آغا خان چہارم

    ویکی‌وحدت سے
    آغا خان چہارم
    کریم آقاخان.jpg
    دوسرے نامپرنس کریم آغا خان
    ذاتی معلومات
    یوم پیدائش13 دسمبر
    وفات1357 ش، 1979 ء، 1398 ق
    وفات کی جگہسوئستان کے شہر جنیوا
    مذہباسلام، نزاری اسماعلی شیعہ
    مناصباسماعیلی نزاری (49)

    آغا خان چہارم شہزادہ کریم آغا خان (پرنس کریم آغا خان؛ 13 دسمبر 1936ء – 4 فروری 2025ء) جنہیں شاہ کریم الحسینی (پرنس کریم الحسینی) یا آغا خان چہارم بھی کہا جاتا تھا، اسماعيلى مسلمانوں کے سب سے بڑے گروہ نزاریہ اسماعیلیہ (آغا خانیوں) کے اننچاسویں امام تھے اور آغا خان چہارم کا انتقال پرتگال کے دارلحکومت لزبن میں ہوا۔

    تعلیم

    ابتدائی طور پر شہزادہ کریم آغا خان چہارم ریاضی، کیمیا اور جنرل سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، آپ نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ شروع کیا جس میں اسلامی فرقے اور تصوف کا بغور مطالعہ کیا۔ جب ان پر امامت کی اہم زمہ داری سونپی گئی انھوں نے اسی دوران میں ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجوییشن اور بی اے آنرز اسلامک تاریخ کی ڈگری حاصل کی۔ 1957ء–1958ء میں جہاں مسلم دنیا اور دیگر غیر مسلم برادری کے درمیان میں دُوری کو ختم کرنے اور لوگوں کی معیار زندگی کو بہتر بنانے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔

    جہاں جنوبی ایشیا اور مشرقی افریقہ میں نسلی طور پر کشیدہ ماحول عرُوج پر تھی۔ سنہ 1972ء میں جب یوگانڈا میں صدر عیدی امین کی حکومت نے فرمان جاری کیا کہ جنوبی ایشیا کے باشندوں اور نزاری اسماعیلی کو 90 دن کے اندر اس ملک چھوڑنے کی مہلت دی اُس وقت شہزادہ کریم آغا خان نے کینیڈی وزیر اعظم پیری ترودیو سے ان تمام خاندانوں کو کینیڈا میں آبادکاری کی درخواست دی جسے وزیر اعظم نے قبول کر کے اپنے ملک کے دروازے کھولنے پر اتفاق کیا اج کینیڈا دنیا کی سب سے تیز ترقی یافتہ ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انتقال کرگئے[1]۔

    سوانح عمری

    13 دسمبر 1936ء کو سوئستان کے شہر جنیوا میں پیدا ہوئے۔ 1957ء میں آغا خان سوم کی رحلت کے بعد پرنس کریم آغا خان کو امام بنایا گیا۔ شیعوں کا دوسرا بڑا فرقہ اسماعیلیہ ہے۔ اسماعیلیہ کی سب سے بڑی شاخ نزاریہ ہے جو تقریباً دو تہائی اسماعیلیوں پر مشتمل ہے۔ اسماعیلوں کا دوسرا بڑا گروہ بوہرہ جماعت ہے، جن میں امامت کی بجائے داعی مطلق کا سلسلہ ہے۔ اور وہ آغا خان کو امام نہیں مانتے۔

    آغا خان چہارم نزاریہ اسماعیلیوں کے اننچاسویں امام تھے اور آغا خان شاہ کریم الحسینی کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ آغا خان کو شریعت کی تعبیر و توضیح کے وہ تمام اختیارات حاصل ہیں، جو ان کے پیش روؤں کو حاصل تھے۔ ان کی ہدایت حرفِ آخر سمجھی جاتی ہے اور اسماعیلی خواتین و حضرات بے چون و چرا خود کو اس پر عمل کرنے کا مکلف سمجھتے تھے۔ آغا خان دورانِ تعلیم ہی جانشین بن گئے تھے اور اسی زمانے میں امامت کی اہم ذمہ داری انھیں سونپ دی گئی تھی، تاہم سنہ 1958ء میں انھوں نے اپنے سلسلہ تعلیم کا دوبارہ آغاز کیا اور بی، اے کیا، اس دوران میں انھوں نے تحقیقی مقالات بھی لکھے۔

