سید ضیاء الدین رضوی
سید ضیاء الدین رضوی | |
---|---|
پورا نام | سید ضیاء الدین رضوی |
دوسرے نام | ضیاء ملت |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1958 ء، 1336 ش، 1377 ق |
پیدائش کی جگہ | امپھری گلگت |
وفات | 2005 ء، 1383 ش، 1425 ق |
یوم وفات | 8 جنوری |
وفات کی جگہ | راولپنڈی |
اساتذہ |
|
مذہب | اسلام، شیعہ |
اثرات | تعمیر ملت |
مناصب |
|
سید ضیاء الدین رضوی، آپ حجتہ الاسلام آغا میر فاضل شاہ کے فرزند ہیں۔ آپ گلگت میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے بعد پاکستان کی مشہور درسگاہ حوزہ علمیہ جامعۂ المنتطر گئے اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے مرکز علم قم مقدس چلے گئے قم میں قیام کے دوران سید صفدر حسین نجفی کی خواہش پر لندن بھی گئے لندن میں آپ نے درسی و تبلیغی خدمات انجام دیے اور لندن سے واپسی کے بعد گلگت میں خدمت دین میں مشغول ہوئے۔ یہ نوجوان عالم دین اتحاد بین المسلمین کے حامی تھے۔ آپ انقلابی ذہن کے مالک ہیں۔ آپ جہوری اسلامی ایران سے علوم دینی حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس آگے۔ آپ مرکزی جامع مسجد امامیہ گلگت کے خطیب تھے۔ 8جنوری 2005ء کو آغا سید ضياء الدین رضوی اپنے تین محافظین کے ساتھ شہید ہوئے [1]۔
ولادت سے نوجوانی تک
حجة الاسلام آغا میر فاضل شاہ رضوی کے ہاں امپھری گلگت میں 1958ء میں سیادت و قیادت اور شہادت کی صفات کے ساتھ ایک نونہال خوش قسمت بچے نے علم وعمل کے اس خانوادے میں آنکھ کھولی اور اس نونہال کا نام ضیاء الدین رکھا گیا آپ نجیب الطرفین رضوی سید تھے اور اس خانوادے میں آپ آغا میر فاضل شاہ رضوی المعروف عادل سید کے ہاں پہلا بیٹا اور آغا میر احمد شاہ رضوی المعروف بڑوسید کے ہاں پہلا نواسہ اور آغا محمد علی شاہ المعروف بڑو آغا کے ہاں پہلا بھانجہ تھے [2]۔ اس لئے آپ کی کی پیدائش پیدا سے سب کو مسرت و شادمانی نصیب ہوئی کیونکہ حجۃ اسلام آغا میر فاضل شاہ نجفی کے ہاں بڑی دیر کے بعد آپ پہلی اولاد تھے۔ اس کے لئے علم وعمل کے اس خاص گھرانے نے دل کھول کر آپ کو پیار ومحبت سے نوازا اور ایسا پیار محبت فقط آپ کی قسمت تھی کیونکہ آپ کا چھوٹا ماموں آغا شمس الدین رضوی شہید بھی آپ کے ہم عمر تھے۔ راقم نے 1958ء اور 1960ء کے دوران اس دونوں شاہزادوں کو اپنی گود میں کھیلایا تھا آپ کا بچھپنا بڑے ناز نغم میں بسر ہوا ہے اور اس خانوادہ کے دینی اور روحانی ماحول میں آپ کی خصوصی نہج پر پرورش اور تربیت ہوتی رہی۔ جب آغا ضیاء الدین رضوی لڑکپنے کی منزل سے گزر رہے تھے اس دوران آپ کی سیادت اور مستقبل کی قیادت کی یوں تربیت ہو رہی تھی کہ محلہ اچھری کے ہم عمر لڑکے ہر نماز مغربین کے لئے زوار سنگی مرحوم کی مسجد میں جمع ہوتے تھے اور صحن مسجد میں چھوٹا صیاء الدین رضوی نماز مغربین کی امامت کراتے تھے اور آپکا چھوٹا ماموں آغا شمس الدین رضوی شہید نمازی بچوں پر کمان کرتے تھے اور یہ دونوں سید زادے ان بچوں کو قرآن بھی پڑھاتے تھے اگر چہ آغا شمس الدین پڑھائی میں زیادہ تیر نہیں تھے مگر بلا کا خلص تھا اسی طرح ضیاء الدین رضوی سیادت و قیادت اور خدمت دین اسلام کے حوالے سے آپ کی یہ طرز زندگی آپ کی ابتدائی درس گا تھی۔
تعلیم
اسی طرح گھر کے اسلامی اور مذہبی ماحول میں آپ کی اخلاقی اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے 1974ء میں گورنمنٹ بوائز ہائی سکول نمبرا گلگت سے سائنس کے ساتھ اول پوزیشن میں میٹرک کا امتحان بھی پاس کیا۔ اس دوران راقم شعبہ تعلیم سے منسلک تھا اور امپھری گلگت کے پرائمری سکول میں ڈیوٹی کرتا تھا اور مرکزی انجمن امامیہ گلگت کا سکریٹری بھی تھا اور گلگت ہی رہائش پذیر تھا ایک دن حجۃ الاسلام آغا میر فاضل شاہ نجفی نے مجھ سے پاکستان کے مشہور دینی مدارس کے بارے میں تفصیلات پوچھے تو میں نے حوزہ علمیہ جامع المنتظر لاہور میں داخلے کی تجویز دی۔
دینی تعلیم
