محمد تقی مصباح یزدی
محمد تقی مصباح یزدی | |
---|---|
![]() | |
پورا نام | محمد تقی مصباح یزدی |
دوسرے نام | آیت الله مصباح، علامه مصباح یزدی |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1313 ش، 1935 ء، 1352 ق |
پیدائش کی جگہ | ایران یزد |
وفات | 1399 ش، 2021 ء، 1441 ق |
وفات کی جگہ | تهران |
اساتذہ | آیتالله بروجردی، امام خمینی، سید محمد حسین طباطبایی، آیتالله محمدعلی اراکی، آیتالله محمدتقی بهجت |
شاگرد | غلامرضا فیاضی، مرتضی آقا تهرانی، محمود رجبی، محسن غرویان، و... |
مذہب | اسلام، شیعہ |
اثرات | آموزش فلسفه اخلاق در قرآن ، انسانشناسی در قرآن، آذرخشی دیگر از آسمان کربلا، نظریه سیاسی اسلام. |
مناصب | خبرگان رهبری کونسل کے دوسرے، تیسرے اور چوتھے دورے کا رکن، جامعه مدرسین حوزه علمیه قم اور ثقافتی سپریم کونس کے رهنما اور امام خمینی تعلیمی اور تحقیقاتی مرکز کے بانی اور سربراه |
محمد تقی مصباح یزدی ایک فقیہ، فلسفی، مفسر قرآن اور حوزہ علمیہ قم کے دانشوروں اور اساتذہ میں سے تھے۔ وہ امام خمینی تعلیمی اور تحقیقاتی مرکز کے سربراه ، مجلس خبرگان رہبری، جامعہ مدرسین حوزه علمیه قم، شورای عالی انقلاب فرهنگی کے رکن اور مجمع جهانی اهلبیت کے صدر تھے۔ ان کا شمار انقلاب اسلامی کے موثر نظریه سازوں ، عالم اسلام کے نامور مفکرین اور مکتب اهل بیت(ع) کے جید مبلغین میں ہوتا تھا۔ مصباح یزدی نے علوم اسلامی پر متعدد تصانیف لکھی ہیں جن میں تفسیر، فلسفہ، اخلاق اور معارف اسلامی شامل ہیں۔ ان کی کتابیں "آموزش فلسفه" اور "آموزش عقاید" حوزوی اور یونیورسٹی مراکز میں پڑھائی جاتی ہیں اور مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ "معارف قرآن"، "اخلاق در قرآن"، "نظریه سیاسی اسلام" اور "نظریه حقوقی اسلام" ان کی دیگر تصانیف ہیں۔
سوانح حیات
محمد تقی مصباح یزدی ایران کے صوبہ یزد میں 5 شوالالمكرم 1353هجرى قمرى کو ایک مذهبی گھرانے میں پیدا هوئے۔ ان کے خاندان کی مادی زندگی سادہ اور محدود تھی، لیکن ان کے دل و جان میں خاندانِ پیامبر (ص) کی محبت موجزن تھی۔ اس دور میں جب رضا شاہ کی سخت گیر پالیسیوں کے باعث ہر قسم کی عزاداری کو جرم سمجھا جاتا تھا، ان کے گھر کے تہہ خانے میں محرم کی راتوں میں امام حسین علیہ السلام کی یاد میں مجالس برپا کی جاتی تھیں۔
اسی طرح، ہر جمعرات کی رات ان کے دادا، حاجی علی اکبر گیوہ چی یزدی کے گھر میں دعائے کمیل کی محفل منعقد ہوتی، اور ہر جمعہ کی صبح دعائے ندبہ کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ ان کے والد کا عشقِ اہلبیت علیهم السلام اس حد تک تھا کہ وہ دعائے ندبہ زبانی یاد کر کے تلاوت کیا کرتے تھے۔
ابتدائی تعلیم
استاد مصباح یزدی، جو ایسے پاکیزہ اور مذہبی ماحول میں پروان چڑھے تھے، جب ابتدائی تعلیم کے لیے اسکول میں داخل ہوئے تو ہر سال نمایاں طالب علم قرار پاتے، جس کی وجہ سے اساتذہ ان سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اس دور میں معاشرہ دینی علوم کی طرف زیادہ رجحان نہیں رکھتا تھا۔ رضا شاہ کی حکومت کی تبلیغات نوجوان نسل کو علماء اور دینی تعلیمات سے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ایسے ماحول میں محمد تقی مصباح یزدی جیسے ذہین اور نمایاں طالب علم کے لئے حوزوی تعلیم کی راہ اختیار کرنا ہم جماعتوں اور اساتذہ کے لیے حیرت انگیز بات تھی!
