مندرجات کا رخ کریں

سید علی خامنہ ای

ویکی‌وحدت سے
سید علی خامنہ ای
پورا نامسید علی خامنہ ای
دوسرے نامامام
ذاتی معلومات
پیدائش1939 ء، 1317 ش، 1357 ق
یوم پیدائش19 اپریل
پیدائش کی جگہمشہد، ایران
اساتذہ
  • سید جواد حسینی خامنہ ای
  • میرزا محمد مدرس یزدی
  • سید محمد ہادی میلانی
  • سید محمد ہادی میلانی
  • سید محمد ہادی میلانی
  • سید محمد محقق داماد
  • سید محمد حسین طباطبائی
  • شیخ مرتضی حائری یزدی
  • امام خمینی
مذہباسلام، شیعہ
مناصب
  • آئینی ماہرین کی پارلیمنٹ کے نمائندے
  • تہران کے امام جمعہ
  • صدر 1360-1368
  • اسلامی جمہوریہ ایران کے رہنما 1368 سے اب تک
  • فقہ و اصول اور اخلاقیات پر مدارس کے نصاب کی تعلیم

سید علی حسینی خامنہ‌ای شیعہ مرجع تقلید اور اسلامی انقلاب کے دوسرے رہبر ہیں۔ سنہ 1989ء میں رہبر انقلاب کے طور پر منتخب ہونے سے پہلے دو بار ایران کے صدر اور اس سے قبل کچھ عرصے تک مجلس شورائے اسلامی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ امام خمینی نے انہیں تہران کے امام جمعہ کے طور پر مقرر کیا اور یہ ان کے شرعی مناصب میں سے ایک ہے۔ آپ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے مشہد مقدس کے مؤثر ترین علمائے دین میں شمار ہوتے تھے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ‌ای کے افکار و آراء کو حدیث ولایت نامی مجموعے میں اکٹھا کیا گیا ہے۔ ان کے اقوال اور مکتوب پیغامات کو حسب موضوع مختلف کتب کی صورت میں مرتب کرکے شائع کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے کئی کتابیں تالیف کی ہیں اور کئی کتب کا ترجمہ کیا ہے اور یہ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی مفصل ترین کاوش طرح کلی اندیشہ اسلامی در قرآن اور مشہور ترین ترجمہ کتاب صلح امام حسن ہے۔

قمہ زنی اور عزاداری کی بعض رسومات کی صریح مخالفت اور اہل سنت کے مقدسات کی توہین کی تحریم ان کے مشہور اور مؤثر فتوؤں میں سے ہیں۔ ثقافتی یلغار اور اسلامی بیداری ان کی خاص تخلیقی اصطلاحات ہیں جو ان کی تقریروں اور پیغامات کے توسط سے سیاسی ادب کا حصہ بن چکی ہیں۔ آیت اللہ العظمی خامنہ‌ای ادب میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور ادبیات کے مختلف اسالیب سے واقفیت رکھتے ہیں۔ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں اور ان کا تخلص "امین" ہے۔ معتبر تاریخی کتب کا مطالعہ ان کی دائمی مطالعاتی روش کا حصہ ہے، یہاں تک کہ تاریخ معاصر کے موضوعات و مباحث پر مکمل احاطہ رکھتے ہیں۔

تعلیم

انہوں نے اپنی تعلیم کا آغاز چار سال کی عمر میں اسکول میں قرآن پاک سے کیا۔

مشہد میں تعلیم

انہوں نے ابتدائی تعلیم مشہد کے پہلے اسلامی اسکول دار العلم دیانتی میں حاصل کی۔ انہی ایام میں مشہد میں چند قراء کرام کے ہمراہ تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنا شروع کیا۔پرائمری اسکول کی پانچویں جماعت سے انہوں نے حوزہ کی ابتدائی تعلیم بھی شروع کی۔ حوزہ کی تعلیم کے سلسلے میں ان کا زبردست جوش اور والدین کی حوصلہ افزائی سبب بنی کہ انہوں نے پرائمری اسکول سے فارغ ہونے کے بعد حوزہ کی دنیا میں قدم رکھ دیا اور مدرسہ سلیمان خان میں دینی علوم کی تعلیم کو آگے بڑھایا۔انہوں نے مقدمات کا کچھ حصہ اپنے والد محترم کے سامنے طے کیا۔پھر وہ مدرسہ نواب گئے اور وہاں دورہ سطح کو مکمل کیا۔ مدرسے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ، انہوں نے ہائی اسکول کے دوسرے سال تک اسکولی تعلیم جاری رکھی۔ انہوں نے معالم الاصول آیت اللہ سید جلیل حسینی سیستانی سے اور شرح لمعہ اپنے والد اور میرزا احمد مدرس یزدی سے پڑھی۔ انہوں نےرسائل، مکاسب اور کفایہ کا درس بھی اپنے والد اور آیت اللہ حاج شیخ ہاشم قزوینی سے حاصل کیا ۔ 1334 ہجری شمسی میں آیت اللہ سید محمد ہادی میلانی کے فقہ کے درس خارج میں شرکت کی۔

نجف میں تعلیم

1336 ہجری شمسی میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک مختصر سفر کے دوران نجف اشرف گئے اور حوزہ علمیہ نجف کے نامور اساتذہ کےدروس میں شرکت کی جن میں آیت اللہ سید محسن حکیم، آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی، آیت اللہ سید محمود شاہرودی اور مرزا باقر زنجانی اور میرزا حسن بجنوردی شامل تھے۔ لیکن اپنے والد کی اس شہر میں رہنے کی خواہش نہ ہونے کی وجہ سے مشہد واپس آئے اور مزید ایک سال آیت اللہ میلانی کے درس میں شرکت کی۔

پھر 1337 ہجری شمسی میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کےشوق میں حوزہ علمیہ قم چلے گئے۔ اسی سال قم روانگی سے قبل آیت اللہ محمد ہادی میلانی نے انہیں اجازہ روایت عطا کیا ۔

قم میں تعلیم

سید علی خامنہ ای نے قم میں آیت اللہ حسین طباطبائی بروجردی، امام خمینی، حاج شیخ مرتضی حائری یزدی، سید محمد محقق داماد اور آیت اللہ سید محمد حسین طباطبائی جیسے بزرگوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ قم میں قیام کے دوران انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت تحقیق، مطالعہ اور تدریس میں گزارا [1]۔

واپس مشہد

وہ اپنے والد کی کمزور نظر کی وجہ سے ان کی مدد کرنے کے لئے 1343 ہجری شمسی میں مجبوراً قم سے مشہد واپس آئے۔ اور ایک بار پھر آیت اللہ میلانی کی درسی نشستوں میں شرکت کی۔یہ سلسلہ 1349 تک جاری رہا۔ مشہد میں قیام کے آغاز سے ہی انہوں نے اپنے آپ کو فقہ و اصول کے اعلیٰ درجات (رسائل،مکاسب،کفایہ) کی تعلیم دینے اور عوام الناس کے لیے تفسیر کی نشستیں منعقد کرنے کے لیے وقف کر دیا۔ان جلسوں میں نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد بالخصوص کالج کے طلبہ شرکت کرتے تھے۔ اپنی تفسیری نشستوں میں وہ قرآن کی آیات سے اسلام کی اہم ترین فکری بنیادوں کا استخراج کرکے بیان کیا کرتے تھے۔اور ظالم حکومت سے لڑنے اور اس کا تختہ الٹنے کی فکر کی بنیادوں کو مزید گہرا کرنے کا کام کرتےجس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ شرکاء درس اس ضروری اور فطری نتیجے پر پہنچتے کہ ملک میں اسلام کی اور دینی معارف پر مبنی حکومت کا قیام ضروری ہے۔ ان کے درس تفسیرکے اہم مقاصد میں سے ایک انقلاب اسلامی کے اصولوں کو معاشرے تک پہنچانا تھا۔

1347 ہجری شمسی سے، انہوں نے دینی علوم کے طلباء کے لیے تفسیر کا ایک خصوصی درس شروع کیا، جو 1356 تک ان کی گرفتاری اور ایران شہر کی جانب جلاوطنی تک جاری رہا۔ ان کا تفسیر کا درس صدارت کے سالوں میں اور اس کے بعد بھی جاری رہا۔

سیاسی سرگرمیاں

انقلاب سے پہلے کی جدوجہد کا دور

آیت اللہ خامنہ ای کے خاندان کی سیاسی-مذہبی سرگرمیوں کے پس منظرنے انہیں سیاسی مذہبی جد و جہد کے لئے تربیتی پس منظر فراہم کر دیا تھا۔ان کی سیاسی سرگرمیوں کا نقطہ آغاز مشہد میں ان کی سید مجتبی نواب صفوی (میر لوحی)سے ملاقات تھی۔ خود ان کے مطابق اس ملاقات سے ان کے اندر انقلاب کی پہلی چنگاریاں نمودار ہوئیں۔

وہ ان پہلے لوگوں میں سے تھے جنہوں نے 15 خرداد 1342 کی بغاوت سے پہلے کے عرصے میں ہم آہنگی کے ساتھ مبارزاتی جد و جہد کا آغاز کیا۔ بہمن 1341 میں ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے بل پر ریفرنڈم کے بعد آیت اللہ خامنہ ای اور ان کے بھائی سید محمد کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ مشہد کے عوام کے ردعمل کے بارے میں آیت اللہ محمد ہادی میلانی کی رپورٹ امام خمینی کو ایک خط کی صورت میں پہنچائیں۔

پہلی گرفتاری

1342 میں ماہ محرم کے موقع پر، امام خمینی نے انہیں آیت اللہ میلانی اور خراسان کے دیگر علما اور مذہبی انجمنوں تک تحریک کو جاری رکھنے اور لوگوں کو پہلوی حکومت کے پروپیگنڈے سے آگاہ کرنے کے سلسلے میں پیغامات بھیجنے پر مامور کیا۔

ان پیغامات میں امام خمینی نے جدوجہد کی پالیسی کا خاکہ پیش کیا اور علماء اور روحانی حضرات سے کہا کہ وہ پہلوی حکومت کے جرائم کی وضاحت کے لیے محرم کی ساتویں تاریخ سے منبروں سے مدرسہ فیضیہ کا واقعہ بیان کریں۔ آیت اللہ خامنہ ای خود مقصد کو حاصل کرنے اور امام خمینی کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بیرجند گئے جو کہ علم خاندان کے زیر اثر تھا اور اس شہر کے منبروں اور مجالس میں انھوں نے مدرسہ فیضیہ کے حادثے اور اسلامی معاشروں پر اسرائیل کی حکمرانی کے متعلق تقریریں کی۔ ان تقاریر کے بعد آپ کو 7 محرم 1383 مطابق 12 خرداد 1342 کو مشہد میں گرفتار کر کے قید کر دیا گیا۔

رہائی کے بعد آیت اللہ محمد ہادی میلانی نے ان سے ملاقات کی۔ اس کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے نظربند امام خمینی کی غیر موجودگی میں اسلامی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے آیت اللہ میلانی کے گھر پر منعقدہ نشستوں میں شرکت کرکے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد وہ حوزہ علمیہ قم واپس آئے اور کچھ مجاہد علما کی مدد اور تعاون سے مشاورتی جلسوں اور تبلیغات کے ذریعے سیاسی سرگرمیوں کو دوبارہ منظم کیا۔ وہ ان علماء میں سے تھے جنہوں نے 11 دی 1342 کو آیت اللہ سید محمود طالقانی ، مہدی بازرگان اور ید اللہ سحابی کو ٹیلی گرام بھیجا تھا جو امام خمینی کی حمایت کی وجہ سے قید کر لئے گئے تھے۔ اسی دوران ان کی رہنمائی میں حوزہ علمیہ قم کے خراسانی طلبہ نے امام خمینی کی نظربندی کے جاری رہنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم حسن علی منصور کو ایک خط لکھا اور شائع کیا۔ان طلبہ میں ان کے علاوہ ابوالقاسم خزعلی اور محمد عبائی خراسانی شامل تھے۔

دوسری گرفتاری

وہ اسلامی تحریک کے مسائل کی تبلیغ اور وضاحت کے لیے بہمن 1342 مطابق رمضان المبارک 1383ھ میں زاہدان گئے۔زاہدان کی مسجدوں میں ان کی تقاریر اور عوام کی پذیرائی نے حکومت کو انہیں گرفتار کرنے اور قزل قلعہ جیل میں منتقل کرنے پر اکسایا جو اس وقت سیاسی قیدیوں کی حراست کی جگہ تھی۔ 14 اسفند 1342 کو آیت اللہ خامنہ ای کی گرفتاری کے حکم کو تہران کے دائرہ سے باہر نہ نکلنے کے حکم میں تبدیل کر کے انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے انقلاب اسلامی کی فتح تک ان کی سرگرمیاں ہمیشہ سیکورٹی ایجنٹوں کے زیر نظر رہیں۔

حوزہ علمیہ قم کے گیارہ اراکین کا اجلاس

آیت اللہ خامنہ ای 1343ھ کے موسم خزاں میں قم سے مشہد واپس آئے اور اپنے والد کی دیکھ بھال کے علاوہ علمی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ وہ ان علماء میں سے تھے جنہوں نے امام خمینی کی ترکی جلاوطنی کے فوراً بعد، 29 بہمن 1343کو اس وقت کی حکومت یعنی امیر عباس ہویدا کی حکومت کو خط لکھا، جس میں ملک میں پھیلی افراتفری اور امام خمینی کی جلاوطنی کے خلاف احتجاج کیا۔سید علی خامنہ ای، عبدالرحیم ربانی شیرازی، علی فیض مشکینی، ابراہیم امینی، مہدی حائری تہرانی، حسین علی منتظری، احمد آذری قمی، علی قدوسی، اکبر ہاشمی رفسنجانی، سید محمد خامنہ ای اور محمد تقی مصباح یزدی کے ہمراہ اس گیارہ نفری گروپ کا حصہ تھے، جو پہلوی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے حوزہ علمیہ قم کی تقویت اور اصلاح کے مقصد سے تشکیل دیا گیا تھا۔

تحریک فکر اور عقیدے پر مبنی تھی اور یہی اس کی ترقی کا راز تھا۔ اور علما اس جدوجہد کی باڈی اور ماسٹر مائنڈ کی حیثیت رکھتے تھے۔ جدوجہد کے اس مرحلے پر وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ تنظیم کے بغیر انہیں زیادہ کامیابی نہیں ملے گی جبکہ تنظیم کا وجود حکومت کے ہاتھوں تحریک کے خاتمے کو روک دے گا۔ امام خمینی کی جلاوطنی کے دوران اس گروہ نے مہم کی منصوبہ بندی اور اس کے تسلسل کو سنبھالا۔

اس گروہ کو حوزہ علمیہ قم کی پہلی خفیہ تنظیم کہا جاتا ہے جس کی سرگرمیوں کا انکشاف 1345ھ کے اواخر میں ساواک نے کیا اور اس کے بعد کچھ ارکان کو گرفتار کر لیا گیا اور دیگر پر ظلم و ستم کیا گیا جن میں آیت اللہ خامنہ ای بھی شامل تھے۔

جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کی بنیاد

اس کے علاوہ ایک اور نشست کاآغاز کیا گیا جو موجودہ جامعہ مدرسین کی بنیاد ہے۔ ”ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے جامعہ مدرسین کی ابتدائی میٹنگوں میں شرکت کی۔میں تھا، اور میرے خیال میں ہاشمی رفسنجانی تھے۔ جناب (علی )مشکینی، ربانی شیرازی،( ناصر) مکارم اور(عمر کے اعتبار سے) کچھ بزرگ لوگوں نے بھی شرکت کی“۔ ان ملاقاتوں اور ان میں ہونے والے فیصلوں نے حوزہ علمیہ قم کا ماحول بدل دیا۔حقیقت یہ ہے کہ ان فیصلوں کے پیچھے اراکین اجلاس کے بجائے دوسرے افراد کاہاتھ ہوتا تھا یعنی نوجوان اور دلچسپی رکھنے والے طلباء۔اس ہل چل نے قم کے بند اور اداس ماحول کو کھول دیا۔ انہی ایام میں آیت اللہ خامنہ ای نے خفیہ طور پر ”مستقبل در قلمروی اسلام“ نامی کتاب کا ترجمہ کرکے شائع کیا۔ اس کتاب میں دو اہم مسائل یعنی مغربی دباؤ اور کمیونزم کے پروپیگنڈے کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اسلام کی طرف بڑھتے ہوئے مستقبل کا ایک تناظر پیش کیا گیا ہے۔ ساواک نے کتاب ضبط کر لی اور اس کی اشاعت سے وابستہ لوگوں کو گرفتار کر لیا، لیکن آیت اللہ خامنہ ای (کتاب کے مترجم) کو گرفتار کرنے میں ناکام رہا۔ آیت اللہ خامنہ ای ان دنوں کچھ عرصہ تہران اور کرج میں سرگرم رہے۔ لیکن حکومت مخالف مطالب کا اظہار نہ کرنے کا عہد نہ دینے کی وجہ سے کرج میں ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ انہوں نے تہران کی مسجد امیرالمومنین (ع) میں بھی کچھ عرصہ نماز جماعت کی امامت کی۔

تیسری گرفتاری

فروردین 1346 میں مسجد گوہرشاد میں حکومت مخالف تقریر کے نتیجےمیں آیت اللہ سید حسن قمی کی گرفتاری اور جلاوطنی کے بعد، آیت اللہ خامنہ ای نے آیت اللہ میلانی سے اس اقدام کے خلاف احتجاج کرنے کو کہا۔ اس اقدام کی وجہ سے ساواک کے افسران کو مشہد میں ان کی موجودگی کا پتہ چلا اور اسی سال 14 فروردین کو آیت اللہ شیخ مجتبیٰ قزوینی کی تشیع جنازے کی تقریب میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں اسی سال 26 تیر ماہ کو رہا کیا گیا تھا۔

رہائی کے فوراً بعد انہوں نے تہران میں سیاسی قیدیوں سے ملاقات کی۔ آیت اللہ خامنہ ای نے مختلف جگہوں پر مجاہدین کے ساتھ رابطے کے ذریعے مجاہدین اور تحریک کو منظم کرنے کی کوشش کی، مجاہدوں اور انقلابیوں کی نئی نسل خاص طور پر دینی علوم کے طلباء اور کالج کے طالب علموں کو اسلامی فکر پر مبنی تربیت دی اور قرآن و حدیث سے تحریک کے اصول و مبانی کا استنباط کرنے کی کوشش کی۔ مارکسی اور لبرل مادیت پسند اور ان جیسے دوسرے نظریات کا مقابلہ کرتے ہوئے امام خمینی کی تحریک کے دائرہ کار میں اسلامی فکر اور جدوجہد کو مزید گہرا کیا اور پہلوی حکومت کی مخالفت کے باوجود بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔

جدوجہد کے متعلق ہمہ جہتی نقطہ نظر، امام خمینی کی تحریک کے وسیع معلوماتی نیٹ ورک کا استعمال اور منبرجیسا جامع میڈیا اور ان کی عملیت پسندی ان کی کامیابی کے چند اسباب ہیں۔ خراسان کے جنوب میں 9 شہریور 1347 کو آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد، خراسان کے کچھ علما آیت اللہ خامنہ ای کی سربراہی میں زلزلہ زدگان کو امداد پہنچانے اور عوامی امداد کو منظم کرنے کے مقصد سے فردوس گئے۔ مقامی سیکیورٹی حکام کی جانب سے اس کارروائی کی مخالفت کی گئی تاہم امدادی گروپ نے متاثرین زلزلہ کی مدد کے لیے موثر اقدامات کئے۔

فردوس میں آیت اللہ خامنہ ای کی دو ماہ کی موجودگی اور امداد نے ان کے لیے زلزلہ سے متاثرہ لوگوں کے مسائل کو قریب سے جاننے اور مجلسوں میں اور منبروں سے نیز مذہبی انجمنوں میں اس علاقے کے لوگوں کے لئے تحریک کے پیغام کو بیان کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ان سرگرمیوں نے خراسان کے شہری انتظامیہ اور ساواک کی حساسیت کو جنم دیا اور فردوس میں ان کا قیام ختم کر دیا گیا۔ اسی سال دیماہ کے آخر میں، انہوں نے مشاہد مقدسہ کی زیارت پر جانے اور امام خمینی سے ملاقات کا منصوبہ بنایا، لیکن انہیں ساواک کی مخالفت اور رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ پابندی اسلامی انقلاب کی فتح تک جاری رہی اور انہیں وہاں سے نکلنے سے منع کر دیا گیا۔

چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی

آیت اللہ خامنہ ای کو گیارہ نفری گروپ کا رکن ہونے کی وجہ سے چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ کیہان اخبار میں اس خبر کی اشاعت اور آیت اللہ خامنہ ای کو اپیل کورٹ میں طلب کیے جانے کے بعد انہوں نے مشہد کے بعض علماء سے مشورہ کر کے عدالت میں پیش ہونے سے انکار کر دیا۔ اگرچہ ان پر مقدمہ چل رہا تھا، اس کے باوجود وہ مشہد اور تہران کے کچھ عسکریت پسند علما سے رابطے میں تھے جن میں سید محمود طالقانی، سید محمد رضا سعیدی، محمد جواد بہنر، محمد رضا مہدوی کنی، مرتضی مطہری، اکبر ہاشمی رفسنجانی اور فضل اللہ محلاتی شامل تھے۔اگرچہ ان کا قیام مشہد میں تھا مگر پھر بھی انہوں نے تہران کے عسکریت پسند علماء کی متعدد مجالس میں شرکت کی ۔

مشہد کی نواحی بستیوں میں علماء اور طلباء کو بھیجنے کے سلسلے میں انہوں نے بعض علماء کے ساتھ مل کر جلسات منعقد کئے اوراس میں لئے گئے فیصلوں پر عمل در آمد کیا۔آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی تحریک کو عقیدت کی نظر سے دیکھا اور اسی بنیاد پر لوگوں کی فکری تربیت کرتے ہوئے اپنی جد و جہد کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے دینی طلباء اور کالج کے اسٹوڈنٹس کے لیے درس تفسیرمنعقد کر کے اور مختلف طبقوں کے درمیان تقریروں کے ذریعہ ان کی دینی -اعتقادی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ ان کا ماننا تھا کہ اسلامی اہداف کا حصول ثقافتی کوششوں کے ذریعہ ممکن ہے اور عوامی قیام شعور اور علم پھیلائے بغیرممکن نہیں ہے۔ روشن فکر افراد اور گروہوں کو یونیورسٹیوں میں فعال اور عسکریت پسند سمجھا جاتا تھا۔ وہ مارکسی فکر پر یقین رکھنے والے سیاسی دھاروں کی سرگرمیوں کے جواب میں اس نقطہ نظر کو ضروری سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے 1348 میں اسلامی مجاہدین اور مفکرین کے ساتھ علمی سرگرمیوں اور ملاقاتوں کا اہتمام کیا۔

تہران میں حسینیہ ارشاد اور مسجد الجواد میں تقریریں

آیت اللہ خامنہ ای ،جدوجہد کے میدان میں بہت سے مشہور دانشوروں اور فکری مراکز کے ساتھ تعلقات اور تعاون رکھتے تھے۔ 1348 میں، انہیں تہران کے بعض سرگرم سیاسی-اسلامی مراکز میں تقریر کرنے کے لیے مدعو کیا گیا جن میں حسینیہ ارشاد اور مسجد الجواد شامل ہیں، تاکہ جدوجہد کے عمل میں اثر انگیز مسائل کی وضاحت کی جا سکے۔

سنہ 1348 کے آخر میں آیت اللہ مرتضی مطہری کی دعوت پر حسینیہ ارشاد میں انہوں نے جو تقریریں کی نیز انجینیئروں کی اسلامی انجمن کی دعوت پر تہران کی الجواد مسجد میں ان کی تقریروں نے نوجوان نسل بالخصوص طلباء کی روشن خیالی پر بہت اثر ڈالا۔

1349 کے موسم بہار میں، آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی تحریک کے عمل کو مزید گہرا ئی عطاکرنے اور پہلوی حکومت کے خلاف جدوجہد کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ قائم کیا، جس میں انھوں نے اسلامی تصور کائنات اور آئیڈیالوجی مرتب کرنے کے لیے جد و جہد پر مبنی اپنا نظریہ پیش کیا۔ مرتضی مطہری، سید محمود طالقانی، سید ابوالفضل زنجانی، مہدی بازارگان، اکبر ہاشمی رفسنجانی، ید اللہ سحابی، عباس شیبانی اور کاظم سامی جیسے لوگوں کو مدعو کرکے نظریہ پر بحث اور تجزیہ کیا۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ اسلامی تصور کائنات اورآئیڈیالوجی کی تشکیل کا باعث بنا۔

چوتھی گرفتاری

خرداد 1349 میں آیت اللہ سید محسن حکیم کی وفات کے ساتھ ہی مرجعیت کا مسئلہ جو ماضی میں آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد اٹھا تھا،ایک بار پھر سنجیدگی سے اٹھا۔ اس بیچ آیت اللہ خامنہ ای نے آیت اللہ حکیم کے فقہی اور علمی مقام و مرتبے کی قدر دانی کی اور بعض علما کو تعزیتی پیغامات بھیجے ۔اسی کے ساتھ انہوں نے مرجع تقلید کے طور پر امام خمینی کی مرجعیت کو مستحکم کرنے کی غیر معمولی کوشش کی۔

انہی دنوں 20 خرداد 1349 کو ساواک کے ہاتھوں آیت اللہ سید محمد رضا سعیدی کی شہادت کے بعد، جو اس وقت امام خمینی کے سب سے اہم مبلغین میں سے تھے، انہوں نے بہت سے دوسرے انقلابیوں کے ساتھ مل کر آیت اللہ سعیدی کی شہادت کے خلاف عوامی ردعمل کی رہنمائی کرتے ہوئے نئی صورت حال کا تحریک کے حق میں استعمال کیا۔

محرم 1391/اسفند 1349 میں، اگرچہ آیت اللہ خامنہ ای کا نام ساواک کے ممنوعہ مبلغین کی فہرست میں شامل تھا، لیکن انہوں نے تہران کی انصار الحسینی انجمن میں تقریریں کیں۔ 1350 میں آیت اللہ خامنہ ای نے آیت اللہ طالقانی کی دعوت پر تہران کی مسجد ہدایت میں تقریریں کیں جو کالج کے طلباء اور انقلابی نوجوانوں کی توجہ کا مرکز تھیں۔

امام خمینی کی جانب سے 2500 سالہ تقریبات پر پابندی کے بائیکاٹ کے بعد، ساواک نے انقلابی علماء کی سرگرمیوں کے خلاف سخت احتیاط برتی۔ اسی بنا پر مرداد 1350ء میں انہیں مشہد ساواک بلوایا گیا اور کچھ عرصہ لشکر خراسان کی جیل میں رکھا گیا۔ رہائی کے بعد، انہوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی اور اسی سال دو بار اور گرفتار کیا گیا۔ ایک بار آبان 1350 میں، جس کے نتیجے میں وہ لشکر خراسان جیل میں مختصر مدت کے لیے نظر بند رہے۔ دوسربار داخلی سلامتی کے خلاف کام کرنے کے الزام میں اسی سال 21 آذر کو تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی ۔

رہائی کے بعد انہوں نے اپنی سماجی -سیاسی سرگرمیوں کو وسعت دی اور تہران میں انجمن انصار الحسین اور مسجد نارمک کے کئی اجلاسوں میں شرکت کی اور دینی اور سیاسی مسائل پر تقریریں کیں۔ مکتب میرزا جعفر ، مسجد امام حسن (ع) اور مسجد قبلہ کے علاوہ مشہد میں ان کے گھر میں ان کے درس و تفسیر کی نشستیں جاری رہی۔ ان نشستوں میں ان کے سامعین اسکول اور کالج کے اسٹوڈنٹس، ، نوجوان دینی طلباء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے، جنہیں انہوں نے اسلام کی انقلابی اور سیاسی سوچ سے متعارف کرایا۔ ان جلسوں کے سامعین اور ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد نے بعد میں جدوجہد کے عروج پر ملک کے مختلف حصوں میں بیداری پھیلا نے کا کام کیا۔

ان کی تقریروں اور دروس کی رپورٹس سیکیورٹی افسران کی طرف سے کئی بار منظر عام پر آئی۔ ساواک کی نظر میں ، آیت اللہ خامنہ ای جیسے افراد حوزہ علمیہ کے روشن فکر اور انقلابی مدرسین کی فہرست میں شامل تھےجو اسٹوڈنٹس اور نوجوانوں سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ ،امام خمینی کے انقلابی نظریات کو فروغ دیتے تھے اور دینی علوم کے طلباء کو سیاسی اور سماجی مسائل سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ فروردین 1352 میں آیت اللہ خامنہ ای تبلیغ کے لیے نیشاپور گئے اور وہاں کی مسجدوں میں اصول عقائد کا درس دیا جو ہفتے میں ایک بار منگل کو منعقد ہوتا تھا۔ خرداد 1352 میں ساواک نے مسجد امام حسن (ع) اور خود ان کے گھر میں جو تفسیر کا درس ہوتا تھا اسے بند کروا دیا۔

آبان 1353 میں تہران کی مسجد جاوید میں وہاں کے امام آیت اللہ محمد مفتح کی دعوت پر تقریر کی جن پر اس وقت تقریر کرنے کی پابندی تھی۔ اس کے بعد ساواک نے آیت اللہ مفتح کو گرفتار کر لیا اور جدو جہد کے ایک اہم مرکز کے طور پر مسجد جاوید کو بند کر دیا۔ اس کے بعد اسی سال آذر ماہ میں ساواک نے آیت اللہ خامنہ ای کے گھر کی تلاشی لی۔ ساواک نے تلاشی کی وجہ ایک ، ایک خصوصی جلسے میں ان کے بیانات کو قرار دیا جہاں انہوں نے مشہد میں اسلامی تحریک کے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے جدوجہد کو منظم کرنے اور مواقع کو استعمال کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

آخر کار آیت اللہ خامنہ ای کو دیماہ 1353 میں چھٹی مرتبہ گرفتار کر لیا گیا اور اس بار انہیں تہران میں مشترکہ انسداد تخریب کمیٹی کی جیل میں منتقل کر دیا گیا اور خود ان کے بقول انہوں نے اپنی قید کی سخت ترین اور مشکل ترین صورتحال کا تجربہ کیا۔ جیل میں ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی اور ان کے گھر والوں کو ان کی حالت اور قید کی جگہ کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا۔

جلاوطنی کا باعث بننے والی سرگرمیاں

وہ 2 شہریوار 1354 کو جیل سے رہا ہوئے لیکن وہ سیکورٹی اہلکاروں کے پہرے میں تھے، اور ان کے گھر میں جماعت، تقریر، درس و تفسیر کی نشستوں پر بھی پابندی تھی۔ تاہم تمام تر سیاسی اور سیکورٹی پابندیوں کے باوجود انہوں نے اپنےدرس تفسیر اور لوگوں کو بے دار کرنے والی انقلابی سرگرمیوں کو جاری رکھا اور دینی علوم کے طلباء کو امام خمینی کا شہریہ بھی ادا کرتے رہے۔

خرداد 1355 میں، قوچان میں سیلاب کے بعد، انہوں نے ایک گروپ بنایا جسے مشہد سے اس قوچان میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے بھیجا گیا تھا اور جس نےوہاں کے عوضیہ اسکول میں مستقر ہوکر امدادی کام انجام دیا۔ ساواک کی دستاویزات میں 1355 کے اواخر میں ،مشہد میں، آیت اللہ خامنہ ای اور ان کے والد کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں اطلاعات موجود ہیں جنہوں نے امام خمینی کی حمایت کی اور اسلامی تحریک کا پرچار کیا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے محرم 1396/دیماہ 1355 میں حکومت کے خلاف تقریریں کیں اور خاص طور سے طلباء اور نوجوانوں کے لیے فکری-ثقافتی ماحول کی وضاحت کے سلسلے میں جلسات منعقد کئے اور تہران میں علماء اور روحانی حضرات کی نشستوں میں شرکت کرکےتحریک کے عمل کو شدت بخشی۔ دوسری طرف، ساواک نے بھی خود ان کے اور دیگر انقلابیوں کے خلاف دستاویزات حاصل کرنے کے لیے ان نشستوں میں نفوذ کی کوشش کی۔ 29 خرداد 1356 کو لندن میں علی شریعتی کی وفات کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے ان کی یادگاری تقریب میں شرکت کی۔ ان کی یہ شرکت شریعتی اور ان کے والد کے ساتھ ان کی شناسائی اور دیرینہ تعلق کی وجہ سے تھی۔

ایرانشہر جلاوطنی

یکم آبان 1356 کو نجف اشرف میں آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی رحلت کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے کچھ انقلابیوں کے ساتھ مل کر 6 آبان کو مسجد ملا ہاشم میں ان کی مجلس ترحیم برپا کی۔ انہی دنوں مشہد کے بعض علماء کے ہمراہ نجف میں امام خمینی کے لیے تعزیتی ٹیلی گرام بھیجا۔ آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی رحلت اور اس کے بعد ہونے والی پیش رفت سے اسلامی تحریک اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوئی اور انقلاب کی فتح کے لیے سنجیدہ تحریکوں کا آغاز ہوا۔

ان سرگرمیوں کے جواب میں پہلوی حکومت نے کھلی سیاسی فضا کی پالیسی کا اعلان کرنے کے باوجودانقلابیوں کی سرگرمیوں کو دباکر اور کچل کر محدود کر دیا۔ اس سیاست کے نفاذ کے بعد آیت اللہ خامنہ ای سمیت کچھ نامور انقلابیوں کو جلاوطنی کی سزا سنائی گئی۔

خراسان کے سوشل سیکورٹی کمیشن نے انہیں ایران شہر میں تین سال کی جلاوطنی کی سزا سنائی اور ساواک کے ایجنٹوں نے 23 آذر 1356 کو ان کے گھر پر چھاپہ مارااور انہیں گرفتار کر کے ایران شہر منتقل کر دیا۔ حکومت کا مقصد عوام اور انقلابیوں سے ان کا ابطہ منقطع کرنا تھا تاکہ نتیجے میں وہ حکومت کے خلاف لڑنے اور اسے بے نقاب کرنے میں ناکام ہوجائے۔ تاہم اہل سنت کے ساتھ میل جول کی وجہ سے انہیں ایران شہر کے عوام میں شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے انقلاب کا پیغام ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک پہنچایا۔ ایران شہر کی مسجد آل رسول میں ان کی تقاریر اور عسکریت پسند علماء ، انقلابی قوتوں اور مختلف طبقوں کے لوگوں کی ان کے گھر آمد و رفت کی وجہ سے سیکورٹی افسران نے ان کی سرگرمیوں کو محدود کردیا اور لوگوں کے آنے جانے پر پابندی لگا دی۔

19 فروردین 1357 کو یزد میں لوگوں کے قتل عام کے بعد آپ نے آیت اللہ محمد صدوقی کے نام ایک خط میں پہلوی حکومت کے اس وحشیانہ اقدام کی مذمت کی اور لوگوں کو جدوجہد جاری رکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے اس حادثہ کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔ خط ایک اعلامیہ کی شکل میں پورے ملک میں پھیل گیا۔

11 تیر ماہ 1357 کو ایران شہر میں آنے والے سیلاب نے آیت اللہ خامنہ ای کو اپنے سابقہ ​​تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے واحد امدادی گروپ کے انتظام کی ذمہ داری سنبھالنے کا موقع فراہم کیا۔ یزد اور مشہد سمیت مختلف شہروں کے علما کے ساتھ جو ہم آہنگی تھی، اس کی وجہ سے وہ پورے ایران سے لوگوں کی امداد حاصل کرنے اور سیلاب زدگان میں تقسیم کرنے میں کامیاب رہے۔

اپنی جلاوطنی کے دوران آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کے مختلف شہروں میں جدوجہد کے پہلے درجے کے انقلابیوں اور علمائے کرام کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھا اور تحریک اسلامی کے بارے میں ان کے ساتھ مسلسل خط و کتابت کی اور اس طرح وہ بہت سے حالات و واقعات سے مطلع رہے اور مختلف خطوط کے ذریعے بعض علما کے ذریعہ لئے گئے فیصلوں میں شامل رہے۔

جیرفت کو جلاوطنی

اسلامی انقلاب کے عروج کے ساتھ ہی 28/ شعبان1398مطابق 28 تیر/ 1357 کوحوزہ علمیہ مشہد کے متعدد طلباء نے آیت اللہ خامنہ ای کی جلاوطنی کے خلاف احتجاج کیا اور ان کی مشہد واپسی کا مطالبہ کیا جس پر پولیس نے مداخلت کی۔ایک طرف ان کا ایران شہر اور اس کے اطراف و اکناف کے علاقوں اور شہروں میں جد و جہد کو منظم کرنے کے لئے عوامی اور انقلابی سرگرمیوں کو وسعت دینا دوسری طرف اس علاقے کے عوام کے مختلف طبقوں میں ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اثر و رسوخ ان دونوں باتوں کی وجہ سے سیکوریٹی افسران نے انہیں ایران شہر سے جیرفت جلا وطن کر دیا جو ایران شہر کے مقابلے میں زیادہ دور افتادہ بھی تھا اور وہاں زیادہ محدودیتیں بھی تھیں۔ اس طرح وہ 22 مرداد کو جیرفت منتقل ہوئے۔

آیت اللہ خامنہ ای کی سیاسی مہمات جیرفت میں بھی نہیں رکی اور اس شہر میں اپنی آمد کے آغاز سے ہی انہوں نے جامع مسجد میں تقریر کر کے پہلوی حکومت کے جرائم سے نقاب اٹھانا شروع کر دی۔ ایک تقریر، جو 15 شہریور1357 کو ہوئی تھی، لوگوں کی طرف سے مظاہروں اور انقلابی نعروں کی وجہ بنی۔ یہ اس وقت ہوا جب چھوٹے شہروں میں مظاہرے اور مارچ ابھی عام نہیں تھے۔ وہ ان جلاوطن علماء میں سے تھے جنہوں نے آیت اللہ سید عبد الحسین دستغیب کے نام ایک خط میں ملک کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے اور شیراز، مشہد، اصفہان اور جہروم میں پہلوی حکومت کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے پہلوی حکومت کے خاتمے تک اسلامی تحریک جاری رکھنے کے لئے مختلف طریقے تجویز کئے۔ اسی دوران وہ چپکے سے کہنوج گئے اور انکشافی تقریریں کیں۔

مشہدواپسی

عوامی جدوجہد کے پھیلنے اورارکان حکومت کے ٹوٹنے اور انقلابی عمل کو روکنے میں ان کی ناکامی کے ساتھ، آیت اللہ خامنہ ای یکم مہر 1357 کو جیرفت سے مشہد واپس آئے اور وہاں انہوں نے انقلاب کے امور کو منظم کرنے ،جد و جہد کے عمل کو تیز کرنے اور تحریک کے مختلف مسائل کو آگے بڑھانے کے سلسلےمیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ امام خمینی کے فرانس میں قیام کے دوران مشہد کے بعض انقلابی علما کے ساتھ امام خمینی کو ایک ٹیلی گرام بھیج کر فرانس میں ان کے عارضی قیام کو لوگوں کے دلوں میں امید اور عزم کی لہر کے ابھرنے کا سبب اور امت مسلمہ کی نجات کے سلسلے میں امام خمینی کے پختہ عزم کی علامت قرار دیتے ہوئے ان سے جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے ضروری احکامات جاری کرنے کی درخواست کی۔ آخر میں انہوں نے امام خمینی کی ایران واپسی کی درخواست کی۔

مشہد میں آیت اللہ خامنہ ای کی انقلابی سرگرمیوں نے مختصر عرصے میں مزید زور پکڑا اور انہوں نے عوامی تحریکوں اور مظاہروں کو منظم کرتے ہوئے مشہد میں عوامی اجتماعات میں انکشافی تقریریں کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ امام خمینی کے اہل خانہ اور دیگر انقلابیوں سے مسلسل رابطے میں رہے ۔اسی رابطے کا نتیجہ تھا کہ سید احمد خمینی نے 10 آبان 1357 کو پیرس سے آیت اللہ صدوقی سے رابطہ کیا اور امام خمینی کی ان سے اور آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای ان علماء میں سے ایک تھے جنہوں نے مشہد کے سعد آباد اسٹیڈیم میں اس شہر کے علماء کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں امام خمینی کی واپسی اور اسلامی حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا۔ آبان مہینے کے آخری دنوں میں سید عبدالکریم ہاشمی نژاد کے ساتھ مل کر قوچان، شیروان اور بجنورد کے شہروں میں گئے اور وہاں انقلاب کو تقویت دینے کے لیے تقریری جلسےبرپا کئے۔ مشہد میں آیت اللہ خامنہ ای کی بڑھتی ہوئی اور اثر انگیز سرگرمیوں نے پہلوی حکومت کے سیکورٹی حکام کو انہیں گرفتار کرنے پر اکسایا۔ ساواک کی رپورٹوں میں آیت اللہ خامنہ ای کا ذکر خراسان میں انقلاب کے نمایاں پرچم برداروں میں سے ایک کے طور پر کیا گیا ہے۔

آپ نے 19 اور 20 آذر 1357مطابق تاسوعہ اور عاشورائے حسینی مشہد کے عزاداروں کے بڑے اجتماع میں ایک پرجوش تقریر کی اور امام رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک میں شب عاشورہ کا خطبہ امام خمینی کے نام سے پڑھا۔ اس انقلابی اقدام سے انہوں نے پہلوی حکومت کی اس روایتی رسم کو توڑ ڈالا جو اس سے پہلے پرتکلف طور پر اور محمد رضا پہلوی کے لیے دعاؤں کے ساتھ انجام پاتی تھی۔ نیز عاشورہ کے دن آپ نے مشہد کے لوگوں کے ایک بہت بڑے مظاہرے کو منظم کیا اور ان کے بڑے اجتماع میں تقریر کی۔ وہ ان علماء میں سے ایک تھے جنہوں نے 24 آذر کو مشہد کے شاہ رضاہسپتال(موجودہ امام رضا ہسپتال) پر پہلوی حکومت کے حملے کے خلاف دھرنے کا پروگرام تجویز کیا تھا۔جب وہ دھرنے پربیٹھنے جا رہے تھے تو راستے میں، بہت سے لوگ ان سے ملحق ہو گئے اور دھرنا دینے والوں میں شامل ہوگئے ے۔دھرنے پر بیٹھنے والوں نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے پہلوی حکومت کے ایجنٹوں کے جرائم کو بیان کیا اور ان کی سزا کا مطالبہ کیا اور پہلوی حکومت کے خاتمے اور امام خمینی کی واپسی پر زور دیا۔ ان کے اس اقدام کو بھرپور ردعمل ملا اور پورے ایران میں ان کے ساتھ یکجہتی اور حمایت کے کئی اعلانات شائع ہوئے۔

9 دیماہ 1357 کو آیت اللہ خامنہ ای مشہد کے چند انقلابی علما کے ساتھ خراسان گورنریٹ کے ملازمین کو انقلاب کے ساتھ لانے کے لیے لوگوں کے ایک بڑے ہجوم کے ساتھ گورنریٹ کی عمارت کی طرف بڑھے۔ لیکن ان کی پرامن کوششوں کے باوجود گورنریٹ میں تعینات پولیس فورس نے لوگوں پر گولیاں چلا دیں۔ اس کے بعد مظاہرین کا ہجوم سڑکوں پر نکل آیا اور کچھ سرکاری عمارتوں اور مراکز کو آگ لگا دی۔ حادثہ کی رات مشہد کے علمائے کرام بشمول آیت اللہ خامنہ ای نے ایک اجلاس منعقد کیا اور اگلے دن مزید لوگوں کی ہلاکتوں اور تصادم کو روکنے کی کوشش کی لیکن پہلوی حکومت کے ایجنٹوں نے مظاہرین کا قتل عام کیا اور اس طرح 10 دیماہ 1357کو خونی اتوار کا سانحہ وجود میں آیا۔ ان واقعات کے رونما ہونے کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے مشہد کے بعض انقلابی علما کے ساتھ مل کر ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں اس حادثے کی مذمت اور تحریک کو جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔

پہلوی حکومت کے خاتمے اور اسلامی تحریک کی حتمی فتح کے آثار کے ظاہر ہونے کے ساتھ ہی امام خمینی نے 22 دیماہ 1357 کو اسلامی انقلابی کونسل کی تشکیل کا فرمان جاری کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای،جو امام خمینی کے ذریعہ اس کونسل کے رکن منتخب ہوئے تھے، مشہد میں اسلامی انقلاب کی پیشرفت میں اپنے اہم کردار کے ساتھ اس شہر کو چھوڑ کر دیماہ 1357 کے آخر میں تہران آئے اور مدرسہ رفاہ میں سکونت اختیار کی اور دیگر انقلابیوں بالخصوص آیت اللہ بہشتی،آیت اللہ مطہری اور آیت اللہ مفتح کے شانہ بشانہ انقلاب اسلامی کی فتح کے آخری مرحلے کی تیاری اور مستقبل کی منصوبہ بندی میں فعال کردار ادا کرنے لگے۔ اسلامی- انقلابی کونسل کی جانب سے امام خمینی کے استقبال کے لیے کمیٹی کی تشکیل کے بعد اس کی تبلیغی کمیٹی کی ذمہ داری سنبھال لی۔

بختیار کے حکم سے ملک کے ہوائی اڈوں کی بندش اور امام خمینی کی ایران واپسی کو روکنے کے بعد، آیت اللہ خامنہ ای نے آیت اللہ بہشتی اور کئی معروف انقلابی علما کے ساتھ مل کر تہران یونیورسٹی کی مسجد میں حکومت کے اس اقدام کے خلاف ایک بہت بڑا دھرنا دیا جس نے دیگر علما، اہل دانشگاہ اور عوام کی شرکت سے وسیع شکل اختیار کر لی۔

دھرنا شروع ہونے سے ایک رات پہلے آیت اللہ بہشتی نے بہشت زہرا میں تقریر کی اور آیت اللہ خامنہ ای نے جو قرارداد عوام کے لیے تیار کی تھی پڑھ کر سنائی اور اس پروگرام کے ساتھ ہی تہران یونیورسٹی کی مسجد میں اگلے دن کے دھرنے کی تصدیق ہوگئی۔ . دھرنے کے دوران، آیت اللہ خامنہ ای نے ایک ہیڈکوارٹر بنا یا اور دھرنا دینے والے بعض انقلابیوں کی مشارکت سے مختلف کارروائیاں انجام دی، جن میں تقریر کرنا، اعلامیہ جاری کرنا اور "تحصن"(یعنی دھرنا) کے نام سے ایک رسالہ کی اشاعت شامل تھی۔ 8 بہمن کو مظاہرین نے ایک بیان جاری کیا اور اس بات پر زور دیا کہ جب تک امام خمینی کے لئے ہوائی اڈے نہیں کھولے جاتے وہ اپنا دھرنا جاری رکھیں گے۔ 12 بہمن کی صبح تک جاری رہنے والے اس دھرنے نے تہران یونیورسٹی کی مسجد کو جدوجہد کے عمل میں ایک بااثر مرکز میں تبدیل کر دیا۔

12 بہمن 1357 کو امام خمینی کی وطن آمد کے تاریخی لمحے میں آیت اللہ خامنہ ای نے علماء، روحانی حضرات اور اسلامی انقلابیوں کے ساتھ مہر آباد ایئرپورٹ پر امام خمینی کے استقبال کے لئے پہنچے۔ اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی ، آیت اللہ خامنہ ای ہمیشہ امام خمینی کے ساتھ رہتے تھے اور انہیں بہت سے معاملات میں مشورہ دیتے تھے۔اسی طرح وہ امام کے دفتر کی تبلیغی کمیٹی کے بھی ذمہ دار تھے جس کا مقصد اسلامی حکومت کے اندرونی اور بیرونی مخالفین کی خبروں اور پروپیگنڈا سازشوں کا مقابلہ کرنا،مختلف سیاسی جماعتوں اور گروہوں کی موقع پرستی کا مقابلہ کرنا،خبروں کو منظم کرنا اور شائع کرنا اور ”امام “ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا تھا۔انہوں نے خود بھی کچھ مضامین لکھے اور اس اس رسالے میں شائع کئے۔

اسلامی انقلاب کے پہلے عشرے میں سیاسی سرگرمیاں

انقلابی کونسل کی رکنیت

اسلامی جمہوریہ کے قیام کے عمل میں آیت اللہ خامنہ ای کے کردار کے اولین شعبوں میں سے ایک انقلابی کونسل کی رکنیت اور سرگرمی تھی۔ یہ کونسل مہرماہ 1357 میں امام خمینی کی فرانس کی طرف ہجرت اور اسلامی انقلاب کی فتح کے آثار کے ظاہر ہونے اور آبان کے آغاز سے امام خمینی کی رائے کے مطابق اسلامی تحریک کے انقلابی مرحلے میں داخل ہونے کے بعد تشکیل دی گئی تھی۔ اور اس کے ارکان کو بتدریج امام خمینی نے منتخب کیا، لیکن اس کا باضابطہ اعلان مختلف تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے 22 دیماہ 1357 کو انقلاب کی فتح کے موقع پر کیا گیا تھا۔

کونسل کے پہلے ارکان جناب مرتضی مطہری، سید محمد حسینی بہشتی، سید عبدالکریم موسوی اردبیلی، سید علی خامنہ ای، سید محمد حسینی بہشتی، اور اکبر ہاشمی رفسنجانی تھے۔ سلسلہ آگے بڑھا تو دوسرے لوگ بھی اس کے ممبر بنتے چلے گئے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے دیماہ کے آخر میں ان جلسوں میں شرکت کی۔ اس موقع پر کونسل نے جدوجہد کے حوالے سے اہم فیصلے کئے۔

ان میں پہلوی حکومت کے حکام اور امریکہ سمیت بیرونی ممالک کے حکام کے ساتھ مذاکرات اور امام خمینی کے لیے استقبالیہ کمیٹی کی تشکیل شامل تھی۔ فتح سے قبل انقلابی کونسل کا ایک اور اہم اقدام عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر، مہدی بازارگان کا امام خمینی سے تعارف کرانا تھا۔

انقلاب کی کامیابی کے بعد، انقلابی کونسل کی ذمہ داری جو تھی وہ یہ تھی: مقننہ کی غیر موجودگی میں قانون بنانا، تیرماہ 1358 میں عبوری حکومت اور انقلابی کونسل کے انضمام کے بعد ایگزیکٹو کے کچھ فرائض انجام دینا، اور 14 آبان 1358 کو عبوری حکومت کے استعفیٰ کے بعد ایگزیکٹو کے سارے فرائض انجام دینا۔ ان اہم فرائض کے علاوہ وہ اسلامی جمہوریہ کے نئے نظام کو درپیش مسائل اور بحرانوں کو حل کرنا اور امام کو مشورہ فراہم کرنا بھی انقلابی کونسل کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔

انقلابی کونسل کے ارکان کی ترکیب میں متعدد بار تبدیلی کے باوجود آیت اللہ خامنہ ای 29 تیرماہ 1359 کو اس کی سرگرمیو ں کے اختتام تک چاروں ادوار میں اس کے مستقل رکن رہے۔انقلابی کونسل میں ان کے اہم مواقف میں کونسل کے نام نہاد لبرل اراکین کے نظریات کے خلاف کھڑے ہو نا اور ایران کی تودہ پارٹی کے اراکین اور حامیوں اور اسلامی انقلاب کی مخالفت کرنے والی دیگر جماعتوں اور گروہوں کے فوج اور ملک کے دوسرے ثقافتی شعبوں میں اثر و رسوخ کو روکنے کی ضرورت کے بارے میں بار بار انتباہات، شامل ہیں۔