میٹرک پاس کرنے کے بعد آپ دینی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر صوبہ پنجاب چلے گئے اور مشہور دینی درسگاہ جامعۂ المنتظر لاہور میں داخلہ لیا۔ آپ جامع المقدمات کی ابتدائی کتابیں اپنے والد بزرگوار سے پڑھیں تھیں آپ محنتی طالب علم تھے اور سرزمین گلگت میں آپ کے خانوادے کی علمی دینی اور تخلیقی خدمات کے پیش نظر حسن ملت علامہ سید صفدر حسین پرنسپل جامع المنتظر لاہور اور علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی وائس پرنسپل نے آپ کا خاص خیال رکھا اسی طرح آغا ضیاء الدین رضوی کو ضیاء بنانے میں دیگر اساتذہ کرام علامہ محمد شفیع نجفی اور موسی بیگ نجفی کی تعلیمی راہنمائی اور خصوصی توجہ نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا خود بھی ذہن رسا رکھتے تھے اور اور محنتی طالب علم تھے اس لئے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ پنجاب بورڈ سے ایف اے اور پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی میں نے سنا ہے کہ آپ دوران تعلیم نماز تہجد پڑھنے والے خاص طلباء میں شمار ہوتے تھے اور اس کے ساتھ چھوٹی جماعت کے طلباء کو پڑھا کر ان کی تعلیمی مد بھی کرتے تھے۔ چنانچہ 9 جنوری 1980ء میں انتظامیہ کی طرف سے پہلی بار گلگت میں شیعہ عبادات میں مداخلت ہوئی اور سانحہ چہلم رونما ہوا اور اس سانحہ میں علی محمد شہید ہوئے اور سید ہدایت حسین رضوی گولی لگنے سے زخمی ہوئے اس دوران گلگت میں ہنگامی حالات کا نفاذ ہوا راستے بند کر دیئے گئے تھے اور مرکزی انجمن امامیہ گلگت کی طرف سے مجھے اسلام آباد اور لاہور جانے کا حکم دیا اسی طرح میں لاہور پہنچا اس دوران آغا ضیاء الدین رضوی نے اس ریاستی ظلم و زیادتی کی عام تشہیر میں میری ہم کاری کی اس سلسلے میں ہم دونوں ماہنامہ المنتظر لاہور کے دفتر میں علامہ علی غضنفر کراروی صاحب سے ملے اور سانحہ چہلم اور گلگت کے حالات سے آگاہ کیا اور اس خاص میٹنگ میں گلگت انتظامیہ کی جانبداری اور علاقہ جات کی بے آئینی اور حکومت پاکستان کے نمائندوں کے خلاف گفتگو کرتے ہوئے میں جذباتی ہوا تو کراروی صاحب نے اس موضوع کو سیاست کی جانب موڑ دیا۔
حوزہ علمیہ قم
اس سال کے آخر میں آپ نے لاہور کو خیر باد کہا اور حوزہ علمیہ قم ایران چلے گئےاسی طرح جب حوزہ علمیہ تم کے تعلیمی تعطیلات میں آغا ضیاء الدین رضوی گلگت آئے تو گلگت کے اندر تبلیغی پروگراموں کے انعقاد کے ساتھ مرکز میں باقاعدہ نماز جمعہ کا اہتمام ہوا کیونکہ آغا میر فاضل شاہ نجفی نماز جمعہ نہیں پڑھا سکتے تھے امامیہ آرگنا ئزیشن گلگت کے ممبران خصوصاً حاجی حسین اکبر مرحوم سید محبوب حسین رضوی سلیم رضا مرحوم اور راقم کی کوششوں سے گلگت کے بڑے علاقوں اور دیہاتوں کے تبلیغی دورے رکھے گئے اور آنا موصوف سے پورے سات مکسوہ کے دورے کرائے اسطرح مستقبل میں آپ کی روحانی اور مذہبی قیادت کے لیے زمینہ فراہم کیا گیا۔
اتحاد امت کے لیے جد و جہد
اور ان دوروں کا سلسلہ جاری رہا اس کے ساتھ اتحاد امت مسلمہ کی کوششیں بھی جاری رہی آغا ضیاء الدین رضوی نے انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات اور اثرات کو قریب سے دیکھا تھا نیز علما و اعلام اور اپنے اساتذہ کرام کے توسط سے انقلاب جمہوری اسلام ایران کے بارے میں معلومات کے بھی عالم تھے اور دل کی گہرائیوں سے فکر خمینی کے معتقد مقلد تھے اس لئے اس پیغام وحدت کی خصوصی ترویج کرتے تھے ربانی علماء اور مجتہدین کا یہ حکم ہے کہ وحدت مسلمین کو اہمیت دی جائے اور امام انقلاب خمینی بت شکن نے فرمایا ہے کہ فقہی فرعی فقہی اختلافات کو ترک کیا جائے اور وحدت کلمہ کے برکات کے سائے میں عالمی استکبار کے خلاف اتحاد کے ساتھ مقابلہ کیا جائے دنیا کی علمی سرعت رفتار کے اس دور میں کوئی شیعہ سنی کے نام سے فرعی فقہی اختلافات کی بات کرتا ہے وہ نہ شیعہ ہے نہ سنی وہ عالمی استکباری طاقتوں کا ایجنٹ ہے چونکہ آغا ضیاء الدین رضوی آپ کے مقلد تھے اور علاقے میں امن آشتی کی خاطر اس خدائی پیغام کی تشہیر کی خاص کوشش کرتے تھے بعض مقامی حضرات خصوصاً میجر حسین شاہ صاحب کی مشاورت سے دیوبندی مسجد گلگت کے خطیب اور اہل سنت گلگا و کوہستان کے امیر قاضی عبدالرازق کو مرکزی مسجد گلگت میں دعوت دینا چاہا تو راقم نے مقامی حالات کے تناظر میں اس کی حمایت نہیں کی تھی لیکن سب نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا اور قاضی صاحب کو دعوت دی گئی اور موصوف اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ جامع مسجد امامیہ تشریف لائے اس کے بعد آنا موصوف نے ابتدائی کلمات کے بعد وحدت المسلمین کی ضرورت پر بصیرت افروز روشنی ڈالی آخر میں قاضی صاحب کو موقعہ دیا گیا تو آپ موضوع سے ہٹ گئے اور ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد چائے پیئے بغیر چلے گئے وحدت مسلمین اور خطہ شمال میں امن و آشتی کے حوالے سے آپ کی فکر قابل ستایش تھی مگر آپ کی یہ کوشش بار آور نہیں ہوئی اسی طرح 1985 ء تک آپ حوزہ عالمیہ تم ایران میں زیر تعلیم رہے اور جید عالماء واستا تذہ کرام سے بھر پور کسب فیض کیا آپ کے خاص اساتذہ میں آیۃ اللہ وجدانی فخر، آیۃ اللہ اعتمادی، آیۃ اللہ خرم پنائی، اور آیۃ اللہ وحید خراسانی مدظلہ سرفہرست تھے اسیطرح علوم متداول اور سطحیات کے دوران آپ آیۃ اللہ العظمی شیخ محمد فاضل لنکرانی کے درس میں بھی شریک ہوتے تھے۔
