10 محرم

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 11:29، 27 فروری 2024ء از Mahdipor (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (Mahdipor نے صفحہ 10محرم کو 10 محرم کی جانب بدون رجوع مکرر منتقل کیا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

10 محرم عاشورا یا یوم عاشورا اسلامی تقویم کے مہینے محرم الحرام کے دسویں دن کو کہا جاتا ہے۔ اس دن شیعہ مسلمان اور کچھ سنی مسلمان پیغمبر اسلام حضرت محمد (ص)کے نواسے حسین ابن علی کی شہادت کو مختلف طریقوں سے یاد کرتے ہیں۔ شہادت کے واقعہ کے متعلق کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا، اہل سنت اور اہل تشیع دونوں متفق ہیں۔ واقعہ کربلا کے تقریباً فورا بعد ہی نوحہ گری شروع ہو گئی تھی۔ واقعہ کربلا کے موضوع پر اموی اور عباسی دور میں مشہور مرثیے تصنیف کے گئے ۔ افغانستان، ایران، عراق، لبنان، آذربائیجان، بحرین، بھارت اور پاکستان میں اس دن عام تعطیل ہوتی ہے اور کئی دوسری نسلی و مذہبی برادریاں اس دن جلوس میں شریک ہوتے ہیں۔

واقعات

  • 5ھ— غزوہ ذات الرقاع
  • 61ھ – امام حسین کو کربلا میں شہید کیا گیا۔
  • 61ھ - کربلا میں امام حسین کے فرزند اور اصحاب کی شہادت
  • 561ھ— مصر میں دولت فاطمیہ کے آخری حکمراں العاضد لدین اللہ کے انتقال سے دولت فاطمیہ ختم ہو گئی۔ صلاح الدین ایوبی نے مصر کو دولت ایوبیہ میں شامل کر لیا۔
  • 1415ھ — عاشورائے حسینی میں علی بن موسی علیہ السلام کے مزار میں بم دھماکہ
  • 1431ھ - کراچی میں عاشورہ کے جلوس میں بم دھماکے میں 44 عزادار جاں بحق ہو گئے۔

وفات

وقایع صبح عاشورا.jpg
  • 61ھ – امام حسین، علی ابن ابی طالب و فاطمہ زہرا کے بیٹے۔
  • 61ھ – عباس بن علی، علی ابن ابی طالب کے بیٹے
  • 61ھ – علی اکبر، حسین ابن علی کے بیٹے
  • 61ھ – علی اصغر، حسین ابن علی کے بیٹے
  • 62 ھ – رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ ام سلمہ کی وفات
  • 67ھ – عبیداللہ بن زیاد مختار ثغفی کی فوجوں کے ہاتھوں مارا گیا۔

اعمال

  • پیغمبر اسلام کے نواسے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی مصیبت اور سوگ کی یاد میں

روزه

اهل سنت کی رائے

  • مستحب

زمانہ جاہلیت میں یہودی، عیسائی اور عرب عاشورا کا احترام کرتے تھے اور اس دن روزہ رکھتے تھے۔ فیومی مصباح المنیر میں کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل و عیال سے روایت ہے: عاشورہ سے ایک دن پہلے اور اس کے بعد ایک دن روزہ رکھو، تاکہ تم یہودیوں کے مشابہ نہ ہو جاؤ جو صرف دسویں دن کا روزہ رکھتے تھے۔ اس روایت کا مواد سنن دارمی [1]، سنن ترمذی [2]، فتح الباری [3] کی کتابوں میں موجود ہے۔ صحیح بخاری [4] ۔ اور نیل لأوطار [5] کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ عرفہ کے روزے کی برکت سے پچھلے سال اور اگلے سال کے گناہوں کو بخش دے گا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ عاشورا کے روزے کو پچھلے سال کے گناہوں کو مٹانے کا ذریعہ بنائے گا۔ [6]

ربيع بنت معوذ: ہم عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھنے پر مجبور کرتے تھے۔ اور ہم نے ان کے لیے اونی گڑیاں بنائیں۔ اور جب بھی ان میں سے کوئی کھانے کے لیے پکارتا تو ہم اس گڑیا سے اس کی مہمان نوازی کرتے یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو جاتا۔ [7]

شیعه حضرات کی رائے

  • مکروه

اکثر شیعہ فقہاء نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ سئل الامام الرضا عن صوم یوم عاشورا، قال: عن صوم ابن مرجانه تسالنی ذلک یوم صامه الادعیاء من آل زیاد لقتل الحسین علیه السلام (انہوں نے امام رضا علیہ السلام سے عاشورا کے روزے کے بارے میں پوچھا۔ حضرت نے فرمایا: کیا تم مرجان کے بیٹے کے روزے کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ یوم عاشورہ وہ دن ہے جس دن خاندان زیاد کے نجس لوگوں نے امام حسین کے قتل کی خوشی اور مسرت کی وجہ سے روزہ رکھا) [8]

امام رضا: عاشورا کا دن روزہ رکھنے کا دن نہیں ہے بلکہ یہ غم و آفت کا دن ہے جو آسمان اور زمین والوں اور تمام مومنین کے لیے آیا ہے اور یہ ابن مرجان اور آل زیاد اور اہل جہنم کے لیے خوشی اور مسرت کا دن ہے۔

مناوی، جو عظیم المرتبت سنی علماء میں سے ہیں، عاشورہ کے روزے کے بارے میں کہتے ہیں:ما یروى فی فضل صوم یوم عاشوراء والصلاة فیه والانفاق والخضاب والأدهان والإکتحال، بدعة ابتدعها قتلة الحسین (رضی اللَّه عنه) وعلامة لبغض أهل البیت وجب ترکه (عاشورا کے دن روزہ رکھنے اور اس دن نماز، زکاۃ ادا کرنے اور خضاب کرنے، تیل لگانا اور سرمہ لگانے کی فضیلت کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، وہ قاتلین حسین رضی اللہ عنہ کی بدعتوں میں سے ایک بدعت ہے اور اہل بیت سے دشمنی کی علامت ہے کہ ان پر چھوڑنا واجب ہے۔) [9]

چونکہ امویوں نے عاشورا کا روزہ خوشی اور مسرت میں رکھا، اس لیے شیعہ علماء نے شیعوں کو اس دن روزہ نہ رکھنے اور سوگ منانے کا مشورہ دیا۔

حوالہ جات

  1. سنن دارمی، ج 2، ص 22
  2. سنن ترمذی، ج 4، ص 159
  3. فتح الباری، ابن حجر، ج 11، ص 12
  4. صحیح بخاری، ج 3، ص 31
  5. نیل الأوطار، ج 4، ص .326
  6. صحیح مسلم ح۱۹۷۶
  7. صحیح بخاری ح 1960
  8. تهذیب، 4/301
  9. ناگفته‌هایی از حقایق عاشورا ص 33