طوفان الاقصی

ویکی‌وحدت سے
طوفان الاقصی -2.jpg

طوفان الاقصیٰ (آپریشن طوفان الاقصیٰ) 7 اکتوبر 2023 کو، حماس کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کا آغاز کیا، غزہ کے مجاہدین نے اسرائیلی رکاوٹ کو توڑتے ہوئے اور غزہ کی سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے قریبی اسرائیلی بستیوں میں داخل ہوگئے۔ حماس نے اسے آپریشن طوفان الاقصیٰ کا نام دیا۔ 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کی حدود میں یہ پہلا براہ راست تنازعہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس آپریشن کو کامیاب آپریشن قرار دیا۔ اسی طرح حضرت آیت اللہ سید علی سیستانی نے اس کے آپریشن کے بعد مسلمان امت کے لئے اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتوی دیا۔

آپریشن طوفان الاقصیٰ

آپریشن طوفان الاقصیٰ کے نام سے 7 اکتوبر 2023 کو، حماس کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کا آغاز کیا، مجاہدین اسلام نے اسرائیلی رکاوٹ کو توڑتے ہوئے اور غزہ کی سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے قریبی اسرائیلی بستیوں میں داخل ہوگئے۔ حماس نے اسے آپریشن طوفان الاقصیٰ کا نام دیا۔ 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کی حدود میں یہ پہلا براہ راست تنازعہ ہے۔ جنگ کا آغاز صبح سویرے اسرائیل کے خلاف راکٹوں اور گاڑیوں کے ذریعے اسرائیلی سرزمین میں داخلے کے ساتھ کیا گیا تھا، جس میں ارد گرد کے اسرائیلی شہری علاقے اور اسرائیلی فوجی اڈوں پر کئی حملے کیے گئے تھے۔ بعض مبصرین نے ان واقعات کو تیسرے فلسطینی انتفاضہ کا آغاز قرار دیا ہے۔ 1973 کی جنگ یوم کپور کے بعد پہلی بار اسرائیل نے باضابطہ طور پر جنگ کا اعلان کیا۔ اسرائیل نے اپنے جوابی عمل کو آپریشن آہنی تلوار کا نام دیا ہے ۔

فلسطینیوں کا حملہ، غزہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بڑی خرابی کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ جنگ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مہینوں کی جھڑپوں کے بعد شروع ہوئی ہے ، جن میں جنین اور مسجد اقصی بھی شامل ہے، جس میں تقریباً 250 فلسطینی اور 32 اسرائیلی مارے گئے؛حماس نے ان واقعات کو حملے کا جواز بنایا ہے۔ حماس کی عسکری شاخ، عزالدین القسام بریگیڈز کے کمانڈر محمد ضیف، نے فلسطینیوں اور عرب اسرائیلیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ "قابضین کو نکال باہر کریں اور گرتی ہوئی دیوار کو دھکا دیں "۔ جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد مغربی کنارے میں ایک ہنگامی اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس نے جنگ کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو اسرائیلی قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ اسرائیل میں یش عتید کے يائير لپید نے فلسطینی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اتحاد کی حکومت کے قیام کی وکالت کی ہے۔ غزہ کی پٹی سے کم از کم 3,000 راکٹ فائر کیے گئے۔ حماس کے مجاہد سرحدی رکاوٹوں کو توڑ کر اسرائیل میں داخل ہوئے، جس سے کم از کم 700 اسرائیلی ہلاک ہوئے ۔

اور اسرائیل کی حکومت کو ہنگامی حالت کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے حملوں کے آغاز کے بعد ایک قومی خطاب میں کہا کہ اسرائیل حالت ’جنگ میں ہے‘۔اسرائیل میں داخل ہونے والے فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی کے قریب کیبوتس کے ساتھ ساتھ سدیروت شہر کو بھی اپنی عملداری میشامل ں کرلیا۔ اسرائیل نے سٹریٹجک عمارتوں اور گھروں پر بمباری کرکے حملے کے خلاف جوابی کارروائی کی۔ غزہ میں حماس کی زیر قیادت فلسطینی وزارت صحت نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل نے کم از کم 400 فلسطینیوں کو دوبدو لڑائی اور فضائی حملوں میں شہید کیا ہے، جن میں عام شہری، 78 بچے اور 41 خواتین شامل ہیں۔ فلسطینی اور اسرائیلی میڈیا دونوں ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو، جن میں بچے بھی شامل ہیں، فلسطینی مجاہدین نے جنگی قیدی بنا لیا ہے؛ ان میں سے کئی یرغمالیوں کو مبینہ طور پر غزہ کی پٹی لے جایا گیا ہے۔ حماس کے حملے کے آغاز کے بعد ایک ہسپتال اور ایمبولینس سمیت شہری اہداف پر اسرائیلی بمباری ہوئی جس میں تقریباً 200 افراد مارے گئے [1]۔

فلسطینی حملہ

راکٹ بیراج

اکتوبر 2023ء کو اسرائیل 06:30 بجے، حماس نے آپریشن کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل میں 20 منٹ کے اندر اندر 5000 سے زیادہ راکٹ فائر کیے ہیں۔ اسرائیلی ذرائع نے بتایا ہے کہ غزہ سے کم از کم 3000 پروجیکٹائل داغے گئے ہیں۔ راکٹ حملوں میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔ دھماکوں کی اطلاع غزہ کے آس پاس کے علاقوں اور سہل شارون کے شہروں بشمول غدیرا، ہرتزیلیا، تل ابیب اور عسقلان میں موصول ہوئی تھی۔ بئر سبع، یروشلم، رحوووت، ریشون لصیون اور پاماچیم ایئربیس میں بھی فضائی حملے کے سائرن بجائے گئے۔ حماس نے جنگ کی کال جاری کی، جس میں اعلیٰ فوجی کمانڈر محمد ضیف نے ہر جگہ مسلمانوں سے اسرائیل میں حملہ کرنے کی اپیل کی۔

فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی کے قریب اسرائیلی کشتیوں پر بھی فائرنگ کی، جب کہ غزہ کی سرحدی باڑ کے مشرقی حصے میں فلسطینیوں اور آئی ڈی ایف کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ شام کو حماس نے اسرائیل کی طرف تقریباً 150 راکٹوں کا ایک اور بیراج داغ دیا، جس میں یفنہ، جفعاتایم، بت یام، بیت دگان، تل ابیب اور رشون لیزیون میں دھماکوں کی اطلاع ہے۔ اس کے بعد 8 اکتوبر کی صبح ایک اور راکٹ بیراج ہوا، جس میں ایک راکٹ عسقلان کے برزیلائی میڈیکل سینٹر پر گرا۔ حماس نے سدیروت پر 100 راکٹ بھی فائر کیے ہیں۔ 9 اکتوبر کو حماس نے تل ابیب اور یروشلم کی سمت میں ایک اور بیراج فائر کیا، ایک راکٹ بین گوریون ہوائی اڈے کے ٹرمینل کے قریب گرا۔

اسرائیل میں فلسطینی حملہ

تقریباً 1000 فلسطینی مجاہدین نے ٹرکوں، پک اپ، موٹر سائیکلوں، بلڈوزروں، اسپیڈ بوٹس اور پیرا گلائیڈر کے ذریعے غزہ سے اسرائیل میں دراندازی کی۔ تصاویر اور ویڈیوز میں سیاہ رنگت والے پک اپ ٹرکوں میں ملبوس بھاری مسلح اور نقاب پوش مجاہدین کو دکھایا گیا ہے جنہوں نے سدیروت میں فائرنگ کرتے ہوئے کئی اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ دیگر ویڈیوز میں اسرائیلیوں کو قیدی بناتے اور جلتے ہوئے اسرائیلی ٹینک، کے ساتھ ساتھ مجاہدین کو اسرائیلی فوجی گاڑیوں میں سوار دکھایا گیا ہے۔ اس صبح، ریئم کے قریب ایک آؤٹ ڈور میوزک فیسٹیول میں ایک قتل عام ہوا، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے، بہت سے لوگ ابھی تک لاپتہ اور روپوش ہیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ موٹر سائیکلوں پر سوار عسکریت پسند فرار ہونے والے شرکاء پر فائرنگ کر رہے تھے، جو پہلے ہی راکٹ فائر کی وجہ سے منتشر ہو رہے تھے جس سے کچھ شرکاء زخمی ہو گئے تھے۔

کچھ کو یرغمال بھی بنا لیا گیا۔ حملہ آور افواج کو نیر اوز، بیری اور نیتیو ہاسارا میں،نیز غزہ کی پٹی کے ارد گرد کبوتزم میں، بھی دیکھا گیا، جہاں انہوں نے مبینہ طور پر لوگوں کو یرغمال بنایا اور گھروں کو آگ لگا دی،۔ نتيف عشرہ حملے میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ افکیم میں بھی یرغمال بنائے جانے کی اطلاع ملتی ہیں ، جبکہ سدیروت میں گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ حماس نے کہا کہ اس نے اسرائیل کو اپنے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے مجبور کرنے کے لیے قیدیوں کا سہارا لیا اور دعویٰ کیا کہ اس نے تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے کافی تعداد میں اسرائیلی قیدی بنائے ہیں۔

آپریشن طوفان الاقصیٰ کے حوالے سے سید علی خامنه ای کا موقف

طوفان الاقصی ایسا تباہ کن زلزلہ تھا جس نے غاصب صیہونی حکومت کی بنیادوں کو تباہ کردیا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ نے منگل کو تہران کی امام علی کیڈٹ یونیورسٹی کی سالانہ تقریب سے خطا ب میں مزاحمتی فلسطینی محاذ کے آپریشن طوفان الاقصی کی قدردانی کی۔ ایران کے سپریم لیڈر نے فرمایا کہ سات اکتوبر کو غاصب صیہونی حکومت کو فوجی اور خفیہ ایجنسی دونوں لحاظ سے ایسی شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ جس کی تلافی نہیں ہوسکتی ۔آپ نے فرمایا کہ صیہونی حکومت کی شکست کی بات سب کرتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ شکست ناقابل تلافی ہے [2].

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ یہ ایسا تباہ کن زلزلہ تھا جس نے غاصب صیہونی حکومت کی بنیادوں کو تباہ کردیا اور ان بنیادوں کی تعمیر آسانی سے ممکن نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں فلسطینی نوجوانوں اوراس آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے والے ذہین اور مدبر جوانوں کی پیشانی اور بازوؤں کو بوسہ دیتا ہوں اور جو یہ کہتے ہیں کہ یہ رزمیہ کارنامہ فلسطینیوں کا کام نہیں ہے، وہ اپنے اندازوں میں غلطی کررہے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ مصیبت اپنے اوپر صیہونی خود اپنی کارکردگی سے لائے ہیں ۔ جب ظلم و جرائم حد سے گزرجائے، جب درندگی آخری حد کو پہنچ جائے تو طوفان کا منتظر رہنا چاہئے ۔

سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ فلسطینیوں کا دلیرانہ اور فداکارانہ اقدام غاصب دشمن کے ان جرائم کا جواب ہے جس کا ارتکاب اس نے برسوں کیا ہے اور حالیہ مہینوں کے دوران ان میں شدت آگئی تھی ۔ اس کی ذمہ دار موجودہ صیہونی حکومت بھی ہے اور ماضی کی حکومتیں بھی ہیں۔ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ خبیث اور ظالم دشمن اب طمانچہ کھانے کے بعد خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ دوسرے بھی اس کی مدد کررہے ہیں ، یہ مظلوم نمائی حقیقت کے برعکس اور جھوٹ ہے۔ اور یہ کوشش اس لئے کی جارہی ہے کہ فلسطینی مجاہدین غزہ کے محاصرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے اور صیہونیوں کے فوجی اور غیر فوجی مراکز تک پہنچ گئے ۔ آپ نے سوالیہ انداز میں فرمایا کہ " کیا وہ مظلوم ہے؟ یہ حکومت غاصب ہے ، مظلوم نہیں ظالم ہے ، جارح ہے، جاہل ہے ، ہرزہ سرائی کرتی ہے، مظلوم نہیں ظالم ہے اور کوئی بھی اس شیطان صفت دیو کو مظلوم بنا کے نہیں پیش کرسکتا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ مظالم اورجرائم ، بہادر فلسطینی جوانوں اور فداکار فلسطینیوں کے عزم و ارادے کو مزید پختہ کریں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ وہ دن چلا گیا جب وہ آتے تھے تاکہ ظالم کے ساتھ نشست وبرخاست کرکے، بات کرکے، فلسطین میں اپنے لئے کوئی جگہ بنالیں ۔ وہ دور اب نہیں رہا۔ آج فلسطینی بیدار ہیں ، فلسطینی نوجوان بیدار ہیں اور فلسطینی منصوبہ ساز پوری مہارت کے ساتھ اپنے کام میں مشغول ہیں ۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمن کا یہ اندازہ اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ وہ خود کو مظلوم ظاہر کرکے اپنے مجرمانہ حملوں کا سلسلہ جاری رکھ سکیں گے۔

حضرت آیت اللہ سید علی سیستانی کا اسرائیل کے خلاف جهاد کا کا فتوی

آیت اللہ سیستانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صیہونی حکومت کے جرائم دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہورہے ہیں لیکن کوئی انکو روکنے والا نہیں ہے.[3] ۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا کو اس گھناؤنے ظلم کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، ورنہ جارحین کے خلاف مزاحمت جاری رہے گی۔ آیت اللہ سیستانی نے تاکید کی کہ فلسطینیوں کو جائز حقوق دینا اور قبضے کا خاتمہ ہی خطے میں سلامتی کے حصول کا واحد راستہ ہے.

رد عمل

ایران

اقوام متحدہ میں ایران کے وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کی تقریر:

  • اسرائیلی صھیونی حکومت غزہ میں نسل کشی کر رہی ہے۔
  • طوفان اقصی آپریشن صرف ایک اسرائیلی صھیونی جرائم کا نتیجہ ہے۔
  • اسرائیلی صھیونیوں کو حق دفاع ایک مذاق ہے۔
  • صہیونی اسرائیل ہر قسم جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔
  • امریکہ کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر خطے میں جنگ بھڑکاؤ گے تو خود بھی امان میں نہیں رہو گے [4].

