زیاد النخالہ
زیاد النخالہ | |
---|---|
![]() | |
دوسرے نام | ابو طارق |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1953 ء، 1331 ش، 1372 ق |
یوم پیدائش | 6 اپریل |
پیدائش کی جگہ | فلسطین، خان یونس |
مذہب | اسلام، سنی |
مناصب | تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے جنرل سیکرٹری |
زیاد النخالہ (پیدائش 6 اپریل 1953) ایک فلسطینی سیاستدان ہے ، جو سابق سکریٹری جنرل رمضان شلح کی بیماری کے بعد 2018 سے فلسطین میں اسلامی جہاد تحریک کے سکریٹری ہیں۔ آپ سابق ڈپٹی سکریٹری تھے اور ستمبر 2018 کے آخر میں نیا سکریٹری منتخب ہوئے تھے۔
سوانح عمری
6 اپریل 1953 کو زیاد رشدی النخالہ غزہ کی پٹی خان یونس میں پیدا ہوئی۔ 1956 میں ، ان کے والد ، رشدی ، مصر کے خلاف سہ فریقی جارحیت کے دوران شہید ہوگئے۔
تعلیم
انہوں نے ابتدائی تعلیم خان یونس میں اور میڈل اور ہائی سکول کی تعلیم کی غزہ پٹی میں حاصل کی۔ انہوں نے غزہ میں انسٹی ٹیوٹ آف اساتذہ میں ڈپلوما کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے کم عمری میں غزہ میں اسلام پسندوں کے درمیان ایک معروف چہرہ بن گیا ہے۔
سیاسی زندگی
ان کو اسرائیل نے 1971ء کئی بار گرفتار کرلیا۔ اسے عرب لبریشن فرنٹ کے ساتھ اپنی فوجی سرگرمیوں کی وجہ سے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی ، لیکن 21 مئی 1985 کو ، اس نے اسے 1،500 سیکیورٹی قیدیوں کے ساتھ رہا کیا۔ قیدی تبادلے کے معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ جبرئیل معاہدے کے نام سے پکارا گیا۔ ان کی رہائی کے بعد ، فلسطین میں اسلامی جہاد تحریک کے سکریٹری -جنرل فتحي الشقاقي نے انہیں غزہ کی پٹی میں عسکری ونگ "سرایا القدس" کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی۔ اسرائیل نے اپریل 1988 میں ان کو پہلے فلسطینی انتفاضہ میں شرکت کی جرم گرفتار کر لیا۔ اگست 1988 میں ان کو اس تحریک کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ لبنان ملک بدر کر دیا گیا۔
1995 میں ، النخالہ فلسطین میں اسلامی جہاد تحریک کے ڈپٹی سکریٹری بن گئے۔ 23 جنوری ، 2014 کو ، ریاستہائے متحدہ نے نخالہ کو ایک دہشت گرد قرار دیا۔ اس کے نتیجے میں اس کی جائیداد اور ریاستہائے متحدہ میں مفادات منجمد ہوگئے۔ اس نے کسی بھی شخص کو 5 ملین ڈالر کا انعام بھی دیا جو اس کی گرفتاری کا باعث بنے ہوئے معلومات فراہم کرتا ہے۔ 2018ء کو انہیں رمضان شلح کے وفات کے بعد تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے جنرل سیکرٹری مقرر کر دیا گیا۔
غزہ کی جنگ، دشمن پر فتح کے ساتھ ہی ختم ہوگي
