حسین بن علی

ویکی‌وحدت سے
1

ابو عبداللہ حسین بن علی علیہ السلام جن کا لقب سید الشہداء ہے، امام علی اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دوسرے بیٹے اور شیعوں کے تیسرے امام ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے بچپن کے تقریباً سات سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم اور اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مبارک زندگی میں گزارے۔ آپ کی پرورش نانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی الٰہی اور آسمانی تربیت میں ہوئی۔ آپ کی تربیت بہترین طریقوں اور غیر معمولی عزت و محبت کے ساتھ ہوئی ، جس کی بنیاد پر آپ کے اندر خود اعتمادی اور عزت و وقار کا جذبہ پیدا ہوا ۔ آپ اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعدسن 50 ہجری میں منصب امامت پر فائز ہوئے۔ یزید کے برسراقتدار آنے کے بعد وہ لوگوں کی دعوت پر کوفہ گئے لیکن اہل کوفہ نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا اورآپ 61 ہجری میں اپنے اصحاب اوررشتہ داروں کے ساتھ آپ شہید ہو گئے۔

پیدائش

تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شیعوں کے تیسرے امام مدینہ میں پیدا ہوئے لیکن آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں کچھ اختلافات ہیں۔ شیخ طوسی آپ کی ولادت3 شعبان 4 ہجری مانتے ہیں [1] لیکن شیخ مفید [2] اور بعض سنی مورخین [3] آپ کی ولادت 4 ہجری شعبان کی پانچویں رات مانتے ہیں۔

ابن شہر آشوب نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ سید الشہداء کی ولادت جنگ خندق کے دوران جمعرات یا منگل میں سے کسی ایک دن ہوئی [4]۔

نسب

حسین ابن علی ، ابن ابی طالب، ابن عبدالمطلب، ابن ہاشم، ابن عبد مناف، ابن قصی ۔ اور آپ کی والدہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی صاحبزادی تھیں۔ امام حسین علیہ السلام کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور آپ کا خاص لقب ابو علی ہے۔

اگرچہ امام حسین علیہ السلام کا ایک شیر خوار بیٹا تھا جس کا نام عبداللہ تھا جو عاشورہ کے دن شہید ہو گیا تھا، لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس بچے کی وجہ سے آپ کی کنیت(ابا عبداللہ) رکھی گئی ہو۔ [5]

امام حسین علیہ السلام کے القاب

آپ کے بہت سے القاب ہیں۔ جیسے: رشید، طیب، وفی، سید، ذکی، مبارک، مطہر، دلیل علی ذات اللہ، سبط رسول اللہ، شہید، ثار اللہ، اور سید الشہداء۔

البتہ ممکن ہے بعض القاب آپ کی شہادت کے بعدآپ سے منسوب ہوئے ہوں۔

امام حسین کی ازواج

امام حسین علیہ السلام کی پانچ بیویاں تھیں۔ ان کے نام یہ ہیں:شہربانو، لیلیٰ رباب ، ام اسحاق اور قبیلہ قضاعہ سے ایک خاتون جن کا انتقال آپ کی حیات میں ہوا۔

واقعہ کربلا میں وہ واحد خاتون جو یقینی طور پر موجود تھیں علی اصغر کی والدہ حضرت رباب تھیں جو اسیروں کے ساتھ مدینہ واپس آئیں۔ کربلا میں حضرت شہربانو اور حضرت لیلیٰ کی موجودگی قطعی طور پر ثابت نہیں ہے۔

بچے

کتب روایت میں امام حسین علیہ السلام کے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ذکر کی گئی ہیں۔

لڑکے

  • حضرت امام سجاد علیہ السلام
  • حضرت علی اکبر علیہ السلام
  • جعفر، جو امام حسین علیہ السلام کی زندگی میں وفات پا گئے تھے۔
  • محمد
  • عمر
  • حضرت علی اصغر علیہ السلام یا عبداللہ