    شادی اور اولاد

    انہوں نے اکتوبر 1969ء میں انگریز خاتون سے شادی رچائی، جن کا اسلامی نام سلیمہ رکھا گیا، جن سے تین بچے:

    1۔ زہرہ آغا خان۔ 2۔ رحیم آغا خان۔ 3۔ حسین آغا خان پیدا ہوئے، مگر 25 سال کے بعد اسے طلاق دے دی۔ اس کے بعد سنہ 1998ء میں بیگم اِنارا کے ساتھ دوسری شادی کی تھی، جن سے ایک بیٹا علی محمد آغا خان پیدا ہوئے۔ مگر پھر سنہ 2014ء مین بیگم انارا کو بھی طلاق دے دی۔

    تعلیم

    ابتدائی طور پر شہزادہ کریم آغا خان چہارم ریاضی، کیمیا اور جنرل سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، آپ نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ شروع کیا جس میں اسلامی فرقے اور تصوف کا بغور مطالعہ کیا۔ جب ان پر امامت کی اہم زمہ داری سونپی گئی انھوں نے اسی دوران میں ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجوییشن اور بی اے آنرز اسلامک تاریخ کی ڈگری حاصل کی۔ 1957ء–1958ء میں جہاں مسلم دنیا اور دیگر غیر مسلم برادری کے درمیان میں دُوری کو ختم کرنے اور لوگوں کی معیار زندگی کو بہتر بنانے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔

    جہاں جنوبی ایشیا اور مشرقی افریقہ میں نسلی طور پر کشیدہ ماحول عرُوج پر تھی۔ سنہ 1972ء میں جب یوگانڈا میں صدر عیدی امین کی حکومت نے فرمان جاری کیا کہ جنوبی ایشیا کے باشندوں اور نزاری اسماعیلی کو 90 دن کے اندر اس ملک چھوڑنے کی مہلت دی اُس وقت شہزادہ کریم آغا خان نے کینیڈی وزیر اعظم پیری ترودیو سے ان تمام خاندانوں کو کینیڈا میں آبادکاری کی درخواست دی جسے وزیر اعظم نے قبول کر کے اپنے ملک کے دروازے کھولنے پر اتفاق کیا اج کینیڈا دنیا کی سب سے تیز ترقی یافتہ ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    اقتصادی سرگرمیاں

    کریم آغا خان دنیا بھر کے لوگوں کی مالی، معاشی، علمی اور آبادیاتی مد میں مدد کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہے۔ ان کا تعمیر کردہ ادارہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے مشہور ہے اور بیک وقت کئی زیلی اداروں کی سرپرستی کرتا ہے۔ کریم آغا خان کو بین الاقوامی زبانوں میں عبور حاصل تھا۔ وہ انگریزی، فرانسیسی اور اطالوی زبانیں روانی سے بولتے تھے، مگر عربی اور اردو اٹک اٹک کر بولتے تھے۔ ان کے مشغلے گھوڑ دوڑ اور اسکیٹنگ، فٹ بال، ٹینس اور کشتی رانی ہیں۔ ایک قول کے مطابق وہ کسی زمانے میں ایران کی نمائندگی کرتے ہوئے اسکیٹنگ کے اولمپک چمپین بھی بنے تھے۔

    مذہبی قیادت

    آغا خان چہارم شاہ کریم حُسینی نے 20 برس کی عمر میں 11 جولائی 1957ء کو نزاری (آغا خانی) اسماعیلیوں کے اننچاسویں امام کی حیثیت سے منصب سنبھالا۔ عالمی سطح پر شہزادہ کریم کی رسمِ تاج پوشی کی تقریبات منعقد ہوئیں اور 23 جنوری 1958ء کو نیشنل اسٹیڈیم، کراچی میں بھی شہزادہ کریم آغا خان کی رسمِ تخت نشینی ادا کی گئی۔ یوں شہزادہ کریم اسماعیلی یا آغا خانی مسلمانوں کے اننچاسویں امام کے منصب پر فائز ہوئے اور آغا خان چہارم کے لقب سے معروف ہو گئے۔