ان کا خیال تھا کہ انقلابی کونسل میں سماج کے مختلف طبقات کے نمائندے ہونے چاہئے۔ کردستان، سیستان و بلوچستان اور ملک کے دیگر خطوں کے مسائل اور اتحاد کو برقرار رکھنے کی ضرورت دیگر اہم مسائل میں سے تھے جن کی طرف انہوں نے انقلابی کونسل میں توجہ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ کردستان کے معاملے میں عبوری حکومت نے کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے اور اسے مختلف طریقوں سے حل کیا جانا چاہیے اور اسے ملک کے دیگر نسلی علاقوں میں پھیلنے سے روکنا چاہیے۔ سیستان و بلوچستان کے علاقے کے بارے میں، جلاوطنی کے دوران اپنی موجودگی کے تجربے اور اس علاقے کی سیاسی اور سماجی صورتحال سے آگاہی کی بنا پر، آپ نے اس سرزمین کے لوگوں کے معاشی اور اقتصادی حالات کی بہتری پر زور دیا۔

اسی تناظر میں 9 فروردین 1358 کو امام خمینی نے انہیں ایک وفد کے ساتھ اس علاقے میں لوگوں کی ضروریات اور مسائل سے نمٹنے اور اس خطے کے حالات کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کرنے کے لئے بھیجا۔ اس سفر میں انہوں نے مذکورہ مشن کے علاوہ بعض مقامی رہنماؤں اور بااثر افراد سے ملاقات کی اور انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیوں سے آگاہ کیا۔

اسلامی انقلابی گارڈ کور اورجہاد سازندگی جیسے انقلابی اور عوامی اداروں کے قیام اور مضبوطی میں مدد کرنا، انقلابی کونسل میں ان کے دوسرے اصولی مواقف میں سے ہے۔

شہید چمران کے نائب

تیر ماہ 1358 کے آخر میں عبوری حکومت اور انقلابی کونسل کے انضمام کے ساتھ، انقلابی کونسل کے کچھ اراکین کو اس کونسل کی جانب سے کچھ حساس وزارتوں تک رسائی حاصل ہوئی۔ ان میں سے آیت اللہ خامنہ ای کو وزارت دفاع کے انقلابی امور کے نائب وزیر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ اس وقت ڈاکٹر مصطفی چمران وزیر دفاع تھے۔

نیز، انقلابی کونسل اور عارضی حکومت کے انضمام کے دوران جس کا مقصد انتظامیہ پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا تھا، وہ سیکورٹی وزراء کمیشن کے رکن بن گئے، جس کا کام تمام انتظامی، فوجی اور سیکورٹی امور کی نگرانی اور سرپرستی کرنا تھا جن میں گنبد، کردستان اور خوزستان کے بحران اور انقلاب مخالف جماعتوں کے اقدامات سے نمٹنا شامل تھے۔

پاسداران انقلاب کی سرپرستی

انقلابی کونسل کی جانب سے ان کی دیگر ذمہ داریوں میں دستاویزی مرکز کی ذمہ دار ی اور 3 آذر 1358 میں پاسداران انقلاب (IRGC) کی سربراہی بھی تھے۔ اس سے پہلے وہ انقلابی کونسل کے نمائندے کے طور پر IRGC کے بعض اجلاسوں میں شریک ہوچکے تھے۔ آئی آر جی سی کے سربراہ کے طور پر ان کے انتخاب کی وجہ آئی آر جی سی کی باڈی اور تنظیم میں کچھ اختلافات تھے جو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد کے مہینوں میں پیدا ہوئے تھے اور ثالثی کی کوششوں کے باوجود حل نہیں ہوئے تھے۔

وہ عوامی فوجی دستوں بالخصوص سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے حامیوں میں سے تھ۔ اس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے دور میں انہوں نے موجودہ اختلافات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک مناسب تنظیم دینے کی کوشش کی۔

اسلامی جمہوری پارٹی کا قیام

آیت اللہ خامنہ ای ، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے دنوں میں اور اس کے بعد انقلابی کونسل میں اپنی موثر موجودگی اور عبوری دور میں انقلاب کے امور کی نگرانی کے ساتھ ساتھ سید محمد حسینی بہشتی، اکبر ہاشمی رفسنجانی، سید عبدالکریم موسوی اردبیلی اور محمد جواد باہنر کے ساتھ ملک کر ایک انقلابی تنظیم بنانے کے لیے کام کر رہے تھے۔ اس تنظیم نے باضابطہ طور پر 29 بہمن 1357 کو اسلامی جمہوری پارٹی کے نام سے اپنے وجود کا اعلان کیا۔ لیکن اس کے قیام کی بنیادیں 1356 کے موسم گرما میں مشہد میں ہونے والے اجلاسوں میں پڑ گئی تھی، جہاں کچھ انقلابی ، جن میں اسلامی جمہوری پارٹی کے موسسین بھی شامل تھے،پہلوی حکومت کے خلاف سرگرمیوں اور اسلامی فکر کی ترقی کے لیے ایک منظم پارٹی بناناچاہتے تھے۔

اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اس پارٹی نے انقلاب کی کامیابی پر منتہی ہونے والے مہینوں میں اپنی غیر رسمی فعالیت کے دوران جلسوں اور تقاریر کے انعقاد میں موثر کردار ادا کیا اور اس میدان میں آیت اللہ خامنہ ای کی سرگرمی نمایاں تھی۔

اسلامی جمہوری پارٹی کے قیام کی وجوہات میں ، اسلامی جمہوریہ کے نئے نظام کی حفاظت اور حمایت کے لیے منظم اور جدید تنظیموں کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنا، انقلاب کو جاری رکھنے، عوامی یکجہتی کو برقرار رکھنے اور لوگوں کو میدان میں باقی رکھنے میں مدد کرنا، اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد ڈالنا، انقلاب کے بعد کے دور میں امام خمینی کے موثر کردار کی مرکزیت کا تحفظ کرنا، لوگوں کے ذہنوں میں اصل اسلامی فکر کو گہرا کرنا، لمحہ بہ لمحہ لوگوں کی سیاسی رہنمائی کرنا، اسلامی انقلاب کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے انتظامی اداروں کو افرادی قوت فراہم کرنے میں مدد کرنا، ملکی اور غیر ملکی دشمنوں کی چالوں اور فریب کاریوں کے مقابلے میں صاف اور دیانتدارانہ موقف اختیار کرنا تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای پارٹی کا منشور بنانے والوں میں شامل تھے۔ ارکان کے فرائض کی تقسیم میں بھی انہوں نے پارٹی کے شعبہ تبلیغات کی ذمہ داری نبھائی۔

وہ پارٹی کے بانی رکن اور مرکزی کونسل کے رکن تھے۔مجموعی طور پر پارٹی کے تاسیسی دور میں انہوں نے وضاحتی کردار ادا کیا اور تقریروں اور پمفلٹ کی صورت میں پارٹی کے موقف کو پیش کیا۔ انہوں نے مشہد میں پارٹی کی شاخ کے قیام میں کردار ادا کیا اور 26 اسفند 1357 کو اس شاخ کا دفتر کا افتتاح کیا۔

اسلامی جمہوری پارٹی کے جنرل سیکرٹری

پارٹی کے پہلے اور دوسرے جنرل سکریٹری آیت اللہ بہشتی اور ڈاکٹر باہنر کے بعد ، آیت اللہ خامنہ ای کو شہریور 1360میں پارٹی کی مرکزی کونسل نے پارٹی کے تیسرے جنرل سکریٹری کے طور پر منتخب کیا ۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد کے سالوں اور 1360 کی دہائی میں اسلامی جمہوری نظام کی بنیادیں استوار ہونے تک، اسلامی جمہوری پارٹی نے سرکاری سیاسی ڈھانچے سے باہر رہتے ہوئے حکومت کے ایک اہم ستون کے طور پر کام کیا۔

وہ اسلامی جمہوری پارٹی کو اسلامی جمہوریہ کے نئے نظام کی کلیت کے تحفظ کے لیے ایک ضروری ادارہ سمجھتے تھے۔ پارٹی کی پہلی کانفرنس اردیبہشت 1362 میں منعقد ہوئی اور آیت اللہ خامنہ ای دوسری بار پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور پارٹی کی مرکزی کونسل اور ثالثی(arbitral) کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ اپنی صدارت کے دوران انہوں نے تہران اور دیگر شہروں میں اسلامی جمہوری پارٹی کے اجلاسوں میں شرکت کی اور پارٹی کے مشن اور اہداف کو بیان کرتے ہوئے پارٹی کے دفاتر، شاخوں اور اراکین کے سوالات کے جوابات دیئے۔

دوسری مدت صدارت کے ساتھ ساتھ وہ اسلامی جمہوری پارٹی کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ اس عرصے میں پارٹی کی سرگرمیاں مختلف وجوہات کی بنا پر سست پڑ گئی اور اس میں ابتدائی سالوں والی اثر انگیزی باقی نہ رہی۔ان وجوہات میں انقلاب کے ابتدائی سالوں کے بحرانوں کا حل ہوجانا، اسلامی جمہوریہ کو درکار اداروں اور تنظیموں کا قیام، جن کے قیام، مضبوطی اور ترقی میں پارٹی نے موثر کردار ادا کیا، آیت اللہ خامنہ ای اور ہاشمی رفسنجانی سمیت پارٹی کی اہم شخصیات کا نظام کے اہم منصبوں پر مشغول ہوجانا، بعض با اثر بانیوں کادنیا سے چلے جانا،امام خمینی کا اس بات سے ناخوش ہونا کہ یہ پارٹی اب متحد کرنے والے عامل سے تفرقہ پرداز عامل میں بدل چکی ہے اور پارٹی کے اندر گروپ بازی میں شدت کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا آیت اللہ خامنہ ای اور ہاشمی رفسنجانی نے خرداد 1366 کے اوائل میں امام خمینی کو ایک خط لکھا اور مذکورہ وجوہات بالخصوص جماعت کے اندر دھڑے بندی کے ابھرنے اور اس کی شدت اور معاشرے کے اتحاد و اتفاق کے لیے ا س کے خطرہ کا ذکر کیا اور اسے بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ امام خمینی نے بھی 11 خرداد 1366 کو اس درخواست پر رضامندی ظاہر کی اور اس کے بعد پارٹی کی سرگرمیاں بند کر دی گئیں۔

تہران کے امام جمعہ

امام خمینی نے 24 دیماہ 1358 کو تہران میں آیت اللہ خامنہ ای کو امام جمعہ مقرر کیا اور علم و عمل میں ان کے اچھے ریکارڈ اور قابلیت کا حوالہ دیا۔ آپ نے 28 دیماہ 1358 کو پہلی بار نماز جمعہ کی امامت کی۔ اس تاریخ سے لے کر 6 تیرماہ 1360 کے واقعے تک، جب تہران کی مسجد ابوذر میں ان پر حملہ ہوا اور اس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہو گئے، 21 بہمن سے 6 اسفند 1359 تک کے عرصے کو چھوڑ کر جب وہ تبلیغی سفر کے سلسلے میں ہندوستان کے دورے پر تھے، تہران میں نماز جمعہ کی امامت کی۔ اس کے بعد بھی وہ ہمیشہ اس عہدے پر فائز رہے۔

نماز جمعہ کے سلسلے میں ان کا اہم اور منفرد اقدام یہ تھا کہ انہوں نے ملک اور عالم اسلام کے اندر ائمہ جمعہ کے نیٹ ورک کو مربوط کرنے کے مقصد سے ائمہ جمعہ کے لیے سیمینار منعقد کرنے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے نماز جمعہ کے خطبوں میں ایک موثر پلیٹ فارم کے طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے اہم ترین اور فیصلہ کن اصولی اور اسٹریٹجک موقف کو پیش کیا اور معاشرے کی دینی فکر اور سیاسی بصیرت کو بھی گہرا کیا۔ عربی خطبات پر توجہ دینا، جن میں عالم اسلام کے مسلمانوں سے خطاب تھا، ان کے خطبات کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔

اسلامی مشاورتی اسمبلی میں نمائندگی

اسفند 1358 میں  اسلامی کونسل کے  قانون سازی کی پہلی مدت کے انتخابات  میں امیدوار بننے پر   آیت اللہ خامنہ ای کو ”نیروی ہای خط امام“ نامی عظیم اتحاد  کی حمایت حاصل ہوئی جس میں  تہران کی جامعہ روحانیت مبارز،اسلامی جمہوری پارٹی اور دوسری کئی اسلامی تنظیمیں شامل تھیں۔انہوں نے تہران سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور پارلیمنٹ میں آ گئے۔ پارلیمنٹ میں وہ کمیشن برائے دفاعی امور کے رکن اور چیئرمین رہے۔

ان کی صدارت کے دوران اس کمیشن میں کئی منصوبوں، بلوں اور مسائل کا جائزہ لیا گیا، جن میں سب سے اہم پاسداران انقلاب کی بھرتی کی ضروریات کی فراہمی، بسیج مستضعفین نامی تنظیم کا پاسداران انقلاب میں انضمام، کردستان کا مسئلہ، سرحدی مسائل، بلوچستان کا مسئلہ اور فوج کی از سر نو تنظیم کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کے دوران ان کے اہم اقدامات میں سے، صدارت کے لیے بنی صدر کی سیاسی نااہلی کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے ان کی اہم اور مستند تقریر کا ذکر کر سکتے ہیں۔

31 شہریور 1359 کو ایران -عراق جنگ شروع ہونے اور جنگی محاذوں پر موجودگی کی وجہ سے وہ اسلامی کونسل کے اجلاسوں میں شاذ و نادر ہی شریک ہوئے اور 6 تیرماہ 1360 کو شدید زخمی ہونے کے بعد صرف چند مواقع پر ہی شریک ہوئے۔ مہر 1360 میں عہدہ صدارت کے لئےمنتخب ہونے کے بعد وہ اسلامی کونسل سے الگ ہو گئے

جنگ میں شرکت

آیت اللہ خامنہ ای نے ایران عراق جنگ کے پہلے گھنٹوں سے ہی جنگی مسائل کی منصوبہ بندی میں فعال کردار ادا کیا۔ ملک کی سرزمین پر حملہ شروع ہونے کے کچھ دیر بعدہی انہوں نے عراق کی بعثی فوج کے ایران پر حملے کا پہلا اعلانیہ تیار کیا اور ریڈیو کے ذریعہ لوگوں کو آگاہ کیا۔

جنگ کے آغاز کے دوسرے دن انہوں نے فوج کےمشترکہ ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کی جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ عراق کی فوجی جارحیت سے کیسے نمٹا جائے۔ اور جب یہ طے پایا کہ ان میں سے کوئی ایک جنگی محاذ پر جا کر اس مسئلے کی تحقیق کرے گا تو سب سے پہلے جس شخص نے اس تجویز کو قبول کیا وہ آیت اللہ خامنہ ای تھے۔

5 مہر 1359 کو امام خمینی کی اجازت کے بعد آپ نے فوجی لباس میں جنگی محاذوں پر حاضری دی تاکہ عراقی افواج کے حملہ آور علاقے میں ایرانی افواج کے مورچوں اور تنصیبات کی صورت حال کی رپورٹ تیار کر سکے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے افواج کو منظم کرنے میں مدد کرسکے۔ اس بنا پر وہ جنوبی محاذ کی طرف روانہ ہوئے اور 1360 کے وسط بہار تک اس محاذ پر مستقر رہےاس کے بعد وہ مغربی محاذ پر پہنچے۔ تہران میں نماز جمعہ کی امامت، امام خمینی سے ملاقات اور انہیں رپورٹ دینااور ضروری ملاقاتوں اور ضروری سفروں اور تقریروں کو چھوڑ کر وہ مسلسل محاذ پر موجود رہے۔

انہوں نے کئی فوجی آپریشنز یا ان کےتیاری میں حصہ لیا۔ سپاہ پاسداران اور بسیجی افواج کی ہتھیاروں اور رسد کی ضروریات کی فراہمی، میدان جنگ میں ان کی دیگر سرگرمیوں میں سے ہے۔

مورچوں پر ان کا زیادہ تر وقت، بے قاعدہ جنگوں کے ہیڈکوارٹر کی کارروائیوں کی رہنمائی، حمایت اور منصوبہ بندی میں گزرتا تھا جسے مصطفی چمران نے تشکیل دیا تھا۔ اس ہیڈکوارٹر کے خصوصی اقدامات میں سے ایک، جس میں آیت اللہ خامنہ ای براہ راست شریک تھے، ٹینکوں کے شکار کے لیے خصوصی فوجی گروپوں کی تشکیل تھی۔

خرمشہر، آبادان اور سوسنگرد محاذوں کی حمایت میں انہوں نے موثر کردار ادا کیا اور اسلامی انقلابی گارڈ کور(irgc) اور بسیج جیسی عوامی فوجی قوتوں کو مضبوط بنانے اور ان کی تکنیکی اور سازوسامان کی ضروریات کو پورا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ ان کی ایک اور کوشش آئی آر جی سی اور فوج کے درمیان محاذوں اور فوجی کارروائیوں میں ہم آہنگی قائم کرنا تھی۔

سپریم کونسل آف ڈیفنس میں امام خمینی کے نمائندے

20 مہر 1359 کو امام خمینی کے فرمان کے مطابق، سپریم کونسل آف ڈفینس کو تمام جنگی امور کی ذمہ داری دے دی گئی، اور آیت اللہ خامنہ ای، جو 20 اردیبہشت 1359 کے امام خمنیی کے فرمان کے مطابق، اس کونسل میں ان کے نمائندے اور اس کے ترجمان بھی تھے، اس دوران جنگی معاملات میں امام خمینی کے مشیر بھی رہے۔

وہ عموماً سپریم کونسل آف ڈیفنس کے اجلاسوں کے اختتام پر کونسل کی مباحثوں اور فیصلوں کے بارے میں ایک پریس انٹرویو دیتے تھے اور کونسل کے فیصلوں سے عوام کو آگاہ کرتے تھے۔

وہ آبادان کا محاصرہ توڑنے کے آپریشن میں براہ راست موجود تھے اور خرمشہر کے معاملے میں بھی وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ درست فوجی اقدامات سے اس کے سقوط کو روکا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اس تناظر میں انہوں نے اس وقت کے افواج کے صدر اور کمانڈر انچیف ابوالحسن بنی صدر کو ایک خط لکھا اور مطلع کیا کہ اگر سوسنگرد کے ارد گرد دو بکتر بند بریگیڈ تعینات کر دی جائیں تو شہر کے سقوط کو روکا جا سکتا ہے۔ تاہم بنی صدر نے اس تنبیہ پر توجہ نہیں دی۔ جنگ شروع ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد بین الاقوامی شخصیات اور تنظیموں کے ایک گروپ کے ساتھ ساتھ کچھ ممالک نے دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے سرگرمیاں شروع کر دیں۔

اس معاملے میں ان کا خیال تھا کہ جب تک عراق ایران کی اہم شرائط کو تسلیم نہیں کرتا جس میں بین الاقوامی سرحدوں سے پیچھے ہٹنا، ہرجانہ ادا کرنا اور جارح کو سزا دینا شامل ہے، امن نہیں ہو سکتا اور اگر عراق ان شرائط کو قبول نہیں کرتا ہے تو ہم طاقت کے بل پر اسے اپنے ملک کی سرزمین سے نکال باہر کریں گے۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ تھوپی گئی امن جنگ سے بدتر ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے امن وفود کی رفت و آؐمد کو اس لحاظ سے مفید سمجھا کہ اس سے صدام حسین اور اس کی افواج کے ایرانی عوام کے خلاف کیے گئے جرائم کی جہتیں واضح ہو گئی اور ایران کی مظلومیت اور صدام کی جارحیت ثابت کرنے میں مدد ملی۔

جنگ، صدارت کے زمانے کا سب سے اہم مسئلہ

ان کی صدارت کے دو ادوار میں جنگ کا مسئلہ سرفہرست اور ملک کا اہم ترین مسئلہ رہا۔ 1360 سے 1364 تک جنگی منظر نامے میں تبدیلیاں آئیں اور مجموعی طور پر جنگی مورچوں پر توازن ایران کے حق میں بدل گیا۔ عراقی افواج کو زیادہ تر مقبوضہ علاقوں سے باہر دھکیل دیا گیا، اور ملک کے اعلیٰ حکام، بشمول سپریم ڈیفنس کونسل کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای کے اتفاق رائے سے، فوجی کارروائیوں کا ایک سلسلہ ڈیزائن اور نافذ کیا گیا۔ اس پیش رفت کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی میدان میں ایران کی سفارتی موجودگی زیادہ سے زیادہ فعال ہوتی گئی۔

اپنی صدارت کے کل آٹھ سالوں میں سے سات سالوں کے دوران، جو جنگ کے ہم زمان تھے، انہوں نے اپنے بیرونی مذاکرات کا ایک بڑا حصہ بین الاقوامی، اسلامی اور علاقائی تنظیموں کے خیر سگالی امن وفود یا اہم بین الاقوامی اور علاقائی شخصیات کے ساتھ مذاکرات کے لیے وقف کییا جو ثالثی پر مامور تھے۔

صدارت کے دور میں امام خمینی کی طرف سے جنگی مورچوں پر حاضری کی مخالفت کی وجہ سے انہوں نے اپنے مورچوں پر اپنی حاضری کو محدود کر لیا لیکن جنگ کے اختتام پر اور قرارداد کی منظوری کے بعد محاذوں کی سنگین صورتحال نے انہیں امام خمینی کی اجازت سے ایک بڑی تبدیلی کے لئے مورچوں پر جانے کے لئے مجبور کر دیا۔

اس کے علاوہ، وہ صدارت کے دوران سپریم کونسل آف وار سپورٹ کے سربراہ بھی تھے۔ یہ کونسل 1365 میں جنگ کے خاص حالات کے پیش نظر تشکیل دی گئی تھی اور اس کا مقصدیہ تھا کہ ملک کے وسائل و امکانات کو جنگ کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے اور جنگی مورچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے افواج کو آمادہ کیا جائے اور سہولیات کی فراہمی کے لئے موثر اقدامات کیے جائیں۔ امام خمینی نے 19 بہمن 1366 کو ان کے استفسار کے جواب میں کونسل کے منظوریوں کو جنگ کے خاتمے تک لازم الاجرا قرار دیا۔

1367 کے موسم گرما میں اور صدارت کے آخری سال میں ایران کی طرف سے قرارداد 598 کی منظوری کے ساتھ ہی عراق اور ایران کے درمیان جنگ ختم ہو گئی۔ 26 تیرماہ 1367 کو آیت اللہ خامنہ ای کی زیر صدارت اجلاس میں قرارداد 598 کی منظوری دی گئی جس میں نظام کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی اور امام خمینی نے بھی اس پر دستخط کیے۔

ایران کے عوام کے نام ایک پیغام میں امام خمینی نے قرار داد کی منظوری کو ایک بہت ہی تلخ اور افسوسناک مسئلہ قرار دیا اور صرف انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی مصلحت کی وجہ سے قرار دیا: "میرے لئے اس قرار داد کا قبول کرنا زہر سے زیادہ مہلک ہے۔ لیکن میں خدا کی مرضی پر راضی ہوں اور میں نے یہ مشروب اس کی رضا کے لیے پیا ہے... اس قرارداد کی قبولیت میں ایرانی حکام نے فقط اپنے آپ پر بھروسہ کیا ہے اور کسی شخص نے یا کسی ملک نے اس معاملے میں مداخلت نہیں کی۔“ اس فیصلے کے بعد 27 تیرماہ 1367 کو آیت اللہ خامنہ ای نے صدر ایران کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے اس وقت کے سکریٹری جنرل زیویئر پیریز ڈیکویار کے نام ایک خط میں ایران کی طرف سے اقوام متحدہ کی قرارداد 598 کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔

دہشت

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں ایرانی معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ملک کے سرکاری سیاسی ڈھانچے میں دو بااثر دھڑوں کا وجود اور ان کی سرگرمیاں تھیں جنہیں ”نیروہای خط امام“ اور لبرلز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امام خمینی کے زیادہ تر دوست، رشتہ دار اور مشیر، بشمول آیت اللہ خامنہ ای” نیروہای خط امام“ نامی دھڑے میں شامل تھے۔ لبرل دھڑے کی سرکردہ شخصیت، جس کے فکری اور سیاسی نقطہ نظر سے”نیروہای خط امام“ سے کئی تنازعات تھے، ابوالحسن بنی صدر تھے۔

آیت اللہ خامنہ ای ، بنی صدر کو ایک ایسے دھارے کا نمائندہ سمجھتے تھے جو ملک کے اعلیٰ حکام کی سطح پر تفرقہ اور تصادم کا سبب تھا اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں تفرقہ اور انتشار کا باعث تھا۔ تاہم بنی صدر اور ان کی ہم خیال اور حمایتی تحریک سے بنیادی اختلاف کے باوجود، معاشرے میں اتحاد کو برقرار رکھنے اور اس پر امام خمینی کی تاکید کی وجہ سے انہوں نے عوامی حلقوں میں اپنی مخالفت کا اظہار نہیں کیا۔ بعض معاملات میں وہ فیصلہ امام خمینی کے پاس لے جاتےتھے۔ بنی صدر کے اسلامی انقلاب اور آئین کی نوعیت سے واضح انحراف کے بعد اور 30 ​​خرداد 1360 کو پارلیمنٹ میں صدارت کے لیے ان کی سیاسی نا اہلی کی تجویز کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے مفصل اور موثر تقریر کی۔ تجویز

1358ء سے یکم تیرماہ 1360ء تک انہوں نے مختلف معاملات میں لبرل اور قوم پرست دھڑے کے خلاف موقف اختیار کیا۔ انہوں نے ایران میں امریکی فوجی مشیر کے دفتر کو برقرار رکھنے اور عبوری حکومت کی طرف سے اس کا نام تبدیل کرنے کی مخالفت کی۔ وزراء، نائب وزراء کے انتخاب اور سرکاری محکموں اور اداروں میں صفائی ستھرائی کے بارے میں انہوں نے ایسے لوگوں کے انتخاب کی بھی مخالفت کی جو انقلاب کی صف میں نہ تھے اور امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ یا خطے کے رجعت پسند عرب ممالک سے تعلقات رکھنا چاہتے تھے ۔

6 تیرماہ 1360 کو تہران کے جنوبی علاقے میں واقع مسجد ابوذر میں نماز ظہر کے بعد تقریر کرتے ہوئے ٹیپ ریکارڈر میں نصب بم کے پھٹنے سے شدید زخمی ہو گئے۔ امام خمینی نے اپنے ایک پیغام میں ان کی جان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کوشش کے نتیجے میں ان کے سینے، کندھے اور دائیں ہاتھ میں شدید چوٹیں آئیں۔ غیر سرکاری رپورٹس میں اس واقعے کا ذمہ دار مجاہدین خلق ایران نامی تنظیم کو بتایا گیا ۔ بنی صدر کی صدارت سےمعزولی کے بعد ہونے والے واقعات اور پیش رفت میں آیت اللہ خامنہ ای پہلے شخص تھے جن پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ وہ 18 مرداد 1360 کو ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے اور سماجی اور سیاسی منظر نامے پر واپس آئے اور 26 مرداد 1360 سے اسلامی کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کی۔

صدارت

پہلا دور - ٪95 ووٹوں کے ساتھ صدر کے طور پر انتخاب۔ جمہوریہ اسلامی ایران کے دوسرے صدر محمد علی رجائی کی شہادت کے بعد اسلامی جمہوری پارٹی کی مرکزی کونسل اورجامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے ان کی مخالفت کے باوجود متفقہ طور پر انہیں صدارتی امیدوار منتخب کیا اور امام خمینی جو اس سے قبل علما کےصدارت کا منصب سنبھالنے کے خلاف تھے، انہوں نے بھی ان کی نامزدگی سے اتفاق کیا۔

گارڈین کونسل کی طرف سے ان کی نامزدگی اور اہلیت کے اعلان کے بعد، مختلف گروہوں اور شخصیات نے ان کی صدارت کی حمایت کی۔ آیت اللہ خامنہ ای کے سب سے اہم حامیوں میں سے ایک امام خمینی کے ہم فکر گروپوں کا اتحاد تھا۔ انتخابات 10 مہر 1360 کو ہوئے اور آیت اللہ خامنہ ای ووٹوں کی مطلق اکثریت (95.11فیصد) کے ساتھ صدر منتخب ہوئے۔ 17 مہر 1360 کو امام خمینی نے ان کی صدارت کو نافذ العمل قرار دیا اور 21 مہر کو پارلیمنٹ میں ایران کے تیسرے اسلامی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

27 مہر 1360 کو علی اکبر ولایتی کو ، جو اسلامی جمہوری پارٹی کی مرکزی کونسل کے رکن اور ”نیروی ہای خط امام“ کا حصہ تھے، پارلیمنٹ میں بطور وزیراعظم متعارف کرایا، لیکن وہ 30 مہر 1360 کو ہونے والی ووٹنگ میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ 4 آبان 1360 کوانہوں نے میرحسین موسوی کو بطور وزیر اعظم متعارف کرایا جو اسلامی جمہوری پارٹی کی مرکزی کونسل کے رکن،جمہوری اسلامی اخبار کے ایڈیٹر اور رجائی، باہنر اور مہدوی کینی کی حکومتوں میں وزیر خارجہ رہ چکے تھے۔ 6 آبان 1360 کو وہ پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے ایسے حالات میں اپنی صدارت کا آغاز کیا جب صدارتی ادارے کا کوئی مناسب ڈھانچہ نہیں تھا۔ صدر کی قانونی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مدد کرنے کے لیے مشاورتی گروپ اور ورکنگ گروپ ابھی تک تشکیل نہیں دیے گئے تھے جس سے صدر کی کارکردگی کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔ رفتہ رفتہ صدارتی دفتر کئی مشیروں اور ورکنگ گروپس کے ساتھ تشکیل پا گیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے شروع میں اپنی کوششوں کا ایک حصہ صدر کے دفتر اور صدارت کے ادارے کی تشکیل پر مرکوز کیا۔ بعد ازاں صدر کے فرائض کی وضاحت میں ابہام کی وجہ سے، جو خاص طور پر پہلی مدت کے دوران وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت میں واضح ہوا، صدر کے اختیارات سے متعلق قانون کا مسودہ تیار ہوا جسے 16 اردیبہشت1365 کو پارلیمنٹ نے منظوری دی۔

صدارت کی پہلی چار سالہ مدت میں آیت اللہ خامنہ ای کے منصوبوں کی سرخیاں یہ ہیں: مسلط کردہ جنگ سے متعلق امور کی طرف توجہ، مظلوموں اور مرکز سے دور رہنے والوں کی حمایت کے لئے معاشی پالیسیوں کا حصول، ایرانی عوام کی انتظامی، سماجی اور سیاسی زندگی کے تمام پہلوؤں سے طاغوت کا خاتمہ، تکنیک سے لے کر فن تک تمام شعبوں میں انسانی صلاحیتوں کو تلاش کرنا اور ان سے کام لینا، لوگوں کو موثر خدمات فراہم کرنے کے لیے سماجی، انتظامی اور عدالتی تحفظ فراہم کرنا،جمہوریہ اسلامی ایران سےوفادار تمام لوگوں کی سلامتی اور آزادی کو یقینی بنانا خواہ ان کا تعلق کسی بھی سوچ اور فکر سے ہو۔

دوسرے چار سالہ دور میں، پہلے دور کے پروگراموں کے تسلسل کے علاوہ، جن میں مسلط کردہ جنگ سرفہرست تھی، صدارتی اختیارات کے بل کا مسودہ تیار کرنا، حکومتی مدت میں تخفیف اور معاملات کو عوام کے سپرد کرنا، حکومت میں با صلاحیت ،انقلابی اور کارآمد عہدہ داروں کا تقرر، معاشرے اور لوگوں کی زندگیوں پر مدتوں سے چھائی ہوئی غربت کا خاتمہا، زرعی زمین کو لوگوں کے حوالے کرنا، ریاستی صنعتوں کو کوآپریٹو سیکٹر کے حوالے کرنا، کارخانوں میں مزدوروں کو حصہ دار بنانا، تیل کے علاوہ دیگر برآمدات کو توسیع اور ترقی دینا، اور تیل کی آمدنی پر ملک کے انحصار کو کم کرنا، حکومت کی نگرانی میں ملک کے اقتصادی اور ثقافتی امور میں عوام کی شرکت، ملک کی ثقافتی پالیسی کو ثقافتی آزادی کی طرف لے جان،ا آیت اللہ خامنہ ای کے اہم ترین پروگراموں میں سے تھا۔

سیاست اور خارجہ تعلقات کے میدان میں ان کے منصوبوں میں ،دنیا کے ہر ملک کے بارے میں ایک آزاد اور متوازن پالیسی اپنانا اور فیصلہ کن انداز میں اور صراحت کے ساتھ نظام اور ملک کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا، مشرق و مغرب کسی پر انحصار نہ کرنا، دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو اہمیت دینا،عالمی طاقتوں سے مسلمانوں کے حقوق کی واپسی کے لئے سنجیدہ کوشش کرنا،خطے میں سپر پاورز کے تسلط کے لیے کسی بھی اقدام اور تحریک کا مسلسل مقابلہ کرنا، قدس کے مسئلے اور دیگر غصب شدہ فلسطینی اراضی کے مسئلے پر توجہ اور صیہونی دشمن کے خلاف ہمہ جہت لڑائی کی تیاری، بین الاقوامی میدان میں اسلام دشمنوں اور لٹیروں کے لیے رکاوٹ بنتے ہوئے مالامال اور اصلی اسلامی ثقافت کی طرف لوٹنااور بین الاقوامی منظرناموں میں بااثر موجودگی درج کرانا شامل ہے۔

اپنے دور صدارت کے پہلے چار سالوں میں وزیر اعظم اور حکومت کے بعض ارکان کے ساتھ مسائل اور اختلافات کی وجہ سے وہ دوسری بار صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے تھے لیکن امام خمینی نے اسے ان کا شرعی فریضہ قرار دیا تو انہوں نے چوتھی صدارتی مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور امام خمینی سے کہا کہ وہ وزیراعظم کے انتخاب میں خودمختار ہوں گے۔ امام خمینی نے یہ بات مان لی ۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد، وزیر اعظم کے انتخاب کے وقت ، جب یہ واضح ہو گیا کہ آیت اللہ خامنہ ای انتظامیہ کی حالت پر عدم اطمینان کی وجہ سے کسی اور شخص کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو بعض فوجی اہلکاروں نے امام خمینی سے اظہار خیال کیا کہ محاذ جنگ میں پیشرفت اس بات پر منحصر ہے کہ ایک بار پھر مہندس موسوی کو وزیراعظم بنایا جائے۔ امام خمینی نے جنگ کی مصلحت کے پیش نظر اس رائے کو قبول کر لیا اور آیت اللہ خامنہ ای کو حکم دیا کہ مہندس موسوی کو وزیر اعظم کے طور پر متعارف کروائیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امام کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اختلاف رائے کے باوجود انہیں پارلیمنٹ میں بطور وزیر اعظم پیش کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کی صدارت کے دوسرے دور میں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات برقرار رہے اور کابینہ کے ارکان کے تعارف جیسے معاملات میں شدت اختیار کر گئے۔

صدارت کے دوران سیاسی اور ثقافتی سرگرمیاں

8 شہریو 1362 کو،آیت اللہ خامنہ ای نے ، امام خمینی کے حکم پر ثقافتی انقلاب تنظیم میں بنیادی ترمیم کی ذمہ داری قبول کر لی۔ امام نے یہ حکم یونیورسٹیوں کے دوبارہ کھلنے کے موقع پرآیت اللہ خامنہ ای استفسار کے جواب میں جاری کیا۔ اسی طرح انہوں نے ثقافتی انقلاب تنظیم میں 19 آذر 1363 کو امام خمینی کے حکم پر دوسری ترمیم انجام دی ۔ اس ترمیم میں، ثقافتی انقلاب تنظیم کا نام تبدیل کر کے ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل رکھ دیا گیا اور صدر جمہوریہ اس کونسل کے سربراہ بن گئے۔ آیت اللہ خامنہ ای تیرماہ 1368 میں اپنی دوسری صدارتی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہے ۔اس دوران انہوں نے ملک کی اہم ثقافتی پالیسیوں کی تشکیل میں موثر کردار ادا کیا۔

آیت اللہ خامنہ ای کے آٹھ سالہ دور صدارت میں ایران کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا محکمہ زیادہ فعال ہوا۔ خارجہ پالیسی اور تعلقات کی ترقی کی ایک علامت ، تعلقات کو فروغ دینے کے لیے صدر جمہوریہ کے مختلف ممالک کے دورے تھے، جو صدارت کے پہلے دور میں شروع ہوئے اور دوسرے دور میں ترقی کی۔ انہوں نے اپنی صدارت کے پہلے دور میں 15 سے 20 شہریور1363 تک شام، لیبیا اور الجزائر اور دوسرے دور میں 23 دیماہ سے 3 بہمن 1364 تک ایشیائی اور افریقی ممالک پاکستان، تنزانیہ، زمبابوے، انگولا اور موزمبیق کا سفر کیا۔11 سے 15 شہریور 1365 تک وہ ہرارے میں ناوابستہ ممالک کے آٹھویں سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے دوبارہ زمبابوے گئے۔ اس سفر کے دوران انہوں نے سربراہی اجلاس میں تقریر کی اور ناوابستہ ممالک کے بعض سربراہان سے ملاقات اور گفتگو کی۔ انہوں نے 2 سے 6 ماسفند 1367 تک یوگوسلاویہ اور رومانیہ اور 19 سے 26 اردیبہشت1368 تک چین اور شمالی کوریا کا سفر کیا۔

31 شہریور 1366 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 42ویں اجلاس میں شرکت کی اور اپنی تقریر میں عالمی حکومتوں کے سربراہوں کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی نظریات اور موقف کی وضاحت کی۔ یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران کے اسلامی صدر کی پہلی حاضری تھی۔ ان کے اقوام متحدہ کے دورے کا اہم نکتہ نیویارک میں مقیم ایرانیوں اور مسلمانوں اور بین الاقوامی پریس کے اراکین کی جانب سے ان کا شاندار استقبال تھا اور انقلاب اسلامی کے حالات، مسلط کردہ جنگ اورایران کے سلسلے میں عالمی سامراج کی پالیسیوں کو بیان کرنے کے لیے ان کی سرگرمیاں تھیں۔

نیویارک میں نماز جمعہ کی امامت اور خطبات بھی اس سفر کے دلچسپ اور اہم نکات تھے۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں آیت اللہ خامنہ ای کے دیگر اقدامات میں ، افغانستان، عراق اور لبنان میں شیعہ سیاسی گروہوں کے ساتھ مربوط رابطے کے قیام اور ان کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے اور عراق کے اسلامی انقلاب کی سپریم کونسل کی تشکیل کا ذکر بھی کیا جا سکتاہے۔ تاکہ ان کے درمیان اختلاف ان کے مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد و اتفاق میں بدل جائے۔ افغانستان کی آٹھ پارٹیوں سے وحدت اسلامی پارٹی کی تشکیل، جس نے ان کی نقصان دہ مقابلہ آرائی کو ختم کر دیا، اور عراق کے اسلامی انقلاب کی سپریم کونسل کی تشکیل اس نقطہ نظر کی اہم مثالیں ہیں۔ اس عرصے میں لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں اسلامی مجاہدین کے لیے ایران کی حمایت کا دائرہ بڑھایا گیا ۔ایران کی حمایت نے ان ممالک میں اسلامی جماعتوں اور گروہوں کو ایک اہم علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت عطا کی۔

مختلف طبقات کے لوگوں سے ملاقاتیں، مختلف اداروں اور تنظیموں کا دورہ، پراجیکٹس کی افتتاحی تقریب میں شرکت، کانفرنسوں میں شرکت اور صوبائی دورے ان کے دور صدارت کے دیگر پروگراموں اور اقدامات میں شامل تھے۔ عوام بالخصوص شہداء کے خاندانوں سے رابطہ برقرار رکھنا ان کے دور صدارت میں بنیادی حکمت عملی میں شامل تھا۔ اسی بنیاد پر عوامی جلسے‘ مختلف مواقع پر‘ شہداء کے اہل خانہ سے ملاقاتیں، خاص طور پر ان کے گھر جانا ،ان کے باقاعدہ پروگراموں میں سے ایک اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں ایک اہم اقدام تصور کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مختلف طبقوں کے لوگوں خصوصاً پسماندہ طبقے سے ملنے اور نزدیک سے ان کے مسائل جاننے، مقامی حکام کے اختلافات کو دور کرنے، جنگ سے متعلق مسائل کی پیروی کرنے اور آئی آر جی سی اور فوج کا تعاون کرنے، علماء سے ملاقات، اور شہروں اور دیہاتوں کے عمائدین سے ملاقات اور اقتصادی مسائل کا جائزہ لینے کے مقصد سے ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں کا سفر کرنا ان کی مسلسل اور موثر سرگرمیوں میں شامل تھا۔

امام خمینی کا خط

16 دیماہ 1366 کو امام خمینی نے ، تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں اسلامی حکومت کے حدود اور فقیہ کے اختیارات کے بارے میں ان کے بیانات کے مد نظر ان کے نام ایک خط میں اسلامی حکومت کو اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک قرار دیا جو دیگر تمام فرعی احکام پر مقدم ہے نیز ولایت فقیہ کو مطلق قرر دیا۔ امام خمینی کے خط کے جواب میں آیت اللہ خامنہ ای نے ان کے نقطہ نظر کے سلسلے میں اپنی نظریاتی اور عملی تائید کا اعلان کیا۔

اس کے علاوہ، آمنے سامنے ملاقات میں، انہوں نے امام خمینی سے نماز جمعہ کے خطبوں میں اپنے بیانات کے مقصد کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی دن اس خط کا فوراً جواب دیا اور ان کی تعریف و تمجید کرتے ہوئے لکھا: ”میرا آپ کے ساتھ انقلاب سے برسوں پہلے سے گہرا تعلق رہا ہے اور حمد اللہ اب تک یہی رشتہ قائم ہے۔ میری نظر میں آپ جمہوری اسلامی کے تواناباز کی حیثیت رکھتے ہیں، اور میں آپ کو ایک ایسے بھائی کے طور پر جانتا ہوں جو فقہی مسائل سے واقف ہیں اور ان پر کاربند ہیں، اور جو ولایت فقیہ مطلقہ سے مربوط فقہی اصولوں کی حمایت کرتا ہے۔ آپ اسلام اور اسلامی اصول و مبانی پر کاربند ان نادر افراد میں سے ہیں جو مثل خورشدید روشنی بکھیرتے ہیں۔“

مختلف بلوں کی منظوری میں پارلیمنٹ اور گارڈین کونسل کے اختلاف کے بعد، امام خمینی نے ملک کے رہنماؤں (بشمول آیت اللہ خامنہ ای) کے خط کے جواب میں 17 بہمن 1366 کو کونسل آف ایکسپیڈینسی(مجمع تشخیص مصلحت نظام) کی تشکیل پر اتفاق کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای اس کونسل کے پہلے صدر بنے۔ وہ صدارتی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر فائز رہے۔

انقلاب کی کامیابی کے بعد کے سالوں کی طرح ،اپنی آٹھ سالہ صدارت کے دوران بھی وہ امام خمینی کے قریبیوں، مشیروں اور قابل اعتماد افراد میں سے تھے۔ اسی وجہ سے امام خمینی نے بہت سے معاملات میں انہیں صدارت کے فرائض سے بڑھ کر مشن سونپے یا مختلف مسائل میں ان کی تجاویز کو قبول کیا۔

یکم آبان 1362 کو انہیں امریکہ اور دیگر ممالک سے ایران کے مطالبات کی پیروی نے کا کام سونپا گیا۔ یکم آذر کو انہوں نے آرمی انفارمیشن پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے قیام پر اتفاق کیا۔9 دیماہ 1362 کو ان کا تقرر تعزیرات بل کی دوبارہ جانچ کے لیے کیا گیا۔ 23 بہمن 1367 کو امام خمینی نے انہیں اس بات پر مومور کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کو تینوں محکموں کے سربراہان کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دےجہاں وہ لوگ اس کونسل کے بہتر انتظام کے لیے تقسیم وظائف کے متعلق اپنے منصوبے پیش کرسکے۔ آخر میں انہوں نے تینوں محکموں کے سربراہان کی ملاقات میں زیر بحث لائحہ عمل سے اتفاق کیا۔ 19 اسفند 1367 کو امام خمینی نے ایک خط میں انہیں ایران میں مقیم عراقیوں کے مسائل سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپی۔

امام خمینی نے 4 اردیبہشت 1368 کو آیت اللہ خامنہ ای کے نام ایک فرمان میں آیت اللہ خامنہ ای سمیت بیس افراد پر مشتمل ایک وفد مقرر کیا جو پارلیمنٹ کے پانچ نمائندوں کے ساتھ مل کر جنہیں خود پارلیمنٹ نے منتخب کیا ہو ،آئینی نظرثانی کونسل تشکیل دے اور پانچوں موضوعات میں آئین میں ترمیم، نظر ثانی اور تکمیل کا کام انجام دے۔ مذکورہ کونسل کی تشکیل کے بعد آیت اللہ مشکینی صدر منتخب ہوئے اور آیت اللہ خامنہ ای اور اکبر ہاشمی رفسنجانی کونسل کے پہلے اور دوسرے نائب صدر منتخب ہوئے۔ اکتالیس نشستوں کے دوران، کونسل نے پانچ اہم امور پر تبادلہ خیال کیا اور فیصلہ کیا: قیادت کے شرائط، انتظامیہ اور عدلیہ میں تمرکز، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے انتظام و انصرام میں تمرکز، مستقبل میں آئین پر امکانی نظر ثانی کی نوعیت اورپارلیمنٹ کے نمائندوں کی تعداد کے متعلق بحث و گفتگو کرکے فیصلے لئے۔ . یہ نشستیں امام خمینی کی وفات کے بعد تک تک جاری رہیں۔

ایران کی قیادت

14 خرداد 1368 کو جب عوام اور حکام امام خمینی کے مقدس جسم کو دفنانے کی تیاری کر رہے تھے، ایک اجلاس میں جس میں قومی اور فوجی حکام نے شرکت کی، صدر آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی (رہ) کا سیاسی- الہی وصیت نامہ پڑھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے نئے لیڈر یا لیڈر شپ کونسل کے انتخاب کے لیے اسی دن شام کو مجلس خبرگان رہبری کا اجلاس ہوا۔ 1358 میں منظور شدہ آئین کے آرٹیکل 107 کے مطابق قیادت کا انتخاب مجلس خبرگان کے ارکان کی ذمہ داری ہے۔

کونسل یا انفرادی لیڈر شپ کی بحث میں مجلس خرگان کی اکثریت نے کونسل کی قیادت کو ووٹ نہیں دیا اور جب ووٹنگ کے لئے قیادت کے مصداق کا سوال آیا تو آیت اللہ خامنہ ای کا نام لیا گیا۔ بعض نمائندوں نے ،جو امام خمینی کی وفات کے بعد آیت اللہ خامنہ کے اندر نظام کی قیادت کی صلاحیت کے بارے میں امام خمینی کے نظریے کا اجمالی علم رکھتے تھے، جس کا اظہار انہوں نے تینوں محکموں کے سربراہان ،وزیر اعظم اور حاج سید احمد خمینی کی موجودگی میں ؐمختلف جلسات میں کیا تھا، ان جلسات کے عینی گواہوں سے وضاحت کا مطالبہ کیا۔

امام خمینی کی روایت کے دو گواہوں نے جو خود بھی مجلس خبرگان کے رکن تھے، امام کی طرف اس قول کے منسوب ہونے کی تصدیق کی۔ اسی جلسے میں آیت اللہ خامنہ ای کی اہلیت کے حوالے سے امام خمینی کا ایک اور بیان بھی سامنے آٰیا جس کا اظہار انہوں نے آیت اللہ خامنہ ای کے حالیہ دورہ چین اور شمالی کوریا کے دوران کیا تھا۔ اس کے بعد رائے شماری ہوئی اور مجلس خبرگان کے نمائندوں کی بھاری اکثریت نے امام راحل کی رائے اور آیت اللہ خامنہ ای کی مذہبی، علمی اور سیاسی قابلیت کی بنیاد پران کو اسلامی جمہوریہ ایران کا قائد منتخب کیا۔

اس مسئلے کا ذکر انہوں نے خود کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس وقت تک اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کرتا رہا جب تک یہ انتخاب حتمی نہیں ہو گیا۔ آئین میں نظر ثانی اور ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد مجلس خبرگان نے ایک بار پھر آیت اللہ خامنہ کی قیادت کے حوالے سے نئے آئین کے مطابق ووٹنگ کرائی ا اور بھاری اکثریت نے انہیں دوبارہ نظام کے رہنما کے طور پر منتخب کیا۔

آیت اللہ خامنہ کی قیادت کے بارے میں امام راحل کی رائے کے چند اہم پہلو یہ ہیں: اسلامی حکومت کے حصول کے لیے طویل المدتی جدوجہد، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام پر پختہ اور واضح یقین، اسلامی جمہوری نظام کے قیام کے لیے ایک دہائی سے زیادہ ہمہ جہت سیاسی، انتظامی اور ثقافتی سرگرمیاں، مذہبی روشن خیالی، دینی اصول و مبانی پر علمی تسلط، انفرادی اور سماجی رویے، زہد اور پاکدامنی۔ امام خمینی نے مختلف مواقع پر اسلامی جمہوریہ کی خدمت کے سلسلے میں آیت اللہ خامنہ ای کی خوبیوں، عزم اور خدمات کی تصدیق کی تھی۔

سید احمد خمینی، امام خمینی کے قریب ترین شخص، جو ان کے مشیر اور معتمد تھے، نے کہا کہ ان کے غیر ملکی سفر کے بعد، امام نے فرمایا: "بے شک ان کے اندر قیادت کی صلاحیت ہے۔" امام خمینی کی بیٹی زہرہ مصطفوی نے بیان کیا کہ جب انہوں نے امام سے نظام کی مستقبل کی قیادت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ان کا نام بتایا، اور جب انہوں نے ان کی علمی حیثیت پوچھی تو انہوں نے ان کے اجتہاد کی تصدیق کی۔ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب امام آیت اللہ منتظری کو مستقبل کی قیادت سے ہٹانا چاہ ر رہے تھے، تو تینوں محکموں کے سربراہان، وزیر اعظم (میر حسین موسوی) اور حاج سید احمد خمینی کی موجودگی میں ہونے والی نشست میں قیادت کی تبدیلی کے بارے میں بات چیت ہوئی تو انہوں نے نظام کے مستقبل کے رہنما کے طور پر آیت اللہ خامنہ ای کا نام لیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امام راحل کے ساتھ اپنی نجی ملاقات میں انہوں نے مستقبل میں قیادت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، جس کے جواب میں امام نے آیت اللہ خامنہ ای کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہوئے فرمایا: "تم بن بست کا شکار نہیں ہوگے جبکہ تمہارے درمیان ایک ایسا شخص موجود ہے۔تم خود کیوں نہیں جانتے؟“

