو سجدہ کیا جاتا ہے۔
(1) یہ بارہ اماموں کی زیارت نہیں پڑھتے ۔
(۲) حضرت علی کے لئے دس اوتار کے قائل ہیں ۔
(۳) کوئی خوجہ حج کرنے اور کاظمین اور سامرہ کی زیارت کے لئے نہیں جاتا۔
(۴) قرآن کو بحیثیت مسلمان ہونے کے مذہبی کتاب جانتے ہیں۔
(۵) اپنے آپ کو دوسرے فرقے کے مسلمان سمجھتے ہیں۔
(1) قرآن پر عمل اور تلاوت بھی کرتے ہیں۔
(۷) نماز سال میں دو دفعہ پڑھتے ہیں۔
آب شفا
حاضر امام اپنا دست مبارک پانی میں رکھ کر دعا کرتے ہیں جس سے وہ پانی پاک ہو جاتا ہے جو عقیدت مندوں کو دیا جاتا ہے اور آغا خانی لوگ کسی دوسرے شخص کو سوائے آغا خان کے متبرک نہیں سمجھتے۔
جماعت خانہ
آغا خانی فرقے کے لوگوں کی عبادت گاہ یا مسجد کو جماعت خانہ کہتے ہیں۔ مسجد بیت الاسلام" اس کی مثال ہے۔ جماعت خانہ عام طرز کی عمارت ہوتی ہے اور ہر بڑے شہر میں ایک بڑا جماعت خانہ ہوتا ہے جس کے ماتحت شہر کے تمام چھوٹے جماعت خانے ہوتے ہیں۔ چھونے جماعت خانہ کو در خانہ کہا جاتا ہے [11]۔
پیر
اسماعیلی خوجوں میں پیر بھی ہوتے ہیں۔ پیر کا کام یہ ہے کہ امام کی عدم موجودگی میں لوگوں کو امامی اسماعیلی بنائے۔ پیر کو حاضر امام مقرر کرتا ہے۔
آغا خانی خوجوں کی مقدس کتا بیں
اسماعیلی خوجوں کی کتب زیادہ تر فارسی زبان میں ہے۔ گنان اور دسا اوتار دو مقدس کتا ہیں ہیں۔ "دسا او تا ر"،"گنان"،" مومن چتاونی" و غیرہ پیر صدرالدین اور حسن کبیر الدین اور دیگر اسماعیلی بزرگوں کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔یہ کتابیں عموماً گجراتی زبان میں ہیں۔ اس لئے بمبئی کے علاؤہ دوسرے لوگ ان مضامین سے بہت کم واقف ہیں۔ کیونکہ یہ اپنی کتب اور مذہبی عقاید کو خفیہ رکھتے ہیں۔ آج کل اس جماعت کے روحانی پیشوا اور حاضر امام پرنس کریم آغا خان ہیں۔ "دعائم الاسلام" اسماعیلی فرقے کی بنیادی کتابوں میں شمار کی جاتی ہے ۔اس کا تعلق ظاہری علم یعنی عملی عبادات سے ہے۔ اسماعیلیوں کو زبانی حفظ کرنے کا حکم بھی ہے۔ زبانی یاد کرنے والے کو خطیر انعامات بھی ملتے ہیں۔ دوسری کتاب "تاویل دعائم الاسلام" ہے۔ اس میں احکامات اور فرائض کی باطنی تاویلات کا بیان ہے۔ یہ کتاب اسماعیلی تاویلات کی اہم ترین بنیاد ہے۔
آغا خانی اور بوہرے
ہندوستان میں اسماعیلی، خوجوں ( آغا خانیوں ) اور بوہروں پر مشتمل ہے۔ ان کے عقائد مرزا محمد سعید دہلوی کی کتاب "مذہب اور باطنی تعلیم " کے حوالہ سے درج کرتے ہیں۔ حضرت علی وشنو تھے تو حضرت محمد نے دید و یاس کا قالب اختیار کیا۔ جب حضرت علی اپنی معروف عام حیثیت میں نمودار ہوتے ہیں تو و ہ وشنو کا دسواں اوتار ( کلکی ) تھے۔ موجودہ آغاخان تک تمام نزاری ائمہ حضرت علی کا اوتار تصور کیے جاتے ہیں۔ خوجے اور شمسی ہندو انہیں اپنا معبود تصور کرتے ہیں۔ یہ یہ لوگ آواگون یا تناسخ کے بھی قائل ہیں اور قیامت، جنت اور دوزخ کے بھی۔نزار یہ فرقہ کا عموماً یہ مسلک رہا ہے۔
اسماعیلی تنظیم