    سماجی سرگرمیاں

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے انھوں نے اپنی گراں قدر خدمات اور کوشیش تیز کردی اور آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کی بنیاد رکھی، جو دنیا کے تقریباً 35 ملکوں میں غربت اور انسانی زندگی کا معیار بہتر بنانے میں تقریباً 80،000 ورکرز اے کے ڈی این کے مختلف اداروں کے ساتھ منسلک ہے، جس میں آغا خان فاؤنڈیشن، آغا خان ہیلتھ سروسز، آغاخان پلانگ اینڈ بلڈنگ سروسز، آغاخان ایکنومک سروسز، آغاخان ایجنسی فار مائیکروفائینینس، کے علاوہ فوکس (اف او سی یو ایس) قابل ذکر ہے جس کی براہ راست وہ خود نگرانی کرتے تھے۔

    مثالی خدمات پر پرنس کریم آغا خان کو نشان پاکستان اور نشان امتیاز سے نوازا گیا تھا،وینٹی فئیر میگزین نے پرنس کریم آغا خان کو ون مین سٹیٹ کا نام دیا، پرنس کریم آغا خان اعلیٰ ترین سطح پر سفارتکاری کے حوالےسے جانے جاتے تھے، انہوں نے صدر ریگن اور گورباچوف کی جینیوا میں سفارتی بات چیت ممکن بنائی۔ پرنس کریم آغا خان کے آباؤ اجداد صدیوں پہلے فارس سے بھارت منتقل ہوگئے تھے، پرنس کریم آغا خان کے اثاثوں کی مالیت 13ارب ڈالر کےقریب بتائی جاتی ہے[2]۔

    پاکستان میں سرگرمیاں

    پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان اور چترال کی ترقی میں شہزادہ آغا خان نے نمایاں کردار ادا کیا، سنہ 1960ء میں جب پہلی دفعہ وہ گلگت بلتستان ہنزہ میں آئے تو انھوں نے خود وہاں کے لوگوں کی حالات زندگی دیکھ کر کافی مایوسی اور پریشانی کا اظہار کیا۔ اور سنہ 1980ء میں آغا خان فاؤنڈیشن نے گلگت بلتستان میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام، آغا خان ہیلتھ سرویسز اور دیگر فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی جنھوں اس علاقے کی ترقی میں اہم کردار نبھایا۔

    آغا خان نیٹ ورک 35 ممالک میں 96 اسپتال، 2000 اسکول، 400 کلینک چلا رہا ہے۔ گلگت بلتستان کو آغا خان نے حکومتِ پاکستان سے زیادہ سنبھالا۔ شاہ کریم الحسینی کی کمی لمبے عرصے تک محسوس کی جاتی رہے گی[3]۔

    اعزازات اور القاب

    ان کی ان خدمات کو سرہاتے ہوئے دنیا کے کئی خطابات، اعزازات اور القاب سے نوازا گیا ہے، جس میں سنہ 1936ء تا 1957ء آپ کو پرنس (شہزادہ) کریم آغا خان اور سنہ 1957ء سے اب تک عزت مآب جناب آغا خان چہارم اور سنہ 1959ء سے سنہ 1979ء تک ہز رائل ہائی نس دی آغا خان چہارم۔ سنہ 1977ء سے سنہ 2009ء تک کی اعداد و شمار کے مطابق دُنیا کے 20 ممالک نے ان کو اپنے قومی اعزازات سے نوازا، دُنیا کی 19 بہترین جامعات نے ان کو اعزازی ڈگریوں سے نوازا اور دُنیا کے 21 ممالک نے 48 ایوارڈ ان کی گراں قدر خدمات اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے پر نوازے۔ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں ان کو نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