رہبر انقلاب اسلامی سے تحریک حماس اور تحریک جہاد اسلامی کے مشترکہ وفد کی ملاقات کے کچھ گھنٹے بعد KHAMENEI.IR نے شہید اسماعیل ہنیہ اور جناب زیاد النخالہ سے گفتگو کی۔ اس گفتگو میں، جو شہید ہنیہ کا آخری تفصیلی انٹرویو بھی ہے، فلسطین کے دو اسلامی مزاحمتی گروہوں کے رہنماؤں نے فتح کے یقینی ہونے پر تاکید کی اور امت مسلمہ کے اتحاد پر زور دیا۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورتؤٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی سے تحریک حماس اور تحریک جہاد اسلامی کے مشترکہ وفد کی ملاقات کے کچھ گھنٹے بعد KHAMENEI.IR نے شہید اسماعیل ہنیہ اور جناب زیاد النخالہ سے گفتگو کی۔ اس گفتگو میں، جو شہید ہنیہ کا آخری تفصیلی انٹرویو بھی ہے، فلسطین کے دو اسلامی مزاحمتی گروہوں کے رہنماؤں نے فتح کے یقینی ہونے پر تاکید کی اور امت مسلمہ کے اتحاد پر زور دیا۔ تفصیلی انٹرویو حسب ذیل ہے:
مختلف محاذوں پر مزاحمت کا اگلا قدم کیا ہوگا؟
سوال: الحاج اسماعیل ہنیہ اور الحاج زیاد نخالہ، آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں یہ موقع دیا۔ ایسے وقت میں جب طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع ہوئے تقریباً 10 ماہ گزر چکے ہیں، مزاحمتی محاذ کے ایک دوسرے بازو نے تل ابیب کے مرکز پر حملے شروع کیے اور بڑی حد تک صیہونیوں کو سمندری محاصرے میں لے لیا۔ یمن کے آپریشن اور شمالی محاذ پر کارروائیوں کے نتیجے میں اس علاقے کی صیہونی بستیاں خالی ہو رہی ہیں اور اسرائیلی فوج کو شکست کا سامنا ہے۔ جنگ اور محاصرے کے 10 ماہ بعد مزاحمت کی طاقت میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟ اگر جنگ جاری رہی تو مختلف محاذوں پر مزاحمت کا اگلا قدم کیا ہوگا؟
اسماعیل ہنیہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سب سے پہلے میں اسلامی جمہوریۂ ایران کے مرکز سے، فلسطینی عوام اور غزہ، مغربی کنارے اور دوسری تمام جگہوں پر ان کی شجاعانہ مزاحمت کو سلام کرتا ہوں اور اسی طرح ان تمام مزاحمتی محاذوں کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جو طوفان اقصیٰ کے حامی اور ہمارے عوام اور ہماری مزاحمت کے مددگار ہیں۔
مزاحمت کے مضبوطی سے ڈٹے رہنے کی طاقت کے پیچھے تین اہم عناصر
بلا شبہ، مزاحمت کے مضبوطی سے ڈٹے رہنے کی طاقت کے پیچھے تین اہم عناصر ہیں:
پہلا عنصر ایمان اور عقیدہ ہے۔ اس سرچشمے سے نکلنے والی ایمانی اور جہادی شخصیت ہی ہے جس نے مزاحمت کو میدان میں استقامت کی طاقت، قربانی، صبر اور اس راستے کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت فراہم کی ہے۔
دوسرا عنصر فوجی تیاری ہے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن سے پہلے مزاحمتی محاذ نے ایک طویل عرصے سے اپنی آمادگي کے ذریعے اپنے اندر توانائياں ایجاد کیں اور انھیں بڑھایا اور ضروری وسائل حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تاکہ یہ جنگ اور تاریخی معرکہ شروع کر سکیں۔ جنگ کو ممکن بنایا جا سکے۔ یہ صحیح ہے کہ ہماری اور دشمن کی طاقت کے توازن میں بڑا فرق ہے لیکن مزاحمت کی داخلی صلاحیتیں اور مزاحمتی محاذ کی مدد نے اس راستے کو جاری رکھنے میں مدد کی۔
تیسرا عنصر اسٹریٹیجک اتحاد ہے۔ اس مزاحمت نے اپنے تعلقات کو مزاحمتی محاذ، قوم کے افراد کے ساتھ اور اس قوم میں اور اس خطے میں اپنی اسٹریٹیجک گہرائی کے ساتھ برقرار رکھا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس نے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات استوار کیے ہیں، چاہے وہ لاطینی امریکا میں ہوں یا روس، چین، اور جنوبی افریقا جیسے دیگر مقامات پر ہوں۔ ان تمام عوامل نے مزاحمت کے لیے سلامتی کونسل اور دیگر جگہوں پر سیاسی سہارے پیدا کیے۔