اسماعیلیہ فرقہ کے ابتدا میں صرف تین تنظیمی مدارج تھے۔ امام ، داعی اور مستجیب۔ بعد میں سات ہو گئے۔(۱) امام (۲) حجت جو امام اور جماعت کے درمیان واسطہ ہوتا ہے۔نزاری عقیدہ کی روح سے پیر اور حجت ایک ہی منصب کے دو مختلف نام ہیں حجت کو وہ امام کا مظہر اور اس کی روحانی اور الہٰی صفات کا شریک تصور کرتے ہیں۔ جس طرح موجودہ آغا خان کے جد امجد آغا حسن علی شاہ مرحوم کو ایک علاقہ میں امام کہتے تھے اور دوسرے میں وہ پیر بھی کہلاتے تھے۔ (۳) ذو مصہ جو حجت سے اپنا علم حاصل کرتا ہے۔(۳) داعی اکبر یا داعی الدعاۃ جو امور دعوت کا نگران اور سب داعیوں کا سردار خیال کیا جاتا ہے ۔ (۵) داعی ماذون جن کو عوام الناس کی دینی تربیت اور طالبین سے میثاق لے کر جماعت میں داخل کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ دعوت جدید میں دو درجوں کا اضافہ ہو گیا ہے فدائی اور لاسک (لا سک کا مطلب نو آموز اور مبتدی ہے ۔لا سک چھٹے درجے کے لوگ ہوتے ہیں ) فدائی ساتویں درجے کے وو لوگ ہیں جو اپنے حاکموں پر اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ لا سک وہ لوگ ہیں جو فدائی بننے کے امیدوار ہوتے ۔ موجودہ دور میں اسماعیلیہ میں امام ،داعی اورمومن کے علاوہ اور کسی درجے کا ذکر سننے میں نہیں آتا۔
نزاری فرقے کا عموما یہ مسلک رہا ہے کہ جس ملک میں وہ سکونت پذیر ہوتے ہیں اسی ملک کی شریعت اختیار کر لیتے ہیں۔ ترکستان میں وہ حنفی فقہ کے مقلد ہیں اور ایران میں اثنا عشری فقہ کے پابند ہیں ۔ نزاری اماموں کی فہرست ۴۸ ہے اور سلطان محمد شاہ ( آغا خان سوئم ) نزاری فرقہ کے ۴۸ ویں امام ہیں ۔ ان سب کو نزاری فرقہ اپنا حاضر امام تصور کرتا ہے۔ نزاری عقیدہ یہ ہے کہ ان کے خاندان میں امامت ہمیشہ جاری رہے گی [12]۔
حوالہ جات
- ↑ شاہ معین الدین تاریخ اسلام ( جلد ۴۳)،مکتبہ رحمانی اردو بازارلا ہور
- ↑ سید قاسم محمود ، اسلامی انسائیکلو پیڈیا، اردو بازار لاہور
- ↑ نعیم اختر سندھو،ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا،برائٹ بکس اردو بازارلاہور
- ↑ نعیم اختر سندھو،ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا،برائٹ بکس اردو بازارلاہور
- ↑ نعیم اختر سندھو،ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا،برائٹ بکس اردو بازارلاہور
- ↑ نعیم اختر سندھو،ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا،برائٹ بکس اردو بازارلاہور
- ↑ نعیم اختر سندھو،ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا،برائٹ بکس اردو بازارلاہور
- ↑ نعیم اختر سندھو،ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا،برائٹ بکس اردو بازارلاہور
- ↑ نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا، موسی کاظم ریٹی گن روڈ لاہور، 2009ء
- ↑ اسلامی انسائیکلو پیڈیا ص ۴۸
- ↑ ڈاکٹر محمد یوسف میمن ، ناثر المكتبته اليوم نيته الچند باغ میر پور خاص
- ↑ نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا، موسی کاظم ریٹی گن روڈ لاہور، 2009ء