حسین بن علی

ابو عبداللہ حسین بن علی علیہ السلام جن کا لقب سید الشہداء ہے، امام علی اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دوسرے بیٹے اور شیعوں کے تیسرے امام ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے بچپن کے تقریباً سات سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم اور اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مبارک زندگی میں گزارے۔ آپ کی پرورش نانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی الٰہی اور آسمانی تربیت میں ہوئی۔ آپ کی تربیت بہترین طریقوں اور غیر معمولی عزت و محبت کے ساتھ ہوئی ، جس کی بنیاد پر آپ کے اندر خود اعتمادی اور عزت و وقار کا جذبہ پیدا ہوا ۔ آپ اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعدسن 50 ہجری میں منصب امامت پر فائز ہوئے۔ یزید کے برسراقتدار آنے کے بعد وہ لوگوں کی دعوت پر کوفہ گئے لیکن اہل کوفہ نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا اورآپ 61 ہجری میں اپنے اصحاب اوررشتہ داروں کے ساتھ آپ شہید ہو گئے۔
پیدائش
تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شیعوں کے تیسرے امام مدینہ میں پیدا ہوئے لیکن آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں کچھ اختلافات ہیں۔ شیخ طوسی آپ کی ولادت3 شعبان 4 ہجری مانتے ہیں [1] لیکن شیخ مفید [2] اور بعض سنی مورخین [3] آپ کی ولادت 4 ہجری شعبان کی پانچویں رات مانتے ہیں۔
ابن شہر آشوب نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ سید الشہداء کی ولادت جنگ خندق کے دوران جمعرات یا منگل میں سے کسی ایک دن ہوئی [4]۔
نسب
حسین ابن علی ، ابن ابی طالب، ابن عبدالمطلب، ابن ہاشم، ابن عبد مناف، ابن قصی ۔ اور آپ کی والدہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی صاحبزادی تھیں۔ امام حسین علیہ السلام کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور آپ کا خاص لقب ابو علی ہے۔
اگرچہ امام حسین علیہ السلام کا ایک شیر خوار بیٹا تھا جس کا نام عبداللہ تھا جو عاشورہ کے دن شہید ہو گیا تھا، لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس بچے کی وجہ سے آپ کی کنیت(ابا عبداللہ) رکھی گئی ہو۔ [5]
امام حسین علیہ السلام کے القاب
آپ کے بہت سے القاب ہیں۔ جیسے: رشید، طیب، وفی، سید، ذکی، مبارک، مطہر، دلیل علی ذات اللہ، سبط رسول اللہ، شہید، ثار اللہ، اور سید الشہداء۔ البتہ ممکن ہے بعض القاب آپ کی شہادت کے بعد آپ سے منسوب ہوئے ہوں۔
امام حسین کی ازواج
امام حسین علیہ السلام کی پانچ بیویاں تھیں۔ ان کے نام یہ ہیں:شہربانو، لیلیٰ رباب ، ام اسحاق اور قبیلہ قضاعہ سے ایک خاتون جن کا انتقال آپ کی حیات میں ہوا۔ واقعہ کربلا میں وہ واحد خاتون جو یقینی طور پر موجود تھیں علی اصغر کی والدہ حضرت رباب تھیں جو اسیروں کے ساتھ مدینہ واپس آئیں۔ کربلا میں حضرت شہربانو اور حضرت لیلیٰ کی موجودگی قطعی طور پر ثابت نہیں ہے۔
بچے
کتب روایت میں امام حسین علیہ السلام کے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ذکر کی گئی ہیں۔
لڑکے
- حضرت امام سجاد علیہ السلام
- حضرت علی اکبر علیہ السلام
- جعفر، جو امام حسین علیہ السلام کی زندگی میں وفات پا گئے تھے۔
- محمد
- عمر
- حضرت علی اصغر علیہ السلام یا عبداللہ
لڑکیاں
- فاطمہ
- سکینہ
- زینب
پیغمبر اسلام کی زندگی میں
امام حسین نے اپنے بچپن کے تقریباً سات سال نانا رسول خدا اور والدہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی مبارک زندگی میں گزارے۔ آپ کی پرورش اپنے نانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی الٰہی اور آسمانی تربیت میں ہوئی۔ آپ کی تربیت بہترین طریقوں اور غیر معمولی عزت و محبت کے ساتھ ہوئی ، جس کی بنیاد پر آپ کے اندر خود اعتمادی اور عزت و وقار کا جذبہ پیدا ہوا ۔
امام حسین کے بچپن کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی خاص توجہ کا مرکز تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نہ صرف امام حسین سے محبت کرتے تھے بلکہ ان بچوں سے بھی محبت کرتے تھے جو ان کے ساتھ کھیلتے تھے اور امام حسین سے محبت اور پیار کا اظہار کرتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کے بچپن کا سب سے اہم واقعہ مباہلہ میں شرکت اور ان کا اور امام حسن کا "ابنائنا" کے مصداق کے طور پر تعارف ہے۔
امام علی علیہ السلام کے دور امامت میں
امام حسین کی مبارک زندگی کے تیس سال ان کے والد محترم حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے دور میں گزرے۔ وہ باپ جس نے صرف خداکو نظر میں رکھا ، صرف خدا کو تلاش کیا اور صرف خدا کو پایا۔ جس نے پاکیزگی اور بندگی میں وقت گزارا اور جس نے عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کی، وہ باپ جس نے اپنے دور حکومت میں ایک لمحہ بھی آرام نہ کیا۔ اس تمام عرصے میں انہوں نے اپنے والد کے حکم کی دل و جان سے تعمیل کی اور ان چند سالوں میں جب حضرت علی علیہ السلام ظاہری خلافت پر فائز تھے، اسلامی اہداف کو آگے بڑھانے کی راہ میں، ایک بے لوث سپاہی کی طرح ان کی نصرت کی۔
اس دور میں امام حسین ہمیشہ اپنے والد کے ساتھ رہے اور جنگوں میں حصہ لیا۔ جنگ نہروان اور جنگ صفین اور بعد کے دیگر واقعات میں آپ ہمیشہ اپنے والد کے ساتھ رہے اور آپ نے اپنے والد محترم کے تئیں لوگوں کی تمام بے وفائیوں اور نافرمانیوں کو قریب سے دیکھا اور نہایت تلخ کامی کے ساتھ ان مصیبتوں کو برداشت کیا۔ ہر کوئی انہیں عظمت کے ساتھ یاد کرتا تھا۔ ان کی بہادری مشہور تھی۔ سب ان کی عزت کرتے تھے اور ان کی تعظیم و تجلیل کرتے تھے [6]۔
امام حسن علیہ السلام کے دور امامت میں
امیر المومنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسن علیہ السلام مسلمانوں کے رہنما بنے تو امام حسین علیہ السلام نے بھی ان کی بیعت کی۔ امام حسین علیہ السلام خلافت اور امامت کے معاملات میں ہمیشہ ان کے ساتھی اور مددگار رہے۔ اس کے علاوہ امام حسین علیہ السلام اپنے بھائی اور امام کا خاص احترام رکھتے تھے، مختصر یہ کہ انھوں نےہمیشہ امام حسن علیہ السلام کی پیروی اور تعظیم کی۔