دوسری طرف، ان کی دینی علوم سے محبت میں مرحوم حاج شیخ احمد آخوندی کی شخصیت کا بھی بڑا اثر تھا۔ وہ استاد مصباح کی والدہ کے رشتہ دار تھے اور نجف میں مقیم تھے۔ کبھی کبھار، جب وہ یزد میں اپنے موقوفہ کی دیکھ بھال کے لیے آتے، تو استاد مصباح کے گھر مہمان ہوتے۔ ان کی روحانی شخصیت اور علمی مقام نے محمد تقی مصباح یزدی کے دل میں دینی علوم کے لیے مزید شوق اور جستجو پیدا کر دی۔
حوزہ علمیہ میں داخل ہونے کا خواب تعلیمی سال 1325-26 ہجری شمسی میں اس وقت حقیقت میں بدلا جب انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کر لی۔ اور یہ بھی گرمیوں کے موسم میں! وہ موسم جو عام طور پر نوجوانوں کو تفریح اور مختلف سرگرمیوں کی طرف مائل کرتا ہے۔ لیکن استاد مصباح یزدی کا شوق اور دینی علوم سے لگاؤ انہیں کسی اور سمت لے گیا۔ تفریح کے بجائے، انہوں نے یزد کے مدرسہ شفیعیہ کی ایک حجرہ میں قدم رکھا اور اپنی علمی و روحانی سفر کا آغاز کیا۔
انهوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، 1325 ہجری شمسی میں یزد کے حوزہ علمیہ میں داخل ہوئے اور مدرسہ شفیعیہ میں ابتدائی دروس مرحوم استاد محمد علی نحوی سے حاصل کیے۔ فقہ میں "شرح لمعه" اور اصول فقہ میں "رسائل" اور "قوانین" جیسے دروس سید علی مدرسی اور میرزا محمد انواری کے زیر نگرانی مکمل کیے۔ محمد تقی کی غیر معمولی دلچسپی اور صلاحیت کے باعث، اساتذہ ان کے لیے خصوصی طور پر کلاسیں منعقد کرتے اور ان سے مطالبه کرتے کہ وہ درسی مطالب عربی میں تحریر کریں۔ انہوں نے حوزہ کے رسمی دروس کے ساتھ ساتھ جدید علوم جیسے فزکس، کیمیا، فزیالوجی اور فرانسیسی زبان بھی سیکھی۔ عام طور پر جو حوزوی مقدماتی اور سطحی تعلیم آٹھ سے دس سال میں مکمل کی جاتی تھی، انہوں نے اسے صرف چار سال میں مکمل کر لیا۔
اعلی تعلیم
ان کی محنت اور غیر معمولی سنجیدگی نے انہیں صرف چار سال کے اندر مقدماتی اور متوسط حوزوی تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب بنا دیا۔ انہی برسوں کے دوران، حاج شیخ احمد آخوندی ایک بار پھر یزد آئے۔ جب انہوں نے اس نوجوان طالب علم کی علمی جستجو اور بے پناہ محنت کو دیکھا تو انہیں نجف اشرف ہجرت کرنے اور وہاں کے عظیم حوزہ علمیہ میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کی ترغیب دی۔ اسی طرح، انہوں نے استاد مصباح یزدی کے اہل خانہ کو بھی اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ان کی حمایت کے لیے نجف ہجرت کریں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ دینی علوم کے حصول میں مصروف رہ سکیں۔
یوں، استاد مصباح یزدی کا پورا خاندان 1330 ہجری شمسی کے اواخر میں نجف اشرف کی طرف روانہ ہوا۔ لیکن چھ ماہ بعد، مالی حالات ابتر ہونے لگے۔ والدِ گرامی کی تمام کوششوں کے باوجود معاشی استحکام حاصل نہ ہو سکا، جس کے باعث وہ وطن واپس آنے پر مجبور ہو گئے۔ والدین، استاد مصباح یزدی سے بے حد محبت رکھتے تھے، اسی لیے وہ انہیں اکیلا نجف میں چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ آخر کار، وہ بھی اہلِ خانہ کے ساتھ ایران واپس آ گئے۔ ایران پہنچنے کے بعد وہ کچھ عرصہ تہران میں مقیم رہے اور اس سال کا موسمِ گرما اپنے خاندان کے ساتھ وہیں گزارا۔