    عقیدہ

    اسماعیلی میڈیا کے مطابق پرنس کریم آغا خان اہل تشیع کے چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق علیہ سلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل کی نسل سے ہیں اور اسی لیے اس کمیونٹی کو اسماعیلی مسلم کہا جاتا ہے۔ پرنس کریم آغا خان کے آباو اجداد صدیوں پہلے فارس میں آباد ہوگئے تھے جہاں سے بھارت منتقل ہوگئے تھے، پرنس کریم آغا خان، پرنس علی خان کے بڑے بیٹے تھے، وہ 1936 میں سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہوئے اور بچپن کے ابتدائی ایام نیروبی میں گزارے جبکہ انہوں نے سوئٹزرلینڈ کے لا روزے اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

    پاکستان کا دورہ

    سن 2006ء میں برطانیہ کے شہزادہ چارلس پاکستان کے دورے پر آئے تو پرنس کریم کے ساتھ وہ اسکردو بھی گئے تھے۔ پرنس کریم کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم نے 1300 کی تاریخی روایات کے برعکس بیٹے کی جگہ پوتے یعنی انہیں جانشین مقرر کردیا تھا۔ اس طرح پرنس کریم آغا خان نے انیس 1957 میں امامت سنبھال لی تھی اور اس وقت انکی عمر 20 برس تھی۔

    پرنس کریم نے واپس جاکر 1959 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈگری مکمل کی، انہیں 1957 میں ملکہ برطانیہ نے ہزہائنس کا خطاب بھی دیا تھا۔ سن 2006 میں برطانیہ کے شہزادہ چارلس پاکستان کے دورے پر آئے تو پرنس کریم کے ساتھ وہ اسکردو بھی گئے تھے، برطانیہ کے بادشاہ چارلس اپنے ذاتی دوست پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر انتہائی افسردہ ہیں اور پرنس کریم کے اہل خانہ سے نجی طور پر رابطے میں ہیں، برطانیہ کے شاہی خاندان سے پرنس کریم کا گہرا تعلق رہا ہے، ولی عہدہ شہزادہ ولیم اور انکی اہلیہ شہزادی کیٹ نے آغاخان سینٹر لندن جاکر پرنس کریم سےملاقات کی تھی۔

    پرنس کریم خاموش سفارتکاری کے حوالے سے بھی جانے جاتے تھے، امریکا کے وینٹی فیئر میگزین نے پرنس کریم آغا خان کو ون مین اسٹیٹ کا نام دیا تھا، پرنس کریم آغا خان ہی نے امریکا کے صدر رونالڈ ریگن اور سابق سوویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف کی جنیوا میں سفارتی بات چیت ممکن بنائی تھی۔

    شہریت

    پرنس کریم کو برطانیہ اور کینیڈا نےبھی شہریت دی تھی مگر زندگی کا زیادہ تر عرصہ انہوں نے فرانس میں گزارا، ان کی پہلی اہلیہ برطانوی ماڈل سیلی کروکر تھیں جن سے انکی شادی 1969 میں ہوئی، سیلی کروکر نے اسلام قبول کرلیا تھا اورشہزادی سلیمہ آغا خان کہلاتی تھیں جن سے پرنس کریم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔ پرنس کریم کی یہ شادی 25 برس چلی اور علیحدگی پر پرنس کریم کو انہیں مبینہ طور پر 20 ملین پاونڈ دینا پڑے تھے جس کے بعد وہ 1998 میں شہزادی گیبرئیل سے پیرس کے نواحی علاقے میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے تھے، جرمن شہزادی نے اسلام قبول کرکے اپنا نام انارا اختیار کرلیا تھا،جوڑے کا ایک بیٹا ہوا تاہم 6 برس بعد جوڑے نے علیحدگی اختیار کرلی، پرنس کریم کو انہیں مبینہ طورپر 50 ملین پاونڈ دینا پڑےتھے۔