میرا ماننا ہے کہ یہ تینوں پہلو، یعنی ایمانی، فوجی اور سیاسی پہلو یعنی اسٹریٹیجک اتحاد، خداوند عالم کے فضل و کرم کے رہین منت ہیں جو اس شجاعانہ مزاحمت کا لازوال منبع ہے۔ جیسا کہ آپ نےکہا، اس میں کوئی شک نہیں کہ لبنان، یمن، عراق میں مزاحمتی محاذوں نے جو کچھ کیا ہے اور یمن کے انصار اللہ برادران کی طرف سے تل ابیب کو ایک ڈرون کے ذریعے نشانہ بنانا، فلسطین کے باہر سے صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں ایک اچھی نئي تبدیلی لا چکا ہے۔
ہمارا ماننا ہے کہ ہم ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن لمحے میں ہیں، ہمارے پاس فتحیابی کے لیے ایک بہترین موقع ہے، ان شاء اللہ۔ حالانکہ ہمارے سامنے کچھ چیلنجز ہیں جو آسان نہیں ہیں، خاص طور پر غزہ میں ہمارے عوام کے حالات، قتل، قتل عام، جنگ، تباہی، آوارہ وطنی، اور جو کچھ دشمن غرب اردن میں کر رہا ہے۔ لیکن ان شاء اللہ، ہم فتح کی طرف، فتح کے راستے پر بڑھ رہے ہیں، اللہ کے حکم اور اس کی اجازت سے۔
سوال: میں الحاج ابوطارق سے بھی یہی سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مزاحمت، طوفان الاقصیٰ کے آغاز کے دنوں سے زیادہ مضبوط ہے۔ اگر جنگ جاری رہتی ہے تو اس محاذ کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر مختلف میدانوں میں مزاحمتی محاذ کے اگلے اقدامات کیا ہوں گے؟
زیاد النخالہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سب سے پہلے، مزاحمت کی یہ طاقت، جو دس ماہ سے جاری ہے اور ان شاء اللہ فتح تک جاری رہے گی، اسلامی و قرآنی فکر اور بنیاد پر مبنی ہے، جیسا کہ قرآن مجید کہتا ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ "اور جتنی طاقت اور تیار بندھے ہوئے گھوڑے (ممکن) ہوں ان (دشمنوں) کے مقابلے کے لیے تیار رکھو۔"
سب سے پہلے، قرآن اور اسلامی ثقافت کی بنیاد پر صحت مند اور مضبوط روش کے ذریعے معاشرے کی تیاری۔ دوسرے، مزاحمتی فورسز کی مناسب آمادگي اور جنگ اور جہاد کے لیے ان کی مناسب تیاری۔ یہ دو بنیادی نکتے، میدان میں فلسطینی معاشرے اور مزاحمت کی استقامت کے اصل عوامل ہیں اور مزاحمتی فورسز اور مجاہدین میدان میں مسلسل جنگ اور امتحان کی حالت میں ہیں اور ان کی جہادی سرگرمیاں روز بروز پیشرفت کر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ، دشمن جو روزانہ فلسطینی شہریوں، بچوں اور عورتوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے، وہ اس دشمن کو سزا دینے کے لیے فلسطینی نوجوانوں اور مجاہدین کا بڑا محرک ہے۔ آپ میدان میں مجاہدین کی بہادری اور دلیری دیکھ رہے ہیں، جو دس مہینے سے اسرائیلی فوج کے ساتھ کس طرح لڑ رہے ہیں اور ان کی فوجی گاڑیوں اور سپاہیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ دنیا نے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ کوئی مجاہد دشمن کی گاڑیوں کی طرف بڑھے اور بارودی سرنگیں اور بم ٹینک کی چھت پر رکھ دے جبکہ یہ مناظر بارہا دوہرائے گئے ہیں اور بہت سے ایسے مناظر بھی ہیں جو میدان جنگ کی صورتحال کی وجہ سے کیمرے میں قید نہیں کیے جا سکے۔