امام حسین علیہ السلام ہمیشہ اپنے بھائی کا احترام کرتے اور اپنے آپ کو ان کے فرامین اور احکامات کا پابند سمجھتے تھے۔ جب شام کے دشمنوں سے لڑائی اور مقابلہ ہوا تو انہوں نے فوج کو متحرک کرنے اور نخیلہ کے کیمپ تک بھیجنے میں فعال کردار ادا کیا اور وہ اپنے بھائی کے ساتھ مدین اور سبط کی طرف فوج کو جمع کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔
جب امام حسن علیہ السلام کو عراقی افواج کی پے درپے ناکامیوں اور خیانتوں کے بعد معاویہ کی طرف سے صلح کی تجویز کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اسلام اور اسلامی معاشرے کے مفاد میں معاویہ کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہوئے تو امام حسین بھائی کے دکھوں میں شریک ہوئے۔ . کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ صلح اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے ہے، اس لیے انہوں نے کبھی امام حسن پر اعتراض نہیں کیا۔
صلح کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے بھائی کے ساتھ مدینہ واپس آئے اور وہیں سکونت اختیار کی۔ آپ نے اپنی باعزت زندگی کے دس سال امام حسن علیہ السلام کی امامت میں گزارے، ہمیشہ اپنے بھائی کے ساتھ کھڑے رہے اور ہر حال میں آپ کی اطاعت و فرماں برداری کی، اور آپ کی شہادت کے بعد جب تک معاویہ زندہ رہا، صلح کے تئیں وفادار رہے۔
آپ کا دورامامت
حسین بن علی علیہ السلام کی امامت کا آغاز معاویہ کی حکومت کے دسویں سال میں ہوا۔ معاویہ نے امام حسن سے صلح کے بعد 41 ہجری میں حکومت سنبھالی اور اموی خلافت کی بنیاد رکھی۔ سنی ذرائع نے انہیں ایک ہوشیار اور بردبار شخص قرار دیا ہے۔
معاویہ نے اپنی خلافت قائم کرنے کے لیے مذہب کا ظاہری لبادہ اوڑھا اور کچھ مذہبی اصولوں کی بھی رعایت کی۔ اس نے طاقت اور سیاسی چالوں سے اقتدار حاصل کیا۔ اس نے اپنی حکومت کو خدا کی طرف سے اور خدائی فیصلہ سمجھا۔ معاویہ نے شام کے لوگوں کے سامنے اپنا تعارف انبیاء کے پیروکار، خدا کے نیک بندے اور دین اور اس کے احکام کے محافظ کے طورپر کرایا [7]۔
معاویہ نے خلافت کو بادشاہت میں بدل دیا اور اس نے کھلے عام کہا کہ اس کا لوگوں کی مذہبیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
معاویہ کے دور حکومت میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ عوام کے ایک حصے میں، خاص طور پر عراق میں شیعہ عقائد رائج تھے۔ اس لیے معاویہ اور اس کے کارندیں شیعہ تحریک کے ساتھ یا تو سمجھوتہ کے طریقے سے یا انتہائی سختی سے نمٹے۔
معاویہ کا ایک مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں امام علی علیہ السلام کی شخصیت کو منفور بنا دیا جائے۔ اسی لئے معاویہ اور پھر دوسرے اموی حکام کے دور میں امام علی علیہ السلام پر سب و شتم کا سلسلہ جاری رہا۔
معاویہ نے اپنی طاقت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے بعد شیعوں پر جبر اور دباؤ کی پالیسی شروع کی اور اپنے گورنر کو لکھا کہ دیوان سے علی علیہ السلام کے چاہنے والوں کا نام نکال دیں اور بیت المال سے ان کا وظیفہ منقطع کر دیں۔
معاویہ کے اقدامات کے خلاف موقف اختیار کرنا
اگرچہ امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کے دور میں اس کے خلاف عملی طور پر کچھ نہیں کیا لیکن ایک معاصر مورخ رسول جعفریان کے مطابق امام اور معاویہ کے درمیان تعلقات اور ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام سیاسی نقطہ نظر رکھتے تھے۔ انہوں نے معاویہ کو کبھی قبول نہیں کیا اور اس کے آگے سر تسلیم خم نہیں کیا۔
تاریخ کے مطابق حسین بن علی اور معاویہ کے درمیان متعدد خطوط کا تبادلہ ہوا ے۔ تاریخ میں یہ بھی ہے کہ معاویہ، تینوں خلفاء کی طرح، حسین بن علی کی ظاہری طور پر عزت کرتا تھا اور ان کو بڑا سمجھتا تھا اور اپنے خادموں کو حکم دیتا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے فرزند پر حملہ نہ کریں اور ان کی بے عزتی کرنے سے گریز کریں۔
معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو اپنی وصیت میں امام حسین (ع) کے مقام و مرتبہ پر بھی زور دیا اور انہیں لوگوں میں سب سے زیادہ مقبول شخص بتایا اور حکم دیا کہ اگر حسین کو شکست ہو جائے تو ان سےدر گزر کرو کیونکہ ان کا بہت بڑا حق ہے۔
یزید کی حکومت پر اعتراض
56 ہجری میں، صلح نامہ کی شرطوں کے خلاف (شرط تھی کہ معاویہ اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر نہیں کرے گا)، معاویہ نے لوگوں کو یزید کی جانشینی کے لئے بیعت کرنے کے لیے بلایا، اور امام حسین سمیت بعض شخصیات نے بیعت کرنے سے انکار کردیا۔
معاویہ یزید کی ولیہعدی کے متعلق مدینہ کے بزرگوں کی رائے لینے مدینہ گیا۔
امام حسین نے اس مجلس میں معاویہ کی مذمت کی جہاں معاویہ، ابن عباس اور کچھ درباری اور اموی افراد موجود تھے اور یزید کے مزاج کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مقام اور حق پر زور دیتے ہوئے معاویہ کے دلائل کو رد کیا [8]۔
اس کے علاوہ ایک اور مجلس میں جہاں عام لوگ موجود تھے، امام حسینؑ نے یزید کی فضیلت کے بارے میں معاویہ کی بات کے جواب میں اپنے آپ کو ذاتی اور خاندانی لحاظ سے خلافت کا زیادہ حقدار بتایا اور یزید کو ایک شرابی اور شہوتوں میں غرق شخص کے طور پر متعارف کرایا [9]۔
منیٰ میں امام حسین علیہ السلام کا خطبہ
58ھ میں معاویہ کی وفات سے دو سال قبل امام حسینؑ نے منیٰ میں احتجاجی خطبہ دیا۔ اس وقت شیعوں پر معاویہ کا دباؤ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ اس خطبہ میں حسین بن علی نے امیر المومنین اور اہل بیت کے فضائل بیان کرتے ہوئے نیکی کی تلقین اور برائی سے باز رہنے کی دعوت دی اور اس اسلامی فریضہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے علمائے کرام کی ذمہ داریوں پر تاکید کی کہ انہیں ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، اسی طرح ظالموں کے خلاف علماء کی خاموشی کے نقصانات بھی گنوائے۔ [10].