پاکستان

پاکستان میں فلسطینی مزاحمت کے حامیوں کی جانب سے آپریشن "الاقصی طوفان" کی حمایت۔ آج پاکستانی نیوز نیٹ ورکس نے "الاقصیٰ طوفان" نامی آپریشن کے آغاز کے بعد مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال بتانے کے لیے اپنے روزمرہ کے پروگراموں کے دوران خصوصی رپورٹنگ کی۔ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں نے بھی غاصب صیہونی دشمن کے خلاف فلسطینی مزاحمت کے حامیوں کی جانب سے آپریشن "الاقصی طوفان" کی بھرپور حمایت کی۔ پاکستانی جی ٹی وی نیٹ ورک نے اپنی بریکنگ نیوز میں اعلان کیا کہ صہیونی ’’اقصیٰ طوفان‘‘ آپریشن سے حیران ہیں۔ پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے منصفانہ، جامع اور دیرپا حل کا اعادہ کرتا ہے، ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی کلید کے طور پر دو ریاستی حل کی مسلسل وکالت کی ہے۔.[5]

جماعت اسلامی پاکستان

جماعت اسلامی کے نمائندے سینیٹر مشتاق احمد خان نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کی کامیابی پر فلسطینی عوام اور جنگجوؤں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں نے اپنی آزادی اور استقلال کے لیے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ انہوں نے کہا کی کہ فتح یقینی طور پر بہادر فلسطینی عوام کی ہے جبکہ شکست اور ذلت غاصب صیہونی افواج کا ابدی مقدر ہے۔

اسلامی تحریک پاکستان

غزہ 66 دن سے ظلم کی تاریکی کا شکار ، ایسی نسل کشی کبھی انسانیت نے نہ دیکھی، ساجد نقوی۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان: جنرل اسمبلی ،سلامتی کونسل، او آئی سی سمیت عالمی ادارے بری طرح ناکام ہوگئے، دنیا نے ظلم و تشدد کے موقع پر بھی اعلانیہ جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں غزہ 66دن سے ظلم کی تاریکی کا شکار، ایسی نسل کشی کبھی انسانیت نے دیکھی نہ سنی جو ظلم و جبر و تشدد غز ہ پر 7 اکتوبر کے بعد سے آج تک جاری ہے، جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، او آئی سی سمیت عالمی ادارے بری طرح ناکام ہوگئے، دنیا نے ظلم و تشدد کے موقع پر بھی اعلانیہ جانبداری دکھائی، اس سے بڑا ظلم، اس سے بڑی دہشت گردی اور اس سے بڑھ کر نسل کشی اور کیا ہوگی کہ شیرخوار بچوں سمیت حاملہ خواتین تک کو درندگی کانشانہ بناتے ہوئے بموں سے اڑادیاگیا، اسپتالوں، مساجد، گرجا گھروں اور سکولوں سمیت رہائشی عماراتوں کو نشانہ بناکر انسانیت کو درگور کردیاگیا۔

مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین، دانش ور، صحافی، سماجی و سیاسی شخصیات، ادیب اور رضا کاروں سمیت سب کو چن چن کر نشانہ بنایاگیا،انسانی وقار خاک میں مل چکا ہے ،استعماریت کو کھلی چھوٹ مل چکی۔ان خیالات کا اظہار قائد ملت جعفریہ پاکستان نے صحت سہولیات اور غیر جانبداری کے یوم پر اقوام عالم کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ افسوس کہ اقوام متحدہ اقوام عالم کے لئے انسانی حقوق کی فراہمی کے اپنے مشن میں کامیاب نہ ہوسکا، بڑی ریاستوں اور جارح ممالک کے سامنے اقوام عالم کے سب سے بڑے ادارے کی ایک نہیں چلتی۔ غزہ 66 دن سے ظلم کی تاریکی کا شکار، ایسی نسل کشی کبھی انسانیت نے دیکھی نہ سنی جو ظلم و جبر و تشدد غز ہ پر 7 اکتوبر کے بعد سے آج تک جاری ہے، جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، او آئی سی سمیت عالمی ادارے بری طرح ناکام ہوگئے، اس سے بڑا ظلم، اس سے بڑی دہشت گردی اور اس سے بڑھ کر نسل کشی اور کیا ہوگی کہ شیرخوار بچوں سمیت حاملہ خواتین تک کو درندگی کانشانہ بناتے ہوئے بموں سے اڑادیاگیا، اسپتالوں، مساجد، گرجا گھروں اور سکولوں سمیت رہائشی عماراتوں کو نشانہ بناکر انسانیت کو درگور کردیاگیا، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین، دانش ور، صحافی، سماجی و سیاسی شخصیات، ادیب اور رضا کاروں سمیت سب کو چن چن کر نشانہ بنایاگیا۔ انہوں نے مزید کہاکہ یو این سیکرٹری جنرل سلامتی کونسل کے مفلوج ہونے کی دہائی دے رہے ہیں کیونکہ انسانی حقوق پامال ہوچکے، شیطان اپنی آب و تاب کیساتھ استعماریت کو کھلی چھوٹ دے چکا [6]۔

وحدت المسلمین

پارٹی کے سربراہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ "الاقصی طوفان" آپریشن فلسطین کے بہادر جوانوں کی ایمانی طاقت کے مقابلے میں کرپٹ اور ناجائز غاصب صیہونی حکومت کی ذلت اور بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام ہمیشہ اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہیں اور آج کے آپریشن کی کامیابی کے لیے خدا سے دعاگو ہیں۔ انہوں نے غزہ کی پٹی پر رہائش پذیر فلسطینیوں پر اسرائیل کے فضائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام کو نہتے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی غاصب حکومت کی جارحیت کے خلاف متحد ہونا چاہیے۔

امت واحده پاکستان

امت واحدہ پاکستان کے سربراہ نے طوفان الاقصی آپریشن اور موجودہ فلسطین کی صورتحال کے حوالے سے حوزہ نیوز کے نامہ نگار سے گفتگو کی ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے طوفان الاقصی آپریشن اور موجودہ فلسطین کی صورتحال کے حوالے سے حوزہ نیوز کے نامہ نگار کو انٹرویو دیا ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

  • سوال: اسرائیل و فلسطین جنگ کی کیا وجہ ہے؟ اس میں اسرائیل کا کیا رول ہے اور حماس نے یہ حملہ کیوں کیا؟

علامہ امین شہیدی: پوری دنیا کی طاقتوں نے مل کر 18ویں صدی کے آخری عشرے میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ انہوں نے ہر صورت میں فلسطین کی سرزمین کو فلسطینیوں سے لے کر یہودیوں کے حوالے کرنا ہے اور اس کے لئے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے تمام ممالک نے اپنا کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ 1917ء میں انہوں نے اعلامیہ بالفور (Balfour Declaration)کے ذریعہ باقاعدہ اس کا اعلان کر دیا کہ وہ آہستہ آہستہ سرزمینِ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی بنیاد فراہم کرتے چلیں گے۔ پھر 1948ء میں انہوں نے ایک غاصب ریاست کی تشکیل کے حوالے سے اعلان کر دیا جس کا نام اسرائیل رکھا گیا۔ صورتحال یہ تھی کہ اس میں سب سے زیادہ رول برطانیہ، فرانس، امریکہ اور یورپ نے ادا کیا۔ اقوامِ متحدہ نے چونکہ اس سرزمین کو برطانیہ کے حوالے کر دیا تھا کہ آپ اس کو کنٹرول کریں گے تو انہوں نے فلسطینیوں کو دبا کر اور باہر سے یہاں یہودیوں کو لا کر کے آباد کیا اور اقوامِ متحدہ ہی کے ذریعہ سے فلسطین کی 57 فیصد زمین ان کے حوالے کر دی۔ اس کے نتیجہ میں اسرائیلیوں کو ایک نئی ریاست کے قیام کا موقع مل گیا جس کی پشت پر پوری مغربی دنیا موجود تھی۔

اسرائیل کی تشکیل کے اصل ہدف دو تھے۔ ایک ہدف تو یہ تھا کہ اس خطے میں چونکہ تیل کے ذخائر، معدنیات کے ذخائر اور بہت بڑے گیس کے ذخائر اس کے علاوہ اس علاقہ میں کئی دیگر قدرتی ذخائر بے تحاشا موجود ہیں تو اس علاقہ کو وہ جب جنگوں کا مرکز بنا دیں گے اور انہیں ہمیشہ آپس میں جھگڑوں اور مسائل کا شکار رکھیں گے تو نتیجتاً اس علاقے میں ترقی نہیں ہو گی اور جب ترقی نہیں ہو گی، علم آگے نہیں بڑھے گا، علمی اور ثقافتی حوالے سے جب وہاں کی ثقافت ترقی نہیں کرے گی تو نتیجتاً مغربی ممالک کو اس علاقہ پر قبضہ کرنے کا موقع ملے گا اور اس کے لئے یہاں پر جھگڑے کی بنیاد قائم کرنا ضروری ہے اور وہ ہے اسرائیل اور یہودی ریاست کا قیام۔

دوسرا یہودیوں کے حوالے سے مغربی دنیا کو ایک تلخ تجربہ تھا کہ یہ ایک ایسی نسل ہے جس نے ہمیشہ سے انسانیت کی ناک میں دم کر رکھا ہے لہذا انہوں نے ان کو ایک الگ ریاست دے اور مغربی دنیا سے دور رکھ کر اپنی بھی جان چھڑائی ہے لیکن یہودی ریاست کو اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنے اور ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کو ہمیشہ روندنے کا ایک موقع فراہم کیا۔

اس کے بعد فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالنا شروع کر دیا گیا، اقوامِ متحدہ اور اقوامِ عالم نے ان کی پوری پوری حمایت کی۔ ابتدائی دور میں عربوں نے اس کے مقابلہ میں مزاحمت کی اور کئی جنگیں ہوئیں لیکن وہ اسرائیل سے شکست کھا گئے۔ جس کے نتیجہ میں اسرائیل کی قوت و ہیبت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

یہاں تک کہ پچاس کی دہائی میں p-n-oتشکیل پائی اور پی- این- او کی تشکیل کے بعد ایک مزاحمتی عمل خود فلسطین کے اندر سے شروع ہوا لیکن وہ بھی بہت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا۔ یاسر عرفات کو انہوں نے آہستہ آہستہ اپنے شیشہ میں اتار لیا اور اس کی شادی بھی یورپ کی ایک خاتون سے کروا دی اور گھر سے ہی اس کی تبدیلی کا آغاز ہوا اور وہ بجائے مبارزہ اور مقابلہ کے مفاہمت وغیرہ کی ڈگر پر چل پڑا۔

1967ء میں اقوامِ متحدہ کے زیرِ سایہ ایک معاہدہ انجام پایا جس میں دو ریاستی تصور دیا گیا جس کے نتیجہ میں ایک ریاست اسرائیل اور دوسری ریاست فلسطین بننا قرار پائی۔ یاسر عرفات اور اس کے ساتھیوں نے اس کو قبول کر لیا، عربوں نے اس کو قبول کر لیا۔ اس لئے کہ ان کو اندازہ ہو گیا کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ اس لئے بھی نہیں کر سکتے چونکہ اس کے ساتھ پوری دنیا ہے۔ لہذا انہوں نے کمپرومائز کرنا مناسب سمجھا اور جہادی اور مبارزاتی راستے کے بجائے مفاہمت، شکست اور ذلت کا رستہ اختیار کیا۔ لیکن اس کا بھی نتیجہ یہی نکلا کہ جنگ تو ختم ہو گئی لیکن اسرائیلیوں کی پیش قدمی نہیں رکی اور انہوں نے بجائے اس کے کہ فلسطین کو ایک الگ ریاست کے طور پر قبول کرتے، انہوں نے اس کو مزید سکیڑنا شروع کر دیا اور اس کے حدودِ اربعہ پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا یہاں تک کہ اس دوران ایران میں 1979ء میں انقلابِ اسلامی کامیاب ہوتا ہے جس کی کامیابی کے بعد صورتحال تبدیل ہونا شروع ہوئی۔

اب اگر انقلابِ اسلامی سے پہلے اور بعد کی فلسطین کی جنگوں کو دیکھیں تو ایک واضح فرق نظر آئے گا کہ جب امام خمینی (رہ) نے قدس کی حمایت کا اعلان کیا تھا تو اس کے بعد ریاستی طور پر ایران نے فلسطینیوں کا ساتھ دینا شروع کر دیا، ان کے سر پر ہاتھ رکھنا شروع کر دیا لہذا 1979ء کے بعد کی جنگوں میں طوالت کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جو کہ پہلے صرف 2،3 دن جاری رہنے اور عربوں کے پسپا ہو جانے پر ختم ہو جایا کرتی تھیں۔ اس سے پہلے یہ غلیلوں اور پتھر سے یا زیادہ سے زیادہ چاقو سے لڑتے تھے لیکن اس کے بعد ان کے پاس اسلحہ بھی آیا اور آہستہ آہستہ وہ منظم ہونا شروع ہوئے۔ لیکن باوجود اس کے یاسر عرفات نے صہیونیوں کا مقابلہ نہیں کیا یا نہیں کر سکا یہاں تک کہ حماس تشکیل پائی۔ جس کے تشکیل پانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ جو مسلمانوں کے یہودیوں سے جنگ کا جذبہ ہے اسے زندہ رکھا جائے۔

اب جب حماس نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو فلسطینیوں کے اندر ایک نئی روح پیدا ہونی شروع ہوئی۔ اس دوران کئی تحولات بھی آئے جس میں دہشت گروہ داعش کا وجود اور اس کے ذریعہ حماس کے کئی افراد کو ورغلا کر ساتھ ملانا وغیرہ شامل تھا۔ جو کہ بعد میں انہیں حقیقت پتا چلنے پر پشیمانی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسی طرح اسرائیلیوں نے دینِ ابراہیمی کے نام پر الہی ادیان کے درمیان مفاہمت کے نام سے ایک تحریک چلانی شروع کر دی اور اس میں سعودیہ سمیت باقی عرب ممالک کو شریک کیا اور نتیجتاً اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہیں ہموار کرنا شروع کر دیں۔

اسرائیل کو تسلیم کرنا یعنی جہاد و مقاومت سے ہاتھ اٹھانا، غاصب صہیونیوں کے ناجائز حق کو تسلیم کرنا، لاکھوں کروڑوں بے گناہ شہید ہونے والے بچوں، بڑوں، بوڑھوں اور خواتین کے خون کا سودا کرنا، بیت المقدس کو یہودیوں کے ہاتھ فروخت کرنا، فلسطین کی سرزمین کے مالک بلاشرکت غیرے یہودیوں کو قرار دینا اور مسلمانوں کو ان کا غلام تسلیم کرنا وغیرہ۔ اور ہمارے عرب ملکوں کے حکمرانوں نے اس بات کو تسلیم بھی کر لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یو۔اے۔ای اور بحرین نے تسلیم کر لیا، ترکی اور مصر پہلے ہی تسلیم کر چکا تھا اور اسی طرح کئی اور عرب ممالک کا بھی اضافہ ہوا۔ اور یہ سلسلہ بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا حتی کہ عالم اسلام کی یہ ذہنی کیفیت بنا دی گئی کہ دنیا کہہ رہی تھی کہ جو مسلم ممالک بچ گئے ہیں سب نے اسرائیل کو تسلیم کر لینا ہے لہذا اب اس صورتحال میں حماس کو یہ نظر آ رہا تھا کہ اب اگر انہوں نے کوئی ردعمل نہیں دکھایا تو ان کے اصولی موقف اور انسانی ایشو کو زندہ رکھنا شاید مشکل ہو جائے۔

یہی وجہ ہے کہ آزادیٔ فلسطین کے ہدف کو زندہ رکھنے اور آزادی ٔبیت المقدس کے اندر نئی جان پھوکنے کے لئے فلسطینیوں نے 7 اکتوبر کو اک ایسا معرکہ سرانجام دیا کہ ماضی کی سات دہائیوں میں جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس آپریشن سے فلسطینیوں کو کئی عظیم فوائد حاصل ہوئے اور دنیا کی آنکھ کھلی۔ سب سے پہلا اس کا فائدہ یہ تھا کہ حماس نے یہ ثابت کیا کہ اسرائیلی مکڑی کے جالے کی طرح سے ہیں، انہیں شکست دی جا سکتی ہے۔ حماس نے اس حملہ سے دنیا کو بتایا کہ اسرائیل کی جتنی بھی ٹیکنالوجی اور پیشرفتہ سسٹم ہے جس کی وجہ سے کئی مسلم ممالک ان سے مرعوب تھے، وہ فلسطینیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، حماس نے یہ بھی ثابت کیا کہ جس فوج کو دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور فوج کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا وہ غبارے میں ہوا کی مانند تھا جس کو پھاڑنا اور انہیں شکست دینا صرف چند سو جوانوں کا کام ہے، حماس کے اس حملے نے یہ بھی ثابت کیا کہاسرائیلیوں کے اردگرد جتنی بھی دیواریں اور ٹیکنالوجیز ہیں ان سب کو چکمہ دیا جا سکتا ہے اور ان کی وہ پیشرفتہ ٹیکنالوجیز فیل ہو سکتی ہیں، حماس نے یہ بھی ثابت کیا کہ اسرائیلی کتنے بڑے درندہ صفت ہیں کہ چند سو حماس کے جوانوں کے ردعمل میں وہ اس خطے میں کس کس طرح کے ظلم ڈھا سکتے ہیں۔

حماس نے اس آپریشن کے ذریعہ پوری دنیا کی آنکھیں کھول دیں، حماس کے اس حملے کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ میں رہنے والے عام مسیحیوں کی آنکھیں کھل گئیں کہ یہ یہودی کتنے ظالم اور درندہ صفت ہیں، کتنے وحشی ہیں کہ ان کو نہ بچوں کا پاس ہے اور نہ عورتوں اور بوڑھوں کا خیال ہے، نہ ہسپتالوں کا خیال ہے اور نہ اسکولوں کا خیال ہے۔ ان کو اپنے علاوہ سب کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں اور وہ اپنے مقاصد کے لئے بڑے سے بڑا جرم انتہائی آسانی سے انجام دے سکتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کے اندر حیوانیت اپنے عروج پر ہے۔ یہ حماس کے اس حملے نے اور اس کے ردعمل کے طور پر اسرائیلی درندگی نے ثابت کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ نیویارک، برلن، پیرس، مشی گن، لندن، کینیڈا اور مغرب کے تقریبا تمام بڑے بڑے ممالک اور شہروں میں لاکھوں کے حساب سے لوگ نکلے اور ان میں مسلمانوں کے ساتھ مسیحی بھی تھے اور حتی بہت ساری جگہوں پر یہودی بھی تھے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس نے بہترین اور تاریخی کام کیا اور وہ جو دینِ ابراہیمی کے نام پر ایک مفاہمت کی تحریک چل رہی تھی اور امن پراسیس کے نام پر وہ فلسطینیوں کا قلع قمع کرنا چاہتے تھے اور فلسطینی اور بیت المقدس ایشو کو دفن کرنا چاہتے تھے، وہ اس میں بہت بری طرح ناکام ہوئے اور جو بڑے بڑے اسلامی ممالک جو اپنے آپ کو لیڈنگ رول پر دیکھتے ہیں ان ممالک نے جو منصوبہ بندی کی تھی کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کریں گے اور وہاں سفارت خانے کھولیں گے تو وہ سارے کا سارا منصوبہ ملیا میٹ ہو گیا اور اس وقت فلسطین کو حوالے سے رائے عامہ اتنی شدید ہے کہ یہ سارے عرب ممالک مل کر سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کوئی ہلکا سا بھی بیان دے سکیں۔