فلسطینی عوام کی یہ تاریخی استقامت پورے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے اور فلسطینی عوام محسوس کرتے ہیں کہ خطے میں بھی ان کے اتحادی ہیں اور یہ وہی مزاحمتی محاذ ہے جو فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں کھڑا ہوا ہے۔ یہ موضوع بہت اہم ہے اور صرف جنگ کے ان دنوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ اسلامی جمہوریہ اور فلسطینی مزاحمت، حزب اللہ اور عراقی مزاحمت اور اسی طرح یمن میں ہمارے بھائیوں کے درمیان ایک تعلق ہے۔ اس علاقے کی تمام قومیں مسلمان ہیں اور ان میں باہمی اتحاد اور یکجہتی ہے۔ لہذا علاقے میں اسلامی موقف کا یہ اتحاد، روحانی اور عملی طور پر فلسطینی قوم کی مزاحمت پر بہت اثر انداز رہا ہے۔
یہ جنگ دشمن کی شکست کے بغیر ختم نہیں ہوگی
ان شاء اللہ یہ جنگ دشمن کی شکست کے بغیر ختم نہیں ہوگی۔ صیہونی معاشرے میں انتشار کے نشانات لوگوں کی نظروں کے سامنے ظاہر ہو رہے ہیں اور فلسطین کے اتحاد، میدان جنگ اور سیاست میں مزاحمت کے اتحاد کی علامتیں بھی ظاہر ہیں۔ اس کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگي کہ آج فلسطین میں اسلامی تحریک، فلسطین میں مجاہدین اور مزاحمتی فورسز ایک آواز ہو کر مذاکرات اور سیاست میں موجود ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مزاحمت نے فلسطینی قوم کو اسرائیل کے خلاف متحد کر دیا ہے۔ اور ان شاء اللہ، ایک فتح کے بعد دوسری فتح اور مزید فتوحات، چاہے جنگ کتنی ہی لمبی ہو جائے۔
مزاحمت کی پوزیشن کی تقویت اور اس کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے میں رہبر انقلاب کے تاریخی نظریات
سوال: جناب الحاج ابو طارق، آپ نے طوفان الاقصیٰ کے آپریشن کے بعد کئي بار رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (دام ظلہ) سے ملاقات کی ہے۔ ان ملاقاتوں میں کون سا موضوع سب سے زیادہ دوہرایا گیا اور اس پر تاکید کی گئی؟ مختلف مزاحمتی محاذوں کے درمیان ہم آہنگی کے تعلق سے ان ملاقاتوں کی اہمیت کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: سب سے پہلے تو میں یہ کہوں کہ رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات فلسطینی مزاحمت کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے اور اسلامی جمہوریہ نے اپنی تشکیل، قیام اور وجود کے آغاز سے ہی فلسطینی مزاحمت اور عوام کے لیے اپنے دروازے کھول دیے تھے۔
رہبر انقلاب کے ساتھ ملاقاتیں ان کے قلبی اور عقلی عقائد اور مزاحمت کے تعلق سے ان کے واضح اور اعلانیہ موقف اور اسی طرح خطے میں صیہونی پروجیکٹ کے سلسلے میں ان کے مخالفانہ اور مجاہدانہ موقف کی وجہ سے جاری ہیں۔ ان کے اس موقف نے اسلامی جمہوریہ کی طرف سے مزاحمت کی حمایت اور آغوش پھیلا کر مزاحمتی قوتوں کے استقبال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