انگلینڈ میں دینی اور تبلیغی خدمات
اس دوران مختلف ممالک میں مدارس دینیہ کے بانی اور حوزہ علمیہ جامع المنتظر لاہور کے پرنسپل محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی رحمۃ اللہ علیہ کا نظر انتخاب آپ پر پڑی کیونکہ آپ جامع المنتظر کا ہی پھول تھے اس لئے آپ کو اعزام کرا کے اپنا مدرسہ امام المنتظر پرسٹن انگلینڈ بھیج دیا اس طرح وہاں پر آپ درس و تدریس تبلیغ و ترویج اسلام کے ساتھ جماعت و جمعہ کی امامت بھی کراتے تھے مگر آپ کا روحانی ذہن اس مغربی تہذیب و ماحول کی رنگینیوں سے مطمعن نہ تھا اسلئے اعزام کے سال پورے کیئے بغیر سرزمین علم و روحانیت قم ایران واپس ہوئے۔
وطن واپسی
اور وہاں چند ماہ درس کا ایک دورہ کر کے وطن مالوف گلگت پاکستان واپس ہوئے پاکستان میں آنے کے بعد اپنی شریک حیات کی بیماری اور بے وقت موت سے آپ کو بڑا صدمہ پہنچا چنانچہ بغیر ماں کے چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت ضعیف والدہ کی خدمت اور خطہ شمال گلگت کے حالات نے آپ کی سوچ پر دباؤ دالا اور قدموں میں مجبوری کی زنجیر ڈالدی اگرچہ 1989 میں شیخ محمد حسین علوی نے آپ کو دعوت دی تھی کہ آپ جامعۃ الشہید پشاور میں درس و تدریس کرے اس دعوت پر آپ نے مزکورہ بالا مشکلات اور پریشانیوں کا تذکرہ کیا مگر غور کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا چونکہ اس لئے گو مگو کے عالم میں شریک حیات کی موت اور سانحہ 1988ء کے بعد کے حالات اور سید عارف حسینی الحسینی کی شہادت نے آپ کے حساس زہن کو مغمحل کر دیا تھا اس گو مگو کے عالم تھے اس دوران جناب سید فاضل حسین موسوی نجفی شیخ تسلام حیدر نجفی شیخ مہربان علی نجفی مرحوم کے علاوہ بعض احباب کے اصرار پر آپ نے ینی جاری تعلیم کو چھوڑ کر گلگت میں ہمیشہ کے لئے رہنے کا حتمی فیصلہ کیا اسی طرح آپ گلگت میں آبادملت تشیع کے پریشان حال لوگوں کے لئے ایک حوصلہ مند سہارا بن گئے اور آپ کی روحانی اور مذہبی قیادت سے ستائی ہو سے ستائی آپ ہوئی ملت کو حوصلہ ملا اور آپ کے وجود سے شیعہ مرکز گلگت میں جان آئی اور ایک نو جوان عالم اور غیر سیاسی قیادت قوم کو مل گئی اسی طرح سات مکسوہ گلگت کے مومنین نے بھی آپ سے عقیدت ومحبت کی انتہا کر دی کیونکہ آپ کے خاندانی پس منظر کی بدولت بھی آپ سے لوگ محبت کرتے تھے اور خود آپ کی غیر سیاسی طرز ادا سے عوام الناس کے دلوں میں عقیدت واحترام کا ایک خاص جذبہ پیدا ہوا تھا [3]۔
مذہبی قیادت
انجمن امداد المسلمین حلقہ نمبر 3 گلگت کے چھے رکنی وفد نے آنا ضیاء الدین رضوی سے ان کے در دولت پر ملاقات کی اور انجمن کے مسائل کے حوالے سے مزاکرات کیلئے اس گفتگو کے بعد آغا موصوف نے خود دیگر علاقائی مسائل کے نو پورہ گلگت کے متنازعہ مجلس عزا اور اس بارے میں پیش آنے والے مسائل اور رکاوٹوں کے بارے میں اراکین انجمن کو آگاہ کیا تو اس دوران راقم نے بہت سخت الفاظ میں آپ کو بہت سخت ست کیا اور بتایا کہ مجلس عزا کے انعقاد کا مقصد بطور ابلاغ تبلیغ اور فلسفہ شہادت امام حسین کی ترویج کر ہوتا ہے اگر کوئی فقط آپ کی مخالفت میں آپ سے ذکر حسین علیہ السلام نہیں سننا چاہتا ہے تو یہ ضروری ہیں کہ آپ خود جا کر وہاں زبردستی تقریر کریں تبلیغ اور ترویج شہادت امام حسین کی خاطر مجلس پڑھنے کا متبادل بندوبست بھی کیا جا سکتا تھا کیونکہ مذہبی قیادت کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ملت مسلمہ کے اندر موجود نادان اور متعصب افراد کی اس روش کو نظر انداز کر کے وحدت مسلمین کی جانب قدم اٹھانا چاہئے میں نے کہا آپ کا صرف یہ کام نہیں کہ ایک جگہ مجلس پڑھے ایک جگہ نوحہ خوانی کرے اور دوسری جگہ سینہ زنی کرائے کے آپ کے ہاتھ میں قیادت ہے [4]۔
امام جمعہ اور جماعت گلگت
