یوم القدس

    ویکی‌وحدت سے
    یوم القدس
    روز قدس.jpg
    واقعہ کی معلومات
    واقعہ کا نامیوم القدس
    واقعہ کی تاریخ1979ء
    واقعہ کا دن17/ اگست
    واقعہ کا مقام
    عواملفلسطین پر اسرائیل کا قبضہ
    اہمیت کی وجہفلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کا ظلم
    نتائج
    • دنیا کے مسلمانوں کا آپس میں متحد ہونا

    یوم قدس (جسے سرکاری طور پر عالمی یوم القدس کہا جاتا ہے) کے نام سے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو اسلامی جمہوریہ ایران میں ہر سال فلسطینیوں کی حمایت اور صیہونیت و اسرائیل کے قبضہ فلسطین کی مخالفت کا دن منایا جاتا ہے۔ اسلامی ایران کی ملت و حکومت نے بھی ، اسلامی انقلاب کی پرشکوہ کامیابی کے بعد سے غاصب صہیونیوں کے پنجۂ ظلم سے قدس کی آزادی کے مسئلے کو اپنا اولین نصب العین قراردے رکھا ہے اور ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو روز قدس قراردے کر اس دن کو ستمگران تاریخ کے خلاف حریت و آزادی کے بلند بانگ نعروں میں تبدیل کردیا ہے ۔ اسلامی انقلاب کے فورا" بعد حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے صہیونیوں کے پنجۂ ظلم سے قدس کی آزادی کے لئے اس دن کو روز قدس قرار دے دیا۔ ایران کے علاوہ دیگر متعدد ممالک خصوصاً عرب اور مسلمان ممالک میں بھی یوم القدس منایا جاتا ہے۔ اس دن اسرائیل کے مشرقی یروشلم پر قبضہ کے خلاف مظاہرے کیے جاتے ہیں اور دنیا بھر میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کی جانب سے ریلیاں نکال کر اس قبضے کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا جاتا ہے۔

    تاریخی پس منظر

    سید روح اللہ خمینی نے یہ بھی اعلان کیا کہ قدس کی آزادی تمام مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے۔ اس دن انھوں نے اعلان کیا کہ: میری دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ ماہ رمضان کے آخری جمعے کو یوم القدس قرار دیں اور اس دن فلسطین کے مسلمان عوام کے قانونی حقوق کی حمایت میں اپنے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔

    میں عرصہ دراز سے تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے سے آگاہ کر رہا ہوں، جس نے ان دنوں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں پر اپنے مظالم میں اضافہ کر دیا ہے اور خاص طور پر جنوبی لبنان میں فلسطینی مجاہدین کے خاتمے کے لیے ان کے گھروں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ میں پورے عالم اسلام کے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں۔

    کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے دن جو ایام قدر میں سے بھی ہے اور فلسطینی عوام کی تقدیر کو واضح کرنے کا دن بھی ہو سکتا ہے، اس کو 'یوم القدس' قرار دیں اور کسی پروگرام کے ذریعے بین الاقوامی طور پر ان مسلمان عوام کے ساتھ تمام مسلمانوں کی ہمدردی کا اعلان کریں۔ اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو کافروں پر فتح عنایت کرے۔ اس دن ایران میں عوامی مقامات پر شہر قدس کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں کی جاتی اور مذمتی تقریریں ہوتی ہیں۔

    لبنان میں حزب اللہ کی جانب سے رمضان کے آخری ہفتے کو فوجی مشقوں کے مظاہرے کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح سنہ 1989ء سے حکومت اردن بھی یوم القدس کا اہتمام کرتی ہے اور ہر سال مختلف مقامات اور یونیورسٹیوں میں علمی کانفرنسیں منعقد کرتی ہیں۔ نیز اس دن بیشتر عرب معاشروں میں فلسطینیوں سے اتحاد اور یک جہتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کا کہنا ہے کہ یوم القدس کا آغاز اس لیے کیا گیا تھا کہ اسرائیل کی مخالفت میں تمام مسلمانوں کو متحد کیا جائے