لڑکیاں

  • فاطمہ
  • سکینہ
  • زینب

پیغمبر اسلام کی زندگی میں

امام حسین نے اپنے بچپن کے تقریباً سات سال نانا رسول خدا اور والدہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی مبارک زندگی میں گزارے۔ آپ کی پرورش اپنے نانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی الٰہی اور آسمانی تربیت میں ہوئی۔ آپ کی تربیت بہترین طریقوں اور غیر معمولی عزت و محبت کے ساتھ ہوئی ، جس کی بنیاد پر آپ کے اندر خود اعتمادی اور عزت و وقار کا جذبہ پیدا ہوا ۔

امام حسین کے بچپن کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی خاص توجہ کا مرکز تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نہ صرف امام حسین سے محبت کرتے تھے بلکہ ان بچوں سے بھی محبت کرتے تھے جو ان کے ساتھ کھیلتے تھے اور امام حسین سے محبت اور پیار کا اظہار کرتے تھے۔

امام حسین علیہ السلام کے بچپن کا سب سے اہم واقعہ مباہلہ میں شرکت اور ان کا اور امام حسن کا "ابنائنا" کے مصداق کے طور پر تعارف ہے۔

امام علی علیہ السلام کے دور امامت میں

امام حسین کی مبارک زندگی کے تیس سال ان کے والد محترم حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے دور میں گزرے۔ وہ باپ جس نے صرف خداکو نظر میں رکھا ، صرف خدا کو تلاش کیا اور صرف خدا کو پایا۔ جس نے پاکیزگی اور بندگی میں وقت گزارا اور جس نے عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کی، وہ باپ جس نے اپنے دور حکومت میں ایک لمحہ بھی آرام نہ کیا۔ اس تمام عرصے میں انہوں نے اپنے والد کے حکم کی دل و جان سے تعمیل کی اور ان چند سالوں میں جب حضرت علی علیہ السلام ظاہری خلافت پر فائز تھے، اسلامی اہداف کو آگے بڑھانے کی راہ میں، ایک بے لوث سپاہی کی طرح ان کی نصرت کی۔

اس دور میں امام حسین ہمیشہ اپنے والد کے ساتھ رہے اور جنگوں میں حصہ لیا۔ جنگ نہروان اور جنگ صفین اور بعد کے دیگر واقعات میں آپ ہمیشہ اپنے والد کے ساتھ رہے اور آپ نے اپنے والد محترم کے تئیں لوگوں کی تمام بے وفائیوں اور نافرمانیوں کو قریب سے دیکھا اور نہایت تلخ کامی کے ساتھ ان مصیبتوں کو برداشت کیا۔ ہر کوئی انہیں عظمت کے ساتھ یاد کرتا تھا۔ ان کی بہادری مشہور تھی۔ سب ان کی عزت کرتے تھے اور ان کی تعظیم و تجلیل کرتے تھے [6]۔

امام حسن علیہ السلام کے دور امامت میں

امیر المومنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسن علیہ السلام مسلمانوں کے رہنما بنے تو امام حسین علیہ السلام نے بھی ان کی بیعت کی۔ امام حسین علیہ السلام خلافت اور امامت کے معاملات میں ہمیشہ ان کے ساتھی اور مددگار رہے۔ اس کے علاوہ امام حسین علیہ السلام اپنے بھائی اور امام کا خاص احترام رکھتے تھے، مختصر یہ کہ انھوں نےہمیشہ امام حسن علیہ السلام کی پیروی اور تعظیم کی۔

امام حسین علیہ السلام ہمیشہ اپنے بھائی کا احترام کرتے اور اپنے آپ کو ان کے فرامین اور احکامات کا پابند سمجھتے تھے۔ جب شام کے دشمنوں سے لڑائی اور مقابلہ ہوا تو انہوں نے فوج کو متحرک کرنے اور نخیلہ کے کیمپ تک بھیجنے میں فعال کردار ادا کیا اور وہ اپنے بھائی کے ساتھ مدین اور سبط کی طرف فوج کو جمع کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔

جب امام حسن علیہ السلام کو عراقی افواج کی پے درپے ناکامیوں اور خیانتوں کے بعد معاویہ کی طرف سے صلح کی تجویز کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اسلام اور اسلامی معاشرے کے مفاد میں معاویہ کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہوئے تو امام حسین بھائی کے دکھوں میں شریک ہوئے۔ . کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ صلح اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے ہے، اس لیے انہوں نے کبھی امام حسن پر اعتراض نہیں کیا۔