حجت السلام آغا میر فاضل شاہ نجفی گزشتہ چالیس سال سے مرکزی جامع مسجد امامیہ گلگت کے امام راتب تھے۔ مگر آپ نماز جمعہ نہیں پڑھاتے تھے اس لئے آغا ضیاء الدین رضوی اپنی تعلیمی تعطیلات کے دوران گلگت آتے تو نماز جماعت کے ساتھ نماز جمعہ بھی پڑھاتے تھے اس طرح 1985 کی تعلیمی چھٹیاں گزار کر گلگت سےقم ایران واپس ہوئے تو امام راتب آغا میر فاضل شاہ نجفی کے حکم سے جناب حجت الاسلام سید عباس علی شاہ حسینی نجفی نے مرکزی جامع مسجد امامیہ گلگت میں نماز جماعت و جمعہ کی امامت کرانا شروع کیا آپ نجف اشرف کے پڑھے ہوئے ہیں علم اور فن خطابت میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں مگر بچوں کی کفالت کی خاطر حکومتی تعلیمی محکمے میں معلمی کے پیشے سے منسلک ہیں چنانچہ عادل سید اپنے بڑھاپے کی وجہ سے نماز جماعت کی خدمت سے الگ ہو گئے تھے اس لئے آنا موصوف نے باقاعدہ طور پر اس دینی خدمت کو انجام دیتے تھے اسی طرح نماز جماعت و جمعہ اور تبلیغ اور ارشاد کا سلسلہ جاری رہا چنانچہ اس خدمت کے دوران گلگت کے حالات کی روشنی میں آپ کو ہی مرکزی انجمن امامیہ گلگت کا عبوری صدر بھی مقرر کیا گیا اس لئے جماعت و تبلیغ کے ساتھ آپ پر قومی سیاسی اور اقتصادی ذمہ داری بھی عائد ہوئی اسی طرح آپ نے مقامی حالات کے تناظر میں صدر انجمن امام گلگت کی اہم ذمہ داری کو خوش اسلوبی کے ساتھ بھر پور طریقے سے بجھانے کی کوشش کی اور ملت کے دانشمند حضرات کی مشاورت سے اس ملی کام کو آگے بڑھایا چنانچہ ملت کی اقتصادی حالت کو سنبھالا دینے کی خاطر ایک خاص پالیسی اپنائی اور اپنی پر خلوص جد و جہد اور محنت شاقہ کے ساتھ قومی اقتصاد کو ترقی دی اور مستقبل کے لئے ایک اقتصادی نظام کی بنیاد رکھا اور اس خدمت کے صلے میں آپ کی جان پر حملہ بھی ہوا اور آپ زخمی ہوئے تھے چنانچہ بغیر نام کے آپ نے تعمیر ملت پروگرام کا آغاز کیا تھا اس لئے نکاح اور شادی کے ہاروں کے حصول کے علاوہ جمعہ اور دیگر تقریبات کے دوران چندے بھی جمع کیا کرتے تھے اور اس کے ساتھ گلگت شہر کے محلوں اور گھروں میں خود گھوم پھر کر مومنین سے چندے وصول کرتے تھے اسی طرح لوگوں کی مدد سے مومن بازار گلگت کی کچی دکانوں کو آرسی کی مارکیٹ مید تبدیل کیا اس طریق کار سے قومی اقتصاد میں ترقی ہوئی اور کچھ زمین بھی خریدا تھا مسجد امامیہ گلگت کی بڑھتی ہوئی آباد کی وجہ سے آپ وسعت دینا چاہئے تھے چنانچہ 1988 کے سانحہ فاجعہ کے بعد شیخ محسن علی نجفی اسلام آباد اور شیخ مدبر علی نجفی کراچی گلگت تشریف لائے تھے ان دونوں بزرگوں نے آغا موصوف سے گلگت کے مسائل پر بات کی تو آپ نے قدیم مرکزی جامع مسجد امامیہ کی اندرونی خستہ حالی اور مذہبی تقریبات کے لئے مسجد کے چھوٹی پڑھنے کا ذکر کیا تو ان بزرگوں نے اس کی مرکزیت کی پیش نظر اس کو توسیع اور تعمیر نو کی ضرورت کو سمجھا اور آغا موصوف کو اسلام آباد آنے کی دعوت دی اور آپ اسلام آباد تشریف لے گئے اسی طرح علامہ شیخ محسن علی نجفی نے اس جامع مسجد کی تعمیر نو اور توسیعی پروگرام کے تحت ایک خوبصورت نقشہ بنوا کر آنا موصوف کے حوالہ کیا اور مالی تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی مزکورہ نقشہ اب انجمن امامیہ گلگت کے دفتر میں آویزاں ہے اور اسی طرح 1989 ء کے دوران آغا ضیاء الدین رضوی نے حوزہ علمیہ قم کو خیر باد کہہ کر شہر گلگت میں رہنے کا فیصلہ کیا اس لئے آپ نے مرکزی جامع مسجد کی خطابت کی ذمہ داری سنبھالا اور آغا عباس علی شاہ حسینی نجفی نائب خطیب اور صدر انجمن امامیہ گلگت کی ذمہ داری پر قائم رہے اور عبوری صدر کی حیثیت سے اپ نے پہلی مرتبہ اس کے دستور العمل پر عمل کر کے انجمن امامیہ گلگت کا جمہوری انداز میں انتخابات کرائے جو قابل تقلید بات ہے کیونکہ یہ انجمن کی تاریخ میں سیاہ دل کی تاریخ میں یہ اولین الیکشن تھا تھا اس میں گلگت کے سات مکسوہ کے نمائندوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھ اور اس جمہوری انتخابات کے نتیجے میں جناب محمد افضل خان صاحب صدر اور میجر حسین شاہ صاحب جنرل سکریٹری منتخب ہوئے تھے مگر ان کی یہ کا بینہ قبل از وقت احتجاجا مستعفی ہوئی اس استعفیٰ کے پس منظر میں ایک لمبی داستان پوشیدہ ہے اس لئے اس کو صرف نظر کرتا ہوں۔
تعمیر ملت پروگرام