تو اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو حماس کے اس قدم نے یہ ثابت کیا کہ حماس کے اس آپریشن نے کتنے بڑے فوائد حاصل کئے اگرچہ اس کی قیمت دینی پڑی، اگرچہ اسرائیلیوں نے 5ہزار سے زیادہ نہتے لوگوں کو شہید کیا، اگرچہ اسرائیلیوں نے مختلف بلڈنگز گرائیں، انفراسٹرکچر کو تباہ کیا لیکن دنیا کے سامنے اسرائیل بے نقاب بھی ہوا اور اسرائیل کی ہمدردی کے جو جذبات یورپ وغیرہ میں تھے وہ بھی ختم ہوئے اور خود فلسطینیوں کو یہ احساس ہوا کہ ہم نے ہر صورت میں مقابلہ کرنا ہے، مقاومت کرنی ہے اور اسی میں ہماری بقا ہے۔

  • سوال: حماس کو ظاہری و باطنی طور پر کن لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے اور اسے سپورٹ کرنے کی وجہ کیا ہے؟

علامہ امین شہیدی: فلسطین ایک اسلامی، قرآنی اور دینی نبوی (ص) کا ایشو ہے۔ یہ کسی خاص قوم، نسل اور جغرافیا کا ایشو نہیں ہے۔ اس لئے بیت المقدس کے مسئلہ میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکنیں فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتی ہیں۔ لہذا پوری دنیا کے مسلمان فلسطینیوں کے حق اور حمایت میں کھڑے ہیں، اگرچہ مختلف ممالک کے حکمران اور ان کا رخ اسرائیل، امریکہ اور یورپ کی طرف ہے لیکن اسی ملک کے عوام کے دلوں کا رخ فلسطینیوں کی طرف ہے اور اس کی زندہ مثال آپ کو اسلامی ممالک میں ہونے والے بڑے اور عظیم مظاہرے ہیں جیسے صنعا میں تاریخ کا عظیم ترین مظاہرہ ہوا، بغداد میں تاریخ کا عظیم ترین مظاہرہ ہوا، تہران، مشہد اور قم میں لوگ لاکھوں کی تعداد میں باہر آئے، پاکستان کے اندر آپ نے لوگوں کو باہر آتے ہوئے دیکھا، اسی طرح باقی اسلامی ممالک میں لوگوں نے اپنے جذبات کا مظاہرہ کیا اور فلسطینیوں سے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔

یہ سب کے سب فلسطینیوں اور حماس کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ لیکن جہاں اس پوری تحریک میں عوامی موومنٹ کی ضرورت ہے وہیں پر فلسطین خصوصا حماس سمیت جہادی تنظیموں کو اسلحہ کی بھی ضرورت ہے، ٹیکنالوجی اور ٹیکنیکی معاونت کی بھی ضرورت ہے، ٹریننگ کی بھی ضرورت ہے اور جدید ترین جنگی طور و طریقے سیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ تو اس حوالے سے ان کا بھرپور پشت پناہ یا تو حزب اللہ ہے یا ایران کی حکومت ہے۔ اس حوالے سے دنیا کو کوئی شک بھی نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات کوئی کسی سے ڈھکی چھپی ہے۔ حتی رہبر معظم نے بارہا اپنی گفتگو میں اس بات کا اعادہ کیا کہ ہاں! ہم ہیں جو اسرائیل کے مقابلہ میں حماس اور فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں اور ان کو ہم مسلح کرتے ہیں، ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس جرأت کے ساتھ دنیا کے کسی اور ملک نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا جیسا بیان رہبر معظم نے دیا ہے۔اس وقت حزب اللہ فلسطینیوں کے ساتھ ہے، عراقی اور یمنی ان کے ساتھ ہیں، اس وقت بہرحال دنیا فلسطین کے ایشو پر دو حصوں میں تقسیم ہے: ایک وہ حصہ ہے جو بڑھ چڑھ کر فلسطینیوں اور حماس کی حمایت میں میدان میں کھڑا ہے اور دوسرا وہ جو حیلے بہانوں سے اپنی جان بھی چھڑاتا ہے اور فلسطینیوں کی حمایت کے بجائے ان کی پشت پر چھرا گھونپنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔

اس موقع پر رہبر معظم کی حکمتِ عملی ایرانی اور اسلامی انقلاب کے حامیوں اور سرکردہ لیڈرز کی بردباری، عمیق سوچ اور حکمتِ عملی کے ساتھ فلسطینیوں کی گام بہ گام اور قدم بہ قدم حمایت اور مدد کے لئے یقینا ایک بہت بڑا اثاثہ ہے۔

  • سوال: اسرائیل کو جو لوگ سپورٹ کر رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟

علامہ امین شہیدی: یورپ اور امریکہ کے مفادات اس خطے کے اندر ہیں، اس خطے کے اندر جتنے بھی ممالک ہیں وہ انہیں اگر انڈر پریشر رکھنا چاہیں تو ان کے سر پر کسی کا جوتا ہونا ضروری ہے تاکہ ہمیشہ ان کو یہ خطرہ ہو کہ انہیں کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔ تو اس کے لئے اسرائیل کا وجود اور اس کی بقا یورپ اور امریکہ کے لئے بہت ہی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورا یورپ اور پورا امریکہ بلا کسی تأمل اور اختلاف کے سب کھل کر اسرائیلیوں کا ساتھ دیتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔ لہذا اس جنگ میں بھی آپ نے دیکھا کہ برطانیہ کے وزیراعظم نے اسرائیل آکر اور کھل کر ان کو سپورٹ کیا، امریکہ کے صدر اور وزیرخارجہ نے آ کر کھل کر ان کو سپورٹ کیا۔ یہاں تک کہ امریکی وزیرخارجہ نے یہ بھی کہہ دیا کہ آپ کو خود جنگ لڑنے کی ضرورت نہیں ہے ہم آپ کی جگہ جنگ لڑیں گے۔ انہوں نے اپنے طور پر بحری بیڑے بھی بھیجے اور ہزاروں اپنے جنگجو فوجی اور سپاہی بھی بھیجے تاکہ حماس کا راستہ روکا جا سکے۔ یہ جو حمایت ہے وہ اسی لئے ہے کہ اس خطے سے اگر امریکی اثر و رسوخ کو ختم کیا جا سکتا ہے تو اس کی ابتدا اسرائیل سے ہو گی اور اسرائیل کے خاتمے کا مطلب ہے امریکہ، یورپ اور مغربی دنیا کا اس علاقے سے اثر و رسوخ کا خاتمہ۔

اس لئے وہ اسرائیلیوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور خطے کے عرب ممالک چونکہ انہی کے بٹھائے ہوئے وہ ایجنٹ ہیں جن کو سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اس سلطنت کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ان کے درمیان بانٹ دیا گیا تھا۔

اس لئے اس وقت موجود عرب حکمران اپنے آقا برطانیہ اور امریکہ کے اشارے اور اپنے مفادات کی خاطر فلسطینیوں کی پیٹھ پر خنجر گھونپنے کے لئے ہمیشہ تیار نظر آتے ہیں اور اسرائیلیوں اور اس غاصب ریاست کو تسلیم کرنے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں۔

  • سوال: آپ کی نظر میں یہ جنگ مزید کتنا آگے جائے گی اور اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ اور یہ جنگ کیسے رک سکتی ہے؟

علامہ امین شہیدی: اس دفعہ جس طرح اسرائیل نے ردعمل دکھایا ہے وہ اس کی بوکھلاہٹ اور اس کی انتہا درجہ کی پریشانی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا یہ ردعمل دکھاتا ہے کہ حماس نے بہت ہی کاری ضرب لگائی ہے جس کی انہیں کوئی توقع نہیں تھی۔

یورپ کے تمام ممالک کا بلااستثناء کھل کر اسرائیلیوں کی حمایت کرنا بھی یہی بتاتا ہے کہ حماس نے انہیں اس دفعہ ان کے تصور سے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اس جنگ کو طول دینے کے درپے ہے۔ اس کی تو خواہش ہے کہ غزہ کی پٹی سے تمام فلسطینی زمینیں چھوڑ کر نکل جائیں اور مہاجر اور پناہ گزین کیمپوں میں چلے جائیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ غزہ کے لوگ اس پر کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہیں۔

یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ 7 اکتوبر سے لے کر آج تک مسلسل جنگ جاری ہے اور اتنے دنوں میں اسرائیل غزہ کے اندر داخل نہیں ہو سکا حالانکہ وہ دعوی کر رہے تھے کہ ہم بس کل ہی (زمینی) غزہ پر حملہ کرنے والے ہیں حالانکہ ان کا وہ پروجیکٹ مکمل فیل ہو چکا ہے اور وہ غزہ میں داخل نہیں ہو سکے اور اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ اگر وہ غزہ میں ایک دفعہ داخل ہوں تو غزہ کی گلیاں ان کا قبرستان بن جائیں۔ چونکہ غزہ ان کے لئے کوئی تر نوالہ یا حلوے کی پلیٹ نہیں ہے۔ غزہ وہ سرزمین ہے جس میں زیرزمین سرنگیں ہیں اور یہ ان بھول بھلیوں میں انہی کے جال میں پھنستے ہیں اور اپنی جان سے ہاتھ دھوتے ہیں اور دوسری طرف ایران اور حزب اللہ کی دھمکی ایک زبردست اور واضح اور کھلی دھمکی تھی کہ اگر اسرائیل غزہ میں داخل ہوتا ہے تو پھر جنگ چھڑ جائے گی اور پھر جنگ محدود نہیں رہے گی۔ تو ظاہر ہے انہیں اب چاروں طرف سے خطرہ تھا۔ انہیں یمن سے خطرہ تھا، شام سے خطرہ تھا، فلسطین کے اندر سے خطرہ تھا، حزب اللہ کی طرف سے شدید خطرات لاحق تھے۔ اس لئے اب تک وہ عام اور بے گناہ شہریوں پر حملہ کر کے اپنی بربریت کا ثبوت دے رہے ہیں۔

لیکن ان تمام قربانیوں کے باوجود فلسطینی ہمت ہارنے والے نہیں ہیں۔وہ مقابلہ کے لئے کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے ان شاء اللہ تعالی۔ آکرکار اسرائیلیوں کو رکنا بھی پڑے گا اور معافی بھی مانگنی پڑے گی چونکہ اس وقت اقوامِ عالم کی طرف سے جو ان پر پریشر ہے اور اخلاقی دباؤ ہے وہ کوئی معمولی دباؤ نہیں ہے۔ جیسے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اسرائیل پر کھل کر تنقید کی اور حماس کے حملے کو گذشتہ پچاس سالوں میں ہونے والے ظلم و جبر کا نتیجہ قرار دیا اور اسرائیل کو من حیث غاصب ریاست اور اور بچوں اور عورتوں کا قاتل قرار دیا یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کی مثالیں آپ کو نہیں ملیں گے۔ لہذا جتنے بھی دن گزریں گے صہیونیوں اور امریکیوں پر پریشر بڑھتا چلا جائے گا اور اس کے نتیجہ میں عائے عامہ میں ان کا چہرہ مسخ سے مسخ تر ہوتا چلا جائے گا۔اور جنگ تو رکنی ہے لیکن جب جنگ رکے گی تو اسرائیلیوں کو بہت کچھ واپس بھی دینا پڑے گا اور کمپرومائز بھی کرنا پڑے گا۔

  • سوال: اس جنگ میں ایران، ترکی، سعودی عرب، یو اے ای، یو ایس اے، جیسے ممالک کا کیا رول ہے؟

علامہ امین شہیدی: جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا کہ ایران کا رول بالکل واضح ہے کہ انقلابِ اسلامی کے بعد اس نے فلسطین کی مکمل حمایت کی ہے اور دنیا بھر میں من حیث ریاست اور من حیث نظریہ ان کا سب سے بڑا مدافع ایران ہے۔

جہاں تک ترکی کا سوال ہے تو ترکی سوداگر ہے۔ فلسطینیوں کے نام پر عالم اسلام کے جذبات سے کھیلتا ہے لیکن اس کو بیچتا ہے اور فلسطین سے پیسے لیتا ہے۔ ترکوں کو اگرچہ زعم ہے کہ وہ عثمانی خلافت کے علمبردار ہیں لیکن عملی طور پر اسرائیلیوں اور امریکیوں کے غلام ہیں اور یورپ میں شمولیت کے لئے وہ ہر قیمت دینے پر تیار ہیں۔ اس وقت بھی ان کی کمزوری کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا جو 18 سے 20 ارب ڈالر کا کاروبار ہے وہ انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف کوئی بھی بات نہ کریں اور کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ ہاں! زبانی جمع خرچ اور زبانی بیانات میں وہ شیر ہیں لیکن عملی طور پر انتہا درجے کے ناقابلِ اعتبار اور اہلِ نفاق ہیں۔

جہاں تک سعودیوں کی بات ہے تو وہ بھی درپردہ اسرائیلیوں کو تسلیم کر چکے تھے اور آنا جانا شروع ہو چکا تھا۔ اسرائیلی اب بڑی آسانی کے ساتھ سعودیہ آتے ہیں اور یہ لوگ بھی اسی طرح اسرائیل جاتے ہیں۔ تو اب ایسی فضا میں سعودیوں کے لئے بھی کوئی رستہ باقی نہیں رہا کہ وہ اسرائیلیوں کے حوالے سے کسی نرم گوشہ کا اظہار کر سکیں اگرچہ دلوں میں یہ نرم گوشے بے تحاشا زیادہ ہیں لیکن عملی طور پر اس وقت حماس کے حملے کے بعد وہ یہ جرأت نہیں کر سکتے۔

جہاں تک یو۔ اے۔ ای کا تعلق ہے تو اس نے یو۔ اے۔ ای میں یہودیوں کے لئے ٹیمپل اور ان کی عبادتگاہ بنا کر اور انہیں 50ہزار ویزے دے کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ اور یہودی آپس میں بھائی ہیں اور ان کے درمیان خون کا رشتہ ہے اور ان کے درمیان کسی طرح کی کوئی مخاصمت نہیں ہے۔

اور جہاں تک امریکہ یا اس کے ساتھ یورپ کا تعلق ہے تو انہوں نے اس جنگ میں اسرائیل کو اسلحہ دے کر، اسرائیل کے ہر قدم کی حمایت کر کے اور خصوصا اس بڑے ہسپتال پر حملے کے حوالے سے ان کی تکنیکی معاونت کر کے اور منصوبہ بندی میں ان کا ساتھ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ اصل جنگ امریکیوں کے ساتھ ہے اور امریکی بڑے مجرم ہیں اور جتنا جرم اور ظلم اسرائیلیوں نے کیا ہے اس میں امریکی بھی ان کے برابر کے شریک ہیںجتنا۔ جرم اور ظلم اسرائیلیوں نے کیا ہے اس میں امریکی بھی ان کے برابر کے شریک ہیں [7]۔

فلسطین فاؤنڈیشن

پاکستان میں فلسطین فاؤنڈیشن کے سیکرٹری جنرل اور اراکین نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے غاصب صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینی مزاحمت کاروں کی کارروائیوں کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس فاؤنڈیشن کے سیکرٹری جنرل صابر ابو مریم نے کہا کہ اسلامی ممالک کی حکومتوں اور فوجوں کو فلسطینی جنگجوؤں کی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ آج کی کارروائی مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کی صیہونی بے حرمتی کا جواب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الاقصیٰ طوفان آپریشن سے صیہونیوں کی تباہی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے اور غاصب صہیونیوں کے خلاف مزاحمت اسرائیل کے ساتھ کسی بھی سمجھوتے کے منصوبے کے خلاف انکار ہے۔[8]

ہندوستان

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ: حماس کا اقدام اسرائیلی مظالم کا فطری رد عمل۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس وقت حماس اور اسرائیل کے درمیان جو جنگ جاری ہے، وہ بہت افسوسناک اور تکلیف دہ ہے اوریہ واضح طور پر اسرائیل کی بدعہدی اوراس کی طرف سے ہونے والی زیادتی اور مسجد اقصی کی بے حرمتی کا فطری رد عمل ہے، اس رد عمل کو دہشت گردی کہنا ظالموں کو طاقت پہنچانا اور مظلوموں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے جس کو مغربی نے خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد جبر و استبداد کے زیر سایہ قائم کیا۔[9]

حزب الله

حزب اللہ کے نمائندے حجت الاسلام الشيخ وائل علي العاملي اپنے نے اپنے خطاب میں طوفان الاقصی کے بارے میں مندرجہ ذیل نکات بیان کئے:

  • طوفان الاقصی اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی بڑی ناکامی ہے اور پہلی بار جنگ اسرائیلی شہروں میں جا پہنچی ہے۔
  • دشمن کے اپنے اعتراف کے مطابق ہولوکاسٹ کے بعد اب سب سے بڑا جانی نقصان ہوا ہے۔
  • اسرائیل عالمی سطح پر اپنی ساکھ کھو بیٹھا ہے دنیا کے تیس ممالک سے ذیادہ میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں لندن کا لاکھوں کا اجتماع سرفہرست ہے۔
  • طوفان الاقصی عوامی بیداری کا سبب بنا ہے جس کی دلیل مصر اور اردن میں سید حسن نصر اللہ کو جنگ کی دعوت دینا ہے۔
  • شام کی جنگ میں حماس کے مزاحمتی محاذ ساتھ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو چکی تھی لیکن رہبر معظم اور حاج قاسم کی سٹریٹجی کی وجہ سے تعلقات مکمل قطع نہیں ہوے۔
  • رہبر معظم کے بقول فلسطینیوں کے ہاتھ حاج قاسم نے بھر دئے ہیں اور آج کی کامیابی کا کریڈٹ انہیں دیا جا سکتا ہے

[10].