صلح کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے بھائی کے ساتھ مدینہ واپس آئے اور وہیں سکونت اختیار کی۔ آپ نے اپنی باعزت زندگی کے دس سال امام حسن علیہ السلام کی امامت میں گزارے، ہمیشہ اپنے بھائی کے ساتھ کھڑے رہے اور ہر حال میں آپ کی اطاعت و فرماں برداری کی، اور آپ کی شہادت کے بعد جب تک معاویہ زندہ رہا، صلح کے تئیں وفادار رہے۔

آپ کا دورامامت

حسین بن علی علیہ السلام کی امامت کا آغاز معاویہ کی حکومت کے دسویں سال میں ہوا۔ معاویہ نے امام حسن سے صلح کے بعد 41 ہجری میں حکومت سنبھالی اور اموی خلافت کی بنیاد رکھی۔ سنی ذرائع نے انہیں ایک ہوشیار اور بردبار شخص قرار دیا ہے۔

معاویہ نے اپنی خلافت قائم کرنے کے لیے مذہب کا ظاہری لبادہ اوڑھا اور کچھ مذہبی اصولوں کی بھی رعایت کی۔ اس نے طاقت اور سیاسی چالوں سے اقتدار حاصل کیا۔ اس نے اپنی حکومت کو خدا کی طرف سے اور خدائی فیصلہ سمجھا۔ معاویہ نے شام کے لوگوں کے سامنے اپنا تعارف انبیاء کے پیروکار، خدا کے نیک بندے اور دین اور اس کے احکام کے محافظ کے طورپر کرایا [7]۔

معاویہ نے خلافت کو بادشاہت میں بدل دیا اور اس نے کھلے عام کہا کہ اس کا لوگوں کی مذہبیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

معاویہ کے دور حکومت میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ عوام کے ایک حصے میں، خاص طور پر عراق میں شیعہ عقائد رائج تھے۔ اس لیے معاویہ اور اس کے کارندیں شیعہ تحریک کے ساتھ یا تو سمجھوتہ کے طریقے سے یا انتہائی سختی سے نمٹے۔

معاویہ کا ایک مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں امام علی علیہ السلام کی شخصیت کو منفور بنا دیا جائے۔ اسی لئے معاویہ اور پھر دوسرے اموی حکام کے دور میں امام علی علیہ السلام پر سب و شتم کا سلسلہ جاری رہا۔

معاویہ نے اپنی طاقت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے بعد شیعوں پر جبر اور دباؤ کی پالیسی شروع کی اور اپنے گورنر کو لکھا کہ دیوان سے علی علیہ السلام کے چاہنے والوں کا نام نکال دیں اور بیت المال سے ان کا وظیفہ منقطع کر دیں۔

معاویہ کے اقدامات کے خلاف موقف اختیار کرنا

اگرچہ امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کے دور میں اس کے خلاف عملی طور پر کچھ نہیں کیا لیکن ایک معاصر مورخ رسول جعفریان کے مطابق امام اور معاویہ کے درمیان تعلقات اور ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام سیاسی نقطہ نظر رکھتے تھے۔ انہوں نے معاویہ کو کبھی قبول نہیں کیا اور اس کے آگے سر تسلیم خم نہیں کیا۔

تاریخ کے مطابق حسین بن علی اور معاویہ کے درمیان متعدد خطوط کا تبادلہ ہوا ے۔ تاریخ میں یہ بھی ہے کہ معاویہ، تینوں خلفاء کی طرح، حسین بن علی کی ظاہری طور پر عزت کرتا تھا اور ان کو بڑا سمجھتا تھا اور اپنے خادموں کو حکم دیتا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے فرزند پر حملہ نہ کریں اور ان کی بے عزتی کرنے سے گریز کریں۔

معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو اپنی وصیت میں امام حسین (ع) کے مقام و مرتبہ پر بھی زور دیا اور انہیں لوگوں میں سب سے زیادہ مقبول شخص بتایا اور حکم دیا کہ اگر حسین کو شکست ہو جائے تو ان سےدر گزر کرو کیونکہ ان کا بہت بڑا حق ہے۔