آغا ضیاء الدین رضوی نے اس تعمیر ملت پروگرام کو ایک منظم انداز میں چلانا شروع کیا تھا چنانچہ افراد مقرر ہوئے اور دفتر بھی قائم ہوا تھا اور اس عظیم اقتصادی پروگرام کو وسعت دیگر جاری رکھا جائے اس دوران مقرر کردہ نمائندوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے اقتصادی پروگرام کمزور پڑھ گیا تو آپ نے مجبور ہو کر اس ادارے کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیا اور اس پروگرام کے تحت مزید زمینیں اور مکانات خریدے گئے اور اس دوران آغا موصوف نے جامع مسجد امامیہ گلگت کے مجوزہ نقشے کو مزید وسعت دیکر ایک بڑی یادگار مسجد کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا تو راقم نے تعمیر ملت پروگرام کے دفتر واقع مہربان پورہ میں ایک نجی اجلاس میں یہ تجویز دی تھی کہ مجوزہ نقشہ کے مطابق مسجد کو وسعت دی جائے اور باقی ماندہ رقم سے ایک امدادی فنڈ قائم کرکے تعلیم کے شعبے میں اچھے نمبر حاصل کرنے والے ذہین طلباء کے لیے قابل واپسی کے وظیفہ جات کے نام سے مدد کی جائے مگر یہ تجویز زیر غور نہیں لائی گئی مگر آپ نے ایک عظیم جامع مسجد تعمیر کر کے قوم کی ناک رکھ لی اسی طرح آغا ضیا الدین رضوی کی بے وقت شہادت کے بعد تعمیر ملت پروگرام بہت کمزور ہوا تھا اب حجتہ الاسلام والمسلمین آغا راحت حسین الحسینی نے اس اقتصادی پروگرام کی تحریک کو دوبارہ شروع کیا ہے اور اس پر کام ہو رہا ہے چنانچہ تعمیر ملت پروگرام آغا عباس علی شاہ نجفی اور آغا ضیا الدین رضوی کا تحفہ ہے اس کو زیادہ فعال اور ثمر بار بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے اس ملی پروگرام سے تعاون کرنا ایک صدقہ جاریہ ہے اور عالمی اقتصادی حالات کی روشنی میں آج اس ملی پروگرام کو ترقی و واجب ہو گیا ہے۔
نابغه روزگار
حجتہ الاسلام آغا ضیاء الدین رضوی اپنے خلوص نیت اور خدمت اسلام اور مکتب اہل بیت کی ترویج کے پر عزم جزبے کی بدولت سر زمین گلگت تاریخ میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہینگے آپ کے اندر موجود زہد و تقوی اور روحانی کمال کی خاص آپ کے والد بزرگوار آغا سید میر فاضل شاہ بھی المعروف عادل سید کی یاد کر فراموش کرایا تھا اسی طرح زہد و روحانیت میں آپ اپنے والد بزرگوار کے نعم البدل تھے اس لیے مئی 1988 ء کے سانحہ گلگت کے بعد قومی مرکز گلگت میں آپکا وجود ملت تشیع کے لیے باعث طمانیت تھا آپ کے اندر جذبوں کا سمندر تھا مگر آپ خاموش طبعت اور کم گو تھے یعنی موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں کے مصداق تھے آپ کوئی پیشہ مقرر نہیں تھے مگر بولنے لگتے تو خوب بولتے تھے اس طرح آپکی دینی فعالیت اور خلوص دیکھ کر عام لوگوں کو یقین ہو چلا تھا کہ آپ اپنے والد بزرگوار نانائے محترم کی طرح سیادت و روحانیت کے حوالے سے بلا تفریق آپ کی علمی اور روحانی زندگی کا فیض عارم جاری ہوا اور آپ جماعتی گروہ بندی سے الگ ہو کر سب کے لئے اسلام کے روحانی محور ہونگے کیونکہ روحانیت اور مذہبی قیادت کے حوالے سے آپ کی ذات سرزمین گلگت میں زہد و تقوی کے تناظر میں نابغہ روز تھی۔
عوامی حقوق کا دفاع
مگر مقامی خود مختار انتظامیہ کے زیر اثر اداروں اور نمک خوار لوگوں کی متعصبانہ روش کی وجہ سے آپ کے اس خاموش سمندر میں ارتعاش پیدا ہوا اور ان ناانصافیوں میں دن بدن اضافہ بھی ہو رہا تھا اس لیے آپ نماز جماعت و جمعہ اور دیگر مذہبی محافل ومجالس کے تبلیغاتی پروگراموں کے دوران علاقے کے مذہبی اور سیاسی مشکلات اور علاقائی قومی مسائل کے حوالے سے دو ٹوک بات کرنے لگے اور اعلی کلمہ حق سے نہیں ہچکچاتے تھے اور آپ کی اس طرز ادا کی وجہ سے لوگوں کو حوصلہ ملا اور مجبور و پریشان آپ کے سامنے پیش کرتے تھے اور آپ اپنے خطبات میں بیان کرتے تھے مگر ان مسائل کو کسی خاص طریقے سے اٹھانا چاہئے تھامگر اکثر ایسا نہیں ہوتا تھا اور اس طرح کے بیانات کے بعد مسائل میں روزانہ اضافہ ہو جاتا تھا چونکہ مقامی انتظامیہ اور اس کے اداروں میں ہونے والی یکطرفہ زیادتیوں کو ہدف تنقید بناتے تھے اس لئے وہ ضد میں آکر ان مشکلات میں اضافہ کر دیتے تھے پھر بھی خود مختار اور جانبدار انتظامیہ اور اس کے انتظامی اداروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑھ رہا تھا [5]۔
تحریک نصاب
تعلیم نصاب کے بارے میں شہید کا نظریہ: بنیادی قانون کے مطابق شیعہ اور سنی دونوں پاکستان کے رسمی مذہب ہیں۔ پاکستان کو شیعہ اور سنی دونوں نے مل کربنایا ہے۔ خصوصا شیعوں کی قربانیاں حصول پاکستان کے لئے کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ بنیادی قانون کے مطابق نصابی کتابوں کے اندر ہر دو فرقوں کے عقائد مندرج ہونے چاہیے۔ یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ کتابوں کے اندر ایسا درسی مواد لانے سے پرہیز کیا جائے جو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلائے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ۱۹۹۷ کے بعد پہلی کلاس سے لیکر یونیورسٹی تک تمام کتابوں میں اس قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نصابی کتابوں میں ایسے زہریلے افکاردرج کئے گئے ہیں کہ جو شیعہ عقائد کے خلاف ہیں [6]۔ 