یزید کی خلافت پر ردعمل
15 رجب 60 ہجری کو معاویہ کی وفات کے بعد یزید اقتدار میں آیا اور اس نے ان بزرگوں سے زبردستی بیعت لینے کا فیصلہ کیا جنہوں نے اس کی خلافت کو قبول نہیں کیا جن میں حسین بن علی بھی شامل تھے۔ لیکن حسینؑ ابن علی ؑنے بیعت سے انکار کردیا۔ آپ اور آپ کے ساتھی 28 رجب کو مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے۔
مکہ میں ان کا استقبال مکہ کے لوگوں اور عمرہ زائرین نے کیا ۔آپ نے اس شہر میں چار ماہ سے زیادہ (3 شعبان سے 8 ذی الحجہ تک) قیام کیا۔ اس دوران کوفہ کے لوگوں نے آپ کو خطوط لکھے اور کوفہ بلایا۔ کوفہ کے لوگوں کی وفاداری اور سنجیدگی کو پرکھنے اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے حسین بن علی علیہ السلام نے مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا۔ لوگوں کے استقبال اور وفاداری کو دیکھ کر مسلم نے امام حسین علیہ السلام کو اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں کے ساتھ کوفہ بلایا۔ آٹھ ذی الحجہ کو آپ مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔
بعض روایات کے مطابق امام حسین کو مکہ میں قتل کرنے کی سازش کا علم ہوا۔ اس لیے آپ مکہ کی حرمت کو بچانے کے لیے اس شہر کو چھوڑ کر عراق کے لئے روانہ ہو گئے۔
واقعہ کربلا
واقعہ کربلا جس کے نتیجے میں حسین بن علی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت ہوئی، ان کی زندگی کا اہم ترین حصہ سمجھا جاتا ہے۔ بعض روایتوں کے مطابق امام حسین علیہ السلام عراق کی طرف جانے سے پہلے اپنی شہادت سے آگاہ تھے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب انہوں نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ کوفیوں کی دعوت پر اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں سمیت کوفہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن ذو حسم نامی علاقے میں حر بن یزید ریاحی کے لشکر سے آپ کا سامنا ہوا جس کے بعد آکو اپنا رااستہ بدلنا پڑا [11]۔ اکثر منابع کے مطابق امام حسین محرم کے دوسرے دن کربلا پہنچے اور اگلے دن عمر بن سعد کی قیادت میں کوفہ سے چار ہزار افراد کا لشکر کربلا میں داخل ہوا۔ تاریخی اطلاعات کے مطابق حسین بن علی اور عمر سعد کے درمیان متعدد مذاکرات ہوئے؛ لیکن ابن زیاد حسینؑ ابن علی کی یزید کے ہاتھوں پر بیعت یا جنگ کے سوا کسی چیز پر تیار نہیں تھا۔ [12]
نو محرم کی شام کو عمر سعد کی فوج جنگ کے لیے تیار ہو گئی۔ لیکن امام حسین نے اس رات خدا سے دعا اور عبادت کرنے کے لیے مہلت لی۔ عاشورہ کی رات آپ نے اپنے ساتھیوں سے گفتگو کی اور ان سے بیعت اٹھا لی اور انہیں جانے کی اجازت دی۔ لیکن انہوں نے آپ کے ساتھ وفاداری اور حمایت کا اعلان کیا۔ [13]
عاشورہ کی صبح جنگ شروع ہوئی اور دوپہر تک حسین ابن علیؑ کے بہت سے ساتھی شہید ہو گئے۔ جنگ کے دوران حر بن یزید جو کوفہ کی فوج کے کمانڈروں میں سے ایک تھا، امام حسین کے ساتھ آ گیا۔ اصحاب کے مارے جانے کے بعد امام کے رشتہ دار میدان میں آئے۔ ان میں سب سے پہلے علی اکبر تھے اور پھر یکے بعد دیگرے سب شہید ہو گئے۔ پھر حسین بن علی (ع) میدان میں گئے اور 10 محرم بوقت عصر شہید ہوئے ۔شمر بن ذل الجوشن نے یا ایک روایت کے مطابق سنان بن انس [14] نےان کا سر قلم کردیا ۔اسی دن حسین بن علی کر سر کو ابن زیاد کے پاس بھیجا گیا ۔[15]
عمر سعد نے ابن زیاد کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کچھ سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ حسین کے جسم پر گھوڑے دوڑائیں اور ان کے جنازے کو پائمال کردیں۔ عورتوں، بچوں اور امام سجاد علیہ السلام کو جو اس دن بیمار تھے، گرفتار کر کے کوفہ اور پھر شام بھیج دیا گیا[16]۔ امام حسین (ع) اور ان کے تقریباً 72 اصحاب کو بنو اسد کے ایک گروہ نے 11 یا 13 محرم کو اسی مقام شہادت میں امام سجاد (ع) کی موجودگی میں دفن کیا تھا [17]۔
امام حسین کی زیارت
