مندرجات کا رخ کریں

اسرائیل

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 13:16، 16 ستمبر 2025ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

اسرائیل جغرافیائی اعتبار سے بحیرۂ روم کے جنوب مشرقی کنارے پر مغربی ایشیا میں واقع ہے۔ اس کے شمال مشرق میں شام، مشرق میں اردن، مشرق اور جنوب میں فلسطین، جنوب میں مصر، خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر اور شمال میں لبنان واقع ہیں۔ اسرائیل خود کو یہودی جمہوریہ کہلاتا ہے اور دنیا میں واحد یہود اکثریتی ملک ہے۔

تاریخی پس منظر

لفظ اسرا‏ئیل کا مفہوم

تاریخی اعتبار سے لفظ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام کی قوم کو بنی اسرائیل یا اسرائیلی کہا جانے لگا۔ جدید ریاست اسرائیل کے شہریوں کو بھی اسرائیلی کہا جاتا ہے۔

ارض موعودہ

بائبل کے مطابق خداوند نے ”ارض اسرائیل“ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی وجہ سے اسے ارض موعود ہ کہا جاتا ہے۔

ارض اسرائیل کا محل وقوع

” تناکا“ یعنی عبرانی بائبل میں ارض اسرائیل کی حدود کے حوالے سے متعدد بیانات ملتے ہیں، تاہم ان کے مطابق ارض اسرائیل مصر کے دریائے نیل سے دریائے فرات تک کے علاقے پر محیط ہے۔ گویا اس میں موجودہ دور کی ریاست اسرائیل غربی کنارہ، غزہ کی پٹی، شام اور لبنان شامل ہیں۔ ان علاقوں کے علاوہ جزیرہ نما سینائی(Sinai Peninsula) کو بھی ارض اسرائیل میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ مصر سے بنی اسرائیل کی ملک بدری اسی راستے سے ہوئی تھی۔ یہودی مقدس صحائف کے مطابق دریائے اردن کے مشرقی جانب کا علاقہ بھی، جس میں بیشتر اردن شامل ہے، ارض اسرائیل کا حصہ ہے۔ یہودی مقدس صحا‏ئف کے مطابق خداوند نے مصر سے نکلتے والے بنی اسرائیل کو ''ارض کنعان'' عطا کردی تھی [1]۔

ارض اسرائیل اور ریاست اسرائیل

29نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کی رو سے فلسطین کے برطانوی انتداب(British Mandate of Palestine) کو ریاست اسرائیل قرار دیا گیا۔ عبرانی زبان میں ریاست اسرا‏ئیل کو مدینات یسرایئل کہا جاتا ہے، جبکہ عربی زبان میں دولۃالاسرائیل کہتے ہیں۔

ریاست اسرائیل جغرافیائی اعتبار سے بحیرۂ روم کے جنوب مشرقی کنارے پر مغربی ایشیا میں واقع ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا گیا ہے لیکن اس کی حیثیت متنازعہ ہے چنانچہ بہت سے ملکوں نے اپنے سفارت خانے تل ابیب میں قائم کئے ہوئے ہیں۔ نظام حکومت کے اعتبار سے ریاست اسرائیل ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ یہ دنیا کی واحد یہودی ریاست ہے، تاہم اس کی آبادی مختلف نسلی اور مذہبی پس منظروں کی حامل ہے۔

ایلیاہ اور اسرائیل

یہودی دنیا کے مختلف حصوں میں آباد تھے۔ سب سے پہلے 1881ء میں وہ عیسائیوں کے مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے ان علاقوں میں پناہ گزيں ہوئے جنہیں آج اسرائیل کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کی اس نقل مکانی کو عبرانی میں ایلیاہ کہا جاتا ہے۔ ایلیاہ کی دوسری وجہ موشے ہیس کے سوشلسٹ صہیونی نظریات تھے۔ یہودیوں نے عثمانی حکومت کے کارپردازوں اور عرب زمینداروں سے اراضی خرید لی اور بستیاں بساکر کھیتی باڑی کرنے لگے۔ جس کے بعد مقامی عربوں کے ساتھ ان کی کشیدگی بھی رونما ہوئی۔

صہیونیت کی ابتداء

ایک آسٹریائی یہودی تھیوڈور ہرزل(Theodor HerzL) ویانا کا شہری اور یہودی صحافی تھا۔ 1895ء میں ایک فوجی رسم میں شرکت نے اسے انقلابی سوج دی۔ اس رسم میں ایک یہودی کیٹین الفریڈڈریفس کو بطور سزا قتل کیا جانے والا تھا۔ مجمع نے جب بلند آواز میں کہا، اس غدارو کو مار دو تو ہرزل کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس نے صہیونی تحریک کی بنیاد رکھی جو صہیون نامی مقدس پہاڑ سے منسوب ہے۔ سو صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ لکھا جس کا عنوان تھا” یہودی ریاست“ ۔صہیونیت کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس سوئزرلینڈ کے ایک کاسینو (قمار خانے) میں منعقد ہوئی جس میں ہرزل کو لیڈر منتخب کیا گیا۔ اس نے یہودی نیشنل فنڈ اور ایک بینک قائم کیا تاکہ فلسطین میں زمین خریدی جاسکے۔ سفید اور نیلے رنگ کا ایک قومی جھنٹدا بھی بنایا گیا۔ سوویت روس میں یہودیوں کے قتل عام نے فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت کو بڑھاوادیا اور یہی لوگ صہیونیت کے پہلے علمبردار بنے۔ [2]۔1897 میں اس نے پہلی عالمی صہیونی کانگرس منعقد کی۔ صہیونی تحریک کے نتیجے میں 1904ء سے 1914ء کے دوران ایلیاہ کی دوسری لہر امڈی اور تقریبا چالیس ہزار یہودی ان علاقوں میں جا بسے جنہیں آج ریاست اسرائیل کہا جاتا ہے۔

اسرائیل کا رقبہ

اسرائیل کا کل رقبہ بشمول مقبوضہ علاقوں کے 22145 مربع کلومیٹر ہے ۔ یہ دنیا کا 149واں بڑا ملک ہے۔

بالفور اعلامیہ

1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے بالفور اعلامیہ پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ازم کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔1922ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔اس وقت تک علاقے کی 28 فیصد ارا ضی صہیونی تنظیموں اور یہودیوں کی انفرادی ملکیت میں آ چکی تھی۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔ عربوں نے ابتدائی مدت کے دوران انتداب اور اعلان بالفور کے خلاف سخت مہم جاری رکھی۔ عربوں کا پہلا ملک گیر احتجاج اپریل 1920ء کو ہوا اسی طرح دوسرا 1921ء اور تیسرا 1929ء کو ہوا۔ پھر 1936ء اور 1939ء کے دوران بغاوت رونما ہوئی۔ جس کے تحت چھ ماہ کی ہڑتال کی گئی۔ عربوں نے تین مطالبات پر زور طریقے سے پیش کئے: یہودیوں کی فلسطین آمد فوری روکی جائے عرب زمین یہودیوں کو الاٹ نہ کی جائے جمہوری حکومت کا قیام، جس میں عربوں کو آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے [3]۔

زیر زمین یہودی گروپ

جب مقامی عربوں اور باہر سے آکر آباد ہونے والے یہودیوں میں کشیدگی بڑھی اور انگریزوں کی حمایت میں قدرے کمی آئی تو یہودیوں نے ہگاناہ (Haganah)کے نام سے دفاعی گروپ بنا لیا۔ بعد از اں ہگاناہ کے چند اراکین نے عسکری گروپ ارگن(Irgun) بنالیا۔ اس کے بعد اوراہام سٹرن نے ارگن سے الگ ہو کر ایک زیادہ انتہا پسند گروپ لیہی(Lehi) بنالیا، جسے عرف عام میں ”سٹرن گینگ“(Stern Gang) کہا جاتا تھا۔ 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ چھڑنے میں ان گروپوں کا بڑا اہم کردار تھا۔ اس کے علاوہ یورپ سے یہودیوں کی نقل مکانی، اسرائیلی دفاعی افواج کی تشکیل، فلسطین سے برطانیہ کے انخلاء اور اسرائیل کی بہت سی موجودہ سیاسی پارٹیوں کے قیام میں بھی ان زیر زمین یہودی گروپوں نے اساسی کردار ادا کیا ہے۔

ریاست اسرائیل کی تشکیل

بڑھتے ہو‎‎ۓ تشدد اور یہودیوں اور عربوں میں مفاہمت کروانے میں ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے 1947ء میں فلسطینی انتداب سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1947ء کا یو این پارٹیشن پلان منظور کیا، جس کے تحت علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہودیوں کو 55 فی صد جبکہ عربوں کو 45 فی صد دینا منظور کیا گیا۔ اس منصوبے کے مطابق یروشلم کو بین الاقوامی علاقہ قرار دیا گیا تھا، جس کا انتظام اقوام متحدہ کے پاس ہوta۔ 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے تقسیم کے منصوبے کی منظوری کے فوری بعد ڈیوڈ بن گوریان نے اسے تسلیم کرلیا جبکہ عرب لیگ نے اسے مسترد کردیا۔

ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ

14مئی 1948ء کو جاری کیا جانے والا ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ اس امر کا باقاعدہ اعلان تھا کہ فلسطین کے برطانوی انتداب(British Mandate of Palestine) میں ایک نئی یہودی ریاست قائم کردی گئی ہے۔ یہ اعلامیہ برطانوی انتداب کے خاتمے سے ایک دن پہلے تل ابیب میں واقع تل ابیب میوزیم آف آرٹ میں منعقدہ واد لیومی (یہودی قومی کونسل) کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا اور منظور کیا گیا۔ منظوری سے پہلے اس کی تیاری پر کئی ماہ غور و غوض کیا گیا تھا۔ 12 مئی 1948ء کو یہودی قومی انتظامیہ کا اجلاس ہوا جس میں غور کیا گیا کہ امن معاہدے کی امریکی تجویز قبول کی جائے یا نئی ریاست کا قیام کا اعلان کیا جائے۔ کونسل کے دس میں سے چھ اراکین نے نئی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔ اس اعلان کے بعد چند منٹوں میں نئی ریاست اور اس کی حکومت کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تسلیم کرلیا۔ تین دن بعد سوویت یونین کے صدر سٹالن نے بھی اسرائیل کو قبول کر لیا۔ جبکہ عرب ریاستوں اور فلسطینوں نے اس کی مخالفت کی۔

قیام اسرائیل کے اسباب اور نقصانات

انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بیسویں صدی کے وسط سے قبل دنیا کے نقشے پر کوئی ایسی مملکت موجود نہ تھی جو کسی مذہبی نظر‏ئیے یا تفریق کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ہو۔ دنیا میں موجود ممالک نسل، زبان اور علاقائی ثقافت اور رسوم و رواج کی بنیاد پر قائم ہوئے ۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب دنیا دوسری عالمگیر جنگ سے نبرد آزما ہوکر زندہ رہنے کے نئے اصول مرتب کر رہی تھی تو اسی وقت ایک ایسی سازش نے جنم لیا جو اب تک عالم انسانیت اور بالخصوص عرب دنیا کو بے چین کیے ہو‎ئے ہے۔ کیونکہ یہ بے چینی ایک ایسے خطہ زمین کے تقدس کے حوالے سے ہے جو انبیاء کی سرزمین کہلاتی ہے۔ اس لحاظ سے پوری امت مسلمہ مضظرب ہے اور وہ مسئلہ ہے اسرائیلی ریاست جو خالصتا مذہبی تفریق کی بنیاد پر قائم ہوئی اور اس کا کوئی قوی پہلو دنیا کے سامنے موجود نہیں۔ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل اپنی سرحدی حدبندیوں ( جو تسلیم شدہ نہیں) کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے لیے ظلم اور بربریت کے سب ہتکھنڈوں کو استعمال کر رہا ہے۔ عرب علاقے میں قا‏ئم حزب اللہ میلیشیا جو ایک عسکری تنظیم ہے۔یہ بھی مذہب کی بنیاد پہ نہیں بلکہ اپنی سرزمین کے تحفظ اور اس کے حصول کے لیے جس پر اسرا‏ئیل نے قبضہ کر رکھا ہے، اسرائیل سے بر سر پیکار ہے [4]۔

امریکی اسرائیلی تعلقات

امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی کہانی بہت پرانی ہے۔ کئی ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر امریکہ اسرائیل کی حمایت کیوں کرتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے؟ یا امریکیوں کے دلوں میں اسرائیل کے لیے انتہائی نرم گوشہ کیوں ہے؟

سیاسی حمایت

امریکہ وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو 1948ء میں تشکیل کے چند منٹ بعد ہی تسلیم کرلیا۔ اس وقت سے آج تک دونوں ممالک کے تعلقات چٹان کی طرج مظبوط رہے ہیں۔ امریکہ یا اسرائیل میں حکومت کوئی بھی ہو، ان تعلقات میں کبھی فرق نہیں آیا۔ حالانکہ یہ تعلقات نشیب و فراز سے بھی گزرے مگر بنیادی تعلق میں کوئی فرق نہیں رہا۔ اسرائیل مشرق وسطی کا واحد ملک ہے جو اس خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے امریکہ کے بھروسے کے قابل ہے۔ دونوں ممالک کو یقین ہے کہ عوام کی فلاح ، بہبود، عالمی امن، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی اس وقت ممکن ہے کہ جب امریکہ اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے۔

فوجی حمایت

اسرا‏ئیل کی تشکیل کے بعد امریکہ اسرائیل کو فوجی اسلحہ کی فروخت کے معاہدہ کا حصہ بن گیا۔ گو کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں امریکہ نے کئی ملین ڈالرز میں کا فوجی اسلحہ عرب ممالک کو بھی فروخت کیا مگر 1962ء تک اسرائیل کو باک ہاک اینٹی ائیر کرافٹ میزائل فروخت کیے اور امریکہ کی طرف اسرائیل کو فوجی حمایت ابھی تک جاری ہے۔

معاشی تعاون

1951ء میں امریکہ نے پہلی بار اسرائیل کو یہودیوں کی آبادکاری کے لیے 65 ملین ڈالر کی امداد دی۔ تین سال میں 650000 آبادی کے اسرائیل میں پوری دنیا اور یورپ سے مزید 6 لاکھ یہودی آبادکار منتقل ہوئے جس کے بعد مختلف شکلوں میں یہ امداد تعلقات میں بڑھنے والی گرمجوشی کے ساتھ بڑھتی رہی۔

مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟

جنوری 1915 میں لبرل پارٹی کے سیاست دان ہربرٹ سیموئل نے اپنا خفیہ میمو ’دی فیوچر آف فلسطین‘ تیار کیا، جسے کابینہ میں تقسیم کیا گیا اور جس میں انہوں نے الحاق اور سلطنت برطانوی کی بتدریج سرپرستی میں ایک خودمختار یہودی ریاست بنانے کی حمایت کی۔ 1907 تک برطانیہ مشرق وسطیٰ میں اپنے غلبے کو مضبوط کرنے کے لیے بفرسٹیٹ کی ضرورت پر غور کر رہا تھا۔ برطانوی صہیونی رہنما چائم ویزمین، جو ایک حیاتیاتی کیمیا دان تھے، نے اس وقت مقبوضہ بیت المقدس جا کر جافا کے قریب زمین خرید کر ایک کمپنی قائم بنائی۔ تین سال کے اندراندر شمالی فلسطین کے علاقے مرج بن عامر میں تقریبا 10 ہزاردونم زمین حاصل کی گئی، جو ایکڑ کے برابر زمین کی پیمائش ہے، جس کی وجہ سے 60 ہزار مقامی کسانوں کو یورپ اور یمن سے آنے والے یہودیوں کو مجبوراً جگہ دینی پڑی۔ 14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ ختم ہوتے ہی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون کی قیادت میں اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی، جس کو امریکہ اور سوویت یونین سے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔

لیکن خونی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ جس میں تین ہزار مزاحمتی جنگجو نئی قوم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور سات لاکھ فلسطینی عوام کو لڑائی سے بھاگ کر اردن، لبنان، شام، مغربی کنارے اور غزہ میں پناہ لینی پڑی۔

یوم نکبہ

اس تاریخ کو فلسطینی عوام کی نقل مکانی، اب بھی ہر سال ’یوم نکبہ‘ کے طور پر منائی جاتی ہے، جسے عربی میں ’تباہی‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور جس دن فلسطینی تقاریر کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں اور ان گھروں کی چابیاں لہراتے ہیں جنہیں وہ پیچھے چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے اور اب بھی واپسی کی امید رکھتے ہیں۔ دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں تسلیم کیا گیا کہ فلسطینی عوام ’جو اپنے گھروں کو واپس جانا اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں انہیں جلد از جلد ایسا کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔‘ اسرائیل نے اس قرارداد کو نئی ریاست، خاص طور پر یہودی آبادی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا [5]۔

فلسطین پر اسرائیلی حملوں کی داستان

اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟ صیہونی حملوں میں 7 مئی سے 18 مئی کی سہ پر تک 85 بچوں سمیت 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے تھے۔ صیہونی ریاست اسرائیل نے مسلمانوں کے لیے اہم مہینے رمضان المبارک میں مقدس ترین رات ليلۃ القدر کے موقع پر فلسطینیوں پر مظالم اور حملوں کا آغاز کیا۔ اسرائیل فوج نے اس مرتبہ ليلۃ القدر کے موقع پر مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کے علاقے شیخ جراح سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالے جانے کے دوران حملے شروع کیے جو دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد ہوگئے۔ اسرائیلی کارروائیوں سے 7 سے 18 مئی کی سہ پہر تک 58 بچوں اور 34 خواتین سمیت 201 افراد جاں بحق ہوچکے تھے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اسرائیلی فوج نے اتنے کم عرصے میں پرتشدد کارروائیاں کرکے اتنی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی زندگیاں ختم کی ہوں۔

اسرائیل گزشتہ 73 برس سے وقتاً بوقتاً فلسطینیوں پر حملے کرتا آ رہا ہے، جس میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور لاکھوں نقل مکانی پر مجبور کیے گئے۔ اگرچہ گزشتہ 73 سال کا مستند ڈیٹا دستیاب نہیں ہے تاہم مختلف رپورٹس کے مطابق اسرائیلی قبضے کے بعد فلسطینی سرزمین پر ہونے والے حملوں میں ایک سے ڈھائی لاکھ تک فلسطینی افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