28 مئی 2004 کو عبوری صدرا انجمن امامیہ گلگت اور خطیب جامع مسجد امامی دنیور نے شاہراہ ریشم کے چوراہے پر عوام کے سامنے یہ اعلان کیا کہ ۳ جون سے احتجاج ہوگا اور سر پر کفن باندھ کر میدان عمل میں آنا ہے اور تخت یا تختہ ہوگا۔ ہر دور میں ملت شیعہ کے ساتھ ان چودہ سو سالوں کے دوران نا انصافی اور ظلم ہوتا آیا ہے اور ان مظالم سے مقابلہ کے لئے ائمہ معصومین کی سیرت اور ثقافت جعفریہ نے ہمیں ایک جامع اور واضح عمل پالیسی دی ہوئی ہے اس پالیسی کے مطابق عمل کرنے میں دو جہاں کی کامیابی و کامرانی یقینی ہے اور پورے پاکستان میں بھی مسئلہ اصلاح نصاب کے حوالے سے تحریکیں چلیں ہیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ چلتا رہیگا اور خاص بات ملت کو سنبھالا دینے کی خاطر صالح اور دانشمند قیادت کی زندگی کی بقاء سب امور سے اہم ہوتی ہے اور اپنے مقصد سے مخلص قیادت ہی اس جانب توجہ کرتی ہے اور مذہبی قیادت کی پالیسی فقط قرآن وسنت کی روشن اصولوں کے مطابق ہوتی ہے اور مجھے مسئلہ اصلاح نصاب کے مقابلے میں آغا سید ضیاء الدین رضوی کی حرمت اور زندگی کی فکر تھی اس دوران ہمدرد لوگوں نے بھی صرف دعا پر گزارہ کیا۔
گرفتاری
چنانچہ 3 جون 2004ء کی صبح نمودار ہوئی اور گلگت کے بلند و بالا پہاڑوں کے آوٹ سے سورج طلوع ہوا تو بگروٹ جلال آباد، اوشکھنداس، جوتل، جگلوٹ، رحیم آباد، نومل، نلتر اور دنیور سے کم از کم چار سے پانچ ہزار بچے جوان اور بوڑھے چائںا پل دنیور میں جمع ہوئے اور غیر منظم انداز میں گلگت شہر میں داخل ہو کر کرفیو اور آغا کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنا چاہتے تھے۔ اسی طرح دس بجے صبح جلال آباد سے حاجی شاہ مرزہ صاحب اور حاجی غلام نبی وفا کی طرف سے ٹیلیفون پر یہ پیغام ملا کہ آپ جا کر حالات سے ہمیں باخبر رکھیں اس لئے میں دنیور چوک پہنچا تو اطلاع ملی کی ریڈیو پاکستان کی گاڑی کو آگ لگا دی گئی ہے۔
تحريك نصاب کا پس منظر
مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مکتب اہل بیت کی ترویج اور ثقافت جعفریہ کی بقاء کی خاطر ربانی علماء نے ہر طرح کے جتن کئے ہیں چنانچہ 1963ء کے دوران سید محمد دہلوی نے ثقافت جعفریہ کے خلاف ہونے والے واقعات کے پیش نظر علماء اور دانشمندان ملت کے مشورے سے شیعہ مطالبات کمیٹی پاکستان کے نام پر ایک تنظیم بنائی جس کے چار نکات تھے مکتب تشیع کے لئے جدا گانہ نصاب تعلیم کی تدوین، زکواۃ وعشر کا مکتبی ادائیگی، جدا شیعہ اوقاف بورڈ کی تشکیل، اور تحفظ عزاداری سید الشہداء کی حکومتی ضمانت تھی انی چار نکات پر بھر پور انداز میں منظم طور پر تحریک چلائی گئی کراچی سے صوبہ سرحد اور بلوچستان سے گلگت و بلتستان تک یہ منتظم تحریک چلی اس حوالے سے 1965ء کے دوران احتجاج ہوا راقم نے ایک طالب علم کی حیثیت سے لاہور مال روڈ پر اس احتجاج میں شرکت کی تھی پس قومی وحدت کے ساتھ یہ تحریک چلی اور فوجی صدر جنرل محمد ایوب خان کی حکومت نے ملت شیعہ کے یہ سب مطالبات تسلیم کئے تھے اور ان کے حل کی خاطر سر کار سطح پر کام ہورہا تھا زکواۃ و عشر کے نوٹیفیکیشن کے علاوہ کراچی بورڈ میں الک نصاب تعلیم کا اجراء بھی ہوا تھا اس دوران علامہ سید محمد دہلوی کا انتقال ہوا اور آپ کی وفات حسرت آیات کے بعد پاکستان شیعہ مطالبات کمیٹی کا ذمہ داری جناب جسٹس سید جمیل حسین رضوی لاہور کے ذمہ لگادی گئی اسی طرح مطالبات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور ملکی سیاسی حالات فوجی اقتدار کی وجہ سے خراب ہوئے اور جنرل ضیاء الحق نے اپنی جنرلی صدارت کے دوان اسلام کے نام پر لوگوں سے زبردستی زکواۃ و عشر وصول کرنے کا اعلان کیا تو پاکستان بھر کے علماء کرام اور کابرین ملت تشیع نے متفقہ طور پر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے نام سے ایک منظم اور مربوط تنظیم کا اعلان کیا اور تنظیم کی سربراہی کے لیے مفتی جعفر حسین کے نام نامی کا انتخاب ہوا علم و عمل زہد و تقوی اور سیاست مدن کے حوالے سے آپ کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں راقم اور وزیر غلام عباس مرحوم اس تحریک کے پہلے ممبر ہوئے تھے اسی طرح صدر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور حکومت میں اپنے مذہبی حقوق کی خاطر دارالخلافہ اسلام آباد میں تاریخ کا سب سے بڑا احتجاجی اجتماع منعقد کیا گیا جہاں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اور اس تاریخی اجتماع کے بعد صدر ضیاء الحق کی مارشل لائی حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دیا اور زکواۃ وعشر کے حوالے سے ڈیکلریشن کا اجراء ہوا اور آج نیک اس پر عمل ہو رہاہے [7]۔