    امام خمینی؛ بیت المقدس اور عالمی یوم قدس

    انقلاب اسلامی کے عروج پر، ایرانی عوامی تحریک کے لیے بین الاقوامی حمایت کی ضرورت کے باوجود، انھوں نے بیت المقدس اور فلسطین کو یاد کیا امام خمینی بیت المقدس کو مقدس اور اسلامی مقامات میں سے ایک سمجھتے تھے اور اس میں نماز پڑھنا مستحب جانتے تھے۔ 1962ء میں اسلامی تحریک کے آغاز سے ہی وہ قدس شریف کے بارے میں فکر مند تھے۔

    قدس کے بارے میں امام خمینی کا مؤقف ایسی حالت میں تھا جب عالمی صیہونیت فلسطین اور قدس کے مسئلے کو عرب دنیا تک محدود کرنے کی کوششیں کر رہی تھی۔ 1962ء میں ایران میں اسلامی تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی امام خمینی نے ایرانی حکومت سے کہا کہ وہ اسرائیل اور بہائیوں سے اپنے تعلقات منقطع کردے اور تحریک کے تسلسل میں آپ نے بیت المقدس کو مسلمانوں کی طرف واپس کردینے پر زور دیا۔

    اسرائیل کے ساتھ اپنی تعلقات کو چھپانے کے لیے پہلوی حکومت کے ایجنٹوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اسرائیل اور بہائی؛ عیسائی ریاستوں سے مختلف نہیں ہیں اور یہ سب ایک ہی ہیں۔ امام خمینی نے اس مسئلے کو نص قرآن کے خلاف اور اس غاصب ملک کی شناخت اور بہائی کے باطل فرقے کی حمایت کے لیے قرار دیا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو دین کے تقاضوں کے منافی قرار دیا اور ایرانی قوم کو اس عظیم گناہ سے پاک سمجھا۔

    انقلاب اسلامی کے عروج پر، ایرانی عوامی تحریک کے لیے بین الاقوامی حمایت کی ضرورت کے باوجود، انھوں نے بیت المقدس اور فلسطین کو یاد کیا اور مصر کے صدر انور السادات اور میناچم بیگن کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے (1979/1357) کی مذمت کی جس میں بیت المقدس سے مصر کی جانب سے مسلمانوں کے حق سے دستبرداری کا مطالبہ کیا گیا۔

    بیت المقدس کی آزادی کا مسئلہ امام خمینی کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل

    اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بیت المقدس کی آزادی کا مسئلہ امام خمینی کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل تھا اور 17/ فروری 1979ء کو فلسطینی وفد اور یاسر عرفات سے ملاقات میں انہوں نے بیت المقدس کی آزادی کے بارے میں بات کی۔ اور ان سے کہا کہ وہ دشمن پر فتح اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے خدا پر بھروسہ رکھیں، وہ تمام طاقتوں سے بالاتر ہے۔

    12/ ستمبر 1980ء کو فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اسرائیل کے دارالحکومت کو بیت المقدس منتقل کرنے کے بارے میں خبردار کیا۔ اسلامی انقلاب کے ابتدائی دنوں میں فلسطینی سفارت خانے نے اسرائیلی سفارت خانے کی جگہ لے لی۔ امام خمینی نے ایران اور دنیا کے مسلمانوں کے نام ایک پیغام میں 7/ اگست 1979ء مطابق 13/ رمضان 1399ق کو فلسطینی عوام کی حمایت اور قدس کی آزادی کے لیے پوری دنیا کے مسلمانوں کی یکجہتی کے لیے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور آپ نے عوام الناس اور اسلامی حکومتوں سے کہا کہ وہ غاصب اسرائیل کا ہاتھ چھوٹا کرنے کے لیے ساتھ دیں۔

    اور رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو جو یوم القدر میں سے ایک تھا اور فلسطینی عوام کی تقدیر کا تعین کر سکتا تھا، فلسطینی عوام کے قانونی حقوق کی حمایت میں اپنی یکجہتی کا اعلان کریں۔