جب درسوں کے آغاز میں صرف بیس دن باقی تھے، تو استاد مصباح یزدی نے اپنے والدین کی رضامندی حاصل کر لی اور قم کے لیے روانہ ہو گئے۔ کافی جدوجہد کے بعد، وہ مدرسہ فیضیہ میں ایک حجرہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور مکاسب، کفایہ اور منظومہ جیسے اہم دروس میں شرکت کا آغاز کیا۔ اس دوران ان کی محنت اس قدر شدید تھی کہ، جیسا کہ وہ خود بیان کرتے ہیں، دن رات کے مطالعے اور مباحثے کے بعد ان کے پاس محض پانچ یا چھ گھنٹے آرام کے لیے باقی بچتے تھے۔ ابھی وہ کفایہ اور مکاسب مکمل نہیں کر پائے تھے کہ علمی پختگی کے لیے کبھی کبھار امام خمینیؒ کے درس میں بھی شرکت کرنے لگے۔ امام خمینیؒ کی شخصیت نے ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا اور ان کے فکری اور علمی سفر میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ سنه 1331 سے 1339 ہجری شمسی تک، انہوں نے امام خمینیؒ کے دروس میں شرکت کی۔ وہ آیت اللہ العظمیٰ بروجردیؒ کے درس فقہ میں بھی شرکت کرتے تھے اور انہی سالوں میں علامہ طباطبائیؒ کی شخصیت سے گہرا تعلق قائم کر لیا۔
استاد مصباح یزدی نہ صرف علامہ طباطبائیؒ کے عمومی دروس میں شریک ہوتے بلکہ خصوصی کلاسوں میں بھی حاضر رہتے، جہاں انہوں نے فلسفہ اور تفسیر قرآن جیسے علوم میں گہرائی سے استفادہ کیا۔ علامہ طباطبائیؒ کے ساتھ یہ قریبی علمی اور فکری وابستگی ان کے فکری ارتقا میں بنیادی حیثیت رکھتی تھی۔ اسی دوران، انہوں نے علامہ طباطبائیؒ سے تفسیرِ قرآن، شیخ ابن سینا کی شفا اور ملا صدرا کی اسفار کے دروس سے علمی استفادہ کیا۔
وہ تقریباً پندرہ سال تک آیت اللہ بہجتؒ کے درس فقہ میں شریک رہے۔ بعد میں، امام خمینیؒ کی جلاوطنی کے باعث ان کے دروس کا سلسلہ منقطع ہوا، تو انہوں نے اسلامی معاشرتی مباحث، جیسے کہ جہاد، قضا اور اسلامی حکومت کے موضوعات پر تحقیق کا آغاز کیا۔
انقلابی سرگرمیاں
استاد مصباح یزدی نے پہلوی حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔ وہ شہید بہشتی، شہید باہنر اور آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کے ساتھ قریبی تعاون رکھتے تھے۔ اسی سلسلے میں، انہوں نے بعثت اور انتقام نامی دو اہم نشریات کی اشاعت میں کلیدی کردار ادا کیا، خاص طور پر انتقام کی تمام تر اشاعتی ذمہ داریاں انہی کے سپرد تھیں۔ بعد ازاں، وہ آیت اللہ جنتی، شہید بہشتی اور شہید قدوسی کے ہمراہ مدرسہ حقانی کے انتظامی امور میں شریک ہوئے اور تقریباً دس سال تک وہاں فلسفہ اور علوم قرآنی کی تدریس کرتے رہے۔
انقلاب اسلامی سے پہلے اور بعد، انہوں نے امام خمینیؒ کی حمایت اور ترغیب سے کئی علمی و تعلیمی مراکز قائم کیے۔ ان میں مؤسسہ در راه حق میں تعلیمی شعبہ، دفتر همکاری حوزه و دانشگاه، اور بنیاد فرهنگی باقرالعلوم جیسے ادارے شامل ہیں، جو اسلامی علوم اور جدید تعلیمی نظام کے امتزاج میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ مدرسہ حجتیہ میں آمد و رفت کے باعث، استاد مصباح یزدی کی دوستی ڈاکٹر باہنر، آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی اور آیت اللہ خامنہای سے مزید گہری ہوگئی۔ یہی تعلقات بعد میں پہلوی حکومت کے خلاف ان کی جدوجہد میں ایک مضبوط بنیاد بنے۔
ان کے پرانے دوستوں میں آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی کا نام بھی نمایاں ہے، جن کے ساتھ انہوں نے برسوں تک مختلف میدانوں میں مشترکہ جدوجہد کی۔ ان میں اسلامی حکومت کے مباحث پر تحقیقاتی گروہ کی تشکیل، پہلوی حکومت کے خلاف مزاحمتی سرگرمیاں، اور مدرسہ علمیہ حقانی میں تعلیمی و تنظیمی تعاون شامل تھا۔ یہ تمام سرگرمیاں انقلاب اسلامی کے فکری اور نظریاتی بنیادوں کو مضبوط بنانے میں اہم ثابت ہوئیں۔
استاد مصباح یزدی نے انقلاب کے آغاز میں دشمنوں کی اعتقادی سازشوں کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ انقلاب کی نوپائی کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک گروہ تشکیل دیا جائے جو ملک کے مختلف حصوں میں بھیجا جائے۔ انہوں نے خود بھی رسمی دروس کا سلسلہ روک کر انقلاب کے کامیاب دفاع کے لیے مختلف مراکز میں خطاب اور شکوک و شبہات کے جوابات دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔
مزید برآں، ان کی نگاہ میں اس وقت کے حساس حالات میں یونیورسٹیوں کے امور کی اہمیت تھی۔ اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے، استاد مصباح یزدی نے "دفتر تعاون حوزہ و دانشگاه" کے قیام کی تجویز دی، جو ستاد انقلاب فرهنگی کے زیر اہتمام منظور ہوئی۔ اس دفتر کی کاوشیں آج تک یونیورسٹیوں میں اپنے اثرات چھوڑ چکی ہیں اور اس کا نتیجہ ایک مضبوط رابطہ اور تعاون کی صورت میں نظر آتا ہے۔
علمی قابلیت
استاد مصباح یزدی نے اسلامی علوم کی مختلف شعبوں میں گہری مہارت حاصل کی۔ فقه اور اصول میں آیات عظام بروجردی، اراکی، امام خمینی اور آیت اللہ بہجت جیسے بزرگ اساتذہ سے استفادہ کر کے، انہوں نے 27 سال کی عمر میں اجتہاد کی منزل حاصل کی۔ علم تفسیر میں، انہوں نے علامہ طباطبائی کی رہنمائی سے قرآن کی تفہیم کے صحیح طریقے کو سیکھا، اور علامہ طباطبائی نے المیزان فی تفسیر القرآن کی بازخوانی کا کام بھی انہیں سونپ دیا تھا۔
استاد مصباح یزدی نے قرآن کی موضوعاتی تفسیر کے حوالے سے دروس بھی دئیے اور اس پر کئی کتابیں بھی تصنیف کیں، جنہوں نے اسلامی تفسیر کے علم کو نئی جہتیں فراہم کیں۔ آیت اللہ مصباح یزدی نے فلسفہ میں علامہ طباطبائی سے اسفار اور شفا کی تعلیم حاصل کی اور کئی سالوں تک اسلامی اور مغربی فلسفہ کی تدریس کی۔ آج انہیں فلسفہ کے ایک ممتاز استاد کے طور پر جانا جاتا ہے، اور ان کی کتاب آموزش فلسفہ مختلف ثقافتی مراکز میں پڑھائی جاتی ہے۔
ان کے فلسفے میں کئی نئے اور منفرد خیالات شامل ہیں جنہوں نے اس میدان میں ایک نئی روشنی ڈالی۔ استاد مصباح یزدی نے نہ صرف حوزوی علوم میں حصہ لیا بلکہ فزکس، کیمسٹری اور دیگر سائنسی مضامین میں بھی دلچسپی لی اور فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں بھی مہارت حاصل کی۔
تدریس
آیت اللہ مصباح یزدی نے تدریس کا آغاز مدرسہ علمیہ حقانی میں کیا تھا، جہاں ابتدا میں انہوں نے قرآن کی تفسیر، اخلاقی و تربیتی مباحث پر تدریس کی۔ خاص طور پر، شہید سید محمدباقر صدر کی کتاب فلسفتنا کو حوزہ میں پہلی بار تدریس کی۔ بعد میں، وہ در راه حق ادارے میں بھی فلسفتنا، اقتصادنا (جو شہید صدر کی تحریر ہے) اور نهایه الحکمه (جو علامہ طباطبائی کی تحریر ہے) پڑھاتے رہے۔ ان کی تدریس نے طلباء کو مختلف فکری اور فلسفیانہ موضوعات پر گہرا غور و فکر کرنے کی ترغیب دی۔
آیت اللہ مصباح یزدی نے اسفار اربعه اور شفا جیسے اہم فلسفیانہ دروس بھی طلباء کو پڑھائے۔ آج بھی ان کے شاگرد تدریس اور تربیت میں مصروف ہیں اور ان کے مشہور شاگردوں میں استاد غلامرضا فیاضی، استاد محمود رجبی، ڈاکٹر مرتضی آقا تهرانی، ڈاکٹر عباسعلی شاملی، ڈاکٹر احمد رهنمایی، اور استاد محسن غرویان شامل ہیں، جنہوں نے ان سے گہری فلسفیانہ اور علمی تربیت حاصل کی۔
تالیفات اور آثار
آیت اللہ مصباح یزدی نے مختلف اسلامی موضوعات پر کئی کتابیں لکھیں ہیں، جن میں سے کچھ کتابیں انقلاب سے قبل اور بعض انقلاب کے بعد کی ہیں۔ ان کی کتابوں کی تعداد اور تنوع اتنی زیادہ ہے کہ یہاں ہم ان میں سے چند اہم کتابوں کا ذکر کرتے ہیں:
- خداشناسی؛
- کیهانشناسی؛
- انسانشناسی؛
- راه و راهنماشناسی؛
- قرآنشناسی؛
- اخلاق در قرآن؛
- جامعه و تاریخ از دیدگاه قرآن؛
- حقوق و سیاست در قرآن؛
- آموزش فلسفه؛
- شرح نهایه الحکمه؛
- شرح جلد اول اسفار الاربعه؛
- شرح جلد هشتم اسفار الاربعه؛
- دروس فلسفه اخلاق؛
- خودشناسی برای خودسازی؛
- بر درگاه دوست؛
- نقدی فشرده بر اصول مارکسیسم؛
- آموزش عقاید؛
- قرآن در آیینه نهج البلاغه؛
- نگاهی گذرا به نظریه ولایت فقیه.