    پرنس کریم اسکی انگ کے شوقین تھےاور 1964 میں ونٹر اولمپکس میں بھی حصہ لیا تھا، وہ اعلی ترین نسل کے گھوڑوں کی افزائش کے بھی دلدادہ تھے اورفرانس میں گھڑ دوڑ اور بریڈنگ کے سب سے بڑے ادارے کے مالک تھے، ان کے مشہور ترین گھوڑوں میں شیر گر بھی تھا جس نے 1981 میں ایپسن ڈربی ریس میں رکارڈ قائم کیا تھا جو کبھی توڑا نہ جاسکا تاہم اس گھوڑے کو آئرش فارم سے مبینہ طور پر آئی آر اے کے اراکین نے چُرا کر دو ملین پاونڈ تاوان طلب کیا تھا۔ ٹیلی فونک رابطے ہوئے مگر پرنس کریم نےتاوان دینے سے انکار کردیا تھاجس کے بعد رابطے ختم ہوگئے اور گھوڑے کا کچھ پتہ نہ چل سکا تھا۔

    پرنس کریم آغا خان نےاپنی زندگی پسماندہ طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے میں صرف کی، وہ اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ اسلام ایک دوسرے سے ہمدردی، برداشت اور انسانی عظمت کا مذہب ہے، وہ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے بانی چئیرمین تھے۔ اس پلیٹ فارم سےانہوں نے دنیا کے مختلف خطوں خصوصا ایشیا اور افریقا میں فلاحی اقدامات کیے، یہ اقدامات زیادہ تر تعلیم، صحت، معیشت اور ثقافت کے شعبوں میں تھے، آغاخان فاونڈیشن کے 30 ممالک میں 80 ہزار ملازمین ہیں اور صرف سن 2023 میں آغا خان فاونڈیشن نے 58 ملین پاونڈ وقف کیے تھے۔ امریکی میڈیا کے مطابق پرنس کریم کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب ڈالر سے 13ارب ڈالر کےدرمیان ہے جن میں باہاماس کاجزیرہ ،پیرس میں محل، اوردوسوملین ڈالر مالیت کاجہاز بھی شامل ہے[4]۔

    وفات

    اسماعیلی مسلم کمیونٹی کے روحانی پیشوا مولانا شاہ کریم الحسینی آغا خان چہارم انتقال کر گئے، پرنس کریم آغا خان کا انتقال پرتگال کے دارلحکومت لزبن میں ہوا۔ اسماعیلی امامت کے دیوان نے پرتگال سے جاری بیان میں پرنس کریم آغا خان کے انتقال کی تصدیق کی تاہم انتقال کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ انتقال کے وقت اہل خانہ ان کے پاس موجود تھے جن میں پرنس کریم آغا خان کے تین بیٹے رحیم آغا خان، علی محمد آغا خان اور حسین آغا خان جبکہ ایک بیٹی زہرا آغا خان شامل تھیں۔

    مولانا شاہ کریم کی نمازجنازہ لزبن ہی میں ادا کیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے تاہم تدفین کے مقام، تاریخ اور وقت کا اعلان انتظامات کو حتمی شکل دیے جانے پر کیا جائے گا، نماز جنازہ میں شاہ کریم کے اہل خانہ، جماعت کے سینئر لیڈر اور امامت انسٹی ٹیوشنز کے اداروں سے منسلک افراد شرکت کریں گےجبکہ جماعت کے اراکین سے درخواست کی گئی ہے کہ مدعو نہ کیا جائےتو وہ نماز جنازہ میں ذاتی حیثیت میں شرکت کی کوشش نہ کریں۔

    پرنس کریم آغا خان کے انتقال کی خبر جاری ہوتے ہی دنیا بھرمیں جماعت خانوں میں خصوصی دعائیں اوردرود کی تسبیح شروع کردی گئی ہےجو نئے پیشوا کے اعلان تک جاری رہے گیں جبکہ پرنس کریم آغا خان کے چالیس ویں کے موقع پر بھی مسلم روایات کے تحت خصوصی دعائیں مانگی جائیں گی۔ مولانا شاہ کریم الحسینی اسماعیلی کمیونٹی کے 49 ویں امام تھے، روایات کے تحت ان کے جانشین یعنی اسماعیلی کمیونٹی کے50 ویں حاضر امام کو نامزد کردیا گیا ہے۔ جانشین کی نامزدگی پرنس کریم آغا خان نے اپنی وصیت میں کی تھی جو یہ پرنس کریم آغا خان کے اہل خانہ اور جماعت کے سینئر اراکین کی موجودگی میں لزبن ہی میں پڑھ کر سنائی جائےگی۔