اقوام متحدہ (یو این) کے فلسطینی سرزمین پر نظر رکھنے والے خصوصی ادارے (او سی ایچ اے) کے اعداد و شمار کے مطابق صرف آخری 20 سال میں ہی اسرائیلی حملوں میں 10 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے۔

اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام ادارے فلسطینی سرزمین ہر ہونے والی دہشت گردی کو اسرائیل - فلسطین تنازعے کے طور پر رپورٹ کرتے ہیں، جس پر پوری مسلم دنیا سمیت دنیا کے 135 سے زائد ممالک کو اعتراض رہتا ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2008 سے 2020 کے اختتام تک اسرائیلی حملوں سے 5 ہزار 590 فلسطینی جاں بحق جب کہ فلسطینیوں کی جوابی کارروائیوں سے محض 251 اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر تعداد اسرائیلی فوجیوں کی تھی۔

اقوام متحدہ اپنی رپورٹس میں متعدد مرتبہ تسلیم کرچکا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کی تعداد جوابی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود عالمی ادارے نے کبھی بھی اسرائیلی جارحیت کو دہشت گردی یا حملے قرار نہیں دیا۔

اقوام متحدہ کو چھوڑ کر اگر یہودیوں کی جانب سے بنائی گئی ورچوئل لائبریری کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کے ہلاک ہونے کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

یہودیوں کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 1948 سے 2014 تک اسرائیلی حملوں میں 91 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جب کہ اسی عرصے کے دوران 24 ہزار اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے۔

ووکس میڈیا کی 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق فلسطینی سرزمین پر ہونے والے حملوں میں ہونے والی ہر 24 اموات میں سے 23 اموات فلسطینیوں کی ہوتی ہیں جب کہ وہاں ہونے والے ہر طرح کے دہشت گردانہ حملوں میں اسرائیلیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کے امکانات 15 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔

اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2000 سے 2014 تک فلسطینیوں پر کیے جانے والے حملوں میں 7 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جب کہ ان حملوں کے رد عمل میں کیے جانے والی کارروائیوں میں 1100 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔

عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر قبضہ کیے جانے کے ابتدائی دو سال میں ہی صیہونی فوج نے 70 قتل عام کے واقعات میں 15 ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا۔

رونگٹے کھڑے کردینے والی مذکورہ رپورٹ کے مطابق صیہونی ریاست کو بنائے جانے کے وقت میں اسرائیلی مظالم کے دوران فسلطینیوں کی 10 فیصد مرد آبادی کو قتل کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی ریاست کے باضابطہ قیام سے بھی 6 ماہ قبل اسرائیلی فوج نے برطانوی و مغربی ممالک کے تعاون سے فلسطینیوں کے 220 گاؤں پر حملے کرکے وہاں سے ساڑھے 4 لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو نکال دیا اور صیہونی ریاست بننے سے قبل ہی متعدد قتل عام کے واقعات میں معصوم فلسطینی بچوں اور خواتین سمیت دیگر افراد کو قتل کردیا گیا جب کہ 9 اپریل 1948 کو 110 فلسطینی افراد کو ذبح بھی کیا گیا۔

الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی ریاست کے قیام کے فوری بعد ساڑھے 7 لاکھ فلسطینیوں کو اپنی آبائی سرزمین چھوڑ کر قریبی ممالک مصر، اردن، عراق، لبنان اور شام جانے پر مجبور کیا گیا جب کہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب فلسطینی اس وقت بنائی گئی اسرائیلی ریاست میں رہ گئے، جن کے ساتھ آج تک مظالم جاری ہیں۔

اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد 3 لاکھ کے قریب فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر گھروں سے محروم ہوگئے اور ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔

مذکورہ 2017 کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ غرب ارد (مغربی پٹی) میں 30 لاکھ کے قریب فلسطینی افراد گھروں کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کیوں کہ ان کے گھر صیہونی ریاست کی جانب سے مسمار کرکے وہاں 100 سے زائد یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔

غزہ کی پٹی میں بھی 20 لاکھ کے قریب فلسطینی صیہونیوں کے ظلم و جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ اس وقت اسرائیلی ریاست میں 18 لاکھ کے قریب فلسطینی اقلیتی برادری کے طور پر سخت قوانین کے تحت انتہائی کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

تین سال قبل 2017 تک 75 لاکھ سے زائد فلسطینی افراد دنیا کے مختلف ممالک میں مہاجرین کی زندگی گزار رہے تھے، جن میں سے زیادہ تر فلسطینی اقوام متحدہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں بنائے گئے 50 ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں۔

گزشتہ 73 برس میں اسرائیلی فوج نے 10 لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے انہیں سزائیں دیں جب کہ حملوں میں ایک لاکھ سے زائد گھروں کو مسمار کیا اور بدقسمتی سے 7 دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطین کی سرحد کے قریب کوئی فلسطینی بستی تعمیر نہیں ہوئی جب کہ درجنوں یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔ اسرائیل کا قیام کیسے ہوا؟

اگرچہ اسرائیل کے وجود کو 73 برس ہی گزرے ہیں لیکن اسے فلسطینی سرزمین پر بنائے جانے کی کوششیں 200 سال پرانی ہیں اور یہودیوں کو صیہونی ریاست بنانے کی پہلی پیش کش فرانسیسی ڈکٹیٹر نیپولین بونا پارٹ نے 1799 میں کی تھی۔

اس کے بعد 1882 میں فلسطینی سرزمین پر پہلی یہودی بستی قائم کی گئی اور گزرتے سالوں میں فلسطینی سرزمین پر دنیا کے مختلف ممالک اور کونوں سے یہودیوں کو لاکر آباد کیا جانے لگا اور اس عمل میں جنگ عظیم اول کے بعد تیزی دیکھی گئی۔

جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک اور خطوں پر کنٹرول حاصل کیا اور فلسطین انگریزوں کے حصے میں آیا۔ اقوام متحدہ نے 23 ستمبر 1947 کو ریزولیشن 181 کے تحت فلسطین کو یہودیوں اور عرب قوم میں تقسیم کرکے ’بیت المقدس‘ کو ایک الگ اور خودمختار حیثیت دے دی، جس کے بعد فلسطینی سرزمین پر برطانیہ اور دیگر ممالک کے تعاون سے یہودیوں نے خونریزی شروع کردی [6]۔ خود اسرائیلی حکومتی ویب سائٹس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ صیہونی ریاست کا عمل مختلف ممالک اور اداروں کے تعاون کے بعد 1948 میں عمل میں آیا۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ، اس وقت کے سوویت یونین اور حالیہ روس سمیت دیگر بڑے ممالک نے صیہونی ریاست کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تو وہ کس طرح اب صیہونیوں کے حملوں کو دہشت گردی قرار دیں گے؟ [7]۔

صیہونیت پر سب سے پہلے اعتراض اور اشکال یہودیوں نے ہی کیا تھا

ایران میں مقیم یہودی برادری (کلیمین) کے مذہبی رہنما نے کہا:صیہونیت پر سب سے پہلے اعتراض اور اشکال یہودیوں نے ہی کیا تھا۔ حوزہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ربی یونس حمامی لالہ زار نے اسلامک کلچر اینڈ تھاٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں مذہبی رہنماؤں کی موجود گی میں غزہ کے مسئلے پر بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا: کہ تمام مذاہب میں توحید اور وحدانیت کے بعد انسان کی عزت و کرامت کا مسئلہ پیش کیا گیا ہے، اس مسئلے کے مطابق کوئی شخص اپنے آپ کو دوسرے سے برتر نہیں سمجھ سکتا، تمام انسان حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں، یہی وجہ ہے جو کہا جاتا ہے کہ جس انسان نے کسی انسان کو بچایا گویا اس نے پوری دنیا کے لوگوں کو بچایا، اور اس کے برعکس ، یعنی اگر کوئی انسان کسی انسان کا قتل کرتا ہے تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا ہے۔

یونس حمامی لالہ زار نے مزید کہا: کہ افسوس کا مقام ہے کہ آج کی دنیا میں میڈیا کا غلط استعمال کر کے استعمار اپنے نظریات کو دنیا میں پھیلا رہے ہیں، غزہ میں آج سات مہینوں سے بڑے پیمانے پر قتل و غارت جاری ہے، جب کہ اخلاقیات اور تمام مذہبی اور بین الاقوامی قوانین ہسپتالوں، اسکولوں اور شہری مراکز کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیتے، پھر بھی غزہ میں ان مراکز کو ہر روز نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: کہ پچھلے 100 سالوں کے دوران، صیہونیت نے سیاسی حربوں کو کو استعمال کرکے طاقت حاصل کی اور وہ خود کو یہودیوں کے نمائندے کے طور پر دنیا میں متعارف کروانا چاہتی ہے، جب کہ صیہونیت کی پہلی مخالفت یہودیوں کی طرف سے ہوئی ہے [8]۔

غزہ میں جنگ بندی کی جائے، اسرائیل کی نابودی کے مناظر دیکھ رہے ہیں

غزہ میں جنگ بندی کی جائے، اسرائیل کی نابودی کے مناظر دیکھ رہے ہیں، سابق صہیونی وزیراعظم

سابق صہیونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے کہا ہے کہ شمالی سرحدوں پر لبنانی مزاحمتی تنظیم کے حملوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے کہا ہے کہ صہیونی رہنما شمالی سرحدوں کی صورتحال کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں۔ ایہود اولمرٹ نے کہا ہے کہ لبنان سے حزب اللہ شمالی فلسطین میں صہیونی تنصیبات پر حملوں میں مزید تیزی لاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کی جنگ ختم ہونا چاہئے۔ ہم ڈرامائی طور پر اسرائیل کی نابودی کے مناظر دیکھ رہے ہیں۔ رفح پر حملوں کا کوئی فائدہ نہیں جبکہ اس کے عوض ہم سنگین قیمت ادا کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ غزہ میں صہیونی حکومت کی جارحیت کے جواب میں لبنان سے حزب اللہ نے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں واقع صہیونی تنصیبات کو حملوں میں تیزی لائی ہے۔ حزب اللہ نے صہیونی فوجی تنصیبات پر جدید ترین میزائل، راکٹ اور ڈرون طیاروں سے حملے کئے ہیں [9]۔ == بچوں کے قاتلوں کی فہرست میں شامل ہونے پر اسرائیل اقوام متحدہ پر برہم ==

اسرائیلی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ یہ حکومت بچوں کے قاتلوں کی فہرست میں شامل ہونے کے بعد اقوام متحدہ کے خلاف انتقامی اقدامات کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ میں اسرائیلی حکومت کے سفیر گیلاد اردان نے جمعہ کی شب اقوام متحدہ کی طرف سے اسرائیل کو بچوں کے قاتلوں کی بلیک لسٹ میں ڈالنے کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ریلیف اینڈ ایمپلائمنٹ ایجنسی (UNRWA) کو ایک دہشت گرد تنظیم کہا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے گزشتہ رات اسرائیلی حکومت کو بچوں کے قاتلوں کی بلیک لسٹ میں ڈالنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا۔ اس فہرست میں، جسے میڈیا میں شرمناک فہرست کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ جماعتیں شامل ہیں جو جنگی علاقوں میں بچوں کو نقصان پہنچاتی ہیں،انہیں مارتی ہیں یا ان کا استعمال کرتی ہیں یا جنسی زیادتی کا شکار بناتی ہیں۔

الجزيرہ کی رپورٹ کے مطابق آج (ہفتہ) اسرائیلی حکومت کے کان ٹی وی چینل نے کل رات اطلاع دی کہ تل ابیب اقوام متحدہ کے اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ میں اسرائیلی حکومت کے نمائندے نے تجویز دی ہے کہ تل ابیب اقوام متحدہ کے عہدیداروں اور ایجنسیوں کے سربراہوں کو ویزے جاری نہ کرے اور مغربی کنارے میں ان کی سرگرمیوں کو روکے۔

واضح رہے کہ غزہ حکومت نے حال ہی میں ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے گزشتہ چند مہینوں میں15 ہزار 438 بچوں کو شہید اور ہزاروں بچوں کو زخمی کیا۔ اس بیان کے مطابق اسرائیلی حکومت کے حملوں کے نتیجے میں غزہ میں 17 ہزار سے زائد فلسطینی بچے اپنے والد، ماں یا والدین سے محروم ہو چکے ہیں اور تقریباً 3500 بچے موت کے خطرے سے دوچار ہیں[10]۔

صہیونی آرمی چیف کی عرب فوجی سربراہوں سے خفیہ ملاقات کا انکشاف

ایک امریکی ویب سائٹ نے صہیونی فوج کے چیف آف جوائنٹ اسٹاف کی چار عرب ممالک کے فوجی سربراہوں سے ملاقات کا انکشاف کیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، صیہونی رجیم کے جوائنٹ چیف اسٹاف کے سربراہ ہرتزی ہالیوی نے رواں ہفتے بحرین کی میزبانی اور امریکی سینٹکام (CENTCOM) کے سربراہ جنرل ایرک کوریلا کی نگرانی میں چار عرب ممالک کی افواج کے سینئر کمانڈروں سے ملاقات کی۔

امریکی Axios بیس نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ یہ خفیہ ملاقات "علاقائی سیکورٹی تعاون" کا جائزہ لینے کے مقصد سے ہوئی جس میں سعودی عرب، بحرین، مصر، متحدہ عرب امارات، اردن کی افواج کے کمانڈرز اور صہیونی فوج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ "ہترزی ہالیوی" نے شرکت کی۔ مذکورہ ذرائع کے مطابق یہ ملاقات غزہ کی جنگ سے متعلق علاقائی حساسیت کی وجہ سے میڈیا کی توجہ سے دور اور پیشگی اعلان کے بغیر ہوئی۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ ملاقات سے امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کی زیرنگرانی صیہونی رجیم اور مذکورہ عرب ممالک کے درمیان خفیہ فوجی تعاون کے شواہد ملتے ہیں جب کہ یہ عرب ممالک منافقانہ طرز عمل اپناتے ہوئے عرب عوام اور مسلم رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ظاہری طور پر اسرائیل پر کھل کر تنقید کرتے ہیں او غزہ پر صیہونی رجیم کے حملوں کی مذمت کرتے ہیں لیکن درپردہ اسرائیل کے ساتھ نہ صرف پینگیں بڑھاتے ہیں بلکہ غزہ کے بلکتے بچوں اور سسکستی ماوں پر آگ برسانے کے لئے صیہونی درندوں کو فوجی تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں [11]۔

اسرائیل غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے

اقوام متحدہ کی تنظیم برائے انسانی حقوق کے کمشنر نے کہا ہے کہ اسرائیل فلسطین میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کررہا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی الجزیرہ کے حوالے سے کہا ہے کہ اقوام متحدہ نے اسرائیل پر فلسطین میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔ اقوام متحدہ ادارہ برائے انسانی حقوق کے کمشنر کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ اور غرب اردن میں صہیونی افواج انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کررہی ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ صہیونی حکومت الشاطی کیمپ اور غرب اردن کے مختلف مقامات پر نہتے فلسطینیوں پر حملہ کرکے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے فلسطینی کسی قسم کی جہادی کاروائی میں ملوث نہیں تھے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیلی حملوں کی وجہ سے غزہ کے مختلف کیمپوں میں ہزاروں بے گناہ فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔

یاد رہے کہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی جانب سے غزہ اور غرب اردن میں صہیونی حکومت کے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کے باوجود امریکہ اور مغربی ممالک مسلسل صہیونی حکومت کی مدد کررہے ہیں [12]۔

ایران پر ممکنہ حملہ، تین عرب ممالک کا اسرائیل کو فضائی حدود دینے سے انکار

مشرق وسطی کے تین اہم ممالک نے اسرائیل کو ایران پر حملوں کے لئے اپنی سرزمین دینے انکار کردیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے عربی 21 کے حوالے سے کہا ہے کہ عرب ممالک صہیونی حکومت کی جانب سے ایران پر حملوں کے لئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے پر تیار نہیں ہیں۔

ایران کی جانب سے وعدہ صادق 2 آپریشن کے بعد اسرائیل کو جوابی کاروائی کرنے میں دشواری محسوس ہورہی ہے۔ ایران نے کئی مرتبہ ہمسایہ ممالک کو انتباہ کیا ہے کہ اس کے خلاف کسی ملک کی سرزمین استعمال ہونے کی صورت میں شدید ردعمل دکھایا جائے گا۔

امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل نے جمعہ کے روز انکشاف کیا تھا کہ ایران نے خطے میں امریکی اتحادیوں کو وارننگ دی ہے کہ اس کے خلاف کاروائی میں کسی ملک کی سرزمین استعمال ہونے کی صورت میں اس کو ہدف بنایا جائے گا۔

سی این این نے اس حوالے سے کہا ہے کہ سعودی عرب، قطر اور عرب امارات نے امریکہ کو مطلع کردیا ہے کہ ایران کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کے لئے اسرائیل کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دوسری جانب اردن کے اعلی عہدیدار نے بھی کہا ہے کہ اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دے گا [13]۔

حزب اللہ کا ڈرون حملہ اسرائیلی فوج کے لئے ایک سنگین چیلنج بن گیا

حزب اللہ کا حیفہ میں "گولانی" بریگیڈ کی ٹریننگ بیس پر خودکش ڈرون سے حملہ صہیونی فوج کے سنگین چیلنج بن گیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے بتایا ہے کہ صہیونی اخبار"معاریو" نے حزب اللہ کی جانب سے تل ابیب کے دفاعی نظام کو درپیش پیچیدہ چیلنجوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا: حزب اللہ کا گذشتہ روز حیفہ پر حملہ اسرائیلی فوج کے لیے ایک سنگین چیلینج اور پریشان کن واقعہ تھا۔ اس اخبار نے مزید لکھا کہ اسرائیل کے پاس اس وقت لبنان، غزہ، شام، عراق، ایران اور یمن سے حملہ آور ڈرونز سے نمٹنے کے لیے ایک خصوصی دفاعی نظام موجود نہیں ہے۔

معاریو نے مزید لکھا کہ بنیامینا میں یہ سنگین واقعہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری جنگ کو ایک نئی سطح پر لے آیا ہے اور یہ ان پیچیدہ چیلنجوں کی تصدیق کرتا ہے جس سے اس تنظیم کا فضائی نظام مکمل طور پر آراستہ ہے۔ اخبار نے لکھا کہ اگرچہ اسرائیلی فوج نے آئرن ڈوم کا پتہ لگانے اور انسدادی اقدامات کے نظام میں تبدیلیاں کی ہیں اور دفاعی صنعت بشمول لیزر پر مبنی انسدادی نظام ترقی کر رہا ہے لیکن ڈرونز اب بھی نہ صرف اسرائیل پہنچ رہے ہیں بلکہ اہنے اہداف کو ٹھیک سے نشانہ بناتے ہیں۔