آیت اللہ مصباح یزدی کی کتابوں کی تعداد اور تنوع بہت زیادہ ہے، اور ان کی تحریریں مختلف ثقافتی مراکز میں تدریس کی جا رہی ہیں۔ ان کی بہت سی کتابیں ابھی تدوین اور اشاعت کے مراحل میں ہیں۔ ان کی تحریروں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ گہرائی، سادگی، روانی اور دلکشیت کے ساتھ ساتھ جدیدیت کو بھی شامل کرتی ہیں۔ یہی خصوصیات ان کے کام کو منفرد بناتی ہیں اور ان کی کتابوں کو نہ صرف عوام بلکہ اساتذہ اور دانشوروں کی جانب سے بھی وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے۔
سماجی اور ثقافتی خدمات
آیت اللہ مصباح یزدی نے تعلیمی اور ثقافتی میدان میں طویل عرصے تک قابل قدر اور نمایاں خدمات سرانجام دی هیں۔ انهوں نے ہر دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے ثقافتی اور علمی پروگرامز شروع کیے، اور ان کی کوششوں کی وجہ سے ان کے بیشتر اقدامات نے مثبت نتائج دیے۔ ان کی سنجیدگی، نظم و ضبط، اور حقیقت پسندی نے ان کی ثقافتی تحریکوں کو کامیاب بنایا۔ جب استاد مصباح یزدی نے حوزہ علمیہ قم میں قدم رکھا، تو وہ فوراً اس کے اندر موجود کمزوریوں اور نارسائیوں کا مشاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ ان مسائل کو تین بڑے شعبوں میں تقسیم کرتے تھے: نظام تعلیم، اخلاقی مسائل، اور تبلیغی طریقے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے انہوں نے ایک مکمل تجزیہ کیا اور اس تجزیے کو ایک خط میں مرتب کیا، تاکہ ان کی اصلاحات کے لیے ایک مناسب راستہ تیار کیا جا سکے۔
یہ خط جو آیت اللہ مشکینی نے خوشخطی سے لکھا تھا، اس پر حوزہ کے دو سو بڑے علماؤں کے دستخط تھے، جن میں آیت اللہ حاج آقا مرتضی حائری اور مرحوم آیت اللہ فکور جیسے بزرگ بھی شامل تھے۔ استاد مصباح یزدی نے یہ خط آیت اللہ العظمی بروجردی کی خدمت میں پیش کیا۔ آیت اللہ بروجردی نے اس خط کو غور سے پڑھا اور اس کی تائید کی۔ انہوں نے اس خط کے اہم نکات کو حوزہ کے اعلیٰ علماؤں کے سامنے عید نوروز کے موقع پر رکھا اور درخواست کی کہ حوزہ میں اخلاقی دروس کا آغاز کیا جائے اور حوزہ کی موجودہ کمیوں کو دور کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ یہ ایک اہم قدم تھا جس سے حوزہ علمیہ میں اصلاحات اور اخلاقی تعلیمات کو مزید اہمیت دی گئی۔
حوزہ کی اصلاحی مقاصد کے لیے ایک جدید مدرسہ کی ضرورت تھی، جو خاص پروگرام کے تحت کوشاں اور باصلاحیت طلاب کو کم وقت میں اور بہتر معیار کے ساتھ معاشرے کے حوالے کرے۔ یہ مقصد شہید آیت اللہ بهشتی اور مرحوم آیت اللہ ربانی شیرازی کی محنتوں سے ممکن ہوا، اور مدرسہ "حقانی" کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ مدرسہ ایک فیاض شخص، حاجی حقانی نے تعمیر کیا تھا، جو زنجان کے تاجروں میں سے تھے اور شیعہ روحانیت کے بڑے مداح تھے۔
مرحوم آیت اللہ قدوسی کو اس مدرسہ کا سربراہ مقرر کیا گیا اور انہوں نے استاد مصباح یزدی کو تدریس کے لیے مدعو کیا۔ استاد مصباح نے فلسفہ، تفسیر اور اخلاقی موضوعات پر تدریس کا آغاز کیا۔ چار سال بعد، شہید قدوسی کی درخواست پر طے پایا که مدرسہ کا انتظام ایک مجلس کے ذریعے کیا جائے، استاد مصباح یزدی کو اس مدرسہ کے انتظامی بورڈ کا رکن منتخب کیا گیا۔ اس مشترکہ کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ علمی اور فکری لحاظ سے تربیت یافتہ طلاب کی ایک جماعت تیار ہوئی، جو آج مختلف اداروں میں ایرانی اسلامی جمہوریہ کے نظام میں فعال ہیں۔
ایک اور اہم خدمت جو آیت اللہ مصباح یزدی نے انجام دی، وہ " ثقافتی مرکز باقرالعلوم" کا قیام تھا۔ اس ادارے کا مقصد "مؤسسه در راه حق" کے فارغ التحصیل طلبہ کو تخصصی انسانی علوم کے کورسز میں شامل کرنا تھا۔ یہ مرکز گیارہ مختلف شعبوں میں خدمات فراہم کرتا تھا جن میں علوم قرآنی، اقتصاد، تاریخ، کلام و دین شناسی، نفسیات، علوم تربیتی، تعلقات عامه ، سیاسیات، فلسفہ، حقوق اور سماجیات شامل تھے۔