معصومین کی احادیث میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور اسے افضل ترین اعمال میں شمار کیا گیا ہے اور متعدد احادیث کے مطابق اس کا ثواب حج اور عمرہ کے برابر ہے [18]۔
زیارات کی جامع کتابوں میں متعدد مطلق زیارتیں جو کسی بھی وقت پڑھی جاسکتی ہیں اور متعدد خاص زیارتیں جو امام حسین علیہ السلام کے لیے مخصوص اوقات میں پڑھی جاتی ہیں، ذکر کی گئی ہیں۔ زیارت عاشورہ، زیارت وارثہ اور زیارت اربعین ان زیارتوں میں سب سے مشہور ہیں [19]۔
چہلم امام حسینؑ
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے چالیس دن بعد، جسے اربعین حسینی یا اربعین کہا جاتا ہے، بہت سے شیعہ قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ تاریخی معلومات کے مطابق جابر بن عبداللہ انصاری پہلے شخص ہیں جو امام حسین علیہ السلام کی قبر کے زائر بنے۔ کتاب لہوف کے مطابق اسی سال 61 ہجری میں شام سے مدینہ واپسی کے راستے میں کربلا کے اسیروں نے بھی اربعین کے دن شہدائے کربلا کی زیارت کی تھی ۔
زیات اربعین کی تاکید اتنی زیادہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر، خاص کر عراق کے شیعہ اور دوسرے افراد قبر امام حسین کی زیارت کے لئے کربلا آتے ہیں ۔ یہ سفر جو اکثر لوگ پیدل کرتے ہیں ، دنیا کے سب سے زیادہ پرہجوم اجتماعات میں سے ایک ہے۔ خبر رساں ذرائع کے مطابق 2018 میں اس اجتماع میں 18 ملین سے زائد عازمین نے شرکت کی۔
عاشورا، درس و عبرت کا سرچشمہ
قربانی امام حسین علیہ السلام ، عاشور کا واقعہ،آپ کا چہلم اور دیگر مناسبتیں، تاریخ اسلام کا وہ اہم ترین موڑ ہے جہاں حق و باطل کا فرق پوری طرح نمایاں ہو گیا۔ اس قربانی سے اسلام محمدی کو نئی زندگی ملی اور اس دین الہی کو بازیجہ اطفال بنا دینے کے لئے کوشاں یزیدیت کی فیصلہ کن شسکت ہوگئی۔ اس واقعے میں بے شمار درس اور عبرتیں پنہاں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مختلف مواقع پر عاشورا اور قربانی امام حسین علیہ السلام سے ملنے والے درس اور عبرتوں کی جانب اشارہ فرمایا ہے۔ آپ کے خطابات کے متعلقہ اقتباسات ناظرین کے پیش خدمت ہیں؛
چہلم سے جو سبق ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ دشمنوں کے تشہیراتی طوفان کے سامنے حقیقت اور شہادت کی یاد کو زندہ رکھا جانا چاہئے ۔ آپ دیکھیں انقلاب کے آغاز سے آج تک ، انقلاب ، امام خمینی رحمت اللہ علیہ ، اسلام اور اس قوم کے خلاف پروپگنڈے کتنے وسیع رہے ہيں ۔ جنگ کے خلاف کیا کیا پروپگنڈے نہيں کئے گئے ۔ وہ بھی اس جنگ کے خلاف جو اسلام ، وطن اور عزت نفس کا دفاع تھی ۔ دیکھیں دشمنوں نے ان شہدا کے خلاف کیا کیا جنہوں نے اپنی سب سے قیمتی شئے یعنی اپنی جان خدا کی راہ میں قربان کر دی ۔ آپ دیکھیں کہ دشمنوں نے ان شہدا کے خلاف بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر ، ریڈیو ، ٹی وی اخبارات رسالوں اور کتابوں کے ذریعے سادہ لوح افراد کے دل و دماغ میں کیسے کیسے خیالات بھر دئے ۔
یہاں تک تک کہ کچھ سادہ لوح اور نادان لوگ ہمارے ملک میں بھی ، جنگ کے ان ہنگامہ خیز حالات میں کبھی کبھی ایسی بات کہہ دیتے تھے جو در اصل نادانی اور حقیقت سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہوتی تھی ۔ یہی سب باتیں امام خمینی کو آشفتہ خاطر کر دیتی تھیں اور آپ اپنی ملکوتی پکار کے ذریعے حقائق بیان کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے ۔ اگر ان پروپگنڈوں کے مقابلے میں حقائق کو بیان نہ کیا جاتا یا نہ کیا جائے اور اگر ایرانی قوم ، مقررین ، رائٹروں اور فنکاروں کی آگاہی اس ملک کے حقائق کے لئے وقف نہ ہوگی تو دشمن پروپـگنڈوں کے میدان میں کامیاب ہو جائے گا ۔
پروپگنڈوں کا میدان بہت بڑا اور خطرناک ہے ۔ البتہ ، ہماری عوام کی بھاری اکثریت انقلاب کی برکتوں سے حاصل ہونے والی آگاہی کی وجہ سے ، دشمنوں کے پروپگنڈوں سے محفوظ ہے ۔ دشمن نے اتنے جھوٹ بولے اور عوام کے سامنے آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں کے بارے میں ایسی غلط بیانی سے کام لیا کہ عوام میں عالمی تشہیراتی مشنری کی باتوں پر سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو گیا ۔