ادھر صیہونی حکومت کے مرکزی ذرائع ابلاغ نے حیفہ کے جنوب میں "گولانی اڈے" پر حزب اللہ کے حملے کو "آفت" قرار دیا ہے۔ یہ کامیاب کارروائی اتوار کے روز لبنان کی اسلامی مزاحمت کی جانب سے کی گئی جس میں حیفا کے جنوب میں "بینیامینا" میں "گولانی" بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے ایک تربیتی اڈے پر خودکش ڈرونز کے ایک گروپ نے فائر کیا تھا۔ آپریشن کے بعد اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا کہ کم از کم چار فوجی مارے گئے جب کہ اسرائیل ہیوم نے بتایا کہ حملے میں 67 افراد زخمی ہوئے [14]۔

پاکستانی عوام میں اسرائیل کی نسبت شدید نفرت و غضب

  • پاکستانی عوام میں اسرائیل کی نسبت شدید نفرت و غضب ہے۔ لیکن ان جذبات کا صحیح استعمال کیلئے سسٹم کی ضرورت ہے۔
  • کسی حکومت کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ اسے ہتھیار دے اور اسے اسرائیل لے خلاف لڑنے کیلئے موقع فراہم کرے۔
  • فلسطینی جوانوں کی بھی یہی صورتحال تھی، جذبہ موجود تھا، لیکن سسٹم نہیں تھا۔
  • انقلاب اسلامی ایران نے اسی جذبے کو صحیح جہت دی ہے اور راہنمائی کی اور سسٹم بنا کر دیا۔
  • آج یہی جذبہ لے کر غزہ کے جوانوں نے طوفان الاقصی برپا کیا۔
  • عرب دنیا اور پاکستان کے اہل سنت کے اندر تشیع اور انقلاب اسلامی ایران کی دشمنی اسی لئے ایجاد کی ہے، تاکہ پاکستان کے جوانوں کی اس نفرت کو عملی جہت نہ ملے۔
  • پاکستان میں اسرائیل کے خلاف کوئی قدم اٹھانے والے حماس کی طرح گروہ نہ بنے۔
  • اسی لئے اسرائیل اور اسرائیلی لابیوں نے پاکستان میں جوانوں کا رخ تشیع کی طرف موڑنے کی کوشش کی ہے اور
  • انقلاب اسلامی سے دور کیا ہے۔ کیونکہ اگر یہ اہل سنت جوان جو اسرائیل کے جھنڈے پر رحم نہیں کرتا اگر انہیں اسرائیل کے خلاف جہاد کا موقع مل جائے تو سو فیصد اسرائیل ناکام ہوں گے۔
  • حکومتیں بھی اسرائیل کے خلاف کچھ نہیں کرتی، جو حکومت یعنی ایران کچھ کرتی ہے، ان سے دور رکھا ہوا ہے۔
  • لہذا یہ جوان اپنے غصے کو اسرائیل کے جھنڈے پر نکالتے ہیں۔
  • اگرچہ یہ ویڈیو لوگوں نے طنز کے طور پر پیش کیا ہوا ہے۔
  • لیکن اگر آپ اس کی سوشل سائیکالوجی کو دیکھے تو یہ اسرائیل کے خاتمے کیلئے ایک بہترین پوٹینشل ہے۔

نیتن یاہو بند گلی میں/ تل ابیب کی جنگی اسٹریٹجی کی ناکامی ہوگئی

جیسے جیسے بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے، نیتن یاہو نہ صرف جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ امریکہ کو بھی اس دلدل میں گھسیٹ کر جنگ کو طول دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے بتایا ہے کہ صہیونی اخبار "ہارٹز" کے تجزیہ کار اور رپورٹر نے نیتن یاہو کے جنگی جنون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: وہ نہ صرف یہ کہ جنگ ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ ایران کے خلاف اس کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔

اخبار ہاریٹز کے تجزیہ کار اور تفتیشی رپورٹر رافیو ڈرکر نے کہا: "اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو یحییٰ السنوار کے قتل (شہادت) کے بعد بھی جنگ ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ وہ تیزی سے اپنے اگلے ہدف کی طرف بڑھ رہے ہیں، جو کہ ایران ہے، تاکہ وہ جنگ کو طول دے سکے اور امریکہ کو اس تنازع میں گھسیٹنے کی اپنی دیرینہ خواہش حاصل کر سکے۔

ڈرکر نے اس تناظر میں کہا کہ "نیتن یاہو اور ان کے حامی جان بوجھ کر ذرائع اور اہداف میں فرق نہیں کرتے"، نیتن یاہو نے اسرائیل کے رد عمل کو درست ثابت کرنے کے لیے اپنی قاتلانہ کوشش کو ایران سے جوڑا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیتن یاہو نے "جنگ کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے ڈرکر نے نشاندہی کی کہ "ماضی میں اسرائیل کی طرف سے حماس کے رہنماؤں کے قتل کا الٹا اثر ہوا ہے، کیونکہ ہر دفعہ حماس اور حزب اللہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوگئی ہیں اور انہیں ایک بے مثال طاقت حاصل ہو گئی ہے۔

ڈرکر نے نتیجہ اخذ کیا کہ لبنان اور غزہ میں اسرائیل کی موجودگی جاری رکھنے سے صرف مزید جانی نقصان ہو گا اور اس سے شمالی اسرائیل میں کوئی امن نہیں آئے گا، کیونکہ حزب اللہ دوبارہ اپنی طاقت حاصل کر رہی ہے اور بین الاقوامی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس صورتحال سے نکلنا ناممکن نظر آتا ہے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ جنگ جاری رہنے کے بہت سے منظرنامے ہیں، لیکن جنگ کے خاتمے کا امکان بہت کم ہے!

اس سلسلے میں برطانوی اخبار "گارڈین" نے صیہونی حکومت میں پائی جانے والی غیر یقینی صورتحال پر بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ یحییٰ السنور کا قتل (شہادت) واقعی حماس کی شکست کا باعث بنے گا؟

روزنامہ نے مزید کہا کہ "اسرائیل نے السنوار کے قتل پر خوشی کا اظہار کیا ہے، لیکن یہ صرف عارضی خوشی ہے، کیونکہ بہت سے اسرائیلی (صہیونی) اس بارے میں شکوک و شبہات کے شکار ہیں۔

دی گارڈین نے واضح کیا کہ "ماہرین نے طویل عرصے سے مزاحمتی تحریکوں کے رہنماؤں کو قتل کرنے کی تاثیر پر بحث کی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ حکمت عملی الٹا اسرائیل کے گلے پڑے گی۔ صہیونی میڈیا نے بھی اس سے قبل یہ اطلاع دی تھی کہ "مزاحمتی محور کی یہ تنظیمیں رہنماوں کے قتل سے مزید ابھرتی ہیں، کیونکہ یہ ٹھوس نظریات پر استوار ہیں" [15]۔

صہیونی قابض ریاست خاتمے کے قریب!

صہیونی ریاست کا ریٹائر جنرل Yitzhak Brick Maariv کہتا ھے کہ "آج اسرائیل اقتصادی طور پر تباہی کی حالت میں ہے۔ اگر یہ صورت حال جاری رہی تو ملک جلد ہی پوری طرح دیوالیہ ہو جائے گا "۔ اسرائیلی ماہر اقتصادیاتShir Hever کہتا ھے کہ،"اسرائیل کے اندر 46,000 کاروباری ادارہ دیوالیہ ہو چکے ہیں اور 60,000 تک سال کے آخر تک بند ہو جائیں گے".

  • غیر ملکی سرمایہ کاری میں 60 فیصد کمی ===
  • سیاحت ختم ہوگئی ہے۔
  • تعلیمی نظام تباہ ہو چکا ہے۔
  • ہزاروں ڈاکٹرز ملک چھوڑ چکے ہیں۔
  • لاکھوں لوگ یورپ میں اپنے اصل گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔
  • اسرائیل کی سب سے بڑی ٹیک انڈسٹری 56٪ گر گئی ہے اور انٹیل نے 25 بلین ڈالر کے پروجیکٹس منسوخ کر دیے ہیں۔

نیتن یاہو کے خطاب کے دوران زبردست احتجاج/ شیم شیم نیتن یاہو کی صدائیں بلند

صیہونی قیدیوں کے اہل خانہ نے نیتن یاہو کے خطاب کے دوران خلاف شدید غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے ان کے خلاف زبردست نعرہ بازی کی ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صیہونی قیدیوں کے اہل خانہ نے نیتن یاہو کے خطاب کے دوران خلاف شدید غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے ان کے خلاف زبردست نعرہ بازی کی ہے۔

شہاب نیوز کے مطابق، غاصب صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کے اقدامات اور ناکامیوں پر مشتعل آباد کاروں کی جانب سے طویل عرصے سے احتجاجات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان مظاہروں کی تازہ لہر میں، فلسطینی مزاحمت کی قید میں موجود صہیونیوں کے اہل خانہ نے نیتن یاہو کو جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لئے دستخط نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

مشتعل مظاہرین نے نیتن یاہو کی تقریر کے دوران ان کے خلاف "شیم شیم" کے نعرے لگاتے ہوئے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ یاد رہے کہ غزہ اور لبنان کے خلاف جاری جنگ میں صیہونی حکومت کی فوجی ناکامی کے باعث مقبوضہ علاقوں میں وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے خلاف تنقید کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نیتن یاہو کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یاہو اپنے خلاف قانونی مقدمات کی سماعت سے بچنے کے لیے اقتدار میں رہنے کے لیے تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔ واضع رہے صیہونی قیدیوں کے اہل خانہ چاہتے ہیں کہ صیہونی حکومت وقت ضائع کیے بغیر فلسطینی مزاحمت کے ساتھ معاہدہ کرکے قیدیوں کو رہا کروائے اور غزہ کی پٹی پر بے جا حملے بند کرے، تاکہ غزہ میں موجود صیہونی قیدی محفوظ رہیں [16]۔

اسرائیل کے جرائم پر خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے

اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے اسپین کے شہر بارسلونا میں منعقدہ نویں علاقائی اجلاس برائے اتحادِ بحیرہ روم میں کہا کہ اسرائیل کی موجودہ حکومت تمام فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال دینا چاہتی ہے، اور ہم خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایمن الصفدی نے پیر کے روز اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کو ہماری خاموشی نے یہ جرات دی ہے کہ وہ غزہ اور لبنان پر جاری حملوں میں قوانین کی خلاف ورزی جاری رکھے۔

انہوں نے بارسلونا میں نویں علاقائی اجلاس کے دوران مزید کہا کہ اسرائیل یورپی یونین کے ساتھ اپنے معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے، اور اگر اس مسئلے پر جرات مندانہ اقدامات نہ کیے گئے تو اتحاد کی ساکھ ختم ہو جائے گی۔ ایمن الصفدی نے کہا کہ اسرائیل کی موجودہ حکومت تمام فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنا چاہتی ہے، اور ہم خاموش ہیں اور تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ فلسطین کی وزارت صحت کے مطابق، غزہ میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں 7 اکتوبر سے اب تک 43,020 افراد شہید ہو چکے ہیں۔ مزید برآں، اس ادارے نے کہا کہ غزہ میں جنگ کے آغاز سے اب تک زخمیوں کی مجموعی تعداد 101,110 تک پہنچ چکی ہے۔ واضح رہے کہ اتحادِ بحیرہ روم ایک بین الحکومتی تنظیم ہے جس میں 143 ممالک شامل ہیں۔ اسے اوسلو معاہدوں کے بعد خطے میں امن اور مشترکہ خوشحالی کے مقصد سے قائم کیا گیا تھا [17]۔

غاصب اسرائیل کے جرائم پر اسلامی ممالک کی خاموشی ناقابل فہم ہے

گلگت پاکستان میں وحدت امت کانفرنس بعنوان لبیک یا غزہ، لبیک یا اقصیٰ کا انعقاد ہوا، جس میں تمام مسالک کے علماء اور مسلمانوں سمیت خواتین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

گلگت، پاکستان میں "وحدت امت کانفرنس" بعنوان "لبیک یا غزہ، لبیک یا اقصیٰ" کا انعقاد کیا گیا، جس میں تمام مسالک کے علماء، مسلمان مرد و خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کانفرنس میں علامہ سید جواد نقوی اور جماعت اسلامی کے سابق امیر مولانا سراج الحق نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ واضح رہے کہ یہ کانفرنس تحریک بیداری امت مصطفیٰ گلگت پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تھی۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امام جمعہ گلگت، علامہ سید راحت حسین الحسینی نے کہا کہ آج غاصب اسرائیل تمام اسلامی ممالک کو للکار رہا ہے جبکہ اسلامی دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اس خاموشی پر عالم اسلام کے علماء اور عوام سے شکایت ہے کہ وہ ان مظالم پر خاموش کیوں ہیں؟ علامہ راحت حسین الحسینی نے غاصب اسرائیل کے غیر انسانی جرائم پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج اگر فلسطین ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو گریٹر اسرائیل کے خواب کی تکمیل کے لیے دیگر اسلامی ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔

انہوں نے فرقہ واریت کو ایک بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں فرقہ واریت کا بازار اس قدر گرم ہے کہ یہاں سکردو میں کسی شخص نے زیارت عاشورا کے چند جملے ادا کیے، تو اس کے خلاف کراچی میں لوگ جمع ہوگئے، لیکن یہی لوگ فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف کہیں نظر نہیں آتے! امام جمعہ گلگت نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ مزاحمتی تنظیموں نے عظیم شخصیات کی قربانی پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ جیسی شخصیات کے پیدا ہونے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ جناب یحییٰ سنوار جیسے مجاہد، جو صف اول میں لڑتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں، ان جیسی شخصیات کے وجود میں آنے کے لیے شاید صدیاں لگیں، لیکن ایسی عظیم ہستیوں کو ظالموں نے ہم سے چھین لیا۔

سید راحت نے پاکستان میں مختلف امور پر احتجاجات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے مطالبات منوانے کے لیے کئی دنوں تک سڑکیں بند کر دیتے ہیں، لیکن اسلام اور اپنے مسلمان بھائیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف کوئی مظاہرہ نہیں ہوتا۔ آج اگر پورے پاکستان میں عوام، مسلح افواج اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ فلسطین کے لیے نکلیں تو کوئی حل نکل سکتا ہے [18]۔

اسرائیل کا حقیقی دشمن نتن یاہو ہے ایران اور حزب اللہ نہیں

اسرائیل کا حقیقی دشمن نتن یاہو ہے ایران اور حزب اللہ نہیں، سابق صہیونی وزیراعظم سابق صہیونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے نتن یاہو پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہیں اسرائیل کا حقیقی دشمن قرار دیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ فلسطین اور لبنان پر جارحیت اور اہداف کے حصول میں ناکامی کے بعد صہیونی وزیراعظم نتن یاہو پر اسرائیل کے اندر سیاسی اور عوامی حلقے شدید تنقید کررہے ہیں۔ سی این این کے مطابق سابق صہیونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے کہا ہے کہ نتن یاہو نے اپنے بے وقوفانہ اقدامات کے ذریعے ثابت کردیا ہے کہ وہ اسرائیل کے حقیقی دشمن ہیں۔ ایران اور حزب اللہ یہاں تک کہ حماس بھی انتہا پسند نتن یاہو کی طرح نہیں ہیں۔

انہوں نے صہیونی کابینہ کی جانب سے غزہ میں حماس کے پاس یرغمال صہیونیوں کو فراموش کرنے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کے ساتھ نتن یاہو اور ان کی انتہا پسند کابینہ نے صہیونی یرغمالیوں کی رہائی کے لئے اقدامات کرنا ہی چھوڑ دیا ہے [19]۔

اسرائیل ایرانی صحرا میں بھی ایک تیر پھینکے تو اس کا بھی جواب دیا جائے گا

ایرانی وزیر دفاع بریگیڈئیر نصیر زادہ نے کہا ہے کہ صہیونی حکومت کے مختصر ترین اور معمولی حملے کا بھی جواب دیا جائے گا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر دفاعی بریگیڈئیر جنرل عزیز نصیر زادہ نے انتباہ کیا ہے کہ کہ ایران اپنی سرزمین کے خلاف کسی بھی اسرائیلی جارحیت کا جواب دے گا، خواہ یہ کارروائی ملک کے صحراؤں میں سے کسی ایک کی طرف تیر پھینکنے کی طرح معمولی اور غیر موثر کیوں نہ ہو۔

بدھ کی صبح کابینہ کے اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر صیہونی حکومت نے ہمارے ملک پر ایک تیر بھی چلایا تو ایران اسے معاف نہیں کرے گا اور وہ صیہونیوں کو ضرور منہ توڑ جواب دے گا۔ جنرل نصیر زادہ نے تاکید کی کہ جارحیت اور سالمیت پر حملے کا جواب دینا ہر ملک کا حق ہے۔

گذشتہ دنوں ایران کے خلاف اسرائیل کی دہشت گرد حکومت کے فضائی حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت کے دوران دشمن کا کوئی لڑاکا طیارہ ملک کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میزائلوں کی پیداوار میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا ہے۔

یاد رہے کہ ایرانی ائیر ڈیفنس کمانڈ نے ہفتے کے دن ایک بیان میں کہا تھا کہ ملکی دفاعی نظام نے کامیابی کے ساتھ اسرائیلی حملے کا مقابلہ کیا۔ صہیونی حملے کے بعد ایرانی فوج نے کہا تھا کہ ان حملوں میں اس کے چار فوجی شہید ہو گئے ہیں [20]۔

فرار کا کوئی راستہ نہیں، نیتن یاہو شکست تسلیم کریں

صیہونی اپوزیشن لیڈر لاپیڈ نے ملکی معیشت کی تباہی، ہلاکتیں اور سپاہیوں کے ڈیوٹی سے انکار کے متعلق صیہونی کابینہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیتن یاہو کے پاس شکست تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صیہونی اپوزیشن لیڈر لاپیڈ نے ملکی معیشت کی تباہی، ہلاکتیں اور سپاہیوں کے ڈیوٹی سے انکار کے متعلق صیہونی کابینہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیتن یاہو کے پاس شکست تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