لہذا بلا شبہ مزاحمت کی پوزیشن کی تقویت اور اس کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے میں رہبر انقلاب کے تاریخی نظریات اور موقف نے بنیادی کردار ادا کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ اسلامی جمہوریہ ہمیشہ فلسطین میں مزاحمت کی حقیقی حامی کے صحیح مقام پر رہے۔
اسی لیے ہم ہمیشہ اسلامی جمہوریہ کے رہبر کے بڑے اور تاریخی کردار کو فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں یاد رکھتے ہیں اور فلسطین میں صیہونی پروجیکٹ کے خلاف مزاحمتی فورسز کے اتحاد پر زور دیتے ہیں[1]۔
جب تک کامیابی نہیں مل جاتی ہم دشمنوں سے لڑتے رہیں گے
جہاد اسلامی فلسطین کے جنرل سیکرٹری زیاد النخالہ نے کہا کہ دشمن کے سامنے ڈٹ کے کھڑے ہونا ہی غاصب صہیونیوں سے نجات کا واحد راستہ ہے ، اور جب تک کامیابی نہیں مل جاتی ہم دشمنوں سے لڑتے رہیں گے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جہاد اسلامی فلسطین کے جنرل سیکرٹری زیاد النخالہ نے اتوار کے روز شام میں فلسطینی فلسطینی گروہوں کے سربراہان کے ساتھ ملاقات میں فلسطینی مزاحمت کی فتح تک جنگ جاری رکھنے کے عزم پر تاکید کی اور کہا کہ اگر ہم دشمن کے خلاف ڈت کر نہیں لڑیں گے تو ہمیشہ غاصب صہیونی ہم پر مسلط رہیں گے۔
زیاد النخالہ نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں کہا:غزہ کی موجودہ جنگ فلسطینی عوام اور ان کی مزاحمت دونوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، غزہ ہم سب اور ہمارے لوگوں کے لیے ایک امتحان ہے جو غاصبوں کے ظلم اور مجبوراً نقل مکانی کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا: غزہ میں ہمارے لوگ اس عالیشان طریقے سے لڑ رہے ہیں جس طرح وہ پہلے کبھی نہیں لڑے تھے، اور دشمن کو بھی اس بار ایسی مزاحمت کا سامنا ہے جس کا اس سے پہلے کبھی اس نے سامنا نہیں کیا تھا۔
جہاد اسلامی فلسطین کے جنرل سیکرٹری نے کہا کہ دشمن کے سامنے ڈٹ کے کھڑے ہونا ہی غاصب صہیونیوں سے نجات کا واحد راستہ ہے ، اور جب تک کامیابی نہیں مل جاتی ہم دشمنوں سے لڑتے رہیں گے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: اگر چہ اس مقاومت کی راہ میں ہمارے لوگوں نے بہت قربانیوں دی ہین لیکن اس کے باوجود مزاحمت کا راستہ ہی بہترین راستہ ہے[2]۔
سید حسن نصر اللہ سے ملاقات
سید حسن نصر اللہ کی اسلامی جہاد تحریک کے سیکرٹری جنرل زیاد نخالہ اور حماس کے رہنما صالح العروری سے ملاقات تہران (ارنا) المیادین کی رپورٹ کے مطابق لبنان میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے سیکریٹری جنرل زیاد نخالہ اور تحریک حماس کے سربراہ صالح العروری سے مشترکہ ملاقات میں فلسطین کی حالیہ صورتحال کا جائزہ لیا۔
تینوں رہنماؤں نے صورتحال کے استحکام اور مقبوضہ علاقوں کے ساتھ لبنان کی سرحدوں میں جاری جھڑپوں کا بھی جائزہ لیا۔ انہوں نے غاصب صیہونی حکومت کی جارحیت کو روکنے کے طریقوں، غزہ کی پٹی اور فلسطینی علاقوں کے استحکام اور مغربی کنارے کے حالات کا بھی جائزہ لیا[3]۔