ظالم و جابر یزیدی تشہیراتی مشنری اپنے پروپگنڈوں میں امام حسین علیہ السلام کو قصور وار ٹھہراتی تھی اور یہ ظاہر کرتی تھی کہ حسین بن علی وہ تھے جنہوں نے عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت کے خلاف ، حصول دنیا کے لئے قیام کیا تھا اور کچھ لوگوں کو اس پروپگنڈے پر یقین بھی آ گیا تھا! اس کے بعد بھی جب امام حسین علیہ السلام کو صحرائے کربلا میں اس مظلومیت کے ساتھ شہید کر دیا گیا تو اسے فتح و کامیابی کا نام دیا گیا !! لیکن امامت کی صحیح تشہیرات نے ، اس قسم کے تمام پروپگنڈوں کا قلع قمع کر دیا۔
کربلا ہمارے لیے ہمیشہ رہنے والا نمونہ عمل
آپ بھائیوں اور بہنوں اور ایران قوم کے تمام لوگوں کو یہ جاننا چاہئے کہ کربلا ہمارے لئے ہمیشہ رہنے والا نمونہ عمل ہے ۔ کربلا ہمارا مثالیہ ہے اور اس کا پیام ہے کہ دشمن کی طاقت کے سامنے انسان کے قدم متزلزل نہيں ہونے چاہئے ۔ یہ ایک آزمایا ہوا نمونہ عمل ہے ۔ صحیح ہے کہ صدر اسلام میں ، حسین بن علی علیہ السلام بہتر لوگوں کے ساتھ شہید کر دئے گئے لیکن اس کا معنی یہ نہيں ہے کہ جو بھی امام حسین علیہ السلام کے راستے پر چلے یا جو بھی قیام و جد و جہد کرے اسے شہید ہو جانا چاہئے ، نہيں ۔
ملت ایران ، بحمد اللہ آج امام حسین علیہ السلام کے راستے کو آزما چکی ہے اور سر بلندی و عظمت کے ساتھ اقوام اسلام اور اقوام عالم کے درمیان موجود ہے ۔ وہ کارنامہ جو آپ لوگوں نے انقلاب کی کامیابی سے قبل انجام دیا وہ امام حسین علیہ السلام کا راستہ تھا امام حسین علیہ السلام کے راستے کا مطلب ہے دشمن سے نہ ڈرنا اور طاقتور دشمن کے سامنے ڈٹ جانا ہے ۔ جنگ کے دوران بھی ایسا ہی تھا ۔ ہماری قوم سمجھتی تھی کہ اس کے مقابلے میں مغرب و مشرق کی طاقتیں اور پورا سامراج کھڑا ہوا ہے لیکن وہ ڈری نہيں ۔ البتہ ہماری پیارے شہید ہوئے ۔
کچھ لوگوں کے اعضائے بدن کٹ گئے اور کچھ لوگوں نے برسوں جیلوں میں گزارے اور کچھ لوگ اب بھی بعثیوں کی جیل میں ہیں لیکن قوم ان قربانیوں کی بدولت عزت و عظمت کے اوج پر پہنچ گئ ۔ اسلام ہر دل عزیز ہو گیا ہے ، اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے یہ سب کچھ مزاحمت کی برکت سے ہے _
مجالس عزا کے اہداف
محرم و صفر کے ایام میں ہماری قوم کو اپنے اندر جد و جہد ، عاشور ، دشمن سے نہ ڈرنے ، خدا پر توکل اور خدا کی راہ میں جہاد و قربانی کے جذبے کو استحکام بخشنا چاہئے اور اس کے لئے امام حسین علیہ السلام سے مدد مانگنی چاہئے ۔ مجالس عزا اس لئے ہے تاکہ ہمارے دل حسین ابن علی علیہ السلام اور ان کے اہداف سے قریب ہوں ۔ کچھ کج فہم یہ نہ کہيں کہ امام حسین علیہ السلام ہار گئے کچھ کج فہم یہ نہ کہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی راہ کا مطلب یہ ہے کہ تمام ایرانی قوم کو قتل ہو جانا چاہئے ۔
کون نادان اس قسم کی باتیں کر سکتا ہے ؟ قوموں کو امام حسین علیہ السلام سے درس حاصل کرنا چاہئے یعنی دشمن سے نہيں ڈرنا چاہئے ، خود پر بھروسہ رکھنا چاہئے ، اپنے خدا پر توکل کرنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر دشمن طاقتور ہے تو اس کی یہ طاقت زیادہ دنوں تک باقی نہيں رہنے والی ہے ۔
اسے یہ جاننا چاہئے کہ اگرچہ دشمن کا محاذ بظاہر وسیع اور مضبوط ہے لیکن اس کی حقیقی طاقت کم ہے کیا آپ دیکھ نہيں رہے ہیں کہ تقریبا چودہ برسوں سے دشمن اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں لیکن کامیاب نہيں ہو پائے ہیں ! یہ ان کی کمزوری اور ہماری طاقت کے علاوہ اور کیا ہے ؟ ہم طاقتور ہیں ہم اسلام کی برکت سے طاقتور ہیں ۔ ہم اپنے عظیم خدا پر توکل اور بھروسہ کرتے ہيں یعنی ہمارے ساتھ الہی طاقت ہے اور دنیا اس طاقت کے سامنے ٹک نہيں سکتی۔
