8 شوال

ویکی‌وحدت سے
8 شوال.jpg

8 شوال قمری سال کے دسویں مہینے کی آٹھویں تاریخ ہے۔ اس دن پیدائش اور وفات جیسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کریں گے۔ وہابیوں کے ہاتھوں بقیع قبرستان کی تباہی کی وجہ سے آٹھ شوال کو یہ دن عالمی یوم بقیع کے نام سے جانے لگا ہے۔

واقعات

  • 8 شوال ہجری قمری کیلنڈر کے مطابق سال کا دو سو چوہترواں دن ہے۔
  • 3ھ غزوہ حمراء الاسد (27 مارچ 625ء)
  • 1344ھ وہابیوں کے ہاتھوں جنت البقیع میں ائمہ بقیع (ع) کے قبور کا انہدام (21 اپریل 1926ء)
  • 1347ھ ولادت حسین شب‌ زندہ دار (20 مارچ 1929ء)
  • 1370ھ وفات علامہ سید عدیل اختر (13 جولائی 1951ء)
  • البویہ کے مشہور امیر عزد الدولہ دیلمی کی نجف اشرف میں وفات (372ھ)۔
  • خراسان کے عرفان میں سے ایک خواجہ عطار نقشبندی کی وفات (802ھ)۔
  • سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ سلطان سلیم خان کی وفات 8 سال کے دور حکومت (926ء) کے بعد ہوئی۔ [1]

انہدام جنت البقیع

انہدام جنت البقیع ان واقعات کی طرف اشارہ ہے جن میں وہابیوں نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کرکے وہاں موجود قبرستان بقیع اور اس پر بنائے گئے مختلف بارگاہوں کو مسمار کر دیا۔ ان بارگاہوں میں امام حسن، امام سجاد، امام باقر اور امام صادق کے مزارات شامل ہیں۔ وہابیوں کے ہاتھوں جنت البقیع دو بار تخریب ہوئی؛ پہلی بار سنہ 1220ھ میں اور دوسری بار سنہ 1344ھ میں۔ یہ کام انہوں نے مدینہ کے 15 مفتیوں کے فتوے کی روشنی میں انجام دیا جس میں قبور پر بارگاہیں بنانے کو بدعت قرار دیتے ہوئے ان کی تخریب کو واجب قرار دیا تھا۔ جنت البقیع کے انہدام پر ایران نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک دن سوگ کا اعلان کیا اور سعودی عرب کی تازہ تاسیس حکومت کو تسلیم کرنے میں تین سال کی تأخیر لگا دی۔ شیعیان جہان ہر سال 8 شوال کو "یوم انہدام جنۃ البقیع" مناتے ہوئے اس کام کی پر زور مذمت اور سعودی عرب کی موجودہ حکومت سے اس قبرستان کی فی الفور تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔

تخریب کے بعد جنت البقیع ایک ہموار زمین میں تبدیل ہو گئی ہے لیکن شیعوں کے چار اماموں کے قبور کی جگہ اب بھی قابل تشخیص ہیں۔ شیعہ علماء اور ایرانی حکومت کی جانب سے ائمہ بقیع کے مزارات پرباگاہوں کی تعمیر اور جنت البقیع کے قبرستان کے اردگرد چاردیواری کا مطالبہ سعودی عرب کی جانب سے تسلیم کرنے کے باوجود اب تک عملی نہیں ہو پایا۔

شیعہ علماء نے جنت البقیع کے انہدام پر احتجاج اور اس واقعے کی مذمت کے علاوہ اس پر مختلف کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں مذہبی مقامات کی تخریب کے سلسلے میں وہابیوں کے نظریات پر تنقید کرتے ہوئے وہابیوں کو مذہبی نظریات کی بنیاد پر مذہبی مقامات تخریب کرنے والا پہلا گروہ قرار دیئے ہیں۔ من جملہ ان کتابوں میں سید محسن امین کی کتاب کشف الإرتیاب اور محمد جواد بلاغی کی کتاب دعوۃ الہدی قابل ذکر ہیں۔

قبرستان بقیع

جنۃ البقیع یا بقیع الغَرقَد (ظہور اسلام سے پہلے بقیع کا نام مدینہ کا پہلا اور قدیم اسلامی قبرستان تھا اور احادیث کے مطابق حضرت محمد اس پر خاص توجہ دیتے تھے۔ جنت البقیع شیعوں کے چار امام اور بہت سارے صحابہ اور تابعین کا محل دفن ہے۔ تخریب سے پہلے ائمہ بقیع اور دیگر اشخاص کے قبور پر بارگاہیں بنی ہوئی تھیں۔ [2]

تاریخی شواہد کی بنا پر ائمہ بقیع کے مزارات اور بیت‌ الاحزان سمیت کئی دوسرے قبور پر بنی ہوئی بارگاہیں سنہ 1297ھ تک موجود تھیں اور قبرستان بقیع کی پہلی تخریب اور مدینے میں وہابیوں کے فسادات کے بعد ان بارگاہوں کو سنہ 1234ھ میں سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ محمود دوم کے حکم سے دوبارہ تعمیر کیا گیا

چنانچہ مراد میرزا(1168-1212ش) جو حسام السلطنہ کے نام سے مشہور تھے، نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کم از کم سنہ 1297ھ تک امام حسن، امام سجاد، امام باقر اور امام صادق کے مزارات پر محراب اور لکڑی کے بنے ہوئے سبز رنگ کی ضریح بنی ہوئی تھی اور حضرت زہرا(س) سے منسوب بیت الاحزان ان قبور کے پیچھے واقع تھا۔

ایاز خان قشقایی کے سفر نامے کے مطابق سنہ 1341ھ یعنی بقیع کی مکمل تخریب سے دو سال قبل شیعوں کے چار اماموں کے مزرات ایک ہی بارگاہ کے اندر موجود تھے لیکن ہر ایک کی قبر جداگانہ طور پر مشخص تھی۔ اسی طرح وہ پیغمبر اکرم کے صاحبزادے ابراہیم اور عبداللہ بن جعفر طیار کے قبور پر بھی بارگاہیں موجود ہونے کی تائید کرتے ہیں اور قبرستان بقیع کے نزدیک ایک گلی میں پیغمبر اکرم کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب، عاتکہ بنت عبدالمطلب، ام البنین مادر حضرت عباس اور بنی ہاشم کے کئی دیگر افراد سے منسوب قبور کے مشاہدہ کرنے کی بات بھی کرتے ہیں [3]

حوالہ جات

  1. سیڈ اور سیما کی ویب سائٹ سے لی گئی ہے۔
  2. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۳۰
  3. ایازخان قشقایی، سفرنامہ حاج ایاز خان قشقایی، ۱۳۸۹ش، ص۴۵۵