اس میں کوئی شک نہیں کہ جس زمانے میں آیت اللہ خامنہ ای کو نظام کا رہبر منتخب کیا گیا وہ خاص اہمیت اور حساسیت کا حامل تھا۔ امام خمینی کی بیماری کے بعد پیدا ہونے والے کچھ خدشات یہ تھے:

  • امام خمینی کے بعد کے دور میں ملک کا انتظام
  • آئین کی ترمیم اور نظرثانی کا نامکمل رہ جانا
  • عراق، امریکہ اور منافقین کے فوجی حملوں یا اشتعال انگیزیوں کی فکر؛ عراق کی بار بار جنگ بندی کی خلاف ورزی اور جنگ میں خود کو کامیاب قرار دینے کے لئے وسیع پروپیگنڈے کے پیش نظر
  • شیطانی آیات نامی کتاب کی اشاعت اور اس کے مصنف سلمان رشدی کے ارتداد پر مبنی امام خمینی کے فتوے سے پیدا ہونے والے بحران کا تسلسل، جسے مغربی ممالک کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

لیکن جن چیزوں نے تمام پریشانیوں کو امید میں بدل دیا وہ یہ تھے:

  • آیت اللہ خامنہ ای کا رہبر کے عہدے پر انتخاب، جو کہ مختصر ترین وقت میں ہوا۔
  • لاکھوں لوگوں کا امام خمینی کو بے مثال انداز میں وداع کرنا اور ایک عوامی قائد کی بے مثال تشییع جنازہ کا تشکیل پانا جس نے ایک بہت بڑے طوفان کی طرح دشمن کی کسی بھی سازش کے امکان کو ختم کر دیا۔
  • نظام کے اعلیٰ حکام اور ملک کے مختلف اداروں، امام خمینی کے گھر والوں ، مراجع تقید اور علماء بشمول آیت اللہ اراکی،آیت اللہ مرعشی نجفی، آیت اللہ میرزا ہاشم آملی، آیت اللہ العظمیٰ گلپایگانی اور آیت اللہ مشکینی ، حوزہ اور یونیورسٹی کی ممتاز شخصیات ، شہداء کے اہل خانہ اور عوام کے مختلف طبقات کی جانب سے آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت کی تائید
  • آیت اللہ خامنہ ای کے رہبر منتخب ہونے کے چند گھنٹے بعد حاج سید احمد خمینی نے انہیں مبارکباد کا پیغام بھیجا اور کہا: امام خمینی نے کئی بار آپ کو ایک مسلم مجتہد اور ہمارے اسلامی نظام کی رہنمائی کے لیے بہترین شخص کہا۔ میں اور امام خمینی کے گھر کے تمام اراکین مجلس خبرگان کے معزز ماہرین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پیارے امام کی روح اس انتخاب سے خوش اور پرسکون ہوئی ہے۔ ایک بار پھر، میں ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت سے، خود کو اس ولی فقیہ کے احکامات کا پابند سمجھتا ہوں۔

عالم اسلام کا اتحاد

وہ اسلامی امت کے اتحاد اور اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان ہم آہنگی کے سب سے پرجوش حامیوں میں سے ہیں ۔ یہاں تک کہ قیادت کی ذمہ داری ملنے کے بعد ان کا سب سے پہلا قدم اسلامی جمہوریہ ایران میں چوتھی بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے بعد تقریب مذاہب اسلامی کے عالمی فورم کا قیام تھا۔

تمام وحدت کانفرنسوں میں وہ ایک دن کانفرنس کے مہمانوں کے لیے وقف کرتے ہیں اور ہر سال ان کے لیے ایک اہم تقریر کرتے ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران ہونے والی یہ تقاریر بجائے خود ایک روڈ میپ اور ایک اہم تقریبی میراث ہے جو نہ صرف عالم اسلام کے دانشور طبقے بلکہ عام مسلمانوں کو بھی زیادہ سے زیادہ اتحاد اور ہمدردی کی ترغیب دیتی ہے۔

مشترک عقائد پر توجہ دیں

مسلمانوں اور مختلف فرقوں کے پیروکاروں کے لیے اگر ان پاکیزہ تعلیمات کو محور بنا کر دین کی ترویج و اشاعت کی جائے تو یقینی طور پر ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دے گی۔ انہوں نے بارہا اس نکتے پر زور دیا ہے : آج ہمارے سامنے دشمن بھی ایک ہی ہے علاوہ اس کے کہ اسلامی معاشرے کی ایک ہی کتاب، ایک ہی سنت، ایک ہی نبی، ایک ہی قبلہ، ایک ہی کعبہ، ایک ہی حج، ایک ہی عبادت اور ایک ہی عقیدہ ہے۔ یقینا، اختلافات بھی ہیں۔ علمی اختلاف ہر دو علما کے درمیان ہو سکتا ہے۔ علاوہ بر ایں، عالم اسلام کے خلاف واحد دشمن ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اسے اس طرح ہینڈل کیا جانا چاہئے۔ اس مسئلے میں ایک دن کی بھی تاخیر ہوتی ہے تو گویا عالم اسلام نے ایک دن کھو دیا ہے اور یہ دن ایسے ہیں کہ ان میں سے کچھ اتنے حساس ہیں کہ زندگی بھر متاثر کرتے ہیں۔ تاخیر نہ ہونے دیجئے۔

ہم تمام مسلمانوں کو - شیعہ اور سنی - بتانا اور یاد دلانا چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کے درمیان ایک نقطہ اشتراک ہے اور ایک نقطہ افتراق۔ کچھ چیزوں میں آپ ایک ہی طرح سے سوچتے ہیں اور عمل کرتے ہیں اور کچھ چیزوں میں ہر فرقے کا اپنا طریقہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ،مشترکات اختلافات سے زیادہ ہیں۔ یعنی تمام مسلمان ایک خدا، ایک قبلہ، ایک نبی، ایک طرح کے احکام ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج پر ایمان رکھتے ہیں۔

آپ کو دو مسلمان ایسے نہیں ملیں گے جو صبح ہوتے ہی نماز کے لیے نہ اٹھیں مگر یہ کہ وہ اپنا فرض ادا نہ کرنا چاہے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسے صبح، دوپہر، شام اور رات کی نماز پڑھنی چاہیے، اور مستحب ہے کہ وہ نصف شب میں نماز شب ادا کرے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نماز کعبہ کی طرف اور قرآن کی زبان میں اور قرآن کی آیات سے ادا کی جانی چاہیے۔ دنیا کے تمام مسلمان جب رمضان کا مہینہ آتا ہے اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ماہ رمضان کا پہلا دن ہے تو روزہ رکھتے ہیں۔

بڑے اہم مشترکات موجود ہیں؛ سب اس محور کے گرد جمع ہو جائیں، ایک دوسرے کوتحمل کریں۔ اصول ہیں، محور ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ہم ان اصولوں میں ایک دوسرے کے ہم درد ہوجائیں۔ ممکن ہے لوگوں میں سو فروعی باتوں میں ایک دوسرے سے اختلاف ہو۔کوئی بات نہیں۔ یہ باہم جمع ہونےسے منافات نہیں رکھتا ہے۔ ان مشترکات کو معیار ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنی تقریروں اور گفتگو میں محتاط رہنا چاہئے۔ ثانوی مسائل میں ایک دوسرے کو رد کرنا قطعاً مناسب نہیں۔

تمام ایرانی عوام کو ہمارے پیارے امام کے اس بامعنی اور مختصر سبق کو یاد رکھنا چاہیے اور اسلام کے محور پر اتحاد کو نہ بھولنا چاہیے: اللہ کی رسی کو پکڑو اور اسلام کے محور پر متحد ہو جاؤ۔ یہ اتحاد تمام دردوں کا علاج ہے اور تمام دشمنوں کو شکست دیتا ہے۔ ایرانی قوم کی فتح کا اکسیر اعظم یہی ایک نکتہ ہے: اسلام کی بنیاد پر اتحاد ۔

آج عالم اسلام کو پہلے سے زیادہ اتحاد و یکجہتی اور قرآن سے تمسک کی ضرورت ہے۔ قرآن کہتا ہے:وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل­ عمران، 103) حبل اللہ سے تمسک ہر مسلمان پر فرض ہے۔ لیکن قرآن ہمیں حبل اللہ سے وابستگئ کے حکم پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ ہمیں اجتماعی اور سماجی طور پر حبل اللہ سے وابستہ رہنے کا کا حکم دیتا ہے۔ "جمیعاً"؛ سب مل کر وابستہ رہو۔اتحاد کے بارے میں رہبر معظم کے ارشادات کے سلسلہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں: ’’مسلمان بھائیوں کو نصیحت یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان اتحاد مسلمانوں کی ایک اہم ضرورت ہے۔ یہ کوئی مذاق یا نعرہ نہیں ہے۔ تمام اسلامی معاشروں کو باہم متحد ہوجانا چاہیے اور ساتھ چلنا چاہیے۔ اس تناظر میں جو عناصر مرکز بن سکتے ہیں ان میں سے ایک حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ذات مبارک ہے۔

مسلمانوں اور اسلامی دانشوروں کو چاہیے کہ وہ اسلام کے متعلق ہمہ جہت نظر یہ کے ساتھ اس عظیم ہستی کی شخصیت اور تعلیمات اور اس سے محبت میں سرمایہ کاری کریں ۔ پیغمبر اسلام (ص) کا وجود مبارک تمام اسلامی ادوار میں اتحاد کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے اور آج بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کا اس عظیم اور مقدس وجود پر عقیدہ محبت اور جذبات کے ساتھ ہے ۔ اسی لیے آنحضرت ص تمام مسلمانوں کے جذبات اور عقائد کا مرکز اور محور ہے ۔اور یہ مرکزیت مسلمانوں کے دلوں کی باہمی انسیت اور اسلامی فرقوں کی ایک دوسرے سے قربت کا سبب بنتی ہے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کو ہماری نصیحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی ذات، آپ کی زندگی، آپ کے اخلاق اور آپ کی کہی اور لکھی ہوئی تعلیمات کے پہلوؤں پر بہت زیادہ کام کریں۔

جو عوامل اس اتحاد کا مرکز ہو سکتے ہیں اور تمام مسلمان اس پر متفق ہو سکتے ہیں، ان میں سے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اہل بیت کی پیروی ہے۔ تمام مسلمان پیغمبر کے اہل بیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ شیعہ ان کی امامت پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن غیر شیعہ انہیں شیعہ اصطلاح کے مطابق امام نہیں مانتے۔ لیکن وہ انہیں اسلام کے بزرگوں میں سے تو مانتے ہیں ، پیغمبر کے خاندان سے تو مانتے ہیں، اسلامی تعلیمات اور احکام سے مطلع تو مانتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ائمہ معصومین علیہم السلام اور اہل بیت کے ارشادات پر عمل کے سلسلے میں متحد ہوجائیں۔

یہ اتحاد کا ایک ذریعہ ہے۔ البتہ یہ ایک فنی کام ہے۔ آسان کام نہیں ہے اور اس کےکے کچھ مقدمات ہیں۔ جو لوگ اہل فن ہیں، حدیث کے ماہر ہیں، اور حدیث سے متعلق علوم کے ماہر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس کام کے مقدمات کیا ہیں۔

غدیر

مسئلہ غدیر بھی اتحاد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ خود غدیر کا مسئلہ، اس پہلو کے سوا جسے شیعوں نے عقیدہ کے طور پر قبول کیا ہے( یعنی وہ حکومت جو امیر المومنین (ع) کو پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سےحاصل ہوئی ہے، جو حدیث غدیر میں واضح ہے) سرپرستی کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا ہے۔ اب اس میں شیعہ یا سنی نہیں ہیں۔ اگر آج پوری دنیا کے مسلمان اور اسلامی ممالک کی قومیں اسلامی ولایت کا نعرہ لگائیں تو امت اسلامیہ کی بے شمار حل نہ ہونے والی گرہیں کھل جائیں گی اور اسلامی ممالک کے مسائل حل ہونے کے قریب پہنچ جائیں گے

امیرالمومنین علیہ السلام اتحاد کا محور ہیں۔ تمام عالم اسلام امیر المومنین علیہ السلام کا احترام کرتا ہے؛ نہ کوئی شیعہ ہے نہ سنی۔ نواصب نامی ایک چھوٹی سی جماعت امیر المومنین کے دشمن تھے۔ اسلام کی پوری تاریخ میں، اموی اور عباسی دونوں ادوار میں بعض گروہ امیر المومنین کے دشمن تھے۔ لیکن عالم اسلام کے عام لوگ - سنی اور شیعہ دونوں - امیر المومنین کی عزت کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ سنی فقہی ائمہ کے ہاں امیر المومنین کے بارے میں تعریفی اشعارموجود ہیں۔

مشہور اشعار جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ شافعی کے ہیں۔ امام شافعی کے ہاں امیر المومنین کے بارے میں مدحیہ اشعار ہیں۔ صرف امیر المومنین کے بارے میں ہی نہیں بلکہ تمام یا زیادہ تر ائمہ کا یہ لوگ احترام کرتے ہیں۔

رہبر کے بیان کے بعد حیفہ اور تل ابیب میں خوفناک راتیں

دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے قونصلر سیکشن پر حملے کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے ایک پیغام میں خبردار کیا: "بدمعاش حکومت کو ہمارے بہادر جوانوں کے ہاتھوں سزا دی جائے گی، ہم انہیں اس جرم پر پچھتاوا کرائیں گے۔" وہ پیغام جس نے صیہونی حکومت میں خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی اور عبرانی اور عربی میڈیا کے مطابق تل ابیب اور حیفہ میں خطرے کی سطح بہت بلند ہو گئی۔

آگ سے کھیلنے اور شام میں ایران کے خلاف دہشت گردانہ حملے پر سیاسی اور عسکری حلقوں کی جانب سے متعدد تنقیدوں کے جواب میں نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ یہ حکومت ایران کے ردعمل کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ حیفہ کے میئر نے اس پر چند جملوں کے ساتھ سوال کیا اور کہا: ’’مجھے ایسی تیاری نظر نہیں آرہی، وہ ہمیں یہ کیوں نہیں بتاتا کہ کیا کرنا ہے؟

اسرائیلی حکومت کے تجزیہ کاروں کے مطابق شام میں جنرل زاہدی کی شہادت اور دمشق میں ایران کے کئی اعلیٰ فوجی مشیروں کی شہادت کے ساتھ ہی اس نے ایک خطرناک جوا شروع کیا جو اس کے تیزی سے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔

قابضین کے خلاف ڈرونز اور میزائلوں کے استعمال سے لے کر مقبوضہ فلسطین کے اندر یا باہر صیہونی تنصیبات کو نشانہ بنانے تک مستقبل کے مختلف آپشنز کی وجہ سے ایران کے تل ابیب کو "سخت تھپڑ" کے بارے میں قیاس آرائیاں ان دنوں امریکی میڈیا اور سیاسی حلقوں کی خبروں میں سرفہرست ہیں

اس خبر کے اجراء کے ساتھ ہی، جب صیہونی حکومت کی کابینہ نے انتباہ اور تیاری کی سطح کو بڑھانے کے لیے عجلت میں اقدامات اٹھائے، صیہونی برادری کو یہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے شدید اضطراب اور خوف و ہراس کا سامنا کرنا پڑا کہ ایران کیا جواب دے گا اور کب کہاں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سوشل نیٹ ورکس اور مختلف میڈیا میں خبروں کو فعال طور پر فالو کر رہے ہیں۔ وہ خوف جو اسرائیل کے داخلی محاذ کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنا ہے اور اسرائیلی میڈیا میں اس کی واضح جھلک نظر آرہی ہے۔*

اسرائیلی حکومت کے ٹیلی ویژن نے اطلاع دی ہے کہ ایران کی جوابی کارروائی کے خدشے کے پیش نظر اس حکومت کی فضائیہ کو مکمل چوکس کر دیا گیا ہے اور اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ صورتحال کے جائزے کے حصے کے طور پر اس نے فیصلہ کیا ہے فضائی دفاعی نظام کے لیے ریزرو فورسز کو مضبوط اور طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

صیہونی حکومت کی ریزرو فوج کے جنرل نے کہا: [مقبوضہ فلسطین] کے عوام کو جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

یروشلم پوسٹ نے یوم قدس کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ایران کی دھمکیوں کی وجہ سے 28 صہیونی سفارت خانے اور قونصل خانے عارضی طور پر بند کردیئے گئے ہیں۔

کل رات، اسرائیل کے داخلی محاذ کی کمان نے اعلان کیا کہ وہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ اپنے آپ کو پناہ گاہوں میں رہنے کے لیے تیار کریں اور وہاں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے اعلان کردہ ضروری اشیا اور سامان تیار کریں

سفارت خانے پر حملہ ایرانی سرزمین پر حملہ ہے/صہیونی حکومت کو سخت سزا دی جائے گی

نماز عیدالفطر کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا: کہ ہر ملک کا سفارت خانہ یا قونصل خانہ اس کی سرزمین کا حصہ ہوتا ہے۔ صہیونی حکومت کو اس مجرمانہ عمل پر سخت سزا دینی چاہئے اور یقینا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔

تہران کے مصلائے امام خمینی میں نماز عیدالفطر کا اجتماع ہواجہاں رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نماز عیدالفطر کی اقتداء کی۔ انہوں نے کہا: کہ ایک مہینہ اللہ کی رحمت امت مسلمہ پر برسی۔ اس سال شمسی سال کا آغاز بھی ماہ رمضان میں ہوا۔ ماہ رمضان کے دوران تلاوت قرآن کریم کی محفلیں پہلے سے زیادہ بارونق تھیں۔ پورے مہینے کے دوران دعا اور ذکر کی وجہ سے خاص معنویت محسوس کی گئی۔

آپ نے لوگون کو نصیحت کی کہ اس معنوی ذخیرے کی حفاظت کریں۔

سید علی خامنہ ای نے ماہ رمضان کے دوران پیش آنے والے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سال ماہ رمضان کے دوران غزہ کے مسلمانوں نے تلخ واقعات کا سامنا کیا۔ فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کرنے والی صہیونی حکومت پر خدا کی لعنت ہو!

آپ نے مغربی ممالک پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا: کہ انہوں نے ہمیشہ صہیونی غاصب حکومت کی پشت پناہی کی ہے۔ اس سال کے واقعات اور جرائم میں بھی مغربی ممالک نے کھلم کھلا جارح صہیونی حکومت کا ساتھ دیا۔ صہیونی حکومت نے گذشتہ چھے مہینوں کے دوران 30 ہزار سے زائد فلسطینی بے گناہ مسلمانوں کو شہید کردیا۔

ایران کے سپریم لیڈر نے اسرائیل کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہر ملک کا سفارت خانہ یا قونصل خانہ اس کی سرزمین کا حصہ ہوتا ہے۔ صہیونی حکومت کو اس مجرمانہ عمل پر سخت سزا دینی چاہئے اور یقینا خمیازہ بھگتنا پڑے گا [2]۔

حالیہ واقعات میں ایرانی قوم کی طاقت ظاہر ہوگئی/ دشمن سے نمٹنے کے لئے نئے طریقے اپنانے کی ضرورت ہے

انہوں نے شام میں شہید ہونے والے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوکر کامیابی حاصل کی جبکہ ہم پیچھے رہ گئے۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج دوپہر کے وقت مسلح افواج کے اعلی حکام کے ساتھ ملاقات میں حالیہ واقعات میں ان کی کوششوں اور کامیابیوں کو دلی طور پر سراہتے ہوئے تاکید کی: اللہ کے فضل سے، مسلح افواج اپنی صلاحیتوں اور اختیارات کے استعمال کے لئے اچھی شہرت رکھتی ہیں، اس کے ساتھ ہی انہوں نے دنیا کو ایرانی قوم کا ایک قابل تعریف چہرہ دکھایا اور بین الاقوامی میدان میں ایرانی قوم کی قوت ارادی کے بھرپور اظہار کا ثبوت دیا۔

سید علی خامنہ ای نے آرمی ڈے اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے یوم تاسیس کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مسلح افواج کی حالیہ کامیابیوں نے دنیا اور عالمی مبصرین کی نظروں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں عظمت کا احساس پیدا کیا ہے۔

انہوں نے مزید فرمایا: داغے گئے میزائلوں کی تعداد اور یا ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائلوں کا مسئلہ اس زبردست جوابی کاروائی میں ثانوی حیثیت کا حامل ہے۔ جب کہ بنیادی مسئلہ ایرانی قوم اور مسلح افواج کا بین الاقوامی میدان میں اپنی قوت ارادی کا برملا اظہار ہے کہ جس پر فریق مخالف کی چیخیں نکل گئی ہیں اور وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا۔ رہبر انقلاب نے مسلح افواج کے اقدامات میں کارفرما حسن تدبیر کو سراہتے ہوئے فرمایا: مختلف واقعات کا تعلق لاگت اور فائدے سے ہے اور یہ ضروری ہے کہ اخراجات کو کم کیا جائے لیکن منصوبہ بندی اور دقت عمل کے ذریعے بہترین نتائج اور ثمرات حاصل کئے جائیں۔ ملک کی مسلح افواج نے حالیہ واقعات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

پاسداران انقلاب، فوج اور پولیس فورس کی کوششوں اور سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: مسلح افواج کو نصیحت کی کہ دشمنوں اور ان کی دشمنیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جدو جہد اور عملی اقدام پر بھروسہ کرتے ہوئے جدت کے ساتھ ساتھ دشمن کے حربوں کا علم ہمیشہ ایجنڈے میں ہونا چاہیے۔ اس ملاقات میں مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل باقری نے 2023ء کی اہم پیش رفت اور 2024ء کے ابتدائی ہفتے کے واقعات یعنی آپریشن وعدہ صادق کا ذکر کرتے ہوئے مسلح افواج کی تازہ ترین تیاریوں اور صلاحیتوں کے حوالے سے مختصر رپورٹ پیش کی[3]۔

عراقی کردستان کے سربراہ کی رہبر معظم انقلاب اسلامی سے ملاقات

حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے کچھ ہی دیر پہلے عراقی کردستان کے سربراہ نیچروان بارزانی نے اعلی سطحی وفد کے ہمراہ ملاقات کی۔ بارزانی اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ تہران کے دورے پر ہیں۔ عراقی کردستان کے سربراہ نے صدر سید ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے بھی ملاقات کی ہے [4]۔

حج بیت اللہ کے لئے عازم قاریان قرآن کی رہبر معظم انقلاب سے ملاقات

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ملاقات میں متعدد قاریوں نے قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کی جب کہ رہبر معظم انقلاب نے اپنے خطاب میں قاریان قرآن کو تلاوت کے ذریعے آیات کے مفاہیم کو سامعین تک پہنچانے اور حج کے موقع پر قرآن مجید کی تلاوت سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں کچھ نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خوبصورت ترین اسلامی معنویتوں میں سے ایک مسجد النبی ص میں قرآن کی تلاوت ہے۔

مسجد اور قرآن کو جوڑنا، اسی طرح کعبہ اور قرآن کے درمیان تعلق جوڑنا، نہایت حسین امتزاج ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں قرآن نازل ہوا تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پہلی بار یہ آیات حضور اکرم ص کے مقدس قلب پر نازل ہوئیں اور آپ نے ان آیات کو اپنی زبان مبارک سے کعبے میں تلاوت کرکے اس فضا کو منور کیا، آپ نے تکلیفیں برداشت کیں، آپ کو مارا پیٹا گیا، اذیتیں دی گئیں، دشنام طرازی کی گئی لیکن آپ ان آیات کی تلاوت کے ذریعے تاریخ کے دھارے کو مکمل طور پر بدلنے میں کامیاب ہوگئے

آیت اللہ خامنہ ای نے قاریان قرآن کو تلاوت کے ساتھ ساتھ آیات کے مفاہیم کو سامعین تک پہنچانے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کی تلاوت در اصل قرآنی علوم اور پیغامات کو دلوں میں بسانے کا ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے۔ اس کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت سے اسلامی معاشرہ کو ترقی ملتی ہے۔ جس محفل میں آپ قرآن کی تلاوت کر رہے ہوں، وہاں تلاوت کے بعد کتنا اچھا ہو گا، مثلاً دس منٹ آپ کے سننے والوں کے لیے انہی آیات کے مفاہیم کو بیان کریں کہ یہ آیات جو تلاوت کی گئی ہیں ان کا مفہوم اور پیغام یہ ہے [5]۔

رہبر معظم کا فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والے امریکی طلباء کے نام پیغام

رہبر معظم نے فلسطین میں جاری صہیونی مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والے امریکی طلباء کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ غزہ کے مظلوموں کی حمایت کرکے اچھا راستہ انتخاب کرلیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والے امریکی یونیورسٹی طلباء کے ساتھ اظہار ہمدردی و ہمبستگی کرتے ہوئے طلباء کی تحریک کو مقاومت کا حصہ قرار دیا اور مغربی ایشیا کی صورتحال اور تقدیر بدلنے کی تاکید کی۔

رہبر معظم کے پیغام کا متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ پیغام ان جوانوں کے نام لکھ رہا ہوں جن کو ان کے بیدار ضمیروں نے غزہ کے بچوں اور خواتین کے دفاع پر مجبور کیا ہے۔

امریکی عزیز طلباء! یہ آپ کے ساتھ یکجہتی اور ہمبستگی کا پیغام ہے۔ آپ نے ایسا درست فیصلہ کیا ہے جو تاریخ کا ورق پلٹا سکتا ہے۔ آپ نے مقاومت کا حصہ تشکیل دیا ہے۔ آپ صہیونی بے رحم اور غاصب حکومت کی حمایت کرنے والی امریکی انتظامیہ سے شرافتمندانہ طریقے سے مبارزہ کررہے ہیں۔

دنیا کے اس کونے میں اسی احساس اور ادراک کے ساتھ کئی سالوں سے مقاومت جاری ہے۔ اس احتجاج کا ہدف صہیونیزم کے نام پر تشکیل پانے والے دہشت گرد نیٹ ورک کے مظالم کی روک تھام ہے۔ فلسطین پر قبضے کے بعد یہاں کے عوام سالوں سے سخت ترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ غزہ میں نسل کشی صہیونی حکومت کے ظالمانہ سلوک کا تسلسل ہے۔

فلسطین ایک خودمختار سرزمین ہے جو زمانہ قدیم سے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں پر مشتمل ہے۔ عالمی جنگ کے بعد صہیونی سرمایہ داروں کے نیٹ ورک نے برطانیہ کی مدد سے کئی ہزار دہشت گردوں کو بتدریج فلسطین میں داخل کیا جنہوں نے فلسطین کے شہریوں اور قصبوں پر حملہ کیا اور ہزاروں افراد کو تہہ تیغ کیا۔ بازاروں، کھیتوں اور مکانات پر قبضہ کیا اور فلسطینی غصب شدہ زمین پر اسرائیل کے نام سے حکومت تشکیل دی۔

برطانوی ابتدائی امداد کے بعد امریکہ اس غاصب حکومت کا سب سے بڑا حامی ہے جو اس کو سیاسی، اقتصادی اور دفاعی امداد فراہم کرتا ہے یہاں تک کہ بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو ایٹمی اسلحہ بنانے میں بھی مدد فراہم کی ہے۔

صہیونی حکومت نے ابتدا سے ہی فلسطینی نہتے عوام کے مقابلے میں سخت رویہ اختیار کیا ہے اور انسانی اور دینی اقدار کو پامال کرتے ہوئے بے رحمی کے ساتھ فلسطینیوں کو سرکوب کیا ہے۔

امریکہ اور اس کے ہم نوا ممالک نے اسرائیل کی اس دہشت گردی پر مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ آج بھی اگر بعض امریکی حکام غزہ کے واقعات پر بیانات دے رہے ہیں تو وہ ریاکاری ہے۔

اس تنگ و تاریک دور میں مقاومت نے جنم لیا اور انقلاب اسلامی ایران کے بعد اس کو وسعت اور توانائی ملی۔ عالمی صہیونزم کے رہنماوں اور امریکہ اور اس کے حامیوں کی دولت پر پلنے والے میڈیا نے مقاومت کو دہشت گردی قرار دیا۔ کیا غاصب صہیونیوں کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے والے دہشت گرد ہیں؟ کیا اس قوم کی مدد اور دہشت گردی کے مقابلے میں ان کی تقویت دہشت گردی ہے؟

دنیا پر حاکم طبقہ انسانی اقدار کی بھی پروا نہیں کرتا اور اسرائیل کی بے رحمانہ کاروائیوں اور دہشت گردی کو حق دفاع قرار دیتا ہے اور اپنی آزادی اور حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں کو دہشت گرد کہتا ہے!

میں آپ کو اطمینان دلانا چاہتا ہوں کہ حالات تبدیل ہورہے ہیں۔ مغربی ایشیا کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ عالمی سطح پر انسانی ضمیر جاگ گیا ہے۔ مقاومتی بلاک پہلے سے زیادہ طاقتور ہوا ہے اور تاریخ کا ورق پلٹنے والا ہے۔

آپ امریکی یونیورسٹی طلباء کے علاوہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی طلباء اور عوام احتجاج کررہے ہیں۔ یونیورسٹی اساتذہ کی طرف سے طلباء کی حمایت خوش آئند اور موثر ہے اس سے پولیس کے شدت پسند رویے میں تبدیلی آسکتی ہے۔ میں آپ جوانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور آپ کے قیام کو سراہتا ہوں۔

قرآن ہم مسلمانوں اور دنیا کے لوگوں کو حق کی راہ میں استقامت کا حکم دیتا ہے: فَاستَقِم کَما اُمِرت۔ قرآن دوسرے انسانوں کے حوالے سے ہمیں یہی حکم دیتا ہے کہ نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ کسی کا ظلم برداشت کرو: لا تَظلِمونَ وَ لا تُظلَمون۔

اللہ کے اذن سے مقاومتی بلاک ان دستورات پر عمل کرتے ہوئے کامیاب سے ہمکنار ہوگا۔

میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ قرآن سے آشنا ہوجائیں۔

سید علی خامنہ ای [6]۔

امریکی طلباء کے نام امام خامنہ ای کے خط کے بارے میں اسکائی نیوز کا اعتراف!

ایسا لگتا ہے کہ آیت اللہ ہمارے طلباء کو ہم سے بہتر جانتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹیوں میں سینکڑوں طلباء شہادتین پڑ کر مسلمان ہو رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک سید آل رسول (رہبر معظم سید علی خامنہ ائ ) نے 9 سال پہلے مغربی جوانوں کے نام وعظ و نصیحت کا ایک خط لکھا۔ اس وقت سب نے مذاق اڑایا۔ ایک مولوی کا مغربی آزاد فکر نوجوانوں سے کیا کام؟ اس وقت ہمیں کچھ سمجھ نا آیا۔ اور آج اسی سید نے دوبارہ انہیں جوانوں کے نام خط میں لکھا کہ ہاں! اب تم لوگ تاریخ کے درست سمت میں کھڑے ہوئے ہو۔

بعض اوقات اولیاء خدا وہ چیزیں دیکھ رہے ہوتے ہیں جو ہمیں مذاق لگ رہی ہوتی ہیں یا ناممکن سی لگتی ہیں، لیکن وہ ان حقائق کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جن سے ہم نابینا ہوتے ہیں۔

فلسطین کے بارے میں امام خمینی کی پیشنگوئی سچ ثابت ہورہی ہے

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی کی برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: کہ فلسطین کے بارے میں امام خمینی کی پیشنگوئی سچ ثابت ہورہی ہے، طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت پر فیصلہ وار کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے پیر کی صبح امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پینتیسویں برسی کے پروگرام میں ایک عظیم عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی کے افکار و نظریات میں مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کی تشریح کی اور کہا کہ فلسطین کے بارے میں امام خمینی کی پچاس سال پہلے کی پیشگوئی رفتہ رفتہ عملی جامہ پہن رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ معجزے جیسے طوفان الاقصیٰ آپریشن نے خطے اور عالم اسلام پر تسلط کی دشمن کی بڑی سازش کو ناکام بناتے ہوئے صیہونی حکومت کو زوال کے راستے پر ڈال دیا ہے اور غزہ کے عوام کی ایمانی اور قابل تحسین مزاحمت کے سائے میں، صیہونی حکومت دنیا والوں کی نظروں کے سامنے پگھلتی جا رہی ہے۔

انہوں نے اسی طرح شہید صدر رئیسی کی خصوصیات اور خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اور شہیدان خدمت کے جلوس جنازہ میں قوم کی زبردست اور معنی خیز شرکت کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ کے انتہائی اہم الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت، شہیدان خدمت کو الوداع کہنے کے قوم کے بے مثال کارنامے کا تتمہ ہوگی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے افکار و نظریات میں مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسلامی تحریک کے آغاز کے پہلے دن سے ہی مسئلۂ فلسطین کو اہمیت دی اور دقت نظر اور مستقبل پر گہری نگاہ کی بنیاد پر فلسطینی قوم کے سامنے ایک راستے کی تجویز رکھی اور امام خمینی کا یہ انتہائی اہم نظریہ رفتہ رفتہ عملی جامہ پہن رہا ہے۔

انھوں نے اسلامی تحریک کے آغاز میں ہی ایران کی ظالم و جابر طاغوتی حکومت کی سرنگونی اور اسی طرح سوویت حکومت کی حکمرانی اور دبدبے کے دور میں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کی پیشگوئی کو امام خمینی کی بصیرت کے دو دوسرے نمونے قرار دیا۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے صیہونی حکومت سے مفاہمت کے مذاکرات سے کوئی امید نہ رکھنے، میدان عمل میں فلسطینی قوم کے اترنے، اپنا حق حاصل کرنے اور تمام اقوام بالخصوص مسلم اقوام کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت کو، فلسطینی قوم کی فتحیابی کے لیے امام خمینی کے نظریات کا خلاصہ قرار دیا اور کہا کہ یہ عظیم واقعہ بھی اس وقت عملی جامہ پہن رہا ہے۔

شہید رئیسی کی خدمات

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں عزیز اور محنتی صدر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے جانگداز سانحے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے ساتھیوں میں سے ہر ایک شخص، اپنے آپ میں ایک گرانقدر شخصیت تھا۔

انہوں نے شہید رئیسی کی نمایاں اور ممتاز خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سبھی نے اعتراف کیا کہ کام، عمل، خدمت اور صداقت والے انسان تھے اور انھوں نے عوام کی خدمت کا ایک نیا نصاب تیار کیا تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اتنی زیادہ، اتنی مقدار میں، اس سطح کی خدمت اور ایسی صداقت و محنت ملک کے خادموں کے درمیان نہیں رہی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں بہت زیادہ اور بابرکت فعالیت، مواقع کا بہترین استعمال اور دنیا کی اہم سیاسی شخصیات کی نظر میں ایران کو نمایاں کرنا، شہید رئیسی کی کچھ دوسری خصوصیات تھیں۔ انھوں نے دشمنوں اور انقلاب کے مخالفوں کے درمیان واضح حدبندی اور دشمن کی مسکراہٹ پر بھروسہ نہ کرنے کو شہید رئیسی کی دیگر سبق آموز خصوصیات بتایا۔

شہید امیر عبداللہیان

انہوں نے اسی طرح شہید امیر عبداللہیان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں ایک فعال، محنتی اور جدت عمل والا وزیر خارجہ اور مضبوط، ذہین اور اصولوں کا پابندہ مذاکرات کار بتایا۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے شہیدان خدمت کے جلوس جنازہ میں عوام کی دسیوں لاکھ کی تعداد میں شرکت کو ایک نمایاں اور قابل تجزیہ کارنامہ بتایا اور اسے انقلاب کی تاریخ میں تلخ اور سخت حوادث کے مقابل ایرانی قوم کے تاریخ رقم کرنے والے کارناموں کا ایک نمونہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کارنامے نے دکھا دیا کہ ایرانی قوم، ایک پرعزم، ثابت قدم اور زندہ قوم ہے جو مصیبت سے نہیں ہارتی بلکہ اس کی استقامت اور جوش و جذبے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے عوام کی زبردست شرکت کا ایک اور پیغام، انقلاب کے نعروں کی طرفداری بتایا اور کہا کہ مرحوم رئیسی صراحت کے ساتھ انقلاب کے نعروں کو بیان کرتے تھے اور وہ خود انقلاب کے نعروں کا مظہر تھے۔

الیکشن میں شرکت کی اپیل

انہوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں آئندہ الیکشن کو ایک بڑا اور اہم نتائج والا کام بتایا اور کہا کہ اگر یہ الیکشن اچھی طرح اور پرشکوہ طریقے سے منعقد ہو جائے تو ایرانی قوم کے لیے ایک بڑا کارنامہ ہوگا اور دنیا میں اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت کو شہیدان خدمت کو الوداع کہنے کے قوم کے بے مثال کارنامے کا تتمہ قرار دیا اور کہا کہ ایرانی قوم کو پیچیدہ بین الاقوامی معامالات میں اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی اسٹریٹیجک گہرائی کے استحکام کے لیے ایک فعال، آگاہ اور انقلاب کی بنیادوں پر ایمان رکھنے والے صدر کی ضرورت ہے [7]۔

غزہ کے جلادوں سے عالمی سطح پر برائت کا اعلان ہونا چاہئے

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس سال حج کے موقع پر صہیونی حکومت اور اس کے حامیوں مخصوصا امریکہ سے اعلان برائت حج کے مناسک تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان رہتے ہیں، وہاں سے یہ نعرہ بلند ہونا چاہئے۔

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حج کی مناسبت سے اپنا پیغام جاری کردیا ہے۔

مکمل متن؛

بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی خیر البریّۃ سیّدنا محمّدٍ المصطفی و آلہ الطّیّبین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسان الی یوم الدّین.

دلنواز ابراہیمی آہنگ نے، جو حکم خدا سے ہر دور کے تمام انسانوں کو موسم حج میں کعبے کی جانب بلاتا ہے، اس سال بھی پوری دنیا کے بہت سے مسلمانوں کے دلوں کو توحید و اتحاد کے اس مرکز کی جانب مجذوب کر دیا ہے، انسانوں کے اس پرشکوہ اور متنوع اجتماع کو وجود میں لے آيا ہے اور اسلام کے انسانی وسائل کی وسعت اور اس کے روحانی پہلو کی طاقت کو اپنوں اور غیروں کے سامنے نمایاں کر دیا ہے۔

حج کے عظیم اجتماع اور اس کے پیچیدہ مناسک کو جب بھی تدبر کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ مسلمانوں کے لیے قوت قلب اور اطمینان کا سرچشمہ ہیں اور دشمن اور بدخواہ کے لیے خوف و ہراس اور ہیبت کا سبب ہیں۔

اگر امت مسلمہ کے دشمن اور بدخواہ، فریضۂ حج کے ان دونوں پہلوؤں کو بگاڑنے اور انھیں مشکوک بنانے کی کوشش کریں، چاہے مذہبی اور سیاسی اختلافات کو بڑا بنا کر اور چاہے ان کے مقدس اور روحانی پہلوؤں کو کم کر کے، تو تعجب کی بات نہیں ہے۔

قرآن مجید، حج کو بندگي، ذکر اور خشوع کا آئینہ، انسانوں کے یکساں وقار کا مظہر، انسان کی مادی اور روحانی زندگي کی بہبودی کا نمونہ، برکت اور ہدایت کی علامت، اخلاقی سکون اور بھائيوں کے درمیان عملی اتحاد کی مثال اور دشمنوں کے مقابلے میں برائت و بیزاری اور مقتدرانہ محاذ آرائی کا مظہر بتاتا ہے۔

حج سے متعلق قرآنی آيات پر غوروخوض اور اس بے نظیر فریضے کے اعمال و مناسک میں تدبر ان چیزوں اور حج کے پیچیدہ اعمال کی باہمی ترکیب کے ان جیسے دیگر رموز کو ہم پر منکشف کر دیتا ہے۔

حج ادا کرنے والے آپ بھائي اور بہن اس وقت ان پرفروغ حقائق و تعلیمات کی مشق کے میدان میں ہیں۔ اپنی سوچ اور اپنے عمل کو اس کے قریب سے قریب تر کیجیے اور ان اعلی مفاہیم سے آمیختہ اور از سر نو حاصل ہونے والے تشخص کے ساتھ گھر لوٹیے۔ یہی آپ کے سفر حج کی گرانقدر اور حقیقی سوغات ہے۔

اس سال برائت کا مسئلہ، ماضی سے زیادہ نمایاں ہے۔ غزہ کا المیہ، جو ہماری معاصر تاریخ میں بے مثال ہے اور بے رحم اور سنگ دلی و درندگي کی مظہر اور ساتھ ہی زوال کی جانب گامزن صیہونی حکومت کی گستاخی نے کسی بھی مسلمان شخص، جماعت، حکومت اور فرقے کے لیے کسی بھی طرح کی رواداری کی گنجائش باقی نہیں رکھی ہے۔ اس سال کی برائت، حج کے موسم اور میقات سے آگے بڑھ کر پوری دنیا کے تمام مسلمان ملکوں اور شہروں میں جاری رہنی چاہیے اور حاجیوں سے آگے بڑھتے ہوئے ہر ایک شخص کی جانب سے انجام پانی چاہیے۔

صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں خاص طور پر امریکی حکومت سے یہ برائت اقوام اور حکومتوں کے قول و فعل میں نظر آنی چاہیے اور اسے جلادوں کا عرصۂ حیات تنگ کر دینا چاہیے۔

فلسطین اور غزہ کے صابر اور مظلوم عوام کی آہنی مزاحمت کی، جن کے صبر و استقامت نے دنیا کو ان کی تعریف و احترام پر مجبور کر دیا ہے، ہر طرف سے پشت پناہی ہونی چاہیے۔

خداوند عالم سے ان کے لیے مکمل اور فوری فتح کی دعا کرتا ہوں اور آپ حجاج محترم کے لیے، مقبول حج کی دعا کرتا ہوں۔ حضرت بقیۃ اللہ (روحی فداہ) کی مستجاب دعا آپ کی پشت پناہ رہے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

سید علی خامنہ ای

4 ذی الحجہ 1445

22 خرداد 1403

11 جون 2024 [8]۔

امریکہ کے جھوٹے انسانی حقوق کے سلسلے میں رہبر معظم کے 10 اہم جملے

اسلامی اقدار کا اس سے زیادہ تلخ اور بڑا مذاق کیا ہوگا کہ امریکہ بھی انسانی حقوق کی پاسبانی کا دعویٰ کرے! اسلامی جمہوریہ ایران کے سرکاری کیلنڈر میں 1 جولائی کو امریکی انسانی حقوق کی حقیقت کے دن کا نام دیا گیا ہے اور اس موقع پر انسانی حقوق کے سلسلے میں امریکہ کے جھوٹے دعوے کے حوالے سے رہبر معظم کے دانشمندانہ بیانات کے 10 اہم جملے آپ کے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں:

آج دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو یہ مانتا ہو کہ امریکہ انسانی حقوق کا پاسباں ہے اور وہ دوسرے ممالک کے حقوق کا خیال رکھتا ہے، یا نسل کشی اور بچوں کا قتل عام کرنے والی صیہونی حکومت دنیا کے ممالک میں جمہوریت کے نفاذ کے لیے کوشاں ہے؟

امریکہ صیہونی حکومت، اور وہ چند طاقتور ممالک جو اسلامی جمہوریہ ایران کے مد مقابل کھڑے ہیں انکے کارنامے بہت ہی سیاہ ہیں، انسانی حقوق کے معاملے میں اور اقوام کے حقوق اور انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے ان کااکردار بہت ہی سیاہ ہے، کیا فلسطین میں 60 سال سے جاری نسل کشی انسانی حقوق انسانی کی خلاف ورزی نہیں؟

جہاں تک میں جانتا ہوں، دنیا میں کوئی بھی ایسی حکومت نہیں ہے جس نے امریکہ جتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہو۔

امریکہ اور امریکیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہیں، لیکن دنیا ایرانی قوم ، حکومت ایران اور اسلامی نظام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگاتی ہے!

وہ دنیا جو ان بھیانک جرائم پر اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہے وہ انسانی حقوق کی پاسداری کا دعویٰ نہیں کر سکتی، اور اس دنیا سے امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ دنیا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے نمٹ سکے گی، ایسی دنیا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

مغربی نظام اور مغربی تہذیب دنیا کا نظم و نسق سنبھالنے کے قابل نہیں ہیں، انہیں دنیا کے تقریباً 6 ارب لوگوں اور ممالک پر حاکمیت کا دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ وہ خود کو منظم نہیں کر سکتے اور اپنی حفاظت خود نہیں کر سکتے اور بڑی انسانی آفات کو روک نہیں سکتے ہیں۔

امریکی کہتے ہیں کہ "ہم انسانی حقوق کی حمایت کرتے ہیں"! میں کہنا چاہتا ہوں کہ تم انسانی حقوق کو بالکل نہیں مانتے، تم بڑی بڑی امریکی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہو، تم دنیا بھر میں امریکی حکومت کے ناجائز مفادات کی حفاظت پر یقین رکھتے ہو۔

امریکی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں، وہ بے غیرت ہیں، بے شرم ہیں، مائک ان کے ہاتھ میں ہیں لہذا وہ جس پر چاہتے ہیں الزام لگاتے ہیں، بالکل ویسا ہی جیسے ایک گھٹیا، منحرف، بدکار شخص کھڑا ہو کر شریف لوگوں پر بے حیائی اور بد سلوکی اور بدکاری کا الزام لگائے!

اسلامی اقدار کا اس سے زیادہ تلخ اور بڑا مذاق کیا ہوگا کہ امریکہ بھی انسانی حقوق کی پاسبانی کا دعویٰ کرے!