حسن نصراللہ فلسطین کے سید الشہداء اور ہم سب کے دلوں میں زندہ ہیں
تحریک جہاد فلسطین کے سربراہ نے سید مقاومت شہید نصراللہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطین کے سید الشہداء ہیں اور ہم سب کے دلوں میں زندہ ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ کے سابق سیکریٹری جنرل شہید حسن نصراللہ اور شہید ہاشم صفی الدین کی تشییع جنازہ میں لبنان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے دسیوں لاکھ افراد نے شرکت کی۔ مسئلہ فلسطین کے لئے ان کی عظیم خدمات پر فلسطینی رہنماوں اور عوام نے بھی ان کو خراج عقیدت پیش کی۔
شہید نصراللہ سارے فلسطینیوں کے دل میں زندہ ہیں
فلسطین کی جہاد اسلامی تحریک کے سیکریٹری جنرل جناب زیاد نخالہ نے خامنہ ای ڈاٹ آئی آر سے گفتگو کرتے ہوئے شہید حسن نصراللہ کو مسئلہ فلسطین کے شہداء کے سید اور سردار قرار دیا اور کہا کہ شہید حسن نصراللہ کے جسد خاکی کو اگرچہ بیروت میں دفن کیا گیا تاہم شہید نصراللہ سارے فلسطینیوں کے دل میں زندہ ہیں۔ انہوں نے صہیونی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائيل اپنے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدے پر عملدرآمد پر مجبور ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مقاومت کے پاس موجود یرغمالیوں میں صہیونی فوجی اور جنرل بھی ہیں۔
رہبر معظم کی فلسطینی مزاحمت کی سیاسی اور معنوی حمایت
غزہ میں جنگ بندی کے بعد رہبر معظم کے ساتھ پہلی ملاقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات فلسطینی قوم اور مقاومت کے لیے بہت اہم ہے۔ کچھ ہی دن پہلے حماس کے ہمارے بھائيوں کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی تھی۔ رہبر معظم سیاسی، معنوی اور دیگر حوالوں سے فلسطینی مزاحمت کی حمایت بہت ہے۔ اسی وجہ سے فلسطینی قوم اور مزاحمت رہبر انقلاب کی بہت قدردان ہے۔ ملاقات کے دوران رہبر انقلاب نے فلسطینی مقاومت اور اس کی کامیابیوں کو بہت زیادہ سراہا۔
حماس اور جہاد اسلامی ایک پیج پر
طوفان الاقصی آپریشن اور صہیونی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے عمل کے دوران فلسطینی مقاومتی تنظیموں کے باہمی اتفاق اتحاد کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مزاحمتی گروہ مخصوصا حماس اور جہاد اسلامی پہلے ہی دن سے ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی صف میں ہیں۔ ہم نے پہلے ہی دن اعلان کردیا تھا کہ میدان جنگ میں ہم سب ایک ہی صف میں ہیں۔
سیاسی عمل اور مذاکرات میں بھی ایک ہی نظریے کے ساتھ ہماری ایک ہی ٹیم ہے۔ فلسطینی مقاومت کے تمام شہید خاص طور پر حماس اور جہاد اسلامی کے شہید، اس بڑی اور مقدس جنگ کے شہید ہیں۔ میں یہیں سے اعلان کرتا ہوں کہ فلسطینی قوم نے اس جنگ میں اپنے رہنماؤں اور کمانڈروں کا نذرانہ پیش کیا۔ برادر شہید اسماعیل ہنیہ، برادر شہید یحیی سنوار اور جہاد اسلامی اور حماس کے دوسرے بڑے کمانڈر شہید ہوئے۔