الجزیرہ کے مطابق، غزہ اور لبنان میں تاریخی جارحیت کے باوجود اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی پر صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو شدید تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ غاصب صیہونی پارلیمنٹ کنیسٹ میں اپوزیشن لیڈر یائیر لاپیڈ نے نیتن یاہو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر نیتن یاہو دشمنوں کا صفایا کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے بچوں کی ہلاکتوں کی ذمہ داری اور شکستوں کو بھی قبول کریں۔

انہوں نے ڈیوٹی سے فوجی اہلکاروں کے فرار ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سپاہی ہر روز ہلاک اور زخمی ہورہے ہیں اور نیتن یاہو فرار ہونے والوں کے لئے قانون بنا رہے ہیں، یہ قابلِ قبول نہیں ہے، کیونکہ قانون منظور کرنے سے ہلاکتوں کا سلسلہ نہیں رکے گا۔

انہوں نے کہا نیتن یاہو کابینہ کی جانب سے کوئی مثبت پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ نیتن یاہو سے بڑھ کر کسی نے بھی اسرائیل کو کمزور نہیں کیا ہے۔ غاصب صیہونی اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا کہ ہماری معیشت دیوالیہ ہوگئی ہے، وزیر اقتصاد کے پاس کیلکولیٹر تک موجود نہیں، تاکہ اعداد وشمار کا اندازہ لگائیں۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ موجودہ کابینہ کو صیہونی عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے، اسی لئے برخاست کرنا چاہیے اس کابینہ نے سب سے زیادہ اسرائیل کو کمزور کردیا ہے [21]۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا اس وقت سوال سے باہر ہے

شعودی عرب کے وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی ریاست کے قیام تک ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کے معمول پر آنے کی کوئی خبر نہیں ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ شمالی غزہ میں ہونے والے واقعات کو ایک قسم کی نسل کشی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینی ریاست قائم ہونی چاہیے اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی ضمانت ہونی چاہیے۔ غزہ پر اسرائیل کا حملہ انسانی تباہی کا باعث بنا ہے۔ دو ریاستی حل کو لاگو کر کے اسے ٹھوس اقدامات میں تبدیل کیا جانا چاہیے اور فلسطین کو جلد از جلد اقوام متحدہ کا رکن بننا چاہیے۔

سعودی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوئی حل تلاش کرنے سے پہلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا آپشن میز پر نہیں ہے۔ جب تک ہم فلسطینیوں کے حقوق کا مسئلہ حل نہیں کرتے اور فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف پیش رفت کا راستہ تلاش نہیں کرتے، خطے کی سلامتی غیر مستحکم رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کا تعلق بین الاقوامی قوانین کے اصولوں سے ہے، اسرائیل کی طرف سے اسے تسلیم کرنے سے نہیں ہے۔

ہم نے لبنان سے اپنے تعلقات منقطع نہیں کیے ہیں لیکن مسائل کے حل اور سیاسی عمل کا تعلق لبنان سے ہے، سعودی عرب یا بیرونی طاقتوں سے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ غزہ میں جنگ بندی مذاکرات "اسرائیل" کے نئے مطالبات کی وجہ سے کئی بار ٹوٹ چکے ہیں۔ غزہ کے تنازعہ کے حل کے بغیر ہمارا خطہ کشیدگی کے بھنور میں ہی رہے گا۔ سعودی وزیر خارجہ نے کہا: ایران نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ خطے میں کشیدگی میں اضافے کا تسلسل تہران کے مفاد میں نہیں ہے۔ میں نے اپنے ایرانی ہم منصبوں پر خطے میں مزید کشیدگی کو روکنے کی اہمیت واضح کر دی ہے۔

بن فرحان نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات درست سمت پر گامزن ہیں لیکن خطے کے حالات کی وجہ سے یہ پیچیدہ ہیں۔ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ کوئی فوجی مشق نہیں کی۔ سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہر کوئی واضح فیصلہ کرے کہ کشیدگی میں اضافہ تمام فریقوں کے لیے خطرناک اور نقصان دہ ہے۔

اسرائیل کو کشیدگی کم کرنی چاہیے اور عالمی برادری کو تمام محاذوں پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اپنی کوششیں مرکوز کرنی چاہیے۔ بن فرحان نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ دفاعی تعاون کا معاہدہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ بعض دوطرفہ معاہدے کہ جن پر سعودی عرب امریکہ کے ساتھ دستخط کرنے کی امید رکھتا ہے، ان کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے کوئی تعلق نہیں ہے [22]۔

تل ابیب میں حریدی فرقے کا احتجاج، صہیونی پولیس کے ساتھ تصادم، متعدد گرفتار

صہیونی پولیس نے تل ابیب میں حریدی فرقے کے احتجاجی مظاہرین پر حملہ کرکے متعدد کو گرفتار کیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے اناتولی کے حوالے سے کہا ہے کہ تل ابیب میں یہودی فرقے حریدی کے پیروکاروں نے نتن یاہو کابینہ کے فیصلوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین صہیونی فوج میں خدمات انجام دینے کی مخالفت میں احتجاج کررہے تھے۔ مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ "مر جائیں گے لیکن فوجی ٹریننگ کے لئے نہیں جائیں گے"

احتجاجی مظاہرہ اس وقت پر تشدد رخ اختیار کرگیا جب صہیونی پولیس نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے منتشر کرنے کی کوشش کی۔ پولیس کے نامناسب رویے پر مظاہرین نے پولیس کو "نازی" کہا۔ اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا اور پولیس نے متعدد مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ یاد رہے کہ شمالی اور جنوبی سرحدوں پر مقاومت کے ساتھ جھڑپوں کی وجہ سے صہیونی فوج کو افرادی قوت کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اس وقت اسرائیل میں 10 لاکھ حریدی فرقے کے ماننے رہتے ہیں [23]۔

صہیونی حکومت کے خلاف مقدمہ، آئرلینڈ کا جنوبی افریقہ کے ساتھ شامل ہونے کا اعلان

آئرش وزیرخارجہ نے بین الاقوامی عدالت میں جنوبی افریقہ کے ساتھ مل کر صہیونی حکومت کے خلاف مقدمہ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے کہا ہے کہ یورپی ممالک میں سے آئرلینڈ کے برابر کسی بھی ملک نے فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار نہیں کیا ہے کیونکہ آئرلینڈ برسوں سے برطانوی سامراج کے مظالم کا شکار ہے اور سامراجی تسلط میں ہونے کے دکھ درد سے بخوبی واقف ہے۔

آئرلینڈ کے وزیرخارجہ مائیکل مارٹن نے اسی وجہ سے کہا ہے کہ جمہوریہ آئرلینڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ جنوبی افریقہ کے ساتھ مل کر عالمی عدالت میں صہیونی حکومت کے خلاف مقدمہ لڑے۔ انہون نے کہا کہ اس فیصلے پر رواں سال کے اختتام تک عمل کیا جائے گا۔

اس سے پہلے آئرش پارلیمنٹ نے قرارداد پاس کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ عالمی برادری کی نگاہوں کے سامنے صہیونی حکومت فسلطینی عوام کی نسل کشی کررہی ہے۔ یاد رہے کہ اب تک اسپین، کولمبیا، بولیویا، میکسیکو، ترکی، چلی اور لیبیا نے عالمی عدالت میں صہیونی حکومت کے خلاف مقدمہ کے لئے جنوبی افریقہ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے [24]۔

اسلامی ممالک اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں

حوزہ علمیہ ایران کے سربراہ نے اسلامی ممالک کے لئے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کے پاس علمی، تکنیکی اور معدنی وسائل موجود ہیں، مگر اتحاد اور ہمبستگی کی کمی کے باعث یہ طاقت کمزوری میں تبدیل ہوگئی ہے اور دشمن ان وسائل کو انہی کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ ایران کے سربراہ آیت اللہ علی رضا اعرافی نے قم میں بنگلادیش کے علمائے کرام سے ملاقات کے دوران اسلامی ممالک کے لئے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کے پاس علمی، تکنیکی اور معدنی وسائل موجود ہیں، مگر اتحاد اور ہمبستگی کی کمی کے باعث یہ طاقت کمزوری میں تبدیل ہوگئی ہے اور دشمن ان وسائل کو انہی کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔

آیت اللہ اعرافی نے بنگلادیش کی علاقائی اہمیت اور علمی و فکری ذخائر کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ان وسائل کا استعمال نہ صرف بنگلادیش بلکہ پوری امت مسلمہ کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے علماء کے مقام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شیعہ علما کی خودسازی، اخلاقیات اور کردار کی تربیت نوجوان نسل کو جذب کرنے اور اسلامی معاشرے کی ترقی کے لئے انتہائی اہم ہے۔

انہوں نے اسلامی ممالک میں سائنسی، تکنیکی، ثقافتی اور سماجی قوت کے فروغ، اسلامی اتحاد کی مضبوطی اور اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ آیت اللہ اعرافی نے کہا کہ اسرائیل کا قیام اسلامی ممالک کو پسماندہ رکھنے کے لئے ایک سازش ہے اور اس کے خلاف اسلامی ممالک کے اتحاد کی ضرورت ہے۔

آیت اللہ اعرافی نے مزید کہا کہ اگر اسلامی ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کر کے اپنے وسائل کو ایک دوسرے کے لئے استعمال کریں تو اس سے اسرائیل کی ذلت اور نابودی ممکن ہوگی۔

اعرافی نے آخر میں انسان کی عبادت اور روحانی ترقی پر زور دیا اور کہا کہ انسان جتنا اعلیٰ مقام حاصل کرتا ہے، اس کی ضروریات بھی اتنی ہی بڑھ جاتی ہیں۔ عبادت اس روحانی نشوونما کے لئے ایک اہم ذریعہ ہے [25]۔

نتن یاہو کو برخاست کرنے کی مبینہ کوششیں

صہیونی ذرائع کے مطابق نتن یاہو کو برخاست کرنے کے لیے پس پردہ کوششیں جاری ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غزہ اور لبنان میں جارحیت اور مقاومت کے ساتھ مقابلے میں سنگین نقصانات کے بعد نتن یاہو کو برخاست کرنے کی پس پردہ کوششیں ہورہی ہیں۔

صہیونی میڈیا نے غیر مصدقہ ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ نتن یاہو کو کم از کم محدود مدت کے لیے برخاست کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ دوسری طرف بیت المقدس کی عدالت نے نتن یاہو کو عدالت میں حاضری سے مستثنی رکھنے کی درخواست مسترد کردی ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ عدالت اپنے فیصلے میں نتن یاہو کو برخاست کرنے کا حکم جاری کرسکتی ہے۔

اسرائیل ٹائمز کے مطابق عدالت نتن یاہو پر عائد الزامات کی سماعت کے دوران ان کی برطرفی کا حکم جاری کرسکتی ہے۔ اخبار نے مزید کہا ہے کہ سماعت کا وقت نتن یاہو کابینہ کو مزید مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ یاد رہے کہ نتن یاہو کی قانونی ٹیم نے چند روز پہلے نتن یاہو کو عدالت میں حاضری سے مستثنی رکھنے کی درخواست کی تھی کیونکہ نتن یاہو کئی محاذوں پر جاری جنگ کی وجہ سے حاضری دینے پر قادر نہیں ہیں [26]۔

غزہ میں شکست کا سامنا ہے، صہیونی صدر کا اعتراف

صہیونی صدر نے کہا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی ہماری شکست ہے جو ہمیں اندر سے کھائے جارہی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے کہا ہے کہ صہیونی صدر اسحاق ہرٹزوگ نے اشاروں میں اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں حماس کے مقابلے میں شکست کا سامنا ہے۔

اسرائیل ٹائمز نے صدر کے حوالے سے کہا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی کے بعد ہر دن ہمارے لیے شکست ہے۔ انہوں نے کہا کہ یرغمالیوں کا واپس نہ آنا ہمارے جسم پر زخم کی مانند ہے جو ہمیشہ کے لئے ہمیں اذیت میں مبتلا کرتا رہے گا۔ یاد رہے کہ غزہ میں صہیونی حملوں کو ایک سال گزرنے کے باوجود سو سے زائد صہیونی یرغمالی حماس کے پاس ہیں۔ نتن یاہو حکومت یرغمالیوں کو رہائی دلانے میں ناکام ہے

اسرائیل، حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کاآغاز، امریکہ، برطانیہ کا خیر مقدم

بیروت، تل ابیب واشنگٹن،لندن(مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں)اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کا آغاز ہوگیا۔امریکا کی سرپرستی میں ہونے والے سیز فائر معاہدے کے مطابق اسرائیل 60 روز میں جنوبی لبنان سے اپنی فورسز کو واپس بلائے گا اور حزب اللہ کے زیر کنٹرول علاقے کا کنٹرول لبنانی حکومت سنبھالے گی، معاہدے کے مطابق حزب اللہ اپنے جنگجو اور اسلحے کو دریائے لطانی سے ہٹائے گی۔

اس حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ اسرائیل اور حزب اللہ نے جنگ بندی کی تجویز مان لی ہے، معاہدے کو دشمنی کے مستقل خاتمے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ دوسری جانب حزب اللہ سے جنگ بندی معاہدے پر اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ اگر حزب اللہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو دوبارہ حملے کرنے میں بالکل بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔نیتن یاہو نے کہا کہ حزب اللہ کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا ہے، اب ہماری پوری توجہ ایرانی خطرے کی طرف ہوگی۔

اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیلی فوج نے لبنانی شہریوں کو فی الحال جنوبی لبنان واپس نہ جانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ لبنانی شہریوں کی محفوظ واپسی کے وقت سے متعلق اپ ڈیٹ کریں گے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق حزب اللہ نے جنگ بندی پر باضابطہ ردعمل جاری نہیں کیا تاہم حزب اللہ کے سینئر عہدیدار حسن فضل اللہ نے لبنانی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لبنانی ریاست کے اختیارات میں توسیع کی حمایت کرتے ہیں، مزاحمت کو غیر مسلح کرنا اسرائیلی تجویز تھی جو ناکام ہو گئی۔

ادھر جنگ بندی معاہدے کی منظوری سے قبل اسرائیل نے حزب اللہ کے 30 اہداف پر بمباری کی اور طائر میں حزب اللہ کمانڈر سمیت مزید 42 افراد کو شہید کرنے کا دعوی کیا۔ جنوبی لبنان میں جھڑپوں میں 2 اسرائیلی اہلکار ہلاک ہو گئے جبکہ حزب اللہ نے نہاریہ میں اسرائیلی فوجی کیمپ پر راکٹوں سے حملہ کیا جس میں 3 افراد زخمی ہو گئے۔دریں اثناء برطانوی وزیرِ اعظم کیئر سٹارمر نے بھی اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کا خیرمقدم کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ جنگ بندی لبنان اور شمالی اسرائیل کی شہری آبادیوں کو سکون فراہم کرے گی۔ادھر اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے کہا کہ کسی بھی معاہدے کے تحت اسرائیل جنوبی لبنان پر حملہ کرنے کی صلاحیت برقرار رکھے گا، لبنان اس سے قبل بھی اسرائیل کو ایسا حق دینے والے کسی بھی معاہدے کے الفاظ پر اعتراض کرتا رہا ہے۔دوسسری طرف اسرائیلی فورسز کے غزہ میں رہائشی عمارتوں اور ہسپتالوں پر حملے جاری رہے، بمباری سے مزید 11 فلسطینی شہید ہوگئے۔اسرائیلی فورسز کی بمباری سے شہدا کی مجموعی تعداد 44 ہزار 249 ہوگئی، 1 لاکھ 4 ہزار 746 زخمی ہو چکے ہیں، اسرائیلی فوج کا گزشتہ 52 روز سے شمالی غزہ کا محاصرہ جاری ہے[27]۔

صیہونی رجیم کے شام پر فضائی حملے، دمشق میں آگ بھڑک اٹھی

قابض صہیونی فوج نے شام کے دارالحکومت پر نئے حملے کئے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے خبر دی ہے کہ شام کے دارالحکومت دمشق پر صیہونی رجیم کے فضائی حملے جاری ہیں۔ میڈیا ذرائع کے مطابق اسرائیلی فوج نے دمشق کے سکیورٹی علاقے پر حملہ کیا جہاں شامی انٹیلی جنس اور کسٹم کی عمارتیں واقع ہیں۔ ان فضائی حملوں کی وجہ سے علاقے میں بڑے پیمانے پر آگ بھڑک اٹھی ہے۔

صیہونی ٹیلی ویژن نے بتایا ہے کہ قابض فوج نے دمشق میں شام کے سائنسی تحقیقی مرکز کو نشانہ بنایا ہے۔ الجزیرہ کے رپورٹر نے بھی خبر دی ہے کہ اس دوران دمشق کے المزہ ایئرپورٹ اور کفر سوسہ کے اطراف میں دو نئے دھماکوں کی آواز سنی گئی[28]۔

اسرائيل، جڑ سے اکھڑ جائے گا

ایران کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والی ہزاروں خواتین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت زہرا (س) عبادات، سیاست، تعلیم اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں مسلم خواتین کے لئے ابدی رول ماڈل ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے ہر سال کی طرح اس سال بھی ایران کے مختلف شہروں اور قصبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی ہیں۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ حضرت زہرا (س) عبادات، سیاست، تعلیم اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں مسلم خواتین کے لئے ابدی رول ماڈل ہیں۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ امریکہ، صیہونی حکومت اور ان کے بعض اتحادیوں کا یہ تصور کہ مزاحمت ختم ہو جائے گی، سراسر غلط ہے بلکہ اسرائیل نیست و نابود ہوکر رہے گا۔

رہبر معظم انقلاب نے مزید کہا کہ ہر شخص خاص طور پر خواتین کو دشمن کی سافٹ وار کے حربوں سے آگاہ رہنا چاہئے اور دشمن کے نعروں اور فتنوں کے فریب میں ہرگز نہ آئیں۔ انہوں نے کہا کہ حضرت زہراء س نے اپنے آتشیں خطبوں کے ذریعے سیاست اور معارف کا حسین امتزاج پیش کیا۔ان کی زندگی مسلم خواتین کے لئے ایک بلند چوٹی کی حیثیت رکھتی ہے کہ مسلم خواتین کو اس سمت حرکت کرنی چاہئے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ مغرب انسان دوستی کے لبادے میں اپنا سیاسی اور استعماری تسلط بڑھاتا ہے۔ مغربی سرمایہ داروں نے عورت کی آزادی اور معاشی استقلال کے دلفریب نعرے کے ذریعے خواتین کے استحصال کا جال بنا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں مرد اور عورت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے آج صبح ہزاروں خواتین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ہم خواتین کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر سے ایک منشور تیار کرنا چاہیں تو میرے خیال میں اس منشور میں جو مسئلہ سرفہرست آنا چاہیے وہ زوجیت ہے۔زوجیت کا کیا مطلب ہے؟ مرد اور عورت زوج ہیں، یعنی وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ یہ بات قرآن میں واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔ "وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا"۔