سید حسن نصر الله

طوفان اقصیٰ آپریشن نے اسرائیل کو ہر سطح پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا. لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللّٰہ کے سربراہ حسن نصراللّٰہ کا کہنا ہے کہ طوفان اقصیٰ آپریشن نے اسرائیل کو ہر سطح پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اسرائیلی طاقت کی اصل حقیقت کھول کر بیان ک ردی۔

غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد حسن نصر اللّٰہ نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کا دفاعی نظام مکڑی کے جال سے زیادہ کمزور ثابت ہوا، اسرائیلی کارروائیاں اس کے مستقبل پر اثر انداز ہونے والے منفی اثرات کو ختم نہیں کر سکتیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کی بدترین ناکامی پر اسرائیل کے عوام اور اس کے حامی تک کو شرمندگی ہوئی، امریکا کو اسرائیل کی تباہ ساکھ کو بچانے کیلئے فوری طور پر میدان میں اترنا پڑا، غزہ کے عوام کی قربانیوں نے نئی تاریخ رقم کر دی۔

انہوں نے کہا کہ طوفان اقصیٰ جنگ وسیع تر ہوکر مختلف محاذوں اور میدانوں تک پہنچ گئی ہے، اسرائیل کے خلاف طوفان اقصیٰ کی جنگ انسانی، اخلاقی اور دینی اعتبار سے جائز اور حق کی جنگ ہے، صہیونیوں کے خلاف جاری جنگ کی اخلاقی اور شرعی حیثیت پر ذرہ بھر شبہ نہیں، شہداء کا رتبہ منفرد رتبہ ہوتا ہے، صرف مسلمان ہی اس رتبے کو سمجھ سکتا ہے۔

حزب اللّٰہ کے سربراہ نے کہا کہ جنگ کا اختتام فلسطینیوں کی کامیابی پر ہوگا، اسرائیل حماس کے خاتمے کا خواب دیکھنا چھوڑ دے، اسرائیل کے سامنے قیدیوں کے تبادلے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں بچا۔

حسن نصر اللّٰہ نے کہا کہ 7 اکتوبر واقعات کے محرکات پر روشنی ڈالنا اور حزب اللّٰہ کا مؤقف واضح کرنا ضروی ہے، طوفان اقصیٰ فلسطینی مزاحمتی گروپ القسام بریگیڈز کا کامیاب کارنامہ ہے، حزب اللّٰہ کو 7 اکتوبر آپریشن سے متعلق کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی، آپریشن کو انتہائی رازداری سے انجام دیا گیا۔

سربراہ حزب اللّٰہ نے کہا کہ طوفان اقصیٰ آپریشن فلسطینیوں کی جنگ ہے، اس کا علاقائی ممالک سے کوئی تعلق نہیں، ہزاروں فلسطینی طویل عرصے سے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، 20 لاکھ فلسطینی 20 سالوں سے اسرائیلی محاصرے میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے، مسجد اقصیٰ کی مسلسل بےحرمتی سب کے سامنے عیاں تھی۔

حسن نصر اللّٰہ نے مزید کہا کہ ایران کی حزب اللّٰہ اور دیگر مزاحمتی گروپوں پر کوئی اجارہ داری نہیں، حزب اللّٰہ کا اسرائیل کے خلاف 7 اکتوبر کے آپریشن سے کوئی تعلق نہیں [11]۔

اہم خصوصیات

الاقصیٰ طوفان آپریشن کی سب سے اہم خصوصیت صیہونی حکومت کی حیرانی و بے خبری ہے۔ سات اکتوبر 2023ء کو مزاحمتی تحریک نے صیہونی حکومت کے خلاف طوفان الاقصیٰ نامی تاریخی آپریشن انجام دیا، جس نے اس حکومت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ اس آپریشن میں حماس کے عسکری شعبہ القسام بریگیڈ نے اسرائیل کے خلاف نہ صرف زبردست راکٹ بلکہ حیران کن زمینی حملہ بھی کیا۔ قسام بٹالین کے کمانڈر محمد الضیف جو بہت کم بیان دیتے ہیں، انہوں نے اس حملے کا نام "الاقصیٰ طوفان" رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ مسجد الاقصیٰ پر بنیاد پرست یہودیوں کے مسلسل حملوں کے جواب میں کیا گیا ہے۔ قسام بٹالین کے کمانڈر محمد الضیف کے بقول یہ حملہ مسجد اقصیٰ کے اسلامی تشخص کے دفاع میں کیا گیا۔ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران صیہونیوں نے مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کی عید "سوکوت" کے نام پر کئی بار حملہ کیا، اس موقع پر فلسطینیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جس میں متعدد فلسطینی شہری زخمی ہوئے۔ یاد رہے کہ یہ حملہ مسجد الاقصیٰ پر حملے کے حوالے سے فلسطینیوں کا فیصلہ کن ردعمل ہے۔

پہلی خصوصیت

الاقصیٰ طوفان آپریشن کی سب سے اہم خصوصیت صیہونی حکومت کی حیرانی و بے خبری ہے۔ یہ حملے ایسے وقت کیے گئے ہیں، جب فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل پر حملہ کرنے کا کوئی اشارہ نہیں تھا۔ اسی وجہ سے قدس پر قابض حکومت کو اس حملے سے شدید ضربیں پہنچیں۔ بلاشبہ صیہونی حکومت کی 75 سالہ تاریخ میں یہ سب سے بھاری فوجی شکست تھی۔ مرنے والوں کی صحیح تعداد کے بارے میں کوئی صحیح اعداد و شمار نہیں ہیں، لیکن صرف ایک دن میں ایک سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے، جبکہ فلسطینی ذرائع اور حتیٰ کہ بعض اسرائیلی ذرائع نے مرنے والوں کی تعداد 100 سے زائد بتائی ہے۔ زخمیوں کی تعداد بھی ایک ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔

دوسری خصوصیت

اس حملے کی سب سے اہم بات اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی ہے، کیونکہ فلسطینیوں نے آسمان اور سرنگ دونوں کا استعمال کرتے ہوئے ہوا اور زمین دونوں سے حملہ کیا اور بہت سے لوگ اسیر کئے نیز مال غنیمت بھی حاصل کیا۔ مرکاوا ٹینک اور آہنی گنبد جسے صہیونی اپنے لئے بہت اہم سمجھتے تھے، عملی طور پر ناکارہ ثابت ہوئے۔ فلسطینی راکٹ آہنی گنبد کو عبور کرتے ہوئے اہم اہداف کو تباہ کرتے رہے۔ تاہم، جو چیز اس حملے اور اسرائیل کی انٹیلی جنس کی ناکامی کو نمایاں کرتی ہے، وہ راکٹ حملے نہیں بلکہ غزہ کی پٹی کے ارد گرد اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں حماس کے مجاہدین کا ایک قابل ذکر تعداد میں داخل ہونا اور بعض اڈوں کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لیکر درجنوں فوجیوں کو گرفتار کرنا ہے۔ مجاہدین نے کچھ بکتر بند گاڑیوں اور فوجی سازوسامان پر قبضہ کرکے انہیں غزہ واپس لے گئے اور غزہ کی سڑکوں پر ان کی نمائش بھی کی۔

تیسری خصوصیت

الاقصیٰ آپریشن کی ایک اور اہم خصوصیت اس حملے کے لیے تحریک حماس کی بہترین منصوبہ بندی تھی۔ وقت کے لحاظ سے یہ حملہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل تھا، کیونکہ اس وقت صیہونی حکومت داخلی انتشار کے عروج پر ہے۔ چونکہ یہ حملہ زمین اور آسمان دونوں سے کیا گیا تھا اور حماس کی افواج نے درجنوں اسرائیلی فوجیوں کو پکڑ لیا، جس کے مستقبل میں دورس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اگر تل ابیب انہیں رہا کرانا چاہے گا تو اسے ان کے بدلے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ یہ حملہ یوم الکپور یا اکتوبر 1973ء کی جنگ کی سالگرہ کے موقع پر کیا گیا تھا، جو اسرائیل کے خلاف عربوں کی نسبتاً فتح کا دن تھا۔

چوتھی خصوصیت

مزید یہ کہ الاقصیٰ آپریشن اس وقت انجام پایا، جب اسرائیلی اور سعودی حکام تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ایک معاہدے کے قریب آنے کی بات کر رہے تھے۔ اس بات سے قطع نظر کہ الاقصیٰ آپریشن سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے میں خلل ڈالے گا یا نہیں، اس آپریشن نے ثابت کیا کہ فلسطینی نہ صرف تعلقات کو معمولی بنانے سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ اس سے ان کی ہمت زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ تعلقات معمولی بنانے سے اسرائیل کی سلامتی کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔[12]

طوفان الاقصی سے کیا فائدہ حاصل ہوا؟

  • طوفان الاقصی نے مختلف اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
  • دنیا کی چوتھی مضبوط فوج کہلائی جانے والی اسرائیلی فوج اور اسرائیلی ایجنسی کا غرور خاک میں ملاکر ان کی ساری ٹیکنالوجی کو ناکام ثابت کیا۔
  • ایک ہزار سات سو تو صرف اسرائیلی فوجی مرے ہیں۔ 300 سے زیادہ اہکار و افسران گرفتار ہوۓ۔ ان میں چار بریگیڈیئر جنرل اورایریا کمانڈر کے عہدے پر فائز تھے، یہ سب عام شہریوں کے علاوہ بیں جن کی تعداد ایک سو پچاس بتائی جا رہی ہے۔
  • دشمن کی چار فوجی چھاونیوں اور غزہ کے اس پار واقع مقبوضہ علاقوں سے بڑی مقدار میں اسلحہ، بارود اور مال غنیمت ہاتھ آیا۔
  • جدید ٹیکنالوجی سے لیس دنیا کے بہترین فوجی ٹینک کہلائے جانے والے 50 سے زائد ٹینک جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیے۔
  • موساد کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا اور غزہ اور مشرقی وسطی میں تعینات کیے جانے والے سارے جاسوسوں کا ڈیٹا اور ہیڈکوارٹر حماس کے مجاہدین کے قبضے میں آچکے ہیں۔
  • فوجی افسران اور غزہ کی 40 کلو میٹر کی حدود میں واقع دشمن کے فوجی ڈپو میں موجود چھوٹے ریڈار اور ڈپو اکسز مجاہدین کے ہاتھ آگئے ہیں اور دیگر کئی بڑے ریڈار تباہ کرکے میزائل دشمن کے ٹھکانوں پر مارے۔
  • اسرائیل کے مختلف علاقوں پر 15 ہزار سے زائد میزا‏ئل برساۓ ہیں جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ سے زائد صہیونی اپنے اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور بہت سے مقبوضہ علاقے تو بالکل خالی کر دیے ہیں۔ انہی میں سے ایک عسقلان کا علاقہ بھی ہے جس سے اسرائیلی دم دبا کر بھاگے ہیں [13]۔

الشفاء ہسپال پر اسرائیلی فوج کا حملہ

اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے غزہ میں الشفاء ہسپتال پر اسرائیلی فوج کے حملے کی تمام تر ذمہ داری امریکی صدر جوبائیڈن پر عاید کی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کو خیال ظاہر کیا کہ حماس سے قیدیوں کی رہائی سے متعلق ڈیل کا جلد امکان ہے تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ اے ایف پی کے مطابق بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا نمائندگان سے کہا: ’میں ہر دن ان لوگوں سے بات کر رہا ہو جو اس(معاملے) میں شامل ہیں مگر میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ حماس کی جانب سے بنائے گئے 240 قیدیوں میں کم از کم نو امریکی بھی شامل ہیں۔

حماس نے ایک پریس بیان میں کہا کہ "ہم قابض ریاست اور اس کے نازی رہ نماؤں کو اور صدر بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کو قابض فوج کے شفا میڈیکل کمپلیکس پر حملے کے نتائج کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ قابض فوج نے بدھ کی صبح الشفاء میڈیکل کمپلیکس پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس سے چند دن قبل قابض فوج نے ہسپتال کا ٹینکوں سے گھیراؤ کرلیا تھا اور ایندھن اور بجلی کاٹ دی گئی، جس کی وجہ سے بہت سے انتہائی نگہداشت کے مریض اور قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی موت واقع ہوئی۔ گذشتہ روز منگل کے روز ہسپتال انتظامیہ نے شہداء کی درجنوں لاشیں گلنے سڑنے کے بعد ایک صحن میں دفن کرنے پر مجبور کیا کیونکہ قابض انتظامیہ نے انہیں معمول کے طریقہ کار کے مطابق تیار کرنے اور دفنانے سے روک دیا۔ الشفا ہسپتال میں اس وقت ہزاروں فلسطینی مریض، طبی عملہ اور بے گھر شہری موجود ہیں۔ حماس نے کہا کہ دھاوے کا مقصد شہریوں کے خلاف مزید قتل عام کرنا ہے اور انہیں شمال سے جنوب کی طرف جانے پر مجبور کرنا ہے۔ ہمارے لوگوں کو بے گھر کرنے کے قابض دشمن کے منصوبے کو مکمل کرنا ہے [14]۔