لبنانی مقاومت بدستور فلسطینی مزاحمت کی پشت پناہ ہے
اس موقع پر ہم لبنانی مقاومت اور بھائیوں کا بھی خصوصی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لبنانی مقاومت بدستور فلسطینی مزاحمت کی پشت پناہ ہے۔ سید بزرگوار، فلسطین کے سید الشہداء، جناب سید حسن نصر اللہ اور حزب اللہ کے بڑے بڑے کمانڈر جہاد اور استقامت کی راہ میں شہید ہوئے۔ شہادت اور کامیابی یہ سارے واقعات صیہونی دشمن سے ٹکراؤ میں متفقہ موقف کے تحت سامنے آئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور یمن کے شہداء کا بھی ذکر کرنا لازم ہے۔ خلاصہ یہ کہ مختلف ممالک اور خطوں کے افراد نے ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر جہاد کیا۔ مقاومت ایک اور متحد ہے۔ اسی اتحاد اور اتفاق کی وجہ سے ہم یہ عظیم کامیابی حاصل کر سکے۔
طوفان الاقصی خطے میں مزاحمتی گروہوں کے درمیان اتحاد کی تجلی
فلسطینی مقاومت اور عوام کے درمیان اتحاد قائم کرنے میں طوفان الاقصی کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ طوفان الاقصی خطے میں مزاحمتی گروہوں کے درمیان اتحاد کی تجلی تھی۔ حزب اللہ جیسی مقاومتی تنظیم کی شرکت کے بعد یکجہتی اور اتحاد کا عظیم مظاہرہ دیکھا گیا۔ حزب اللہ کی عظیم قربانیاں خطے میں مقاومتی محاذ کے درمیان اتحاد کی عکاس ہیں۔
حزب اللہ کے رہنماؤں کی شہادت خاص طور پر جناب سید حسن نصر اللہ کی شہادت، فلسطین کے لیے بھی ایک بڑا نقصان ہے۔ فلسطینی مقاوممت جناب سید حسن نصر اللہ کی شہادت کو فلسطین، لبنان، پوری امت مسلمہ اور پورے مقاومتی محاذ کے لیے ایک بڑا نقصان سمجھتی ہے۔ طوفان الاقصی نے تمام مزاحتمی گروہوں کو آپس میں متحد کردیا اور امت مسلمہ کو فلسطینی قوم اور لبنانی مزاحمت کی پشت پر متحد کردیا۔
اسی اتحاد نے صہیونی حکومت کو پیش قدمی سے روکے رکھا۔ 1982ء کی لڑائی میں صہیونی فوج نے کئی کلومیٹر پیش قدمی کرتے ہوئے لبنان کے اندر بڑے علاقے پر قبضہ کیا تھا لیکن طوفان الاقصی کے بعد ہونے والی اس جنگ میں صہیونی فوج اپنی پالیسی کے مطابق آگے نہیں بڑھ سکی۔ مقاومت کے ہاتھوں امریکہ اور صہیونی حکومت کی شکستوں کے بارے میں زیاد النخالہ نے کہا کہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے بارے میں سامنے آنے والی سبھی خبریں ایک گھٹیا عالمی پروپیگنڈے کا حصہ اور مذاکرات کو شکست سے دوچار کرنے کی کوشش ہیں۔
اسرائیل سمجھوتے پر مجبور
اسرائیل اپنے قیدیوں کو رہا کرانے کے لیے سمجھوتے پر عمل کرنے کے لیے مجبور ہے، خاص طور پر اس لیے کہ باقی بچنے والے یرغمالیوں میں صہیونی فوجی اور جنرل بھی شامل ہیں۔ بنابریں اسرائیل ہمیں نظرانداز نہیں کرتے ہوئے نئی جنگ شروع نہیں کرسکتا۔ یہ بات قطعی اور واضح ہے۔ میں فلسطینی قوم اور فلسطینی خاندانوں کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اسرائيل کچھ نہیں کرسکے گا کیونکہ پچھلے ڈیڑھ سال میں وہ جو کرسکتا تھا، اس نے کر لیا۔