مؤسسه در راه حق اور بنیاد باقر العلوم کے پھیلاؤ اور طلاب کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر، زیادہ وسیع جگہ اور جدید سہولتوں کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے، استاد مصباح یزدی کی تدبیر اور حضرت امام خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای کی خصوصی عنایت سے "مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی"( امام خمینی تعلیمی اور تحقیقاتی مرکز) کا قیام عمل میں آیا۔ یہ ادارہ آج قریب ایک ہزار فاضل طلبہ کو اپنے زیر تربیت رکھتا ہے اور انہیں جدید علوم سے آشنا کرتا ہے۔
سیاسی سرگرمیاں
استاد مصباح یزدی نے ظالم شاهی حکومت کے خلاف نہ صرف علمی بلکہ عملی طور پر بھی احتجاج اور جدوجہد کی۔ انہوں نے "انجمنهای ایالتی و ولایتی"( صوبائی اور علاقائی انجمنیں) اور "نهضت روحانیت"(علما کی تحریک) نامی تحریکوں میں فعال شرکت کی۔ اس دوران، جب امام خمینی کو قیطریہ جیل میں قید کیا گیا تھا، استاد مصباح نے امام کے نام ایک مفصل خط بھیجا تھا جس میں امام کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ اس خط میں استاد مصباح نے امام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی موجودہ حالات کے حوالے سے تفصیلات فراہم کیں، اس کے علاوہ امام کی جلد آزادی کی پیشگوئی بھی کی۔
یہ خط امام خمینی کے لیے بڑی تسلی کا باعث بنا اور امام نے آقای حاج حسن صانعی کے ذریعے استاد مصباح کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اس خط کے ذریعے، استاد مصباح نے نہ صرف امام کی قیادت میں یقین اور اعتماد کا اظہار کیا بلکہ ایک اہم وقت پر اپنے موقف کو واضح اور محکم انداز میں پیش کیا۔ شہید آیت اللہ بهشتی نے اسلامی انقلاب کی فتح سے پهلے ، ایک اہم اور دور اندیشانہ قدم اٹھایا، جس میں انہوں نے "حکومت اسلامی" کے نظریہ پر مباحثوں کا آغاز کیا۔ ان کا خیال تھا کہ انقلاب کی کامیابی کے بعد، جو بنیادی سوالات اٹھیں گے ان میں سب سے اہم سوال یہ ہوگا کہ حکومت کا ماخذ کیا ہوگا۔ کیا انقلاب کا اصل بنیاد اسلامی حکومت ہوگی؟ اور کیا اس کے لیے کوئی جامع اور واضح منصوبہ یا نظریہ موجود ہے؟
اس مقصد کے تحت، انہوں نے آیت اللہ مشکینی، آیت اللہ ربانی شیرازی، آیت اللہ باہنر، آیت اللہ مفتح، آیت اللہ مکارم، آیت اللہ سبحانی، استاد مصباح یزدی اور دیگر اہم شخصیات کے ساتھ اجلاس منعقد کیے۔ ان مباحثات میں حکومت اسلامی کے اصولوں، بنیادیں اور قیادت پر غور و فکر کیا گیا۔ تاکہ یہ بحثیں پوشیدہ رہیں اور حکومت ان سے آگاہ نہ ہو، ان مباحثات کا نام "ولایت" رکھا گیا تاکہ ان کے اصل مقصد کو چھپایا جا سکے۔
یہ مکالمات اس بات کی بنیاد بنے کہ انقلاب کے بعد اسلامی نظام کو کس طرح تشکیل دیا جائے گا، اور اس نے ان تمام علماء اور مفکرین کو اس اہم کام کے لیے تیار کیا جو بعد میں اسلامی جمہوریہ کے قیام میں مددگار ثابت ہوئے۔ استاد مصباح یزدی، شہید آیت اللہ بهشتی کی رہنمائی میں ان جلسات کے انتظام کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ ان مباحثات میں اسلامی حکومت کے نظریات پر تفصیل سے گفتگو کی جاتی تھی۔ جب بعض علماء یا تو گرفتار ہوئے یا جلاوطنی کی سزا بھگتنے پر مجبور ہوئے، شہید بهشتی نے جرمنی جانے کا فیصلہ کیا جس کی مدت پانچ سال تک جاری رہی۔ اس دوران استاد مصباح نے دیگر علمائے کرام جیسے آقایان مظاہری، محمدی گیلانی اور یزدی کو اس اہم کام میں شریک ہونے کی دعوت دی۔
جب شہید بهشتی واپس ایران واپس آئے، تو ان کی چند سالہ محنت کا نتیجہ اس شکل میں سامنے آیا کہ اس تحقیقاتی دفتر کو تہران منتقل کیا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے، اس دفتر کو ساواک(شاهی انٹلیجنس ایجنسی) نے بند کر دیا اور تحقیقاتی فیشوں اور دستاویزات کو تباہ کر دیا گیا، جو ان کی جدوجہد اور محنت کا ایک افسوسناک خاتمہ تھا۔ اس واقعہ نے ان کی محنت کو وقتی طور پر موقوف تو کیا، مگر اس کے اثرات انقلاب کے نظریات میں بدستور موجود رہے۔