وہ لوگ جو انسانی حقوق کی پاسبانی کا دعویٰ کرتے ہیں سب سے بنیادی حقوق کی بھی رعایت نہیں کرتے،وہ اپنی جیلوں میں، دنیا میں، اور دوسرے ممالک کے ساتھ، حتی کہ اپنی قوم کے ساتھ بھی انسانی حقوق کی رعایت نہیں کرتے، ایسے افراد انسانی حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں جو تشدد کو قانونی حیثیت دیتے ہیں! [9]۔

صہیونی حکومت پر ہر وار انسانیت کی خدمت ہے/ ہماری مسلح کی کاروائی مکمل قانونی تھی

رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ صہیونی حکومت پر ہر وار انسانیت کی خدمت ہے امریکہ اور اس کے حامی خطے کے قدرتی ذخائر پر قبضہ کرنے کے لئے صہیونی حکومت کو آلہ کار بنانا چاہتے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تہران کے مصلائے امام خمینی میں رہبر معظم کی امامت میں نماز جمعہ کا خطبہ شروع ہوگیا ہے۔ نماز جمعہ سے پہلے شہید حسن نصر اللہ اور شہداء مقاومت کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا۔

مصلائے امام خمینی کے اطراف میں ہر طرف انسانوں کے سر نظر آرہے ہیں۔ تہران اور دیگر صوبوں سے بڑی تعداد میں لوگ مصلائے امام خمینی پہنچ گئے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تاریخی نماز جمعہ کے آغاز میں فرمایا کہ میں اپنے سمیت تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو تقوائے الہی کی دعوت دیتا ہوں، محتاط رہیں کہ ہم کہیں اپنے قول و فعل میں خدا کی حدود سے تجاوز نہ کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ مسلمانوں کا دشمن مشترکہ ہے، وہ ایک ہی جگہے سے حکم لیتے ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر مسلمان متحد ہو جائیں تو دشمنوں پر قابو پا سکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب نے مزید کہا کہ دشمنوں کی پالیسی یہی کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو، ان کی پالیسی کی بنیاد ہی تفرقہ انگیزی ہے اور ان پالیسیوں کو مسلم ممالک میں مختلف طریقوں سے اپنایا گیا۔ لیکن آج قومیں جاگ اٹھی ہیں۔ آج آپ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی اس چال پر قابو پا سکتے ہیں۔ ایران کا دشمن عراق، فلسطین، مصر، شام اور یمن کے عوام کا دشمن ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر مسلمان آپس میں متحد ہو جائیں تو خدا کی عزت اور رحمت ان کے شامل حال ہو گی۔ مسلمان خدا کی سنت اور الہی قوانین کے تقاضوں سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ولایت کا مطلب مسلمانوں کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق اور یکجہتی ہے اور مسلمانوں کے بارے قرآنی پالیسی یہی ہے۔ مسلمانوں کے بارے قرآن کی پالیسی یہ ہے کہ مسلمان قومیں ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی و ہمدلی رکھیں۔

انہوں نے فرمایا کہ ایران سے غزہ اور لبنان تک اور تمام اسلامی ممالک کی آزادی اور خودمختاری کمر ہمت باندھنا ہوگا۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا: کہ ہماری مسلح افواج نے جو کام کیا وہ خطے میں امریکی پاگل کتے کو کمترین جواب ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ نہ ہم اپنا وظیفہ انجام دینے میں کوتاہی کریں گے اور نہ جلدبازی کا شکار ہوں گے۔

انہوں نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا اس حوالے سے جو بھی وظیفہ ہوگا، پوری طاقت اور قوت سے انجام دیا جائے گا۔ جو کچھ لازم ہوا انجام دیں گے۔ چنانچہ جس طرح کاروائی کی گئی ضرورت ہوئی تو مستقبل میں ہوگی۔

انہوں نے کہا فرمایا کہ جب بزدل دشمن مقاومتی تنظیموں کے خلاف جنگ میں ناکام ہوئی تو دہشت گردی، نسل کشی اور قتل عام پر اتر آیا۔ لیکن کیا نتیجہ ملا؟

رہبر انقلاب کے خطبہ نماز جمعہ کا عربی حصہ؛

میں نے ضروری سمجھا کہ اپنے بھائی، عزیز، عالم اسلام کے ہر دلعزیز چہرے، اور خطے کی اقوام کی توانا آواز زبان، لبنان کے چمکتے ستارے شہید سید حسن نصر اللہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اس خطبہ کا مخاطب یوں تو پورا عالم اسلام ہے لیکن لبنان اور فلسطین کی عزیز قومیں خاص طور پر مخاطب ہیں[10]۔

طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کو 70 سال پیچھے دھکیل دیا

طوفان الاقصی کو ایک سال مکمل ہونے پر رہبر معظم نے کہا ہے کہ طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کو ستر سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے طوفان الاقصی کو ایک سال مکمل ہونے کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کو ستر سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر عبرانی زبان میں منتشر ہونے والے بیان میں رہبر معظم نے کہا ہے کہ طوفان الاقصی کے صہیونی حکومت کو 70 سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال سات اکتوبر کو فلسطینی مقاومتی تنظیموں کی جانب سے صہیونی حکومت کے خلاف طوفان الاقصی کے نام سے وسیع آپریشن کیا گیا تھا جس میں سینکڑوں صہیونیوں کی ہلاکت کے علاوہ درجنوں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کیا تاہم ایک سال گزرنے کے باوجود صہیونی حکومت اپنے اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام رہی ہے[11]۔

صیہونی حکومت شکست کھا چکی ہے

سید علی خامنہ ای رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ صیہونی رجیم کو شکست ہوئی ہے لیکن اس سے بڑی شکست مغربی ثقافت، تہذیب اور سیاست دانوں کو ہوئی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج صوبہ فارس کے شہداء کی کانگریس کے منتظمین سے ملاقات میں علاقے کے واقعات اور مزاحمت کی جدوجہد کو خطے کی تقدیر اور تاریخ میں تبدیلی کا عنصر قرار دیا۔

انہوں نے صیہونی رجیم کے ہاتھوں 50,000 سے زائد بے گناہ افراد کے قتل عام کے باوجود مزاحمت کو تباہ کرنے میں رجیم کی رسواکن شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مغربی ثقافت، تہذیب اور سیاست دانوں کی ہزیمت کو اس سے بھی بڑی شکست قرار دیا اور کہا کہ محور مقاومت کی محور شرارت کے مقابلے میں محاذ آرائی میں فتح مزاحمت کی ہی ہے۔

سید علی خامنہ ای نے خطے کے موجودہ مسائل اور غزہ، لبنان اور مغربی کنارے کے واقعات کو تاریخ ساز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر شہید سنوار جیسے لوگ نہ ہوتے جو آخری دم تک لڑتے، یا شہید سید حسن نصر اللہ جیسے عظیم لوگ نہ ہوتے کہ جنہوں نے جہاد، حکمت، جرأت اور قربانی کو یکجا کرکے میدان میں اتارا تو اس خطے کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔

انہوں نے خطے میں رونما ہونے والے واقعات کے موجودہ نتائج کو نہ صرف صیہونی حکومت بلکہ مغرب کی تہذیب و ثقافت کی بھی بڑی شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کا خیال تھا کہ وہ مزاحمتی گروہوں کو آسانی سے تباہ کر سکتے ہیں، لیکن آج 50 ہزار سے زائد نہتے شہریوں اور مزاحمت کے کئی سرکردہ رہنمائوں کی شہادت اور امریکہ کی بھاری حمایت کے باوجود انہیں دنیا میں نفرت کے سوا کچھ نہیں ملا یہاں تک کہ امریکی یونیورسٹیوں میں بھی ان مجرموں کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے گئے، جب کہ مزاحمتی محاذ، حماس، اسلامی جہاد، حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے نوجوان مجاہدین اسی عزم اور طاقت کے ساتھ لڑ رہے ہیں، جو کہ صیہونی حکومت کی بہت بڑی شکست ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اسے مغربی ثقافت اور تہذیب کی بھی سب سے بڑی شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ دو ٹن وزنی بموں اور ہر قسم کے ہتھیاروں سے 10 ہزار معصوم بچوں کا قتل عام مغربی جھوٹے سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے دعویداروں کی رسوائی کا باعث بنا اور مغربی تہذیب کا کھوکھلا پن اور نفاق دنیا پر آشکا ہوا جو کہ ان کی سب سے بڑی شکست ہے۔ انہوں نے صیہونی رجیم کے حامی محاذ کو محور شرارت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس محور شرارت کے مقابلے محور مقاومت کھڑا ہے اور خدا کے فضل سے فتح مزاحمت کے محاذ کی ہے [12]۔

غزہ اور لبنان میں مقاومت کا تسلسل، فتح و کامرانی لشکر اسلام کے قدم چومیں گی

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شہید حسن نصر اللہ کے حزب اللہ کو طاقتور بنانے میں غیر معمولی کردار اور ان کی بہادری اور حکمت عملی کو سراہا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے جمعرات کے روز مجلس خبرگان کے اراکین سے ملاقات کے دوران کہا کہ سید حسن نصر اللہ کے خدا پر بھروسے اور ان کی ہمت، داشمندی اور صبر کی بدولت حزب اللہ نے غیر معمولی ترقی کا تجربہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ سید حسن نصر اللہ نے اپنے پیچھے حزب اللہ کی شکل میں ایک گراں قدر اور پائیدار میراث چھوڑی ہے، حزب اللہ نے گزشتہ 40 سالوں میں مختلف مواقع پر صیہونی حکومت کو پسپائی پر مجبور کیا ہے۔

رہبر معظم نے صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینی مزاحمتی تحریک کی کامیابیوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ فلسطینی مزاحمت 2009 سے اب تک 9 مرتبہ صیہونی رجیم کے خلاف فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے [13]۔

انہوں نے مزید کہا کہ صیہونی حکومت امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی تمام تر حمایت کے باوجود فلسطینی حماس کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے جب کہ حماس اب بھی میدان میں پوری استقامت کے ساتھ لڑ رہی ہے، جس کا مطلب واضح ہے کہ صیہونی رجیم کی شکست یقینی ہے۔

صہیونی دہشت گرد نیٹ ورک کے تمام سرغنوں پر مقدمہ چلایا جائے

صہیونی دہشت گرد نیٹ ورک کے تمام سرغنوں پر مقدمہ چلایا جائے، رہبر معظم کا عبرانی زبان میں پیغام رہبر معظم نے ایکس پر عبرانی زبان میں ایک پیغام میں کہا ہے کہ صہیونی دہشت گرد نیٹ ورک کے تمام سرغنوں پر مقدمہ چلایا جائے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عبرانی زبان میں پیغام میں صہیونی جنایت کاروں کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر انہوں نے عبرانی زبان میں کہا ہے کہ صہیونی دہشت گرد نیٹ ورک کے تمام سرغنوں کے خلاف مقدمہ چلاکر ان کا تعاقب کیا جائے۔ یاد رہے کہ چند روز پہلے ہیگ میں عالمی عدالت نے صہیونی وزیر اعظم نتن یاہو اور سابق وزیر جنگ یووا گیلانت کے خلاف مقدمے کی سماعت کے بعد کہا ہے کہ ملزمان نے غزہ میں شہریوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور بھوک اور قحطی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ عدالت نے دونوں ملزمان کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا [14]۔

بسیجی اللہ پر توکل اور خوداعتمادی کی وجہ سے دشمن کے سامنے مغلوب نہیں ہوتا ہے

رہبر معظم انقلاب نے بسیجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بسیجی اللہ پر توکل اور خود پر اعتماد کرتا ہے اسی لئے دشمن کے سامنے مغلوب نہیں ہوتے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہفتہ بسیج کی مناسبت سے ملک بھر سے آنے والے بسیجی وفد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بسیج کی بنیاد دو چیزوں پر ہے: اللہ پر توکل اور خود پر اعتماد۔

تہران کے حسینیہ امام خمینی میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران معروف مداح حاج صادق آہنگران نے انقلابی نظم پڑھا۔ رہبر معظم نے کہا کہ بسیج مستضعفین ایک بے نظیر ادارہ ہے۔ امام خمینی نے بسیج کا نظریہ پیش کیا جو ایک ثقافتی، اجتماعی اور دفاعی نیٹ ورک ہے۔ امام خمینی کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ دشمن کے خطروں کو فرصت میں بدل دیتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اللہ پر توکل کے نتیجے میں انسان میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ بسیج کی بنیاد ان دونوں پر مبنی ہے۔ رہبر معظم نے کہا کہ مکتب بسیج اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں سے آگاہ ہوتا ہے لہذا بسیجی کبھی دشمن کے سامنے مغلوب نہیں ہوتا ہے۔ بسیجی جذبہ دشمن کی تمام سازشوں اور حکمت عملیوں کو ناکام بنادے گا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بسیجی جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر اپنے آپ کو تیار کریں تو اللہ کے فرشتے آپ کی مدد کے لئے نازل ہوں گے۔ ہم نے دفاع مقدس اور دیگر مواقع پر اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی استکبار اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے سب سے پہلے ملتوں اور اقوام کی توانائیوں اور صلاحیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ مغربی استکبار کی نسبت فرعون کا کردار منصفانہ تھا۔

کیونکہ فرعون صرف اپنی قوم پر تسلط رکھتا تھا۔ بسیجی کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اپنی توانائی اور صلاحیتوں کو کشف کرتا ہے۔ عالمی استکبار نے ماضی میں ایرانی قوم کی کئی مرتبہ بین الاقوامی سطح پر تحقیر کی۔ قاجار اور پہلوی دور میں ایران کی تحقیر کی گئی۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امام خمینی نے بسیج تشکیل دے کر تحقیر کا سلسلہ روکنے کے لئے بڑا اقدام کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا کے جوان خود کو بند گلی میں محسوس کرتے ہیں۔ بسیجی اس ناامیدی کو خود پر حاوی ہونے نہیں دیتا ہے۔ بسیجی ذہنیت کا حامل جوان سلطہ طلب طاقتوں کے سامنے سرنڈر نہیں کرتا ہے بلکہ تمدن اسلامی کی جانب حرکت کرتا ہے[15]۔

مسلح فورسز کی سب سے اہم ذمہ داری جنگی تیاری اور جنگی توانائی ہے

رہبر معظم انقلاب نے بحریہ کی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ تمام سرگرمیوں اور منصوبہ بندیوں میں مسلح فورسز خاص طور پر بحریہ کا محور جنگی تیاری اور توانائی ہونا چاہیے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے یوم بحریہ کی مناسبت سے بدھ 27 نومبر 2024 کو بحریہ کے کچھ کمانڈروں اور اعلیٰ افسروں سے ملاقات میں بحریہ کو آج کی دنیا میں ایک حیاتی اور فیصلہ کن فورس بتایا اور مختلف آپریشنل، انٹیلی جنس، سپورٹ، تعمیر اور جدت عمل کے شعبوں میں بحریہ کی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ تمام سرگرمیوں اور منصوبہ بندیوں میں مسلح فورسز خاص طور پر بحریہ کا محور جنگی تیاری اور توانائي ہونا چاہیے۔

انہوں نے جنگی تیاری میں اضافے کو دشمن کے حملے کے سد باب کا سبب بتایا اور کہا کہ مسلح فورسز کا سب سے اہم کام حملے کی روک تھام کرنا ہے بنابریں آپ عملی طور پر ایران کے بدخواہوں کی نظروں میں ملک کی جنگي توانائي کو اس طرح نمایاں کیجیے کہ وہ حقیقی معنی میں محسوس کریں کہ کسی بھی طرح کے ٹکراؤ کی انھیں بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے سمندری مہمات کے جاری رہنے کو ضروری بتایا اور کہا کہ جیسا کہ اس سے پہلے بھی کہا گیا چھیاسیویں نیول فلیٹ کی کئي مہینے پر مبنی مہم اور اس کی تفصیلات کو فن و ہنر کی زبان میں رائے عامہ تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس ملاقات کے آغاز میں اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے کمانڈر کو شہرام ایرانی نے مختلف میدانوں میں بحریہ کے پروگراموں اور سرگرمیوں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی[16]۔

رہبر انقلاب اسلامی کا ہزاروں افراد کی موجودگی میں اہم خطاب

مزاحمتی محاذ کو نہ فتوحات پر مغرور ہونا چاہیے اور نہ ہی شکستوں سے مایوس ہونا چاہیے۔ جیت اور ہار ہے، لوگوں کی ذاتی زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ اسی میں کامیابی اور ناکامی ہے۔ گروہوں کی زندگی بھی ایسی ہی ہے، ان میں بھی کامیابی اور ناکامی ہے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے آج ہزاروں افراد کی موجودگی میں خطاب کیا۔

شام میں جو کچھ ہوا اس کی اصل وجہ امریکہ اور اسرائیل کے کمانڈ روم میں منصوبہ بندی کی گئی تھی

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے آج ہزاروں افراد کی موجودگی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ شام میں جو کچھ ہوا اس کی اصل وجہ امریکہ اور اسرائیل کے کمانڈ روم میں منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ہمارے پاس اس کے شواہد موجود ہیں کہ شام کی ہمسایہ حکومت کا بھی اس میں کردار ہے، لیکن اصل سازش کار امریکہ اور صیہونی حکومت ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ شام میں جو کچھ ہوا وہ امریکی اور صیہونی مشترکہ منصوبے کا نتیجہ ہے۔ جی ہاں، شام کی ایک ہمسایہ حکومت اس میدان میں واضح کردار ادا کرتی رہی ہے اور اب بھی ادا کر رہی ہے۔ ہم یہ سب دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اصل ایجنٹ اور مرکزی سازش کار امریکہ اور صیہونیے کا مرکزی کمانڈ روم ہے۔ ہمارے پاس اسکے شواہد موجود ہیں۔ یہ شواہد شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے۔

مزاحمت ماضی سے زیادہ پورے خطے پر محیط ہوگی

رہبر معظم انقلاب نے مزید فرمایا: میں آپ کے سامنے عرض کررہا ہوں کہ مزاحمت ماضی سے زیادہ پورے خطے پر محیط ہوگی۔ مزاحمت یہ ہے، مزاحمت کا محاذ یہ ہے: آپ جتنا زیادہ دبائیں گے، یہ اتنا ہی مضبوط ہوتا جائے گا، آپ جتنا زیادہ جرم کریں گے، اتنا ہی زیادہ حوصلہ افزائی ہوگی۔ جتنا آپ ان کے ساتھ لڑیں گے، یہ اتنا ہی وسیع ہوگا، اور میں آپ کے سامنے عرض کررہا ہوں، کہ بحول و قوہ الہی، مزاحمت کا دائرہ پورے خطے کو پہلے سے زیادہ احاطہ کرے گا۔

وہ جاہل تجزیہ نگار جو مزاحمت کے مفہوم سے ناواقف ہے، یہ تصور کرتا ہے کہ جب مزاحمت کمزور ہو جائے گی تو اسلامی جمہوریہ ایران بھی کمزور ہو جائے گا، اور میں عرض کرتا ہوں کہ خدا کی مرضی اور قدرت سے، خدا کے حکم سے ایران مضبوط اور طاقتور ہے اور زیادہ طاقتور بنے گا. رهبر انقلاب نے اس بات کی اجنب اشارہ کرتے ہوئے کہ ہمارے سیکیورٹی اداروں نے اگست کے اواخر میں ہی بشار اسد کو اس بارے میں آگاہ کردیا تھا شام میں موجود مسلح گرہوں کی موجودگی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ موجودہ گروہ زیادہ عرصہ حاصل نہیں کر پائے گا۔

شام کے زیر قبضہ علاقوں کو غیور شامی جوانوں کے ذریعے آزاد کرایا جائے گا

آپ نے شام کے جوانوں سے امید کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: جب اس ملک کی فوج ہی کام نہ کر رہی ہو تو مداخلت بھی بے معنی ہے اور رائے عامہ بھی اسے قبول نہیں کرتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری فوج پیچھے ہٹنا تو دور کی بات سرے سے فرار کرگئی۔ حتی جب ہم نے فضائیہ کے ذریعے اقدام کی کوشش کی تو امریکی اور اسرائیلی F-15 طیاروں نے ہمارا راستہ روک دیا۔ لیکن پھر بھی ہمارا ایک بہادر پائلٹ جا کر بیٹھ گیا۔ خدا کے فضل سے شام کے زیر قبضہ علاقوں کو غیور شامی جوانوں کے ذریعے آزاد کرایا جائے گا۔ شک نہ کریں کہ ایسا ہو جائے گا اور مزاحمتی محاذ کے ذریعے امریکہ کو بھی خطے سے نکال باہر کیا جائے گا۔

یقیناً، ان حملہ آوروں کا جن کا میں نے ذکر کیا ہے ہر ایک کا ایک خاص مقصد ہے۔ ان کے اہداف مختلف ہیں، ان میں سے کچھ شام کے شمالی یا جنوبی علاقوں کی سر زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، امریکہ خطے میں اپنے قدم جمانے کے درپے ہے، ان کے مقاصد یہ ہیں اور وقت بتائے گا کہ انشاء اللہ ان میں سے کوئی بھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائے گا. شام کے زیر قبضہ علاقوں کو پرجوش شامی نوجوانوں کے ذریعے آزاد کرایا جائے گا۔ شک نہ کریں کہ ایسا بہت جلد ہو گا۔ امریکہ کے قدم بھی نہیں جم پائیں گے، بتوفیق الہی، بہ حول و قوہ الہی امریکہ کو بھی مزاحمتی محاذ کے توسط سے اس خطے سے نکال باہر کیا جائے گا۔

شام میں ایران کی موجودگی

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے داعش کے فتنے کے دور میں شام میں ایران کی موجودگی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ داعش کے فتنے کے مسئلے میں۔ داعش کا مطلب یعنی نا امنی کا بم۔ داعش کا مقصد عراق کو غیر مستحکم کرنا، شام کو غیر مستحکم کرنا، خطے کو غیر مستحکم کرنا، پھر اصل نقطہ اور آخری ہدف کی طرف آتے ہیں، جو کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ یہ اصل اور آخری مقصد تھا۔

یہ داعش کا مفہوم ہے۔ ہم وہاں حاضر ہوئے، ہماری افواج عراق اور شام دونوں ممالک میں دو وجوہات کی بنا پر موجود تھیں۔ ایک وجہ مقدس مقامات کی حرمت کا تحفظ تھا۔ کیونکہ وہ لوگ روحانیت اور مذہب اور عقائد سے صرف نظر ان مقامات کو تباہ کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے تباہ بھی کیا، آپ نے سامرہ میں مشاہدہ کیا، امریکیوں کی مدد سے انہوں نے سامرہ کے پاکیزہ گنبد کو نابود کردیا، انہوں نے تباہ کیا اور بعد میں بھی یہ کام کرنا چاہتے تھے کہ کربلا میں کرین، کاظمین میں کریں، دمشق میں کرئں، یہ داعش کا ہدف تھا۔

خوب، یہ واضح ہے کہ اہل بیت سے محبت کرنے والا غیرت مند نوجوان مومن کبھی بھی ایسی چیزوں کو برداشت نہیں کرے گا، وہ اس بات کی اجازت نہیں دے گا، یہ ایک وجہ ہے۔ ایک اور وجہ سیکورٹی کا مسئلہ تھا۔ حکام کو جلد ہی موقع پر یہ احساس ہوگیا کہ اگر اس عدم تحفظ کو یہیں پر نہ روکا گیا تو یہ پھیلے گی اور عدم تحفظ ہمارے عظیم ملک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ داعش کی بغاوت اور فتنے کا عدم تحفظ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔

امیر المومنین نے فرمایا جو قوم دشمن کے ساتھ اپنے گھر کے دروازے پرمشغول ہو جائے وہ ذلیل و خوار ہو گی، لہذا اسے اپنے گھر تک نہ پہنچنے دو۔ اس لئے، ہماری افواج، ہمارے ممتاز جرنیل چلے گئے، ہمارے عزیز شہید سلیمانی اور ان کے دوست اور ساتھی، جوانوں کو عراق اور شام میں پہلے عراق اور پھر شام میں منظم کیا گیا مسلح کیا گیا۔ انکے اپنے ہی جوان، داعش کے سامنے کھڑے ہوئے، داعش کی کمر توڑ دی اور ان پر غلبہ حاصل کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری افواج جو کچھ کر سکتی تھیں اور جو انہوں نے کیا وہ بس مشورے دینے کا کام تھا۔ کیا مطلب؟ اس کا مطلب ہے اہم مرکزی اور اصلی اڈوں کی تشکیل، حکمت عملی اور تکنیکوں کا تعین اور ضرورت پڑنے پر میدان جنگ میں داخل ہونا، لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس خطے کے نوجوانوں کو متحرک کیا جائے، یقیناً ہمارے اپنے نوجوان، ہمارے بسیجی بھی بے صبری سے، بے تابی سے اور ثابت قدمی سے اشتیاق رکھتے تھے۔ اور ان میں سے بہت سے چلے بھی گئے.

مزاحمتی محاز، ظالم، جابر اور بدمعاش کے مقابلے میں سینہ سپر ہونا

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزاحمتی محاذ کا ذکر کرتے ہوئے کہا: مزاحمت اس طرح ہے؛ جب وہ دشمن کے گھناؤنے جرائم کو دیکھتے ہیں تو جن کو شک تھا کہ مزاحمت کی جائے یا نہ کی جائے ، وہ بھی شک سے باہر آنکل آتے ہیں، وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ظالم، جابر اور بدمعاش کے مقابلے میں سینہ سپر ہونے کے علاوہ انسان اپنا راستہ جاری نہیں رکھ سکتا، اسے قیام کرنا چاہیے۔ مزاحمت کا مطلب یہ ہے۔ آپ لبنان کی حزب اللہ کو دیکھیں اور دیکھیں کہ کیا حزب اللہ پر جو آفت آئی وہ مذاق تھی؟

حزب اللہ نے سید حسن نصراللہ جیسے شخص کو کھو دیا، کیا یہ چھوٹی سی بات تھی؟ حزب اللہ کے حملے، حزب اللہ کی طاقت، حزب اللہ کی محکم مٹھی پہلے سے زیادہ مظبوط ہو گئی ہے۔ دشمن نے بھی اس کو سمجھ چکا اور تسلیم کر چکا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اب جب انہوں نے حملہ کیا ہے تو وہ لبنانی سرزمین میں داخل ہو سکتے ہیں، حزب اللہ کو پیچھے دھکیل سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ کسی خاص جگہ، مثال کے طور پر لیتانی نہر کی طرف پیش قدمی کر سکتے ہیں۔

لیکن وہ پیشقدمی نہیں کرسکے، حزب اللہ نے قیام کیا اور اپنے کمال قدرت کے ذریعے ایسا کام کر دکھایا کہ وہ خود آئے، اور انہوں نے جنگ بندی کا مطالبہ کردیا۔ یہ مزاحمت ہے۔ غزہ دیکھیں۔ وہ ایک سال اور چند ماہ سے غزہ پر بمباری کر رہے ہیں۔ غزہ کے سرکردہ لوگوں مثلا یحییٰ سینور جیسوں کو شہید کیا، یہ ضربیں لگائیں، لیکن اسی عالم میں عوام اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ لوگوں پر دباؤ ڈالنے سے ان کے اپنے لوگ حماس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور قیام کریں گے۔ لیکن برعکس ہوا، عوام حماس کے پہلے سے زیادہ حامی بن گئے ہیں۔

شامی حکومت نے ایک نازک وقت میں ہماری اہم مدد کی

قائد انقلاب اسلامی نے شام کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ شام کے مسائل کی جو تفصیل ہم نے بیان کی، کیا ہم ان چند سالوں میں شام میں موجود تھے یا نہیں؟ خوب، سب جانتے ہیں کہ جی ہاں۔ شہدائے حرم، مزارات کے دفاع کے شہداء نشان دہی کررہے ہیں کہ ہم حاضر تھے۔ ہم نے شامی حکومت کی مدد کی، لیکن اس سے پہلے کہ ہم شامی حکومت کی مدد کریں، شامی حکومت نے ایک نازک وقت میں ہماری اہم مدد کی۔

یہ بات اکثر افراد نہیں جانتے۔ مقدس دفاع کے دوران، جب سب صدام کی حمایت اور ہمارے خلاف کام کر رہے تھے، شام کی حکومت نے آ کر ہمارے حق میں اور صدام کے خلاف ایک بڑا فیصلہ کن اقدام کیا، اور وہ یہ تھا کہ تیل کی اس پائپ لائن کو کاٹ دیا جائے جو وہاں کا تیل بحیرہ روم اور یورپ لے جا رہا تھا اور اس کے پیسے صدام کی جیب میں آرہے تھے، شام نے یہ پائپ لائن کاٹ دی، اس نے یہ پائپ لائن کاٹ دی۔ دنیا میں کھلبلی مچ گئی۔

اس نے وہ تیل جو صدام کے لیے تھا اسے استعمال نہیں ہونے دیا۔ خود شامی حکومت بھی اس نام نہاد تیل کی راہداری کے ذریعے فائدہ اٹھا رہی تھی، اور پیسے کما رہی تھی۔ اس نے اس رقم سے بھی صرف نظر کیا۔ البتہ اس نے ہم سے اس کا عوض لیا۔ یعنی اسلامی جمہوریہ نے اس خدمت کو بلا عوض نہیں چھوڑا۔ لیکن پہلے انہوں نے ہماری مدد کی۔ آپ نے ایک اہم مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلح افواج کے اعلیٰ حکام مجھے لکھتے ہیں کہ ہم لبنان اور حزب اللہ کا مسئلہ برداشت نہیں کر سکتے، اس لیے ہمیں جانے کی اجازت دیں۔ اس کا موازنہ ایسی فوج سے کریں جو اسے برداشت نہیں کر سکتی اور بھاگ جاتی ہے۔

بدقسمتی سے ہماری فوج طاغوت کے دور میں ایسی ہی تھی۔ وہ دوسری [عالمی] جنگ سمیت مختلف جنگوں میں دشمنوں، غیر ملکیوں کے حملے کے خلاف بھی کھڑے نہیں ہوئے۔ دشمن اس دن تہران پر قبضہ کرنے آیا تھا۔ وہ کھڑے نہیں ہوئے، انہوں نے قیام نہیں کیس۔ جب وہ قیام نہیں کرتے تو یہ نتیجہ ہوتا ہے۔ مزاحمت کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس مشکل حالات میں بھی ہم تیار تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم نے وہ تمام سہولیات تیار کر رکھی ہیں جن کی آج شامیوں کو ضرورت ہے اور ہم جانے کے لیے تیار ہیں۔

فضائی راستے بند ہو گئے، زمینی راستے بند ہو گئے، صیہونی حکومت اور امریکہ نے شام کے فضائی راستے کو بند کر کے زمینی راستے بھی بند کر دیے، یہ ممکن نہیں تھا۔ چیزیں اس طرح ہیں۔ اگر اس ملک کے اندر محرکات وہی رہے اور وہ دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوسکتے تو دشمن نہ آسمان بند کر سکتا اور نہ زمینی راستہ بند کر سکتا۔ ان کی مدد کی بھی جا سکتی تھی۔ سب جان لیں کہ یہ مسئلہ ایسا ہی نہیں رہے گا۔

اب جب کہ ایک گروہ دمشق اور دیگر جگہوں پر جشن منانے، رقص کرنے، لوگوں کے گھروں پر حملے کرنے آتا ہے اور صیہونی حکومت بمباری کرنے کے لئے، ٹینک اور، توپیں لے آتی ہے، تو جان لیں کہ یہ معاملہ ایسے ہی نہیں رہے گا۔ یقیناً شام کے غیور نوجوان اٹھ کھڑے ہوں گے،قیام کریں گے، قربانیاں دیں گے، تکلیفیں اٹھائیں گے، لیکن وہ اس صورتحال پر قابو پالیں گے۔ جیسا کہ غیور عراقی نوجوانوں نے کیا۔ ہمارے عزیز شہید کی مدد، رہنمائی، حکم اور تنظیم سے عراق کے غیرت مند نوجوان دشمن کو اپنی گلیوں، سڑکوں اور گھروں سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوگئے وگرنہ امریکی عراق میں بھی یہی کچھ کر رہے تھے۔

شام کے حالیہ واقعات کو نشان عبرت سے تعبیر کرتے ہوئے رہبر انقلاب نے فرمایا کہ شام کا حادثہ ہمارے لیے، ہم میں سے ہر ایک کے لیے، ہمارے حکام کے لیے ایک سبق اور درس عبرت ہے۔ اس سے درس لینا چاہیے۔ اس مسئلہ کا ایک سبق غفلت ہے، دشمن سے غافل ہونا۔ جی ہاں اس حادثہ میں دشمن نے تیزی سے کام کیا۔ لیکن انہیں اس واقعہ سے پہلے معلوم ہونا چاہئے تھا کہ یہ دشمن سازش کرے گا اور تیزی سے کام کرے گا۔ ہم نے بھی ان کی مدد کی تھی۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسی نے چند ماہ قبل شامی حکام کو تشویشناک رپورٹ بھیجی تھی۔

معلوم نہیں یہ بات اعلیٰ حکام تک پہنچی یا نہیں، یا بیچ میں گم ہوگئی۔ لیکن ہمارے انٹیلی جنس اہلکاروں نے انہیں بتایا تھا کہ انہوں نے اگست ستمبر اکتوبر سے مسلسل رپورٹیں ارسال کی ہیں۔ دشمن کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ دشمن کو حقیر نہیں جاننا چاہیے، دشمن کی مسکراہٹ پر بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، کبھی دشمن خوشگوار لہجے میں بات کرتا ہے، مسکراہٹ کے ساتھ بات کرتا ہے، لیکن وہ اپنی پیٹھ کے پیچھے خنجر پکڑ کر موقع کا انتظار کرتا ہے۔ شام میں، شہید سلیمانی نے اانکے اپنے ہی کئی ہزار نوجوانوں کے ایک گروپ کو تربیت دی، مسلح کیا، منظم اور تیار کیا۔

خوب لیکن اسکے بعد بدقسمتی سے، اس ملک کے کچھ فوجی حکام نے اس میں مین و میچ نکالی، مسئلہ پیدا کیا، بدقسمتی سے، انہوں نے اس بات کو درک نہیں کیا جو ان کے اپنے مفاد میں تھی۔ اور داعش کی شورش ختم ہونے کے بعد، بعض واپس آگئے، کچھ وہیں رہ گئے۔ وہ بھی انہی معاملات میں پیش پیش تھے لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اصل جنگ اسی ملک کی فوج کو لڑنی چاہیے تھی۔ اس ملک کی فوج کے ساتھ ہی دوسری جگہ سے آنے والی بسیج فورس لڑ سکتی ہے۔

اگر اس ملک کی فوج کمزوری کا مظاہرہ کرے گی تو ان بسیجیوں کے متحرک ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور بدقسمتی سے یہی ہوا۔ جب قیام اور مزاحمت کا جذبہ کم ہوجائے تو ایسی ہی آفتیں نازل ہوتی ہیں جو آج شام پر ہو رہی ہیں، اور خدا جانے کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا کب شام کے نوجوان میدان میں آ کر اسے روکیں گے، یہ وہی کمزوریاں ہیں جو وہاں دکھائی گئیں۔

نہ فتوحات پر مغرور ہونا چاہیے اور نہ ہی شکستوں سے مایوس

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: مزاحمتی محاذ کو نہ فتوحات پر مغرور ہونا چاہیے اور نہ ہی شکستوں سے مایوس ہونا چاہیے۔ جیت اور ہار ہے، لوگوں کی ذاتی زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ اسی میں کامیابی اور ناکامی ہے۔ گروہوں کی زندگی بھی ایسی ہی ہے، ان میں بھی کامیابی اور ناکامی ہے۔ ایک سسٹم ایک دن کام پر ہے، ایک دن کام سے الگ تھلگ ہے، اسی طرح حکومتیں بھی، اسی طرح ممالک بھیآ۔ زندگی میں نشیب و فراز آتے ہیں، ہم اس اتار چڑھاؤ سے بچ نہیں سکتے، بس یہ ضروری ہے کہ جب ہم فراز حاصل کررہے ہوں تو غرور نہ کریں یہ ضروری ہے۔ کیونکہ غرور جہالت کو جنم دیتا ہے۔

خود پسندی انسان کو غافل کردیتی ہے، اسی طرح جب ہم نشیب میں اترے اور ناکام ہوئے تب بھی ہمیں افسردہ، مایوس اور دل شکستہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسلامی جمہوریہ نے ان چالیس سالوں میں بڑے مشکل حالات کا سامنا کیا ہے۔ عظیم واقعات۔ نوجوانوں نے وہ دن نہیں دیکھے، اسی تہران میں لوگ گھروں میں بیٹھے تھے، تہران کے عوام، صدام کا لڑاکا طیارہ مگ 25 ہمارے سروں پر پرواز کررہا تھا، اگر وہ مہذب ہوتا تو بمباری نہ کرتا، لیکن ہمیں ڈرایا گیا اور ہم کچھ نہ کر سکے۔

ہمارے پاس اس کا دفاع نہیں تھا، نہ ہمارے پاس ائیر ڈیفنس موجود تھا نہ ہی دیگر امکانات تھے کہ ہم ان کا سامنا کرتتے۔ مومن کو غیر فعال نہیں ہونا چاہئے۔ بے عملی بعض اوقات حادثے سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ بے حسی کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کو جب یہ محسوس ہونے لگے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتا تونہ ہو کہ وہ کچھ نہیں سکتا تو وہ ہار مان لیتا ہے۔ یہ انفعال ہے۔ پس کامیابیوں اور پیشرفت پر غرور کرنا زہر ہے۔ اور ناکامیوں، پریشانیوں میں بے حسی زہر ہے[17]۔

ایرانی عوام امریکہ کے لئے غلامی کرنے والے ہر شخص کو اپنے پاوں تلے روند ڈالیں گے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایرانی قوم امریکہ کی غلامی قبول کرنے والے ہر شخص کو اپنے قدموں تلے کچل کر رکھ دے گی۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پیغمبر اسلام (ص) کی لخت جگر اور شفیعہ روز جزا حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے بعض شعراء اور ذاکرین اہل بیت علیھم السلام نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔

تہران کے حسینیہ امام خمینی میں ہونے والی ملاقات کے دوران مختلف منقبت خوانوں نے جناب سیدہ کونین علیہا السلام کی شان میں مدح اور منقبت پیش کی جن میں حمید رضا دادوندی اور عباس طہماسب پور بھی شامل تھے۔ اس موقع پر رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ حضرت زہرا(س) کا سب سے اہم کام تبیین تھا۔

اہل بیت(ص) کی مداحی در حقیقت تبیین کے سلسلسلے میں حضرت زہرا(س) کی پیروی کا نام ہے، حضرت زہرا(س) موجودہ حقائق کو بیان کرتی تھیں، یعنی اس وقت کے پیش آمدہ مسائل کو کھول کر بیان کرتیں، روز مرہ کے مسائل کی تبیین ایک نہایت اہم ذمہ داری ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے مزید کہا کہ مدّاحی ایک مکمل میڈیا اور تبیین کا اہم ذریعہ ہے، آج شبہ پیدا کرنا دشمن کا بنیادی ایجنڈا ہے اور ہمیں آج تبیین کی اشد ضرورت ہے۔ آپ مداحان اہل بیت علیہم السلام ان لوگوں میں سے ہیں جو اس عظیم کام (تبیین) کو انجام دے سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ دیگر ممالک پر تسلط کا امریکی منصوبہ دو چیزوں پر مشتمل ہے: آمریت یا پھر افراتفری۔انہوں نے شام میں افراتفری پیدا کی اور اس وقت یہ سمجھتے کہ انہیں فتح نصیب ہوئی ہے، ایک امریکی عنصر اشارتا کہتا ہے کہ جو کوئی بھی ایران کے اندر فتنہ پھیلائے گا ہم اس کی مدد کریں گے۔ گویا ان احمقوں کو حماقت کی سوجھی ہے! انہوں نے کہا کہ ایرانی عوام امریکہ کے لئے غلامی کرنے والے ہر شخص کو اپنے پاوں تلے روند ڈالیں گے۔

رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ مسلسل کہتے آرہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ خطے میں اپنی پراکسی قوتوں سے محروم ہو گیا! یہ ایک اور واضح غلطی ہے! اسلامی جمہوریہ کی کوئی پراکسی نہیں ہے۔ یمن لڑتا ہے کیونکہ وہ ایمان رکھتا ہے۔ حزب اللہ لڑتی ہے کیونکہ ایمان کی طاقت اسے میدان میں لاتی ہے۔ حماس اور جہاد (اسلامی) لڑتے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے، وہ ہماری پراکسی نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم کسی دن اقدام کرنا چاہیں تو ہمیں کسی پراکسی کی ضرورت نہیں ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ میں پیشین گوئی کرتا ہوں کہ شام میں بھی ایک مضبوط اور معزز گروہ پیدا ہوگا۔ انہوں نے شام کے حوالے سے کہا کہ شام کے نوجوان کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ اس کی یونیورسٹی غیر محفوظ، اس کا اسکول غیر محفوظ، اس کا گھر غیر محفوظ، اس کی گلی اور محلہ غیر محفوظ، اس کی زندگی غیر محفوظ ہے، آخر وہ کیا کرے؟

ان لوگوں کے خلاف پوری قوت اور عزم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے جنہوں نے اس ناامنی اور افراتفری کا منصوبہ بنایا اور جنہوں نے اس کو عملی کیا، اور انشاء اللہ وہ ان پر غلبہ پائیں گے۔ خدا کے فضل سے خطے کا مستقبل اس کے حال (آج) سے بہتر ہو گا۔

رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ امریکیوں میں میں سے ایک کا کہنا ہے کہ "جو بھی ایران میں فتنہ انگیزی کرے گا، ہم اس کی مدد کریں گے۔" احمقوں کو حماقت سوجھی ہے! جو بھی امریکہ کے لئے غلامی کرے گا ایرانی عوام اسے اپنے قدموں تلے روند ڈالیں گے۔

رہبر معظم انقلاب نے آج صبح ہزاروں مداحوں اور شعرائے اہل بیت علیہم السلام سے ملاقات میں فرمایا کہ میں نے تقریباً 2-3 ہفتے پہلے یہاں ایک تقریر میں کہا تھا کہ امریکہ کا ممالک پر تسلط کا منصوبہ دو چیزوں میں سے ایک ہے: یا تو ایک مطلق العنان آمرانہ حکومت بنانا کہ جس کے ساتھ وہ اس ملک کے مفادات کو تقسیم کر سکیں۔ یا اگر ایسا نہ ہوسکا تو افراتفری اور انتشار پھیلائیں گے۔

انہوں نے شام میں انتشار پھیلایا، افراتفری مچائی، اب وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں فتح حاصل ہوئی ہے۔ امریکی، صیہونی حکومت اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے فتح حاصل کر لی ہے اور مبالغہ آرائی کرنے لگے ہیں۔ شیطان کے پیروکاروں کی یہ خصوصیت ہے کہ جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں کامیابی ملی ہے تو پھر وہ اپنی زبان پر قابو کھو دیتے ہیں، وہ مبالغہ گوئی پر اتر آتے ہیں۔

یہ آج بےہودگی پر اتر آئے ہیں، امریکی حکام میں سے ایک کی مبالغہ گوئی واضح ہے کہ البتہ اشاروں میں کہنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ بالکل واضح ہے،کہتے ہیں: "جو ایران میں افراتفری پیدا کرے گا، ہم اس کی مدد کریں گے۔" بیوقوفوں کو حماقت کی سوجھی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ایرانی قوم امریکہ کی غلامی قبول کرنے والے ہر شخص کو اپنے قدموں تلے کچل کر رکھ دے گی۔ یاد رہے کہ ہر سال 20 جمادی الثانی کو ایرانی منقبت خوان اور مداح رہبر معظم انقلاب سے ملاقات کرتے ہیں[18]۔

آیت اللہ خامنہ ای کو میرا سلام پہنچا دیں

عیسائیوں کے مذہبی رہنما پوپ فرانسس نے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں رہبر معظم کے نظریات پر مشتمل تختی وصول کرنے کے بعد کہا کہ آیت اللہ خامنہ ای کو میرا صمیم قلب سے سلام پہنچا دیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ویٹیکن میں ایرانی سفیر نے پوپ فرانسس سے ملاقات کے دوران رہبر انقلاب اسلامی کے حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں خیالات پر مشتمل ایک تختی پیش کی، جس کا عنوان تھا "اگر مسیح ہمارے درمیان ہوتے۔

یہ تختی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے بیانات سے منتخب نکات پر مشتمل تھی، جو کیتھولک رہنما کو پیش کی گئی۔ ملاقات کے دوران پوپ فرانسس نے اس تختی کو مسیحی پیروکاروں کے لیے اہم اور اثرانگیز قرار دیا۔

پوپ نے فلسطین کے حالات مخصوصا صہیونی حکومت کے مظالم پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ میں روزانہ فلسطین میں موجود اپنے نمائندے کے ذریعے وہاں کی صورتحال سے باخبر رہتا ہوں۔ ملاقات کے اختتام پر پوپ فرانسس نے ایرانی سفیر سے درخواست کی کہ وہ ان کی گرمجوشی سے بھرپور سلامات رہبر انقلاب اسلامی تک پہنچائیں۔

یاد رہے کہ رہبر معظم نے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں مختلف مواقع پر اپنے پیغامات میں کہا ہے کہ مسلمانوں کی نظر میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قدر و منزلت یقینی طور پر ان کے مومن مسیحی پیروکاروں کے نزدیک ان کی عظمت سے کم نہیں ہے۔ یہ عظیم پیغمبر اپنی تمام زندگی ظلم، جبر اور فساد کے خلاف جہدوجہد کرتے رہے۔ وہ ان طاقتوں کے مقابل ڈٹ گئے جو دولت اور طاقت کے ذریعے اقوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر انہیں عذاب میں مبتلا کر رہی تھیں۔

بچپن سے ہی جب اللہ نے انہیں نبوت عطا کی، حضرت مسیح علیہ السلام نے بے شمار مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا اور یہ سب کچھ حق کی سربلندی کے لیے تھا۔ توقع کی جاتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے پیروکار اور وہ تمام لوگ جو ان کی عظمت و معنویت اور بلند مقام کو مانتے ہیں، ان کے راستے پر چلیں۔ رہبر معظم نے اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ اگر آج حضرت مسیح علیہ السلام ہمارے درمیان ہوتے تو وہ لمحہ بھر کے لیے بھی ظلم اور عالمی استکبار کے سربراہوں کے خلاف جہدوجہد سے گریز نہ کرتے۔

وہ کبھی یہ گوارا نہ کرتے کہ بڑی طاقتوں کے ہاتھوں اربوں انسان بھوک، بے گھری، جنگ، فساد اور دشمنی کا شکار ہوں۔ آج حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان رکھنے والے مسیحیوں اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ دنیا میں ایک منصفانہ نظام قائم کرنے کے لیے انبیاء کی تعلیمات کی جانب رجوع کریں اور ان عظیم معلمانِ انسانیت کی ہدایات کے مطابق انسانی اخلاق و فضائل کو عام کریں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیروی کا مطلب حق کی حمایت کرنا اور ان طاقتوں سے دوری اختیار کرنا ہے جو حق کے خلاف ہیں۔ امید ہے کہ دنیا بھر کے مسیحی اور مسلمان اس عظیم سبق کو اپنی زندگی اور عمل میں زندہ رکھیں گے [19]۔

رہبر معظم انقلاب کے دعائے ماہ رجب سے متعلق تربیتی نکات

ماہ رجب کے بابرکت ایام کے موقع پر رہبر معظم انقلاب کے دعائے ماہ رجب کی شرح کے عنوان سے بیان کئے گئے سنہری نکات جو 12 اگست 2006 کو شائع ہوئے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ویب سائٹ "خامنہ ای ڈاٹ آئی آر" نے ماہ رجب المرجب کے بابرکت ایام کے موقع پر رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے دعائے ماہ رجب کی شرح سے متعلق بیانات کو شائع کیا ہے۔

ذیل میں ان نکات کے مرکزی پیغام کو بیان کیا گیا ہے:

﴿بسم الله الرّحمن الرّحیم﴾

﴿یا مَن اَرجوُه لِکُلّ خَیر﴾؛ اے وہ، جس سے مجھے بھلائی کی امید ہے"؛ یعنی میں اگر مجھ سے کوئی نیکی سرزد ہوجائے تو اس سے اجر کی امید رکھتا ہوں۔ آپ جو بھی نیک کام کرتے ہیں، یہ امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر عطا کرے گا۔ لیکن دوسری طرف،﴿وَ آمَنُ سَخَطَهُ عِندَ کُلِّ شَرّ﴾ تمام برائیوں سے محفوظ رکھنے کی آس بھی لگاتے ہیں؛ اور اپنے آپ کو غضب الہی سے محفوظ سمجھنے لگتے ہیں۔

اگر کوئی شخص اپنے آپ کو خدا کے غضب سے محفوظ نہیں سمجھتا تو وہ یقینا برے کام انجام نہیں دے گا۔ اگر کوئی مثال کے طور پر، غیبت کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے، لیکن خدا کے غضب اور ناراضگی کا احساس اس کے اندر نہیں جاگا ہے تو گویا اس شخص نے خدا کے غضب سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رکھا ہے۔

قابل غور ہے کہ جب بھی ہم کوئی اچھا کام کرتے ہیں تو یہ امید کرتے ہیں کہ خدا ہمیں اجر دے گا، مثال کے طور پر ہم دو رکعت نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں یا صدقہ دیتے ہیں تو ہم یہ امید کرتے ہیں کہ خدا ہمیں اس کام کا اجر دے گا۔ ٹھیک ہے، آپ اپنے اچھے کاموں پر خدا سے فضل اور محبت کی امید رکھتے ہیں، لیکن اپنے برے کاموں پر اللہ کے غضب اور ناراضگی سے ڈریں!