سیاسی خدمات
بدلہ نہ تیرے بعد بھی موضوع گفتگو تو جاچکا ہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے شهید سید ضیاء الدین رضوی بھی ان محسنین میں سے ایک ہیں جن کو ملت تشیع پاکستان بالعموم اور ملت تشیع گلگت و بلتستان بلخصوص ہمیشہ یاد رکھے گی، شہید ضياء الدین ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک فکر ایک جذبے، ایک حوصلے اور شعور کا ہیم ہے ۔ بقول قائد ملت جعفریہ آیت اللہ سید ساجد علی نقوی: شهید ضیاء الدین رضوی ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک پاکیزہ تحریک اور مشن کا نام ہے۔ شہید ضیاء الدین رضوی اک انسان کامل کا نمونہ اور ہمہ جہت شخصیت تھے جن کے زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے نمونہ عمل ہے ۔ چاہے وہ شہید کی زندگی کا سیاسی پہلو ہو، بھی یا اخلاقی پہلو ہو۔ شهید سید ضیاء الدین رضوی نے 1990 میں گلگت کی سرزمین پر اپنے قدم مبارک رکھے ۔ سید والا مقام نے اپنی بصیرت اور قابلیت سے تھوڑی مدت میں گلگت کے مومنین کو منسجم اور متحد کیا جامع مسجد گلگت میں اپنے شعلہ بیان خطیبوں کے ذریعے ملت کے مومنین کو روحانی طاقت بخشی اور مومنین کے دلوں کو جذبہ شہادت اور ایثار سے سرشار کیا۔ شہید کی مدبرانہ اور با بصیرت قیادت اور پالیسی کا نتیجہ 1994ء کے انتخابات میں دیکھا جاسکتا ہے۔
سیاسی میدان میں تحریک جعفریہ پاکستان کے پلیٹ فارم پر پوری شیعہ قوم کو متحد کیا اور گلگت بلتستان کونسل کے پہلے انتخابات میں ۲۴ نشتوں سے 8 نشستیں جیت کر بھر پور کامیابی حاصل کی ۔ اسی طرح ۱۹۹۹ کے قومی اسمبلی گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی شہید کی صدارت میں ٹی۔ جے۔ پی نے بھر پور کامیابی حاصل کر کے ملت جعفریہ گلگت بلتستان کو سرخرو کیا۔ 1999 کے بعد ملت تشیع کے خلاف ہر میدان میں ناکامی کے بعد حکومت میں ہے بیٹھے ہوئے اسلام اور پاکستان کے دشمن وہابی افکار نے سوچی سمجھی سازش کے تحت حکومتی نصاب تعلیم میں شیعہ عقائد کے خلاف ایسا مواد شامل کیا گیا جسکو پڑھنے پر شیعہ طالب علموں کو مجبور کیا گیا ۔ جیسے ہی شہید کو اس کے بارے میں علم ہوا شہید نے احساس ذمہ داری کرتے ہوئے ابتدائی نصابی کتابوں سے لے کر عالی درجے کی نصابی کتابوں سمٹ کا دقیق مطالعہ و تحقیق کرنے کے بعد ابتدائی مراحل میں گفت و شنید کے ذریعے پوری شیعہ قوم اور حکومتی ذمہ داروں کو آگاہ کیا کہ موجودہ نصاب تعلیم متنازعہ ہے جس میں ایک فرقے کی نمائندگی ہوتی ہے اور اس میں شیعہ عقائد کے خلاف مواد شامل ہے۔
شہید اور متنازعہ نصاب تعلیم
شہید متنازعہ نصاب تعلیم کے خللاف آواز بلند کرنا اور اس کی اصلاح کو اپنی شرقی ذمہ داری اور متنازعہ نصاب تعلیم کو زندگی اور موت کا مسلہ سمجھتے تھے ۔ شہید اپنی اکثر تقاریر اور خطبات میں فرمایا کرتے تھے کہ : موجودہ نصاب تعلیم کلاشنکوف کی کوئی سے بھی زیادہ خطر ناک ہے کیونکہ کلاشنکوف کی گولی صرف خاکی بدن کو نقصان پہنچا سکتی ہے لیکن متنازعہ نصاب تعلیم شیعہ فکر اور عقیدے کو نقصان پہنچایے ہے جو جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ ہمارا سلام ہو شہید سید ضیاء الدین کی بصیرت اور دور اندیشی کو شہید نے شیعیان حیدر کرار کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر کے سیاسی کامیابیاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور تعلیمی حوالے سے بھی بہت ساری خدمات انجام دیں ۔ اقتصادی حوالے سے تعمیر ملت پروگرام کے تحت شہداء کے گھروں کی کفالت ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور غریب طالب علموں کی مدد اور بے روزگار مومنین کی مدد کی۔ علمی میدان میں تحریک جعفریہ پاکستان کے پلیٹ فارم اور قائد ملت جعفریہ کی مدد سے المصطفیٰ پبلک سکول کے نام سے گلگت، نگر، بار گور جلال آباد، جھوٹ کالونی میں سکولز قائم کئے جن میں اب بھی ہزاروں شیعہ بچے علم کے نور سے منور ہو رہے ہیں [8]۔
شهادت کے عواقب و نتائج اور اثرات