اسرائیل پر حماس کا طوفانی حملہ صیہونیوں کے خاتمے کی شروعات

صیہونی اور یہودی دو الگ الگ مذھب و آئیڈیالوجی ہے جس کا اس وقت دونوں نے نہ صرف اپنے اپنے نظریات بلکہ عملا بھی اظہارات کیے ہیں یہودیوں نے اندرون اسرائیل و بیرون نیتن یاہو کی فلسطین پالیسی کی کھل کر مخالفت کی ہے اس کی جنونی مسلم دشمنی کو انسانی جرم قرار دیا ہے الٰہی مقدس کتاب توریت کی تعلیمات کی صریحا خلاف ورزی جبکہ صیہونی اپنی کسی مقدس کتاب عبرانی زبان کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے بڑے کہہ گئے اور مقدس کتاب میں لکھ گئے ہیں کہ دشمن کو کیڑے مکوڑے سے بھی حقیر سمجھو اسے تہ تیغ کر دو ان کی عورتوں، بچوں اور مال مویشی کو بھی ہلاک کر دو جو تمہارے راستے میں حائل ہو اسے تباہ کر دو زمین پر حکمرانی کا حق صرف تمہیں ہے یروشلم کے قریب ایک پہاڑى کو صیہون کہاجاتا ہے اسے انبیا ء کے حوالے سے تقدس حاصل ہے۔ ان صیہونیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کا بزرگ مذکورہ پہاڑ پر اترے گا اور پوری دنیا پر صیہونیوں کا راج ہو گا ۔ میرا خیال ہے کہ ان کا وہ بزرگ دجال ہے جس کے بارے میں ہماری دینی کتابوں میں بھی ذکر ہے غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد شوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی گئی تھی بیت المقدس میں مسجد الاقصیٰ کے قریب دیوارگریہ پر صیہونیوں کی ایک بڑی جماعت نے بلند آواز میں بہت زیادہ گریہ و زاری کرتےاور دجال کو مدد کے لیے پکار رہےتھے ۔ ہمارے ہاں دجال شیطان کا نمائیدہ ہے تو صیہونی کتاب اور تعلیمات دجالی ہوں گی۔ اگر ایسا ہے تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج غزہ مسلمانوں کے صیہونی دشمن ہیں کل کو فلسطینی مسلمان کا دشمن ہو گا اورپھر عرب مسلمان کا۔ جب عرب مسلمانوں کا خاتمہ ہو جاۓ گا تو پھر دنیا کے ہر انسان کی باری آۓ گی اور سرزمین پر عالمی صیہونی راج قائم ہو جاۓ گا۔ اس تناظر میں غزہ اور مغربی کنارے پر بمباری، قتل و غارت اور نسل کشی کا جائزہ لیا جاۓ تو غزہ جنگ سے تباہی و بربادی اور تیسری جنگ عظیم کے انعقاد پذیر ہونے کو سمجھنا آسان ہو جاۓ گا آج اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود المرٹ نے بھی نیتن یاہو کو دہشتگرد قرار دیا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر اور زیادہ تر اسرائیلی سیاستدان نیتن یاہو کو پاگل اور حواس باختہ قرار دے چکے اس اور اس کی رجیم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جارہاہے حتکہ اس کی جنگی کابینہ میں بھی جنگ جاری رکھنے پر اختلافات ہیں ۔ امریکہ کی مقتدر اشرافیہ میں بھی اکثر یت صیہونی ازم پر کاربند ہیں نیز یورپ کے زیادہ تر سیاستدان صیہونی نواز ہیں امریکہ اور برطانیہ نے عرب ممالک میں حکمران اشرافیہ کی اکثریت کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہویا ہے جس کی وجہ سے غزہ کے مسلمان خصوصی اور فلسطینی عمومی طور پر اس صیہونی ازم کی جارحیت و بربریت کا شکار ہیں ۔ دنیا بھر کے تمام مذاھب و مسالک کے انسانوں کی اکثریت فلسطین میں بچوں اور عورتوں نیز نہتے انسانوں کے قتل عام پر سراپا احتجاج ہیں لیکن ان صیہونیوں پر کوئی اثر نہیں ہورہا وہ ہر حالت میں فلسطینی دشمنوں کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں لگتا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ اگر صیہونی راج کا خواب اب پورا نہ ہویا تو کبھی بھی پورا نہیں ہوگاان حالات میں کسی ایک کے خاتمے تک جنگ جاری رہنے کا امکان نظر آتا ہے۔

میڈیا نیوز سے تاثر ملتا ہے کہ ایران اور روس نے غزہ میں ممکنہ عظیم تر انسانی المیے کو روکنے کے لیے مشترکہ طور پر صیہونی ازم کی مسلط کردہ جنگ کو روکنے کے لیے اتفاق کر لیا ہے اور محتاط کاروائیوں کا آغاز کر دیا ہے نیز اس خطے میں موجود تمام مزاحمتی گروپوں کو ضروری جنگی سازوسامان کی فراہمی ممکن بنائی جا رہی ہے اور ہر جنگی محاذ پر جنگ تیز تر اور شدید تر ہوتی جارہی ہے۔ عالمی میڈیا کے ذرائع و پاکستانی میڈیا نے بھی مذکورہ روز بتایا : اسرائیل میڈیا نے تسلیم کرلیا کہ جنگ شروع ہونے سے لے کر اب تک پانچ ہزار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے جبکہ فلسطینی ذرائع ان کی ہلاکت کا دعویٰ کرتےہیں ۔ المیادین میڈیا نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے نشر کیا کہ دو ہزار سے زیادہ نئے فوجی معذور ہو گئے ہیں ۔ یعنی پہلے سے بھی معذور شدہ فوجی تھے ۔ صرف ایک اسرائیلی ادارہ بحالی معذوران میں فوج کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر 60 نئے زخمی آ رہے ہیں اور ایسے ادارے اور بھی ہیں۔ الجزیرہ فلسطین بھی دعویٰ کرتا ہے کہ روزانہ کم از کم 60 اسرائیلی فوجی ہلاک ہو رہے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ پانچ ہزار سے زیادہفوجی انفیکشن سے بیکار اسرائیلی ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔

اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے، صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر

علامہ سید ساجد علی نقوی: عالمی ادارے مسئلہ فلسطین کا سبب ہیں ان سے حل کی توقع کرنا درست نہیں۔ لیاقت بلوچ: عالمی ادارے اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ مسئلہ فسلطین اور مسئلہ کشمیر دنیا کے حقیقی مسائل ہیں۔ اعلامیہ جاری: ملی یکجہتی کونسل کا سربراہی اجلاس نو رکنی ٹاسک فورس کا قیام، کونسل مسئلہ فلسطین کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل دے گی۔ اسلام آباد/ مسئلہ فلسطین پر مسلمان حکمران بے حس ہیں اور غیر مسلم جلوس نکال رہے ہیں۔ مسلمانوں میں غیرت و حمیت ختم ہو چکی، سفاکیت کی انتہاء ہے اس کا علاج یہی ہے کہ مسلمان اپنے بے حس حکمرانوں سے نجات حاصل کریں۔ ان خیالات کا اظہار ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے سربراہی اجلاس برائے مجلس قائدین سے خطاب کرتے ہوئے کیا انھوں نے کہا کہ اسلامی ممالک میں ایسی تحریک اٹھنی چاہیے جو مدنی حکمرانی قائم کریں۔صاحبزادہ ابو الخیر نے کہا قائد اعظم کا کہنا تھا کہ ہم غاصب ریاست کو تسلیم نہیں کریں گے۔ آج ہمارے وزیر اعظم کہ رہے ہیں کہ ہم دو ریاستی حل کی اپیل کرتے ہیں۔ہمارے ذمہ داروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم دو ریاستی حل کو قبول نہیں کرتے، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ علامہ سید ساجد علی نقوی سینئیر نائب صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان و سربراہ اسلامی تحریک پاکستان نے کہا ہے کہ غزہ کے قتل عام کی اصل موجب سامراجی طاقتیں ہیں ہم ان سے جنگ بندی کا مطالبہ کیوں کریں ۔مسلم دنیا کو اپنا کلیدی کردار اد کرنا چاہیے۔ہم اپنی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں عالمی قتل اور جنگ بندی کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ہماری اپنی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے مسلہ فلسطین کے حوالہ سے کلیدی کردار ادا کریں۔

لیاقت بلوچ سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل پاکستان و سربراہ جماعت اسلامی نے کہا کہ عالمی ادارے اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ مسئلہ فسلطین دنیا کا حقیقی مسئلہ ہے اسکے حل سے ہی امن ہو سکتا ہے۔15دسمبر بروز جمعہ تمام خطباء مسئلہ فلسطین کو اجاگر کریں اور عوامی مظاہرے کریں۔ملی یکجہتی کونسل پاکستان آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرے گی ۔ یہ کانفرنس ایک لائحہ عمل اور حل دے گی۔ آزادی فلسطین امریکی استعمار کی چھتری میں مظالم کے خلاف صوبائی سمینار منعقد کرے گی۔ ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا وفد اسلامی ممالک کے سفراء سے ملاقات کرے گا اور دیگر ممالک کو یاداشت پیش کی جائے گی۔ نو رکنی ٹاسک فورس لائحہ عمل تیار کرے گی۔

علامہ راجہ ناصر عباس سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے کہا کہ آج یمن ایلات پر حملہ آور ہے، عراقی امریکی اڈوں پر حملہ آور ہیں ، لبنان سے حزب اللہ اسرائیل پر حملہ آور ہے ۔ ہمیں دو ریاستی حل کے مطالبوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ ہم کیوبا ، ونیزویلا اور بلیویا کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اسرائیل کا بائیکاٹ کیا ہے۔اسلامی ممالک کو بھی اسرائیل کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، کونسل کو مل کر مظاہرہ کرنا چاہیے مجلس وحدت اس میں خادم کی حیثیت سے کردار ادا کرے گی۔ جلاس سے کونسل کے قائدین پیر معین الدین کوریجہ سربراہ علماء و مشائخ کونسل، حافظ عبدالغفار روپڑی سربراہ جمعیت اہل حدیث ، مولانا عبدالمالک سربراہ اتحاد علماء پاکستان ، آصف لقمان قاضی مرکزی راہنما جماعت اسلامی پاکستان، مفتی گلزار احمد نعیمی سربراہ جماعت اہل حرم، عبداللہ حمید گل سربراہ تحریک جوانان پاکستان ، امیر حمزہ مرکزی راہنما مرکزی مسلم لیگ، سید صفدر گیلانی مرکزی راہنما جمعیت علمائے پاکستان ، علامہ عارف حسین واحدی نائب صدر اسلامی تحریک، علامہ شبیر میثمی سیکریٹری جنرل اسلامی تحریک، سید ناصر عباس سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان ، مفتی گلزار احمد نعیمی ، پروفیسر محمد ابراہیم مرکزی راہنما جماعت اسلامی ، ڈاکٹر محمد نقوی مرکزی راہنما وفاق المدارس شیعہ ،مفتی معرفت شاہ صدر ہدیہ الہادی پاکستان ، رضیت باللہ نائب صدر ہدیہ الہادی پاکستان ،ڈاکٹر علی عباس نقوی سربراہ البصیرہ ، طاہر رشید تنولی سیکریٹری مالیات، نمائندگان تنظیم العارفین ، متحدہ جمعیت اہل حدیث، تحریک ختم نبوت اور دیگر نے خطاب کیا ۔ یہ اجلاس اسلامی تحریک کی میزبانی میں منعقد ہوا جس میں کونسل میں شامل پچیس جماعتوں کے قائدین شریک تھے ۔اجلاس کے اختتام پر اعلامیہ جاری کیا گیا [15]۔

غزہ میں اسرائیلی قتل عام کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، سربراہ اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے سربراہ انتونی گوتریش نے غزہ میں صہیونی فورسز کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کو اندوہناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ صہیونی مظالم کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے رائٹرز کے حوالے سے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونی گوتریش نے غزہ میں صہیونی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام کو دلخراش قرار دیتے ہوئے قابل مذمت قرار دیا اور صہیونی وزیراعظم کی فلسطینی خودمختار حکومت کی مخالفت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یوگنڈا میں کثیر ملکی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ میں فوجی کاروائی کرتے ہوئے تباہی مچادی ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے۔ غزہ کے مناظر بہت دردناک اور دلخراش ہیں۔ ہمیں غزہ میں اسرائیل مظالم کو روکنے کے لئے اقدمات کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں بیس لاکھ شہری صہیونی حکومت سے متاثر جبکہ 25 ہزار سے زائد شہید ہوچکے ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق گوتریش نے اسرائیل کی جانب سے دو ریاستی حل کا فارمولا مسترد کرنے کی مذمت کی اور کہا کہ فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے سے جنگ مزید طویل ہوگی اور اس کے نتیجے میں خطے اور دنیا کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوں گے [16]۔

خان یونس میں سرنگ کے اندر دھماکہ، 40 صہیونی فوجی ہلاک اور زخمی

مقاومتی جوانوں نے غزہ کے جنوب میں کامیابی کے ساتھ اسرائیلی فورسز کو جال میں پھنسایا جس کے نتیجے میں متعدد صہیونی فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطینی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کہا ہے کہ غزہ کے مختلف علاقوں میں صہیونی فورسز اور مقاومتی محاذ کے درمیان شدید جھڑپیں ہورہی ہیں۔ پیر کا دن صہیونی فورسز کے لئے سخت ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ تفصیلات کے مطابق غزہ کے جنوبی علاقوں میں مجاہدین نے دو مختلف واقعات میں صہیونی فورسز کو شدید نقصان پہنچایا۔ عبرانی میڈیا کے مطابق دونوں واقعات میں 40 صہیونی فوجی مجاہدین کے حملوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق صہیونی فورسز کو خان یونس میں سخت حالات کا سامنا ہے۔ صہیونی فورسز نے خان یونس میں ایک سرنگ کا سراغ لگانے کے بعد اس میں گھسنے کی کوشش کی۔ حماس کے مجاہدین نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سرنگ میں بم نصب کررکھے تھے۔ صہیونی فوجیوں کے گھسنے کے فورا بعد سرنگ کے اندر دھماکہ ہوا اور بڑی تعداد میں صہیونی فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے [17].

مزاحمتی فورسز نے زمینی لڑائی میں صہیونی فوج کو دھول چٹا دی

عبرانی ذرائع نے غزہ کے خلاف حالیہ جنگ کے ایک انتہائی ہولناک واقعے میں 21 صہیونی فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطینی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ خان یونس میں مزاحمتی فورسز کی حالیہ کارروائیوں میں 21 صہیونی فوجی ہلاک ہوگئے جس سے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران صہیونی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 24 ہوگئی ہے۔ لیکن صیہونی رجیم آبادکاروں کے دباو کے خوف سے ہلاکتوں کے اصل اعداد و شمار کو چھپا رہی ہے۔ ہلاکتوں کے اعداد و شمار کی غیر معمولی سنسر شپ عبرانی ریڈیو نے بتایا ہے کہ غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں گزشتہ روز پیش آنے والے اس واقعے میں صیہونی فوجیوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوئی تھی، تاہم ان میں سے صرف 10 کے ناموں کا اعلان کیا گیا جب کہ دیگر ہلاک شدگان کے اہل خانہ کو مطلع نہیں کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ واقعہ غزہ کے جنوب میں کیزویم کے قریب اس وقت پیش آیا، جب صیہونی فوج خان یونس میں کچھ عمارتوں کو اڑانے کی تیاری کر رہی تھی، تاہم اس دوران ایک ٹینک پر کئی راکٹ آلگے اور دو عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں کئی اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ صہیونیوں کے لئے بہت بڑی تباہی صیہونی حکومت کے 12 ٹی وی چینل نے خان یونس میں کل کے واقعے کو ایک بڑی تباہی قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 سے زیادہ ہے۔

غزہ، مزاحمتی فورسز نے زمینی لڑائی میں صہیونی فوج کو دھول چٹا دی

خان یونس کے واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے صہیونی آرمی ریڈیو نے خبر دی ہے کہ 261ویں بریگیڈ کے کیمپ کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب ریزرو دستے غزہ کے جنوبی سرحدی علاقوں میں سیکورٹی مشن انجام دے رہے تھے۔

مزاحمتی فورسز کی بہادری سے صیہونیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا

عبرانی زبان کے اخبار یدیعوت احرونوت نے بھی اس بارے میں لکھا کہ اگرچہ غزہ کی پٹی میں ملٹری اہداف صرف 600 میٹر تک کی گہرائی میں تھے، لیکن ایک مسلح شخص اسرائیلی فوج کو چکمہ دے کر سرنگوں میں سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور ایک RPG سے بم پلانٹیڈ عمارت کو نشانہ بنایا جس سے یہ ہولناک تباہی واقع ہوئی۔ ادھر قسام بریگیڈز نے بھی صہیونی فوج کے اس اعتراف کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ہم نے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا! یاد رہے کہ صیہونی فوج کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی زمینی لڑائی میں اب تک 221 صیہونی فوجی مارے جا چکے ہیں اور طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے اب تک ہلاک ہونے والے فوجیوں کی مجموعی تعداد 556 ہو گئی ہے جب کہ معتبر ذرائع کا خیال ہے کہ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں. بعض اسرائیلی ذرائع کے مطابق واقعے میں صہیونی فوج کے کئی اعلی افسران بھی ہلاک یا زخمی ہوگئے ہیں۔ دھماکے کے بعد خان یونس کی فضاوں میں صہیونی ہیلی کاپٹر دیکھے گئے ہیں جو ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو منتقل کررہے تھے [18]۔