یزید کی حکومت پر اعتراض

56 ہجری میں، صلح نامہ کی شرطوں کے خلاف (شرط تھی کہ معاویہ اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر نہیں کرے گا)، معاویہ نے لوگوں کو یزید کی جانشینی کے لئے بیعت کرنے کے لیے بلایا، اور امام حسین سمیت بعض شخصیات نے بیعت کرنے سے انکار کردیا۔

معاویہ یزید کی ولیہعدی کے متعلق مدینہ کے بزرگوں کی رائے لینے مدینہ گیا۔

امام حسین نے اس مجلس میں معاویہ کی مذمت کی جہاں معاویہ، ابن عباس اور کچھ درباری اور اموی افراد موجود تھے اور یزید کے مزاج کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مقام اور حق پر زور دیتے ہوئے معاویہ کے دلائل کو رد کیا [8]۔

اس کے علاوہ ایک اور مجلس میں جہاں عام لوگ موجود تھے، امام حسینؑ نے یزید کی فضیلت کے بارے میں معاویہ کی بات کے جواب میں اپنے آپ کو ذاتی اور خاندانی لحاظ سے خلافت کا زیادہ حقدار بتایا اور یزید کو ایک شرابی اور شہوتوں میں غرق شخص کے طور پر متعارف کرایا [9]۔

منیٰ میں امام حسین علیہ السلام کا خطبہ

58ھ میں معاویہ کی وفات سے دو سال قبل امام حسینؑ نے منیٰ میں احتجاجی خطبہ دیا۔ اس وقت شیعوں پر معاویہ کا دباؤ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ اس خطبہ میں حسین بن علی نے امیر المومنین اور اہل بیت کے فضائل بیان کرتے ہوئے نیکی کی تلقین اور برائی سے باز رہنے کی دعوت دی اور اس اسلامی فریضہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے علمائے کرام کی ذمہ داریوں پر تاکید کی کہ انہیں ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، اسی طرح ظالموں کے خلاف علماء کی خاموشی کے نقصانات بھی گنوائے۔ [10].

یزید کی خلافت پر ردعمل

15 رجب 60 ہجری کو معاویہ کی وفات کے بعد یزید اقتدار میں آیا اور اس نے ان بزرگوں سے زبردستی بیعت لینے کا فیصلہ کیا جنہوں نے اس کی خلافت کو قبول نہیں کیا جن میں حسین بن علی بھی شامل تھے۔ لیکن حسینؑ ابن علی ؑنے بیعت سے انکار کردیا۔ آپ اور آپ کے ساتھی 28 رجب کو مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے۔

مکہ میں ان کا استقبال مکہ کے لوگوں اور عمرہ زائرین نے کیا ۔آپ نے اس شہر میں چار ماہ سے زیادہ (3 شعبان سے 8 ذی الحجہ تک) قیام کیا۔ اس دوران کوفہ کے لوگوں نے آپ کو خطوط لکھے اور کوفہ بلایا۔ کوفہ کے لوگوں کی وفاداری اور سنجیدگی کو پرکھنے اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے حسین بن علی علیہ السلام نے مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا۔ لوگوں کے استقبال اور وفاداری کو دیکھ کر مسلم نے امام حسین علیہ السلام کو اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں کے ساتھ کوفہ بلایا۔ آٹھ ذی الحجہ کو آپ مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔

بعض روایات کے مطابق امام حسین کو مکہ میں قتل کرنے کی سازش کا علم ہوا۔ اس لیے آپ مکہ کی حرمت کو بچانے کے لیے اس شہر کو چھوڑ کر عراق کے لئے روانہ ہو گئے۔

واقعہ کربلا

واقعہ کربلا جس کے نتیجے میں حسین بن علی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت ہوئی، ان کی زندگی کا اہم ترین حصہ سمجھا جاتا ہے۔ بعض روایتوں کے مطابق امام حسین علیہ السلام عراق کی طرف جانے سے پہلے اپنی شہادت سے آگاہ تھے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب انہوں نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ کوفیوں کی دعوت پر اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں سمیت کوفہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن ذو حسم نامی علاقے میں حر بن یزید ریاحی کے لشکر سے آپ کا سامنا ہوا جس کے بعد آکو اپنا رااستہ بدلنا پڑا [11]۔ اکثر منابع کے مطابق امام حسین محرم کے دوسرے دن کربلا پہنچے اور اگلے دن عمر بن سعد کی قیادت میں کوفہ سے چار ہزار افراد کا لشکر کربلا میں داخل ہوا۔ تاریخی اطلاعات کے مطابق حسین بن علی اور عمر سعد کے درمیان متعدد مذاکرات ہوئے؛ لیکن ابن زیاد حسینؑ ابن علی کی یزید کے ہاتھوں پر بیعت یا جنگ کے سوا کسی چیز پر تیار نہیں تھا۔ [12]