سستے مزدوروں کے طور پر خواتین کو کارخانوں میں گھسیٹنے کو اس ریاکاری کی ایک مثال بتایا۔ آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے زوجیت کو اسلام میں خواتین کے منشور کی بنیادی اور اہم شق بتایا اور کہا کہ قرآن مجید کی متعدد آیات کی بنیاد پر عورت اور مرد ایک ہی جنس کے ہیں اور وہ ایک دوسرے کا جوڑا اور ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ زوجیت اور زن و مرد کے مکمل ہونے کا لازمہ، گھرانے کے نام کی ایک تیسری اکائی کی تشکیل ہے۔

انھوں نے ماں کی معنوی قدر و قیمت اور اس پر افتخار کو عورت کے مسئلے میں اسلام کے نظریے کا ایک دوسرا رکن بتایا اور کہا کہ آج سرمایہ دارانہ اور سامراجی پالیسیوں کے سائے میں بعض لوگ اور خودمختار معاشروں کے دشمن خاص طور پر ہمارے معاشرے کے دشمن، ماں کے کردار کی ایک غلط تصویر پیش کرتے ہیں جبکہ ماں کا کردار اور ایک انسان کی پرورش ایک بہت ہی گرانقدر افتخار ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے سیاسی اور عالمی میدانوں میں باوقار سرگرمی اور اسی طرح مقدس دفاع، دفاع حرم اور سیاسی میدان میں کردار کی ادائیگی کو انقلاب کی کامیابی کے بعد خواتین کی سرگرمیوں کے درخشاں جلووں میں شمار کیا اور کہا کہ ایرانی خاتون اپنے تشخص، ثقافت، ملک کی تاریخی اور اصیل روایات کو پوری متانت اور عفت و حیا کے ساتھ محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی ہے وہ آج تک ان برے نقصانات میں مبتلا نہیں ہوئي ہے جن سے بہت سے مغربی ممالک متاثر ہوئے ہیں۔

انھوں نے اسی کے ساتھ کہا کہ دشمن بھی بیکار نہیں بیٹھا ہے اور وہ سازشیں کرنے میں مصروف ہے کیونکہ وہ بہت جلد اس بات کو سمجھ گيا کہ جنگ، بمباری، قوم پرستی اور فتنہ انگیز فورسز جیسے طریقوں سے انقلاب کو شکست دینا اور اسے جھکانا ممکن نہیں ہے اسی لیے وہ پروپیگنڈوں، وسوسوں اور جھوٹے نعروں جیسے حربوں کو استعمال کر رہا ہے[29]۔

یمنی فوج کا مقبوضہ فلسطین میں صہیونی تنصیبات پر میزائل حملہ

یمنی فوج نے مقبوضہ فلسطین کے مختلف شہروں پر میزائل حملہ کیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے کہا ہے کہ یمنی فوج نے تل ابیب اور دیگر صہیونی شہروں میزائل حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے متعدد شہروں میں خطرے کے سائرن بجائے گئے ہیں۔

اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق تل ابیب میں خطرے کے سائرن بجنے کے ساتھ ہی مقبوضہ بیت المقدس میں بھی کئی دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ صہیونی چینل 12 نے بتایا کہ اسرائیل کے وسطی علاقوں میں خطرے کے سائرن بجائے گئے اور زور دار دھماکوں کی آوازیں سنائی دی ہیں۔

اسرائیلی فوج نے حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ یہ سائرن یمن سے فائر کیے گئے میزائل کی وجہ سے بجے ہیں۔ صہیونی فوج کے مطابق یمن سے داغا گیا ایک بیلسٹک میزائل اسرائیل کی فضائی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی تباہ کر دیا گیا۔ صہیونی ذرائع ابلاغ نے کہا ہے کہ یمن سے داغا گیا میزائل تل ابیب کے ایک عمارت سے براہ راست ٹکرایا ہے[30]۔

تل ابیب کے مرکز پر یمنی فوج کا میزائل حملہ، متعدد صہیونی زخمی

یمنی فوج نے صہیونی فضائی حملوں کا بھرپور جواب دیتے ہوئے تل ابیب کے مرکز پر میزائل حملہ کیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے کہا ہے کہ صنعاء اور دیگر یمنی شہروں پر حملوں کے جواب میں یمنی فوج نے اسرائیل پر میزائل حملہ کیا ہے۔ عبرانی میڈیا کے مطابق تل ابیب اور دیگر شہروں میں خطرے کے سائرن بجائے گئے ہیں۔

صہیونی فوج نے یمنی حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ میزائل حملوں کے بعد مختلف شہروں میں حفاظتی اقدامات کے تحت سائرن بجائے گئے ہیں۔ المیادین نے صہیونی ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ یمنی فوج کے میزائل حملے میں تل ابیب کے مرکز میں واقع ایک عمارت میں آگ لگی ہے۔ صہیونی دفاعی سسٹم آئرن ڈوم یمنی میزائلوں کو روکنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ مقامی ذرائع نے کہا ہے کہ یمنی میزائل حملوں میں دو افراد زخمی ہوگئے ہیں جبکہ بعض ذرائع کے مطابق 18 زخمی ہوگئے ہیں اور ہلاکتوں کا بھی خدشہ ہے[31]۔

اسرائیل کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری رہیں گی، یمن کا دبنگ اعلان

یمن کی تحریک انصار اللہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے فلسطینی علاقوں پر قابض صیہونی آباد کاروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ان علاقوں کو چھوڑ دیں، کیونکہ یمن اپنی اسرائیل مخالف انتقامی کارروائیوں میں تیزی لا رہا ہے۔ مہر نیوز کے مطابق، یمن کی انصار اللہ کے رکن حزام الاسد نے اپنے ایکس اکاونٹ پر مقبوضہ فلسطین کے صیہونی آبادکاروں کو خبردار کیا۔

انہوں نے کہا: جنہیں سکون سے جینے کی تمنا ہے وہ قبرص یا پھر جس ملک سے آئے ہیں، وہیں لوٹ جائیں، کیونکہ قابض رجیم کے خلاف ہماری جوابی کاروائیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ یمنی عہدیدار نے واضح کیا: غزہ کی پٹی پر جاری اسرائیلی مظالم اور نسل کشی کے خاتمے تک یمن کی انتقامی کاروائیاں جاری رہیں گی۔ حزام الاسد نے کہا کہ ہم غزہ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور ہم مقبوضہ علاقوں کے قلب کو نشانہ بناتے رہیں گے۔

واضح رہے کہ یمن نے اکتوبر 2023 میں غزہ اور لبنان کی حمایت میں اسرائیلی اہداف کے خلاف اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا جو بحیرہ احمر میں صیہونی جہازوں پر حملوں اور امریکی برطانوی اتحاد کی جارحیت کے خلاف جوابی کاروائیوں کی شکل میں ہنوز جاری ہے۔ یمن کی مسلح افواج، ملک کی ساحلی پٹی پر تعینات امریکی جنگی طیارہ بردار جہازوں سمیت حساس اسرائیلی اور امریکی اہداف کے خلاف اپنے حملوں میں تیزی لا رہی ہیں[32]۔

غزہ جنگ بندی کے آفٹر شاکس؛ شباک کے سربراہ بھی استعفیٰ دیں گے

عبرانی ذرائع نے تسلیم کیا کہ شاباک کے سربراہ رونین بار بھی آنے والے دنوں میں مستعفی ہونے پر غور کر رہے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عبرانی ذرائع نے اعتراف کیا ہے کہ شاباک کے سربراہ رونین بار بھی آنے والے دنوں میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر غور کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز صہیونی میڈیا نے آرمی چیف ہرزی ہالیوی کے غزہ جنگ میں شکست کی وجہ سے آنے والے دنوں میں مستعفی ہونے کے فیصلے سے آگاہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کا 'طوفان الاقصیٰ آپریشن' صیہونی حکومت کی سکیورٹی، عسکری اور انٹیلی جنس کے لئے ایک سنگین شکست تصور کیا جاتا ہے، تاہم اب جنگ بندی معاہدے اور قیدیوں کے تبادلے میں اسرائیل کو پھر سے رسواکن شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ حالیہ دنوں میں صہیونی حکام غزہ جنگ میں شکست کا اعتراف کرتے ہوئے عہدوں سے مستعفی ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے[33]۔

اسرائیل کی الشجاعیہ کے محصور فلسطینیوں پر اندھادھند بمباری، متعدد شہید اور درجنوں زخمی

اسرائیل کی الشجاعیہ کے محصور فلسطینیوں پر اندھادھند بمباری، متعدد شہید اور درجنوں زخمی صیہونی فوج کے محاصرے اور وحشیانہ بمباری کے باعث غزہ کے مشرقی علاقے الشجاعیہ کے مکینوں کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، غزہ کے مشرقی علاقے الشجاعیہ کے مکینوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ صیہونی رژیم کے شدید فضائی اور زمینی حملوں کی وجہ سے وہ اپنے گھروں اور خیموں میں محصور ہوگئے ہیں۔

علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ زیادہ تر خیمے، صیہونی فوج کے حملوں میں تباہ ہو گئے ہیں جب کہ اسرائیلی ڈرون مسلسل بمباری کر رہے ہیں۔ اس وقت درجنوں خاندان جن میں خواتین، بچے اور مریض شامل ہیں تشویشناک اور محصور حالت میں ہیں اور انہیں بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ الشجاعیہ پر صیہونی حکومت کے حملے میں تین افراد شہید ہوگئے جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ ادھر غزہ کے ہسپتال ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ آج صبح سے صیہونی رژیم کے حملوں میں 12 افراد شہید ہو چکے ہیں[34]۔

اسرائیل کا ہلال احمر کے طبی عملے پر حملہ، حماس کا بین الاقوامی انصاف کا مطالبہ

فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے ہلال احمر کے طبی عملے کے خلاف صیہونی افواج کے وحشیانہ جرائم کے خلاف بین الاقوامی انصاف کا مطالبہ کیا۔ مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے ہلال احمر کے طبی عملے کے خلاف صیہونی افواج کے وحشیانہ جرائم کے خلاف بین الاقوامی انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔

حماس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ناقابل تردید بصری شواہد سے صیہونی رژیم کے من گھڑت اور جھوٹے دعووں کی حقیقت عیاں ہوئی ہے، جو اس رژیم کے انسانی ہمدردی کے عملے کو منظم طریقے سے نشانہ بنانے اور بین الاقوامی قانون کی رو سے ایک منصوبہ بند قتل کو ثابت کرتے ہیں۔ حماس کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم اس وحشیانہ جارحیت کے متاثرین کے لئے بین الاقوامی انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔

حماس کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یونیفارم پہنے ہوئے فلسطینی ڈاکٹرز کی واضح شناخت والی ریڈ کریسنٹ ایمبولینس کو اسرائیلی فورسز نے دانستہ طور پر نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ اسرائیل غزہ میں اقوام متحدہ اور دیگر امدادی فورسز کو بھی نشانہ بنا رہا ہے، اس کے باوجود انسانی حقوق کے چمپیئن امریکہ اور اس کے لے پالک یورپی ممالک اس فاشسٹ رژیم کی فوجی حمایت کر رہے ہیں![35]۔

’امن پسند‘ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل پر جارحیت روکنے کے لیے دباؤ ڈالنے میں ناکام کیوں ہیں؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے حالیہ سہ ملکی دورے کے دوران بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا کہ انہوں نے اسرائیل کو دورے سے قبل یا مشرقِ وسطیٰ میں کیے گئے اپنے فیصلوں میں دیوار سے لگایا۔ اور ایسا کرنے کی ان کے پاس معقول وجہ تھی۔

ٹرمپ نے جو اقدامات کیے، انہوں نے یقینی طور پر اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کو پریشان کیا۔ واشنگٹن نے شام پر سے پابندیاں اٹھا لیں اور ٹرمپ نے ریاض میں شامی صدر احمد الشرع سے ملاقات بھی کی جس موقع پر انہوں نے ایک ایسے شخص کی تعریف کی جس کے سر پر امریکا نے انعام رکھا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی بھی تعریف کی جوکہ اسرائیل کے ایک اور مخالف ہیں۔ انہی کے مشورے پر امریکی صدر نے شام پر سے پابندی اٹھائیں۔ دوسری جانب نیتن یاہو نے ٹرمپ پر زور دیا تھا کہ وہ پابندیاں ختم نہ کریں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے یمن میں حوثیوں کے ساتھ جنگ بندی بھی کی جس کے ساتھ ہی دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف فوجی حملے روکنے پر اتفاق کیا۔ اس معاملے میں بھی اسرائیل کو نظر انداز کیا گیا۔ ٹرمپ نے امریکا اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات کے نتیجے میں غزہ میں آخری امریکی یرغمالی کی رہائی کو بھی یقینی بنایا۔ لیکن تل ابیب کو سب سے زیادہ جس امر نے پریشان کیا وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران سے براہ راست جوہری مذاکرات کرنا ہے جس کی اسرائیل سختی سے مخالفت کرتا رہا ہے۔

یہ رپورٹس سامنے آرہی ہیں کہ امریکا کو ’نئی‘ انٹیلی جنسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے فوجی کارروائی کی تیاری کررہا ہے۔ اگر اسرائیل نتائج کی پروا کیے بغیر ایسا کرتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی سفارتی کوششوں اور نیتن یاہو کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچے گا بالخصوص اب کہ جب حال ہی میں ٹرمپ نے ٹیلی فونک گفتگو میں نیتن یاہو سے کہا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات

فنانشل ٹائمز کے لیے لکھتے ہوئے کم گٹاس کہتی ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات ’اسرائیل کو حیرت میں مبتلا کررہے ہیں کہ وہ اسے معاہدوں سے الگ کررہے ہیں‘۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ نیتن یاہو کے ساتھ ٹرمپ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے لیکن ’اسرائیل اور امریکا کے درمیان دہائیوں پرانا اتحاد قائم رہے گا‘۔ دیگر مبصرین نے اسرائیلی وزیر اعظم کو ٹرمپ کے دورے کے دوران محض ایک ’تماشائی‘ کے طور پر دیکھا کیونکہ امریکی صدر اسرائیل کے دشمنوں کے قریب ہوگئے ہیں۔

اس سب کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی سے روکنے میں ناکام ہیں یا وہ اسے روکنے کے لیے تیار نہیں ہیں حالانکہ وہ طویل عرصے سے تنازع کے خاتمے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اگرچہ وائٹ ہاؤس نے خبردار کیا تھا کہ بنیامن نیتن یاہو اگر جنگ جاری رکھتے ہیں تو اس میں تنہا ہوں گے۔ اسرائیل نے غزہ میں اپنی وحشیانہ کارروائیوں کو وسعت دی ہے اور انسانی امداد کی بندش کو جاری رکھا ہے۔

روزانہ فضائی حملوں میں فلسطینیوں کو شہید کیا جارہا ہے جبکہ نیتن یاہو نے ’حماس کو ہمیشہ کے لیے تباہ‘ کرنے کے لیے پورے غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اسرائیل کے آپریشن ’گیدیئن چیرٹس‘ (Gideon’s Chariots) کو انجام دینے کے لیے جنوبی اور شمالی غزہ میں اضافی فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں جن کا مقصد فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنا ہے۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ایک بار پھر ان کی چھتوں سے جبراً محروم کیاجارہا ہے۔ فلسطینیوں کی بے دخلی ہمیشہ سے بنیامن نیتن یاہو کا مقصد رہا ہے۔

فلسطین میں اسرائیلی جارحیت

اس سب نے تباہ کُن صورت حال کو جنم دیا ہے جبکہ انسانی بحران کو سنگین تر بنادیا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ اسرائیلی جارحیت اور انسانی امداد کی ناکہ بندی نے بین الاقوامی سطح پر اضطراب پیدا کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس سنگین صورت حال کو ’ناقابلِ بیان، ظالمانہ اور غیر انسانی‘ قرار دیا ہے۔ امداد کی بندش ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، غزہ کی ’پوری آبادی کو قحط کے خطرے کا سامنا ہے‘۔

حتیٰ کہ اسرائیل کے قریبی مغربی اتحادیوں نے بھی تل ابیب کے خلاف آواز اٹھائی ہیں۔ مشترکہ بیان میں فرانس، برطانیہ اور کینیڈا نے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی اور دھمکی دی کہ اگر اسرائیل نے کارروائیاں اور امداد کی پابندیاں ختم نہیں کیں تو اس کے خلاف ’ٹھوس اقدامات‘ کیے جائیں گے۔

جن میں پابندیاں لگائے جانے کا امکان بھی شامل ہے۔ یورپی یونین نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات پر نظرثانی کرے گا جبکہ اسپین جیسے ممالک نے عالمی برادری سے پابندیوں سمیت سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ 23 ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں اسرائیل سے غزہ میں امدادی سامان کے داخلے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا اور متنبہ کیا گیا کہ لوگوں کو ’فاقہ کشی‘ کا سامنا ہے۔ بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ میں کچھ امداد سامان کی ترسیل کی اجازت دی لیکن عالمی برادری نے اس اقدام کو ناکافی قرار دیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ردعمل میں کہا، ’یہ اشتعال انگیز اور اخلاقی طور پر قابلِ مذمت ہے کہ نسل کشی کے دوران، بھوک اور ظلم کے تقریباً 80 دنوں کے بعد دنیا نے مکمل محاصرے کو تھوڑا سا کم کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا جس نے خوراک، ادویات، ایندھن اور دیگر تمام اشیا کے داخلے کو مکمل بند کیا ہوا ہے‘۔

حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی تجدید

دوسری جانب دوحہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی تجدید کی کوششیں کسی نتیجہ خیز سمت کی جانب جاتی نظر نہیں آرہیں۔ حالانکہ ٹرمپ انتظامیہ پیش رفت نہ ہونے پر اضطراب کا شکار ہے لیکن پھر بھی وہ اسرائیل کو امن پر آمادہ کرنے میں ناکام ہے۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے رواں ماہ اسرائیل کا دورہ نہ کرنے کا فیصلہ لیا۔