اسرائیل کیخلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ چلے گا۔۔۔ عالمی عدالت / کیس نہ سننے کی اسرائیلی درخواست مسترد

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تازہ معلومات کے مطابق 25 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، 9 اکتوبر کو اسرائیلی وزیر دفاع نے غزہ کے محاصرے، بجلی پانی بند کرنے کا اعلان کیا، غزہ میں ہیلتھ کیئر سسٹم تباہ ہو چکا ہے، ہم غزہ میں انسانیت کو زمیں بوس ہوتا دیکھ رہے ہیں، نسل کشی سے تحفظ کا فلسطینیوں کا حق تسلیم کرتے ہیں۔ اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ذرائع نے رپورٹ دی ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے 15 ججوں نے فیصلے کی حمایت کردی، 2 نے مخالفت کی، عالمی عدالت انصاف کے ہنگامی احکامات 15 دو سے منظور ہوئے۔

عالمی عدالت انصاف کا غزہ کے حق میں عبوری فیصلہ

عدالت نے اسرائیل کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فورسز نسل کشی کے اقدامات روک دیں، اور اسرائیل آج کے حکم کے مطابق اپنے اقدامات کی رپورٹ جمع کروائے، اسرائیل غزہ میں انسانی امداد پہنچنے دے، صورتحال بہتر بنائے۔ عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسرائیل عدالتی حکم کے مطابق اقدامات کی رپورٹ 1 ماہ میں جمع کروائے، غزہ کے تنازع میں شامل تمام فریق عدالت کے پابند ہیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی اموات ہوئیں، عدالت غزہ میں انسانی المیے کی حد سے آگاہ ہے، جنوبی افریقا کے عائد کردہ الزامات میں سے کچھ درست ہیں۔ عالمی عدالت نے غزہ نسل کشی کیس معطل کرنے کی اسرائیل کی درخواست کو مسترد کردیا اور کہا کہ اسرائیل کے خلاف نسل کشی مقدمے میں فیصلہ دینا عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے۔ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کیس کے کافی ثبوت موجود ہیں۔ آئی سی جے کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقا کے پاس اسرائیل کے خلاف نسل کشی کیس دائر کرنے کا اختیار ہے، اسرائیل کے خلاف نسل کشی کیس کے کافی ثبوت موجود ہیں، اسرائیل کے خلاف کچھ الزامات نسل کشی کنونشن کی دفعات میں آتے ہیں، غزہ تباہی کی داستان بن چکا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق غزہ رہنے کے قابل نہیں رہا، 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، غزہ میں 7 ہزار سے زائد افراد شہید اور 63 ہزار سے زائد زخمی ہوئے، اسرائیل کے فوجی حملوں کی وجہ سے غزہ میں ہلاکتیں، تباہی، نقل مکانی ہوئی ہے۔

عالمی عدالت انصاف کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسپتالوں پر بھی حملے کیے گئے، غزہ کے بچے نفسیاتی دباؤ کے شکار ہیں، غزہ کی 20 لاکھ سے زائد آبادی نفسیاتی اور جسمانی تکالیف میں مبتلا ہے، عدالت غزہ میں فلسطینیوں کو نسل کشی کی کارروائیوں سے محفوظ رکھنے کے حق کو تسلیم کرتی ہے، جنوبی افریقہ کے کچھ مطالبات میں وزن ہے، عالمی عدالت کے پاس نسل کشی کیس میں ہنگامی احکامات جاری کرنے کا اختیار ہے، نسل کشی کیس میں حتمی فیصلہ سنائے بغیر عبوری اقدامات کے احکامات جاری کیے جا سکتے ہیں۔

نسل کشی سے تحفظ کا فلسطینیوں کا حق تسلیم کرتے ہیں

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تازہ معلومات کے مطابق 25 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، 9 اکتوبر کو اسرائیلی وزیر دفاع نے غزہ کے محاصرے، بجلی پانی بند کرنے کا اعلان کیا، غزہ میں ہیلتھ کیئر سسٹم تباہ ہو چکا ہے، ہم غزہ میں انسانیت کو زمیں بوس ہوتا دیکھ رہے ہیں، نسل کشی سے تحفظ کا فلسطینیوں کا حق تسلیم کرتے ہیں۔

عدالت کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ نے 29 دسمبر کو اس عدالت میں درخواست دائر کی، حماس حملے کے جواب میں اسرائیلی حملوں میں بہت جانی اور انفرا اسٹراکچر نقصان ہوا ہے، اقوام متحدہ کے کئی اداروں نے اسرائیلی حملوں کے خلاف قراردادیں پیش کی ہیں، عالمی ادارہ انصاف نے غزہ میں انسانی نقصان پر تشویش ظاہر کی۔

عالمی عدالت انصاف کے باہر فلسطینیوں اور اسرائیلی اقدامات کے مخالفین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ فلسطینی نوجوان کا کہنا تھا کہ آج ہمارے لیے بڑا اہم دن ہے، توقع ہے عالمی عدالت فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کرے گی۔ جنوبی افریقا کی جانب سے عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے، عالمی عدالت انصاف اسرائیل کو غزہ میں فوجی آپریشن بند کرنے کا حکم دے۔ 11 اور 12 جنوری کو ہونے والی سماعت میں جنوبی افریقا اور اسرائیل نے دلائل دیے تھے [19]۔

طوفان الاقصی کا 117 واں دن، غزہ پر صہیونی فورسز کے وحشیانہ حملے جاری

صہیونی فورسز نے غزہ کے مختلف مقامات پر وحشیانہ بمباری کی ہے جس سے کئی فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطینی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کہا ہے کہ صہیونی فورسز غزہ کے مختلف علاقوں پر وحشیانہ حملے کررہی ہیں۔ آج علی الصبح غزہ کے مرکزی علاقوں سمیت جنوبی اور شمالی حصوں پر اسرائیل نے جارحیت کرتے ہوئے کئی فلسطینیوں کو شہید اور متعدد کو زخمی کردیا ہے۔

دراین اثناء صہیونی ذرائع نے کہا ہے کہ صہیونی فوج غزہ میں حماس کی سرنگوں کو تباہ کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔

صہیونی ریڈیو نے کہا ہے کہ غزہ کے شمال میں سرنگوں کو تباہ کرنے کا عمل کامیاب نہیں ہوسکا ہے اسی طرح غزہ کے مرکزی علاقوں اور خان یونس میں بھی حماس کی سرنگیں باقی ہیں۔

الجزیرہ نے رپورٹ دی ہے کہ غزہ کی ورزشگاہ یرموک پر صہیونی طیاروں نے بمباری کرکے کئی افراد کو زخمی کردیا ہے جبکہ غزہ کےجنوب مشرقی علاقے میں صہیونی حملے میں دو فلسطینی شہید ہوگئے ہیں [20]۔

غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں، دفتر خارجہ پاکستان

پاکستان کو غزہ میں جاری قابض اسرائیلی افواج کی جارحیت اور اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے فنڈنگ کی معطلی کے فیصلے پر شدید تشویش ہے۔ غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی نے ایکسپریس نیوز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں کہا کہ ایران میں پاکستانی حکام متعلقہ حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ گزشتہ روز9 پاکستانی شہریوں کی میتیں ایران سے پاکستان واپس لائی گئی ہیں۔ توقع ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے پر ایرانی حکام واقعہ کی تفصیلات پاکستانی حکام سے شئیر کریں گے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو غزہ میں جاری اسرائیلی افواج کی جارحیت اور اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے فنڈنگ کی معطلی کے فیصلے پر شدید تشویش ہے۔ غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ نے نگراں وزیر خارجہ کی دعوت پر 29 جنوری کو پاکستان کا دورہ کیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے دورے کے دوران نگراں وزیراعظم، نگراں وزیر خارجہ اور آرمی چیف سے ملاقاتیں کیں [21]۔

قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے کئی تجاویز زیرغور ہیں

قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے کئی تجاویز زیرغور ہیں، حماس حماس کے اعلی رہنما نے کہا کہ صہیونی حکومت کو جنگی میدان کی طرح سیاسی میدان میں بھی کوئی کامیابی نہیں ملے گی۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورت کے مطابق، حماس کے اعلی رہنما اسامہ حمدان نے میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ صہیونی حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں کچھ تجاویز ہیں جن کے بارے میں دوسری مقاومتی تنظیموں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا جارہا ہے تاکہ سب کا متفقہ فیصلہ سامنے آجائے۔ فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ ہم مذاکرات کے دوران دشمن کی طرف سے وعدوں پر عمل کی یقین دہانی اور اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں تاہم ہماری سب سے بڑی ضمانت ہماری جوابی کاروائی کی طاقت ہے۔ ہم دشمن کو کسی بھی میدان پر سختی جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

انہوں نے صہیونی حکومت میدان جنگ میں اپنے اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام ہوئی ہے اسی طرح سیاسی میدان میں بھی ناکام ہوگی۔ اسامہ نے کہا کہ فلسطینی کی آزادی کی تحریکوں کے خلاف کوئی سازش کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔

مجاہدین کی کاروائی، صہیونی فوجیوں کی ہلاکت

القسام نے کہا ہے کہ خان یونس میں صہیونی فوج پر حملے کے نتیجے میں کئی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے کہا ہے کہ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے کہا ہے غزہ کے جنوب میں مجاہدین نے کامیاب کاروائی کرکے صہیونی فوج کو شدید نقصان سے دوچار کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق خان یونس میں القسام کے جوانوں نے مارٹر گولوں سے حملہ کرکے کئی صہیونی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔

دوسری طرف غزہ کے مختلف علاقوں پر صہیونی فوج کے حملے بھی جاری ہیں۔ خان یونس کے مغرب میں صہیونی طیاروں نے بمباری کرکے کئی فلسطینیوں کو شہید اور متعدد کو زخمی کردیا۔

خان یونس میں ہی پناہ گزینوں کے زیراستعمال کیمپ بھی صہیونی فوج کے حملے کی زد میں آگیا جس کے نتیجے کیمپ کو کافی نقصان پہنچا ہے [22]۔

غزہ میں مغربی تمدن بے نقاب ہوا

ہائی لائٹس: عید بعثت پر رہبر انقلاب کا خطاب، سب سے عظیم واقعہ نبی اکرم کی بعثت ہے، غزہ میں مغربی تمدن بے نقاب ہوا رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ پوری تاریخ میں بشریت کے لئے دنیا میں رونما ہونے والا سب سے مبارک اور سب سے عظیم واقعہ نبی اکرم کی بعثت ہے۔ حکومتوں کی ذمہ داری، صیہونی حکومت کی سیاسی، تشہیراتی اور عسکری امداد بند کرنا اور اس حکومت کو اشیائے صرف کی ترسیل روک دینا ہے، اقوام کی ذمہ داری اس بڑی ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے حکومتوں پر دباؤ ڈالنا ہے [23]۔

غزہ کی وزارت صحت نے اس پٹی پر غاصب صیہونی رجیم کے حملوں میں شہید اور زخمی ہونے والوں کے نئے اعداد و شمار جاری کئے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین ٹی وی چینل کے حوالے سے خبر دی ہے کہ غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہ اس پٹی پر صیہونی رجیم کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 27 ہزار 947 ہوگئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر سے غزہ کے مختلف علاقوں پر صیہونی فوج کے وحشیانہ فضائی حملوں اور زمینی جارحیت میں 67 ہزار 457 زخمی ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ناصر ہسپتال کے پناہ گزینوں پر اسرائیلی گولہ باری کے نتیجے میں 21 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں [24]۔

غزہ میں جنگ بندی، قاہرہ مذاکرات معطل، حماس کا وفد واپس

قاہرہ میں حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطینی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کہا ہے کہ مصر کے دارالحکومت میں فلسطینی تنظیم حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے ہیں۔

باخبر ذرائع کے مطابق پیرس نشست کےمجوزہ معاہدے پر گفتگو کے لئے ہونے والا اجلاس ختم ہوگیا اور حماس کا وفد اجلاس سے چلا گیا ہے۔ ذرائع نے مزید کہا ہے کہ حماس کے قاہرہ سے جانے کے بعد صہیونی حکومت کے جواب کا انتظار ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ صہیونی حکومت کو اندرونی بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے قاہرہ مذاکرات میں کوئی واضح موقف سامنے نہیں آسکا۔ اسی طرح امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اختلافات بھی مذاکرات کی ناکامی کا باعث بنے ہیں۔ اس سے پہلے حماس نے کہا تھا کہ حماس کا اعلی سطحی وفد مذاکرات میں مقاومت کا موقف پیش کرنے کے لئے مصر اور قطر جائے گا [25]۔

مجاہدین کی جوابی کاروائی، عسقلان میں کئی دھماکے

صہیونی شہر عسقلان پر فلسطینی مجاہدین نے میزائلوں اور مارٹر گولوں سے حملے کئے اور شہر دھماکوں کی گونج سے لرز اٹھا۔

مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطینی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کہا ہے کہ غزہ پر صہیونی فورسز کے حملوں کے جواب میں فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی شہر عسقلان پر میزائلوں اور مارٹر گولوں سے حملہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق عسقلان سے مقامی ذرائع نے کہا ہے کہ عسقلان پر مجاہدین کے حملوں کے بعد شہری دفاع کے ادارے کی جانب سے خطرے کے سائرن بجائے گئے ہیں۔

ذرائع کےمطابق صہیونی فوج کے دفاعی سسٹم نے بعض میزائلوں کو فضا میں تباہ کردیا تاہم بعض مقامات پر میزائل لگنے کی وجہ سے دھماکوں اور آگ لگنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

طوفان الاقصی میں صہیونی فورسز کی جانب سے غزہ پر وحشیانہ حملوں کے جواب میں حماس اور دیگر مقاومتی تنظیموں نے صہیونی قصبوں اور شہروں پر میزائل حملے کئے ہیں۔ مقاومت کے حملوں کے بعد کئی صہیونی شہر اور قصبوں میں رہنے والے دوسرے مقامات کی طرف نقل مکانی کرچکے ہیں [26]۔

غزہ پر صہیونی حملہ، فلسطینی وزارت اطلاعات نے نقصانات کی تازہ ترین تفصیلات جاری کردیں

گذشتہ 134 دنوں کے دوران صہیونی حملوں کی وجہ سے 35 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور لاپتہ جبکہ 68 ہزار سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، فلسطینی وزارت اطلاعات نے طوفان الاقصی کے بعد اسرائیلی حملوں میں ہونے والے نقصانات کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ اور اس کے اطراف میں صہیونی جارحیت کی وجہ سے اب تک ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی بے گناہ شہری شہید اور زخمی ہوگئے ہیں جبکہ متعدد لاپتہ ہوگئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق گذشتہ 134 دنوں کے دوران اسرائیلی فوج نے 35858 فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے جن میں سے 28858 کو ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ شہداء میں 12660 بچے اور 8570 خواتین بھی شامل ہیں۔

وزارت اطلاعات نے مزید کہا ہے کہ اب تک صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے 340 افراد شہید ہوگئے ہیں جبکہ میڈیا کے اداروں سے تعلق رکھنے والے بھی اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ اب تک مجموعی طور پر 130 صحافی شہید ہوگئے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ غزہ اور اطراف میں صہیونی حملوں میں 68677 افراد زخمی ہوگئے ہیں جن میں سے 11 ہزار کی حالت تشویشناک ہے۔

اسرائیلی حملوں کی وجہ سے 7 ہزار سے زائد فلسطینی لاپتہ ہوگئے ہیں [27]۔

غزہ میں جنگ بندی کی امید ہے، قطر

قطر کے وزیراعظم نے غزہ میں جنگ بندی کے بارے میں معاہدے کی امید ظاہر کی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، قطر کے وزیراعظم محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے مذاکرات جاری ہیں۔ حالیہ عرصے میں ہونے والی پیشرفت کے نتیجے میں ہم امید کرسکتے ہیں کہ غزہ میں جاری جنگ ختم ہوگی اور فریقین کے درمیان جلد معاہدے کی امید ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنی پوری کوشش کررہے ہیں اور حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے امکانات بھی روشن ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کوشش کی جائے تو راہ میں حائل رکاوٹوں کو آسانی کے ساتھ دور کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کی آمد نزدیک ہے لہذا کوئی راہ حل نکالنا ہوگا ورنہ حالات مزید بگھڑ جائیں گے [28]۔

انسانی امداد کے منتظر فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملے تشویش ناک ہیں، آکسفیم