    عالمی یوم قدس کی خصوصیات

    1979ء میں عالمی یوم قدس کے موقع پر امام خمینی نے مختلف طبقوں کے لوگوں سے خطاب میں یوم قدس کو اسلام کے احیاء کا دن، اسلامی حکومت کا دن، مظلوموں کو مستکبرین اور سپرپاورز سے مقابلہ کرنے کا دن قرار دیا۔ مظلوم اقوام کی تقدیر کے تعین کا دن اور مستکبروں پر مظلوم کی فتح کا دن، یوم ہمت، قدس کو بچانے کے لیے مسلمانوں نے تمام ممالک میں اسلامی جمہوریہ کے پرچم کو بلند کرنے اور منافقوں کو متعہد افراد سے پہچاننے کا دن قرار دیا اور یاد دہانی کراتے ہیں کہ متعہد افراد سے مراد وہ لوگ ہیں جو یوم قدس پر ایمان رکھتے ہیں اور منافق وہ ہیں جو یوم قدس کی تقریبات میں لوگوں کی شرکت کا راستہ روکتے ہیں۔

    امام خمینی نے یوم قدس کو پیغمبر اکرم (ص) کا دن قرار دیا اور عوام سے کہا کہ وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ سپر پاورز کے خلاف کھڑے ہوں اور انہیں مسلمانوں کے معاملات میں مداخلت کرنے کی اجازت نہ دیں۔ 17/ اگست 1979ء کو اپنی ایک تقریر میں مستضعفین کی پارٹی کی تشکیل کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے یوم قدس کو مسلمانوں کی عمومی بسیج کا دن قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ یہ دن بسیج مستضعفان کی تشکیل اور ان کی آخری فتح کا آغاز ہوگا۔

    اس کے بعد کے سالوں میں آپ نے لوگوں کو اس موقع پر اس دن کو منانے کا حکم بھی دیا، جیسا کہ 24/ رمضان المبارک 1400ھ / بمطابق 6/ اگست 1980ء کو، ایک پیغام میں انہوں نے لوگوں سے یوم القدس کو زندہ رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی رژیم فتح کی صورت میں مقبوضہ علاقوں پر اکتفاء نہیں کرے گی اور امریکہ بھی اس کے ساتھ شریک ہے اور اسے یروشلم کو دارالحکومت بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور اسرائیل کے خلاف سپر پاورز کا ہنگامہ فریب ہے۔

    عالمی یوم قدس مارچ

    عالمی یوم قدس کے موقع پر ہر سال رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو جلوس نکالا جاتا ہے۔ پہلا مارچ، 17/ اگست 1979ء بمطابق 23/ رمضان 1399 ہجری قمری کو ایران اور دیگر ممالک میں ہوا۔ تہران میں نماز جمعہ کے امام سید محمود طالقانی نے اسی دن نماز جمعہ کے خطبوں میں یوم القدس کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بیت المقدس تمام الہی مذاہب کا ہے اور ہر ایک کو اس کے دفاع کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ امام خمینی کا یہ اقدام اس کے بعد کے سالوں میں بھی جاری رہا اور ہر سال ایران اور دیگر ممالک میں بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے[1]۔

    عالمی یوم قدس پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی نگاہ میں

    فلسطین، امت اسلامیہ کا سب سے حساس اور اہم ترین مسئلہ

    فلسطین کا معاملہ بدستور امت اسلامیہ کا حساس ترین اور اہم ترین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ظالم و سفاک سرمایہ دارانہ نظام کی پالیسیوں نے ایک پوری ملت کو اس کے گھربار، اس کے وطن اور اس کی آبائی سرزمین سے محروم کر دیا اور وہاں ایک دہشت گرد حکومت قائم کر دی، غیروں کو لاکے بسا دیا۔

    صیہونی حکومت کی تاسیس کا فلسفہ

    صیہونی حکومت کی تاسیس کی کھوکھلی دلیل سے زیادہ کمزور اور بے بنیاد دلیل اور کیا ہو سکتی ہے؟! یورپ والوں نے خود اپنے دعوے کے مطابق، دوسری عالمی جنگ کے برسوں میں یہودیوں پر ظلم کیا! تو پھر اس کے عوض مغربی ایشیا میں ایک قوم کو آوارہ وطن کرکے اور اس ملک میں وحشیانہ قتل عام کے ذریعے یہودیوں کا انتقام لیا جائے۔۔۔۔۔!