اگرچہ اسرائیلی جارحیت کے باوجود بھی بات چیت جاری رہی لیکن نیتن یاہو نے معاہدے میں بہت کم دلچسپی دکھائی۔ انہوں نے مارچ میں یک طرفہ طور پر جنگ بندی معاہدے کو توڑا اور بار بار اعلان کیا کہ وہ تب تک جنگ ختم نہیں کریں گے کہ جب تک انہیں حماس کے خلاف ’مکمل فتح‘ حاصل نہیں ہوجاتی۔

ان حملوں میں غزہ نے زیادہ خونریزی، نقل مکانی اور تباہی کا سامنا کیا۔ غزہ تک امداد پہنچانے کا امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی منصوبہ بہت متنازعہ ہے۔ اس میں چند اہم امدادی مراکز کا قیام شامل ہے جہاں لوگوں کو مدد حاصل کرنے کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔ ان مراکز کی حفاظت فوجی اور نجی مسلح سیکورٹی فورسز کریں گی۔

سوئٹزرلینڈ کی ایک کمپنی غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن، ان مراکز کا انتظام سنبھالے گی۔ اقوام متحدہ نے اس منصوبے کو مزید نقل مکانی کی ایک حکمت عملی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے کیونکہ یہ ایک جنگی جرم ہے۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ امدادی اہلکار نے یہ بھی کہا کہ اس منصوبے میں لوگوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے فاقہ کشی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں نے اس منصوبے کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امداد کی بندش کو عسکریت پسندی قرار دے کر اس کی مذمت کی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے پورے غزہ پر مستقل طور پر قبضہ کرنے کے لیے فوجی مہم شروع کرنے کے بعد، انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل اسموترخ نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ان کا مقصد ’غزہ کی پٹی میں موجود ہر چیز کو تباہ کرنا ہے‘ اور آبادی کو ’جنگی علاقوں‘ سے باہر دھکیلنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ’آبادی پٹی کے جنوب میں پہنچ جائے گی، اور (پھر) صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے تحت کسی تیسرے ممالک میں چلے جائیں گے‘۔ نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جب حماس تمام یرغمالیوں کو رہا کرے گا اور ٹرمپ کے غزہ سے باہر آبادی کو منتقل کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد ہوجائے گا تو وہ جنگ ختم کردیں گے۔

اب یہ واشنگٹن کی ذمہ داری ہے کہ وہ واضح کرے کہ آیا اسرائیل واقعی ٹرمپ کے منصوبے پر عمل پیرا ہے یا نہیں۔ یہ وضاحت ضروری ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہے تو اس سے اسرائیل پر جارحیت روکنے کے لیے دباؤ پڑے گا۔ لیکن اگر یہ سچ ہے تو اس سے امریکی صدر کے امن پسند تشخص کو نقصان پہنچے گا جس کے فروغ کی وہ بھرپور کوشش کررہے ہیں[36]۔

امت مسلمہ میں بیداری کی لہر، ایشیا سے افریقہ تک اسرائیل کے خلاف انسانیت کی آواز بلند ہونے لگی

ایران کے شہداء کے جنازے صدائے احتجاج بن گئے، پاکستان، عرب دنیا، افریقہ اور ہندوستان کے نوجوانوں نے دشمن کو للکارا اور امت مسلمہ کو صہیونی حکومت کے خلاف متحد ہونے کا پیغام دے ڈالا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رواں ہفتے ایران میں ہونے والے شہداء کے عظیم الشان تشییع جنازہ نے عالمی سطح پر مزاحمتی شعور کو نئی زندگی دی۔ اس موقع پر مختلف ممالک کے طلباء اور نوجوانوں نے پوری امت مسلمہ اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے والے پیغامات جاری کیے، جن میں صہیونی مظالم اور امریکی استکبار کے خلاف امت کی بیداری پر زور دیا گیا۔

ایران پاکستانی عوام کے اخلاص اور فلسطینی مظلومین کے ساتھ کی جانے والی یکجہتی پر دل کی گہرائی سے شکر گزار ہے۔ پاکستانی طالبعلم نے ملت پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایران پاکستانی عوام کے اخلاص اور فلسطینی مظلومین کے ساتھ کی جانے والی یکجہتی پر دل کی گہرائی سے شکر گزار ہے۔ فلسطین صرف مشرق وسطی نہیں بلکہ پوری امت اسلامیہ کا مسئلہ ہے، جس کا حل صرف اتحاد میں ہے۔

ایرانی نوجوانوں نے عرب عوام کے جذبات کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ ہمارے شہداء زیر زمین بنکرز میں چھپے نہیں تھے، وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کا سامنا کر رہے تھے۔ ہمارا اسلحہ ایمان، غیرت اور ارادہ ہے۔ اب وقت ہے کہ عرب قومیں عدل اور آزادی کے قافلے کا حصہ بنیں۔

یورپ اور امریکہ نے ہمیں غلام بنایا، مارا، اور آج فلسطین میں یہی ظلم دہرا رہے ہیں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے طالبعلم نے افریقی اقوام کو پکارا کہ یورپ اور امریکہ نے ہمیں غلام بنایا، مارا، اور آج فلسطین میں یہی ظلم دہرا رہے ہیں۔ کیا ہم پھر خاموش رہیں گے؟ وقت آگیا ہے کہ افریقہ بیدار ہوجائے اور فلسطین کی حمایت میں قیام کرے۔

اسی طالبعلم نے نائجیریا کی قوم کو بھی براہ راست مخاطب ہوکر کہا کہ ایران تم سے کہتا ہے: اٹھو اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف متحد ہو جاؤ۔ بچوں اور ماؤں کے قتل عام پر خاموشی انسانیت سے غداری ہے۔ دنیا کو چاہیے کہ ظلم پر خاموشی ختم کرے اور مزاحمت کی صف میں شامل ہو۔

اب ہندوستانی عوام خود فیصلہ کریں کہ عزت کہاں ہے اور ذلت کہاں! بھارتی طالبعلم نے ہندوستانی عوام کو احساس ذمہ داری دلاتے ہوئے کہا کہ ایرانی شہداء اپنے گھروں میں عزت سے شہید ہوئے، جبکہ دشمن خوف سے بنکروں میں چھپا رہا۔ جو حق پر ہو، وہ چھپتا نہیں۔ اب ہندوستانی عوام خود فیصلہ کریں کہ عزت کہاں ہے اور ذلت کہاں![37]۔

صیہونی حکومت کی ناکامی پر ہزاروں اسرائیلیوں کا احتجاج، نتانیاہو کے استعفے کا مطالبہ

ہزاروں اسرائیلی شہریوں نے اتوار کے روز تل ابیب، یروشلم اور دیگر شہروں میں مظاہرے کرتے ہوئے حکومتِ نتانیاہو کی جانب سے غزہ میں قیدیوں کی رہائی میں ناکامی پر شدید اعتراض کیا۔

اسرائیلی اخبار ہارٹز کے مطابق، یہ احتجاجات حالیہ جنگی تنازع کے پس منظر میں شدت اختیار کر چکے ہیں، جو ۱۳ جون کو ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد شروع ہوا۔ اس ۱۲ روزہ جنگ میں اسرائیل کی جانب سے ایرانی ایٹمی تنصیبات، فوجی مراکز اور حتیٰ کہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، جب کہ ایران کی جوابی دفاعی کارروائیوں میں عبرانی یونیورسٹی یروشلم کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم ۳۴۰۰ اسرائیلی زخمی ہوئے۔ ہلاکتوں کی تعداد تاحال صیہونی حکام نے واضح نہیں کی۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ حماس بارہا عندیہ دے چکی ہے کہ اگر اسرائیل جنگ بندی کرے، غزہ سے پسپائی اختیار کرے اور فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے تو وہ تمام اسرائیلی قیدیوں کو بیک وقت رہا کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے جنگ کو طول دینے کی پالیسی پر کاربند ہے۔

اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم بنیامین نتانیاہو اپنی سیاسی کرسی بچانے کے لیے جنگ اور نسل کشی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، حالانکہ عالمی سطح پر اسرائیل کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیلی افواج نے اکتوبر ۲۰۲۳ سے اب تک غزہ میں جاری جارحیت کے دوران ۵۶ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا ہے، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، جب کہ عالمی برادری کی جانب سے مسلسل جنگ بندی کے مطالبات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے[38]۔

عالم اسلام کے 100 علماء کا فتویٰ : ٹرمپ اور نتن یاہو “محارب” اور “مفسد فی‌الارض” قرار

مختلف ممالک کے علماء و مشائخ نے رہبر معظم کی قیادت کی بھرپور تائید کرتے ہوئے ٹرمپ اور نتن یاہو کو امت مسلمہ کا دشمن اور عالمی عدالتوں میں ان پر مقدمہ ناگزیر قرار دیا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عالم اسلام کے 100 ممتاز علما، مفکرین اور جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیانیے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو ’’محارب‘‘ (خدا اور رسول سے جنگ کرنے والے) اور ’’مفسد فی‌الارض‘‘ (زمین میں فساد پھیلانے والے) قرار دیتے ہوئے عالمی عدالتوں اور اسلامی قوانین کے مطابق ان کا مؤاخذہ لازم قرار دیا ہے۔

بیانیے میں سورہ مائدہ کی آیت 33 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: "إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَیَسْعَوْنَ فِی الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ یُقَتَّلُوا أَوْ یُصَلَّبُوا..." [39]۔ "جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، ان کی سزا قتل یا پھانسی ہے…"

علمائے کرام کے مطابق، ٹرمپ، نیتن یاہو اور دیگر صہیونی رہنما، فلسطینی سرزمین پر قبضے، نہتے فلسطینیوں کے قتل عام، خونریزی، عالمی امن کی پامالی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے باعث اس قرآنی سزا کے مصداق بن چکے ہیں لہذا ان پر اسلامی اور بین الاقوامی عدالتوں میں قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔

بیانیے میں امام خامنہ‌ای کی قیادت کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حضرت آیت‌اللہ العظمی سید علی خامنہ‌ای امت مسلمہ کے رہنما، اسلامی محاذ کے علمبردار اور ملت اسلامیہ کی وحدت و مزاحمت کے راستے پر بصیرت، حکمت اور شجاعت کے ساتھ رہنمائی فرما رہے ہیں۔

علمائے اسلام نے واضح کیا کہ وہ رہبر معظم کی اصولی، شفاف اور حکیمانہ قیادت کو نہ صرف شرعی طور پر جائز بلکہ امت اسلامی کا ناگزیر فریضہ سمجھتے ہیں، اور ہر سطح پر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلامی شریعت کے مسلمہ اصولوں خاص طور پر "کفار محارب سے دوستی اور مفاہمت کی حرمت" کے قاعدے اور بین الاقوامی انسانی حقوق و قوموں کے حق خود ارادیت سے متعلق دستاویزات کی روشنی میں، صہیونی جعلی و قابض حکومت اور امریکہ کی استکباری پالیسیوں سے ہر طرح کی مفاہمت، تعلقات کا قیام اور شراکت شرعی طور پر حرام، امت اسلامی سے خیانت اور فلسطینی قوم و مظلوم اقوام کے حقوق کی کھلی پامالی ہے۔

علماء و مشائخ نے تاکید کی کہ آج امت اسلامی کو پہلے سے کہیں بڑھ کر علمی، فکری، دینی اور سیاسی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ علمائے اسلام تمام مسلمانوں اور اسلامی دنیا کی علمی شخصیات کو ہم‌آہنگی، وحدت کلمہ اور مشترکہ محاذ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں تاکہ امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کی سازشوں کا بھرپور مقابلہ کیا جا سکے۔

بیان میں حالیہ ایران اور اسرائیل کی جنگ میں لشکر اسلام کی فتح پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایران کی فتح، ایمان، مزاحمت، قیادت کی حکمت اور اسلامی مزاحمتی محاذ کی استقامت کا مظہر ہے۔ یہ کامیابی صرف عسکری میدان تک محدود نہیں بلکہ ایران نے سیاسی، میڈیا، نفسیاتی اور بین الاقوامی سطح پر استکبار کو دردناک شکست دی۔ یہ واضح اعلان ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی مطلق حکمرانی کا دور ختم ہو چکا ہے۔

عالم اسلام کے ممتاز علماء نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر آزاد بین الاقوامی عدالتیں تشکیل دی جائیں تاکہ ٹرمپ، نیتن یاہو، صہیونی حکومت کے دیگر مجرم حکام اور ان کے حامیوں پر مقدمہ چلایا جائے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، بین الاقوامی عدالتیں اور قانونی ادارے ان کے جرائم کا محاسبہ کریں اور لازمی سزا دیں۔

بیان میں مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا کہ فلسطین کا مسئلہ، مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور قدس شریف، آج بھی امت اسلامی کی اولین ترجیح ہے۔ جب تک فلسطین مکمل طور پر آزاد نہ ہوجائے اور صہیونی سرطانی پھوڑا مکمل ختم نہ ہوجائے، یہ مشروع اور ہمہ گیر جدوجہد جاری رہے گی۔

وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ 1. خالد الملا، سربراہ جماعت علمائے عراق

2. محمد نمر زغموت، سربراہ فلسطینی اسلامی کونسل، فلسطین

3. محمدی ابو صالح عبدالقادر آلوسی، سربراہ مجلس علمائے رباط محمدی، عراق

4. منظر الحق تهاونی، رہنما مجلس علمائے پاکستان

5. عدنان یحییٰ الجنید، رکن اعلیٰ کمیٹی رابطہ علمائے یمن، سربراہ تصوف فورم، یمن

6. عبدالخالق فریدی، سربراہ متحدہ علماء محاذ، پاکستان

7. حسان عبداللہ، سربراہ تجمع العلماء المسلمین، لبنان

8. حسین محمد قاسم، سربراہ مجلس علمائے فلسطین

9. غازی یوسف حنینه، سربراہ بورڈ امانت تجمع العلماء المسلمین، لبنان

10. سامح عثمان سلیمان محمد، وزارت اوقاف، مصر

11. راجا ناصر عباس جعفری، سربراہ مجلس وحدت المسلمین، رکن سینیٹ، پاکستان

12. حسن قناعت لی، سربراہ مجمع تنظیمات اہل بیت، ترکیہ

13. خلیل رزق، انچارج بین الاقوامی تعلقات، حزب اللہ، لبنان

14. محمد الصالح الموعد، ترجمان مجلس علمائے فلسطین

15. محمد امین انصاری، سیکرٹری جنرل متحدہ علماء محاذ، پاکستان

16. احمد بن علی الحارثی، محقق امور اسلامی و انسانی، عمان

17. سلمان حسینی ندوی، سربراہ اتحاد فرنٹ، بھارت

18. محمد هشام سلطان، استاد عقائد و فلسفہ، سابق نائب رئیس جامعہ آل‌البیت، اردن

19. ولید حسین ادریسی، نائب مفتی وولگاگریڈ، روسی وفاق، روس

20. عبدالرحمن الضلع الحسنی الهاشمی، سربراہ مرکز مطالعہ وحدت اسلامی، شام

21. محمد داوود، شیخ الحدیث، سیکرٹری جنرل مدارس دینیہ، پاکستان

22. نظام الدین نعمانی، سربراہ علماء اہل سنت غرب افغانستان

23. عبدالمنعم الزین، ڈائریکٹر اسلامی سماجی مرکز، سینیگال

24. ماهر حمود، سربراہ عالمی اتحاد علمائے مقاومت – لبنان

25. مصطفی حسین ابورمان، امام و خطیب مسجد، اردن

26. تیسیر سلیمان، ڈائریکٹر یحییٰ فاؤنڈیشن، ترکیہ

27. کفاح بطة، مفتی وولگاگریڈ، نائب مفتی روسی مسلم تنظیم، روس

28. شفیق جرادی، سربراہ معارف حکمیہ انسٹیٹیوٹ، لبنان

29. سعید قاسم، سربراہ اسلامی فلسطینی کمیٹی، فلسطین

30. شفقت حسین شیرازی، انچارج امور خارجہ، مجلس وحدت المسلمین، پاکستان

31. یحییٰ ابوذکریا، محقق اسلامی، الجزائر

32. صهیب حبلی، سربراہ جمعیت الفۃ، لبنان

33. قدیر آکارس، سربراہ علمائے اہل بیت فورم، ڈائریکٹر مرکز الکوثر، ترکیہ

34. احمد غریب، سربراہ وحدت کمیٹی، فلسطین

35. عزالدین شیخی ادریسی، نقیب عام اشراف آل بیت، لیبیا

36. حسین الدیرانی، نمائندہ عالمی مجمع اہل بیت، آسٹریلیا

37. مرتضیٰ عاملی، رکن مرکزی شوریٰ مجمع اہل بیت، کینیا

38. بہاءالدین نقشبندی، مرشد نقشبندیہ چمپاراویہ سلسلہ، کردستان عراق

39. محمد قدوره، سربراہ بدر کبریٰ مرکز، فلسطین

40. نزار سعید، انچارج مراکز امام خمینی ثقافتی، لبنان

41. حسین الدیہی، نائب سیکرٹری جنرل جمعیت الوفاق الوطنی، بحرین

42. احمد رضا فاروقی، خطیب سپریم کورٹ، بنگلادیش

43. حبیب‌الله حسام، سربراہ اسلامی اخوت شوریٰ، افغانستان

44. اسلام اوزکان، محقق اسلامی، یونیورسٹی پروفیسر، ترکیہ

45. حمید عبدالقادر عنتر، کالم نگار و سیاسی تجزیہ نگار، یمن

46. رضوان المحیا، سربراہ اسلامی شافعی فورم، یمن

47. ابوبکر امام تباتی، محقق اسلامی، امام و خطیب، کیمرون

48. موسیٰ آیدین، ڈائریکٹر ON4 چینل، ترکیہ

49. عبدالرؤف توانا، انچارج شمالی اسلامی اخوت شوری، افغانستان

50. عبداللہ دقاق، سربراہ حوزہ بحرینیہ، بحرین

51. ڈاکٹر مازن شریف، مفکر اسٹریٹیجک، تیونس

52. شیخ عبدالرحمن مطر، تحریک اسلامی مزاحمتی، لبنان

53. شیخ ابوبکر مشلاوی، اسلامی تحریک عمل کی قیادت کا رکن، لبنان

54. ڈاکٹر لطفی اوزشاہین، اسلامی محقق و جامعہ کے استاد، ترکی

55. عاہد مصطفی العطوی، سربراہ ادارۂ مطالعات، انڈونیشیا

56. شیخ محمد درویش، تحریک اسلامی مزاحمتی، لبنان

57. مازن الزیدی، ڈائریکٹر مرکز المسار عراقی مطالعات، عراق

58. سید احمد شحاته حسنی ازہری، ڈائریکٹر روضہ امام، مصر

59. امام محمد العاصی، خطیب جمعہ واشنگٹن، امریکہ

60. ڈاکٹر محمد نوردوغان، اسلامی محقق و یونیورسٹی پروفیسر، ترکی

61. شیخ عبدالحمید حلو، تحریک اسلامی مزاحمتی، لبنان

62. شیخ علی ہاشم سراج، مجمع آل البیت عالمی برانچ سوڈان کے سیکرٹری جنرل، مزاحمتی علماء عالمی اتحاد کے رکن، سوڈان