بین الاقوامی تنظیم آکسفیم نے صیہونی حکومت کی جانب سے انسانی امداد کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے فلسطینیوں کو بے دردی سے قتل کرنے پر تنقید کی۔ اس بین الاقوامی تنظیم نے اپنے بیان میں اسرائیلی فوج کی غزہ میں انسانی امداد کے منتظر فلسطینیوں پر بمباری پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اس بین الاقوامی ادارے نے تاکید کی کہ اسرائیل جان بوجھ کر شہریوں کو بھوکا رکھنے کے بعد نشانہ بناتا ہے اور یہ تمام اقدامات بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں۔

آکسفیم نے خبردار کیا کہ غزہ کی پٹی میں نسل کشی کا خطرہ سنگین صورت حال اختیار کر رہا ہے۔

المیادین ٹی وی چینل کے نمائندے نے اطلاع دی ہے کہ قابض اسرائیلی رجیم نے غزہ کی الرشید اسٹریٹ میں انسانی امداد کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے بے گناہ فلسطینیوں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں 100 سے زیادہ لوگ شہید جب کہ سینکڑوں زخمی ہوئے [29]۔

امریکہ، ڈیموکریٹ سینیٹرز کا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ

28 ڈیموکریٹ سینیٹرز نے غزہ میں صہیونی حکومت کے جنگی جرائم کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی سینیٹرز نے غزہ میں صہیونی حکومت کے مظالم فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے صدر جوبائیڈن کے نام اپنے خط میں غزہ میں فوری جنگ بندی اور فلسطینی عوام کو انسانی امداد کی ترسیل کا مطالبہ کیا ہے۔

خط میں غزہ کے فلسطینی شہریوں کی حالت زار پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے قیدیوں کے تبادلے اور فوری جنگ بندی پر تاکید کی گئی ہے۔ دوسری جانب فلسطینی وزارت صحت نے کہا ہے کہ صہیونی حملوں کے نتیجے میں اب تک 30 ہزار 228 فلسطینی شہید اور 71 ہزار 377 زخمی ہوگئے ہیں [30]۔</ref>۔

مقاومت اسلامی عراق کا صہیونی بندرگاہ حیفا پر ڈرون حملہ

مقاومت اسلامی عراق نے صہیونی بندرگاہ حیفا پر ڈرون حملے کرنے کا دعوی کیا ہے۔ہہککع ے

اس نے غزہ پر صہیونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کے جواب میں اپنی کاروائیوں کا دوبارہ آغاز کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق تنظیم نے اہم صہیونی بندرگاہ حیفا پر ڈرون حملے کرنے کا دعوی کیا ہے۔ تنظیم کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے حیفا پر حملہ کیا گیا ہے۔ 7 اکتوبر کو صہیونی حکومت کی جانب سے غزہ پر زمینی اور ہوائی حملے کے بعد لبنان، عراق اور یمن سے صہیونی فوجی تنصیبات پر حملے شروع ہوگئے ہیں۔ حماس کی جانب سے اچانک صہیونی سیکورٹی فورسز پر شدید حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر جارحیت کرتے ہوئے اب تک مجموعی طور پر 30 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے۔

شہداء میں معصوم بچوں اور بے گناہ خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 68 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے [31]۔

مصر کے شہر اسکندریہ میں موساد کی موٹی اسامی کی ہلاکت

مغرب اور صہیونیت سے وابستہ عرب میڈیا نے شور و واویلا شروع کیا ہے کہ اسکندریہ میں شہید محمد صلاح جہادی گروپ کے ہاتھوں ہلاک ہونے والا شیخ زیو کیپر ایک اسرائیلی ـ کینیڈین تاجر ہے۔ لیکن شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ موساد کے ایک اعلی افسر کے طور پر غزہ کے خلاف جنگ میں صہیونی ریاست کے لئے ایک ستون کا کردار ادا کر رہا تھا اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی (ابنا) کے مطابق، مصر میں طلائع التحریر کے مجاہدین نے ایک شخص کو ہلاک کر دیا ہے جس کے بارے میں موصولہ مختصر سی معلومات کچھ یوں ہیں:

نام زیو کیپر(Ziv Kipper)، بظاہر ایک سادہ سا تاجر، شہریت اسرائیلی بھی کینیڈین بھی، لیکن مقاومت اسلامی کے قریبی ذرائع اس کو جرنیل کی سطح کا افسر قرار دیتے ہیں۔ زیو کیپر پھلوں اور سبزیوں کی ایک مصری کمپنی کا مالک بھی تھا۔ کچھ ذرائع نے اس کا تعارف اسرائیلی فوج کے جرنیل کے طور پر کرایا ہے

ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے یہودی ریاست کے کارندے صنعت، تجارت اور زراعت کے شعبوں میں کام کرنے کی آڑ میں موساد کے لئے نیٹ ورک بنانے کے لئے سرگرم ہو جاتے تھے۔

مثال کے طور پر سنہ 1960ع‍ کی دہائی میں کچھ اسرائیلی ماہرین زراعت کے شعبے کو ترقی دینے کے بہانے ایران میں تعینات ہوئے۔ ان ہی میں سے ایک شخص عزرا دانین (Ezra Danin) تھا وہ بالکل زیو کیپر کی مانند، ایران آیا اور صوبہ خوزستان میں کپاس کی کاشت کو اپنے ہاتھ میں لیا کیونکہ ماہر زراعت کے طور پرایران آیا تھا۔ عزرا دانین در حقیقت ہاگانا نامی صہیونی دہشت گرد تنظیم کی جاسوسی شاخ "SHAI" کا رکن اور صہیونی ریاست کے قیام کے بعد عرب ممالک میں ـ ماہر زراعت کے طور پر ـ اس ریاست کے لئے جاسوسی کرتا تھا۔ ہاگانا تنظیم جعلی اسرائیلی ریاست کی تاسیس سے قبل فلسطینیوں کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیاں کرتی تھی۔

عزرا دانین، زاسلانی (Reuven Zaslani [later Shiloah]) نامی صہیونی کا استاد اور سربراہ رہا تھا جو بعد میں موساد کا پہلا سربراہ مقرر ہؤا۔ زاسلانی موساد کا بانی سربراہ تھا اور اس کو صہیونی دہشت گردی کا دادا بھی کہا جاتا ہے۔

مقاومت کے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ مصر میں زیو کیپر کا کردار بھی ایسا ہی تھا اور یہ کہ اس شخص کو لبنان میں دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بننے والے شہید محمد سُرُور کے قتل کے بدلے میں ہلاک کیا گیا۔ کیونکہ زیو کیپر مصر میں موساد کی دہشت گردانہ کاروائیوں کی نگرانی کرتا تھا اور موساد کی مالی اور تجارتی سرگرمیوں کا انتظام کرتا تھا۔

مقاومت کے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اب جبکہ سایوں کی جنگ میں شدت آئی ہے تو محور مقاومت (محاذ مزاحمت) بھی سنجیدگی سے اس جنگ میں داخل ہو گیا ہے اور مصر میں بھی مقاومتی گروپ عنقریب زیادہ شدت کے ساتھ صہیونی مفادات پر حملہ آور ہونے کا امکان ہے۔

ایک مصری مقاومتی گروپ "طلائع التحریر" نے زیو کیپر پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ طلائع التحریر شہید محمد صلاح یونٹس کی ذیلی شاخ ہے۔ شہید محمد صلاح نے طوفان الاقصی کے آغاز کے بعد حملہ کرکے کئی صہیونیوں کو واصل جہنم کیا تھا۔

مردخائے لائٹ سٹون نامی شخص نے چاباد (Chabad) نامی ویب سائٹ پر زیو کیپر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "زیو کیپر ـ جسے مصر میں قتل کیا گیا ـ ایک بڑے یہودی دل کا مالک تھا۔ جس نے اسکندریہ سے لے کر یوکرین تک، اپنے آپ کو یہودی کمیونٹی کے لئے وقف کر دیا تھا"۔ چنانچہ یہودی ریاست اور مصری میڈیا کا یہ پروپیگنڈا بے بنیاد ہے کہ وہ تو بس ایک معمولی سا تاجر تھا اور بے گناہ مارا گیا ہے۔

زیو کیپر کی سرگرمیاں

زیو کیپر مصر میں موساد کا ایک مہرہ تھا جو صہیونی تاجر کے عنوان سے، مصر سمیت کئی ممالک میں موساد کے گماشتوں کی پشت پناہی میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔ صہیونی ریاست سے متعلق انٹیل ٹائمز سیکورٹی ویب سائٹ نے زیو کیپر کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی ہے، جس کے مطابق وہ موساد کا انتہائی مؤثر مہرہ تھا جسے ایک مصری نوجوان نے منظر عام سے حذف کر دیا ہے، اور الزام کی انگلی ایران کی طرف اٹھائی گئی ہے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ اقدام اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے ایک پیغام ہو سکتا ہے کہ یہ ملک خطے میں "صہیونی ریاست کی انٹیلی جنس نیٹو" کے مقابلے میں وہ ایک جدید طرز کے اقدامات شروع ہو چکے ہیں، تاہم اس حقیقت میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ مصر کی خفیہ ایجنسیوں اور سرکاری فوج کے اندر ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو صہیونی ریاست کے ساتھ اس ملک کے حکمرانوں کی سازباز سے ناراض اور صہیونی مفادات پر حملہ کرنے کے لئے ہر دم تیار ہیں اور اس لمحے کے منتظر ہیں کہ جب مصری حکومت صہیونیوں کے ساتھ ذلت آمیز سمجھوتوں کو منسوخ کرکے انہیں حملے کی ہدایات جاری کرے گی[32]۔

غزہ میں نسل کُشی پر امریکی طلبہ کی اٹھان میں ایک چنگاری، ایک شعلہ

آج غزہ کا مسئلہ، دنیا کا پہلا مسئلہ ہے۔ دیکھ لیجئے ان امریکی یونیورسٹیوں کو؛ آج پھر میں خبروں میں پڑھ رہا تھا کہ کئی مزید یونیورسٹیاں بھی ان سے جا ملی ہیں، آسٹریلیا میں، مختلف یورپی ممالک میں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اقوام عالم مسئلۂ غزہ پر حساس ہیں۔ یہ امام خامنہ ای (مُدَّ ظِلُّہُ العَالی) کے تازہ ترین الفاظ ہیں، جو آپ نے یکم مئی (2024ع‍) کو طلبہ اور اساتذہ سے خطاب کرکے ادا کئے۔ اب سوال یہ ہے امریکی طلبہ کی یہ تحریک ہے کیا؟

امریکی طلبہ کی تحریک

ماجرا بدھ 17 اپریل سے شروع ہؤا، جب نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے دسوں طلبہ نے اس یونیورسٹی کے احاطے میں خیمے لگائے اور اپنے دھرنے کا آغاز کیا۔ ان کا ابتدائی مطالبہ یہ تا کہ یونیورسٹی اسلحہ تیار کرنے والی ان کمپنیوں سے رابطہ منقطع کرے جو غزہ میں ہونے والی نسل کشی میں غاصب صہیونی ریاست کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ امریکی طلبہ نے اکتوبر کے مہینے سے غزہ کی نسل کشی پر اپنا احتجاج مختلف طریقوں سے ریکارڈ کرایا تھا، لیکن ان خیموں اور اس دھرنے سے یہ احتجاج نئے مرحلے میں داخل ہؤا۔

اس تحریک کے اثرات

آزادی اظہار کی دعویدار کا جھوٹ

عالمی سطح پر آزادی اظہار کی دعویدار حکومت کا ابتدائی رد عمل یہ تھا کہ کولمبیا یونیورسٹی کے سربراہ کو کانگریس بلایا گیا تاکہ وہ موجودہ صورت حال کے حوالے سے جوابدہ ہو! یونیورسٹی کے سربراہ نے وعدہ کیا کہ "میں اس بات کی اجازت نہیں دوں گا کہ میرے زیر قیادت یونیورسٹی "سامیت دشمنی" کے اظہار کا گڑھ بنے"۔ سامیت دشمنی (Anti-Semitism) کا الزام منحوس ریاس کے قیام سے لے کر اب تک اس ریاست کے تحفظ کے لئے ایک اوزار کا کردار ادا کرتا رہا ہے، یہ مغرب میں جرم کی حیثیت رکھتا ہے چنانچہ یہودی بھی اور یہودیوں کے مغربی اور امریکی حامی بھی اس عنوان سے استفادہ کرکے صہیونیوں کے مظالم پر احتجاج کرنے والوں کو سامیت دشمنی کا الزام لگا کر خاموش رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ آج بھی وہ 34000 فلسطینیوں کے قتل عام پر تنقید کرنے والوں پر سامیت دشمنی کا الزام لگا کر ان کی آوازوں کا گلا گھونٹنا چاہتے ہیں۔

ان جامعات میں فلسطین کی حمایت کے لئے اٹھنے والی صدائیں خاموش کرنے کی غرض سے، ان کے سربراہوں پر کئی مہینوں سے مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا تھا۔ دسمبر 2023ع‍ میں امریکی کانگریس نے تین اہم امریکی یونیورسٹیوں کے سربراہوں کو بلایا اور ان کی بازخواست کی۔ یہ ایک متنازعہ سماعت تھی جس کے بعد ان تین میں سے ہارورڈ یونیورسٹی اور پنسلوانیا یونیورسٹی کے سربراہوں کو استعفی دینا پڑا۔

کولمبیا یونیورسٹی کے سربراہ نے کانگریس میں حاضر ہونے کے بعد ایک خط جاری کرکے دعوی کیا کہ احتجاج کرنے والے طلبہ یونیورسٹی کے امن اور جاری امر میں خلل ڈال رہے ہیں، چنانچہ پولیس کو ان سے نمٹنا چاہئے! جس کے ایک بعد پولیس یونیورسٹی کے احاطے میں داخل ہوئی اور طلبہ کے لگائے ہوئے خیموں کو اکھاڑ کر انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے 100 سے زائد طلبہ کو گرفتار کیا لیکن دھرنا ختم کرنے میں ناکام رہی۔ کلاسوں کی چھٹی ہوئی اور اساتذہ سے کہا گیا کہ فاصلاتی تدریس کی روش اپنائیں۔ عجب یہ کہ یونیورسٹی کے "مصری نژاد سربراہ" نے موقف اپنایا کہ "کولمبیا یونیورسٹی کبھی بھی اسرائیل سے جدا نہیں ہوگی"۔

ایک ہفتہ بعد امریکی ایوان نمائندگان کے سربراہ مائیک جانسن نے کولمبیا یونیورسٹی پہنج کر ایک کشیدگی سے بھرپور اجتماع میں کہا: "اگر یونیورسٹی کا سربراہ "افراتفری کا خاتمہ" کرکے حالات کو ٹھیک نہیں کر سکتا تو اسے استعفی دینا چاہئے"۔ چنانچہ حالات مزید کشیدہ ہوگئے۔ جانسن نے یہ بھی کہا تھا کہ "اگر اس صورت حال کو فوری طور پر قابو میں نہ لایا جائے تو نیشنل گارڈ کی مداخلت کے لئے مناسب موقع پایا جاتا ہے"۔

امریکہ میں نیشنل گارڈ کا سایہ فعال کرنے کی بات آتی ہے تو بہت سے امریکیوں کو 1970ع‍ کے تلخ واقعات ستاتے ہیں، جب اوہایو نیشنل گارڈ نے ریاستی یونیورسٹی "کینٹ" میں ویتنام کی جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں 4 طلبہ قتل اور 9 زخمی ہوئے تھے۔

اس سے دو سال قبل سنہ 1968ع‍ میں کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ نے ویتنامی آبادیوں پر کارپٹ بمباری اور ویتنامی عوام پر آگ والے نیپام بموں (napalm bombs) کے استعمال پر احتجاج کرتے ہوئے یونیورسٹی کی کئی عمارتوں پر قبضہ کر لیا تھا اور ان کے اس اقدام سے متاثر ہو کر دوسری امریکی یونیورسٹیاں بھی اس احتجاجی تحریک میں شامل ہوئی تھیں۔ اس بار کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپنا احتجاجی کیمپ ختم کریں یا پھر اس کے نتائج بھگت لیں۔

یونیورسٹی کے طلبہ اجتجاج سے باز آنے کے لئے تیار نہیں ہیں جبکہ اس ہفتے سے طلبہ کی معطلی کا سلسلہ بھی شروع ہؤا ہے۔ دو چیزیں طلبہ پر حملے کی امریکی حکومت کی دستاویز ہیں:

  • عمومی نظم و ضبط کو درہم برہم کرنا؛
  • سامیت دشمنی (Anti-Semitism)!۔

یہ دو تہمتیں وہی ہیں جن کے لئے انہوں نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے اور طلبہ کے اقدامات سے بھی یہ الزامات ثابت نہیں ہیں؛ کیونکہ دھرنا دینے والے طلبہ کی صفوں میں یہودی طلبہ بھی موجود ہیں جس سے بخوبی ثابت ہے کہ یہودیت دشمنی کا الزام کتنا بے بنیاد ہے؛ اور پھر سینٹر برنی سینڈرز کے بقول "34000 فلسطینیوں کے قتل عام پر احتجاج کرنا، صہیونیت دشمنی نہیں ہے"، اور پھر طلبہ نے خیمے لگائے ہیں، دھرنا دے رہے ہیں، نہ لڑ رہے ہیں، نہ تخریبکاری کر رہے ہیں نہ ہی یونیورسٹی کے اموال و املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور نہ ہی معاشرے کی معمول کی زدگی میں خلل ڈال رہے ہیں۔

تشدد آمیز رویہ، طلبہ اور اساتذہ کی گرفتاری

تشدد آمیز رویہ، طلبہ اور اساتذہ کی گرفتاری، یہاں تک کہ انہیں یونیورسٹیوں سے نکال باہر کرنا اور تعلیم سے محروم کرنا، ان دنوں کا امریکی اداروں کا جاری رویہ ہے لیکن یہ اقدامات بھی نہ صرف طلبہ کا احتجاج روکنے میں ناکام رہے ہیں، بلکہ احتجاج کا دائرہ پھیل گیا ہے اور فلسطینیوں کی حمایت میں دھرنوں کے کیمپ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، ایمرسن کالج، یونیورسٹی آف ٹیکساس - آسٹن، مشی گن یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا - برکلے میں بھی قائم کئے گئے ہیں۔

کولمیبا یونیورسٹی میں فلسطین کے حامی احتجاجی طلبہ نے کہا: جب تک کہ یہ یونیورسٹی صہیونی ریاست کے ساتھ اکیڈمک تعلقات ختم نہیں کرے گی، اور جب تک کہ اپنا پورا سرمایہ اسرائیل سے متعلق اداروں سے نکالنے کی پابند نہیں ہوگی، اور ہمارے تمام مطالبات منظور نہیں ہونگے، ہم منتشر نہیں ہونگے۔

یونیورسٹیوں کے طباء کے مطالبات

دوسری یونیورسٹیوں کے طلبہ نے ایسے ہی مطالبات پیش کئے ہیں۔ ان کے مطالبات کچھ یوں ہیں:

  • اسلحہ تیار کرنے والی ان کمپنیوں کے ساتھ تجارت بند کی جائے جو اسرائیل کو اسلحہ دے رہی ہیں۔
  • اسرائیلی ریاست کی طرف سے ان منصوبوں کے لئے فنڈز قبول نہ کئے جائیں جو اس ریاست کے فوجی عزائم کی تکمیل کرتے ہیں۔
  • یہ مسئلہ بالکل شفاف کیا جائے کہ اسرائیلی ریاست سے کس قسم کے فنڈز وصول کئے جاتے ہیں اور ان سے کن امور میں فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
  • ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری سے اجتناب کیا جائے جو جنگ غزہ سے منافع کما رہی ہیں

امریکہ کی 22 ریاستیں غزہ کی جنگ کے خلاف طلبہ کی احتجاجی تحریک

امریکہ کی 22 ریاستیں غزہ کی جنگ کے خلاف طلبہ کی احتجاجی تحریک کا گڑھ بنے ہوئے ہیں اور پولیس کے ہاتھوں کم و بیش 2500 طلبہ اور اساتذہ کی گرفتاری کے باوجود، امریکی انتظآمیہ احتجاجی اقدامات روکنے میں ناکام رہی ہے۔ سی این این کی ویب گاہ نے لکھا: " لگتا ہے کہ بہت سے طلبہ اپنے احتجاج کا انجام قبول کرنے کے لئے تیار ہیں"۔

بہرحال امریکی پولیس اور سیکورٹی اداروں کا تشدد طلبہ تک محدود نہیں رہا ہے اور کئی پروفیسرز گرفتار اور حتی کہ معطل ئے گئے ہیں۔ اب کچھ پروفیسرز بھی طلبہ کے احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں اور اداروں کے تشدد آمیز سلوک کے خلاف موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ اگرچہ وہ خود بھی اپنے اس موقف کے انجام سے محفوظ نہیں ہیں۔

ان احتجاجی دھرنوں، جلسے جلوسوں اور مظاہروں کے منتظمین نے 1980ع‍ کے عشرے کے تجربے سے اثر لیا ہے؛ جب امریکی طلبہ نے ان کمپنیوں کو احتجاج کا نشانہ بنایا جو جنوبی افریقہ کی (نسلی امتیاز پر استوار) اپارتھائیڈ حکومت کے ساتھ لین دین کر رہی تھیں اور نتیجہ یہ ہؤا کہ 150 امریکی یونیورسٹیاں جنوبی افریقی اپاتھائیڈ کے ساتھ فاصلہ قائم کرنے اور تعلق ختم کرنے پر مجبور ہوئیں۔

غزہ اور مغربی تہذیب و اخلاقیات کی قربان گاہ

بے شک غزہ مغربی تہذیب و اخلاقیات کی قربان گاہ ہے، یہاں مغرب پوری طرح اخلاقی اور تہذیبی حوالے سے، فیل ہو گیا ہے اور طلبہ کے احتجاج کو اس منظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ مغرب کا بگڑا ہؤا بے نقاب چہرے کو از سرنو مقبول بنا رہے ہیں! یعنی غزہ کے خلاف جنگ کے خلاف امریکی طلبہ کی احتجاجی تحریک کسی حد تک مغرب کی اس تاریخی رسوائی کا ازآلہ کر رہی ہے۔ اس تحریک سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب کی نئی نسلیں اپنے سابقین کے ذہنی تصورات سے آزاد ہونے کی زیادہ استعداد اور زیادہ آمادگی رکھتی ہیں اور مغرب کی عظیم تشہیراتی مشینری اور ابلاغیاتی جادو سے متاثر نہیں ہو رہی ہیں۔

یہ وہی چیز ہے کہ جس کے شواہد و آثار رہبر انقلاب حضرت امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے ایک عشرہ قبل دیکھ لئے تھے۔ آپ نے 2015ع‍ میں یورپ اور شمالی امریکہ کے نوجوانوں کے نام دو خطوط تحریر کئے اور لکھا: "میں آپ نوجوانوں سے مخاطب ہو رہا ہوں، اس لئے نہیں کہ آپ کے باپوں اور ماؤں کو نظرانداز کر رہا ہوں، بلکہ اس لئے کہ آپ کی قوموں اور سرزمینوں کو مستقبل میں آپ کے ہاتھوں میں، دیکھ رہا ہوں، نیز حقیقت پسندی کے احساس کو آپ کے دلوں میں زیادہ بیدار اور زیادہ ہوشیار، دیکھ رہا ہوں۔ میں اس تحریر میں آپ کے سیاستدانوں اور حکمرانوں سے مخاطب نہیں ہو رہا ہوں؛ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر، سیاست کا راستہ صداقت اور حقیقت کے راستے سے الگ کر لیا ہے" [33]۔

طوفان الاقصیٰ آپریشن کی خصوصیات

آیت اللہ خامنہ ای نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی وجہ سے صیہونی حکومت کے میدان کے گوشے میں پھنس جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ امریکا اور بہت سی مغربی حکومتیں بدستور اس حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ بھی جانتی ہیں کہ غاصب حکومت کی نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کی اہم ضرورت کی تکمیل اور مجرم حکومت پر کاری ضرب کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کی دو اہم خصوصیات بتایا اور کہا کہ امریکا، عالمی صیہونزم کے ایجنٹوں اور بعض علاقائی حکومتوں نے خطے کے حالات اور روابط کو بدلنے کے لیے ایک بڑی اور دقیق سازش تیار کر رکھی تھی تاکہ صیہونی حکومت اور خطے کی حکومتوں کے درمیان اپنے مدنظر روابط قائم کروا کر مغربی ایشیا اور پورے عالم اسلام کی سیاست اور معیشت پر منحوس حکومت کے تسلط کی راہ ہموار کر دیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ منحوس چال عملی جامہ پہننے کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی کہ الاقصیٰ کا معجزاتی طوفان شروع ہو گیا اور اس نے امریکا، صیہونزم اور ان کے پٹھوؤں کے تمام تاروپود بکھیرے دیے، اس طرح سے کہ پچھلے آٹھ مہینے کے واقعات کے بعد اس سازش کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

رہبر انقلاب نے ظالم حکومت کے عدیم المثال جرائم اور حد سے زیادہ شقاوت و سفاکیت اور امریکی حکومت کی جانب سے اس درندگی کی حمایت کو، خطے پر صیہونی حکومت کو مسلط کرنے کی بڑی عالمی سازش کے نقش بر آب ہو جانے پر بوکھلاہٹ اور تلملاہٹ والا ردعمل قرار دیا۔

انہوں نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی دوسری خصوصیت یعنی صیہونی حکومت پر کاری اور ناقابل تلافی ضرب لگانے کی تشریح کرتے ہوئے امریکی و یورپی تجزیہ نگاروں اور ماہرین یہاں تک کہ خود منحوس حکومت کے پٹھوؤں کے اعترافات کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ غاصب حکومت اپنے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود ایک مزاحمتی گروہ سے بری طرح شکست کھا چکی ہے اور آٹھ مہینے کے بعد بھی اپنے کسی کم ترین ہدف کو بھی حاصل نہیں کر سکی ہے۔

سید علی خامنہ ای نے اکیسویں صدی کو بدلنے کے لیے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی طاقت کے بارے میں ایک مغربی تجزیہ نگار کے تبصرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے تجزیہ نگاروں اور مؤرخین نے بھی صیہونی حکومت کی سراسیمگی اور بدحواسی، الٹی ہجرت کی لہر، مقبوضہ علاقوں میں رہنے والوں کی حفاظت میں ناتوانی اور صیہونیت کے پروجیکٹ کے آخری سانسیں لینے کی طرف اشارہ کیا ہے اور زور دے کر کہا کہ دنیا، صیہونی حکومت کے خاتمے کے شروعاتی مرحلے میں ہے۔

انہوں نے مقبوضہ فلسطین سے الٹی ہجرت کی لہر کے سنجیدہ ہونے کے بارے میں ایک صیہونی سیکورٹی تجزیہ نگار کے تبصرے کی طرف اشارہ کرتے کہا کہ اس صیہونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیلی حکام کی بحثوں اور ان کے درمیان اختلافات کی باتیں میڈیا میں آ جائیں تو چالیس لاکھ لوگ اسرائیل سے چلے جائیں گے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے دنیا کے پہلے مسئلے میں بدل جانے اور لندن اور پیرس میں اور امریکی یونیورسٹیوں میں صیہونیت مخالف مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی و صیہونی میڈیا اور پروپیگنڈہ مراکز نے برسوں تک مسئلۂ فلسطین کو بھلا دیے جانے کے لیے کوشش کی لیکن طوفان الاقصیٰ اور غزہ کے عوام کی مزاحمت کے سائے میں آج فلسطین، دنیا کا پہلا مسئلہ ہے۔

انہوں نے چالیس ہزار لوگوں کی شہادت اور پندرہ ہزار بچوں اور نومولود و شیر خوار بچوں کی شہادت سمیت غزہ کے لوگوں کے مصائب کو صیہونیوں کے چنگل سے نجات کی راہ میں فلسطینی قوم کے ذریعے ادا کی جانے والی بھاری قیمت بتایا اور کہا کہ غزہ کے لوگ، ایمان اسلامی اور قرآنی آیات پر عقیدے کی برکت سے بدستور مصائب برداشت کر رہے ہیں اور حیرت انگیز استقامت کے ساتھ مزاحمت کے مجاہدین کا دفاع کر رہے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مزاحمت کے عظیم محاذ کی توانائیوں کے بارے میں صیہونی حکومت کے غلط اندازے کو، اس حکومت کے ڈیڈ اینڈ کورویڈور میں پہنچ جانے کا سبب بتایا جو اسے لگاتار شکستوں سے رو بہ رو کرا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی مدد و نصرت سے اس بندگلی سے نکلنے کی اس کے پاس کوئی راہ نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کے پروپیگنڈوں کے باوجود صیہونی حکومت، دنیا کے لوگوں کی نظروں کے سامنے پگھلتی اور ختم ہوتی جا رہی ہے اور اقوام کے ساتھ ہی دنیا کی بہت سی سیاسی شخصیات یہاں تک کہ صیہونی بھی اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں[34]۔


حوالہ جات

  1. اردو ویکیپیڈیا سے ماخوذ
  2. sahartv.ir
  3. irna.ir
  4. سخنرانی وزیر خارجه در سازمان ملل، mfa.gov.ir
  5. express.pk
  6. غزہ 66 دن سے ظلم کی تاریکی کا شکار ، ایسی نسل کشی کبھی انسانیت نے نہ دیکھی، علامہ ساجد نقوی، hawzahnews.com
  7. علامہ امین شہیدی سربراہ امت واحدہ پاکستان، hawzahnews.com
  8. ur.irna.ir/news
  9. آل انڈیا مسلم پرسنل لا، 10اکتوبر، 2023۔
  10. hawzahnews.com
  11. طوفان اقصیٰ آپریشن نے اسرائیل کو ہر سطح پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا، jang.com.pk/news
  12. imam-khomeini.ir/ur
  13. مجمع العلوم الاسلامیہ کراچی پاکستان،mui.edu.pk
  14. غزہ میں ہسپتال پر حملے کے مکمل ذمہ دار جوبائیڈن ہے:حماس urdu.palinfo.com
  15. اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے، hawzahnews.com
  16. mehrnews.com
  17. mehrnews.com
  18. مزاحمتی فورسز نے زمینی لڑائی میں صہیونی فوج کو دھول چٹا دی، mehrnews.com
  19. اسرائیل کیخلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ چلے گا، abna24.com
  20. طوفان الاقصی کا 117 واں دن، غزہ پر صہیونی فورسز کے وحشیانہ حملے جاری، mehrnews.com
  21. غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں، دفتر خارجہ پاکستان، mehrnews.com
  22. مجاہدین کی کاروائی، صہیونی فوجیوں کی ہلاکت، mehrnews.com
  23. غزہ میں مغربی تمدن بے نقاب ہوا، khamenei.ir
  24. غزہ، شہداء کی تعداد 28 ہزار تک پہنچ گئی، mehrnews.com
  25. غزہ میں جنگ بندی، قاہرہ مذاکرات معطل، حماس کا وفد واپس، mehrnews.com
  26. مجاہدین کی جوابی کاروائی، عسقلان میں کئی دھماکے، mehrnews.com
  27. غزہ پر صہیونی حملہ، فلسطینی وزارت اطلاعات نے نقصانات کی تازہ ترین تفصیلات جاری کردیں، mehrnews.com
  28. غزہ میں جنگ بندی کی امید ہے، قطر،mehrnews.com
  29. امداد کے منتظر فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملے تشویش ناک ہیں، آکسفیمmehrnews.com،شائع شدہ از:29فروری 2024ء-اخذ شده به تاریخ:28 فروری 2024ء۔
  30. ڈیموکریٹ سینیٹرز کا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہmehrnews.com/news،شائع شدہ از:2مارچء-اخذ شده به تاریخ:2 مارچ 2024ء۔
  31. الاقصی، مقاومت اسلامی عراق کا صہیونی بندرگاہ حیفا پر ڈرون حملہur.mehrnews.com،-شائع شدہ از:4مارچ2024ء-اخذ شده به تاریخ:5 مارچ 2024ء۔
  32. مصر کے شہر اسکندریہ میں موساد کی موٹی اسامی کی ہلاکت- ur.abna24.com-شائع شدہ از: 9 مئی 2024ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 10مئی 2024ء۔
  33. غزہ میں نسل کُشی پر امریکی طلبہ کی اٹھان / میں ایک چنگاری، ایک شعلہ (تکمیل و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی)-ur.abna24.com-شائع شدہ از:7 مئی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 مئی 2024ء۔
  34. لسطین کے بارے میں امام خمینی کی پیشنگوئی سچ ثابت ہورہی ہے-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 3 جون 2024ء- 4 جون 2024ء۔