اس دوران امریکہ نے نہ صرف اسرائيل کی حمایت کی بلکہ اس کے ساتھ مل کر لڑتا بھی رہا۔ اس نے تل ابیب کو ٹیکنالوجی دی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے میزائلوں کا مقابلہ کرنے میں مدد کی۔ بنابریں میڈیا میں نیتن یاہو کے ذریعے سمجھوتے کو ناکام بنانے کی کوشش کے سلسلے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ صیہونیوں کو اس معاہدے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بھی پورا یقین اور اطمینان ہے کہ جو کچھ سمجھوتے میں طے ہوا ہے، وہ عملی جامہ پہنے گا۔
زیاد النخالہ نے کہا کہ میں ایک بنیادی مسئلے کے بارے میں بھی متنبہ کر رہا ہوں کہ عرب ملکوں کا موقف متحدہ ہونا چاہیے اور انھیں، سیاسی محاذ پر مستقبل میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس میں دشمن کو ایسا کوئی امتیاز نہیں دینا چاہیے جو فلسطینی قوم کے مفادات کے خلاف ہو۔ شہید حسن نصراللہ اور شہید ہاشم صفی الدین کی تشییع جنازہ کے حوالے سے تحریک جہاد فلسطین کے سربراہ نے کہا کہ سب سے پہلے تو میں کہوں گا کہ سید مقاومت اور شہید صفی الدین کی شایان شان تشییع کا ہونا ضروری تھا۔
سید حسن نصر اللہ شہید فلسطین، شہید اسلام اور شہید قدس ہیں
میں کوئی تعارف نہیں کررہا ہوں بلکہ صدق دل سے کہہ رہا ہوں کہ جناب سید حسن نصر اللہ شہید فلسطین، شہید اسلام اور شہید قدس ہیں اور ہم سب کے دلوں میں ہیں۔ فلسطینی قوم اور فلسطینی مزاحمت کی حیثیت سے ہم، ہمیشہ جہاد اور مزاحمت کے اس عظیم مظہر اور نمونۂ عمل کے ساتھ وفادار رہیں گے۔ وہ ایسے شہید ہیں جو ہمارے درمیان سے چلے گئے اور آج ہم مزاحمتی محاذ میں ان کی دوری اور فراق کو محسوس کرتے ہیں۔
ہمیں خداوند عالم سے ان کے لیے اجر کی دعا کرنی چاہیے اور جناب سید حسن نصر اللہ اور ان تمام برادران کی یاد کو باقی رکھنا چاہیے جو اس لڑائی میں ہمارے درمیان سے چلے گئے۔ جی ہاں! وہ ہمارے درمیان سے چلے گئے لیکن انھوں نے ہم پر بڑا اثر ڈالا اور فلسطینی مزاحمت کی حمایت کی ایک عظیم اور گہری تاریخ رقم کی۔ انھوں نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی جنگ میں فلسطینی مزاحمت کی حمایت اور اس کی پشت پناہی میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی۔ یہ چیز خطے میں مزاحمت کے درمیان پائے جانے والے اتحاد کی عکاسی کرتی ہے۔ فلسطینی مزاحمت کے شانہ بشانہ حزب اللہ کی تاریخی استقامت کبھی فراموش نہیں کی جائے گی[4]۔
حوالہ جات
- ↑ غزہ کی جنگ، دشمن پر فتح کے ساتھ ہی ختم ہوگي-شائع شدہ از:8 اگست 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 فروری 2025ء۔
- ↑ جب تک کامیابی نہیں مل جاتی ہم دشمنوں سے لڑتے رہیں گے- شائع شدہ از: 13 مئی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 فروری 2025ء۔
- ↑ حسن نصر اللہ کی اسلامی جہاد تحریک کے سیکرٹری جنرل زیاد نخالہ اور حماس کے رہنما صالح العروری سے ملاقات-25 اکتوبر 2023ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 فروری 2025ء۔
- ↑ حسن نصراللہ فلسطین کے سید الشہداء اور ہم سب کے دلوں میں زندہ ہیں، زیاد النخالہ- شائع شدہ از: 24 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 فروری 2025ء۔