نو محرم کی شام کو عمر سعد کی فوج جنگ کے لیے تیار ہو گئی۔ لیکن امام حسین نے اس رات خدا سے دعا اور عبادت کرنے کے لیے مہلت لی۔ عاشورہ کی رات آپ نے اپنے ساتھیوں سے گفتگو کی اور ان سے بیعت اٹھا لی اور انہیں جانے کی اجازت دی۔ لیکن انہوں نے آپ کے ساتھ وفاداری اور حمایت کا اعلان کیا۔ [13]

عاشورہ کی صبح جنگ شروع ہوئی اور دوپہر تک حسین ابن علیؑ کے بہت سے ساتھی شہید ہو گئے۔ جنگ کے دوران حر بن یزید جو کوفہ کی فوج کے کمانڈروں میں سے ایک تھا، امام حسین کے ساتھ آ گیا۔ اصحاب کے مارے جانے کے بعد امام کے رشتہ دار میدان میں آئے۔ ان میں سب سے پہلے علی اکبر تھے اور پھر یکے بعد دیگرے سب شہید ہو گئے۔ پھر حسین بن علی (ع) میدان میں گئے اور 10 محرم بوقت عصر شہید ہوئے ۔شمر بن ذل الجوشن نے یا ایک روایت کے مطابق سنان بن انس [14] نےان کا سر قلم کردیا ۔اسی دن حسین بن علی کر سر کو ابن زیاد کے پاس بھیجا گیا ۔[15]

عمر سعد نے ابن زیاد کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کچھ سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ حسین کے جسم پر گھوڑے دوڑائیں اور ان کے جنازے کو پائمال کردیں۔ عورتوں، بچوں اور امام سجاد علیہ السلام کو جو اس دن بیمار تھے، گرفتار کر کے کوفہ اور پھر شام بھیج دیا گیا[16]۔ امام حسین (ع) اور ان کے تقریباً 72 اصحاب کو بنو اسد کے ایک گروہ نے 11 یا 13 محرم کو اسی مقام شہادت میں امام سجاد (ع) کی موجودگی میں دفن کیا تھا [17]۔

امام حسین کی زیارت

معصومین کی احادیث میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور اسے افضل ترین اعمال میں شمار کیا گیا ہے اور متعدد احادیث کے مطابق اس کا ثواب حج اور عمرہ کے برابر ہے [18]۔

زیارات کی جامع کتابوں میں متعدد مطلق زیارتیں جو کسی بھی وقت پڑھی جاسکتی ہیں اور متعدد خاص زیارتیں جو امام حسین علیہ السلام کے لیے مخصوص اوقات میں پڑھی جاتی ہیں، ذکر کی گئی ہیں۔ زیارت عاشورہ، زیارت وارثہ اور زیارت اربعین ان زیارتوں میں سب سے مشہور ہیں [19]۔

چہلم امام حسینؑ

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے چالیس دن بعد، جسے اربعین حسینی یا اربعین کہا جاتا ہے، بہت سے شیعہ قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ تاریخی معلومات کے مطابق جابر بن عبداللہ انصاری پہلے شخص ہیں جو امام حسین علیہ السلام کی قبر کے زائر بنے۔ کتاب لہوف کے مطابق اسی سال 61 ہجری میں شام سے مدینہ واپسی کے راستے میں کربلا کے اسیروں نے بھی اربعین کے دن شہدائے کربلا کی زیارت کی تھی ۔