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق متوازن نہیں ہے، جس سے ہم اچھے اعمال کے پاداش کی توقع تو رکھتے ہیں لیکن برے کاموں کے ارتکاب کے وقت خدا کو بھول جاتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ خیال کر بیٹھے ہیں کہ خدا ہم سے ناراض نہیں ہوا اور ہم پر اس کا غضب نازل نہیں ہوا! لہذا اس خوش فہمی میں مبتلاء ہوجاتے ہیں کہ ہم اس کے غضب سے محفوظ ہیں، جب کہ یہ نہایت خطرناک تصور ہے جو انسان کو احکام خدا کے مقابلے میں مزید جری بنا دیتا ہے۔ ہونا یہ چاہئیے کہ ہم نیک کاموں پر خدا سے فضل کی امید رکھیں جب کہ برے اعمال سرزد ہونے پر اس کے غضب اور ناراضگی کے خوف سے فورا توبہ کریں تاکہ تہذیب نفس حاصل کر سکیں[20]۔

ایران کی ترقی اور پیشرفت کو سامنے لانے میں میڈیا میں مؤثر کام کی ضرورت ہے

امریکہ کو ترکی بہ ترکی جواب دیں گے، رہبر معظم انقلاب

رہبر معظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر امریکہ ایرانی عوام کی سلامتی کو خطرے میں ڈالے تو ایران بھی بلا تردد ان کو نشانہ بنائے گا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی فضائیہ کے سربراہ، بعض کمانڈر اور اہلکاروں نے حضرت امام خمینی (رہ) کے ساتھ تاریخی بیعت کی مناسبت سے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔

حسینیہ امام خمینی (رح) تہران میں ہونے والی ملاقات کے دوران رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ امریکہ سے مذاکرات نہ عقلی ہے، نہ ہی عزت مندانہ اور نہ ہی اس میں کوئی حکمت ہے۔ ملاقات کے آغاز میں ایران کی فضائیہ کے کمانڈر واحدی نے رہبر کو ایک رپورٹ پیش کی جس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے 100 فیصد خودکفالت حاصل کرلی ہے۔ مسلح افواج ملکی دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ امریکہ سے مذاکرات سے ملک کے مسائل کو حل نہیں ہوں گے۔ اس کی وجہ ماضی کا تجربہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ امریکہ سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تو فلاں مسئلہ حل ہوجائے گا۔ نہیں! امریکہ سے بات چیت سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے 90 کی دہائی میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔ تقریبا دو سال تک ایک معاہدہ طے پایا، لیکن امریکہ نے اس معاہدے پر عمل نہیں کیا۔ اس شخص نے جو ابھی اقتدار میں ہے، وہ معاہدہ پھاڑ دیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اسے پھاڑ دے گا، اور واقعی ایسا کیا۔ امریکہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور اقوام متحدہ کے حوالے سے جو کچھ طے پایا تھا، اس پر عمل بھی نہیں کیا۔ معاہدہ اس لیے تھا کہ امریکی پابندیاں ہٹائی جائیں، لیکن وہ پابندیاں ہٹائی نہیں گئیں۔ یہ تجربہ ہے! ہم نے نیک نیتی سے بات چیت کی؛ رعایتیں دیں لیکن جو مقصد ہم چاہتے تھے، وہ حاصل نہیں کرپائے۔ اسی معاہدے کو بھی فریق دوم نے توڑ دیا۔

ایسی حکومت سے مذاکرات کرنا عقلمندی ہے اور نہ ہی ہوشیاری اور نہ ہی شرافت کی بات ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ ملک کو اندرونی سطح پر کچھ مشکلات کا سامنا ہے، جن سے انکار ممکن نہیں۔ حکومت معاشی مشکلات کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ امید ہے کہ حکومت اپنی کوششوں میں کامیاب ہوگی اور عوام کے معاشی مسائل کم ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی مشکلات کی لپیٹ میں تقریبا تمام طبقات ہیں، تاہم ان مسائل کا حل بھی اندرونی عوامل میں پوشیدہ ہے۔ داخلی حل کا مطلب ذمہ دار اور مخلص حکام کی جدوجہد اور عوام کا باہمی اتحاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال 22 بہمن کی ریلی قومی اتحاد کی علامت بنتی ہے۔ بابصیرت عوام اور خستگی ناپذیر حکام مشکلات پر قابو پائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکام اپنی ذمہ داریا آدا کرنے میں مصروف ہیں اور مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ موجودہ حکومت عوامی معاشی مسائل کو کم کرنے میں کامیاب ہوگی۔ رہبر انقلاب نے کہا اگر امریکہ ہمارے لیے خطرہ ایجاد کرے تو ہم بھی ان کی سیکورٹی کو خطرے میں ڈالیں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نے آج صبح فضائیہ اور فضائی دفاعی فورس کے اعلی افسران سے ملاقات میں واضح الفاظ میں کہا کہ ایران کسی بھی امریکی دھمکی کا بھرپور جواب دے گا۔

انہوں نے کہا کہ امریکی حکام محض کاغذ پر دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن یہ سب خیالی منصوبے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ ایران کے حوالے سے بھی تبصرے اور دھمکیاں دیتے ہیں۔ اگر وہ ہمیں خطرات ایجاد کریں تو ہم بھی ان کو خطرے میں ڈال دیں گے اور اگر وہ اپنی دھمکی پر عمل کریں تو ہم بھی اپنے ردعمل کو عملی شکل دیں گے۔

رہبر معظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر امریکہ ایرانی عوام کی سلامتی کو خطرے میں ڈالے تو ایران بھی بلا تردد ان کو نشانہ بنائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ موقف قرآن اور اسلامی تعلیمات سے ماخوذ ہے اور ایران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی خودمختاری اور عوام کے تحفظ کے لیے کھڑا ہو۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ایران کو اس راہ میں کامیاب کرے[21]۔

آج ایران کی دفاعی طاقت دشمن کے خوف اور دوست کے فخر کا سبب ہے اور اس کی پیشرفت جاری رہنی چاہیے

رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ 12 فروری 2025 کی صبح ایران کی وزارت دفاع کے کچھ عہدیداروں اور دفاعی صنعت کے کچھ سائنسدانوں، ماہرین اور کارکنوں سے ملاقات کی۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ 12 فروری 2025 کی صبح ایران کی وزارت دفاع کے کچھ عہدیداروں اور دفاعی صنعت کے کچھ سائنسدانوں، ماہرین اور کارکنوں سے ملاقات کی۔

اس ملاقات سے قبل انھوں نے"اقتدار 1403" نامی نمائش کا معائنہ کیا جس میں ملک کی دفاعی صنعت کے سائنسدانوں کے جدید ترین کارناموں اور صلاحیتوں کو پیش کیا گيا تھا۔رہبر انقلاب نے نمائش کے معائنے کے بعد اپنے خطاب میں امام زمانہ بقیۃ اللہ الاعظم کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے پندرہ شعبان کو ایک عالمی اور انسانی عید بتایا اور کہا کہ عدل و انصاف کی خوشخبری، انصاف کے قیام اور نجات دہندہ کے ظہور کی امید، پوری تاریخ میں انسان کی ایک دائمی آرزو رہی ہے اور بلاشبہہ یہ امید پوری ہوکر رہے گي۔

انھوں نے اسی طرح 22 بہمن (11 فروری) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے ایرانی قوم کی ایک عظیم اور تاریخی عید بتایا اور اس کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی انقلاب میں یہ بات دکھائي نہیں دیتی کہ اس کی کامیابی کے 46 سال بعد قوم اپنے انقلاب کی سالگرہ پر سڑکوں پر آئے اور جشن منائے۔آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے انتہائي سرد موسم میں بچوں، عورتوں، مردوں، بوڑھوں اور جوانوں سمیت قوم کے تمام طبقوں کی گيارہ فروری کی ریلیوں میں شرکت کو ایک قومی اور عوامی قیام سے تعبیر کیا اور کہا کہ اس سال کے پروگرام، انقلاب کی سالگرہ کے جشنوں کے سب سے اہم اور نمایاں ترین پروگراموں میں سے ایک تھے۔

انہوں نے انقلاب کے اصل مالکوں یعنی ایرانی قوم اور گيارہ فروری کے ہیرو یعنی امام خمینی کے خلاف دشمن کی پروپیگنڈا بمباری اور سافٹ وار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات میں قوم بروقت اور صحیح موقع پر تمام شہروں اور دیہی علاقوں میں سڑکوں پر نکل آئی اور اس نے اپنی بات اور موقف کو کھل کر بیان کیا۔رہبر انقلاب اسلامی نے گيارہ فروری کے پروگرام میں صدر مملکت کے واضح اور رہگشا بیان کو قوم کے عظیم قدم کو مکمل کرنے والا بتایا اور کہا کہ صدر محترم نے عوام کے دل کی بات اور جو کچھ ضروری تھا، اسے بیان کر دیا۔

انھوں نے گيارہ فروری کی ملک گير ریلیوں میں پرجوش جوانوں کی شرکت کو سراہتے ہوئے کہا کہ میں دل کی گہرائيوں سے عزیز جوانوں کا دلدادہ ہوں اور مجھے امید ہے کہ خداوند عالم کے فضل و کرم سے اللہ کی رحمت اس قوم میں پھیل جائے اور ایک بہتر مستقبل اس دانا، شجاع اور آگاہ قوم کے انتظار میں ہوگا۔آیت اللہ خامنہ ای نے دفاعی صنعت کی نمائش کو سب سے بہتر اور برتر نمائشوں میں سے ایک بتایا اور دفاعی صنعت کے تمام سائنسدانوں، ماہرین، عہدیداروں اور کارکنوں کا بھرپور شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ قوم کو بھی اپنے ان توانا فرزندوں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

انھوں نے قوم اور ملک کی سلامتی کے دفاع کے مسئلے کو بہت اہم بتایا اور کہا کہ آج ایران کی دفاعی طاقت ہر ایک زبان پر ہے، انقلاب کے دوست اس پر فخر کرتے ہیں اور دشمن اس سے ہراساں ہے اور کسی بھی ملک کے لیے یہ حقیقت بہت اہم ہے۔رہبر انقلاب اسلامی نے اس زمانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جب عالمی غنڈے، ملک کی ضرورت کی دفاعی اشیاء کئي گنا زیادہ قیمت پر بھی ایران کو فروخت نہیں کرتے تھے، کہا کہ آج وہی منہ زور طاقتیں ایران سے کہتی ہیں کہ وہ فوجی سازوسامان فروخت نہ کرے اور اُس "ہم فروخت نہیں کریں گے" اور اِس "فروخت نہ کرو" کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے جو ہمارے سائنسدانوں کی کوششوں اور ماہر جوانوں کے خلاقانہ ذہن کی برکت سے ختم ہو گيا ہے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے حیرت انگیز دفاعی ترقیوں کو، دشمنوں کی لگاتار پابندیوں کے پیش نظر، غیر معمولی بتایا اور کہا کہ ایران کی دفاعی صنعت کی صورتحال ایسی ہے کہ ہمیں جو بھی کل پرزہ نہیں دیا جاتا، ہمارے جوان ملک کے اندر اس سے بہتر کل پرزہ تیار کر لیتے ہیں۔سپریم کمانڈر نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں دفاعی صنعت میں پیشرفت جاری رہنے کے لیے کچھ ضروری نکات بیان کرتے ہوئے کہا کہ دفاعی صنعت کی پیشرفت، دنیا میں ہماری دفاعی طاقت کی رینکنگ بڑھنے کا سبب بنی لیکن اس کا مطلب رک جانا اور موجودہ صورتحال پر ہی مطمئن ہو جانا نہیں ہے کیونکہ ہم نے اپنا کام صفر سے شروع کیا اور بہت زیادہ کوشش اور انگنت کامیابیوں اور کارناموں کے باوجود، بہت سے معاملوں میں ہم ابھی فرنٹ لائن سے پیچھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فوجی میدانوں میں فرنٹ لائن تک رسائی، دشمن کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ اور لگاتار تیاری کے قرآنی حکم کے مطابق اور بدخواہوں کے مقابلے میں ملک کے دفاع کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ تمام فوجی شعبوں میں پیشرفت جاری رہنی چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کبھی ہم نے میزائيلوں کے بالکل صحیح نشانے پر لگنے کی کوئي حد مدنظر رکھی تھی اور آج ہمیں اس میں اضافے کی ضرورت ہے تو یہ کام ہونا چاہیے۔رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں آرمڈ فورسز کی یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی مراکز کو، ملک کی دفاعی ضروریات کی تکمیل کے لیے تحقیقات کی سمت بڑھانے پر زور دیا۔

اس ملاقات کے آغاز میں ایران کے وزیر دفاع بریگیڈیر عزیز نصیر زادہ نے مختلف طرح کے پیشرفتہ اور متحیر کن ہتھیاروں کی تیاری کی تحقیقات، ڈیزائننگ اور پروڈکشن کے عمل، دفاعی صنعت کے غیر فوجی کارناموں، دفادعی ٹیک پارکس بنانے اور اسی طرح برتر ٹیکنالوجی کی حامل دیگر صنعتوں کے ساتھ ملک کی دفاعی صنعت کے سائنسی تعاون کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی[22]۔

نیمہ شعبان، رہبر معظم انقلاب کی مسجد جمکران آمد

رہبر معظم انقلاب نے نیمہ شعبان کو مسجد جمکران میں حاضری دی۔ مہر خبررسان ایجنسی کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای پندرہ شعبان کی رات کو حضرت امام زمان علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر مسجد جمکران میں حاضری دی۔ رہبر معظم نے مسجد جمکران میں نماز پڑھنے کے علاوہ زیارت اور مخصوص دعائیں بھی پڑھیں[23]۔

عالمی استکبار کے غصے کی بنیادی وجہ ایران کی مقاومت ہے

رہبر معظم نے کہا ہے کہ عالمی استکبار کی ایران سے ناراضگی اور غصے کی وجہ ایران کی مقاومت ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا ہے کہ انقلاب اسلامی نے خود کو ایک آزادانہ شناخت دینے کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی قوموں کے لئے ایک عظیم اور امید بخش مرکز کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھا ہے۔

مشرقی آذربائجان کے عوامی وفد سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی استکبار ایران سے اس لئے خائف اور غضبناک ہے کہ ایران نے ان طاقتوں کے سامنے مقاومت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کی توقعات جائز ہیں، لیکن 22 بہمن کی عظیم ریلیوں نے ثابت کر دیا کہ دشمن کی سرد جنگ اور نفسیاتی حربے کارگر نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ سرد جنگ اور نفسیاتی حملوں کا مطلب عوام کی سوچ کو بدلنا، اختلاف پیدا کرنا، اسلامی انقلاب کی مضبوط بنیادوں میں شک ڈالنا اور دشمن کے خلاف استقامت میں شک و شبہات پیدا کرنا ہے۔ یہ کام دشمن کر رہا ہے۔ اللہ کے فضل سے آج تک کامیاب نہیں ہوئے؛ آج تک دشمن کی وسوسے ہمارے عوام کے عزم کو کمزور نہیں کرسکے اور ہمارے نوجوانوں کو ان کی ارادے اور حرکت سے نہیں روک سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی مثال 22 بہمن کی عظیم ریلی ہے۔ دنیا میں کہاں ایسی چیز دیکھنے کو ملتی ہے؟ انقلاب کی کامیابی کے چالیس سال بعد عوام کی اکثریت اس طرح انقلاب کی فتح کا جشن مناتی ہے اور تمام تر مشکلات کے باوجود لوگوں کا جم غفیر میدان میں آتا ہے ہیں۔ رہبر معظم نے کہا کہ میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے مالکان اور قلمکاروں کو چاہئے کہ دشمن کے نفسیاتی حملوں کا مقابلہ کرنے پر توجہ دیں[24]۔

غزہ کے بارے میں امریکہ کا احمقانہ منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا

فلسطین کی جہاد اسلامی تحریک کے سیکریٹری جنرل جناب زیادہ النخالہ اور ان کے ہمراہ آئے وفد نے منگل 18 فروری 2025 کی شام رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے ملاقات اور گفتگو کی۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فلسطین کی جہاد اسلامی تحریک کے سیکریٹری جنرل جناب زیادہ النخالہ اور ان کے ہمراہ آئے وفد نے منگل 18 فروری 2025 کی شام رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے ملاقات اور گفتگو کی۔

رہبر انقلاب نے اس ملاقات میں غزہ میں مزاحمت کی فتح کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کے مقابلے میں اتحاد و یکجہتی اور استقامت کو قائم رکھنے میں فلسطینی مزاحمت کے رہنماؤں اور مجاہدوں کے عظیم کام، مذاکرات کے پیچیدہ عمل کو آگے بڑھانے اور اسی طرح عوام کے صبر و استقامت نے، مزاحمت کو علاقے میں سربلند کر دیا۔ انھوں نے صیہونی اور امریکی دشمن کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت اور غزہ کے عوام کی فتح کو بہت عظیم بتایا اور کہا کہ اس فتح نے مزاحمت کی جدوجہد میں ایک نیا نصاب ایجاد کر دیا ہے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے امریکا کے بعض احمقانہ منصوبوں یا اسی طرح غزہ اور فلسطین کے بارے میں بعض دوسرے پروجیکٹس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے اور وہی لوگ جو ڈیڑھ سال پہلے، مزاحمت کو بہت کم عرصے میں ختم کرنے کے دعوے کر رہے تھے، اب اپنے قیدیوں کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں مزاحمت کے مجاہدوں سے لے رہے ہیں اور اس کے مقابلے میں فلسطینی قیدیوں کی بڑی تعداد کو رہا کر رہے ہیں۔

انہوں نے صیہونی قیدیوں کو صیہونی عہدیداروں کے حوالے کرنے کے مزاحمت کے طریقے کو، پوری دنیا کے سامنے مزاحمت کی عظمت کو مجسّم کرنے والا بتایا اور کہا کہ اس وقت عالمی رائے عامہ فلسطین کے ساتھ ہے اور ان حالات میں مزاحمت اور غزہ کے عوام کی مرضی کے بغیر کوئي بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا۔ اس ملاقات میں فلسطین کی جہاد اسلامی تحریک کے سیکریٹری جنرل جناب زیادہ النخالہ نے رہبر انقلاب کو غزہ میں مزاحمت کی عظیم فتح کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے، اس فتح کو اسلامی جمہوریہ ایران کی مستقل حمایت اور اسی طرح شہید سید حسن نصر اللہ کی رہنمائیوں کی رہین منت بتایا اور کہا کہ فلسطینی مزاحمت نے پچھلے ڈیڑھ سال میں در حقیقت امریکا اور مغرب سے جنگ کر رہی تھی اور طاقت کا توازن نامساوی ہونے کے باوجود، فلسطینی مزاحمت نے عظیم فتوحات حاصل کیں۔

انھوں نے فلسطین اور لبنان کے مزاحمتی گروہوں کے زمینی اور سیاسی اتحاد و یکجہتی کو غزہ میں فتح کا ایک مؤثر عنصر بتایا اور غزہ اور غرب اردن کے تازہ حالات، مذاکرات کے عمل اور سمجھوتوں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم کبھی بھی مزاحمت کے راستے کو فراموش نہیں کریں گے اور مزاحمت کے سپاہیوں کی حیثیت سے اس راستے پر قدم بڑھاتے رہیں گے[25]۔ امریکی صدر کا مذاکرات پر اعلان آمادگی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے، رہبر معظم

اگر ہم جوہری ہتھیار بناتے تو امریکہ میں روکنے کی جرائت نہیں تھی

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کہتے ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے نہیں دیں گے۔ اگر جوہری ہتھیار بنانا چاہتے تو امریکہ نہیں روک سکتا تھا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب حضرت آیت‌الله خامنه‌ای سے ملک بھر کی طلبہ تنظیموں کے نمائندوں کی ملاقات کا آغاز ہو چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہتے ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے نہیں دیں گے۔ اگر جوہری ہتھیار بنانا چاہتے تو امریکہ نہیں روک سکتا تھا۔

رہبر معظم نے یونیورسٹیوں کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کی باتیں کرتے ہیں۔ اگر ہم جوہری ہتھیار بناتے تو امریکہ میں روکنے کی جرائت نہیں تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہے اور ہم کچھ وجوہات کی بناپر اس کی خواہش بھی نہیں رکھتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ ایران جنگ کی خواہش نہیں رکھتا تاہم امریکہ اور اس کے گماشتے کسی قسم کی غلطی کریں تو ایران کا جوابی ردعمل یقینی اور حتمی ہے اور امریکہ ہی زیادہ نقصان اٹھائے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ فوجی کاروائی کی دھمکی دیتا ہے۔ میرے خیال میں یہ دھمکی نامعقول ہے۔ جنگ سے صرف ایک فریق کا نقصان نہیں ہوتا۔ ایران جوابی وار کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور ہر حال میں وار کرے گا۔

میں تو کہتا ہوں کہ امریکہ اور اس کے گماشتے کسی قسم کی غلطی کریں تو اپنا ہی زیادہ نقصان کریں گے۔ اگرچہ جنگ کوئی اچھی چیز نہیں ہے اور ہم اس کی خواہش بھی نہیں رکھتے تاہم اگر کوئی فریق ایسا اقدام کرے تو ہمارا جوابی ردعمل یقینی اور حتمی ہوگ[26]۔

امریکی صدر کا مذاکرات پر اعلان آمادگی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے

رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ امریکی صدر کا ایران کے ساتھ مذاکرات کے لئے آمادگی کا اعلان رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی چال ہے۔ مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب حضرت آیت‌الله خامنه‌ای سے ملک بھر کی طلبہ تنظیموں کے نمائندوں کی ملاقات کا آغاز ہو چکا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، دشمنوں، مخالفین اور حریفوں کے ناقص، غیر مستند اور سطحی نقطہ نظر کے برعکس، اور شہید رئیسی، سید حسن نصر اللہ، ہنیہ، صفی الدین، سنوار اور ضیف جیسی شخصیات کو کھونے کے باوجود، گزشتہ سال کے مقابلے میں بعض مسائل میں مضبوط ہوا ہے اور بعض مسائل میں اگر مضبوط نہیں تو کمزور بالکل نہیں ہوا۔

رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ دشمنوں اور مخالفین کے ناقص، بے بنیاد اور سطحی نقطہ نظر کے برخلاف، اسلامی جمہوریہ ایران نے ترقی حاصل کی ہے اور اپنی طاقت میں اضافہ کر رہا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے مزید کہا کہ پچھلے سال سے اب تک مختلف واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ گذشتہ سال ہماری صورتحال مختلف تھی۔ پچھلے سال آپ طلباء سے ملاقات کے وقت شہید رئیسی زندہ تھے، شہید سید حسن نصر اللہ حیات تھے، شہید ہنیہ، شہید صفی الدین، شہید سنوار، شہید ضعیف اور کئی نامور انقلابی شخصیات موجود تھیں لیکن وہ اس سال نہیں ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں، مخالفین اور حریفوں کا ناقص، بے بنیاد اور سطحی نقطہ نظر اس واقعے کا غلط تجزیہ کرتا ہے۔ میں آپ سے ان کے نقطہ نظر کے برخلاف پورے یقین کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں: ہاں؛ یہ شخصیات بہت قیمتی تھیں اور ان کا فقدان واقعی ہمارے لیے نقصان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن ہم پچھلے سال کی طرح بعض مسائل میں، ہم مضبوط نہیں تو کمزور بالکل نہیں ہیں۔

اس سال، خدا کا شکر ہے، ہمارے پاس مختلف جہتوں سے قوتیں اور صلاحیتیں موجود ہیں۔ جب کہ ہمارے پاس یہ پچھلے سال نہیں تھیں۔ مغربی ایشیا کے خطے میں رونما ہونے والے واقعات تلخ اور دردناک ہیں۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی طاقت میں اضافہ اور ترقی کرتا چلا جا رہا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ شخصیات کا کھو جانا یقینا نقصان ہے، لیکن اگر اہداف اور جدوجہدکی دو خصوصیات باقی رہیں تو مجموعی تحریک متاثر نہیں ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہجرت کے تیسرے سال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کی جنگ میں حمزہ جیسی شخصیت کو کھو دیا۔ کھونے والوں میں صرف حمزہ نہیں تھے، بلکہ یہ ان میں سب سے نمایاں حمزہ تھے۔ ہجرت کے چوتھے اور پانچویں سال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم گذشتہ سالوں کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط تھے۔ یعنی ممتاز شخصیات کے کھو جانے کا مطلب یہ پیچھے ہٹنا، کمزور ہو جانا یا پسپائی اختیار کرنا نہیں ہے۔ اگر یہ دو عوامل کسی قوم میں پائے جائیں تو پھر شخصیات کی عدم موجودگی نقصان تو ہے لیکن اس سے مجموعی تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ آج دنیا کے آمر کہتے ہیں کہ سب ان بات مانیں اور ان کے مفادات کو مقدم رکھیں لیکن اسلامی جمہوریہ ایران واحد ملک ہے جس نے اس مطالبے کو دوٹوک انداز میں رد کیا ہے[27]۔

امت مسلمہ اور دنیا کے آزاد منش انسان غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف ڈٹ جائيں

امت مسلمہ اور دنیا کے آزاد منش انسان غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف ڈٹ جائيں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے عید نوروز اور نئے ہجری شمسی سال کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا کہ غزہ پر غاصب صیہونی حکومت کا دوبارہ حملہ ایک بڑا جرم اور المیہ پیدا کرنے والا ہے۔ امت مسلمہ کو متحد ہو کر اس کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہیے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے پیغام نوروز میں گزشتہ ہجری شمسی سال کے اہم واقعات کا ذکر کیا اور نئے ہجری شمسی سال میں کوششوں اور منصوبوں کی سمت و جہت معین کرنے کے لئے نعرہ معین فرمایا: پیداوار کے لئے سرمایہ کاری۔ پیام حسب ذیل ہے:

﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾

﴿یا مقلّب الْقُلوبِ و الابصار، یا مدبّر الّیلِ و النّھار﴾

﴿یا مُحوّل الْحَولِ و الاحوال، حَوّلْ حالَنا إلی أحسَنِ الْحال﴾

(اے دلوں اور نگاہوں کو پلٹنے والے، اے رات اور دن کا نظام چلانے والے، اے سال اور احوال کو تبدیل کرنے والے! ہماری حالت کو سب سے اچھی حالت میں تبدیل کر دے۔)

نئے سال کا آغاز شبہائے قدر اور امیر المومنین علیہ السلام کے ایام شہادت کے ہمراہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شبوں کی برکتیں اور مولی المتقین علیہ الصلاۃ و السلام کی عنایات پورے سال ہمارے عزیز عوام، ہماری قوم، ہمارے ملک اور ان سبھی کے شامل حال رہیں گي جن کا نیا سال نوروز سے شروع ہوتا ہے۔

سنہ 1403 ہجری شمسی ہنگامہ خیز واقعات

سنہ 1403 ہجری شمسی ہنگامہ خیز واقعات سے بھرا سال تھا۔ اس سال میں پے در پے جو واقعات رونما ہوئے وہ سنہ 1360 شمسی کے واقعات کے مشابہ اور ہمارے عزیز عوام کے لیے صعوبتیں اور سختیاں لیے ہوئے تھے۔ سال کے اوائل میں ایرانی قوم کے ہردل عزیز صدر مرحوم رئیسی رحمت اللہ علیہ کی شہادت ہوئي۔ اس سے پہلے دمشق میں ہمارے کچھ فوجی مشیروں کی شہادت ہوئي تھی۔

اس کے بعد تہران میں مختلف واقعات ہوئے، پھر لبنان میں ہوئے، ایرانی قوم اور امت مسلمہ نے گرانقدر افراد کو کھویا۔ یہ وہ تلخ واقعات تھے جو رونما ہوئے۔ اس کے علاوہ اس سال کے دوران خاص طور پر اس کے دوسرے نصف حصے میں معاشی مسائل نے عوام پر بہت دباؤ ڈالا، معاشی سختیوں نے عوام کے لیے مسائل کھڑے کیے۔ یہ سختیاں پورے سال رہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ایک بہت عظیم اور بہت عجیب چیز بھی سامنے آئی اور وہ ایرانی قوم کی قوت ارادی، ایرانی قوم کے معنوی جذبے اور ایرانی قوم کے اتحاد اور اسی طرح ایرانی قوم کی اعلیٰ سطح کی تیاری کا اظہار تھا۔

سب سے پہلے تو صدر مملکت کی موت جیسے واقعے میں عوام نے جس شاندار طریقے سے انھیں الوداع کیا، جو نعرے لگائے اور جس مضبوط جذبے کا اظہار کیا، اس سے پتہ چلا کہ اگرچہ مصیبت بہت بڑی تھی لیکن وہ ایرانی قوم کو کمزوری کے احساس میں مبتلا نہ کر سکی۔ اس کے بعد بڑی تیزی سے قانونی مدت میں الیکشن منعقد ہوئے اور لوگوں نے نئے صدر کا انتخاب کیا اور نئی حکومت تشکیل پائي اور ملک کے انتظامی امور، خالی پن کی حالت سے باہر نکل آئے۔

یہ چیزیں بہت اہم ہیں اور ان سے ایرانی قوم کے مضبوط جذبے، اعلیٰ توانائيوں اور معنوی قوت کی نشان دہی ہوتی ہے۔ اس بات پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ان کے علاوہ حالیہ مہینوں کے ان واقعات میں، جن میں لبنان میں ہمارے بہت سے برادران، ہمارے دینی اور لبنانی بھائيوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ایرانی قوم نے کھلے دل سے ان کی مدد کی۔ اس سلسلے میں جو یہ واقعہ ہوا، یعنی عوامی امداد کا سیلاب ایک حیرت انگيز طرز پر ان کے لبنانی اور فلسطینی بھائيوں تک پہنچا، یہ بھی ہمارے ملک کی تاریخ کا ایک جاوداں اور ناقابل فراموش واقعہ ہے۔

ایرانی خواتین نے، ایرانی عورتوں نے سخاوت سے اپنے جو زیورات اس راہ میں دیے اور ہمارے لوگوں نے، ہمارے مردوں نے جو مدد کی، یہ بہت اہم مسائل ہیں۔ ان سے ایرانی قوم کے ارادے کی طاقت اور ٹھوس عزم کا پتہ چلتا ہے۔ یہ جذبہ، یہ موجودگي، یہ تیاری، یہ معنوی طاقت ملک کے مستقبل کے لیے اور ہمارے ایران عزیز کی ہمیشہ کی زندگي کے لیے ایک سرمایہ ہے۔ ملک، اس سرمائے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے گا اور خداوند عالم بھی ایرانی قوم پر اپنا فضل و کرم جاری رکھے گا۔

پچھلے سال ہم نے عوامی مشارکت سے پیداوار میں پیشرفت کا نعرہ معین کیا تھا جو ملک کے لیے ضروری تھا بلکہ ایک طرح سے ملک کے لیے حیاتی تھا۔ سنہ 1403 ہجری شمسی کے مختلف واقعات، اس نعرے کے کما حقہ عملی جامہ پہننے میں رکاوٹ بن گئے۔ البتہ بہت اچھی کوششیں ہوئيں، حکومت نے بھی، عوام نے بھی، نجی سیکٹر نے بھی، سرمایہ کاروں نے بھی، انٹرپرینیورز نے بھی بہت اچھے کام انجام دیے لیکن جو کام بھی انجام پائے وہ توقع سے کچھ فاصلے پر ہی رہے۔

بنابریں اس سال بھی ہمارا سب سے اہم مسئلہ، معیشت کا مسئلہ ہے۔ میں اس سال محترم حکومت، محترم عہدیداران اور اپنے عزیز عوام کے سامنے ایک توقع پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ بھی ایک معاشی مسئلہ ہی ہے۔ یہ اس سال کا نعرہ بھی ہوگا؛ ہمارا معاشی مسئلہ، جو معیشت میں سرمایہ کاری سے متعلق ہے۔ ملک کی معیشت کا ایک اہم مسئلہ، پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری ہے۔ پروڈکشن میں اس وقت تیز رفتاری سے پیشرفت ہوتی ہے جب سرمایہ کاری ہوتی ہے۔

البتہ سرمایہ کاری زیادہ تر عوام کی طرف سے ہونی چاہیے۔ اس کے مختلف طریقوں کی منصوبہ بندی حکومت کرے لیکن جہاں عوام میں سرمایہ کاری کا محرّک نہ ہو یا سرمایہ کاری کی استطاعت نہ ہو، وہاں حکومت بھی اس میدان میں اتر سکتی ہے۔ عوام سے رقابت کے طور پر نہیں بلکہ عوام کے متبادل کے طور پر، جہاں لوگ نہیں آتے، وہاں حکومت میدان میں آئے اور سرمایہ کاری کرے۔ بہرحال پیداوار کے لئے سرمایہ کاری، ملک کی معیشت کے لیے ایک ضروری مسئلہ ہے اور عوام کے معاشی مسائل کے حل کا سبب ہے۔

عوام کی معیشت کی اصلاح کے لیے پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ منصوبہ بندی، کچھ تمہیدات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ حکومت بھی اور عوام بھی پورے عزم اور بھرپور جوش کے ساتھ پیداوار کے لیے سرمایہ کاری پر سنجیدگي سے توجہ دیں اور اس پر کام کریں۔ حکومت کا کام، سہولت فراہم کرنا اور پیداوار کی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ لوگوں کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے چھوٹے اور بڑے سرمایوں کو پیداوار کی راہ میں لگائيں۔

اس سال کا نعرہ پیداوار کے لیے سرمایہ کاری

اگر سرمایہ، پیداوار کی راہ میں لگ گيا تو پھر وہ سونے کی خریداری، زر مبادلہ کی خریداری وغیرہ جیسے مضر کاموں کی طرف نہیں جائے گا۔ پھر مضر کام نہیں ہوں گے۔ اس سلسلے میں رزرو بینک کردار ادا کر سکتا ہے، حکومت بھی بہت سے مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ بنابریں اس سال کا نعرہ "پیداوار کے لیے سرمایہ کاری" ہے جو ان شاء اللہ عوام کی معیشت کے لیے خوشحالی کا سبب بنے گي اور حکومت کی منصوبہ بندی اور عوام کی مشارکت مل کر ان شاء اللہ اس مشکل کو دور کر دے گي۔

ایک اشارہ پچھلے کچھ دنوں کے واقعات کی طرف بھی کرنا چاہوں گا۔ غزہ پر غاصب صیہونی حکومت کا دوبارہ حملہ ایک بڑا جرم اور المیہ پیدا کرنے والا ہے۔ امت مسلمہ کو متحد ہو کر اس کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہیے۔ مختلف مسائل میں اپنے اختلافات کو کنارے رکھ دیں۔ یہ مسئلہ، امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ خود امریکا، مغربی اور یورپی ملکوں اور دوسرے ملکوں میں دنیا کے تمام آزاد منش لوگوں کو، عوام کو سنجیدگي سے ان کے ذریعے انجام دی جانے والی اس خیانت آمیز اور المیہ پیدا کرنے والی حرکت کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

پھر بچے قتل ہو رہے ہیں، گھر تباہ ہو رہے ہیں، لوگ بے گھر ہو رہے ہیں اور لوگوں کو اس المیے کو روکنا چاہیے۔ البتہ امریکا اس المیے میں برابر کا شریک ہے۔ دنیا میں جو سیاسی مبصرین ہیں، ان سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ کام امریکا کے اشارے پر یا کم از کم اس کی رضامندی اور ہری جھنڈی سے کیا گيا ہے۔ بنابریں امریکا بھی اس جرم میں شریک ہے۔ یمن کے واقعات بھی اسی طرح کے ہیں۔ یمن کے عوام پر، یمن کے غیر فوجی لوگوں پر یہ حملہ، یہ بھی ایک جرم ہے جسے یقینی طور پر روکا جانا چاہیے۔

ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم نے اس نئے سال میں امت مسلمہ کے لیے نیکی، صلاح اور کامیابی مقدر فرمائی ہوگی اور ایرانی قوم بھی، اس سال کو جو اب شروع ہو رہا ہے، ان شاء اللہ مسرّت، خوشی، مکمل اتحاد اور کامیابی کے ساتھ شروع کرے گي اور سال کے آخر تک اسی طرح بڑھتی رہے گي۔ ہمیں امید ہے کہ ولی عصر ارواحنا فداہ کا قلب مقدس، امام خمینی کی پاکیزہ روح اور شہداء کی پاکیزہ ارواح ہم سے راضی اور خوشنود رہیں گی۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

20 مارچ 2025[28]۔

امریکہ جان لے! کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا

رہبر معظم نے نوروز کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کبھی تصادم شروع نہیں کیا لیکن اگر چنانچہ کسی قسم کی غلطی کرے اور جنگ شروع ہوجائے تو سخت طمانچہ پڑے گا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نوروز کے موقع پر 21 مارچ 2025 کو تہران میں حسینہ امام خمینی حسینیہ میں خصوصی خطاب کیا۔

سرکاری حکام اور عوامی نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ایرانی قوم نوروز کو ایک روحانی اور معنوی عید تصور کرتی ہے۔ انہوں نے تاکید کی کہ اس سال ثقافتی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو نہج البلاغہ کے مطالعے اور اس کی تعلیم و ترویج پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے شبہائے قدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان بابرکت راتوں میں دعا اور تضرع کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ لیلۃ القدر کی راتیں انسانی زندگی اور حتی کہ پوری قوم کے مقدر کو بدل سکتی ہیں، بشرطیکہ انسان اخلاص اور توجہ کے ساتھ دعا کرے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بندوں کی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے، بشرطیکہ انسان خود کوئی رکاوٹ پیدا نہ کرے۔ دعا نہ صرف آخرت بلکہ دنیاوی زندگی بھی کامیابی کا ذریعہ ہے خواہ ذاتی امور ہوں خواہ اجتماعی اہداف۔

انہوں نے توسل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اہل بیت علیہم السلام خدا کی قدرت اور علم کا مظہر ہیں اور ان کے وسیلے سے دعا کرنا الہی مدد حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انبیاء کرام (ع) بھی مشکلات میں اللہ کی بارگاہ میں دعا اور تضرع کیا کرتے تھے۔ ہمیں بھی اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ دشمنوں زہریلے پروپیگنڈوں کے ذریعے ایرانی عوام کو معنویت سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ان کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔

ایرانی عوام نے اللہ کی وحدانیت اور اہل بیت علیہم السلام سے توسل کی طرف اپنی توجہ مزید بڑھا لی ہے اور معنویت کی طرف ان کا رجحان بڑھ ہوچکا ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ قرآن مجید میں حضرت موسی علیہ السلام کی فرعون کے خلاف جدوجہد کا ذکر ہے، جب انہوں نے اللہ سے مدد کی دعا کی اور خدا نے جواب دیا کہ تم نے دعا کی اور جو تم نے چاہا وہ پورا کردیا، اب ثابت قدم رہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا کی اس ہدایت پر عمل کیا اور خون کی جنگ میں شمشیر کے مقابلے میں خون کو فتح ملی۔ ملت ایران کا بھی یہی حال ہے اور یہ جدوجہد اسی طرح جاری رہے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حق کی طرف سے کی جانے والی یہ جدوجہد کبھی کبھی قیمت بھی چکاتی ہے۔ ہمیں گذشتہ سال کے حادثات کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ حق اور باطل کی اس جنگ میں فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے، لیکن اس راستے میں حق کو کچھ قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔ رہبر معظم نے کہا کہ گزشتہ سال کئی عظیم شخصیات کا ہم سے بچھڑ گئیں، جو ہمارے لیے ایک بڑی مصیبت تھی۔ تاہم، انہوں نے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ہمیں شک نہیں کرنا چاہیے کہ آخرکار مقاومت کی بدولت فاسد، خبیث اور فاسق صیہونی رژیم کا خاتمہ ہو گا اور وہ شکست سے دوچار ہو گی۔

رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ امریکی سنیں! اگر ایرانی قوم کے خلاف کوئی غلطی کریں تو سخت طمانچہ پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے کبھی تصادم شروع نہیں کیا لیکن اگر چنانچہ کسی قسم کی غلطی کرے اور جنگ شروع ہوجائے تو سخت طمانچہ پڑے گا۔ رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ امریکی اور یورپی سیاستدان بڑی غلطی کرتے ہیں اور خطے میں مقاومتی مراکز کو ایران کے پراکسیز کا نام دیتے ہیں۔ پراکسی کا کیا مطلب؟ یمنی قوم جذبہ رکھتی ہے اور خطے کے مقاومتی مراکز مقاومت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ایران کو کسی پراکسی کی ضرورت نہیں ہے[29]۔

عالمی یوم قدس کی ریلی کی مناسبت سے ایک پیغام

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے عالمی یوم قدس کی ریلی کی مناسبت سے ایک پیغام جاری کیا ہے جو حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عالمی یوم قدس کی ریلی، ہمیشہ ہی ایرانی قوم کے اتحاد اور طاقت کی نشانی رہی ہے۔ اسی طرح یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایرانی قوم اپنے اہم سیاسی و بنیادی اہداف پر پوری طاقت سے ڈٹی رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت کا نعرہ لگائے اور ایک دو سال گزرنے کے بعد اسے چھوڑ دے۔ ایرانی قوم چالیس پینتالیس سال سے یوم قدس کی ریلی میں شرکت کر رہی ہے، پورے ملک میں سرد موسم میں، گرم موسم میں، روزے کی حالت میں اور صرف شہروں میں نہیں، بڑے شہروں میں، چھوٹے شہروں میں، دیہی علاقوں میں بھی۔

بنابریں یوم قدس کی ریلی، ایرانی قوم کے افتخارات میں سے ایک ہے۔ میری نظر میں اس سال اس ریلی کی اہمیت مزید بڑھ گئي ہے۔ دنیا کی اقوام، ہماری حامی ہیں، جو لوگ ہمیں پہچانتے ہیں وہ ایرانی قوم کے طرفدار ہیں لیکن بعض سیاسی طاقتیں اور حکومتیں، جو مخالف ہیں وہ ایرانی قوم کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہی ہیں۔

وہ داخلی اختلاف کا پروپیگنڈا کر رہی ہیں، کمزوری ظاہر کر رہی ہیں۔ یوم قدس میں آپ کی ریلی ان ہتھکنڈوں اور باطل باتوں کو نقش بر آب کر دے گي۔ مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ خدا آپ کی مدد کرے گا اور اس سال یوم قدس کی ریلی، پچھلے کچھ برسوں کی ریلیوں میں سب سے بہتر اور زیادہ پرشکوہ رہے گي۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ

27 مارچ 2025[30]۔

امریکا اور صیہونی حکومت کی طرف سے کوئی شیطنت ہوئی تو منہ توڑ جواب ملے گا

اگر امریکا اور صیہونی حکومت کی طرف سے کوئی شیطنت ہوئی تو قطعی طور پر انھیں منہ توڑ جواب ملے گا رہبر معظم انقلاب نے نماز عید کے خطبے اگر باہر سے کوئی شیطنت کی گئی، جس کا زیادہ امکان نہیں ہے، تو قطعی طور پر اس کا منہ توڑ جواب ملے گا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تہران کے مصلائے امام خمینی میں رہبر معظم کی امامت میں نماز عید فطر ادا کی گئی۔

رہبر معظم نے عید الفطر کے خطبے میں عید سعید فطر، عید نوروز اور یوم جمہوریہ ایران کی مناسبت سے عید مبارک پیش کی۔ رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ روزہ، قرآن سے انس، لیلۃ القدر اور ماہ رمضان میں توسل اور دعائیں انسان ساز ہیں۔ الحمد للّہ اس سال فوائد سے بھرپور ماہ رمضان گزرا۔ یوم القدس کی ریلیوں کا پیغام دنیا بھر میں منعکس ہوا۔ اللہ سے دعا کریں کہ اس ماہ رمضان میں حاصل ہونے والے فوائد کو آپ کے لئے محفوظ کرے۔

غزہ اور لبنان کے تلخ واقعات نے ماہ رمضان میں مسلمانوں کا دل چھلنی کردیا

رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ اس خطے میں صرف ایک پراکسی ہے جوکہ غاصب اور فاسد صہیونی حکومت ہے جوکہ استعمار کی نیابت میں دوسرے ممالک میں پر تجاوز کرتی ہے۔ شخصیات کو قتل کرنا صہیونی حکومت کی عادت ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک اس کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین سے صہیونی حکومت کو جڑ سے اکھاڑنا ضروری ہے۔ اللہ کی مدد سے اسرائیل ریشہ کن ہوگا۔

دشمن شیطانی حرکت کرے تو ایران سخت اور بھرپور جواب دے گا

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے نماز عید کے بعد نماز کے پہلے خطبے میں ایرانی قوم اور امت مسلمہ کو عید فطر کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے اس سال کے ماہ رمضان کو ایرانی قوم کی سیاسی جدوجہد اور ایمانی ارتقاء کے ساتھ قلبی اور معنوی پیشرفت کا مہینہ بتایا۔ انھوں نے رمضان المبارک کو اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک اور تقوی اور خدا سے تقرب اور روح و جان کی پاکیزگي اور معنوی حیات کی تجدید کے لیے پروردگار عالم کا عطا کردہ ایک موقع قرار دیا اور کہا کہ روزہ، قرآن مجید سے انسیت، شبہائے قدر، توسل، دعائيں اور مناجات، رمضان کے مبارک مہینے کے گرانقدر اور انسان ساز مواقع ہیں۔

انھوں نے نماز عید فطر کے دوسرے خطبے میں غزہ اور لبنان میں صیہونی حکومت کی جانب سے نسل کشی اور بچوں کا قتل جاری رکھے جانے کو رمضان کے مہینے میں امت مسلمہ کے لیے مصیبت انگیز بتایا اور کہا کہ یہ جرائم امریکا کی جانب سے فلسطین پر قبضہ کرنے والے غاصب شر پسند گینگ کی مدد اور حمایت کے سائے میں انجام پائے۔ آيت اللہ خامنہ ای نے صیہونی حکومت کو خطے میں سامراجیوں کی پراکسی فورس بتایا اور کہا کہ مغرب والے بار بار خطے کی بہادر اقوام اور غیور جوانوں پر پراکسی ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔

لیکن یہ بات پوری طرح سے واضح ہے کہ خطے میں واحد پراکسی فورس بدعنوان صیہونی حکومت ہے جو جنگ بھڑکا کر، نسل کشی کر کے اور دوسرے ملکوں پر جارحیت کر کے ان ملکوں کی سازشوں کو آگے بڑھا رہی ہے اور مکمل کر رہی ہے جنھوں نے جنگ عظیم کے بعد اس خطے کو اپنی سازشوں کی آماج گاہ بنا رکھا ہے۔ انھوں نے ان سامراجیوں کے دہشت گردی مخالف دعووں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو پیسے اور میڈیا کے ذریعے دنیا پر حکومت کر رہے ہیں، کہا:

کہ یہی لوگ جو اپنے بیانوں میں اپنے حقوق اور اپنی سرزمین کے لیے اقوام کی جدوجہد کو دہشت گردی اور جرم بتاتے ہیں، صیہونی حکومت کی جانب سے کی جانے والی نسل کشی اور دہشت گردانہ اقدامات پر یا تو آنکھیں بند کر لیتے ہیں یا پھر اس طرح کے اقدامات میں حصہ بھی لیتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے صیہونی حکومت کے ہاتھوں دنیا کے مختلف ملکوں میں ابو جہاد، فتحی شقاقی، احمد یاسین اور عماد مغنیہ جیسی شخصیات کے قتل اور اسی طرح عراق کے متعدد سائنسدانوں کے قتل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور بعض مغربی ممالک ان واضح دہشت گردانہ کارروائيوں کی حمایت کرتے ہیں اور باقی دنیا تماشائي بنی رہتی ہے۔

انھوں نے پچھلے دو سال سے بھی کم عرصے میں قریب بیس ہزار فلسطینی بچوں کی شہادت پر انسانی حقوق کے دعویداروں کی خاموشی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ البتہ یورپ اور امریکا سمیت دنیا بھر کی اقوام جیسے ہی ان جرائم سے باخبر ہوتی ہیں، صیہونیوں اور امریکا کے خلاف مظاہرے اور اجتماعات کرتی ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ اس شرپسند اور مجرم صیہونی گینگ کو فلسطین اور خطے سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے اور اللہ کی مدد و نصرت سے ایسا ہو کر رہے گا اور اس سلسلے میں کوشش کرنا، سبھی انسانوں کا دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔

انھوں نے خطے کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اٹل موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا موقف، وہی ہے اور امریکا اور صیہونی حکومت کی دشمنی بھی پہلے ہی کی طرح ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے نماز عید کے دوسرے خطبے کے آخر میں امریکا کے دھمکی آمیز موقف کے بارے میں دو اہم نکات بیان کرتے ہوئے کہا: پہلے تو یہ کہ اگر باہر سے کوئي شیطنت کی گئي، جس کا زیادہ امکان نہیں ہے، تو قطعی طور پر اس کا منہ توڑ جواب ملے گا اور دوسرے یہ کہ اگر دشمن پچھلے برسوں کی طرح ملک کے اندر فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کرے گا تو ایرانی قوم، پچھلے برسوں کی طرح ہی فتنہ کھڑا کرنے والوں کو دنداں شکن جواب دے گي[31]۔

بڑی طاقتوں کی بلیک میلنگ کے مقابلے میں عالم اسلام کا اتحاد ضروری ہے

رہبر معظم نے اسلامی ممالک کے سفیروں اور ایرانی اعلیٰ حکام سے ملاقات میں کہا کہ فلسطین اور لبنان میں صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں کے بے مثال جرائم کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کا راستہ مسلم حکومتوں کا اتحاد، ہمدردی اور ایک آواز بننا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید الفطر کے موقع پر اسلامی ممالک کے سفیروں اور ایرانی اعلی حکام سے ملاقات کے دوران کہا کہ اگر امت مسلمہ اتحاد، ہمت اور بصیرت کا مظاہرہ کرے تو عید الفطر مزید برکت کا باعث بن سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کے تیز رفتار واقعات کا تقاضا ہے کہ وہ افراد جو ان حالات سے متاثر ہورہے ہیں یا مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں، وہ بھی تیزی اور دقت کے ساتھ ان کا جائزہ لیں اور اپنا موقف واضح کریں۔ آج یہ ذمہ داری اسلامی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عید الفطر، اسلام اور رسول اکرمؐ کی عزت و سربلندی کا ذریعہ ہے۔ یقینا عید الفطر ان مشترکہ اور اہم عوامل میں سے ایک ہے جو امت مسلمہ کو ایک دوسرے سے جوڑ کر ایک متحرک اور کارآمد پیکر میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج اسلامی دنیا کا ایک حصہ شدید زخم خوردہ ہے؛ فلسطین زخمی ہے، لبنان زخمی ہے۔ اس خطے میں جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، ان میں سے بعض کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

ان ممالک میں وہ مظالم ڈھائے گئے جن کا ہم نے اپنی تاریخ میں نہ مشاہدہ کیا اور نہ ہی سنا۔ کسی جنگ میں دو سال سے بھی کم عرصے میں تقریبا بیس ہزار بچوں کو قتل کرنے کا پہلا واقعہ ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ فلسطین اور لبنان میں صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں کے بے مثال جرائم کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کا راستہ مسلم حکومتوں کا اتحاد، ہمدردی اور ایک آواز بننا ہے۔

رہبر انقلاب: دو سال سے کم عرصے میں بیس ہزار بچوں کا قتل عام ایک بے مثال تاریخی جرم ہے/ عالم اسلام کو متحد ہونا چاہیے۔ رہبر انقلاب نے آج صبح حکومتی عہدیداروں اور اسلامی ممالک کے سفیروں کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا: آج عالم اسلام کا ایک حصہ شدید زخمی ہے، فلسطین زخمی ہے، لبنان زخمی ہے۔

بعض جرائم جو اس خطے میں ہوئے ہیں وہ بے مثال ہیں، ہمیں تاریخ میں یاد نہیں کہ مشاہدہ کیا ہو یا پڑھا ہو کہ دو سال سے کم عرصے میں تقریباً بیس ہزار بچے فوجی تنازع میں مارے گئے ہوں، یہ کوئی مذاق نہیں، عالم اسلام کو اس پر غور کرنا چاہیے اور اسے سمجھنا چاہیے، فلسطینی عوام کے دکھ کو محسوس کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو جوابدہ سمجھنا چاہیے۔

عالم اسلام کو متحد ہونا چاہئے، وہ کر سکتے ہیں، جنگ اور عسکری اقدام کی بھی ضرورت نہیں، بس اسلامی ریاستوں کے درمیان اتحاد، اتفاق اور اسی طرح ہمدردی اور ایک آواز بننے کی ضرورت ہے، دوسرے اپنا رویہ خود بخود تبدیل کریں گے[32]۔ دشمن اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی سے مایوس اور خوف زدہ ہے، رہبر معظم انقلاب

دشمن اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی سے مایوس اور خوف زدہ ہے

رہبر معظم انقلاب نے مسلح افواج کے اعلیٰ کمانڈروں سے ملاقات کے دوران فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ تیاری کو برقرار رکھنا اور ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کے میدان میں صلاحیتوں کو اپ گریڈ کرنا ضروری ہے، دشمن اسلامی جمہوریہ کی ترقی سے مایوس اور خوف زدہ ہے۔ مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے ملک کی مسلح افواج کے اعلیٰ کمانڈروں سے ملاقات کے دوران فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ تیاری کو برقرار رکھنا اور ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کے میدان میں صلاحیتوں کو اپ گریڈ کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ دشمن اسلامی جمہوریہ کی ترقی سے مایوس اور گھبرایا ہوا ہے۔ہمیں اپنی کوتاہیوں کے ساتھ ساتھ ترقی کے پہلووں کو بھی دیکھنا چاہئے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے فوج کو کسی بھی جارح کے مقابلے میں ملک کا سکیورٹی حصار اور قوم کی پناہ گاہ قرار دیتے ہوئے اس قومی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ آمادگی اور ہارڈویئر اور سافٹ ویئر کے میدان میں ترقی پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی نے ایران کے بدخواہوں کو مایوس کر دیا ہے، البتہ معاشی شعبے میں کمزوریاں ہیں جن پر بلاشبہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے مسلح افواج کی ہارڈ ویئر کی تیاری پر زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہارڈ ویئر کے میدان میں آمادگی کے ساتھ ساتھ سافٹ ویئر کے محاذ یعنی اپنے مقصد اور مشن پر ایمان اور اس راستے کے درست ہونے پر یقین بہت اہم ہے۔

انہوں نے اسلامی نظام اور ملک کی خود مختاری کو دشمنوں کے عناد کی وجہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ دشمن کو جو چیز حساس بناتی ہے وہ اسلامی جمہوریہ کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک مسلمان ملک کی عوامی خواہش ہے کہ جو خودمختاری اور قومی تشخص پر زور دیتے ہوئے قومی وقار کے لیے دوسروں پر بھروسہ نہ کرے، یہی چیز ان کے غصے کا باعث بنی ہے۔

رہبر معظم انقلاب نے مغرب کے شدید اور تباہ کن قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہونے جب کہ دوسروں کو دفاعی پیشرفت کی اجازت نہ دینے کے دوہرے طرز عمل کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مسلح افواج میں یقین، ایمان، ارادہ، ہمت اور خدا پر بھروسہ اس حد تک موجود ہونا چاہیے کیونکہ جن افواج کے پاس طاقت کے یہ عناصر نہیں تھے وہ شکست کھا چکی ہیں۔ انہوں نے سافٹ ویئر کے میدان میں آمادگی کے لئے ایرانی براڈکاسٹنگ کارپوریشن اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں سمیت مختلف شعبوں کی کوششوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ خوش قسمتی سے آج ملک نہ صرف ہارڈ ویئر کی تیاری کے لحاظ سے ماضی کی نسبت بہت آگے ہے اور اسی طرح سافٹ ویئر کے میدان میں بھی بہت ترقی کی ہے، جس کی ایک مثال ہزاروں غیرت مند نوجوانوں کا ان شعبوں میں خدمات انجام دینے کا ناقابل بیان اور ایمان افروز جذبہ ہے۔

رہبر نقلاب نے مسلح افواج اور ان کے اہل خانہ کو نئے سال کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے اپنے مشن کی تکمیل میں افواج کا ساتھ دینے والے خاندانوں کے غیر معمولی کردار کو سراہا۔ اس ملاقات کے آغاز میں ایران کے آرمی چیف جنرل باقری نے خطے کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے بارے میں عالمی بیداری اور صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف غزہ اور لبنان کے عوام کی تاریخی مزاحمت کو سراہا۔

انہوں نے دفاع اور ڈیٹرنس کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے، جدید عسکری آلات اور ہتھیاروں کی تیاری، متعدد اعلیٰ معیار کی مشقوں کے انعقاد، مسلح افواج کی آمادگی اور سفارت کاری کے میدان میں مکمل ہم آہنگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: مسلح افواج عوام کی حمایت سے پوری طرح تیار ہیں اور ایران کے دشمنوں کے مذموم مقاصد اور ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملا دیں گی[33]۔

مذاکرات کے حوالے سے نہ ہم پُرامید ہیں اور نہ ہی مایوس ہیں

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عمان میں تہران اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے پہلے دور کے حوالے سے کہا کہ ہم ان مذاکرات کے بارے میں نہ ضرورت سے زیادہ پرامید ہیں اور نہ ہی حد سے زیادہ مایوسی کا شکار ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نئے ہجری شمسی سال کے آغاز کی مناسبت سے ایران کی مجریہ، عدلیہ اور مقننہ کے عہدہ داروں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کچھ دیر پہلے ملک کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا کہ عمان مذاکرات وزارت خارجہ کے درجنوں کاموں میں سے ایک ہیں۔

ملکی مسائل کو بات چیت سے نہ جوڑیں۔ ہم ان مذاکرات کے بارے میں نہ تو حد سے زیادہ پر امید ہیں اور نہ ہی حد سے زیادہ مایوسی کا شکار ہیں۔ بالآخر یہ ایک عمل اور اقدام ہے جس کا فیصلہ کیا گیا ہے اور پہلے مرحلے میں یہ مثبت رہا ہے. بلاشبہ، ہم دوسری فریق کے بارے میں خوش فہمی کے شکار نہیں ہیں، لیکن ہم اپنی صلاحیتوں کے بارے میں بہت پر امید ہیں۔

رہبر معظم انقلاب نے ملک کے اعلی حکام سے ملاقات کے دوران کہا کہ ملکی مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں، جوہری معاہدے میں جس غلطی کا ارتکاب ہوا اسے یہاں نہ دہرایا جائے، جے سی پی او اے کے دور میں ہم نے ملک کو مشروط کیا اور ہر چیز کو مذاکرات کی پیشرفت پر منحصر کر دیا، جب سرمایہ کار دیکھتے ہیں کہ ملک مذاکرات سے مشروط ہے تو وہ سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔

سال کے نعرے پر عمل درآمد حکومت کے تینوں اعلی شعبوں کا سنجیدہ ایجنڈا ہونا چاہیے۔ عالم اسلام کو غزہ میں جرائم پیشہ ٹولے کی جارحیت کے خلاف سنجیدہ کارروائی کرنی چاہئے۔ رہبر معظم انقلاب نے ملک کے تینوں شعبوں کے اعلیٰ حکام کے ساتھ نئے سال کی مناسبت سے ملاقات کے دوران معاملات کی پیروی کو ملکی اہداف کے حصول کے راستے کی گمشدہ کڑی قرار دیا اور سال کے نعرے کو تینوں شعبوں کے مشترکہ ایجنڈے کے طور پر آگے بڑھانے پر زور دیا ۔

انہوں نے عمان مذاکرات کے نتائج کے حوالے سے خوش بینی اور مایوسی سے گریز کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ تمام شعبوں میں اہداف کے حصول کے لیے ملک کی سرگرمیاں زیادہ تیزی کے ساتھ جاری رہنی چاہیئں اور کسی چیز کو مذاکرات کے نتائج سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے پیروی کو فیصلے سے زیادہ اہم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملک میں اچھے قوانین و ضوابط اور ضروری منصوبے موجود ہیں لیکن پیروی کا فقدان اہداف کے قابل قبول حصول میں رکاوٹ ہے۔

انہوں نے پٹرول کی بہت زیادہ کھپت، تعلیمی انصاف کے ناکافی حصول اور کمزور طبقے کے مسائل جیسے امور کی پیروی کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے تینوں شعبوں کے سربراہان اور اداروں کے عہدیداروں کا جوش و خروش قابل تعریف ہے، لیکن اس کی پیروی کے لیے کافی اور ضروری عزم موجود نہیں ہے جس کے باعث انتظامی درجہ بندی میں بہت سے معاملات پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب نے توانائی کی بچت کو بنیادی ضرورت قرار دیتے ہوئے تاکید کی کہ سب سے پہلے عوام اور حکومتی ادارے کہ جو توانائی کے سب سے بڑے صارف ہیں، انہیں خود کو بچت کرنے کا عادی بنانا چاہیے، اور اس کام کو بھی آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس سال کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے میں مدد کو تینوں شعبوں اور اداروں کا مشترکہ ایجنڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ پیداوار میں سرمایہ کاری کرنے سے ملک کو بہت سے مسائل سے نجات مل جائے گی، اس لیے وزارت اقتصادیات، مرکزی بینک اور دیگر متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ معاشرے میں موجود سرمائے کو پیداوار میں اضافے کی سمت لے جائیں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے پیداوار میں سرمایہ کاری کو ایک باوقار کام قرار دیتے ہوئے کہا کہ سرمایہ کاری کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے اور پیداوار کے میدان میں اقتصادی کارکنوں کی سرگرمیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو بھی دور کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے ملک کے تین شعبوں بالخصوص حکومت کی کوششوں کو سال کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ملکی سرمایہ کاری پروان چڑھتی ہے تو غیر ملکی سرمایہ کار بھی ایران میں سرمایہ لگانے میں دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے۔

رہبر معظم انقلاب نے پیداوار میں سرمایہ کاری کو پابندیوں سے نمٹنے کا بہترین طریقہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ پابندیوں کو ہٹانا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ ان کو ناکام یا غیر موئثر بنا دینا ہمارے اختیار میں ہے اور اس کے لیے بہت سے طریقے اور مناسب ملکی صلاحیتیں موجود ہیں اور اگر یہ ہدف حاصل ہو گیا تو ملک پابندیوں سے دوچار نہیں ہوگا۔

انہوں نے پڑوسیوں، ایشیا، افریقہ اور دیگر ممالک کے اقتصادی مراکز کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کو اہم سمجھتے ہوئے کہا کہ اس عمل کو بھی آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے عمان مذاکرات کو وزارت خارجہ کے درجنوں کاموں میں سے ایک قرار دیا اور تاکید کی کہ ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے نہیں جوڑا جانا چاہئے اور JCPOA میں کی گئی غلطی جس نے ملک کے لئے ہر چیز کو مذاکرات کی پیشرفت پر منحصر کر دیا تھا، کو نہیں دہرایا جانا چاہئے کیونکہ جب ملک پابند ہو جاتا ہے تو پھر سرمایہ کاری روک دی جاتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک میں تمام صنعتی، اقتصادی، تعمیراتی، ثقافتی شعبوں میں سرگرمیوں کے جاری رہنے اور بڑے منصوبوں کے نفاذ پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ان مسائل میں سے کسی کا بھی عمان مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کا پہلے مرحلے میں مذاکرات کا فیصلہ اچھا رہا ہے۔ اس کے بعد، ہمیں احتیاط سے آگے بڑھنا چاہیے، جب کہ ہمارے اور دوسرے فریق کے لیے ریڈلائنز بالکل واضح ہیں۔

مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں یا نہیں۔ ہم ان مذاکرات کے بارے میں نہ تو بہت زیادہ پر امید ہیں اور نہ ہی بہت مایوسی کا شکار ہیں۔ بلاشبہ، ہم دوسرے فریق کے بارے میں جوش فہمی کے شکار نہیں ہیں، لیکن ہم اپنی صلاحیتوں کے بارے میں پر امید ہیں۔ رہبر معظم انقلاب نے ساتویں پلان کے قطعی نفاذ کو ضروری قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ اچھا منصوبہ جو کہ ملک کی میکرو پالیسیوں پر انحصار کرتا ہے، شروع سے ہی مضبوطی کے ساتھ نافذ ہونا چاہیے[34]۔

ائمہ معصومین ع کا راستہ مزاحمت اور استقامت کا راستہ ہے

رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ ائمہ معصومین ع کا راستہ استقامت اور مزاحمت کا راستہ جب کہ ان کا درس منطق اور استدلال کا درس ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج امام صادق علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے مجلس عزا سے اپنے خطاب میں کہا کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کا راستہ مزاحمت اور استقامت جب کہ ان کا درس منطق و استدلال کا درس ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غزہ اور لبنان کے عوام اپنی مزاحمت کے ذریعے درحقیقت ائمہ معصومین ع کے راستے پر گامزن ہیں۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ امام صادق علیہ السلام کی زندگی احکام الٰہی کی نشر و اشاعت کے لحاظ سے ایک عجیب، غیر معمولی اور کامیاب زندگی ہے[35]۔

شہید رجائی بندرگاہ میں آتش زدگی: غفلت یا کوتاہی کی مکمل تحقیقات کی جائے

رہبر معظم نے شہید رجائی بندرگاہ پر آتشزدگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی مکمل تحقیقات اور غفلت یا کوتاہی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا حکم دیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شہید رجائی بندرگاہ میں افسوسناک آتش زدگی کے واقعے پر تعزیتی پیغام جاری کیا ہے۔

رہبر انقلاب نے اپنے بیان میں متاثرہ خاندانوں سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے سیکورٹی اداروں اور عدالتی حکام کو ہدایت دی کہ وہ اس واقعے میں ممکنہ غفلت یا دانستہ اقدام کی مکمل چھان بین کریں اور قانون کے مطابق کارروائی کریں۔

رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن درج ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اِنّا للہ و اِنّا الیہ راجعون

شہید رجائی بندرگاہ میں ہونے والی المناک آتش زدگی نے دلوں کو رنجیدہ اور غمگین کردیا ہے۔ سیکورٹی اور عدالتی ادارے مکمل تحقیقات کرتے ہوئے ہر طرح کی غفلت یا دانستہ کوتاہی کا سراغ لگائیں اور قانونی تقاضوں کے مطابق عمل کریں۔

تمام حکام پر لازم ہے کہ وہ ایسے تلخ اور نقصان دہ حادثات کی روک تھام کو اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھیں۔ میں جاں بحق افراد کے لیے اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت، متاثرہ خاندانوں کے لیے صبر و تسلی خاطر اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتا ہوں۔

میں زخمیوں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے خون کا عطیہ دینے والے شہریوں کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ

سید علی خامنہ‌ای[36]۔

مزدور کی محنت پیداوار کی بنیاد، محض نعرے کافی نہیں

رہبر معظم مزدوروں کے ایک وفد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملکی پیداوار بڑھانے کا نعرہ عملی کرنے میں مزدور بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایران بھر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدوروں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ تہران کے حسینیہ امام خمینی میں ہونے والی ملاقات کے دوران رہبر انقلاب نے کہا کہ مزدور معاشرے کی پائیداری اور استحکام کا ایک بنیادی ستون ہے اور رواں سال کے نعرے "پیداوار کے لیے سرمایہ کاری" کی عملی تکمیل کے لیے اصل سرمایہ بھی مزدور ہیں۔

انہوں نے وزیر محنت کی گفتگو کی تائید کی اور کہا کہ میں اس نکتے پر زور دینا چاہتا ہوں کہ وزیر موصوف، ان کی وزارت اور حکومت کے دیگر متعلقہ شعبوں کو سمجھنا چاہئے کہ ان باتوں کے اصل مخاطب وہ خود ہیں۔ سابق صدر شہید ابراہیم رئیسی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے رہبر انقلاب نے کہا کہ شہید رئیسی کے دور میں متعدد بند اور نیم فعال کارخانوں کی بحالی ان کے اہم کارناموں میں سے ایک ہے۔

انہوں نے معدنی کانوں میں پیش آنے والے حادثات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مزدوروں کی جسمانی سلامتی اور کام کی جگہ پر تحفظ ایک اہم مسئلہ ہے۔ اگرچہ حالیہ دو برسوں میں کانوں سے المناک خبریں سننے کو ملی ہیں، لیکن یہ مسئلہ صرف انہی تک محدود نہیں؛ دیگر صنعتوں اور کارخانوں سے بھی ایسے مسائل کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے سوشل سیکیورٹی اور فنی معیارات کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے تاکہ مزدور محفوظ طریقے سے کام کرسکیں۔

رہبر انقلاب نے کہا کہ اندرونِ ملک تیار کردہ اشیاء کو فروغ دینا چاہیے، اور اگر ان کی کوالٹی بہتر نہیں تو اس میں بہتری لانے کی کوشش کی جائے۔ میں نے کچھ سال قبل کہا تھا کہ اگر ہمارے نوجوان پابندیوں کے باوجود بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہیں تو وہ یقینا کم ایندھن خرچ کرنے والی گاڑیاں بھی تیار کرسکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے زور دیتے ہوئے کہ بیرونی مصنوعات کے لئے دروازے کھول دینا آسان کام ہے لیکن یہ طریقہ ملک، مزدور طبقے اور مجموعی طور پر قومی مفاد کے خلاف ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ملکی پیداوار کو ترجیح دیں اور اسے ایک ثقافت میں بدل دیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فلسطین کے مسئلے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ آج دنیا میں ظالمانہ پالیسیاں رائج ہیں جن کے ذریعے قوموں کو گمراہ کیا جارہا ہے، تاکہ فلسطین کا مسئلہ فراموش کردیا جائے۔ مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ مختلف افواہوں، بے ربط باتوں اور نئے بے معنی مسائل کے ذریعے ذہنوں کو اصل مسئلے سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے، مگر ہمیں بیدار رہنا ہوگا[37]۔

انہوں نے مزید کہا کہ جو ظلم و ستم صہیونی حکومت غزہ اور فلسطین میں کررہی ہے، وہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جسے نظر انداز کیا جاسکے۔ پوری دنیا کو اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ نہ صرف صہیونی حکومت کے خلاف احتجاج کیا جائے بلکہ ان طاقتوں کے خلاف بھی آواز بلند ہونی چاہئے جو اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔

رہبر معظم نے امریکہ اور برطانیہ کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ حقیقی معنوں میں اس ظلم کا حامی ہے۔ اگرچہ سیاست کے میدان میں کچھ اور دعوے کیے جاتے ہیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ مظلوم فلسطینی عوام صرف صہیونی حکومت ہی نہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ جیسی طاقتوں کے خلاف بھی نبردآزما ہیں۔

ہمارے امداد رساں انسانی صفات اور انسان دوستی کے مظہر ہیں

امداد رساں شہیدوں پر قومی سیمینار کی منتظمہ کمیٹی سے ملاقات میں رہبر معظم انقلاب نے امداد رسانوں کو انسانی صفات اور انسان دوستی کا مظہر قرار دیا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے دو روز قبل پیر 12 مئی 2025 کو امداد رساں شہیدوں پر قومی سیمینار کی منتظمہ کمیٹی سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر ان کا خطاب آج 14 مئی کی شام کو سیمینار کے مقام پر نشر کیا گيا۔

آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس موقع پر اپنے خطاب میں امداد رسانوں کو انسانی صفات اور انسان دوستی کا مظہر قرار دیا اور ایرانی قوم کے ایثار اور انسان دوستی کے جذبے کے جاری رہنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس جذبے کے مقابلے میں غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم اور وحشیانہ اقدامات اور مغرب کی جانب سے اس کی حمایت ہے اور اس خونخواری اور باطل محاذ کے مقابلے میں استقامت، سبھی کا فرض ہے۔

انھوں نے آٹھ سالہ جنگ کے پس منظر میں کہا کہ امداد رساں، گولیوں کی بارش میں بھی اپنی حفاظت کی نہیں بلکہ صرف دوسروں کی نجات کی فکر میں رہتے تھے اور ان کے اندر ایثار کا حیرت انگیز جذبہ اس حد تک ہوتا تھا کہ کبھی کبھی وہ دشمن کے زخمی قیدیوں کی بھی مدد کرتے تھے اور یہ رویہ، انسانیت سے عاری دنیا کے بالکل برخلاف ہے۔

رہبر انقلاب نے کہا کہ ایثار اور امداد کے جذبے کی ضد مجرم صیہونیوں کی جانب سے ایمبولینسوں پر حملے، اسپتالوں پر بمباری اور نہتے مریضوں اور بچوں کے قتل عام کی وحشیانہ عادت اور رویہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج دنیا کا انتظام ان انسان نما جانوروں کے ہاتھ میں ہے اور اسلامی جمہوریہ ان کی اس سفاکیت اور حیوانیت کے مقابلے میں استقامت کو اپنا فرض سمجھتی ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیر فوجیوں کے خلاف جرائم پر اعتراض سبھی کی ذمہ داری ہے، کہا کہ یہ ذمہ داری کا احساس ہے جو دلوں میں امید کا چراغ جلتے رہنے کا سبب بنتا ہے اور یہی چیز اسلامی جمہوریہ کے خلاف مغرب والوں جیسے دشمنوں کی کارروائيوں کا سبب بنتی ہے اور اگر ہم ان کی وحشیانہ کارروائيوں پر اعتراض کرنا چھوڑ دیں تو وہ ہم سے دشمنی نہیں کریں گے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے مغرب کے منہ زوروں کا اصل مسئلہ، اسلامی جمہوریہ کی جانب سے ان کے باطل تمدن کی نفی بتایا اور کہا کہ باطل ختم اور نابود ہونے والا ہے تاہم اس کام کے عملی جامہ پہننے کے لیے سعی و کوشش کرنا، استقامت کرنا اور بے عملی، تساہلی، باطل کے کاموں پر مسکرانے اور اس کی تعریف کرنے سے پرہیز ہونا چاہیے جو اس کی پیشقدمی کا سبب بنتا ہے[38]۔

کتب خانوں کے مالکان اور لائیبریرین حضرات سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 29 تیر سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 7 جولائی سنہ 2011 عیسوی کو کتب خانوں کے مالکان اور لائیبریرین حضرات کے اجتماع سے خطاب میں کتابوں سے متعلق انتہائی اہم ہدایات فرمائيں۔ آپ نے لائیبریرین حضرات کو کتابوں کے انتخاب میں ایک رہنما کا کردار ادا کرنے کی سفارش۔ آپ نے کتابوں کی نوعیت کے سلسلے میں بھی انتہائی اہم نکات بیان کئے۔ قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

برادران و خواہران گرامی کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ سو فیصدی علمی جلسہ ہے۔ آپ عزیزوں سے ملاقات کے لئے اس جلسے کے اہتمام کا ایک مقصد ملک بھر میں لائبریریوں کے ذمہ داروں اور لائبریرین حضرات کی زحمتوں کا شکریہ ادا کرنا ہے کیونکہ وہ بہت عظیم اور اہم کام انجام دے رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہمارا یہ جلسہ کتاب اور مطالعے کے لئے معاشرے میں خاص اہمیت کو ظاہر کرنے والا علامتی عمل ہے۔

ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں کتاب کی ضرورت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ اگر کوئی یہ سوچے کہ نئے نئے مواصلاتی وسائل کی ایجاد سے کتاب متن زندگی سے ہٹ جائے گی تو یہ غلط تصور ہوگا۔ معاشرے میں کتاب کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ نئے وسائل جو ایجاد ہو رہے ہیں ان کا سب سے بڑا فن یہ ہے کہ کتابوں کے مضمون کو، کتابوں کے مندرجات کو اور خود کتب کو آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔ کوئی بھی چیز کتاب کی جگہ نہیں لے سکتی۔

ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر ہم فکر و تجربے اور ذوق و فن کے لحاظ سے نشو نما میں ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کتابوں سے اپنا رابطہ بڑھانا ہوگا۔ کتاب ایک فکر، ایک ذوق، ایک فن اور ایک نظریئے سے وجود میں آنے والے ثمرات کا ذخیرہ ہے۔ یہ کسی ایک یا کئی انسانوں کی فکری کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ مختلف انسانوں کے فکری ثمرات سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔

یہ موقعہ ہمیں کتاب فراہم کرتی ہے۔ یہ کتاب سے ہمیں ملنے والا تحفہ ہے۔ معلوم ہوا کہ کتاب بڑی قیمتی شئے ہے۔ یہ چیز ہمیشہ سے تھی اور آئندہ بھی رہے گی۔ بنابریں کتاب پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کتاب پر خاص توجہ در حقیقت مطالعے پر خاص توجہ کا مقدمہ ہے۔ معاشرے میں کتب کے مطالعے کا ماحول بڑھنا چاہئے۔ خواندگی کی شرح بڑھانے کا مقصد اور فائدہ یہی ہے۔

دنیا کے ممالک میں ناخواندگی کو مٹانے کے لئے جو مہم اور تحریکیں چلائی جاتی ہیں ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ عوام الناس دوسروں کی فکری توانائيوں اور ذہنی استعداد کے اس مجموعے سے بہرہ مند ہوں۔ مطالعے کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ میری نظر میں بدترین اور سب سے زیادہ نقصان دہ تساہلی مطالعے کے سلسلے میں کی جانے والی تساہلی ہے۔ انسان اس میں جتنی تساہلی برتتا ہے اس کی کاہلی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

معاشرے میں کتب کے مطالعے کی ترویج کی جانی چاہئے۔ یہ تمام متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔ پرائمری اسکول سے ہی بچوں کو کتاب پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لئے منصوبہ بندی کی جانی چاہئے۔ تدبر اور غور و فکر کے ساتھ کتاب پڑھنے کی عادت ڈالنے کی منصوبہ بندی۔ اسی طرح مواصلاتی ذرائع، نشریاتی اداروں اور تشہیراتی وسائل سب کی سطح پر یہ منصوبہ بندی ضروری ہے۔

معاشرے کی سطح پر ایک بہت اہم کام یہی ہے کہ کتب کا مطالعہ ہمہ گیر ہو۔ ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ بےارزش چیزوں کے لئے جن کی انسانی زندگی میں کوئی خاص تاثیر بھی نہیں ہوتی، ان کے مالکان بڑی رنگارنگ اور عجیب و غریب انداز کی تشہیر کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ، اخبارات و جرائد، نشریاتی ادارے اسے پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس سامان کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے، اس کی کوئی احتیاج نہیں ہے، یہ زندگی میں بالکل ا‌ضافی چیز ہے۔

کبھی کبھی ان سے کچھ فائدہ پہنچ جاتا ہے لیکن کبھی کبھی تو ان سے نقصان ہی پہنچتا ہے۔ لہذا کتاب جو انتہائی ذی قیمت شئے ہے، بڑی با عظمت چیز ہے اس کی تشہیر ضروری ہے، وہ اس لائق ہے کہ لوگوں کو اس کے مطالعے کے لئے رغبت دلائی جائے۔ ہمیں اس چیز کو ایک عادت میں تبدیل کر دینا چاہئے۔ میں یہ عرض کر دوں کہ ہمارے ملک میں اور ہمارے معاشرے میں آج جو صورت حال ہے ہم اس سے خوش نہیں ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ آج جس تعداد میں کتابوں کی تصنیف و تالیف انجام پا رہی ہے وہ ماضی سے بہت زیادہ ہے۔

کبھی کبھی تو کئی گنا زیادہ کتابیں شائع ہوتی ہیں، یا یہ کہ کتاب کے نسخوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ہمارے ملک کے لئے ابھی یہ بہت کم ہے۔ ایسا ماحول ہونا چاہئے کہ ہر کنبے کی روز مرہ کے استعمال کی اشیاء میں کتاب باقاعدہ شامل ہو۔ لوگ کتابیں خریدیں۔ البتہ مطالعے کے لئے، صرف کتبخانے کو سجانے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے نہیں۔ تو یہ معاشرے میں مطالعے کا ماحول بنانے کے تعلق سے اہم نکتہ ہے۔

ایک مسئلہ کتب خانوں کا ہے۔ اس سلسلے میں لائیبریرین حضرات واقعی زحمت اٹھا رہے ہیں اور ان پر براہ راست ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ میں نے بچپن سے ہی کتب خانوں میں لائبریرین کے کردار کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ میں (مشہد میں واقع) روضہ اقدس حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے کتب خانے میں جاتا تھا اور دیکھتا تھا کہ وہاں کے لائبریرین حضرات کتنا اہم رول ادا کر رہے ہیں، کتنی زحمتیں اٹھا رہے ہیں، کتنی دلسوزی سے کام کر رہے ہیں۔ لائبریرین کا کام بڑا نمایاں علمی کام ہے۔

لائبریرین کا کام صرف یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو کتابیں دے اور ان سے واپس لیکر رکھ دے۔ لائبریرین کو چاہئے کہ کتاب سے رجوع ہونے والے افراد کے لئے رہنمائی کا فریضہ انجام دے۔ ضروری کاموں میں ایک یہ بھی ہے کہ ہم ذہن کو ترتیب وار مطالعے کا عادی بنائيں۔ اگر ایک کتاب کا مطالعہ کرنا ہے اور اس سے پہلے اسی موضوع کی دیگر کتابوں کا آپ مطالعہ کر چکے ہیں اور اس کے بعد اب اس کتاب سے آپ رجوع ہو رہے ہیں تو اس کی تاثیر زیادہ ہوگی۔ لیکن اس کے لئے رہنمائي کی ضرورت ہے۔

بعض افراد مطالعے کے عادی ہیں لیکن آسان کتابیں ہی پڑھنا چاہتے ہیں جن میں ذہن پر زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت نہ پڑے۔ یہ بھی مطالعہ ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن مطالعہ کی بہتر روش یہ ہے کہ انسان زیر مطالعہ کتابوں میں آسان کتاب کو بھی شامل رکھے۔ مثال کے طور پر ناول، سرگزشت یا تاریخ کی آسان کتابوں کا مطالعہ ان کتابوں کے ساتھ کرے جن میں غور و فکر کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمیں اپنے ذہن کو غور و فکر کرنے کا عادی بنانا چاہئے۔ تدبر کی عادت ڈالنی چاہئے۔ کتاب ذہن کو فکر و تدبر پر مجبور کرے، اس سب کے لئے رہنمائی کی ضرورت ہے۔

آج ہمیں جن چیزوں کی خاص ضرورت ہے ان میں ایک ہے مختلف طبقات کے لئے مطالعے کا مناسب شیڈول۔ بارہا دیکھنے میں آتا ہے کہ نوجوانوں یا بچوں کو ہم کتاب پڑھنے کی تو ترغیب دلاتے ہیں لیکن وہ پلٹ کر سوال کرتے ہیں کہ ہم کون سی کتابیں پڑھیں؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا ایک جواب نہیں ہے۔ اس کے متعدد جوابات ہو سکتے ہیں۔ کتاب کے امور کے ذمہ دار افراد خواہ وہ ثقافت اور اسلامی ہدایت کی وزارت سے تعلق رکھتے ہوں۔

یا کتب خانوں سے ان کا تعلق ہے، اس سلسلے میں سنجیدگی سے کام کریں۔ مختلف شعبوں میں، مختلف طبقات کے افراد کے لئے، مختلف شکلوں میں، مناسب تنوع کا خیال رکھتے ہوئے مطالعے کا منظم دستور العمل تیار کریں۔ پہلے یہ کتاب، پھر یہ کتاب اور اس کے بعد یہ کتاب۔ جب بچہ، نوجوان یا کوئی اور شخص جو کتاب سے ابھی مانوس نہیں ہے، اندر آتا ہے، آگے بڑھتا ہے تو پھر اپنا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب بھی ہوتا ہے۔ تو یہ ایک اہم نکتہ ہے۔

دوسرا نکتہ کتاب کے انتخاب کے سلسلے میں ہے۔ کسی ایک شخص یا چند افراد کی فکر، دماغ، تجربات، فن اور ذوق کا نتیجہ کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر کتاب مفید ہی واقع ہو اور اس میں کوئی ضرررساں پہلو نہ ہو۔ بعض کتابیں ضرر رساں بھی ہوتی ہیں۔ کتب کے امور کے ذمہ دار افراد اس خیال کے ساتھ کہ ہمیں سب کو آزاد چھوڑ دینا چاہئے، لوگ خود انتخاب کریں، ضرر رساں کتابوں کو مطالعے کی فضا میں نہیں لا سکتے۔

جیسا کہ زہریلی دوائیں، خطرناک دوائیں، نشہ آور دوائیں متعلقہ عہدیدار آسانی سے سب کو فراہم نہیں کرتے، لوگوں کی دسترسی سے انہیں دور رکھتے ہیں، کبھی کبھی انتباہات بھی دیتے ہیں۔ اسی طرح کتاب ایک معنوی غذا ہے۔ اگر خراب ہو، اگر زہریلی ہو، اگر ضرر رساں ہو تو ہم ایک ناشر کی حیثیت سے، مصنف کتاب کی حیثیت سے، کتب خانے کے ذمہ داری حیثیت سے، کتب کی تقسیم کے ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے یا کسی اور حیثیت سے اگر کتاب کے رابطے میں ہیں تو ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ انہیں ایسے افراد کے حوالے کر دیں جو باخبر نہیں ہیں، متوجہ نہیں ہیں۔

شریعت اسلام میں اس کے سلسلے میں ایک الگ باب ہے۔ تو بہت احتیاط سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اچھی اور صحت مند مضامین کی حامل کتاب لوگوں کو دینی ہے۔ اس بات پر خاص توجہ ہونا چاہئے کہ کتاب فکری پرورش بھی کرنے والی ہو اور صحیح راستے کی نشاندہی بھی کرنے والی ہو۔ بنابریں مطالعے کے سلسلے میں منصوبہ بندی کے ساتھ اس نکتے پر توجہ بھی ضروری ہے۔

ہم ملت ایران کی حیثیت سے، ایک مسلمان قوم ہونے کے باعث کتابوں سے گہرا اور دیرینہ رشتہ رکھتے ہیں۔ یہ آج کل کی بات نہیں ہے کہ ہمیں کتاب سے آشنائی حاصل ہوئی ہے۔ ہمارے ملک میں، خاص طور پر اسلام پھیل جانے کے بعد عظیم کتب خانوں، علمی مراکز، بیش بہا تحریروں ان سب چیزوں کی بڑی قدیم تاریخ ہے۔ ہم ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں جس کا کتابوں سے رشتہ زمانہ قدیم سے رہا ہے۔ صدیوں سے ہمیں کتابوں سے انسیت تھی۔ البتہ ان دنوں کتابوں تک رسائی آسان نہیں تھی۔ خطی نسخوں کے دوسرے نسخے تیار کرنا آسان نہیں تھا۔

لیکن پھر بھی جو لوگ اہل کتاب تھے، کتابوں سے شغف رکھتے تھے انہوں نے کتنی جفاکشی کی؟! ہم نے پڑھا ہے اور بارہا سنا ہے کہ بعض افراد ایسے تھے کہ کسی کتاب کی ضرورت تھی اور جن کے پاس وہ کتاب تھی وہ ذرا بخل سے کام لیتے تھے، کتاب دینے پر تیار نہ ہوتے تھے۔ بڑی مشکل سے منت سماجت کرکے کتاب کو ایک یا دو شب کے لئے عاریتا لیتے تھے اور پھر انہیں نہ دن کی خبر ہوتی تھی نہ رات کی، مسلسل محنت کرکے اس کتاب کا ایک اور نسخہ تیار کر لیتے تھے۔ اس طرح کی مثالیں بے شمار ہیں۔

آج یہ ساری رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں۔ علم کی ترقی سے کتابوں کی فوٹوکاپی کر لینا آسان ہو گیا ہے۔ ہمیں اپنے اس ماضی کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے، کتب کی نشر و اشاعت میں اپنے مقام کو بلند کرنا چاہئے۔ کتاب کو بازار میں لانے والے افراد کو بھی اس نکتے پر توجہ رکھنی چاہئے۔ خواہ وہ مصنفین ہوں، مترجمین ہوں یا ناشر حضرات ہوں جو کتابیں لوگوں تک پہنچاتے ہیں، معاشرے کی احتیاج اور خلاء پر توجہ دیں۔ فکری خلاء کی اور فکری احتیاج کی نشاندہی کریں، انتخاب کریں، پھر ان پر کام شروع کریں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کتابوں کے بازار میں بسا اوقات ایسی کتابیں نظر آتی ہیں جن میں گمراہ کن باتیں بھی ہوتی ہیں۔ ان میں ایسے موضوعات اٹھائے جاتے ہیں جو معاشرے کی عام ذہنیت کے لئے اور ملک کی عام ذہنیت کے لئے، اخلاقی لحاظ سے، دینی و اعتقادی لحاظ سے یا پھر سیاسی لحاظ سے زیاں بخش ہوتے ہیں۔ واضح طور پر کتب کے بازار میں نظر آتا ہے کہ کتابوں کے پس پردہ کچھ خفیہ ہاتھ ہیں جو اپنا کام کر رہے ہیں۔ کتابیں لکھی جا رہی ہیں، ترجمے کئے جا رہے ہیں خاص سیاسی اہداف کے تحت۔ ان کی ظاہر شکل تو علمی فنپارے کی ہے لیکن باطن سیاسی ہے۔

ہمارے ملک میں بہت سے ایسے امور جن کی ترویج ثقافت و علم کے نام پر اغیار، معاندین اور اسلام و اسلامی نظام کے دشمنوں کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ ان کا صرف ظاہر ثقافتی اور علمی ہے، باطن پوری طرح سیاسی ہے۔ اسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ کتابوں کے امور سے وابستہ افراد خواہ آپ جیسے لائیبریرین، لائبریریوں کے مالکان ہوں یا ثقافت و اسلامی ہدایت کی وزارت سے تعلق رکھنے والے افراد یا خود ناشر حضرات، سب اس بات پر توجہ دیں کہ معاشرے میں صحتمند، مفید اور قوت بخش روحانی غذا تقسیم کی جانی چاہئے۔ اس وقت ماشاء اللہ خواندگي کی شرح اور کتابوں سے استفادے کا امکان بہت وسیع ہے۔ اس سنہری موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔

میں آج اس اجتماع میں چاہتا ہوں کہ ایک نئے سلسلے کا آغاز ہو کتاب اور مطالعے کے تعلق سے، مفید اور صحتمند کتب کے تعلق سے۔ ملک میں تمام حکام ایک نئی مہم شروع کریں۔ منصوبہ بندی کرنے والوں سے لیکر تالیف و تصنیف اور ترجمہ کرنے والوں، ان کا پرچار کرنے والوں، کتاب پڑھنے والے بچوں اور نوجوانوں تک سب کے اندر ایک نیا طرز فکر پیدا ہو۔ ساڑھے سات کروڑ کی آبادی والے ملک، نوجوانوں کی اتنی کثیر تعداد اور اس جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے کتابوں کے نسخوں کی ایک ہزار دو ہزار یا تین ہزار کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔

بعض کتابوں کے سلسلے میں دیکھنے میں آتا ہے کہ کئی ایڈیشن شائع ہوئے ہیں لیکن مجموعی طور پر کتابوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نہیں یہ تعداد اطمینان بخش نہیں ہے۔ ایک نئی تحریک کی ضرورت ہے۔ میں کتب کے امور کے ذمہ داروں کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں اور ان سے گزارش بھی کرتا ہوں کہ کتاب کے معاملے میں ایک نیا نقطہ نگاہ اختیار کریں۔

ہمیں کچھ ایسے اقدامات کرنے چاہئے کہ مطالعے کا ماحول بنے اور ہمارے نوجوان کا ہاتھ کتاب سے خالی نظر نہ آئے۔ یہ جو اعداد و شمار بتائے جاتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے میں فیکس مطالعے کی مقدار اتنی ہے۔ یہ اعداد و شمار اطمینان بخش نہیں ہیں۔ صورت حال اس سے بہت بہتر ہونی چاہئے۔ انسان کبھی بھی کتاب سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ بچپن سے لیکر، تعلیم کے ابتدائی دور سے لیکر آخر عمر تک انسان کو کتاب کی ضرورت ہے، مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے، فکری و روحانی غذا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کی سطح پر یہ ذہن سازی ہونی چاہئے، اقدام کیا جانا چاہئے، اس پر کام کیا جانا چاہئے۔

اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب کرے۔ ہم آپ کی زحمتوں کی قدردانی کرتے ہیں۔ جو کچھ انجام پایا ہے اس سے خوش ہیں اور امید کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ نے اب تک کیا ہے اس سے کئی گنا زیادہ انجام دیں۔ اللہ تعالی آپ کی مدد فرمائے اور حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی دعائیں آپ کے شامل حال ہوں۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌[39]۔

شہید رئیسی اصول پسند صدر تھے، امریکہ سے مذاکرات نتیجہ خیز ہونے کی توقع نہیں

شہید رئیسی اور شہداء خدمت کی پہلی برسی کے موقع پر رہبر معظم کی موجودگی میں تقریب منعقد ہوئی مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، سابق صدر شہید رئیسی اور ان کے ہمراہ شہید ہونے والوں کی پہلی برسی کے موقع پر رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ‌ای نے شہید صدر ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھ ہوائی حادثے میں شہید ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی اصول پسندی اور استقامت کو سراہا۔

رہبر انقلاب نے اپنے خطاب میں کہا کہ شہید رئیسی نے صدارت کے آغاز میں ہی ایک واضح مؤقف اختیار کیا تھا۔ اُنہوں نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں ایک صحافی کے سوال پر دو ٹوک انداز میں نفی میں جواب دیا تھا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ‌ای نے مزید کہا کہ شہید رئیسی نے دشمن کو موقع نہ دیا کہ وہ ایران کو دھمکی، لالچ یا مکاری سے مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کرے۔ وہ مضبوط اور غیر مبہم مؤقف کے ساتھ ڈٹے رہے۔

انہوں نے کہا کہ شہید رئیسی کے دور میں بھی موجودہ دور کی طرح، بالواسطہ مذاکرات ہوئے لیکن وہ بے نتیجہ رہے۔ آج بھی ہمیں کوئی نتیجہ نکلنے کی توقع نہیں ہے اور ہم نہیں جانتے آگے کیا ہوگا۔ رہبر معظم انقلاب نے اپنے خطاب میں حالیہ مذاکرات کا ذکر کرتے ہوئے امریکی فریق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے فریق مخالف کو ایک بات کا تذکر دینا چاہتا ہوں کہ ایران کے خلاف ہرزہ سرائی سے پرہیز کرے۔

انہوں نے امریکہ کی جانب سے ایران کی یورینیم کی افزودگی پر پابندی کے اعلان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا کہ ہم ایران کو افزودگی کی اجازت نہیں دیں گے، بہت بڑی غلطی ہوگی۔ ایران کو کسی کی اجازت کا انتظار نہیں۔ ہماری اپنی پالیسیاں اور اپنا طریقہ کار ہے اور اپنے فیصلوں کی خود پیروی کرتے ہیں۔

رہبر انقلاب نے مزید کہا کہ میں ایک مناسب موقع پر ایرانی قوم کو یہ بھی بتاؤں گا کہ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کیوں اس قدر اصرار کرتے ہیں کہ ایران افزودگی نہ کرے؟ وہ افزودگی کے مسئلے پر کیوں اتنے حساس ہیں؟ ان کے اس اصرار کے پیچھے اصل نیت کیا ہے؟ ان شاء اللہ میں یہ باتیں کسی اور موقع پر قوم کے سامنے رکھوں گا تاکہ سب جان لیں کہ معاملہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہید رئیسی خود کو عوام سے برتر نہیں سمجھتے تھے۔ وہ خود کو عوام کا حصہ بلکہ ان سے کمتر سمجھتے تھے۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ شہید رئیسی اور ان کے بہت سے نوجوان ساتھیوں کے طرز عمل میں وہی جذبہ، تحریک، احساس ذمہ داری اور روشن خیالی دیکھنے میں آئی جو کہ شہید رجائی کے ساتھیوں میں تھی۔ یہ وہی انقلاب کی طاقت اور امام راحل کی فتح ہے۔

رہبر انقلاب نے شہید رئیسی اور ہیلی کاپٹر حادثے کے شہداء کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید رئیسی اور ان کے بہت سے نوجوان ساتھیوں کے کردار میں وہی جذبہ اور روشن خیالی دیکھی جا سکتی ہے جو کہ شہید رجائی کے ساتھیوں جیسے کلانتری، عباس پور، قندی، نیلی وغیرہ میں دیکھی گئی۔

انہوں نے کہا کہ وہی نوارنیت، وہی جذبہ، وہی حوصلہ، وہی احساس ذمہ داری، 40 سال بعد۔ یہ بہت قیمتی ہے۔ یہ انقلاب کی طاقت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک طاقتور انقلاب ہے۔ یہ امام راحل کی فتح الفتوح ہے۔ انہوں نے فتح الفتوح کو انقلاب کے ذریعے ایثار و فداکاری کے حامل افراد کی تربیت کے طور پر متعارف کرایا۔

رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ شہدائے خدمت اسلامی انقلاب کے تربیت یافتہ افراد تھے جو ملک کے مختلف گوشہ و کنارے سے ابھرے اور پروان چڑھے۔ انقلاب ان شہیدوں جیسے لاکھوں نوجوانوں کی تربیت کرنے میں کامیاب ہوا، جن میں ممتاز قومی اور بین الاقوامی شخصیات ایرانی قوم کے سامنے پیش کی گئیں۔

رہبر انقلاب نے شہید رئیسی اور دیگر شہدائے خدمت کی یاد میں منعقدہ تقریب سے اپنے خطاب میں کہا کہ شہید رئیسی 1979 میں کہ جب انقلاب کامیاب ہوا ایک 18 سالہ نوجوان تھے، شہید آل ہاشم ایک 16 سالہ نوجوان تھے، شہید امیر عبداللہیان ایک 14 سال کے بچے تھے، انقلاب کے آغاز میں شہید ملک رحمتی پیدا نہیں ہوئے تھے۔

یہ انقلاب کے تربیت یافتہ افراد ہیں کہ رئیسی مشہد سے، آل ہاشم تبریز سے، رحمتی مراغہ سے، دامغان سے امیر عبداللہیان، فریدون شہر اصفہان سے موسوی، گنبد قابوس سے مصطفوی، نجف آباد سے دریانوش، ابھر سے قدیمی۔

اس ملک کے کونے کونے سے یہ نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے اور پروان چڑھے۔ انقلاب ایسے لاکھوں نوجوانوں کی تربیت کرنے میں کامیاب رہا، جن میں سے بعض ممتاز قومی اور بین الاقوامی سطح کی شخصیات ہیں۔ یہ انقلاب کا کارنامہ ہے، یہ انقلاب کی طاقت ہے[40]۔

غزہ میں صہیونی مظالم روکنے کے لیے مشترکہ اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے

رہبر معظم نے پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران غزہ میں صہیونی حکومت کے مظالم کو روکنے کے لیے ایران و پاکستان کی جانب سے مشترکہ و مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران پاکستان کو اہم اسلامی ملک قرار دیتے ہوئے غزہ میں صہیونی حکومت کی جارحیت روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔

ملاقات کے دوران رہبر معظم نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے خاتمے پر خوشی کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے باہمی اختلافات کا پرامن حل نکلے گا۔

انہوں نے فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کے مضبوط اور مثبت مؤقف کو سراہتے ہوئے کہا کہ کئی مسلم ممالک نے صیہونی حکومت سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان نے ہمیشہ ان سازشوں کو مسترد کیا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ دنیا میں جنگ پسند عناصر کے عزائم کے مقابلے میں اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد اور تعاون ہی امت مسلمہ کی سلامتی کا ضامن ہے۔

انہوں نے مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا اولین مسئلہ قرار دیا اور غزہ کے المناک حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ غزہ کی صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ یورپ اور امریکا کے عوام سڑکوں پر نکل کر اپنی حکومتوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، لیکن افسوس کہ بعض اسلامی حکومتیں ان حالات میں بھی صیہونی حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں۔

رہبر انقلاب نے زور دیا کہ ایران اور پاکستان باہمی تعاون سے اسلامی دنیا پر مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران و پاکستان کے تعلقات ہمیشہ گرم جوش اور برادرانہ رہے ہیں تاہم موجودہ دوطرفہ تعاون متوقع سطح سے کم ہے۔ دونوں ممالک مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ دورہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں دونوں ممالک کے تعلقات کے فروغ کا باعث بنے گا۔

رہبر معظم نے ایران و پاکستان کے مابین اقتصادی تعاون تنظیم کو مزید فعال بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اس موقع پر پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے رہبر انقلاب سے ملاقات پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان و بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے حل میں ایران کے مثبت کردار کو سراہا۔

انہوں نے غزہ کے حالات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے عالمی برادری غزہ کی ہولناک صورتحال کے خاتمے کے لیے کوئی مؤثر اقدام نہیں کر رہی۔

انہوں نے تہران میں ہونے والی مثبت اور تعمیری بات چیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس دورے کو دونوں ممالک کے تعلقات کے فروغ کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔ اس موقع پر اسلامی جمہوری ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان بھی موجود تھے[41]۔

آج دنیا کی بعض پارلیمانوں کا کام، غزہ کے قاتلوں کی مدد کرنا ہے

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے بدھ 11 جون 2025 کی صبح ایران کی بارہویں پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر اور ارکان سے ملاقات کی۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے بدھ 11 جون 2025 کی صبح ایران کی بارہویں پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر اور ارکان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں اپنے خطاب میں انھوں نے عید غدیر کو پورے عالم اسلام کے لیے حقیقت میں ایک بڑی عید اور معرفت اسلامی کے عمیق اور وسیع حقائق کی حامل بتایا اور اس عظیم دن اور اسی طرح امام علی نقی علیہ السلام کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دنیا میں پارلیمنٹس کی قانونی شان کو ایک دوسرے کے مشابہ اور قانون کی عظمت کی علامت بتایا اور کہا کہ قانون، انسان کی سماجی زندگي کی بنیادی شرط ہے اور عقلی لحاظ سے ان قوانین کی قدر و حیثیت بہت زیادہ ہے جو اجتماعی خرد کے ذریعے اور ایک قوم کے منتخب افراد کے ہاتھوں تیار ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دنیا کی پارلیمنٹس کا حقیقی وزن، ان کے قانونی وزن کے برخلاف الگ الگ ہوتا ہے اور اس پارلیمنٹ کی پوزیشن اور حیثیت، جو دین پر مبنی ہو، متقی اور پاکیزہ افراد پر مشتمل ہو، عدل و انصاف اور کمزوروں کی حمایت اور منہ زور طاقتوں کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت کا عزم رکھتی ہو، اس پارلیمنٹ کی پوزیشن سے پوری طرح مختلف ہے جو لاابالی افراد پر مشتمل ہو اور جس کا کام ظلم کی مدد، امتیازی سلوک اور طبقاتی فاصلے بڑھانا اور غزہ کے قاتلوں جیسے مجرموں کی حمایت کرنا ہو۔

آيت اللہ خامنہ ای نے دوبارہ پارلیمنٹ کا اسپیکر منتخب ہونے پر جناب قالیباف کو مبارکباد دیتے ہوئے، مجلس کی عزت و حیثیت کی حفاظت کے لیے ضروری کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ رکن پارلیمنٹ کو خود کو اللہ اور قانون کے سامنے جوابدہ سمجھنا چاہیے، اللہ کی خوشنودی اور ملک کے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں رہنا چاہیے اور مفادات کے ٹکراؤ کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے۔

انھوں نے اراکین پارلیمنٹ کی باتوں کی اہمیت اور اثر کے بارے میں کہا کہ آپ پارلیمنٹ سے جو بات کہتے ہیں، اس سے امید اور اطمینان پیدا ہونا چاہیے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اراکین پارلیمنٹ کی باتیں، عقل مندی اور انقلاب کے اصولوں کی پابندی کی غماز ہونی چاہیے، کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کی باتوں میں اصول و اہداف کی پابندی، نمایاں ہونی چاہیے اور ان میں قومی عزم و اقتدار دکھائی دینا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے بڑی طاقتوں کی ہرزہ سرائيوں اور مرضی مسلط کرنے کی کوشش کے مقابلے میں ایرانی قوم کی بے نظیر استقامت اور امام خمینی کی برسی اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کی ریلیوں میں عوام کی بھرپور شرکت کو قومی عزم و اقتدار کی واضح نشانیاں بتایا اور کہا کہ یہ قوت و اقتدار، قوانین اور افراد کو تسلیم یا مسترد کرنے میں اراکین پارلیمنٹ کا موقف بھی دکھائی دینا چاہیے اور مجلس شورائے اسلامی میں یہ خصوصیات بڑی حد تک موجود ہیں۔

انھوں نے پارلیمنٹ کی انقلابی روش کو، اس کی نمایاں شان کی حفاظت کے لیے ایک اور ضروری کام بتایا اور کہا کہ پارلیمنٹ، انقلاب کی پارلیمنٹ ہے لیکن انقلابی ہونے کا مطلب صرف شور مچانا نہیں ہے اور آپ لوگ انقلابی ہونے کی صحیح سمجھ کے بارے میں توجہ رکھیے کہ اس میں غلطی نہ ہونے پائے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اللہ حاضر و ناظر ہے اور اراکین پارلیمنٹ کو اس سوچ کے ساتھ خدا کی خوشنودی کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے اور انقلاب کے موقف کو ٹھوس طریقے سے اور پوری شجاعت کے ساتھ بیان کرنا چاہیے اور اپنے فیصلوں میں انھیں مدنظر رکھنا چاہیے۔

انھوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف احمقانہ بیانات یا الزامات پر ٹھوس، مستحکم اور متحدہ ردعمل کو اراکین پارلیمنٹ کی ایک اور ذمہ داری اور انقلابیت کا ایک اور مصداق بتایا۔

اس ملاقات کی ابتداء میں بارہویں پارلیمنٹ کے اسپیکر جناب محمد باقر قالیباف نے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے اسٹریٹیجک ایکشن ایکٹ اور مسقط مذاکرات میں ملک کی وزارت خارجہ کے باعزت موقف کی پارلیمنٹ کی جانب سے حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی سفارتکاری کے میدان میں اراکین پارلیمنٹ کی سرگرم موجودگي، مصنوعی ذہانت یا اے آئی کی قومی جنرل پالیسیز کی منظوری، اراکین پارلیمنٹ کی کارکردگي کی نگرانی کے قانون میں اصلاح اور ملک کی مالی نگرانی کے میدان میں ضروری تبدیلیاں، بارہویں پارلیمنٹ کے بعض اہم اقدامات میں شامل ہیں[42]۔

صہیونی حکومت نے اپنے تلخ انجام کا سامان خود فراہم کیا

رہبر معظم نے صہیونی حکومت کے فضائی حملوں کے بعد اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اسرائیل نے بزدلانہ کاروائی کرکے اپنے تلخ انجام کا سامان خود فراہم کیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صہیونی حکومت کی جانب سے تہران اور دیگر ایرانی شہروں پر فضائی حملوں کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےایرانی قوم کے نام پیغام میں صہیونی حکومت کو سخت جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔

رہبر معظم کے پیغام کا متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم

اے عظیم ایرانی قوم!