    یہ وہ دلیل ہے کہ مغربی حکومتیں صیہونی حکومت کی بے دریغ اور دیوانہ وار حمایت کے لئے جس کا سہارا لیتی ہیں۔ اس طرح انھوں نے انسانی حقوق اور ڈیموکریسی کے اپنے تمام جھوٹے دعؤوں کی خود ہی نفی کر دی ہے اور یہ المناک اور مضحکہ خیز قضیہ ستّر سال سے جاری ہے اور ہر کچھ عرصے بعد اس میں کچھ نئے ابواب کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔

    صیہونی حکومت کے خلاف جدوجہد، سب کا ہمہ گیر فریضہ

    صیہونیوں نے روز اول سے ہی غصب شدہ سرزمین فلسطین کو دہشت گردی کے مرکز میں تبدیل کر دیا۔ اسرائيل کوئی ملک نہیں بلکہ ملت فلسطین اور دیگر اقوام کے خلاف دہشت گردی کا اڈا ہے۔ اس سفاک حکومت کے خلاف جدوجہد در حقیقت ظلم کے خلاف مجاہدت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے اور یہ سب کا ہمہ گیر فریضہ ہے۔

    امت اسلامیہ کی زبوں حالی اور انتشار سے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی راہ ہموار ہوئی

    ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ غاصب حکومت انیس سو اڑتالیس میں قائم کی گئی لیکن اسلامی علاقے کے اس اہم اور حساس خطے پر قبضے کی تیاری اس سے برسوں پہلے شروع کر دی گئی تھی۔ یہ اسلامی ملکوں میں سیکولرزم اور انتہا پسندانہ نیز اندھی قوم پرستی کی حکمرانی قائم کرنے اور استبدادی نیز مغرب کی دلدادہ اور اس کی پٹھو حکومتیں مسلط کرنے کے لئے مغربی دنیا کی سرگرم دخل اندازی کا دور تھا۔

    ایران، ترکی اور مغربی ایشیا کے عرب ملکوں اور شمالی افریقا کے ان برسوں کے واقعات کا مطالعہ اس تلخ حقیقت کو آشکارا کرتا ہے کہ امت اسلامیہ کی زبوں حالی و انتشار سے سرزمین فلسطین پر قبضے کے المئے کی زمین ہموار ہوئی اور استکباری دنیا نے امت اسلامیہ پر یہ وار کر دیا۔

    فلسطین کو غصب کرنے کے معاملے میں صیہونی سرمایہ داروں سے مغربی اور مشرقی بلاکوں کا بھرپور تعاون

    یہ مقام عبرت ہے کہ اس دور میں، صیہونی قارونوں (سرمایہ داروں) کے ساتھ کیپیٹلسٹ اور کمیونسٹ دونوں کیمپ متحد ہو گئے تھے۔ برطانیہ نے سازش تیار کی۔ صیہونی سرمایہ داروں نے اپنی دولت اور اسلحے سے اس کو عملی شکل دینے کی ذمہ داری قبول کی۔ سوویت یونین، پہلا ملک تھا جس نے اس غیر قانونی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کیا اور بڑی تعداد میں یہودیوں کو وہاں بھیجا۔ غاصب حکومت، ایک طرف اسلامی دنیا کی اس وقت کی بدحالی کا نتیجہ تھی تو دوسری طرف ان یورپ والوں کی سازش، جارحیت اور یلغار کی دین تھی۔

    موجودہ دور میں طاقت کے توازن کا جھکاؤ عالم اسلام کی سمت

    آج دنیا کی حالت اس دور جیسی نہیں ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو ہمیشہ نظر میں رکھنا چاہئے۔ آج طاقت کا توازن اسلامی دنیا کے حق میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یورپ اور امریکا کے گوناگوں سیاسی و سماجی حوادث نے مغرب والوں کی تنظیمی، انتظامی و اخلاقی خامیوں اور کمزوریوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔

    امریکا میں انتخابات کے واقعات اور آزمائش کے وقت اس ملک کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے متکبر حکام کی سخت رسوائی، نیز یورپ اور امریکا میں کورونا کے پھیلاؤ کے مقابلے میں ان کی پورے سال کی ناکامی اور اس (وبا) سے متعلق شرمناک واقعات اور اہم ترین یورپی ملکوں میں سیاسی اور سماجی انتشار، یہ سب مغربی کیمپ کے زوال اور سقوط کی نشانیاں ہیں۔

    دوسری طرف حساس ترین اسلامی علاقوں میں مزاحمتی فورسز کا ظہور، ان کی دفاعی اور حملہ کرنے کی توانائيوں میں اضافہ، مسلم اقوام میں خود آگہی، امید اور حوصلے کا نمو، اسلامی اور قرآنی نعروں کی طرف میلان میں اضافہ، علمی پیشرفت، اقوام میں حریت پسندی اور خود انحصاری کا فروغ، یہ سب وہ مبارک علامتیں ہیں جو بہتر مستقبل کی نوید دے رہی ہیں۔

    فلسطین اور قدس کے محور پر اسلامی ملکوں کے متحد ہونے کی ضرورت

    اس مبارک مستقبل میں مسلمان ملکوں کی ہم آہنگی اور باہمی تعاون ایک اہم اور بنیادی ہدف ہونا چاہئے اور یہ ہدف دسترس سے باہر بھی نہیں ہے۔ اس ہم آہنگی اور تعاون کا مرکز مسئلہ فلسطین، یعنی پورے ملک فلسطین اور قدس شریف کو ہونا چاہئے۔ یہ وہی حقیقت ہے جس نے حضرت امام خمینی کبیر رحمۃ اللہ علیہ کے قلب نورانی میں یہ بات ڈالی کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے، جمعۃ الوداع کو یوم قدس قرار دیا جائے۔

    قدس شریف کے محور پر مسلمانوں کی ہم آہنگی اور تعاون صیہونی دشمن اور اس کے حامی امریکا اور یورپ کے لئے وحشتناک ہے۔ سینچری ڈیل کی ناکامی اور اس کے بعد غاصب حکومت کے ساتھ چند کمزور عرب حکومتوں کے روابط کی بحالی اسی وحشتناک حقیقت سے فرار کی ناکام کوشش ہے۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ کوششیں کارگر نہیں ہوں گی۔ دشمن صیہونی حکومت کے زوال کا عمل شروع ہو چکا ہے جو رکے گا نہیں۔

    مستقبل ساز عوامل: مقبوضہ علاقوں میں مزاحمت کا تسلسل اور مسلمانوں کی حانب سے فلسطینی مجاہدین کی عالمی حمایت دو اہم عوامل مستقبل کا تعین کرنے والے ہیں: پہلا اور اہم تر عامل، سرزمین فلسطین کے اندر مزاحمت کا جاری رہنا اور محاذ جہاد و شہادت کی تقویت ہے اور دوسرا، پوری دنیا کی مسلم اقوام اور حکومتوں کی جانب سے فلسطینی مجاہدین کی عالمی حمایت ہے۔

    حکام، روشن فکر دانشور، علمائے دین، جماعتیں اور تنظیمیں، غیور نوجوان اور دیگر طبقات، سبھی اپنے اپنے طور پر اس ہمہ گیر تحریک میں شامل اور سرگرم ہوں۔ یہ وہ چیز ہے جو دشمن کے حیلے کو ناکام بناتی ہے اور اس وعدہ الہی کے لئے کہ: ﴿أَمْ يُرِيدُونَ كَيْدًا ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا هُمُ الْمَكِيدُونَ﴾ [2]۔ آخری زمانے کا مصداق معین کرتی ہے :﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ [3]۔

    1. امام خمینی (رح) کے انسائیکلوپیڈیا سے اقتباس، ج 5، ص 701
    2. سورہ طور، آیہ 42
    3. سورہ یوسف، آیہ21