آیت اللہ مصباح یزدی کی جدوجہد میں ایک اہم پہلو ان کا نشریہ «انتقام» کی تاسیس تھا، جس کا مقصد رژیم طاغوت کے خلاف مزاحمت کو بڑھانا اور امام خمینی کی نظریات کو پھیلانا تھا۔ یہ نشریہ روحانیت اور انقلابی جذبات کی حمایت کرتا تھا اور اس کے ذریعے عوام میں بیداری اور حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نشریہ کا خصوصی پہلو یہ تھا کہ اس کے اجراء میں آیت اللہ مصباح نے نہ صرف نظریاتی رہنمائی فراہم کی بلکہ اس کو چھپانے اور اسے عوام تک پہنچانے میں بہت احتیاط برتی۔ اس نشریہ کے مواد کو کبھی کبھار رادیو کے ذریعے نشر کیا جاتا تھا، جو انقلاب کی حمایت میں اہم کردار ادا کرتا تھا اور شاہی حکومت کے لیے شدید پریشانی کا باعث بنتا تھا۔
آیت اللہ مصباح اور ان کے ساتھیوں نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے ساتھیوں کی شناخت نہیں کریں گے، جس سے ان کی راز داری اور ثابت قدمی کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس نشریہ کے ذریعے آیت اللہ مصباح نے نہ صرف عوام کو انقلاب کے مقصد سے ہم آہنگ کیا بلکہ طاغوتی طاقتوں کو بھی اپنے گہرے اثرات اور طاقت کا احساس دلایا۔ تاریخی اقدامات آیت اللہ مصباح یزدی نے طاغوتی نظام کے خلاف جو سرگرمیاں انجام دیں، ان میں کئی اہم اور تاریخی اقدامات شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ اہم فعالیتوں کا ذکر اس طرح کیا جا سکتا ہے:
نشریہ «انتقام» کا قیام:
آیت اللہ مصباح نے اس انقلابی نشریہ کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد شاہی حکومت کے خلاف مزاحمت کو فروغ دینا اور امام خمینی کے نظریات کو پھیلانا تھا۔ یہ نشریہ انقلابی طلباء اور دیگر تحریکوں میں حوصلہ پیدا کرتا تھا اور ان کی حمایت سے طاغوت کے خلاف جدوجہد کو تقویت ملتی تھی۔
تنظیموں اور اعلامیہ جات کا اجراء:
آیت اللہ مصباح نے شاہی حکومت کے ظلم و ستم کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھانے کے لئے کئی اقدامات کیے، جن میں ان کے شکوائیہ کو انگریزی زبان میں لکھ کر اقوام متحدہ اور کمیٹی برائے حقوقِ انسان کو بھیجا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے امام خمینی کے خطاب اور بیانات کو چھاپنے اور پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
سلسلہ وار تقریریں:
آیت اللہ مصباح نے «حکومت اسلامی» کے موضوع پر کئی اہم تقریریں کیں جن میں اسلامی نظامِ حکومت کے اصولوں اور فلسفے کو بیان کیا۔
مبارزاتی تنظیموں کی تشکیل:
آیت اللہ مصباح نے روحانیت کی تنظیم سازی میں بھی اہم کردار ادا کیا، جس میں تشکل یازده نفری (یعنی 11 علماء کا گروپ) کی تشکیل شامل تھی، جو منظم طور پر انقلاب کے اصولوں کے مطابق کاروائیاں کرتی تھی۔ ان تمام اقدامات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آیت اللہ مصباح یزدی نہ صرف ایک علمی اور فکری رہنما تھے، بلکہ عملی طور پر بھی شاہی حکومت کے خلاف مزاحمت میں پیش پیش تھے، اور انہوں نے انقلاب کی کامیابی کے لئے ہر سطح پر محنت کی۔
منحرف گروهوں کے خلاف جدوجهد
آیت اللہ مصباح یزدی نے منحرف گروهوں کے خلاف ہمیشہ علمی اور نظریاتی محاذ پر بھرپور جدوجہد کی۔ وہ ان شخصیات میں شامل تھے جو اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ فرہنگی انحراف کو سیاسی کامیابی کے بعد نہیں، بلکہ اسی دوران ختم کرنا ضروری ہے تاکہ اسلامی انقلاب کے بعد معاشرہ فکری گمراہی کا شکار نہ ہو۔ انہوں نے نہ صرف مارکسیزم، ناسیونالیزم، اور لیبرالیزم جیسے مغربی نظریات کے خلاف محکم دلائل دیے بلکہ اندرونی طور پر اسلامی مفاہیم کو بگاڑنے والی تحریکوں جیسے کہ منافقین، التقاطی گروہ، اور نوسلفی افکار کے خلاف بھی علمی میدان میں نمایاں کارکردگی دکھائی۔ آیت اللہ مطہری کی طرح، آیت اللہ مصباح بھی اسلامی نظریات کو تحریف سے بچانے کے لیے فکری جدوجہد کے قائل تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو سمجھتے تھے کہ اگر فکری انحرافات کا بروقت مقابلہ نہ کیا جائے، تو انقلاب کے ثمرات ضائع ہو سکتے ہیں۔ استاد مصباح نے نہ صرف مباحث کلامی، فلسفی اور تفسیری دروس میں انحرافات کا مقابلہ کیا بلکہ انہوں نے نوجوانوں کو اصیل اسلامی تعلیمات سے آراستہ کرنے کے لیے مختلف ادارے بھی قائم کیے۔ ان کی کتابیں آج بھی الحاد، مغربی فلسفہ، اور داخلی انحرافات کے خلاف ایک مضبوط علمی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف سیاسی اور فکری میدان میں ایک بےباک عالم کے طور پر جانے جاتے ہیں بلکہ ان کے آثار آج بھی اسلامی انقلاب کی فکری حفاظت کے لیے ایک محکم دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ استاد مصباح یزدی کی مارکسیزم، الحاد، اور جریانهای انحرافی کے خلاف علمی جدوجہد اسلامی انقلاب سے قبل بھی جاری تھی اور انقلاب کے بعد بھی انہوں نے اس میدان میں اپنا فریضہ جاری رکھا۔
مارکسیزم کے خلاف علمی جدوجہد
جب مارکسیزم اور دیگر مادی مکاتب فکر ایران کے علمی و فکری حلقوں میں نفوذ کر رہے تھے، استاد مصباح نے ان خطرات کو واضح کیا اور عملی طور پر اس کے سد باب کے لیے کام کیا۔ تدوین کتابیں و جزوات: انہوں نے مارکسیزم کے فلسفیانہ اور اعتقادی بنیادوں پر علمی نقد کیا۔ کلاسهای نقد مبانی مارکسیزم: انہوں نے ایسے فکری حلقے تشکیل دیے جہاں اسلامی فلسفہ، الهیات، اور توحید کی بنیاد پر مارکسی افکار کا رد پیش کیا جاتا تھا۔
اسلام منهای روحانیت" کے خطرے کو آشکار کرنا
انقلاب سے قبل بعض روشنفکران یہ نظریہ پیش کر رہے تھے کہ اسلام کو روحانیت کے بغیر یعنی علماء اور حوزہ علمیہ کے بغیر پیش کیا جائے۔ استاد مصباح نے ان کے نظریات پر پردہ اٹھایا اور واضح کیا کہ حقیقی اسلام وہی ہے جسے ائمہ اطہار(ع) اور علماء نے محفوظ رکھا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ اسلام کو "شخصی تفسیر" کے ذریعے منحرف کرنا، درحقیقت اسلام کی جڑوں پر حملہ ہے۔ قاطعیت و استقامت بعض حلقے ان کی شدت عمل پر نرمی برتنے کا مشورہ دیتے، مگر استاد مصباح عزمِ راسخ اور پولادین ارادے کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہے۔ وہ توحید، معاد، اور نبوت کے مبانی کے تحریف کے خلاف کھڑے رہے۔ انہوں نے مناظرات، مقالات، اور خطابات کے ذریعے دشمن کے فکری ہتھکنڈوں کا پردہ چاک کیا۔ ان کے نظریات آج بھی اسلامی انقلاب کے فکری دفاع کے بنیادی مآخذ شمار ہوتے ہیں۔ انقلاب کے بعد بھی فکری تحفظ کا محاذ انقلاب کے بعد بھی تحریف شدہ اسلامی نظریات کو فروغ دینے والے حلقے سرگرم رہے، مگر استاد مصباح نے اس محاذ کو کبھی خالی نہ چھوڑا۔ وہ جمهوریت و اسلامیت کے مبانی کے تحفظ کے لیے میدان میں موجود رہے۔ آج بھی ان کی کوششوں کے آثار دانشگاہی اور حوزوی حلقوں میں نمایاں ہیں اور جوان نسل ان سے مستفید ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استاد مصباح یزدی کو اسلامی معارف کے ایک مضبوط محافظ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
وفات
وہ ایک مدت تک شدید بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد کچھ عرصہ تک بسترِ علالت پر رہے اور بالآخر 12 دی 1399 ہجری شمسی (مطابق 1 جنوری 2021) کو 86 سال کی عمر میں دارِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ وہ اپنی عمر بھر کی جدوجہد، علمی خدمات اور اصلاحی اقدامات کے بعد حرم حضرت معصومہ (س) میں اپنے استاد آیتالله العظمی بہجت کے مزار کے قریب ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوئے۔
حوالہ جات
- زندگینامه آیت الله مصباح یزدی رئیس موسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی (رحمة الله) ( امام خمینی تعلیمی اور تحقیقاتی مرکز کے بانی اور سربراه علامه مصباح یزدی کی سوانح حیات)-eheyat.com (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: تاریخ اخذ شده: 18 / فروری/ 2025ء.
- مروری بر زندگینامه آیتالله مصباحیزدی ( آیت الله مصباح یزدی کی سوانح حیات پر ایک نظر)-www.hawzahnews.com (زبان فارسی)- تاریخ درج شده:5/ جنوری/2021ء تاریخ اخذ شده: 18 / فروری/ 2025ء.
- آیت الله محمد تقی مصباح یزدی (ره) jameehmodarresin.org (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: تاریخ اخذ شده: 18 / فروری/ 2025ء.