آج علی الصبح صہیونی حکومت نے اپنے خبیث اور خون آلود ہاتھوں سے ہمارے عزیز وطن کے خلاف سنگین جنایت کا ارتکاب کیا اور رہائشی مراکز کو نشانہ بنا کر اپنی خبیث فطرت کو پہلے سے بھی زیادہ عیاں کردیا۔ یہ غاصب اور خبیث حکومت ایک سخت سزا کی منتظر رہے۔

ان شاء اللہ، اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے آہنی ہاتھ اسے ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ دشمن کے ان حملوں میں ہمارے چند کمانڈر اور سائنسدان شہید ہوئے ہیں تاہم ان کے جانشین اور ساتھی ان شاء اللہ فوری طور پر اپنی ذمہ داریوں کو جاری رکھیں گے۔

صہیونی حکومت نے اس جنایت کے ذریعے اپنے لیے ایک تاریخی و تلخ انجام کو یقینی بنا لیا ہے اور وہ ان شاء اللہ اس سزا کو ضرور چکھے گی۔

سید علی خامنہ ای[43]۔

امریکہ کو فوجی مداخلت کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑے گا، رہبر معظم انقلاب

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ امریکی جان لیں کہ ایرانی قوم کو جھکایا نہیں جا سکتا، اور ان کی کسی بھی فوجی مداخلت کا نتیجہ یقینی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے بدھ 18 جون 2025 کو اپنے ایک ٹی وی پیغام میں صیہونی دشمن کے حالیہ احمقانہ اور خباثت آمیز حملے کے سلسلے میں ایرانی قوم کے باوقار، شجاعانہ اور وقت شناسی پر مبنی رویے کو سراہتے ہوئے اسے قوم کے رشد و نمو اور عقل و معنویت کے استحکام کی نشانی بتایا۔

انھوں نے کہا کہ ایرانی قوم، مسلط کردہ جنگ کے مقابلے میں مضبوطی سے ڈٹ جاتی ہے جس طرح سے کہ وہ مسلط کردہ صلح کے خلاف بھی ڈٹ جائے گي اور یہ قوم، اپنے فیصلے مسلط کرنے والوں میں سے کسی کے بھی سامنے نہیں جھکے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح امریکی صدر کی دھمکی آمیز اور کم عقلی والی باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ عقلمند لوگ جو ایرانی قوم اور ایران کی تاریخ سے واقف ہیں، کبھی بھی اس قوم کے ساتھ دھمکی آمیز زبان میں بات نہیں کرتے کیونکہ ایرانی قوم کبھی بھی گھٹنے ٹیکنے والی نہیں ہے اور امریکی جان لیں کہ امریکا کی کسی بھی طرح کی عسکری مداخلت کا نقصان قطعی طور پر ناقابل تلافی ہوگا۔

انھوں نے اپنے پیغام کے آغاز میں عید غدیر کے دن ریلی نکالنے اور اسی طرح حالیہ دنوں میں خاص طور پر نماز جمعہ کے بعد جلوس اور ریلیاں نکالنے کے ایرانی قوم کے زبردست اقدام کی تعریف کرتے ہوئے دشمن کے حملے کے مقابلے میں ایرانی ٹی وی کی خاتون اینکر کے زبردست اور معنی خیز اقدام کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ تکبیر کہنا اور قوم کی طاقت کی نشانی پوری دنیا کو دکھانا، ایک تاریخی اور بہت ہی گرانقدر واقعہ تھا۔

آيت اللہ خامنہ ای نے اس وقت کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس میں صیہونی حکومت کا احمقانہ اور خباثت آمیز حملہ ہوا، کہا کہ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب ہمارے عہدیداران امریکا کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کر رہے تھے اور ایران کی جانب سے کسی تیز، سخت اور فوجی ایکشن کی کوئی نشانی نہیں تھی۔

انھوں نے زور دے کر کہا کہ البتہ شروع سے ہی اس بات کا اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ امریکا صیہونی حکومت کی اس خباثت آمیز حرکت میں شامل رہا ہوگا اور امریکی حکام کے حالیہ بیانوں سے یہ اندازہ، روز بروز مضبوط ہو رہا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایرانی قوم مسلط کردہ جنگ، مسلط کردہ صلح اور مسلط کردہ کسی بھی بات کے خلاف مضبوطی سے ڈٹ جاتی ہے، کہا کہ اہل فکر و بیان و قلم اور خاص طور عالمی رائے عامہ سے جڑے ہوئے لوگوں سے میری توقع ہے کہ وہ ان باتوں کو بیان کریں گے، ان کی تشریح کریں گے اور دشمن کو اس کے فریب کارانہ پروپیگنڈوں کے ذریعے حقیقت کو بدل کر پیش کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ صیہونی دشمن نے ایک بڑی غلطی اور جرم کا ارتکاب کیا ہے، کہا کہ صیہونی دشمن کو سزا ملنی چاہیے اور اسے سزا مل رہی ہے اور ایرانی قوم اور مسلح فورسز نے اس خبیث دشمن کو جو سزا دی ہے اور اب دے رہے ہیں اور آگے کے لیے بھی ان کے منصوبے ہیں، وہ بہت سخت سزا ہے جس نے اسے بے دست و پا کر دیا ہے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ صیہونی حکومت کے امریکی دوستوں کا میدان میں آنا ہی اس حکومت کی کمزوری اور ناتوانی کی علامت ہے۔

انھوں نے اسی طرح امریکی صدر کی دھمکی آمیز اور کم عقلی والی باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر نے ایک ناقابل قبول بیان میں کھل کر ایرانی قوم سے کہا کہ وہ سرینڈر ہو جائے لیکن ہم ان سے کہتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ کہ دھمکی ان لوگوں کو دو جو دھمکی سے ڈرتے ہوں، ایرانی قوم تو اس آيت شریفہ پر عقیدہ رکھتی ہے کہ"نہ تو تھکو اور نہ ہی غمگین ہو اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب و برتر رہو گے۔" اور دھمکی کبھی بھی ایرانی قوم کے رویے اور سوچ پر اثر انداز نہیں ہوتی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ دوسری بات یہ کہ ایرانی قوم سے سرینڈر ہونے کی بات کہنا، عقلمندی کی بات نہیں ہے اور وہ عقلمند لوگ جو ایرانی قوم اور اس کی تاریخ سے واقف ہیں، کبھی بھی اپنی زبان پر ایسی بات نہیں لاتے کیونکہ ایرانی قوم کبھی بھی گھٹنے ٹیکنے والی نہیں ہے اور وہ کسی کی بھی جارحیت کے آگے نہیں جھکے گی۔

انھوں نے کہا کہ امریکی اور اس خطے کی سیاست سے آگہی رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ اس مسئلے میں امریکا کا کودنا سو فیصد اس کے نقصان میں ہوگا اور اسے چوٹ پہنچے گي، ایسی چوٹ جس کا درد اس چوٹ سے کہیں زیادہ ہوگا جو ایران کو پہنچے گی۔

آيت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اس میدان میں امریکا کی کسی بھی طرح کی فوجی مداخلت، امریکیوں کے لیےناقابل تلافی نقصان کا سبب ہوگی۔ انھوں نے اپنے پیغام کے آخر میں زور دے کر کہا کہ یقینی طور پر خداوند عالم، ایرانی قوم اور حق و حقیقت کو فتحیاب کرے گا[44]۔

ایران نے اپنے بل بوتے پر امریکہ اور اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، رہبر معظم انقلاب

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایرانی عدلیہ کے سربراہ اور عہدیداران سے خطاب میں کہا کہ اسرائیل نے امریکی حمایت سے ایران کو جارحیت کا نشانہ بنایا جبکہ ایران نے اپنے بل بوتے پر اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ اور دیگر سینیئر حکام نے آج صبح رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ‌ای سے ملاقات کی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایرانی عدلیہ کے سربراہ اور عہدیداران سے خطاب کرتے ہوئے قومی اتحاد کو ایک قیمتی سرمایہ قرار دیا اور کہا کہ اس عظیم اتحاد کی حفاظت ہم سب پر واجب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر فرد خواہ صحافی ہو، قاضی، حکومتی عہدیدار، عالم دین یا امام جمعہ، اتحاد ملی کی حفاظت کا پابند ہے۔

رہبر انقلاب نے کہا کہ سیاسی تفکر اور مذہبی رجحانات کا تنوع قومی اتحاد میں رکاوٹ نہیں ہے۔ ہمیں اپنے عزیز ملک ایران اور اسلامی نظام کے دفاع جیسے مشترکہ مقاصد کے لیے ایک صف میں کھڑا ہونا چاہیے۔ رہبر معظم نے تاکید کی کہ ملکی مسائل کی وضاحت اور غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے، لیکن غیرضروری تنقید، چھوٹے مسائل کو اچھالنا اور ان پر شور شرابا نقصان دہ ہے۔ انہوں نے اسلامی نظام سے وفاداری اور ملکی پالیسیوں کی حمایت کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی دھڑوں اور گروہوں کے مابین اختلافات کو ہوا دینا ملک و ملت کے مفاد میں نہیں ہے۔

رہبر انقلاب نے عوام خصوصا نوجوانوں کے جوش و جذبے کو قابل تحسین قرار دیا اور ساتھ ہی خبردار کیا کہ بے صبری اور ہر عمل کے فوری نتائج کی خواہش نقصان دہ عمل ہے۔ انہوں نے ریاستی اداروں کو اپنی عسکری اور سفارتی سرگرمیاں بھرپور قوت اور درست سمت کے ساتھ جاری رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا سفارتی میدان میں حرکت کا رخ معین کرنا انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ اس میں دقت و ہوشیاری ناگزیر ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ‌ای نے اظہار رائے کی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ کوئی بھی اعتراض نہ کرے، لیکن اعتراض مناسب انداز میں، تحقیق کے بعد اور باخبر ہو کر کیا جائے، کیونکہ بعض اوقات میڈیا میں گردش کرنے والی باتیں لاعلمی کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔

انہوں نے عدلیہ کی کارکردگی کو مجموعی طور پر اطمینان بخش قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ عدلیہ کی تمام کوششوں کا نتیجہ عوامی اعتماد کی شکل میں ظاہر ہونا چاہیے۔ ملک کے کسی بھی کونے میں اگر کسی پر ظلم ہو تو لوگ یہ یقین رکھیں کہ عدالت سے رجوع کرنے پر اس کی داد رسی ہوگی۔ رہبر انقلاب نے عدلیہ کو بدعنوانی کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کی تاکید کی اور کہا کہ عدالتی نظام کے اندر اور باہر موجود بدعنوانیوں کے خلاف کارروائی عوام میں امید اور اعتماد پیدا کرے گی۔

رہبر معظم نے حالیہ صہیونی جنگی جرائم پر گفتگو کرتے ہوئے تاکید کی کہ انسانی حقوق کی عالمی اور ملکی عدالتوں میں ان جرائم کی مکمل اور ہوشیارانہ پیروی کی جائے۔ اگرچہ ماضی میں بعض مواقع پر کوتاہی ہوئی، لیکن اس بار غفلت کی کوئی گنجائش نہیں۔ انہوں نے مزید کہ یہ پیروی اگر بیس سال بھی جاری رہے تو قابلِ قبول ہے۔ دشمن کا گریبان کسی بھی صورت میں نہ چھوڑا جائے۔

انہوں نے ایران کے خلاف حالیہ مسلط کردہ جنگ میں ایرانی عوام کے عظیم کردار کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ ایرانی قوم نے اپنے کردار سے دشمنوں کے سارے اندازوں کو غلط ثابت کیا اور دشمنوں کی تمام گھناؤنی سازشوں پر پانی پھیر دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ صیہونی و امریکی جارحیت کے مقابلے میں ایران میں حکام اور عوام ایک محاذ پر نظر آئے اور قومی اتحاد نے اسرائیل و امریکہ کو شکست سے دوچار کر دیا۔ آپ نے فرمایا کہ بارہ روزہ جنگ میں ایران میں قومی عزم ارادے اور اتحاد نے دشمنوں کے عزائم کو پسپا کیا اور دنیا نے مشاہدہ کیا کہ ایران نے صیہونی حکومت و امریکہ کی طاقت کا بھرم توڑ کر رکھ دیا[45]۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران نے امریکہ و اسرائیل کی جارحیت کا منھ توڑ جواب دے کر اس حقیقت کو ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ایرانی قوم کسی بھی جارح طاقت سے نہیں ڈرتی اور وہ ہر جارحیت کا دنداں شکن جواب دینے کی توانائی رکھتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ایرانی قوم اپنے ملک کے دفاع میں ہر جنگی و سفارتی محاذ پر مستحکم و طاقتور نظر آئی اور ایران کے بارے میں دشمنوں کے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ‌ای نے اسرائيل کو سرطانی غدہ اور امریکہ کی جانب سے اس کی حمایت کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئےفرمایا کہ ایرانی قوم نے نہ تو ظلم و جارحیت کو برداشت کیا ہے نہ ہی آئندہ کبھی ظلم و جارحیت کو برداشت کرے گی۔ آپ نے فرمایا کہ اسرائیل نے امریکی حمایت سے ایران کو جارحیت کا نشانہ بنایا جبکہ ایران نے اپنے بل بوتے پر اس جارحیت کا منھ توڑ جواب دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خبریں سینسر نہ ہوں اور حقیقت سامنے آئے تو پتہ چلے گا کہ ایران نے امریکی حملے کا کتنی توانائی سے جواب دیا ہے جبکہ اس سے بھی زیادہ توانائی کے ساتھ ایران جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ ایرانی قوم نے حالیہ 12 روزہ جنگ میں ایک عظیم کارنامہ انجام دیا۔ یہ کارنامہ کسی کارروائی کا نہیں بلکہ قومی ارادے، حوصلے اور خوداعتمادی کا مظہر تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک قوم، ایک ملک اور اس کی فوج میں اگر یہ اعتماد ہو کہ وہ امریکہ جیسی بڑی طاقت اور اس کی ناجائز اولاد صہیونی حکومت جیسے دشمن کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑی ہوسکتی ہے، تو یہی اعتماد اور حوصلہ خود ایک بہت بڑی قوت اور عظمت کی علامت ہے۔

رہبر انقلاب نے مزید کہا کہ ایرانی قوم اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ وہ دشمن کے مقابلے میں نہ صرف بہادری سے کھڑی ہوجاتی ہے بلکہ دشمن کو خوفزدہ بھی کرتی ہے۔ پھر جہاں تک ممکن ہو، عملی میدان میں بھی اقدام کرتی ہے البتہ اصل اور بنیادی چیز یہ روحی پختگی، ثابت قدمی اور ایمانی استقامت ہے۔

شہدائے اقتدار کے چہلم پر رہبر انقلاب کا پیغام: ایران کی ترقی اور استحکام کے لیے سات اہم ذمہ داریاں

شہدائے اقتدار کے چہلم پر رہبر انقلاب کا پیغام: ایران کی ترقی اور استحکام کے لیے سات اہم ذمہ داریاں شہداء اقتدار کے چہلم پر رہبر معظم نے اپنے پیغام میں کہا کہ دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھنے کے لئے ہر فرد، ادارہ اور طبقے کو اپنی زمہ داریاں ادا کرنی ہوں گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہدائے اقتدار کے چہلم کے موقع پر ایرانی قوم کے نام ایک اہم پیغام جاری کیا، جس میں انہوں نے ملک کو مضبوط بنانے اور دشمنوں کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے سات بنیادی ذمہ داریوں کی نشاندہی کی۔

یہ پیغام اس وقت دیا گیا ہے جب ایرانی مسلح افواج کے کئی عظیم کمانڈرز اور علمی شخصیات کو صہیونی حکومت نے بزدلانہ اور غیر منصفانہ جنگ میں شہید کیا۔ رہبر معظم نے شہداء کے صبر، قربانی اور عزم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان کی راہ کو جاری رکھنا ہوگا۔

انہوں نے تمام ایرانی شہریوں، علماء، سائنسدانوں، میڈیا، فوج اور حکومت کو الگ الگ اہم ذمہ داریاں یاد دلائیں، تاکہ ملک کو مزید ترقی، استحکام اور خودانحصاری کی طرف لے جایا جاسکے۔ رہبر معظم انقلاب نے اپنے پیغام میں کہا کہ ہمارے شہداء نے خود ہی وہ راستہ چنا تھا جس میں شہادت جیسی بلند مرتبہ منزل پانے کی امید تھی، اور آخرکار وہ اس عظیم آرزو تک پہنچ گئے جو ہر قربانی دینے والے کا خواب ہوتا ہے۔ یہ مرتبہ ان کو مبارک ہو۔ البتہ ان کی جدائی کا دکھ ایرانی قوم کے لیے، خاص طور پر شہداء کے اہل خانہ اور ان کے قریبی عزیزوں کے لیے، بہت سخت، تلخ اور بھاری ہے۔

اس سانحے میں کچھ روشن پہلو بھی نمایاں طور پر نظر آتے ہیں:

پہلا: شہداء کے پسماندگان کا صبر، حوصلہ اور کشادہ دلی، جو اپنی مثال آپ ہے اور صرف اسلامی انقلاب کی تاریخ میں دیکھا گیا ہے۔

دوسرا: ان اداروں کی استقامت اور ثابت قدمی جو شہداء کے ماتحت تھے۔ انہوں نے اس بڑے نقصان کے باوجود کام کو جاری رکھا اور دشمن کو موقع نہ دیا کہ وہ ان کے عزم میں خلل ڈال سکے۔

تیسرا: ایرانی قوم کی حیرت انگیز اور مثالی استقامت اور وقار، جو ان کے باہمی اتحاد، مضبوط ارادے اور میدان میں ڈٹے رہنے کے جذبے سے نمودار ہوا۔ اس واقعے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ اسلامی جمہوری ایران کی بنیادیں مضبوط اور مستحکم ہیں، اور دشمن محض اپنا وقت ضائع کررہا ہے۔ انہوں نے ملک کی ترقی کے لئے اہم ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کو نہ بھولیں، اور اس ذمہ داری سے غافل نہ ہوں جو اس حقیقت کے نتیجے میں ہم پر عائد ہوتی ہے۔

قومی اتحاد کا تحفظ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

علم اور ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی تمام علمی ماہرین اور باصلاحیت افراد کا فریضہ ہے۔ ملک اور قوم کی عزت و آبرو کا تحفظ لکھنے والوں اور بولنے والوں کی ایسی ذمہ داری ہے جس میں کسی کوتاہی کی گنجائش نہیں۔

ملک کی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے دفاعی طاقت کو مسلسل مضبوط بنانا ہماری مسلح افواج کے کمانڈروں کی ذمہ داری ہے۔ ملکی معاملات میں سنجیدگی، مستقل مزاجی اور نتیجہ خیز اقدامات کرنا تمام حکومتی اداروں کا فرض ہے۔

لوگوں کے دلوں کو روحانی روشنی دینا، صبر، سکون اور استقامت کی تلقین کرنا ہمارے علما اور دینی رہنماؤں کا اہم فریضہ ہے۔ انقلابی جذبے، جوش اور شعور کو زندہ رکھنا ہم سب کی، خاص طور پر نوجوانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

اللہ تعالی ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں کامیاب فرمائے۔ سلام ہو ایرانی قوم پر، سلام ہو شہیدوں پر، شہید خواتین اور بچوں پر، اور ان سب کی جدائی کا داغ سہنے والے خاندانوں پر۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ[46]۔

بھارتی میڈیا کی جانب سے رہبر معظم کی توہین پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرہ

انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج صرف ایک مظاہرہ نہیں، بلکہ ایک تنبیہ ہے۔ اگر مستقبل میں ایسی گستاخی دہرائی گئی تو پورا معاشرہ اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اُٹھے گا۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آل جموں و کشمیر شیعہ ایسوسی ایشن کی قیادت میں آج سری نگر میں ایک بڑے، پُرامن اور منظم احتجاج کا انعقاد کیا گیا، جس میں معروف میڈیا چینلز جیسے انڈیا ٹی وی، زی نیوز ہندی اور آج تک کی جانب سے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ‌ای کے خلاف توہین آمیز اور غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ پر شدید غم و غصّے کا اظہار کیا گیا۔

احتجاج میں جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے جید علماء، ذاکرین اور ایسوسی ایشن کے اراکین نے بھرپور شرکت کی، جو اس واقعے کی سنگینی اور حساسیت کو اجاگر کرتا ہے ایسوسی ایشن کے سینیئر ترجمان مولوی محمد شیخ ذاکری اور مولوی سید طیّب رضوی نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے سخت مؤقف اپنایا۔

مولانا ذاکری نے کہا کہ آیت اللہ العظمی خامنہ‌ای صرف ایک دینی رہنما نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک روحانی و فکری رہبر ہیں۔ اُن کی توہین دراصل ہم سب کی توہین ہے۔ ہم آئینِ ہند کا احترام کرتے ہیں اور پرامن شہری ہیں، لیکن مرجعیت ہماری ریڈ لائن ہے، جسے عبور کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے۔

مولانا سید طیب رضوی نے کہا کہ میڈیا کا کام آگاہی دینا ہے، اشتعال انگیزی نہیں۔ ان نیوز چینلز نے جو کچھ نشر کیا، وہ صحافت نہیں، بلکہ ایک سوچی سمجھی توہین ہے۔ ہم ان اداروں سے بلا مشروط معافی اور متعلقہ حکام سے فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ مولوی عمران انصاری نے بھی اپنی مجلس میں کہا تھا کہ مرجعیت ہماری ریڈ لائن ہے اور اس کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج صرف ایک مظاہرہ نہیں، بلکہ ایک تنبیہ ہے۔ اگر مستقبل میں ایسی گستاخی دہرائی گئی تو پورا معاشرہ اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اُٹھے گا۔

آل جے اینڈ کے شیعہ ایسوسی ایشن نے آئینی و قانونی دائرے میں رہتے ہوئے جمہوری احتجاج کے اپنے حق کو دہراتے ہوئے حکومتِ ہند اور میڈیا ریگولیٹری اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والی رپورٹنگ کے خلاف فیصلہ کن اقدام کریں۔ مزید برآں، ایسوسی ایشن نے دیگر میڈیا اداروں کو بھی متنبہ کیا کہ وہ مستقبل میں مذہبی معاملات پر ذمہ داری، سنجیدگی اور احترام کے ساتھ بات کریں[47]۔

ایران نے ثابت کیا انقلاب اسلامی کی بنیادیں فولاد سے بھی زیادہ مضبوط ہیں

رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ صہیونی حملے کے دوران ایرانی قوم کی استقامت، اتحاد اور دینی بصیرت کو دنیا کے سامنے آشکار ہوگئی اور انقلاب اسلامی کی بنیادوں کو مزید مضبوط کردیا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ‌ای نے 12 روزہ جنگ میں شہید ہونے والے ایرانی شہریوں کے چہلم کی مناسبت سے کہا کہ اسلامی جمهوری ایران نے دنیا پر ثابت کیا کہ ملک کا نظام مستحکم اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔

تہران کے حسینیہ امام خمینی میں منعقد ہونے والی تقریب میں شہداء کے اہل خانہ، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور ریاستی حکام کی بڑی تعداد شریک تھی۔ رہبر معظم انقلاب نے اپنے خطاب میں اس جنگ کو ایرانی قوم کے عزم، ارادے اور طاقت کے اظہار کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دشمنوں کی دشمنی کی اصل وجہ ملت ایران کا ایمان، علم اور اتحاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کی توفیق سے مختلف علمی میدانوں میں ترقی کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایران کو ترقی و افتخار کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ‌ای نے شہید ہونے والے سپاہیوں، سائنسدانوں اور عام شہریوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان قربانیوں نے نہ صرف ایرانی قوم کا سر فخر سے بلند کیا بلکہ پوری دنیا کو اسلامی جمہوریہ کی طاقت، مزاحمت اور بھرپور دفاعی طاقت کی جھلک دکھادی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلی بار نہیں کہ ایران پر یلغار ہوئی ہو۔ پچھلے 46 سالوں میں اسلامی جمہوری ایران نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ، مختلف سیاسی و دفاعی سازشوں اور سرد جنگوں کے مراحل طے کرتے ہوئے دشمنوں کی تمام چالیں ناکام بنائیں۔

رہبر انقلاب نے اسلامی جمہوری ایران کی بنیادوں کو دین اور سائنس و ٹیکنالوجی پر استوار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران کے نوجوان اور عوام ان دو ستونوں پر اعتماد کرتے ہوئے دشمن کو عقب نشینی پر مجبور کرنے میں کامیاب رہے اور آئندہ بھی اسی حکمت عملی پر عمل پیرا رہیں گے۔

انہوں نے واضح کیا کہ عالمی استکبار، خاص طور پر امریکہ کی مخالفت ایران کے جوہری پروگرام یا انسانی حقوق سے متعلق نہیں بلکہ اصل مسئلہ ایران کا اسلامی، سائنسی، فنی اور فکری میدانوں میں ابھرتا ہوا کردار ہے، جو دنیا کے لیے ایک نیا پیغام اور نیا بیانیہ لے کر آیا ہے[48]۔ فلم "موسی کلیم اللہ" شاندار ہے، پروجیکٹ کو مکمل کریں، رہبر معظم فلم "موسی کلیم اللہ" شاندار ہے، پروجیکٹ کو مکمل کریں، رہبر معظم

رہبر معظم نے فلم "موسی کلیم اللہ" کو سراہتے ہوئے پروجیکٹ مکمل کرنے کی ہدایت

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ‌ای نے فلم "موسی کلیم اللہ" کے پروڈیوسر، ہدایتکار اور فنی ٹیم سے ملاقات میں اس پروجیکٹ کو سراہتے ہوئے کہا کہ فلم دیکھ کر انہیں خوشی ہوئی۔ انہوں نے تاکید کی کہ اس کے سلسلے کو آگے بھی جاری رکھا جائے۔ معروف ہدایتکار ابراہیم حاتمی‌کیا نے ملاقات کی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ رہبر انقلاب نے تین مرتبہ لفظ "بہت شاندار ہے" کا لفظ دہرایا، جس سے ان کو بہت حوصلہ ملا۔

حاتمی‌کیا نے مزید کہا کہ فلم موسی کلیم اللہ کے لیے پانچ سال سے محنت جاری ہے اور اصل منصوبہ ایک تفصیلی سیریل ہے جو ابھی آغاز ہوگا۔ حاتمی‌کیا نے اس منصوبے کو مختارنامہ جیسا عظیم اور وقت طلب پروجیکٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نوعیت کے پروجیکٹ کے لیے طویل اور صبر آزما جدوجہد درکار ہوتی ہے، کیونکہ فنی اور تکنیکی پہلوؤں کی پیچیدگیاں عام فلموں سے کہیں زیادہ ہیں۔

ابراہیم حاتمی‌کیا نے فلم موسی کلیم‌اللہؑ کے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جو اسکرپٹ لکھا تھا، وہ تقریبا ایک ہزار منٹ پر مشتمل تھا، لیکن سینما کے تقاضوں کے مطابق اسے 130 منٹ میں سمیٹنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ اب ان کا مقصد اسی کہانی کو تفصیلی سیریل کی صورت میں پیش کرنا ہے۔ حاتمی‌کیا کے مطابق، اس فلم کی نمائش ان کے لیے نہایت اہم تجربہ تھی تاکہ وہ جان سکیں کہ ناظرین میں کون سا طبقہ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرا ابتدائی تصور یہ تھا کہ شاید صرف مذہبی لوگ ہی اس فلم کو پسند کریں گے، جیسے جنگی فلموں میں زیادہ تر بسیجی ناظرین دلچسپی لیتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر یہ فلم غیر مذہبی طبقے کے لیے بھی پرکشش ثابت ہوئی اور انہوں نے اس میں گہری دلچسپی ظاہر کی۔ اس پر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ مشاہدہ محض احساس نہیں بلکہ باقاعدہ تحقیق کے نتیجے میں سامنے آیا ہے اور یہ پہلو ان کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے کہ نوجوان نسل نے بھی اس فلم کو بے حد پسند کیا۔ حاتمی‌کیا نے اپنی فنی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ میں چالیس سال سے فلمیں بنا رہا ہوں اور ایک نسل میرے ساتھ بڑی ہوئی ہے۔ کبھی کبھار جب کوئی بزرگ آکر کہتا ہے کہ میں نے تمہاری پہلی فلم دیده‌بان دیکھی تھی تو مجھے اپنی عمر اور تجربے کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن جب موسیؑ کلیم اللہ جیسے پروجیکٹ کی باری آتی ہے تو مجھے دوبارہ پوری محنت اور توانائی کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ 130 منٹ کی اس فلم نے انہیں یہ سکھایا کہ کن نکات کو زیادہ یا کم بیان کرنا ہے اور کہاں دینی متون کے ساتھ کتنا قریب جانا یا فاصلہ رکھنا ضروری ہے۔ حاتمی‌ کیا نے اپنی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے پانچ برسوں میں انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی آرام نہیں کیا، حتی کہ بیماری اور کرونا کے دوران بھی کام جاری رکھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب میرا ولی امر، رہبر انقلاب اپنی علمی اور دینی حیثیت کے ساتھ یہ فرماتے ہیں کہ فلم شاندار ہے اور اسے اسی معیار پر آگے بڑھانا چاہیے تو میرے لیے یہ سب سے بڑی حوصلہ افزائی ہے۔ اب میرے پاس کوئی عذر باقی نہیں، مجھے اسی جذبے اور توانائی کے ساتھ اس سیریل کی تکمیل کا آغاز کرنا ہوگا[49]۔

ہفتہ مقدس دفاع کی آمد کی مناسبت سے خطاب

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 20 ستمبر 2023 کو ہفتہ دفاع مقدس کی آمد کی مناسبت سے دفاع مقدس اور استقامت میں سرگرم کردار ادا کرنے والے ممتاز سپاہیوں سے ملاقات میں اہم خطاب کیا۔ ایران پر صدام کی جانب سے مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران ملت ایران کے مقدس دفاع کے مختلف پہلوؤں پر رہبر انقلاب اسلامی نے روشنی ڈالی۔

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

والحمد للہ رب العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آلہ الاطیبین الطّاھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین۔ خداوند عالم کا شاکر ہوں کہ اس نے اس بندے کو ایسے جامع، بامعنی اور پرشکوہ جلسے میں حاضر ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ میں ان تمام لوگوں کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے اس جلسے کا اہتمام کیا ہے۔ اسی کے ساتھ میں ان بھائیوں اور بہنوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس جلسے کے آغاز میں، ایک گھنٹے سے زیادہ مدت تک، تلاوت قرآن ، اچھے اشعار اور ہم آہنگ ترانوں اور منقبت پر مشتمل پرگرام پیش کئے۔ اس کے علاوہ تقاریر میں بھی بہت اچھی باتیں کی گئيں۔ تقریبا وہ ساری باتیں جو دفاع مقدس اور عوام سے اس کے رابطے سے متعلق ہمارے اذہان میں ہیں، ان خواتین و حضرات کی تقاریر میں موجود تھیں۔ لیکن ان پر غور و فکر اور ان شاء اللہ راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ دفاع مقدس ہمارے ملک کی تاریخ کا ایک اہم اور ممتاز دور ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس دور اور اس واقعے کی اچھی طرح شناخت حاصل کریں اور بعد کی نسلوں کے اذہان میں اس کو منتقل کریں۔ اس دور اور اس اہم واقعے کو ہمیں صحیح طرح سمجھنا او بعد کی نسلوں کے اذہان میں منتقل کرنا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر تسلسل کے ساتھ ہماری بعد کی نسلیں، دفاع مقدس کے سبھی پہلوؤں اور مفاہیم سے واقف ہو جائيں اور جان لیں کہ اس اہم واقعے میں ایرانی قوم نے کس طرح خود کو فتحمندی کی چوٹی تک پہنچایا اور سربلندی اور استحکام کے ساتھ وہاں موجود رہی، تو یہ شناخت ان کے لئے بہت بڑا درس ہوگی اور وہ بڑے کارناموں میں آگے بڑھیں گی۔

یہ میرا یقین محکم ہے۔ اس واقعے کی عظمت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ بہت کام ہوا ہے، کتابیں لکھی گئی ہیں، فلمیں بنائي گئي ہیں، یادداشتیں تیار کی گئي ہیں لیکن میری نظر میں، ابھی بہت کام کی ضرورت ہے۔ ابھی تک ہم اس عظیم مرقع کو جس میں لا تعداد نقش و نگار پائے جاتے ہیں، صحیح طور پر نہ پہچان سکے ہیں اور نہ ہی پہچنوا سکے ہیں۔ (لیکن) اگر اس کے قریب جائيں تو دیکھیں گے کہ اس کے ہر حصے میں، اتنی زیبائي، اتنی ظرافت اور اتنی معنی دار مصوری ہے کہ انسان کو مبہوت کر دیتی ہے۔ ہر حصہ ایسا ہے۔ ان کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔

ظاہر ہے کہ میں اس جلسے میں اس ہدف کو عملی شکل دینے کا قصد نہیں رکھتا۔ ممکن بھی نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا، وسیع اور ہمہ گیر کام ہے، لیکن اس کے بعض پہلوؤں کو عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس واقعے کی عظمت سامنے آ جائے۔ اس واقعے کی عظمت کے کئی پہلو ہیں اور متعدد زاویہ ہائے نگاہ سے اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک زاویہ وہ چیز ہے جس کا دفاع کیا جاتا ہے۔ کیونکہ بحث دفاع مقدس کی ہے۔ یعنی ہم کس چیز کا دفاع کر رہے تھے۔ یہ ایک پہلو ہے۔ اگرہم اس زاویے سے دیکھیں تو اس واقعے کی عظمت کا بڑا پہلو واضح ہو جائے گا۔ ایک زاویہ یہ ہے کہ یہ دفاع کس کے مقابلے میں کیا جا رہا تھا۔

کس نے حملہ کیا تھا کہ دفاع ضروری ہو گیا تھا۔ یہ بھی ایک پہلو ہے جو میری نظر میں اہم ہے۔ تیسرا زاویہ اور نقطہ نگاہ یہ ہے کہ یہ دفاع کس کے ذریعے سے کیا گیا، دفاع کرنے والے کون تھے۔ یہ بھی ایک نئي اور اہم بات ہے۔ میں بعد میں ان میں سے ہر ایک کے بارے میں دو تین جملے عرض کروں گا۔ چوتھا زاویہ یہ ہے کہ اس دفاع کے آثار اور نتائج کیا تھے۔ میں نے ان چار زاویوں کا ذکر کیا ہے (اس واقعے کو) دوسری جہتوں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لہذا ایک بات تو یہ ہے کہ بحث کریں یعنی فکر کریں، مطالعہ کریں کہ کس چیز کا دفاع کیا جا رہا تھا۔ دوسرے کس کے مقابلے میں کیا جا رہا تھا۔ تیسرے کن لوگوں کے وسیلے سے کیا جا رہا تھا۔ چوتھے اس دفاع کا نتیجہ کیا تھا۔ میری نظر میں ان میں سے ہر ایک بہت اہم ہے۔ ہر ایک کے بارے میں غور کریں اور مطالعہ کریں۔ یہ بہت اہم ہے۔

پہلے یہ کہ "کس چیز کا دفاع کیا جارہا تھا" دفاع مقدس میں، اسلامی انقلاب، اسلامی جمہوریہ جو اسلامی انقلاب کی دین تھی اور ملک کی ارضی سالمیت کا دفاع کیا جا رہا تھا۔ یہ تین چیزیں اہم تھیں جن کا دفاع کیا جا رہا تھا۔ حریف نے ان تین چیزوں پر حملہ کیا تھا۔ دشمن کا اہم اور بنیادی نشانہ جس کی میں بعد میں دوسرے حصے میں تشریح کروں گا، ارضی سالمیت نہیں تھی۔ صدام کے نشانے پر یہ چیز تھی، اس کا نشانہ انقلاب تھا، وہ چاہتے تھے کہ اس اہم، عظیم اور بے نظیر انقلاب کو جو ایران میں عوام کی جانفشانی کی برکت سے آیا تھا، کچل دیں۔ اس کو بے نظیر کیوں کہتے ہیں؟

اس لئے کہ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس کی نظیر اس سے پہلے کے بڑے انقلابات میں رونما نہیں ہوئی تھی۔ یہ عوامی تھا، دینی تھا، مقامی تھا اور دوسروں کے اشارے پر نہیں تھا، قوم سے تعلق رکھتا تھا، عام لوگوں کا انقلاب تھا، بغاوتوں اور پارٹیوں کے انقلابات کی طرح نہیں تھا۔ یہ انقلاب ملک پر حاکم بدعنوان اور پٹھو نظام کو برطرف کرکے، ہٹا کے ایک نیا نظام لایا تھا اور اس نے نئي حکمرانی قائم کی تھی۔ یعنی اسلامی جمہوری نظام قائم کیا تھا۔ جمہوریت یعنی عوام کی حکومت، اسلامی یعنی دینی یعنی دینی عوامی حکمرانی۔ یہ دنیا میں ایک نئی حقیقت تھی۔ تاریخ میں دینی حکومتیں ملتی ہیں، لیکن ان میں عوامی حکمرانی نہیں تھی۔ عوامی حکومتیں تو تھیں، اب حقیقی یا ظاہری اور نام کی (جیسی بھی)، لیکن ان میں دین نہیں تھا۔

ایسی حکومت اور ایسا نظام جس میں دین و دنیا، دنیا و آخرت، عوام اور خدا دونوں دخیل ہوں، اس کو قائم کرنے والے دونوں ہوں، ایسی چیز پہلے نہیں تھی۔ یہ ہوا تھا۔ اس کو کچلنا اور اس پر غلبہ پانا چاہتے تھے، اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ ان کا ہدف یہ تھا۔ اب بھی ان کا ہدف یہی ہے۔ اب بھی مختلف بہانوں سے اٹھتے ہیں۔ جو اسلامی جمہوریہ کے حریف ہیں، اس کے مقابلے پر ہیں، اس سے دشمنی کرتے ہیں، ان کا مسئلہ اسلامی جمہوریہ ہے، ذیلی باتیں دوسرے درجے کی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے۔ اس زمانے میں بھی یہی تھا۔

البتہ اس درمیان ایک خبیث، لالچی، بھوکا اور تمام انسانی اصولوں سے عاری شخص صدام دوسرا ہدف بھی رکھتا تھا۔ وہ اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنے کے ساتھ ہی ہمارے ملک کی ارضی سالمیت کو بھی نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ وہ غارتگری، تیل اور ملک کی دولت و ثروت کی لوٹ مار اور اس کی تقسیم کا ارادہ بھی رکھتا تھا۔ اس کے پیش نظر یہ بھی تھا، لیکن دوسرے اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ان کا اصلی مسئلہ وہی تھا۔ اس میں بہت فرق ہے کہ کوئي جنگ دو ملکوں کے درمیان سرحدوں کی تبدیلی کے لئے ہو اور کوئی جنگ کسی قوم کا تشخص ختم کر دینے کے لئے ہو۔

دنیا میں جنگیں بہت ہوئی ہیں، جو سرحد کی جنگیں ہیں، زمین پر قبضہ کرنے کے لئے ہوئی ہیں لیکن وہ جنگ جس میں قوم کے تشخص، ملک کے وقار اور قوم کی جانفشانی کے نتائج کو، اسلامی انقلاب کو ہدف بنایا جائے، ان جنگوں سے بہت الگ ہے۔ یہ واقعہ ان واقعات سے بہت مختلف ہے۔ بنابریں وہ چیز جس کا دفاع کیا جا رہا تھا، یہ بنیادی اور اہم نکات تھے۔ مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہ سرحد کا ایک حصہ پیچھے چلا جاتا ہے یا آگے بڑھ جاتا ہے اور جغرافیائی سرحدیں بدل جاتی ہیں۔ البتہ اگر یہ بھی ہوتا تب بھی اہم تھا، لیکن اس کی اہمیت اور اس سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دفاع مقدس کا وہ زاویہ ہے کہ جس کا دفاع کیا جا رہا تھا۔

اور اب دوسرا زاویہ۔ یعنی "حملہ کرنے والے کون تھے"۔ اگر اس نقطہ نگاہ سے بھی اس کو دیکھا جائے تو بھی دفاع مقدس کی اہمیت اور عظمت واضح ہوگی۔ کبھی کوئی ملک دوسرے ملک پر حملہ کرتا ہے، دو رکنی، تین رکنی کوئي اتحاد، دو حکومتیں اور دو طاقتیں کسی پر حملہ کرتی ہیں۔ لیکن ایک دفعہ پوری دنیا کسی ملک پرحملہ کر دیتی ہے۔ معاملہ یہ تھا۔ یہ جو میں عرض کر رہا ہوں، یہ مبالغہ نہیں ہے۔ ہم جو پوری " پوری دنیا" کہتے ہیں تو ہمارے پیش نظر عالمی امور میں کوئي غیر موثر دور افتادہ ملک نہیں ہے۔

اس دور کی دنیا کی سبھی اہم طاقتیں ایک محاذ پر جمع ہو گئيں اور ہم پر، اسلامی جمہوریہ پر اور اسلامی انقلاب پر حملے میں شریک تھیں۔ امریکا ایک طرح سے، مختلف یورپی ممالک میں سے ہر ایک، الگ طریقے سے، سوویت یونین کی سربراہی میں اس وقت کا مشرقی بلاک ایک طرح سے۔ کہا جاتا تھا کہ ایران پر حملے کے لئے اصل ورغلانے والے امریکی تھے۔ اس سلسلے میں دستاویزات شائع ہو چکی ہیں، میں نے ان کی تحقیق نہیں کی ہے نہ ہی دیکھی ہیں، لیکن کہا جاتا تھا، رائج اور مشہور تھا کہ ایران پر حملے کے لئے صدام کو اصلی ورغلانے والے امریکی تھے۔

اس کے بعد جنگ کے دوران انٹلیجنس مدد بھی امریکی کر رہے تھے۔ وہ دور آج کی طرح نہیں تھا۔ اس وقت اتنے وسائل نہیں تھے، فضائي نقشوں تک امریکیوں کو آسان دسترسی حاصل تھی، وہ ہمارے فوجیوں کے مراکز اوران کی صفوں کا نقشہ تیار کرتے تھے اور مستقل طور پر ان کو دیا کرتے تھے۔

یہ مسلمہ بات ہے کہ امریکی یہ مدد کرتے تھے۔ جنگ کے طریقوں اور دوستوں کے الفاظ میں جو"ٹیکٹکس" کے بجائے "وے آف ایکشن" کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، ہمارے وے آف ایکشن یعنی ہماری ٹیکٹکس کی تفصیلات صدام کو بھیجا کرتے تھے۔ اسی طرح یورپ والے، فرانسیسی، فضائي جنگ کے جدید ترین وسائل عراق کو دے رہے تھے۔ میراج جنگی طیارے سپر ایٹینڈرڈ طیارے، اگزوسٹ میزائل۔ یہ اس دور کے پیشرفتہ ترین وسائل تھے جو صدام کو فراہم کئے گئے تھے۔

جرمنوں نے کیمیائی اسلحے تیار کرنے کے ضروری وسائل صدام کو دیے اور کیمیائی ہتھیار تیار کرنے میں اس کی مدد کی جس نے ایران پر اور خود عراق کے اندر حلبچہ پر کیمیائي حملے کئے۔ وہی جو آج دعویدار بنے پھرتے ہیں، ایسے جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔

مشرقی بلاک نے بھی، سابق سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے ممالک نے، عراق نے فضائي اور زمینی جنگ کے جو وسائل بھی طلب کئے، اس کو دیے۔ اس کو جس چیز کی بھی ضرورت تھی، دی۔ چونکہ میزائل مہنگا تھا اس لئے اس کے توپخانے کو اس طرح تیار کیا کہ اس سے، جس کا خرچ کم تھا، تہران پر حملہ کرکے خلل پیدا کرے۔ جو بھی کر سکتے تھے، اس کے لئے کیا۔

خود ہمارے علاقے کے عربوں نے، عرب ملکوں نے بے شمار دولت اس کو فراہم کی۔ وہ یورپی ملکوں سے جو چیز بھی خریدتا تھا، اس کی قیمت ہمارے عرب دوستوں کے ان پیسوں سے ادا کرتا تھا جو انھوں نے اس کے اختیار میں دیے تھے۔ اس کو پیسے بھی دیے، رفت و آمد کا راستہ بھی دیا۔ خلیج فارس کی جنوبی سرحد کا علاقہ بھاری گاڑیوں اور ٹرکوں کی آمد و رفت کا مستقل راستہ تھا، اس سے جنگی وسائل عراق پہنچاتے تھے۔

یعنی سب نے مدد کی۔ حملہ آور یہ تھے۔ ہمارا کیا حال تھا؟ ہماری مدد کرنے والا کوئي نہ تھا۔ وہ وسائل اور اسلحے بھی جن کا ہم پیسہ دینے کے لئے تیار تھے، ہمیں نہیں دیے جاتے تھے۔ بعض شاذ و نادر مواقع ہیں جب معمول سے بہت زیادہ پیسے دے کر ہم بہت مشکل سے، کہیں سے کوئي چیز خرید کے لا سکے جس کی اس غیر مساوی جنگ میں کوئی تاثیر نہیں تھی کہ اس سے یہ نابرابری تھوڑی سی بھی کم ہو جاتی، تو ایسا نہیں ہوا۔ ایک ایسی جنگ اور ایک ایسی مقابلہ آرائی میں ایرانی قوم نے فتحمندی کی چوٹی سر کی، وہاں کھڑی ہوئی اور اپنا شکوہ دنیا کو دکھا دیا۔ عظمت یہ ہے۔

تیسرا زاویہ کہ "دفاع کرنے والے کون تھ"۔ یہ بھی استثنائی پہلو ہے۔ فوج تھی، سپاہ پاسداران تھی، سپاہ کے دستوں میں عوامی رضاکار فورس بسیج کے سپاہی تھے۔ یہ کم و بیش ویسی ہی چیزیں ہیں جو دنیا میں ہوتی ہیں، یعنی بظاہر مسلح دستے ہیں جو موجود ہیں۔ لیکن مسئلہ صرف یہ نہیں تھا۔ یہ مسئلہ نہیں تھا۔ جی ہاں بظاہر دفاع کرنے والے، فوج اور سپاہ پاسداران اور دنیا میں رائج تنظیموں کی شکل میں دستے تھے، لیکن باطن میں کوئي اور چیز تھی۔ باطن میں دنیا کی لشکر کشی سے کوئی شباہت نہیں تھی۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کے کمانڈر ایک خدائی انسان، ہمارے امام بزگوار(امام خمینی رحمت اللہ علیہ) تھے۔ ایک بے نظیر خدائي ہستی جو مختلف جہت سے، علم و دانش، فکر، تجربے اور پختگی کے ساتھ ہی پاکیزہ روح اور باطنی پاکیزگی کی مالک تھی۔ لہذا ان کی باتیں اثر رکھتی تھیں۔ مثال کے طور پر جب انھوں نے کہا کہ 'پاوہ' کو آزاد کرایا جانا چاہئے تو میں نے خود شہید چمران سے سنا ہے کہ دوپہر بعد دو بجے جیسے ہی ریڈیو سے امام کا پیغام نشر ہوا، وہ پاوہ میں محاصرے میں تھے اور ان کے اطراف میں قبضہ ہو چکا تھا۔ ایک دفعہ یہ پیغام نشر ہوتے ہی، جبکہ ابھی فورس نہیں پہنچی تھی، شاید ابھی چلی بھی نہیں تھی، ہم نے دیکھا کہ ہمارے اطراف میں راستے کھل گئے"۔

اس پیغام میں تاثیر تھی، اس کلام میں اثر تھا۔ یہ میں نے خود اس عزیز شہید چمران سے سنا ہے۔ یا جب انھوں نے کہا کہ آبادان کا محاصرہ ٹوٹنا چاہئے (3)۔ تو محاصرہ ٹوٹ گیا۔ بہت سے دیگر واقعات میں، مثال کے طور پر سوسنگرد کے معاملے میں، اس گومگو کی کیفیت میں جو سوسنگرد پر حملے کے تعلق سے پائی جاتی تھی کہ جائيں اور دفاع کریں یا نہ کریں، مشکلات تھیں، جب امام کا پیغام پہنچا تو مسئلہ حل ہو گیا۔ ان کے جیسا کمانڈر تھا جس کی بات میں تاثیر تھی جو معنویت اور صفائے باطن کے مالک تھے۔

اور پھر دفاع مقدس کا دینی رنگ۔ دینی رنگ۔ جب رنگ دینی ہو تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ نوجوان شوق شہادت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ یہ زندگی نامے اور تذکرے جو لکھے گئے ہیں انہیں پڑھیں، شوق شہادت کے ساتھ، شہادت کی آرزو میں آگے بڑھتے تھے۔ محاذ پر جانے کے لئے گریہ کرتے تھے، اس امید پر کہ شہید ہو سکیں۔ دینی رنگ کا نتیجہ یہ ہے۔ گھر والے، ماں باپ، شریک حیات، سب اس بات پر راضی ہو جاتے تھے کہ یہ جوان خدا کے لئے، محاذ پر جائے۔ میں نے بارہا ماداران شہدا کی قریب سے زیارت کی ہے۔

جن کا ایک بیٹا یا دو بیٹے شہید ہوئے ہیں، وہ کہتی تھیں کہ اگر دس بیٹے ہوتے تو ان سب کی شہادت کے لئے آمادہ تھیں۔ وہ سچ کہہ رہی تھیں۔ حقیقت کہہ رہی تھیں۔ خود اس نمائش میں مجھے ایک خاتون کو دیکھایا جو نو شہیدوں کی ماں تھی۔ مذاق ہے؟ نو شہیدوں کی ماں، آٹھ شہیدوں کی ماں۔ یہ قابل تصور ہے؟ لیکن یہ ہوا۔ خود میں نے کردستان میں ایک گھرانہ دیکھا جس کے سات افراد، اس وقت جو میرے ذہن میں ہے، وہ یہ ہے کہ سات افراد، شہید ہوئے۔ پہلی بار جب اس گھرانے کو دیکھا تو شہیدوں کی ماں زندہ تھی، ان کا باپ بھی زندہ تھا۔ بعد میں باپ اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔ سات شہید ایک خاندان کے۔ اس کا عامل دین کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ دین کا عامل ان کا مدافع تھا۔

ہمارے محاذ کی اگلی صفیں محراب عبات تھیں۔ آدھی رات کے وقت کوئی جوان، کمانڈر یا عام سپاہی، ایک دستہ، ایک بٹالین بیٹھ کے آنسو بہائے، گریہ و زاری کرے، عبادت کرے، یہ ایک دو یا دس واقعات نہیں ہیں جو نقل کئے گئے ہیں، اس محاذ کے سبھی سیکٹروں پر یہی حالت تھی۔ آپ دنیا میں کہاں، کس جنگ میں، کس فوجی لڑائي میں یہ بات پاتے ہیں؟ شوق شہادت، توسّل، خدا پر توجہ، آرزوئے شہادت وغیرہ۔

اس کے بعد عوامی مشارکت۔ جنگ کا محاذ صرف لڑائی کی جگہ نہیں تھی، محاذ کا پچھلا حصہ بھی جنگی محاذ تھا۔ (مثال کے طور پر) افواج کی تیاری اور فراہمی کا مرکز۔ دنیا میں فوجی چھاونیاں محاذ کے لئے افواج فراہم کرتی ہیں۔ یہاں فوجی چھاونیاں بھی تھیں، یونیورسٹیاں بھی تھیں، دینی مدارس بھی تھے، اسکول اور کالج بھی تھے۔ ٹیچر محاذ پر جاتے تھے، ان کے پیچھے پیچھے ان کے شاگرد بھی چل پڑتے تھے، محاذ پر جاتے تھے۔ اسکولوں اور کالجوں کے کتنے طلبا شہید ہوئے ہیں، کتنے یونیورسٹی طلبا شہید ہوئے ہیں، کتنے دینی مدارس کے طلبا شہید ہوئے ہیں! ہماری مساجد، ہمارے منبر، ہمارے خطیب، سبھی اس عظیم تحریک میں شریک تھے۔ یعنی ان کی بڑی تعداد اس میں شریک تھی۔ دفاع کرنے والے یہ تھے۔

سپورٹ کے مختلف مراکز، خاندان، گھریلو خواتیں، دوسرے افراد، محاذ جنگ کے مجاہدین کی سپورٹ کے مراکز میں، سپاہیوں کے خون آلود کپڑے دھونے، حوض خون، جس پر کتاب لکھی گئی، (4) میں نے بھی ایک بار نام لیا (5) اسی طرح کے دوسرے امور، پوری قوم سرگرم عمل تھی۔ یہ نہیں کہتا کہ قوم کا ہر فرد لیکن عوام کی عمومی سطح پر سبھی لوگ اور سماج کے مختلف طبقات، سبھی اس تحریک میں شریک تھے۔ کسی بھی واقعے کی عظمت کو اس پہلو اور اس طریقے سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔

میری نظر میں، اس حصے میں خاص طور پر اس تیسرے حصے میں، آرٹ اور فن کے سہارے حقیقت بیان کرنے والے دسیوں کام کئے جا سکتے ہیں۔ صرف کتاب لکھنا ہی تو نہیں ہے۔ البتہ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس حوض خون کتاب کی بنیاد پر ایک فلم بنائي جا رہی ہے۔ اس طرح کے سیکڑوں دلکش کام کئے جا سکتے ہیں۔ اور ان شاء اللہ انجام دیے جائيں گے۔ اب تک جو کام کئے گئے ہیں ان میں اضافہ ہونا چاہئے۔

اور اب نتائج کے نقطہ نگاہ سے۔ نتائج ایک دو تو نہیں ہیں۔ اب اگر کوئی اس زاویے سے جائزہ لینا چاہے کہ دفاع مقدس کے نتائج کیا تھے، ایک نہیں بلکہ دسیوں جلد کتابیں درکار ہوں گی۔ میں اس سلسلے میں صرف دو تین نکات عرض کروں گا۔