یہ اہم نکتہ یہ درس ہے کہ حسین ابن علی علیہ السلام ، تاریخ اسلام کے ایک حساس دور میں مختلف فرائض میں اصلی فریضہ کی شناخت کی اور اس پر عمل در آمد کیا - انہوں اس چیز کی شناخت میں جس کی اس دور میں ضرورت تھی کسی قسم کا وہم و تذبذب نہيں کیا جبکہ یہ چیز مختلف زمانوں میں زندگی گزارنے والے مسلمانوں کا ایک کمزور پہلو ہے یعنی یہ کہ عالم اسلام کے عوام اور ان کے اہم رہنما کسی خاص دور میں اصل فریضے کے بارے میں غلطی کریں اور انہيں یہ نہ پتہ ہو کہ کون سا کام اصل ہے اور اسے کرنا چاہئے اور دوسرے کاموں کو اگر ضرورت ہو تو اس پر قربان کر دیا جائے انہیں یہ نہ معلوم ہو کہ کون سا کام اہم اور کون سا کام دوسرے درجے کی اہمیت کا حامل ہے اور کس کام کو کتنی اہمیت دینی چاہئے اور کس کام کے لئے کتنی کوشش کرنی چاہئے ۔
فرائض کی شناخت
حسین ابن علی علیہ السلام کے تحریک کے زمانے میں ہی بہت سے ایسے لوگ تھے کہ اگر ان سے کہا جاتا کہ اب قیام کا وقت ہے اور اگر وہ سمجھ جاتے کہ اس قیام کے اپنے مسائل ہیں تو وہ دوسرے درجے کے اپنے فرائض سے چپکے رہتے جیسا کہ ہم نے دیکھا کچھ لوگوں نے ایسا ہی کیا ۔ حسین ابن علی علیہ السلام کے ساتھ تحریک میں شامل نہ ہونے والوں میں مومن و پابند شرع افراد بھی تھے ۔ ایسا نہيں تھا کہ سب کے سب اہل دنیا تھے ۔ اس دور میں عالم اسلام کے برگزیدہ افراد اور اہم شخصیات میں مومن اور ایسے لوگ بھی تھے۔
جو اپنے فریضے پر عمل کرنا چاہتے تھے لیکن فریض کی شناخت نہيں کر پاتے تھے ، زمانے کے حالات کی سمجھ نہيں رکھتے تھے ، اصل دشمن کو نہيں پہچانتے تھے اور اہم اور پہلے درجے کی اہمیت کے حامل کاموں کے بجاۓ دوسرے اور تیسرے درجے کے کاموں کو اختیار کرتے تھے یہ عالم اسلام کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت رہی ہے ۔ آج بھی ہم اس مصیبت میں گرفتار ہو سکتے ہيں اور زیادہ اہم چیز کے بدلے کم اہم کام کر سکتے ہیں ۔ اصل کام کو جس پر سماج ٹکا ہوا ہو ، تلاش کرنا چاہئے ۔ کبھی اسی ہمارے ملک میں سامراج و کفر و ظلم و جور کے خلاف جد و جہد کی باتیں ہوتی تھیں۔
لیکن کچھ لوگ اسے فرض نہيں سمجھتے تھے اور دوسرے کاموں میں مصروف تھے اور اگر کوئی درس دیتا تھا یا کتاب لکھتا تھا یا چھوٹا موٹا مدرسہ چلاتا تھا اگر کچھ لوگوں کے بیچ تبلیغ کا کام انجام دیتا تھا تو وہ یہ سوچتا تھا کہ اگر جد و جہد میں مصروف ہو جائے گا تو یہ کام بند ہو جائيں گے ! اتنی عظیم جد و جہد کو چھوڑ دیتا تھا کہ ان کاموں کو پورا کر سکے ! یعنی ضروری اور اہم کام کی شناخت میں غلطی کرتا تھا ۔ حسین ابن علی علیہ السلام نے اپنے خطبوں سے یہ سمجھا دیا کہ عالم اسلام کے لئے ان حالات میں ظالم و جابر طافت کے خلاف جد و جہد اور شیطانی طاقتوں سے انسانوں کو نجات دلانے کے لئے لڑائی سب سے زیادہ ضروری کام ہے ۔
ظاہر ہے حسین ابن علی علیہ السلام اگر مدینے میں ہی رہ جاتے اور عوام کے درمیان احکام اسلام اور علوم اہل بیت پھیلاتے تو کچھ لوگوں کی تربیت ہو جاتی لیکن جب اپنے مشن پر وہ عراق کی سمت بڑھے تو یہ سارے کام رہ گئے وہ لوگوں کو نماز کی تعلیم نہيں دے سکتے تھے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث لوگوں کے سامنے بیان نہیں ہو سکتی تھیں ، درس گاہ اہل بیت بند ہو جاتی اور مدینہ کے یتیموں اور بے نواؤں کی امداد بھی ممکن نہیں ہوتی ۔ یہ سب ایسے کام تھے جنہيں آپ انجام دیتے تھے لیکن آپ نے ان تمام کاموں کو ایک زيادہ اہم کام پر قربان کر دیا ۔
یہاں تک کہ حج جیسے فریضے کو بھی جس کے بارے میں تمام مبلغین بات کرتے ہيں اس فریضے پر قربان کر دیا وہ فریضہ کیا تھا ؟ جیسا کہ آپ نے فرمایا اس نظام کے خلاف جد و جہد جو بد عنوانی کی کی جڑ تھا ۔ آپ نے فرمایا : «اُریدُ اَن اَمُرَ بالْمَعْروف وَاَنْهى عَنِ الْمُنْكَر وَ اَسیرَ بِسیرة جَدّى.» میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور اپنے جد کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں اسی طرح آپ نے ایک دوسرے خطبے میں فرمایا کہ «اَیهاالنّاس! اِنَّ رَسولاللَّه، صلّىاللَّهعلیهوآله، قال مَنْ رأى سُلطاناً جائراً مُسْتَحِلّاً لِحُرَمِ اللَّه، ناكِثاً لِعَهْداللَّه [تا آخر] فَلَمْ یُغَیِّر عَلَیْهِ بِفِعْلٍ و َلا قَولٍ كانَ حَقاً عَلَىاللَّه اَنْ یَدخل یُدْخِلَهُ مُدْخِلَه.»