63. شیخ مصطفی صیداوی، تحریک اسلامی مزاحمتی، لبنان

64. مولوی بحرالدین جوزجانی، سربراہ شوری مصلحت اسلامی، افغانستان

65. شیخ محمد شرف الدین، تحریک اسلامی مزاحمتی، لبنان

66. علی اورمیش، صدر انجمن علماء علوی، ترکی

67. سید محمد بن جعفر، رکن عالمی صوفی عرفانی اجتماع، موریتانیا

68. شیخ سامی الحاج احمد، تحریک اسلامی مزاحمتی، لبنان

69. ڈاکٹر محمد اوکوران، اسلامی محقق و یونیورسٹی پروفیسر، ترکیہ

70. شیخ طلال ابراہیم ابو عبدالرحمن شریم، اسلامی محقق، قطر

71. ڈاکٹر عادل محمد عبدالرحمن، رکن جماعت علمائے عراق

72. ڈاکٹر یوسف الحاضری، دینی و سیاسی امور کے محقق و مصنف، یمن

73. ڈاکٹر سلمان العودی، سیکریٹری انجمن مبلغین فلسطین

74. ڈاکٹر عمر عبداللہ الشلح، نایب سربراہ مبلغین فلسطین، ترکیہ

75. ڈاکٹر شیخ صالح کاشف، انچارج تعلقات عامہ انجمن مبلغین فلسطین

76۔ ڈاکٹر شیخ طارق رشید، انچارج انجمن مبلغین فلسطین، لبنان

77. شیخ عمر فوال، رکن تحریک اسلامی مزاحمتی، لبنان

78. ڈاکٹر حائری کیرباش اوغلو، اسلامی محقق و یونیورسٹی پروفیسر، ترکیہ

79. شیخ عباس کاظمی، رکن انجمن علمائے ترکیہ

80. شیخ اباذر تایلندی، امام جماعت مسجد الہدی تالینگ چان بینکاک، تھائی لینڈ

81. شیخ ماجد راشد جیاد، رکن جماعت علمائے عراق

82. مولوی بحرالدین جوزجانی، صدر شوری مصلحت اسلامی، افغانستان

83. علی یرال، بانی و صدر وقف اہل بیت علوی، ترکی

84. ڈاکٹر ابراہیم عواوی، اسلامی محقق، یمن

85. شیخ توفیق حسن علویہ، اسلامی محقق و مصنف، رکن علما اتحاد لبنان

86. شیخ عادل ترکی، صدر وحدت سماجی فلاحی انجمن، فلسطین

87. شیخ محمد زعبی، تحریک توحید اسلامی کے شعبہ دعوت کے سربراہ، لبنان

88. سید جواد وحیدی، سربراہ امامیہ علما کونسل ہرات، افغانستان

89. شیخ مصطفی ملص، صدر قومی اتحاد فورم، لبنان

90. محمد لبابیدی، سیکریٹری جنرل مرکز اسلامی اطلاعات و رہنمائی، لبنان

91. شیخ اورہان اوز، صدر انجمن علما شہر قارص، ترکی

92. شیخ محمد رجب عابدین، رہنما تحریک اسلامی مزاحمتی، لبنان

93. شیخ مومن مروان رفاعی، مشیر سفارتی تعلقات، لبنان

94. سید عیسی حسینی مزاری، صدر مؤسسۂ بیان افغانستان

95. شیخ قربان اولوسوز، صدر انجمن علما شہر ایغدیر، ترکیہ

96. شیخ عبدالفتاح ایوبی، رہنما اتحاد علماء فلسطین، لبنان

97. ہشام عبدالقادر علی عنتر، صدر عرب الیکٹرانک میڈیا یونین، یمن

98. شیخ عبدالرحمن ناجی، رہنما تحریک اسلامی مزاحمتی، لبنان

99. سفیر ادریس صالح، سفیر عرب یونین و بین الاقوامی کمیشن برائے انسانی حقوق، لبنان

100. مولانا سید احمد ایمان لکھنوی، اسلامی محقق، بھارت[40]۔

اسرائیل کی ایران کے خلاف دوبارہ جنگ کی کوشش، نتن یاہو کو درپیش بڑے چیلنجز

سیاسی عدم استحکام، دفاعی کمزوری اور عالمی سطح پر مخالفت ایسے چیلنجز ہیں جو اسرائیل کی نئی جنگی مہم کو ناکامی سے دوچار کرسکتے ہیں۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب ایران اور قابض صہیونی حکومت کے درمیان 12 روزہ جنگ کے بعد جنگ بندی طے پائی۔ یہ جنگ اسرائیل کی جانب سے ایران پر جارحیت کے بعد شروع ہوئی، اور ایران کی پرعزم مزاحمت اور تباہ کن جوابی حملوں نے بالآخر اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کردیا۔

زیادہ تر بین الاقوامی مبصرین، تجزیہ نگاروں اور عوامی رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، اس جنگ میں ایران کو برتری حاصل ہوئی اور وہ فاتح کی حیثیت سے ابھرا۔ تاہم جنگ کے بعد ایک اہم تشویش یہ ہے کہ اسرائیل شاید دوبارہ ایران کے ساتھ محاذ آرائی کا ارادہ رکھتا ہے اور جنگ بندی کو صرف ایک وقفہ کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ اپنے زخم چاٹ کر دوبارہ لڑنے کی تیاری کرسکے۔ اسرائیلی حکام، جیسے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور جنگ کے وزیر اسرائیل کاتز، کھلے عام ایران کو دھمکیاں دے رہے ہیں، اور اپنی اشتعال انگیز زبان سے ایرانی عوام کے اندر خوف اور عدم تحفظ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسرائیل کی حالیہ جارحیت نے ایرانی قوم کو پہلے سے زیادہ متحد کر دیا ہے۔ اگرچہ اس وقت میدان خاموش ہے، لیکن اگر اسرائیل دوبارہ ایران پر حملہ کرنا چاہے تو اسے تین بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا: عالمی اور علاقائی رائے عامہ اسرائیلی جارحیت کو مسترد کرے گی۔ اگر صہیونی حکومت ایران پر دوبارہ حملہ کرتی ہے تو نہ صرف خطے کے عوام بلکہ عالمی سول سوسائٹی اور سیاسی تحریکوں کی جانب سے سخت ردِعمل آئے گا۔

اسرائیل کی جنگ جو اور جارحانہ فطرت اب پہلے سے کہیں زیادہ دنیا کے سامنے آچکی ہے۔ اس طرح کی کھلی جارحیت کی صورت میں عالمی حکومتوں کے لیے اسرائیل کی حمایت سیاسی طور پر نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ حتی کہ اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی امریکہ بھی کسی نئی اسرائیلی جارحیت کا کھل کر ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرے گا۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو ایران پر دوبارہ حملہ اسرائیل کو عالمی سطح پر ایک سرکش حکومت کے طور پر پیش کر سکتا ہے اور اس کو اسرائیل موجودہ عالمی تنہائی کے ماحول میں برداشت نہیں کر سکتا۔

ایران اب اچانک حملوں کا شکار نہیں بنے گا۔ اسرائیل نے حالیہ حملہ اس وقت کیا جب ایران اور امریکہ کے درمیان سفارتی بات چیت جاری تھی، اور اس اقدام کو عالمی سطح پر بزدلی اور موقع پرستی کے طور پر دیکھا گیا۔ اب ایران پوری طرح چوکنا ہے اور اس کی مسلح افواج کسی بھی جارحیت کا فوری، مؤثر اور فیصلہ کن جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

ایران کے پاس جدید میزائل اور فوجی ٹیکنالوجی کی وسیع اقسام موجود ہیں جو حالیہ جنگ میں مکمل طور پر استعمال نہیں ہوئیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 12 روزہ جنگ میں ایران نے جو فوجی ٹیکنالوجی استعمال کی، وہ 15 سے 20 سال پرانی تھی اور وہ بھی اسرائیلی دفاعی نظام کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔

صہیونی حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ ایران نے ابھی اپنی مکمل فوجی طاقت استعمال نہیں کی، اور اگر وہ دوبارہ حملہ کرتا ہے تو اسے کہیں زیادہ شدید اور خطرناک جواب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ صورتحال اسرائیل کی جنگی حکمت عملی کو مکمل طور پر تبدیل کردیتی ہے۔

اسرائیلی عوام اب نیتن یاہو کے ارادوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ اسرائیل کے اندر زیادہ سے زیادہ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ نتن یاہو کی جنگیں قومی سلامتی کے لیے نہیں بلکہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ہیں۔ ملک کے اندر ایک بڑھتا ہوا احساس پایا جاتا ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ دراصل اسرائیل کے لیے تباہی لائے گی، اور ممکن ہے کہ اسرائیل کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دے۔

حالیہ جنگ کے دوران سامنے آنے والی تباہیوں کے بعد نتن یاہو کی جنگی پالیسیوں پر عوام کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے اور ان کی ذاتی سیاسی بقا کے لیے لڑی گئی جنگوں نے اسرائیلی معاشرے میں گہری تشویش پیدا کر دی ہے۔ ایسے حالات میں حکومت کو اندرونی سطح پر بھی شدید مخالفت کا سامنا ہے اور جنگ کے خلاف عوامی دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے[41]۔

ایران کے جوابی حملے میں 30 صہیونی پائلٹ ہلاک، سابق سفیر کا انکشاف

سابق ایرانی سفیر حسن کاظمی قمی نے انکشاف کیا ہے کہ 12 روزہ جنگ میں 30 سے زائد اسرائیلی پائلٹ ہلاک ہوئے تاہم تفصیلات صہیونی سنسر شپ کی نذر ہوگئیں۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے سابق سفیر برائے عراق حسن کاظمی قمی نے انکشاف کیا ہے کہ 12 روزہ جنگ کے دوران ایران کے ایک جوابی آپریشن میں 30 اسرائیلی پائلٹ ہلاک ہوئے، جو صہیونی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔

حسن کاظمی قمی نے ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسرائیلی حکومت کے لیے معمولی بات نہیں ہے۔ اس واقعے کی تفصیلات تل ابیب حکومت کی جانب سے سنسر کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کا اصل مقصد ایران میں حکومت کی تبدیلی اور امریکہ کی واپسی تھا، لیکن وہ اپنے کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ کاظمی قمی نے کہا کہ ایرانی مسلح افواج نے، رہبر انقلاب اسلامی کی قیادت میں اسرائیل کو زبردست ضربت لگائی اور خطے میں دشمن کے وسیع تر منصوبے کو ناکام بنا دیا۔

واضح رہے کہ صہیونی حکومت نے 13 جون کو ایران پر جارحانہ جنگ مسلط کی، جس میں ایران کے فوجی، ایٹمی اور رہائشی مقامات کو مسلسل 12 دن تک نشانہ بنایا گیا۔ 22 جون کو امریکہ بھی اس جنگ میں کود پڑا اور نطنز، فردو اور اصفہان کے تین ایٹمی مراکز پر حملے کیے۔ ایرانی فوج نے ان حملوں کے جواب میں بھرپور جوابی کارروائی کی۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ نے "وعدہ صادق3" آپریشن کے تحت اسرائیل پر 22 مرحلوں میں میزائل حملے کیے، جن سے مقبوضہ علاقوں میں بھاری نقصان ہوا[42]۔

تل ابیب و حیفا میں نتن یاہو کے خلاف مظاہرے، جنگ غزہ کے خاتمے کا مطالبہ

تل ابیب اور حیفا میں ہزاروں صہیونیوں نے نتن یاہو کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کیا۔ اسرائیل میں نتن یاہو کی حکومت کے خلاف عوامی مظاہروں کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ہزاروں افراد نے تل ابیب کے حابیمہ اسکوائر اور ملحقہ سڑکوں پر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے بھوکے فلسطینی بچوں کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔

مظاہرین میں سے کچھ نے ایسے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر اسرائیل کو غزہ میں جنگی جرائم اور نسل کشی کا مرتکب قرار دیا گیا تھا، جبکہ بعض نے اسرائیلی فوجیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس جنگ میں شرکت سے انکار کریں۔

ادھر حیفا میں جنگ مخالف مظاہرے کے دوران پولیس نے 24 مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ پولیس اہلکاروں نے مظاہرہ شروع ہونے کے چند ہی منٹ بعد احتجاجی بینرز پھاڑ دیئے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ پولیس اہلکاروں نے متعدد مظاہرین کو زمین پر گرا کر ہتھکڑیاں لگائیں اور زبردستی پولیس وین میں ڈال دیا۔

غزہ میں نسل کشی اور غذائی قلت پر نتن یاہو کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ مبصرین کے مطابق نتن یاہو غزہ کی جنگ کو اپنی ذاتی سیاسی بقا کے لیے طول دے رہے ہیں تاکہ بدعنوانی کے مقدمات سے توجہ ہٹائی جاسکے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ جنرل اسحاق بریگ نے اسرائیل کی فوجی کمزوری اور جنگی ناکامیوں کا برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل، غزہ میں حماس کے خلاف جاری اپنی مہم میں اسٹریٹجک طور پر شکست کھا چکا ہے[43]۔

فلسطین پر اسرائیلی غیر قانونی قبضہ فوری طور پر ختم کیا جائے، سربراہ اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے فلسطینی سرزمین پر صہیونی قبضے کو ناقابل قبول قرار دے کر نسل کشی اور جبری مہاجرت کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوترش نے فلسطینی علاقوں پر جاری صہیونی قبضے کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اس کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے جائز حقوق کو تسلیم کیے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینی سرزمین پر مسلسل قبضہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور یہ عمل فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔ سیکریٹری جنرل نے فلسطینی حکومت کے ڈھانچے کی ازسر نو تشکیل پر بھی زور دیا اور کہا کہ ایک متحد اور خودمختار فلسطینی حکومت کے قیام کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ ہمیں فلسطینی اتھارٹی کو مستحکم کرنے اور اس کی واپسی کی حمایت کرنی چاہیے۔

گوترش نے متنبہ کیا کہ اگر قیام امن کی کوششوں میں مزید تاخیر کی گئی تو اس کا انجام سنگین ہوگا۔ اب مزید انتظار کا وقت نہیں۔ قیام امن کے لیے فوری اقدام ضروری ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں کو جبری طور پر ان کی سرزمین سے بے دخل کیے جانے کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ فلسطینی عوام کو ان کے گھروں سے نکالنا نہ صرف ظلم ہے بلکہ امن کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ یہ عمل اسرائیل کی عالمی سطح پر مزید تنہائی کا سبب بنے گا۔

گوترش نے دوٹوک انداز میں نسل کشی اور جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے احتساب کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ میں فلسطینی عوام کے خلاف جاری نسل کشی کے عمل کو بند کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں اور زور دیتا ہوں کہ ان جرائم میں ملوث عناصر کو ضرور انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے[44]۔

دوحہ، عرب و اسلامی سربراہی اجلاس: اسرائیلی جارحیت کے خلاف کون سے اقدامات زیر غور؟

دوحہ میں ہونے والے عرب و اسلامی ممالک کے اجلاس میں اسرائیل پر اقتصادی پابندیاں، تعلقات منقطع کرنا، اتحادیوں پر دباؤ اور بین الاقوامی مہم جیسے آپشنز زیر بحث ہیں، تاہم عسکری کارروائی کا امکان کم ظاہر کیا جارہا ہے۔ [45]۔ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اب ایک واضح نسل کشی کی شکل اختیار کرچکی ہے، جہاں ہزاروں بے گناہ شہری، خصوصاً خواتین اور بچے، مسلسل حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ محاصرے اور تباہ کن بمباری نے نہ صرف رہائشی علاقوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے بلکہ خوراک، پانی اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات بھی ختم ہو چکی ہیں، جس کے نتیجے میں قحط اور بھوک ایک بڑے انسانی بحران میں تبدیل ہورہی ہے۔

اسرائیل کی یہ جارحانہ پالیسی صرف غزہ تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے حالیہ مہینوں میں قطر، ایران، یمن اور لبنان سمیت مختلف اسلامی ممالک کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ قطر پر حملہ، ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش اور یمن میں بارہا فضائی حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ صہیونی حکومت خطے میں اپنی تسلط پسندانہ حکمت عملی کو آگے بڑھانے کے لیے کسی حد تک جاسکتی ہے۔ ان اقدامات نے اسلامی دنیا میں غم و غصے کو بڑھایا ہے اور حکمران طبقات پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف محض بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کریں۔

اسی پس منظر میں اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے سربراہان مملکت دوحہ میں غیر معمولی اجلاس کررہے ہیں۔ اس اجلاس سے توقع کی جا رہی ہے کہ ماضی کی طرح صرف قراردادوں اور مذمتی بیانات پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے ٹھوس اور عملی حکمتِ عملی وضع کی جائے گی۔ اجلاس میں اہم آپشنز جیسے اقتصادی و تجارتی تعلقات منقطع کرنا، نارملائزیشن کے عمل کو روکنا، اسرائیل کے اتحادیوں پر دباؤ ڈالنا اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے بین الاقوامی مہم شامل ہیں۔

یہ اجلاس اس لحاظ سے بھی غیر معمولی ہے کہ اسرائیل کی جارحیت اب براہ راست اسلامی ممالک تک پہنچ چکی ہے، جس نے عرب اور اسلامی دنیا کو متحد ہو کر ایک واضح اور مؤثر ردعمل دینے کی ضرورت پر مجبور کر دیا ہے۔ دوحہ میں عرب و اسلامی ممالک کے رہنماؤں کا ہنگامی اجلاس جاری ہے جہاں اسرائیلی جارحیت کے خلاف عملی اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں بنیادی توجہ تل ابیب کے اتحادیوں پر دباؤ ڈالنے پر مرکوز ہے جبکہ براہ راست فوجی کارروائی کا امکان کم ظاہر کیا جارہا ہے۔