    اسماعیلی عقیدے کے مطابق کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جماعت امام کے بغیررہی ہو، جیسے ہی امام اس مادی دنیا سے رخصت اختیار کرتے ہیں، ان کی روحانی روشنی ان کے نامزد جانشین کو منتقل ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ 1400 برس سے قائم ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ اسماعیلی کمیونٹی مولانا شاہ کریم کی زندگی اور ان کے ورثہ کی تکریم کرتی ہے اور شکرگزار ہے، ساتھ ہی وہ حاضر امام کے نور اور محبت سے تحفظ کا احساس کرتی ہے۔

    پرنس رحیم آغا خان اسماعیلی جماعت کے پچاسویں امام بن گئے

    پرنس رحیم آغا خان نظاری اسماعیلی جماعت کے پچاویں امام ہیں۔ ان کے منصبِ امات پر فائض ہونے کا رسمی اعلان جماعت کے سینئیر ارکان نے پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں آج کیا ہے۔ پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم اپنی وصیت مین انہیں امامت کا منصب عطا کر گئے تھے۔ پرنس رحیم آغا خان اسماعیلی جماعت کے نئے امام ہیں۔ کل پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں پردہ پوشی کر جانے والے اسماعیلی جماعت کے امام پرنس کریم آغا خان نے اپنی وصیت میں پرنس رحیم آغا خان کو اپنے بعد جماعت کا 50 واں امام نامزد کیا تھا۔

    پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم کے انتقال کے فوراً بعد پرنس رحیم آغا خان نے امامت کا منصب سنبھال لیا تھا تاہم اس کا رسمی اعلان امام کی فیملی اور جماعت کے سینئر ممبرز کے سامنے پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں آج کیا گیا۔ انہیں آغا خان پنجم بھی کہا جائے گا۔ پرنس کریم آغا خان کو 11 جولائی1957 کو امامت کا منسب ملا تھا، اس وقت ان کی عمر 20 سال تھی۔ پرنس کریم کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان اسماعیلی تھے۔

    پرنس کریم آغا خان نے اپنی امامت کا تمام عرصہ کمیونٹی کی خدمت کرنے اور پسماندہ طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے میں صرف کیا۔ پرنس کریم آغا خان کے ویژن کو اسماعیلی جماعت نے تو اپنا چراغِ راہ بنایا ہی، دوسری کمیونٹیز نے بھی اس سے رہنمائی حاصل کی اور خاطر خواہ فوائد اٹھائے، پاکستان میں سر آغا خان کے ویژن کو لے کر چلنے والی تنظیم آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کے بنائے ہوئے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے ماڈل کو بعد میں پاکستان کی حکومت نے بھی ایڈاپٹ کر لیا تھا جس سے پاکستان بھر کے دیہی عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کے نئے راستے کھلے[5]۔

    حوالہ جات

    1. کریم آغا خان کی زندگی پر ایک نظر- شائع شدہ از: 5 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 فروری 2025ء۔
    2. پرنس کریم آغا خان کون تھے؟- شائع شدہ از: 5 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 فروری 2025ء۔
    3. گزشتہ روز انتقال کرجانیوالے پرنس کریم آغا خان کون ہیں؟- شائع شدہ از: 5 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 فروری 2025ء۔
    4. نسیم حیدر پرنس کریم آغا خان کا انتقال، زندگی اور ورثہ؟- شائع شدہ از: 5 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 فروری 2025ء۔
    5. پرنس رحیم آغا خان اسماعیلی جماعت کے پچاسویں امام بن گئے- شائع شدہ از: 5 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 فروری 2025ء۔