زیات اربعین کی تاکید اتنی زیادہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر، خاص کر عراق کے شیعہ اور دوسرے افراد قبر امام حسین کی زیارت کے لئے کربلا آتے ہیں ۔ یہ سفر جو اکثر لوگ پیدل کرتے ہیں ، دنیا کے سب سے زیادہ پرہجوم اجتماعات میں سے ایک ہے۔ خبر رساں ذرائع کے مطابق 2018 میں اس اجتماع میں 18 ملین سے زائد عازمین نے شرکت کی۔

حواله جات

  1. شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد و صلاح المتعبد، ج 2، ص 828، بیروت، فقہ الشیعہ فاؤنڈیشن، پہلا ایڈیشن، 1411ھ۔ ابن مشہدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، ص 399، قم، اسلامی پبلی کیشنز آفس، پہلا ایڈیشن، 1419ھ۔ کفامی، ابراہیم بن علی، المصباح (جنۃ الایمان الواقیہ و جنت الایمان البقیع)، ص 543، قم، دار الرازی (زاہدی)، دوسرا ایڈیشن، 1405 ہجری؛ امین آملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، جلد 1، ص 578، بیروت، دارالتقین برائے پریس، 1403ھ
  2. شیخ مفید، الارشاد فی معارف حجۃ اللہ علی العباد، ج 2، ص 27، قم، شیخ مفید کانگریس، پہلا ایڈیشن، 1413ھ۔ مناقب آل ابی طالب (ع)، ج4، ص76؛ حموی، محمد بن اسحاق، انیس المومنین، ص 95، تہران، بعث فاؤنڈیشن، 1363۔ حسینی آملی، سید تاج الدین، الطمہ فی تواریخ الامام (ع)، ص 73، قم، بعث انسٹی ٹیوٹ، پہلا ایڈیشن، 1412 ہجری۔
  3. ابن حجر عسقلانی، احمد ابن علی، الاصابہ فی تمیز الصحابہ، ج2، ص68، بیروت، دار الکتب العلمیہ، پہلا ایڈیشن، 1415ھ؛ ابن عساکر، ابوالقاسم علی ابن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، ج14، ص115، بیروت، دار الفکر، 1415ق
  4. مناقب آل ابی طالب (ص)، ج4، ص76؛ نوٹ: امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے درمیان فاصلہ
  5. مناقب آل ابی طالب (ص)، جلد 4، ص78
  6. اربلی، کشف الغمہ، 1421ھ، ج1، ص569۔ نہج البلاغہ، تحقیق سوبی صالح، خطبہ 207، ص 323
  7. اسفندیاری، "امام حسین علیہ السلام کی کتابیات کی کتابیات"، ص 41
  8. ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1410، ج1، ص208-209
  9. ابن‌قتیبه، الامامة و السیاسة، ۱۴۱۰، ج۱، ص۲۱۱
  10. مورخین کا ایک گروپ، سید الشہدا مسجد کی بغاوت اور شہادت کی تاریخ، 2009، جلد 1، صفحہ 392
  11. طبری، تاریخ اقوام و الملوک، 1387ھ، ج5، ص408، ابن مسکاوی، اقوام کے تجربات، 1379، ج2، ص67؛ ابن اثیر، الکامل، 1965، ج4، ص51
  12. بالاذری، انساب الاشرف، 1417ھ، ج3، ص182؛ طبری، تاریخ الام و الملوک، 1387ھ، ج5، ص414؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص88
  13. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، جلد 2، صفحہ 91-94
  14. طبری، تاریخ اقوام و الملوک، 1387، جلد 5، صفحہ 453-450؛ ابن سعد، طبقات الکبری، 1968، ج6، ص441۔ ابوالفراج اصفہانی، مقاتل الطالبین، دار المعارف، ص 118۔ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج3، ص62
  15. بالاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج3، ص411؛ طبری، تاریخ اقوام و الملوک، 1387ھ، جلد 5، ص
  16. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص113، بالاذری، انساب الاشراف، ج3، ص204؛ طبری، تاریخ اقوام و الملوک، 1387 ہجری، جلد 5، ص 455؛ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج3، ص259
  17. طبری، تاریخ اقوام و الملوک، 1387ھ، ج5، ص456
  18. امام ہادی ادارہ (ع)، جامع زیارت المسومین، 2009، جلد 3، ص69-36
  19. ابن قولویہ، کامل الزیارات، 1356، صفحہ 158-161