اجلاس میں مختلف آپشنز زیر غور ہیں جن میں اسرائیلی مظالم کی مذمت، تعلقات کے قیام کے عمل کو روکنا، اسرائیل سے اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات ختم کرنا، صہیونی حکومت کے خلاف بین الاقوامی مہم چلانا، تل ابیب کے اتحادیوں پر دباؤ ڈالنا، عرب و اسلامی مشترکہ دفاع کو فعال کرنا، قطر کی ثالثی کوششوں کی حمایت اور غزہ کی جنگ بند کرانا شامل ہیں۔

سفارتی اور اقتصادی پابندی

عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق نارملائزیشن کا عمل روکنا اسرائیل کے لیے نہایت مؤثر اور تکلیف دہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس کی علاقائی حکمت عملی بڑی حد تک اسی عمل پر قائم ہے۔ اسی طرح اقتصادی و تجارتی تعلقات ختم کرنے کے فیصلے کے تحت اسرائیل اور اس کے ساتھ تعاون کرنے والی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں، جس کے نتیجے میں تل ابیب کو اقتصادی محاصرے کا سامنا ہوسکتا ہے، حتی کہ مقبوضہ علاقوں کی جانب جانے والے جہازوں کو روکنا اور اقتصادی معاہدوں کی منسوخی بھی اس میں شامل ہے۔

عالمی سطح پر دباؤ میں اضافہ

مزید برآں، صہیونی حکومت کے خلاف عالمی مہم کو بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ یورپ، افریقہ اور امریکہ سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں سیاسی رہنماؤں اور عوامی حلقوں کی جانب سے اسرائیلی اقدامات کی کھلی مخالفت سامنے آرہی ہے۔ اسی تناظر میں امریکہ سمیت اسرائیل کے اتحادیوں پر دباؤ بڑھانا بھی اہم آپشن قرار دیا جارہا ہے۔

مشترکہ دفاعی نظام کا قیام

عرب و اسلامی مشترکہ دفاع کو فعال کرنے کے آپشن کے تحت اسرائیلی حملوں کے تناظر میں خطے کی فضائی و زمینی سرحدوں کا مشترکہ تحفظ اور سیکیورٹی تعاون بڑھانے کی تجاویز شامل ہیں۔ عراقی وزیراعظم محمد شیاع السودانی نے بھی کہا ہے کہ عرب و اسلامی ممالک کے پاس اسرائیلی حملوں کو روکنے کے لیے بے شمار ذرائع موجود ہیں۔

غزہ میں جنگ بندی اور امداد رسانی

اجلاس میں یہ بھی تجویز دی جارہی ہے کہ غزہ میں قحط اور بھوک کا خاتمہ، رفح کراسنگ کھولنا، انسانی امداد کو بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے وہاں تک پہنچانا اور عرب و اسلامی ممالک کی فوجی نگرانی میں امداد کی فراہمی سمیت تعمیر نو کے اقدامات شروع کیے جائیں۔

فوجی آپریشن

عرب میڈیا کے مطابق اگرچہ آپشنز کی فہرست طویل ہے، لیکن ماہرین کے نزدیک فوجی آپشن کے استعمال کا امکان سب سے کمزور ہے، جبکہ سیاسی، سفارتی اور اقتصادی اقدامات ہی اجلاس کا سب سے نمایاں اور عملی ایجنڈا ہیں[46]۔

امت مسلمہ کے درمیان اتحاد، صہیونی حکومت کی بڑھتی ہوئی تنہائی

قطر پر صہیونی جارحیت کے بعد مسلمان ممالک مختلف شعبوں میں باہمی اتحاد پیدا کرکے صہیونی حکومت کو مزید تنہائی میں دھکیل سکتے ہیں [47] اسرائیلی فضائیہ نے گذشتہ ہفتے قطر کی فضائی حدود کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے دوحہ میں واقع اس مقام کو نشانہ بنایا جہاں خلیل الحیہ کی صدارت میں حماس کا اعلی سطحی اجلاس جاری تھا۔ صہیونی حکومت نے اس حملے کے ذریعے صرف قطر کی خودمختاری کو چیلنج کیا بلکہ خطے میں جنگ بندی کی کوششوں اور علاقائی تعاون کو بھی شدید دھچکا پہنچایا۔

اس واقعے کے بعد اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس 14 ستمبر کو دوحہ میں منعقد ہوا جس میں ایران کے وزیر خارجہ بھی شریک ہوئے۔ یہ اجلاس دراصل اس سربراہی کانفرنس کے لئے تمہید تھا۔ سربراہی اجلاس میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے بھی شرکت کی۔ مبصرین کے مطابق، اس بار اسلامی اور عرب ممالک نے واضح اشارہ دیا ہے کہ صرف سفارتی احتجاج اور مذمتی بیانات کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ صہیونی جارحیت کو روکا جاسکے۔

اجلاس سے قبل صدر پزشکیان نے اسلامی ممالک کے سامنے دو نکاتی لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے کہا کہ تمام اسلامی ممالک کو صہیونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ مسلم دنیا کو زیادہ سے زیادہ اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ دشمن کسی اسلامی ملک پر حملے کی جرات نہ کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان ایک ہی بازو بن جائیں تو اسرائیل کے تمام منصوبے ناکام ہوجائیں گے۔ وحدت اسلامی اب محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک ہتھیار ہے، جسے استعمال کئے بغیر نہ انصاف قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی خطے میں پائیدار امن ممکن ہے۔

انہوں نے ایران کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ صہیونی حملوں کے باوجود ایرانی قوم کے اتحاد و یکجہتی نے نہ صرف طاقت کا توازن بدل دیا بلکہ اسرائیل کو عالمی سطح پر پہلے سے زیادہ تنہائی میں دھکیل دیا۔ اگر یہی اتحاد اسلامی ممالک کے درمیان وسیع پیمانے پر قائم ہوجائے تو عالم اسلام دنیا میں عدل و انصاف کا ایک نیا نظام تشکیل دے سکتا ہے اور اسرائیلی عزائم آدھے راستے ہی میں دفن ہوجائیں گے۔

خارجہ پالیسی کے ممتاز ماہر حسن لاسجردی نے کہا ہے کہ اسرائیل اپنے مخالفین کو میدان سے باہر کرنے کی کوشش میں ہے، اسی لیے وہ فلسطینیوں، لبنانیوں، عراقیوں اور ایرانی عوام کے خلاف برسر پیکار ہے۔ صہیونی حکومت سمجھتی ہے کہ مغرب کی پشت پناہی اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے اہداف حاصل کرسکتی ہے، لیکن حماس رہنماؤں پر قاتلانہ حملے نے ثابت کردیا کہ اسرائیل ہر محاذ پر کامیاب نہیں ہے۔

لاسجردی نے کہا کہ ایران کے ساتھ جنگ مقابلے کے بعد بہت سے ملکوں نے یہ حقیقت تسلیم کی کہ صہیونی صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔ حالیہ واقعات نے عرب ممالک کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے، جو ماضی میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور سیاسی و معاشی روابط بڑھانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اب کئی ممالک اس کی زیادتیوں کے مقابلے میں سخت موقف اختیار کررہے ہیں جس سے مزاحمتی محاذ کو تقویت ملے گی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل نے ترکی جیسے ملک کو بھی دھمکیاں دیں اور اس طرح کے اقدامات یقینا جوابی ردعمل کو جنم دیں گے۔ آج خطے کے ممالک کسی بھی فیصلے سے قبل اعلان کررہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے خلاف کھڑے ہوں گے اور یہ ایک سنجیدہ محاذ کی تشکیل ہے۔

مسلم ممالک میں بڑھتی یکجہتی سے اسرائیل بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ صہیونی چینل 13 نے اپنی رپورٹ میں موجودہ صورتحال کو سیاسی سونامی قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ قطر پر ناکام حملے کے بعد اسرائیل کی تنہائی مزید بڑھ گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وہ ممالک جو اسرائیل کو دوست سمجھتے تھے، مثلا سعودی عرب، مصر اور اردن، اب ایران کے قریب آ رہے ہیں اور اب انہیں یقین نہیں رہا کہ تل ابیب ان کا قابل اعتماد اتحادی ہوسکتا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فعال سفارت کاری اور خطے کے عوام میں بڑھتی بیداری نے وائٹ ہاؤس اور صہیونی حکومت کی کئی پالیسیوں کو ناکام بنادیا ہے۔ اگر یہ رجحان آگے بڑھا اور مسلم ممالک نے صرف نعروں پر نہیں بلکہ عملی میدان میں بھی یکجہتی دکھائی، تو خطے میں ایک مستحکم اور پائیدار سیکورٹی کا نظام وجود میں آسکتا ہے جس سے صہیونی خطرات خود بخود زائل ہوجائیں گے البتہ اس کے لیے عملی میدان میں ہماہنگی اور ہمدلی ضروری ہے۔

دوحہ میں اسلامی و عرب ممالک کے ہنگامی اجلاس کے دوران لبنانی صدر جوزف عون نے صہیونی تجاوزات پر حیران کن مؤقف اختیار کیا۔ قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کے لیے بلائے گئے اجلاس میں عون نے عرب صلح منصوبے کی حمایت دہراتے ہوئے کہا کہ ہم عالمی برادری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ عرب صلح منصوبے کے مطابق صلح کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے دعوی کیا کہ دوحہ پر حملے کا مقصد دراصل ثالثی اور مسائل کے حل کے لیے مکالمے کے اصول کو نشانہ بنانا تھا۔ عون کا کہنا تھا کہ صورتحال اب پوری طرح واضح ہوچکی ہے اور جواب بھی اسی وضاحت کے ساتھ دیا جانا چاہیے۔ عرب ممالک کو متحد ہوکر جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک ہونا چاہیے۔ اپنے عجیب بیان میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمیں دنیا کو یہ بتانا چاہیے کہ ہم عرب صلح منصوبے کے مطابق صلح کے لیے تیار ہیں، جسے عالمی سطح پر وسیع حمایت حاصل ہے[48]۔

حوالہ جات

  1. محمد حسن بٹ، جدید اسرائیل کی تاریخ، لاہور علی فرید پرنٹرز، 2007م، ص9-10
  2. منور رضوی، قیام اسرائیل، 2015ء، ص6-7
  3. محمد اعظم چوہدری، بین الاقوامی تعلقات، کراچی، قمر کتاب گھر، 2004ء، ص618-619
  4. محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء، ص77-87
  5. مسئلہ فلسطین کب اور کیسے شروع ہوا؟independenturdu.com
  6. یوسف ظفر، یہودیت، جنگ پبلشرز، 1997ء، ص267
  7. اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟ dawnnews.tv
  8. صیہونیت کی سب سے پہلے مخالفت یہودیوں نے ہی کی- ur.hawzahnews.com-شائع شدہ از:8 مئی 2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 مئی 2024ء۔
  9. غزہ میں جنگ بندی کی جائے، اسرائیل کی نابودی کے مناظر دیکھ رہے ہیں، سابق صہیونی وزیراعظم-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 7 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 جون 2024ء۔
  10. بچوں کے قاتلوں کی فہرست میں شامل ہونے پر اسرائیل اقوام متحدہ پر برہم-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 8 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 جون 2024ء۔
  11. صہیونی آرمی چیف کی عرب فوجی سربراہوں سے خفیہ ملاقات کا انکشاف-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 13 جون - اخذ شدہ بہ تاریخ: 13 جون 2024ء۔
  12. اسرائیل غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے، اقوام متحدہ-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 22جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ : 24 جون 2024ء۔
  13. ایران پر ممکنہ حملہ، تین عرب ممالک کا اسرائیل کو فضائی حدود دینے سے انکار-mehrnews.com- شائع شدہ از: 13 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 13 اکتوبر 2024ء۔
  14. حزب اللہ کا ڈرون حملہ اسرائیلی فوج کے لئے ایک سنگین چیلنج بن گیا، صیہونی میڈیا- ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 14 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 اکتوبر 2024ء۔
  15. نیتن یاہو بند گلی میں/ تل ابیب کی جنگی اسٹریٹجی کی ناکامی ہوگئی، صیہونی تجزیہ کار-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 21 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 اکتوبر 2024ء۔
  16. نیتن یاہو کے خطاب کے دوران زبردست احتجاج/ شیم شیم نیتن یاہو کی صدائیں بلند-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 28 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 اکتوبر 2024ء۔
  17. وزیر خارجہ اردن: اسرائیل کے جرائم پر خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے -ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 28 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 اکتوبر 2024ء۔
  18. گلگت؛ وحدت امت کانفرنس بعنوان لبیک یا غزہ و اقصیٰ؛ غاصب اسرائیل کے جرائم پر اسلامی ممالک کی خاموشی ناقابل فہم ہے، آغا سید راحت الحسینی- ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 28 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 اکتوبر 2024ء۔
  19. اسرائیل کا حقیقی دشمن نتن یاہو ہے ایران اور حزب اللہ نہیں، سابق صہیونی وزیراعظم- ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 30 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 اکتوبر 2024ء۔
  20. اسرائیل ایرانی صحرا میں بھی ایک تیر پھینکے تو اس کا بھی جواب دیا جائے گا، ایرانی وزیر دفاع-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 30 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 اکتوبر 2024ء۔
  21. اسرائیل کے اندورنی حالات کیا ہیں؟ فرار کا کوئی راستہ نہیں، نیتن یاہو شکست تسلیم کریں؛ صیہونی اپوزیشن لیڈر کی تنقید-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 30 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 اکتوبر 2024ء۔
  22. اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا اس وقت سوال سے باہر ہے، سعودی وزیر خارجہ--ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 31 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 اکتوبر 2024ء۔
  23. تل ابیب میں حریدی فرقے کا احتجاج، صہیونی پولیس کے ساتھ تصادم، متعدد گرفتار-ur.mehrnews.com- 1نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2024ء۔
  24. صہیونی حکومت کے خلاف مقدمہ، آئرلینڈ کا جنوبی افریقہ کے ساتھ شامل ہونے کا اعلان-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 8 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 نومبر 2024ء۔
  25. اسلامی ممالک اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں- ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 11 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 نومبر 2024ء-
  26. نتن یاہو کو برخاست کرنے کی مبینہ کوششیں-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 15 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 نومبر 2024ء۔
  27. اسرائیل، حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کاآغاز، امریکہ، برطانیہ کا خیر مقدم-dailypakistan.com.pk-شائع شدہ از: 28نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 نومبر 2024ء
  28. صیہونی رجیم کے شام پر فضائی حملے، دمشق میں آگ بھڑک اٹھی-ur.mehrnews.com- 8 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 دسمبر 2024ء
  29. اسرائيل، جڑ سے اکھڑ جائے گا، رہبر انقلاب- شائع شدہ از: 17 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 دسمبر 2024ء۔
  30. یمنی فوج کا مقبوضہ فلسطین میں صہیونی تنصیبات پر میزائل حملہ- شائع شدہ از: 19 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 دسمبر 2024ء۔
  31. تل ابیب کے مرکز پر یمنی فوج کا میزائل حملہ، متعدد صہیونی زخمی-شائع شدہ از: 21 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 دسمبر 2024ء۔
  32. اسرائیل کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری رہیں گی، یمن کا دبنگ اعلان- شائع شدہ از: شائع شدہ از: 6 جنوری 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 جنوری 2024ء۔
  33. غزہ جنگ بندی کے آفٹر شاکس؛ شباک کے سربراہ بھی استعفیٰ دیں گے- شائع شدہ از: 22 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 جنوری 2025ء۔
  34. اسرائیل کی الشجاعیہ کے محصور فلسطینیوں پر اندھادھند بمباری، متعدد شہید اور درجنوں زخمی- شائع شدہ از: 5 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 اپریل 2025ء
  35. اسرائیل کا ہلال احمر کے طبی عملے پر حملہ، حماس کا بین الاقوامی انصاف کا مطالبہ- شائع شدہ از:5 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 اپریل 2025ء-
  36. ملیحہ لودھی، ’امن پسند‘ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل پر جارحیت روکنے کے لیے دباؤ ڈالنے میں ناکام کیوں ہیں؟- شائع شدہ از: 26 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:26 مئی 2025ء
  37. امت مسلمہ میں بیداری کی لہر، ایشیا سے افریقہ تک اسرائیل کے خلاف انسانیت کی آواز بلند ہونے لگی+ ویڈیو- شائع شدہ از: 29 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 جون 2025ء
  38. صیہونی حکومت کی ناکامی پر ہزاروں اسرائیلیوں کا احتجاج، نتانیاہو کے استعفے کا مطالبہ- شائع شدہ از: 30 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 جون 2025ء
  39. سورہ مائدة، آیہ 33
  40. عالم اسلام کے 100 علماء کا فتویٰ : ٹرمپ اور نتن یاہو “محارب” اور “مفسد فی‌الارض” قرار- شائع شدہ از: 9 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 جولائی 2025ء
  41. اسرائیل کی ایران کے خلاف دوبارہ جنگ کی کوشش، نتن یاہو کو درپیش بڑے چیلنجز- شائع شدہ از: 13 جولا‏ئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 جولائی 2025ء
  42. ایران کے جوابی حملے میں 30 صہیونی پائلٹ ہلاک، سابق سفیر کا انکشاف-شائع شدہ از: 16 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 جولائی 2025ء
  43. تل ابیب و حیفا میں نتن یاہو کے خلاف مظاہرے، جنگ غزہ کے خاتمے کا مطالبہ-شائع شدہ از: 25 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:25 جولائی 2025ء
  44. فلسطین پر اسرائیلی غیر قانونی قبضہ فوری طور پر ختم کیا جائے، سربراہ اقوام متحدہ-شائع شدہ از: 29 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 جولائی 2025ء
  45. مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک
  46. دوحہ، عرب و اسلامی سربراہی اجلاس: اسرائیلی جارحیت کے خلاف کون سے اقدامات زیر غور؟-شائع شدہ از: 15 ستمبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 ستمبر 2025ء
  47. مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک
  48. امت مسلمہ کے درمیان اتحاد، صہیونی حکومت کی بڑھتی ہوئی تنہائی-شائع شدہ از: 16 ستمبر 2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 ستمبر 2025ء