یعنی ظالم و جابر سلطان کے مقابلے میں تبدیلی ، یعنی وہ طاقت بدعنوانی پھیلاتی ہے اور جو نظام انسانوں کو تباہی اور مادی و معنوی فنا کی سمت لے جاتی ہے ۔ یہ حسین ابن علی علیہ السلام کی تحریک کی وجہ ہے البتہ اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی مصداق سمجھا گیا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فریضے کی طرف رجحان میں ان نکتوں پر بھی توجہ دی جانی چاہئے ۔ یہی وجہ ہے آپ زیادہ اہم فریضے کے لئے آگے بڑھتے ہيں اور دوسرے فرائض کو بھلے ہی وہ بھی اہم ہوں ، اس زیادہ اہم فریضے پر قربان کر دیا [20]۔
عاشورا مقاومت کی علامت، لشکر حسینی و یزیدی کی جنگ کبھی ختم نہیں ہوسکتی
حضرت امام حسینؑ کا قیام صرف شیعوں کے لیے نہیں بلکہ ہر مظلوم اور حریت پسند کے لیے ظلم کے خلاف جدوجہد کا دائمی نمونہ بن چکا ہے، جس سے مشرقی اور مغربی اہل فکر نے بھی الہام حاصل کیا ہے۔ قیام عاشورا محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ مزاحمت کا زندہ اور جاوید نمونہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام اور ان کے وفادار اصحاب نے ظلم اور جبر کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوکر تاریخ میں خود کو مزاحمت کا ایسا نشان بنا دیا جس کی روشنی آج بھی مظلومین کے لیے مشعل راہ ہے۔
امام حسین (ع) اور ان کے اصحاب نے نہ صرف باطل کے چہرے کو بے نقاب کیا بلکہ منافقین کو بھی رسوا کیا اور شہادت کی روح کو زندہ کیا۔ عاشورا کی تحریک نے انقلابی قیاموں کی بنیاد رکھی۔ عصر حاضر میں یہی جذبۂ عاشورا صہیونی غاصبوں کے خلاف مزاحمت کرنے والی تحریکوں کا نظریاتی سرچشمہ بن چکا ہے۔
معروف مغربی مفکر فرانسس فوکویاما نے کہا کہ شیعہ ایک ایسا پرندہ ہے جو ہماری پہنچ سے دور اڑتا ہے۔ اس کے دو پر ہیں؛ ایک سبز، یعنی عدالت و مهدویت، اور دوسرا سرخ، یعنی عاشورا و شہادت۔ اس پرندے کا لباس ولایت فقیہ ہے جو اسے ناقابل شکست بناتا ہے۔
انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی، بعثی افواج کے خلاف ایرانی مزاحمت اور آج کے دور میں حزب اللہ لبنان، انصار اللہ یمن، حشد الشعبی عراق، حماس اور جہاد اسلامی فلسطین جیسے گروہوں کی استقامت، عاشورائی جذبے کی ہی مظاہر ہیں۔
آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران بھی یہی روح تھی جس نے ایرانی افواج کو اسلحہ سے لیس دشمن کے سامنے فتحیاب کیا۔ امام خمینیؒ نے فرمایا تھا: ہم امام حسین (ع) کی طرح جنگ میں داخل ہوئے ہیں اور امام حسین (ع) کی طرح شہادت ہمارا مقدر ہے۔
امریکی دانشور پرفیسر بیل نے جنگِ ایران و عراق کے دوران کہا کہ ایرانی انقلاب کے جاری رہنے کا ایک اہم راز شہادت طلبی ہے۔ جان ال اسپوزیتو جیسے مغربی تجزیہ کار اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ انقلابِ اسلامی نے نہ صرف عالم اسلام مخصوصا عرب دنیا کو متاثر کیا اور کئی تحریکوں کے لیے محرک و الہام کا باعث بنا۔
جنوبی لبنان کے جوانوں نے انقلاب اسلامی ایران سے متاثر ہوکر اور قیام امام حسین علیہ السلام سے الہام لیتے ہوئے، صہیونی-امریکی دشمن کے خلاف مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ حزب اللہ لبنان کے شہید کمانڈر سید حسن نصراللہ نے کہا تھا: ہم واقعۂ کربلا سے اپنی آخرت کی تعمیر کا راستہ سیکھتے ہیں، اور ہم اس کارنامے کو دہراسکتے ہیں جو امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں نے انجام دیا تھا۔
سید حسن نصراللہ نے عاشورائی فکر پر تاکید کرتے ہوئے کہا: ہم امام حسینؑ کو لبیک کہتے ہیں۔ ہم حسینؑ کے ساتھ ہیں اور روزانہ وہی موقف اپناتے ہیں جو حسینؑ نے تاریخ میں ثبت کیا۔ ہم طاغوتی طاقتوں اور ان سب کو جو ہماری شکست کی امید لگائے بیٹھے ہیں، یہی کہتے ہیں: 'هیهات منا الذلة' (ذلت ہم سے دور ہے)۔
ایران میں انصار اللہ یمن کے ثقافتی نمائندے احمد الامام نے مہر نیوز سے گفتگو میں کہا: امام حسین (ع) صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے قیام و مقاومت کا ایک مکمل نمونہ ہیں۔ ایران، لبنان، یمن، عراق اور فلسطین میں مزاحمت کی موجودہ شکل امام حسین (ع) کے قیام سے متاثر ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ امام حسین (ع) کی تحریک قرآن کی بنیاد پر تھی، جس نے دنیا کو آزادی، وفاداری اور عدل کا درس دیا۔ آج کی انسانیت کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ وفائے عہد ہے۔ اور یہ حسینؑ نے دنیا کو سکھایا۔
انصار اللہ کے سربراہ عبدالملک بدرالدین الحوثی نے بھی اس امر پر زور دیا کہ اسلام ہمیں امام حسین (ع) کی مانند دشمن کے خلاف ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے۔ اسی عاشورائی تفکر نے یمن کو 8 سالہ سعودی-امریکی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی ہمت دی۔ نہ صرف یمن شکست سے بچا بلکہ سعودی عرب کو جنگ کے خاتمے کی کوششوں پر مجبور کر دیا۔
عراق کی مزاحمتی تحریک حشد الشعبی کے مرکزی رہنما اور نُجَباء کے جنرل سیکریٹری شیخ اکرم کعبی نے کہا: ہم خود کو حضرت امام خمینی (رح) کے مکتب کا شاگرد سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ خدا پر توکل کے ذریعے اسلامی ممالک کو استکبار کے چنگل سے آزاد کرایا جا سکتا ہے۔ قیام عاشورا نہ صرف ایک واقعہ بلکہ ایک دائمی اور عالمی نظریہ ہے، جو ہر اس انسان کے لیے مشعل راہ ہے جو ظلم و استکبار کے خلاف قیام کرنا چاہتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی، آیت اللہ سید علی خامنہای اس حوالے سے کہتے ہیں: لشکر حسینی اور لشکر یزیدی کی جنگ کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ شمشیر و نیزے کے دور میں یہ جنگ ایک صورت میں تھی، اور آج کے دور میں یہ جنگ ایٹم اور مصنوعی ذہانت جیسے ہتھیاروں کے ساتھ جاری ہے۔