ایک ملک کی ارضی سالمیت کا تحفظ ہوا۔ یہ کام اہم ہے۔ یعنی پوری دنیا اس سرحد کو توڑنے کے لئے صدام کی پشت پر کھڑی تھی لیکن اس ملک کی ایک بالشت زمین بھی نہیں گئي۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ چھوٹی بات نہیں ہے۔ بہت اہم ہے۔ یہ ایک نتیجہ ہے۔ دیگر بہت سے نتائج اس سے اہم تر ہیں۔

ایک نتیجہ یہ تھا کہ ایرانی قوم کو اپنی توانائیوں کا علم ہو گیا۔ آپ ملاحظہ فرمائيں یہ نوجوان خواتین و حضرات جو یہاں آئے اور بولے، مستقل طور پر کہتے ہیں کہ ہمیں ملک چلانے، ملک کے انتظام و انصرام اور معیشت وغیرہ میں، مسلط کردہ جنگ کے دور اور دفاع مقدس کے طریقوں سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقدس دفاع، اسی شعبے میں ایرانی قوم کی اتنی توانائیاں آشکار ہوئی ہیں کہ چاہتے ہیں کہ ملک چلانے اور ملک کی پیشرفت اور سربلندی کے لئے ان پروگراموں کی پیروی کریں۔


یعنی مقدس دفاع نے ایرانی قوم کے سامنے ایسی تصویر پیش کر دی جس سے ملت ایران نے خود کو پہچان لیا۔ تاریخ میں جو کچھ ہم سے کہا گیا تھا، اور ہمارے ساتھ جو کچھ کیا گیا تھا، وہ اس کے برعکس تھا۔ قاجار کے دور میں، پہلوی حکومت کے دور میں ہمیشہ ہمیں یہ باور کرایا گیا کہ ہم نہیں کر سکتے، ہم کچھ بھی نہیں ہیں، عالمی طاقتیں ایک اشارے میں ہمیں زمین سے معدوم کر سکتی ہیں۔ ہمیں یہ بتایا گیا تھا۔ ہمیشہ ہم سے یہ کہا گیا تھا کہ ہمیں ان سے سیکھنا چاہئے۔ ان کی پیروی کرنا چاہئے، ان سے درخواست کرنا چاہئے۔ مقدس دفاع نے دکھا دیا کہ نہیں، وہ سب جن سے بعض لوگوں کا رشتہ حیات اور امیدیں وابستہ ہیں، وہ سب متحد ہوتے ہیں، قوم پر حملہ کرتے ہیں اور کچھ بھی نہیں بگاڑ پاتے۔

دفاع مقدس نے قوم کو یہ دکھا دیا۔ یعنی ہمیں اپنی توانائیوں کا علم ہو گیا۔ ہم سمجھ گئے کہ شہید حسن باقری جیسا ایک نوجوان، میں زندہ لوگوں کا نام نہیں لینا چاہتا۔ زندہ افراد میں بھی ایسے لوگ بہت ہیں، اٹھتا ہے، میدان جنگ میں آتا ہے اور تھوڑے ہی عرصے میں جنگی حکمت عملی تیار کرنے والا ماہر بن جاتا ہے۔ رائج الفاظ میں، دفاع اور جنگ کا اسٹریٹیجسٹ ہو جاتا ہے۔ یہ استعداد حاصل کرنا مذاق ہے؟ یہ استعداد کہاں تھی؟ شہید حسن باقری ایک نوجوان تھے، ایک اخبار کے نامہ نگار تھے۔ روزنامہ جمہوری اسلامی میں مضمون لکھا کرتے تھے[50]۔

ولایت فقیہ، فقہی نظریے سے کہیں آگے؛ جمہوریہ اسلامی میں ایک زندہ تجربہ

گزشتہ چار دہائیوں میں ولایت فقیہ انقلاب اسلامی کو بحرانوں سے نکالنے اور قومی یکجہتی کو محفوظ رکھنے کا سب سے اہم عامل رہی ہے؛ وہ کردار جسے آج حوزہ علمیہ کو زمانے کی زبان میں نسلِ جوان کے لئے بیان کرنا چاہیے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انقلاب اسلامی ایران نے اپنے قیام کے بعد چار دہائیوں میں مسلط شدہ جنگ، بیرونی دباؤ اور سیاسی و اقتصادی بحرانوں کا سامنا کیا لیکن ان تمام تر چیلنجز کے باوجود اپنی راہ پر قائم رہا اور ڈٹا رہا۔ اس پائیداری کا سب سے بڑا راز دینی قیادت اور ولایت فقیہ کا وہ مقام ہے جس نے ستونِ خیمۂ انقلاب کی حیثیت سے وحدتِ ملی اور سماجی انسجام کو محفوظ رکھا۔

ولایت فقیہ کا تجربہ جمہوریہ اسلامی میں صرف ایک فقہی نظریہ نہیں رہا بلکہ نظامِ سیاسی کی مشروعیت اور کارآمدی کا ضامن ہے۔ رہبری دینی پر عوام کا اعتماد ایک ایسا سرمایہ ہے جس نے ملت کو بے مثال دباؤ کے مقابلے میں استقامت عطا کی ہے۔ جب بھی ملک پر بحرانوں کا سایہ گہرا ہوا ہے، ولایت فقیہ کی رہنمائی نے مشکل گھاٹیوں کو عبور کرنے میں راہ ہموار کی ہے۔

آج معاشرہ پہلے سے کہیں زیادہ ثقافتی اور میڈیا کے تغیرات کے سامنے ہے۔ نسلِ جوان نئے سوالات اور فکری الجھنوں سے دوچار ہے اور واضح و منطقی جوابات کی توقع رکھتی ہے۔ اگر ولایت فقیہ کا مقام تبیین کرنے کا انداز صرف روایتی قالبوں تک محدود رہے تو امکان ہے کہ یہ نسل اپنے سوالات کو بے جواب سمجھے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حوزہ علمیہ کی رسالت آشکار ہوتی ہے؛ حوزہ علمیہ کو چاہیے کہ وہ گفتگو کے نئے اسلوب تلاش کرے اور استدلال، شواہد اور عملی مثالوں کے ذریعے ولایت فقیہ کی اہمیت کو بیان کرے۔

انقلاب اسلامی تہذیبِ نوینِ اسلامی کی تشکیل کے راستے پر گامزن ہے اور یہ راستہ ولایت فقیہ کے بغیر سرگردانی کا شکار ہوگا۔ حوزہ علمیہ اپنی علمی و معنوی سوابق کے ساتھ اس راہ کا ضامن بن سکتا ہے بشرطیکہ فکر و نظر اور میدانِ عمل دونوں میں فعال اور وقت شناس کردار ادا کرے۔

ولایت فقیہ انقلاب اسلامی کا مضبوط ستون اور نظام کی سیاسی مشروعیت کی اصل پشتوانہ ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں کے تجربات نے دکھایا ہے کہ جب بھی معاشرہ بڑے بحرانوں سے دوچار ہوا، ولایت فقیہ کی رہنمائی اور سکون بخش کردار نے انقلاب کے راستے کو ہموار کیا۔ آج حوزہ علمیہ پر پہلے سے کہیں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ روشن زبان اور اپنی فعال موجودگی کے ساتھ اس مقام کو نئی نسلوں کے لئے تبیین اور پاسداری کرے[51]۔

موجودہ حالات میں امریکہ سے مذاکرات نہ مفید ہیں اور نہ کسی نقصان کو روک سکتے ہیں

رہبر انقلاب اسلامی اس وقت ٹیلی ویژن پر ایرانی عوام سے خطاب کر رہے ہیں۔ یہ خطاب ملکی اور علاقائی حالات کے تناظر میں انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے آج ٹیلی ویژن پر ایرانی عوام سے خطاب کرتے ہوئے نئی تعلیمی سال کی آمد پر مبارکباد دی اور کہا کہ ماہِ مہر علم، دانش اور حرکت کی علامت ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاکھوں نوجوان اور بچے تعلیم کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں اور یہ ایران کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ رہبر انقلاب نے نوجوانوں کی علمی اور ورزشی کامیابیوں پر خاص طور پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ بین الاقوامی مقابلوں میں ایرانی طلبہ نے 40 میڈل جیتے، جن میں 11 طلائی تمغے شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران نے عالمی اولمپیاڈِ نجوم میں پہلی پوزیشن حاصل کی، جب کہ دیگر علمی شعبوں میں بھی نمایاں کارکردگی دکھائی۔ کھیلوں کے میدان میں بھی ایران کے نوجوانوں نے والی بال اور کشتی جیسے مقابلوں میں عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

انہوں نے حکومتی ذمہ داران، خصوصاً وزارتِ تعلیم، وزارتِ علوم اور وزارتِ صحت کو نصیحت کی کہ وہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اہمیت دیں اور انہیں مزید ترقی کے مواقع فراہم کریں۔ خطاب کے آغاز میں انہوں نے سید حسن نصرالله کی رحلت پر اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سید حسن نصراللہ چلے گئے، لیکن وہ جو فکری و معنوی سرمایہ بنا کر گئے ہیں، وہ ہمیشہ باقی رہے گا۔

12 روزہ جنگ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایرانی قوم کے اتحاد نے دشمن کو مایوس کردیا۔ دشمن کا مقصد صرف فوجی کمانڈروں کو نشانہ بنانا نہیں تھا، بلکہ وہ چاہتے تھے کہ ملک میں بدامنی پھیلے، خاص طور پر تہران میں شورش ہو، اور لوگ سڑکوں پر آجائیں۔ لیکن عوام نے دشمن کے ایجنٹوں کی باتوں پر توجہ نہیں دی، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی انہیں روک دیا۔ یوں دشمن کی سازش ناکام ہوگئی۔

رہبر انقلاب نے زور دیا کہ اتحاد کا جذبہ اب بھی باقی ہے۔ کچھ لوگ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ یہ اتحاد صرف جنگ کے دنوں تک محدود تھا، لیکن یہ بات بالکل غلط ہے۔ انہوں نے یورینیم کی افزودگی کے بارے میں کہا کہ یہ صرف ایٹمی توانائی کا مسئلہ نہیں بلکہ زراعت، خوراک، صنعت، ماحولیات اور قدرتی وسائل جیسے کئی شعبوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس موضوع پر ماہرین کو عوام سے بات کرنی چاہیے تاکہ لوگ اس کی اہمیت کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔

شہید سید حسن نصراللہ کو خراجِ عقیدت

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شہید سید حسن نصراللہ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید حسن نصر اللہ اسلامی دنیا کے لئے عظیم سرمایہ تھے۔ ایرانی قوم سے اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان دنوں، مجاہدِ کبیر شہید سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کے موقع پر، ان کی یاد تازہ کی جائے۔ سید حسن نصراللہ نہ صرف تشیع اور لبنان بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم سرمایہ تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یقینا یہ سرمایہ ضائع نہیں ہوا۔ وہ چلے گئے، لیکن جو سرمایہ انہوں نے پیدا کیا، وہ باقی ہے۔ رہبر انقلاب نے حزب اللہ لبنان کی جدوجہد کو ایک جاری داستان قرار دیتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ کی کہانی ایک مسلسل سلسلہ ہے۔ اسے کم نہ سمجھا جائے اور نہ ہی اس عظیم سرمایہ سے غفلت برتی جائے۔ یہ سرمایہ لبنان کے لیے بھی ہے اور لبنان سے باہر کے لیے بھی۔

ہمیں ایٹمی ہتھیار کی ضرورت نہیں

انہوں نے کہا کہ آج ہم یورینیم کی افزودگی کے لحاظ سے ایک بلند سطح پر ہیں۔ وہ ممالک جو ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتے ہیں، افزودگی کو ۹۰ فیصد تک لے جاتے ہیں، لیکن چونکہ ہمیں ایٹمی ہتھیار کی ضرورت نہیں اور ہمارا فیصلہ بھی یہی ہے کہ ہم ایسا ہتھیار نہیں بنائیں گے، اس لیے ہم نے افزودگی کو 60 فیصد تک بڑھایا ہے۔ یہ ایک بہت اچھا فیصد ہے، اور ہمارے ملک کی بعض ضروریات کے لیے کافی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس حد تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ دنیا کے 200 سے زائد ممالک میں صرف 10 ممالک ایسے ہیں جو یورینیم کی افزودگی کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور ایران ان دس میں شامل ہے۔ ان میں سے باقی نو ممالک کے پاس ایٹمی بم بھی ہیں، لیکن ایران واحد ملک ہے جس کے پاس ایٹم بم نہیں ہے، اور نہ ہی اسے بنانا چاہتا ہے۔ ہمارا ارادہ صرف سائنسی ترقی اور ملکی ضروریات کے لیے افزودہ کرنا ہے۔

امریکہ سے مذاکرات کے نقصانات

رہبر معظم انقلاب نے قوم سے خطاب میں کہا کہ سیاستدان امریکہ سے مذاکرات کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے مفید اور ضروری سمجھتے ہیں، کچھ اسے نقصان دہ کہتے ہیں، اور کچھ درمیانی رائے رکھتے ہیں۔ مختلف باتیں کی جاتی ہیں۔

میں وہ بات ملت عزیز ایران سے کہنا چاہتا ہوں جو میں نے ان برسوں میں خود دیکھی، سمجھی اور محسوس کی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ موجودہ حالات میں امریکہ سے مذاکرات نہ ہمارے لیے فائدہ مند ہیں، نہ ہی کوئی نقصان ہم سے دور کریں گے۔ یعنی یہ ایسا کام ہے جس میں نہ کوئی فائدہ ہے، نہ کوئی نقصان کا ازالہ بلکہ بالکل بے اثر ہے۔ یہ میں موجودہ حالات کے بارے میں بات کررہا ہوں ممکن ہے 20 یا 30 سال بعد حالات بدل جائیں، لیکن آج کی صورتحال میں مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ سے مذاکرات نہ صرف مفہد نہیں، بلکہ اس کے بڑے نقصانات بھی ہیں۔ بعض نقصانات تو ایسے ہیں کہ شاید ان کی تلافی ممکن نہ ہو۔ میں ان نقصانات کی تفصیل بعد میں بیان کروں گا۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مذاکرات ہمارے لیے فائدہ مند نہیں کیونکہ امریکہ پہلے ہی سے مذاکرات کا نتیجہ طے کرچکا ہے۔ وہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ صرف ایسے مذاکرات کو قبول کریں گے جن کا نتیجہ ایران میں ایٹمی سرگرمیوں اور یورینیم کی افزودگی کو بند کرنا ہو۔ یہ مذاکرات نہیں، بلکہ ایک طرح کی زبردستی ہے۔ اور ایسی زبردستی کا کوئی فائدہ نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب مذاکرات کی پیشکش دھمکیوں کے ساتھ ہو، تو کوئی باعزت قوم ایسی بات کو قبول نہیں کرتی۔ اگر کوئی فریق یہ کہے کہ اگر مذاکرات نہ کیے تو ہم بمباری کریں گے یا کوئی اور اقدام کریں تو یہ دراصل مذاکرات نہیں بلکہ زبردستی ہے۔ اگر ہم ایسی دھمکیوں کے تحت مذاکرات کریں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ہر دھمکی سے فورا ڈر جاتے ہیں، گھبرا جاتے ہیں اور سامنے والے کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ یہ رویہ ایران اسلامی کے شایان شان نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایک بار ہم دھمکیوں کے آگے جھک گئے، تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ آج وہ کہتے ہیں کہ اگر افزودگی جاری رکھی تو ہم ایسا کریں گے، کل کہیں گے اگر میزائل رکھے تو ہم ویسا کریں گے، پھر کہیں گے اگر فلاں ملک سے تعلقات نہ رکھے تو ہم کچھ کریں گے، یا اگر تعلقات رکھے تو ہم کچھ اور کریں گے[52]۔

رہبرِ انقلاب اسلامی کا امریکی صدر سے سوال: "آخر تم ہوتے کون ہو؟!"

رہبر انقلاب اسلامی نے پیر 20 اکتوبر 2025 کی صبح کو کھیلوں کے مختلف عالمی مقابلوں اور بین الاقوامی سائنسی اولمپیاڈز میں میڈل حاصل کرنے والے سیکڑوں افراد اور چیمپینز سے ملاقات کی۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے پیر 20 اکتوبر 2025 کی صبح کو کھیلوں کے مختلف عالمی مقابلوں اور بین الاقوامی سائنسی اولمپیاڈز میں میڈل حاصل کرنے والے سیکڑوں افراد اور چیمپینز سے ملاقات کی۔

انھوں نے اس موقع پر اپنے خطاب میں ملک و قوم کے لیے ان افتخار آفریں کھلاڑیوں اور میڈل حاصل کرنے والوں کو قوم کی پیشرفت کا مظہر اور طاقت کا جلوہ بتایا اور کہا کہ آپ نے ثابت کر دیا کہ قوم کے مظہر کی حیثیت سے ایران عزیز کے امید آفریں جوان میں یہ طاقت پائی جاتی ہے کہ وہ سب سے اونچی چوٹیوں پر کھڑے ہوں اور دنیا کے ذہنوں اور آنکھوں کو ایران کی منور فضا کی طرف متوجہ کرائيں۔

انھوں نے ایسے پرعزم جوانوں کے درمیان اپنی موجودگي پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے، جنھوں نے کھیل اور سائنس کے میدانوں میں اپنی کوششوں اور حوصلے سے قوم کو خوش کیا اور جوانوں کو اشتیاق دلایا، کہا کہ آپ کے تمغے، دوسرے زمانوں کے تمغوں سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ آپ نے یہ تمغے ایسے حالات میں حاصل کیے ہیں کہ دشمن، سافٹ وار کے ذریعے قوم کو مایوس کرنا اور اپنی توانائیوں کی طرف سے اسے غافل اور ناامید کرنا چاہتا ہے تاہم آپ نے میدان عمل میں قوم کی طاقت و توانائی کا اظہار کر کے اس کو سب سے دنداں شکن جواب دیا ہے۔

آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اسی طرح امریکی صدر کی حالیہ ہرزہ سرائي اور بکواس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص نے کوشش کی کہ اپنے اوچھے رویے اور خطے، ایران اور ایرانی قوم کے بارے میں بے تحاشا جھوٹ کے ذریعے صیہونیوں کی حوصلہ افزائی کرے اور خود کو طاقتور ظاہر کرے تاہم اگر اس میں طاقت ہے تو ان دسیوں لاکھ لوگوں کو پرسکون کرے جو امریکا کی مختلف ریاستوں میں اس کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔

انھوں نے بارہ روزہ جنگ میں صیہونی حکومت پر پڑنے والے اسلامی جمہوریہ کے ناقابل یقین تھپڑ کو صیہونیوں کی مایوسی کا سبب بتاتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کو توقع نہیں تھی کہ ایران کے میزائيل، ان کے حساس اور اہم مراکز تک پہنچ جائيں گے اور ان مراکز کو تباہ کر کے راکھ میں بدل دیں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایران نے میزائیل کہیں سے خریدے نہیں ہیں بلکہ وہ ایرانی جوانوں کے ہاتھوں کے بنے ہوئے ہیں، کہا کہ جب ایرانی جوان میدان میں آتا ہے اور اپنی کوششوں سے سائنسی انفراسٹرکچر تیار کر دیتا ہے تو وہ اس طرح کے بڑے بڑے کام کرنے کی توانائی رکھتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری مسلح فورسز اور فوجی صنعتوں کے پاس یہ میزائيل پہلے سے تیار تھے اور انھوں نے انھیں استعمال کیا اور ان کے پاس ایسے مزید میزائيل ہیں اور اگر ضرورت ہوئی تو وہ کسی وقت پھر انھیں استعمال کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ غزہ کی جنگ میں یقینی طور پر امریکا صیہونی حکومت کا اصلی شریک جرم ہے جیسا کہ خود امریکی صدر نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ہم غزہ میں اس حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے، البتہ اگر وہ یہ اعتراف نہ بھی کرتے تب بھی بات پوری طرح واضح تھی کیونکہ غزہ کے بے سہارا لوگوں کو امریکی ہتھیاروں سے ہی نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے دہشت گردی سے امریکا کی جنگ کے ٹرمپ کے دعوے کو ان کی جھوٹی باتوں کا ایک اور نمونہ بتایا اور کہا کہ غزہ کی جنگ میں بیس ہزار سے زیادہ چھوٹے اور نومولود بچے شہید ہوئے، کیا وہ دہشت گرد تھے؟ دہشت گرد امریکا ہے جس نے داعش کو وجود بخشا اور اسے خطے کے لوگوں کی جان کے پیچھے لگا دیا اور آج بھی وہ داعش کے بہت سے افراد کو اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے تاکہ وقت پڑنے پر انھیں استعمال کر سکے۔

انھوں نے غزہ کی جنگ میں ستّر ہزار لوگوں کے قتل اور اسی طرح بارہ روزہ جنگ میں ایک ہزار سے زیادہ ایرانیوں کی شہادت کو امریکا اور صیہونی حکومت کی دہشت گردی کا کھلا ثبوت بتایا اور کہا کہ انھوں نے لوگوں کا اندھادھند قتل کرنے کے علاوہ طہرانچی اور عباسی جیسے ہمارے سائنسدانوں کو بھی نشانہ بنایا اور اس جرم پر فخر کیا لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ سائنس کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکی صدر کی ان باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن میں انھوں نے ایران کی ایٹمی صنعت پر بمباری پر فخر کرتے ہوئے انھیں تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا، کہا کہ کوئی بات نہیں، آپ اسی خیال میں رہیے لیکن آپ ہیں کون کہ اگر کسی ملک کے پاس ایٹمی صنعت ہے تو آپ اس سے کہیں کہ یہ کرو اور وہ نہ کرو۔ امریکا سے کیا مطلب ہے کہ ایران کے پاس ایٹمی صنعت اور وسائل ہیں یا نہیں۔ یہ غلط مداخلت منہ زوری ہے۔

انھوں نے امریکا کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں قریب ستّر لاکھ لوگوں کی شرکت سے ٹرمپ کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ میں اتنی ہی توانائی ہے تو جھوٹ پھیلانے، دوسرے ملکوں میں مداخلت کرنے اور دیگر ممالک میں فوجی اڈے بنانے جیسے کاموں کے بجائے ان دسیوں لاکھ لوگوں کو پرسکون کیجیے اور انھیں ان کے گھروں کو لوٹائيے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ حقیقی دہشت گرد اور دہشت گردی کا حقیقی مظہر امریکا ہے، ایرانی عوام کی حمایت کے ٹرمپ کے دعوے کو بھی جھوٹ بتایا اور کہا کہ امریکا کی ثانوی پابندیاں بھی، جن کا بہت سے ممالک خوف کی وجہ سے ساتھ دے رہے ہیں، ایرانی قوم کے خلاف ہیں، بنابریں آپ ایرانی قوم کے دوست نہیں، دشمن ہیں۔

انھوں نے ڈیل کے لیے ٹرمپ کی آمادگی کے اعلان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں ڈیل کرنے والا انسان ہوں جبکہ اگر ڈیل، منہ زوری کے ساتھ ہو اور اس کا نتیجہ بھی پہلے سے طے ہو تو وہ ڈیل نہیں بلکہ ڈکٹیشن ہے اور ایرانی قوم کبھی بھی ڈکٹیشن برداشت نہیں کرے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مغربی ایشیا کے خطے میں موت اور جنگ کے بارے میں ٹرمپ کی ایک اور بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ آپ شروع کراتے ہیں، امریکا جنگ پھیلانے والا ہے اور وہ لوگوں کو قتل کرنے کے ساتھ ہی جنگ بھی بھڑکاتا ہے ورنہ اس خطے میں امریکا کے اتنے زیادہ فوجی اڈوں کا کیا مقصد ہے؟ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ اس خطے کا آپ سے کیا لینا دینا ہے؟ یہ خطہ، اس علاقے کے لوگوں کا ہے اور اس علاقے میں جنگ اور موت امریکا کی موجودگي کی وجہ سے ہے۔

انھوں نے اپنے خطاب کے آخر میں امریکی صدر کے موقف کو غلط اور بہت سے معاملات میں جھوٹ اور دروغ گوئی پر مبنی بتایا اور کہا کہ ہو سکتا ہے کہ بعض ممالک پر منہ زوری اثر کر جائے لیکن اللہ کی توفیق سے ایرانی قوم پر ہرگز اس کا کوئي اثر نہیں ہوگا۔

آيت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں انقلاب کے بعد بعض شعبوں میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کا ایک نمونہ اس سال کھلاڑیوں اور اولمپیاڈز میں شرکت کرنے والوں کی زبردست کامیابی کو بتایا جو شاید ملک کی اسپورٹس کی تاریخ میں بے مثال ہے۔

انھوں نے ملک کے پرچم کے احترام، میدان میں کھلاڑیوں کے سجدے اور دعا کو ایرانی قوم کا مظہر بتایا اور کہا کہ سائنسی اولمپیاڈز میں شرکت کرنے والے عزیز جوان بھی اس وقت ایک درخشاں ستارہ ہیں لیکن دس سال بعد، جدوجہد اور کوشش جاری رکھنے کی شرط پر وہ ایک درخشاں خورشید میں تبدیل ہو جائیں گے اور اس سلسلے میں ذمہ دار افراد کے دوش پر سنگین ذمہ داری ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جوانوں کی جانب سے اہم کردار ادا کیے جانے کو ایک مستقل عمل بتایا اور کہا کہ آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں، جوان نسل نے بے پناہ محرومیوں اور خالی ہاتھ ہونے کے باوجود ایسی عسکری جدت طرازیاں دکھائیں کہ ایران، از سر تاپا مسلح دشمن کے مقابلے میں، جسے ہر طرف سے حمایت حاصل تھی، فتحیاب ہوا۔

انھوں نے ایران کی مختلف سائنسی پیشرفتوں کو روکنے کی دشمن کی کوشش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم کے دشمن بدستور کوشش کر رہے ہیں کہ بعض کامیابیوں کو نظر انداز کر کے یا ان کا انکار کر کے، سچ اور جھوٹ کو آپس میں ملا دیں اور بعض کمیوں کو بہت بڑا ظاہر کر کے ایران کے ماحول کو تاریک ظاہر کریں تاہم آپ نے اسپورٹس اور سائنس کی چوٹیوں پر کھڑے ہو کر ملک کی روشن اور منور فضا، پوری دنیا کو دکھا دی۔

آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اسی طرح امریکی صدر کی حالیہ ہرزہ سرائي اور بکواس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص نے کوشش کی کہ اپنے اوچھے رویے اور خطے، ایران اور ایرانی قوم کے بارے میں بے تحاشا جھوٹ کے ذریعے صیہونیوں کی حوصلہ افزائی کرے اور خود کو طاقتور ظاہر کرے تاہم اگر اس میں طاقت ہے تو ان دسیوں لاکھ لوگوں کو پرسکون کرے جو امریکا کی مختلف ریاستوں میں اس کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں[53]۔

امریکہ کے ساتھ اختلافات حکمت عملی نہیں بلکہ بنیادی ہے

رہبر معظم انقلاب نے کہا ہے کہ ایران اور امریکہ درمیان اختلافات کی نوعیت صرف حکمت عملی نہیں بلکہ بنیادی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یوم طلبہ اور سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی نے پیر 3 نومبر 2025 کی صبح ملک کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس اور اسی طرح مسلط کردہ بارہ روز جنگ کے کچھ شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔

آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات کے دوران اپنے خطاب میں ایران کے ساتھ تعاون میں دلچسپی کے بعض امریکی عہدیداروں کے بیانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ تعاون، ملعون صیہونی حکومت کے ساتھ امریکا کے تعاون اور مدد سے میل نہیں کھاتا۔ انھوں نے عالمی رائے عامہ میں صیہونی حکومت سے نفرت اور اس کی مذمت کے باوجود امریکا کی جانب سے اس حکومت کی مدد، پشت پناہی اور حمایت جاری رہنے کے بعد بھی ایران کے ساتھ تعاون کی درخواست کو لایعنی اور ناقابل قبول بتایا۔ انھوں نے کہا کہ اگر امریکا صیہونی حکومت کی پشت پناہی پوری طرح سے چھوڑ دے، خطے سے اپنے فوجی اڈوں کو ختم کر دے اور اس علاقے میں اپنی مداخلت بند کر دے تو اس مسئلے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت اور مستقبل قریب میں نہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کے ماضی اور اسی طرح 4 نومبر 1979 کو امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی جوانوں کے ہاتھوں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے واقعے کا، تاریخی اور ماہیتی پہلو سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے تاریخی پہلو سے اسٹوڈنٹس کے اس شجاعانہ اقدام کو ایرانی قوم کے فخر اور فتح کا دن قرار دیا اور کہا کہ ایران کی تاریخ میں، فتح کے دن بھی ہیں اور کمزوری کے بھی اور دونوں کو قومی حافظے میں محفوظ رہنا چاہیے۔ انھوں نے اس بڑے واقعے کے ماہیتی پہلو کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سفارتخانے پر قبضے نے، امریکی حکومت کی ماہیت اور اسی طرح اسلامی انقلاب کی حقیقی ماہیت کو عیاں کر دیا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے آپ کو برتر سمجھنے کے معنی میں قرآن میں استعمال ہونے والے لفظ "استکبار" کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی زمانے میں برطانیہ جیسی اور آج کل امریکا جیسی کوئی حکومت اس بات کو اپنا حق سمجھتی ہے کہ اقوام کے حیاتی مفادات کو لوٹ کر ان پر حکم چلائے یا کسی ایسے ملک میں جہاں مضبوط حکومت اور ہوشیار عوام نہیں ہیں، اپنے فوجی اڈے قائم کرے اور اقوام کے تیل اور دیگر ذخائر کو لوٹے اور یہ وہی استکبار یا سامراج ہے جس کے ہم دشمن ہیں اور جس کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔

انھوں نے ایران میں دسیوں سال پہلے مصدق کی حکومت کو گرانے کے لیے برطانیہ اور اس کے ہمنواؤں کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، برطانیہ سے بچنے کے لیے ان کی جانب سے امریکا سے مدد مانگنے میں ان کی سادہ لوحی اور غفلت کی یاددہانی کرائی اور کہا کہ امریکیوں نے مصدق کو بھروسہ دلایا لیکن ان کی پس پشت انھوں نے انگریزوں سے ہاتھ ملا کر بغاوت کرائي اور ایران کی قومی حکومت کو گرا کر ملک سے فرار ہو چکے شاہ کو ایران میں واپس لوٹایا۔

انھوں نے امریکی سینیٹ میں ایران کے خلاف پاس ہونے والے معاندانہ بل کو اسلامی انقلاب سے امریکا کا پہلا ٹکراؤ بتایا اور محمد رضا کو امریکا میں آنے دینے پر ایرانی رائے عامہ کے غیظ و غضب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم کو محسوس ہوا کہ امریکی اپنے ملک کو شاہ کو بسا کر، ایک بار پھر ایران میں بغاوت کرانا اور شاہ کو واپس لوٹانا چاہتے ہیں اور اسی لیے وہ طیش میں سڑکوں پر آ گئے اور ان کے اور اسٹوڈنٹس کے مظاہروں کا ایک حصہ، امریکی سفارتخانے پر قبضے پر منتج ہوا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ابتدا میں اسٹوڈنٹس صرف دو تین دن سفارتخانے میں رہنا اور دنیا کے سامنے صرف ایرانی قوم کے غصے کا اظہار کرنا چاہتے تھے لیکن انھیں سفارتخانے میں ایسے دستاویزات ملے جن سے پتہ چلا کہ معاملہ تصور سے کہیں آگے کا ہے اور امریکی سفارتخانہ، انقلاب کو ختم کرنے کی سازشوں کا مرکز ہے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے دنیا میں سفارتخانوں کے معمول کے کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سفارتخانے کا مسئلہ، معلومات اکٹھا کرنے کا نہیں تھا بلکہ امریکی سازشوں اور چالوں کا ایک مرکز بنا کر انقلاب کے خلاف کارروائی کے لیے شاہ کی حکومت کی باقیات، فوج کے بعض افراد اور کچھ دوسرے لوگوں کو اکٹھا کرنا چاہ رہے تھے اور جب اسٹوڈنٹس کو یہ پتہ چلا تو انھوں نے سفارت خانے کو اپنے قبضے میں باقی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے امریکی سفارتخانے پر قبضے کو ایران اور امریکا کے درمیان مسائل کی شروعات بتائے جانے کو غلط قرار دیا اور کہا کہ امریکا کے ساتھ ہمارا مسئلہ 4 نومبر 1979 کو نہیں بلکہ 19 اگست 1956 کو شروع ہوا تھا جب برطانیہ اور امریکا نے مصدق کے خلاف بغاوت کرائي تھی۔ اس کے علاوہ امریکی سفارتخانے پر قبضے کی وجہ سے انقلاب کے خلاف بہت گہری سازش اور خطرے کا پتہ چلا اور اسٹوڈنٹس نے یہ اہم کام کر کے اور دستاویزات کو اکٹھا کر کے اس سازش کو بے نقاب کر دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے انقلاب سے دشمنی اور اس کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کی اصل وجہ، امریکا کے منہ سے ایک شکار کا نکل جانا اور ایران کے ذخائر پر سے امریکا کا تسلط ختم ہو جانا بتایا اور کہا کہ وہ اتنی آسانی سے ایران کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے اور اسی لیے انھوں نے شروع سے ہی نہ صرف اسلامی جمہوریہ کے خلاف بلکہ ایرانی قوم کے خلاف اپنی سرگرمیاں شروع کر دی تھیں۔ انھوں نے انقلاب کے بعد کے برسوں میں ایرانی قوم کے خلاف امریکا کی لگاتار دشمنی کو امام خمینی کے اس جملے کی حقانیت کی نشانی بتایا کہ "آپ جتنا بھی برا بھلا کہنا چاہتے ہیں، امریکا کو کہیں۔" انھوں نے کہا کہ امریکا کی دشمنی صرف زبانی نہیں تھی بلکہ امریکیوں نے ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے کے لیے پابندی، سازش، اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کی مدد، ایران پر حملے کے لیے صدام کو ترغیب دلانے اور اس کی حمایت، تین سو افراد کے ساتھ ایران کے مسافر بردار طیارے کو مار گرانے، پروپیگنڈوں کی جنگ اور براہ راست فوجی حملے جیسا ہر کام کیا کیونکہ امریکا کی ماہیت، اسلامی انقلاب کی خودمختارانہ ماہیت سے میل نہیں کھاتی اور امریکا اور اسلامی جمہوریہ کا اختلاف کوئی ٹیکٹکل اور جزوی اختلاف نہیں بلکہ بنیادی اور وجودی اختلاف ہے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے بعض لوگوں کی طرف سے "امریکا مردہ باد" کے نعرے کو ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کی وجہ قرار دیے جانے کو تاریخ کو الٹا لکھنے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ یہ نعرہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کی وجہ سے امریکا ہماری قوم سے ٹکرا جائے، اسلامی جمہوریہ سے امریکا کا اصل مسئلہ، ماہیت کا اختلاف اور مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ انھوں نے بعض لوگوں کے اس سوال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہم امریکا کے سامنے نہیں جھکے لیکن کیا ابد تک ہمارے اس سے تعلقات نہیں ہوں گے؟ کہا کہ امریکا کی سامراجی ماہیت، فریق مقابل کے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کسی بھی دوسری چیز کو نہیں مانتی اور یہ چیز سبھی امریکی سربراہان مملکت چاہتے تھے لیکن زبان پر نہیں لاتے تھے تاہم ان کے موجودہ صدر نے یہ بات کھل کر زبان سے کہہ دی اور امریکا کے باطن پر پڑا ہوا پردہ ہٹا دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اتنی زیادہ توانائی، ثروت، فکری و نظریاتی ماضی اور ذہین و پرجوش نوجوان رکھنے والی ایرانی قوم سے سرینڈر ہو جانے کی توقع رکھنے کو فضول بتایا اور کہا کہ مستقبل بعید کے بارے میں تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اس وقت سبھی جان لیں کہ بہت سے مسائل کا علاج، طاقتور بننا ہے۔ انھوں نے اسی طرح حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت زینب علیہا السلام کے ایام شہادت کی مناسبت سے جوانوں کو ان درخشاں مناروں کی عملی پیروی کی نصیحت کی اور کہا کہ آپ اپنے اطراف کے لوگوں کو ان عظیم ہستیوں کی سیرت پر توجہ دینے اور اس سے سبق سیکھنے کی ترغیب دلائیے[54]۔

امریکہ اپنی تمام جدید ترین سازوسامان کے باوجود 12 روزہ جنگ میں شکست کھا گیا

رہبر معظم انقلاب نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بسیج ایک الہی اور عوامی حرکت ہے جو نسل در نسل جاری رہنی چاہیے اور نوجوان نسل ملک کی سب سے بڑی دولت ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ٹیلیویژن پر قوم سے خطاب میں بسیج کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بسیج نہ صرف ایک قومی تحریک ہے بلکہ اس کے محرکات الہی اور عوامی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان بسیج کی چوتھی نسل کی نمائندگی کرتے ہیں، سرگرمی اور اقدام کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ یہ ملک کے لیے ایک قیمتی دولت ہے جسے نسل در نسل برقرار رکھنا ضروری ہے۔

رہبر معظم نے مزید کہا کہ دنیا کے ہر ملک میں اگر اس طرح کی تحریک موجود ہو تو وہ نہایت قیمتی اور اہم ہے خاص طور پر ایسے ملک میں جہاں عالمی طاقتوں کی دھمکیاں اور مداخلتیں زیادہ ہوں۔ ایران جیسے ممالک میں، جو عالمی طاقتوں کے مقابلے میں سرفراز کھڑا ہے اور مقاومتی بلاک قائم کرچکا ہے، بسیج کی اہمیت ہر ملک سے زیادہ ہے۔ رہبر معظم نے دشمنی، طمع اور طاقتور ممالک کی مداخلت کے پیش نظر بسیج کو مقاومت کا ایک کلیدی عنصر قرار دیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں صہیونی حکومت کے جون میں ہونے والی جنگ کے بارے میں کہا کہ اس بارہ روزہ جنگ میں امریکہ کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکہ نے جدید ترین ہتھیار دفاعی اور حملے کے سازو سامان استعمال کیے، اپنے آبدوزوں کو بروئے کار لایا، جنگی طیاروں کو استعمال کیا، سب سے جدید دفاعی نظام کو آزمایا، لیکن پھر بھی وہ اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایرانی قوم کو دھوکہ دے کر اپنا تابع بنالے، لیکن معاملہ الٹا ہوگیا۔ جیسا کہ میں نے کہا، ایرانی قوم کا اتحاد امریکہ کے مقابلے میں مزید بڑھ گیا اور انہوں نے حقیقی معنوں میں دشمن کو ناکام بنا دیا[55]۔

رہبر انقلاب کا شہید حاجی‌زاده کی پوتی کے خط کا جواب

رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شہید سردار حاجی زادہ کی کمسن پوتی کے خط کا جواب دیا۔ جس میں انہوں نے قرآن کے چند سپارے حفظ کرنے پر مبارک باد دی۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہید حاجی‌زاده کی کمسن پوتی نے قرآن کریم کے چند سپارے حفظ کرنے پر ایک قرآنِ کریم کے ساتھ رہبر انقلاب کے نام اپنا خط ارسال کیا۔ رہبر انقلاب نے اس کمسن بچی کے نام اپنا جواب قرآنِ کریم کے صفحہ اول پر تحریر فرمایا جس کا متن یہ ہے:

پیاری بیٹی!

قرآن حفظ کرنے کی توفیق پر آپ کو مبارک ہو!

قرآن کے ترجمہ پر بھی توجہ دیں! نماز، حجاب، والدین کی بات سننا اور اچھی طرح پڑھائی کرنا آئندہ برسوں کے لیے میری آپ کو نصیحت ہیں۔ قرآن کریم کو اچھی طرح حفظ کریں۔

ان شاء اللہ کامیاب رہیں۔

سید علی خامنہ ای

واضح رہے یہ واقعہ اس وقت کی ہے جب شہید حاجی زادہ زندہ تھے۔ اس بات کا انکشاف حال ہی میں شہید کی بیگم نے ایک انٹرویو میں کیا اور ان کا کہنا تھا کہ شہید کو قرآن سے اتنا لگاؤ تھا کہ ہم جب بھی ان کے ساتھ رہبر انقلاب کے نام اپنا ذاتی کوئی پیغام یا سلام بھیجتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ رہبر معظم کا وقت بہت اہم ہے اپنے ان باتوں کے ذریعے ان کا وقت ضائع مت کریں۔

لیکن جس دن ہماری پوتی نے ان سے درخواست کی اور کہا دادا جان! میں نے قرآن کے چند سپارے حفظ کیا ہے۔ تو آپ یہ قرآن اور میرا خط رہبر تک پہنچائیں گے؟ تو انہوں نے بخوشی یہ درخواست پوری کی[56]۔

حوالہ جات

  1. آرشیو مرکز اسناد، شمارہ 1226
  2. سفارت خانے پر حملہ ایرانی سرزمین پر حملہ ہے/صہیونی حکومت کو سخت سزا دی جائے گیmehrnews.com-شا‏ئع شدہ: 10اپریل 2024ء-اخذ شدہ: 10 اپریل 2024ء۔
  3. حالیہ واقعات میں ایرانی قوم کی طاقت ظاہر ہوگئی/ دشمن سے نمٹنے کے لئے نئے طریقے اپنانے کی ضرورت ہے-ur.wikivahdat.com-شائع شدہ از:21اپریل 2024ء -اخذ شدہ بہ تاریخ:22اپریل 2024ء۔
  4. عراقی کردستان کے سربراہ کی رہبر معظم انقلاب اسلامی سے ملاقات-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از:6مئی 2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:6مئی 2024ء۔
  5. حج بیت اللہ کے لئے عازم قاریان قرآن کی رہبر معظم انقلاب سے ملاقات-شائع شدہ از: 9 مئی 2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 14مئی 2024ء۔
  6. رہبر معظم کا فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والے امریکی طلباء کے نام پیغام-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 30مئی 2042ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30مئی 2024ء۔
  7. فلسطین کے بارے میں امام خمینی کی پیشنگوئی سچ ثابت ہورہی ہے-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 3 جون 2024ء- 4 جون 2024ء۔
  8. حجاج بیت اللہ کے نام رہبر معظم انقلاب کا پیغام: غزہ کے جلادوں سے عالمی سطح پر برائت کا اعلان ہونا چاہئے- شائع شدہ از: 15 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 جون 2024ء۔
  9. امریکہ کے جھوٹے انسانی حقوق کے سلسلے میں رہبر معظم کے 10 اہم جملے-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 2 جولائی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 3 جولائی 2024ء۔
  10. صہیونی حکومت پر ہر وار انسانیت کی خدمت ہے/ ہماری مسلح کی کاروائی مکمل قانونی تھی-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 4 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 4 اکتوبر 2024ء۔
  11. طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کو 70 سال پیچھے دھکیل دیا، رہبر معظم کا خصوصی پیغام- ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 7 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 اکتوبر 2024ء۔
  12. صیہونی حکومت شکست کھا چکی ہے، رہبر معظم انقلاب اسلامی-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 23 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 23 اکتوبر 2024ء۔
  13. غزہ اور لبنان میں مقاومت کا تسلسل، فتح و کامرانی لشکر اسلام کے قدم چومیں گی، رہبر معظم انقلاب-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 7 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء۔
  14. صہیونی دہشت گرد نیٹ ورک کے تمام سرغنوں پر مقدمہ چلایا جائے، رہبر معظم کا عبرانی زبان میں پیغام- شائع شدہ از: 24 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 نومبر 2024ء۔
  15. بسیجی اللہ پر توکل اور خوداعتمادی کی وجہ سے دشمن کے سامنے مغلوب نہیں ہوتا ہے، رہبر معظم-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 25 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 نومبر 2024ء۔
  16. مسلح فورسز کی سب سے اہم ذمہ داری جنگی تیاری اور جنگی توانائی ہے، رہبر معظم انقلاب-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 27 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 نومبر 2024ء۔
  17. رہبر انقلاب اسلامی کا ہزاروں افراد کی موجودگی میں اہم خطاب-شائع شدہ از: 11 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 دسمبر 2024ء۔
  18. ایرانی عوام امریکہ کے لئے غلامی کرنے والے ہر شخص کو اپنے پاوں تلے روند ڈالیں گے، رہبر معظم انقلاب- شائع شدہ از: 22 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 دسمبر 2024ء۔
  19. آیت اللہ خامنہ ای کو میرا سلام پہنچا دیں، پوپ فرانسس- شائع شدہ از: 5 جنوری 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 جنوری 2024ء۔
  20. رہبر معظم انقلاب کے دعائے ماہ رجب سے متعلق تربیتی نکات- شائع شدہ از: 6 جنوری 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 جنوری 2024ء۔
  21. امریکہ کو ترکی بہ ترکی جواب دیں گے، رہبر معظم انقلاب-شائع شدہ از: 7 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 فروری 2025ء۔
  22. آج ایران کی دفاعی طاقت دشمن کے خوف اور دوست کے فخر کا سبب ہے اور اس کی پیشرفت جاری رہنی چاہیے- شائع شدہ از: 12 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 فروری 2025ء۔
  23. نیمہ شعبان، رہبر معظم انقلاب کی مسجد جمکران آمد- شائع شدہ از: 14 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 فروری 2025ء۔
  24. عالمی استکبار کے غصے کی بنیادی وجہ ایران کی مقاومت ہے، رہبر معظم-شائع شدہ از: 17 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 فروری 2025ء۔
  25. غزہ کے بارے میں امریکہ کا احمقانہ منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا- شائع شدہ از: 18 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 18 فروری 2025ء۔
  26. اگر ہم جوہری ہتھیار بناتے تو امریکہ میں روکنے کی جرائت نہیں تھی، رہبر معظم انقلاب- شائع شدہ از: 12 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 مارچ 2025ء۔
  27. امریکی صدر کا مذاکرات پر اعلان آمادگی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے، رہبر معظم- شائع شدہ از: 12 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 مارچ 2025ء۔
  28. امت مسلمہ اور دنیا کے آزاد منش انسان غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف ڈٹ جائيں- شائع شدہ از: 20 مارچ 2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 مارچ 2025ء۔
  29. امریکہ جان لے! کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، رہبر معظم انقلاب- شائع شدہ از: 21 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 21 مارچ 2025ء۔
  30. عالمی یوم قدس کی ریلی ایرانی قوم کے افتخارات میں سے اور اپنے سیاسی اہداف پر ایرانیوں کی استقامت کی نشانی ہے- شائع شدہ از: 28 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 مارچ 2025ء۔
  31. اگر امریکا اور صیہونی حکومت کی طرف سے کوئی شیطنت ہوئی تو قطعی طور پر انھیں منہ توڑ جواب ملے گا- شائع شدہ از: 31 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 مارچ 2025ء۔
  32. بڑی طاقتوں کی بلیک میلنگ کے مقابلے میں عالم اسلام کا اتحاد ضروری ہے، رہبر معظم انقلاب-شائع شدہ از: 31 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 مارچ 2025ء۔
  33. دشمن اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی سے مایوس اور خوف زدہ ہے، رہبر معظم انقلاب- شائع شدہ از: 13 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 13 اپریل 2025ء
  34. مذاکرات کے حوالے سے نہ ہم پُرامید ہیں اور نہ ہی مایوس ہیں، رہبر معظم انقلاب- شائع شدہ از: 15 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 اپریل 2025ء
  35. ائمہ معصومین ع کا راستہ مزاحمت اور استقامت کا راستہ ہے، رہبر معظم انقلاب- شائع شدہ از: 24 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 اپریل 2025ء
  36. شہید رجائی بندرگاہ میں آتش زدگی: غفلت یا کوتاہی کی مکمل تحقیقات کی جائے، رہبر معظم- شائع شدہ از: 27 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 اپریل 2025ء
  37. مزدور کی محنت پیداوار کی بنیاد، محض نعرے کافی نہیں، رہبر معظم-شائع شدہ از: 10 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 مئی 2025ء
  38. ہمارے امداد رساں انسانی صفات اور انسان دوستی کے مظہر ہیں، رہبر معظم انقلاب- شائع شدہ از: 14 مئی2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 مئی 2025ء
  39. کتب خانوں کے مالکان اور لائیبریرین حضرات سے خطاب-شائع شدہ از:7مئی 2011ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17مئی2025ء
  40. شہید رئیسی اصول پسند صدر تھے، امریکہ سے مذاکرات نتیجہ خیز ہونے کی توقع نہیں، رہبر معظم- شائع شدہ از: 20 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 20 مئی 2025ء
  41. غزہ میں صہیونی مظالم روکنے کے لیے مشترکہ اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے، رہبر معظم- شائع شدہ از: 26 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 مئی 2025ء
  42. آج دنیا کی بعض پارلیمانوں کا کام، غزہ کے قاتلوں کی مدد کرنا ہے-شائع شدہ از:11جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11جون 2025ء
  43. صہیونی حکومت نے اپنے تلخ انجام کا سامان خود فراہم کیا، رہبر معظم-شائع شدہ از:13جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 13جون 2025ء
  44. امریکہ کو فوجی مداخلت کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑے گا، رہبر معظم انقلاب-شائع شدہ از: 18 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 18 جون 2025ء
  45. ایران نے اپنے بل بوتے پر امریکہ اور اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، رہبر معظم انقلاب-شائع شدہ از: 16 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16جولائی 2025ء
  46. شہدائے اقتدار کے چہلم پر رہبر انقلاب کا پیغام: ایران کی ترقی اور استحکام کے لیے سات اہم ذمہ داریاں-شائع شدہ از:25 جولائی 2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:25 جولائی 25 جولائی 2025ء
  47. بھارتی میڈیا کی جانب سے رہبر معظم کی توہین پر کشمیر میں احتجاجی مظاہرہ-شائع شدہ از:28جولائی 2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:28جولائی 2025ء۔
  48. ایران نے ثابت کیا انقلاب اسلامی کی بنیادیں فولاد سے بھی زیادہ مضبوط ہیں، رہبر معظم-شائع شدہ از:29جولائی 2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:29 جولائی 2025ء
  49. فلم "موسی کلیم اللہ" شاندار ہے، پروجیکٹ کو مکمل کریں، رہبر معظم-شائع شدہ از:13 ستمبر 2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:13ستمبر2025ء
  50. ہفتہ مقدس دفاع کی آمد کی مناسبت سے خطاب-20 ستمبر 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 18 ستمبر 2025ء
  51. ولایت فقیہ، فقہی نظریے سے کہیں آگے؛ جمہوریہ اسلامی میں ایک زندہ تجربہ- 22ستمبر 2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:22ستمبر 2025ء
  52. موجودہ حالات میں امریکہ سے مذاکرات نہ مفید ہیں اور نہ کسی نقصان کو روک سکتے ہیں، رہبر معظم-شائع شدہ از:23ستمبر 2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 23ستمبر 2025ء
  53. ایران امید کا مرکز، ٹرمپ مایوس صہیونیوں کو حوصلہ دینے اسرائیل گئے، رہبر معظم-شائع شدہ از:20اکتوبر 2025ء
  54. امریکہ کے ساتھ اختلافات حکمت عملی نہیں بلکہ بنیادی ہے، رہبر معظم- شائع شدہ از:3 نومبر2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:نومبر 2025ء
  55. امریکہ اپنی تمام جدید ترین سازوسامان کے باوجود 12 روزہ جنگ میں شکست کھا گیا ، رہبر معظم انقلاب- شائع شدہ از:27 نومبر 2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:27 نومب2025ء
  56. رہبر انقلاب کا شہید حاجی‌زاده کی پوتی کے خط کا جواب-شائع شدہ از: 27نومبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 نومبر 2025ء