واقعۂ عاشورا اور قیام امام حسینؑ صرف شیعہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں اور حریت پسندوں کے لیے مزاحمت اور بیداری کا عالمگیر پیغام ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی مختلف اقوام، ادیان اور تحاریکِ آزادی نے اس عظیم قربانی سے الہام لیا ہے۔
ہندوستان کے روحانی پیشوا موہن داس گاندھی نے امام حسینؑ کو تحریکِ آزادی کا مرکزی نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے امام حسینؑ، اس عظیم شہید اسلام کی زندگی کو بغور پڑھا ہے۔ اگر ہندوستان کو ایک دن آزاد ہونا ہے، تو اسے امام حسینؑ کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔
اسی طرح بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی امام حسینؑ کی قربانی کو دنیا کی سب سے روشن مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ قربانی اور بہادری کا ایسا نمونہ جو امام حسینؑ نے کربلا میں پیش کیا، دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آتا۔ تمام مسلمانان عالم کو اس عظیم شہید سے سبق لینا چاہیے۔
صرف اسلامی دنیا ہی نہیں بلکہ مغربی دنیا کے باشعور افراد نے بھی عاشورا کی روشنی میں حق کا راستہ اپنایا۔ اٹلی کے مشہور صنعتکار خاندان اونیلی سے تعلق رکھنے والے ایڈورڈ اونیلی نے اسلام قبول کرنے کے بعد مکتب عاشورا کو اپنایا اور مذہبی تعلیم کے لیے ایران کے شہر قم میں قیام کیا۔ افسوس کہ انہیں صہیونی قوتوں نے شہید کر دیا۔
اسی طرح ڈایانا ترون گوسو، ایک امریکی خاتون جو مسلمان ہوکر "هاجر حسینی" کہلائیں، نے امام حسینؑ کو اپنے ایمان کا سرچشمہ قرار دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ عاشورا کی روح نے انہیں اسلام کے دائرے میں داخل کیا۔
امام حسینؑ نے ظلم یزید کے خلاف کربلا میں قیام کیا، اور آج فلسطین میں جو جدوجہد صہیونی ظلم کے خلاف جاری ہے، وہ اسی حسینی فکر کا تسلسل ہے۔ کربلا میں امامؑ حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب نے اسلام کے اصولوں کی حفاظت کے لیے جان دی، آج بھی فلسطینی مزاحمت کار، مجاہدین، اور عالمی حریت پسند اسی راہ حق پر جان نچھاور کر رہے ہیں۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت اور عدل کے لیے قیام کا پیغام نہ صرف زندہ ہے بلکہ آج کی دنیا میں بھی اتنا ہی مؤثر اور ضروری ہے جتنا چودہ صدیاں قبل تھا۔ امام حسینؑ کا پیغام، وقت و جغرافیہ سے ماورا ہو کر ہر مظلوم کے دل میں امید کی شمع روشن کرتا ہے[21]۔
حوالہ جات
- ↑ شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد و صلاح المتعبد، ج 2، ص 828، بیروت، فقہ الشیعہ فاؤنڈیشن، پہلا ایڈیشن، 1411ھ۔ ابن مشہدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، ص 399، قم، اسلامی پبلی کیشنز آفس، پہلا ایڈیشن، 1419ھ۔ کفامی، ابراہیم بن علی، المصباح (جنۃ الایمان الواقیہ و جنت الایمان البقیع)، ص 543، قم، دار الرازی (زاہدی)، دوسرا ایڈیشن، 1405 ہجری؛ امین آملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، جلد 1، ص 578، بیروت، دارالتقین برائے پریس، 1403ھ
- ↑ شیخ مفید، الارشاد فی معارف حجۃ اللہ علی العباد، ج 2، ص 27، قم، شیخ مفید کانگریس، پہلا ایڈیشن، 1413ھ۔ مناقب آل ابی طالب (ع)، ج4، ص76؛ حموی، محمد بن اسحاق، انیس المومنین، ص 95، تہران، بعث فاؤنڈیشن، 1363۔ حسینی آملی، سید تاج الدین، الطمہ فی تواریخ الامام (ع)، ص 73، قم، بعث انسٹی ٹیوٹ، پہلا ایڈیشن، 1412 ہجری۔
- ↑ ابن حجر عسقلانی، احمد ابن علی، الاصابہ فی تمیز الصحابہ، ج2، ص68، بیروت، دار الکتب العلمیہ، پہلا ایڈیشن، 1415ھ؛ ابن عساکر، ابوالقاسم علی ابن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، ج14، ص115، بیروت، دار الفکر، 1415ق
- ↑ مناقب آل ابی طالب (ص)، ج4، ص76؛ نوٹ: امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے درمیان فاصلہ
- ↑ مناقب آل ابی طالب (ص)، جلد 4، ص78
- ↑ اربلی، کشف الغمہ، 1421ھ، ج1، ص569۔ نہج البلاغہ، تحقیق سوبی صالح، خطبہ 207، ص 323
- ↑ اسفندیاری، "امام حسین علیہ السلام کی کتابیات کی کتابیات"، ص 41
- ↑ ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، 1410، ج1، ص208-209
- ↑ ابنقتیبه، الامامة و السیاسة، ۱۴۱۰، ج۱، ص۲۱۱
- ↑ مورخین کا ایک گروپ، سید الشہدا مسجد کی بغاوت اور شہادت کی تاریخ، 2009، جلد 1، صفحہ 392
- ↑ طبری، تاریخ اقوام و الملوک، 1387ھ، ج5، ص408، ابن مسکاوی، اقوام کے تجربات، 1379، ج2، ص67؛ ابن اثیر، الکامل، 1965، ج4، ص51
- ↑ بالاذری، انساب الاشرف، 1417ھ، ج3، ص182؛ طبری، تاریخ الام و الملوک، 1387ھ، ج5، ص414؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص88
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، جلد 2، صفحہ 91-94
- ↑ طبری، تاریخ اقوام و الملوک، 1387، جلد 5، صفحہ 453-450؛ ابن سعد، طبقات الکبری، 1968، ج6، ص441۔ ابوالفراج اصفہانی، مقاتل الطالبین، دار المعارف، ص 118۔ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج3، ص62
- ↑ بالاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج3، ص411؛ طبری، تاریخ اقوام و الملوک، 1387ھ، جلد 5، ص
- ↑ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص113، بالاذری، انساب الاشراف، ج3، ص204؛ طبری، تاریخ اقوام و الملوک، 1387 ہجری، جلد 5، ص 455؛ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج3، ص259
- ↑ طبری، تاریخ اقوام و الملوک، 1387ھ، ج5، ص456
- ↑ امام ہادی ادارہ (ع)، جامع زیارت المسومین، 2009، جلد 3، ص69-36
- ↑ ابن قولویہ، کامل الزیارات، 1356، صفحہ 158-161
- ↑ چودہ سو سولہ ہجری قمری کے عاشور کے دن جمعہ کا خطبہ 95-6-9
- ↑ عاشورا مقاومت کی علامت، لشکر حسینی و یزیدی کی جنگ کبھی ختم نہیں ہوسکتی-شائع شدہ از: 6 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 جولائی 2025ء