چنانچہ 8 جنوری 2005ء کو دن کے سوا بارہ بجے کے قریب آپ کے گھر کے نزدیک آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اس حملے میں آپکا جان نثار ڈرائیور حسین اکبر شہید ہوا اور دہشت گردوں میں سے ایک قاتل کو ایک جانثار نے وہی گولی مار دی اس قاتلانہ حملے میں آپ کا ایک جان نثار محافظ تنور حسین بھی شدید زخمی ہوا لوگوں نے آغا ضیاء الدین رضوی اور آپ کے محافظ کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہسپتال گلگت پہنچا دیا اور اس بدترین ریاستی دہشت گردی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح گلگت اور اس کے اطراف میں پھیل گئی۔ بد قسمتی سے 8 جنوری کی دہشت گردی کے سانحہ کے موقعہ پر راقم گلگت میں جناب سید جعفر شاہ صاحب ایڈوکیٹ کے چیمبر میں بیٹھا ہوا تھا اور اس لرز خیز خبر کے سنتے ہی ہم لوگ ہسپتال کی طرف دوڑ گئے اور ہستپال کے باہر لوگوں کا جمع غفیر موجود تھا جذبات سے بھرے عقیدت مندوں کی آہ بکاء قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا حالات خراب ہوئے تو فوراً کرفیو لگا دیا گیا اور راقم بھی دس جنوری تک گلگت میں پھنسا رہا اور دس تاریخ کی رات کے بارہ بجے جناب حاجی صفدر علی صاحب کی توسط سے مجسٹریٹ اور پولیس موبائل مجھے دنیور چھوڑ گئے اس دوران زخمی آغا اور محافظ تنویر حسین کو بذریعہ ہیلی کاپٹر کمبائنڈ ملٹری ہسپتال راولپنڈی بنایا گیا چونکہ یہ خالق کا منشا تھا کہ ان شہیدوں کی روح سرزمین راولپنڈی میں قبض ہو چنانچہ 13 جنوری 2005 ، بروز جمعرات، رات کے تین بجے آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے میری تحقیق کے مطابق تنویر حسین کی شہادت تک آپ کی شہادت کو چھپایا گیا تھا ہم لوگوں نے اپنے رب سے دست بستہ ہو کر گڑھ گڑھا کر آغا کی زندگی کے لئے دعائیں مانگی تھی مگر آپ کی تمناء شہادت ہماری سلامتی کی دعاؤں پر حاوی ہوئی چنانچہ پاکستان ٹیلیویژن کے مختلف چینلز نے اچھا تک آپ کی شہادت کی دل ہلا دینے والی خبر نشر کیا اور اس اعلان غم کے بعد شمالی علاقہ جات گلگت کے ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی اور ہر آنکھ اشک بار تھی اور لوگ زار و قطار رو رہے تھے
اس دوران گلگت مرکز کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی کہ دونوں شہیداء کے جنازے دنیور لائے جائنگے اور دنیور جامع مسجد امامیہ میں نماز جنازہ ہوگی اس کے بعد گلگت میں تدفین عمل میں لائی جائیگی اس غیر متوقع اطلاع کے بعد مومنین دنیور نے خلوص عقیدت کے ساتھ دو عدد خصوصی صندوق راتوں رات تیار کرا کر ملٹری ہیلی پیڈ گلگت بیچ دیا تا کہ ان دونوں شہداء کے جنازے دنیور لائے جائیں چنانچہ جوانوں نے جامع مسجد امامیہ دنیور کے صحن کے علاوہ ملحقہ شاہراہ ریشم کو بھی باوجود یخ بستہ سردی کے پانی سے دھو کر صاف کر کے اطراف میں عود و عنبر کے دھویں سے معطر کر دیا تھا اس طرح آپ کی زندگی کی طرح آپ کی شہادت کے بعد بھی لوگوں نے بھرپور عقیدت مندی کا خاص مظاہرہ کیا تھا چنانچہ دنیور میں نماز جنازہ کی خبر سن کر حلقہ3 کے علاوہ نومل، نلتر، نگر اور ہنزہ سے بھی عقیدت مند جامع مسجد امامیہ دنیور میں حاضر ہوئے تھے جمعے کا دن تھا راقم نے نماز جمعہ کی امامت کرائی اور نماز جمعہ کے بعد تین دن احتجاجی شٹر ڈاؤں سات دن مجالس عزا الشہید امام حسین علیہ السلام کا انعقاد اور چالیس دن عام سوگ کا اعلان کیا اور اسی طرح غم واندوہ کے ساتھ انتظار میں تھے پس ایک پس پردہ حالات بدل گئے اور دوبارہ اطلاع دی گئی کہ نماز جنازہ گلگت میں ہوگی اور لوگوں کے لئے سواریوں کا بندوبست بھی ہوگا لہذا سب لوگ جامع مسجد امامیہ گلگت آئیں اس ادل بدل کے پس پردہ کچھ محرکات تھے اور اس ہنگامہ محشر میں یہ ایک عجیب اعلان تھا کیونکہ گلگت شہر میں سخت کرفیو تھا میں نے خود چائنا پل دنیور سے تحصیل چوک گلگت تک آرمی رینجرز ایف سی اور پولیس کے 19 چیک پوسٹ دیکھے تھے اس ہنگامہ خیز موقعہ پر حکومت جانے بھی نہ دیتی اور لوگوں کا خالی ہاتھ بلانا بھی غلط تھا چنانچہ اس غیر منطقی اعلان کے بعد راقم عزیزم مولانا میر عباس مصطفوی سے ناراض ہوا اور صدر انجمن امامیہ گلگت سے رابطہ کرکے بہت سخت ناراض ہو کر کہا کہ یہ کیا تماشہ ہے کہ آپ لوگ عقیدت مندوں اور شہداء کے جنازوں سے مزاق کر رہے ہو کل رات سے آج بارہ بجے تک دنیور میں نماز جنازے کا پروگرام تھا مگر عین موقعہ پر پروگرام کو اچانک تبدیل کرنا بڑی زیادتی ہے یہ غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے چنانچہ میری اس خطی پر صدر موصوف نے کہا کہ گلگت غسل و تکفین کے بعد آغا شہید کا جنازہ دنیور لانا مناسب نہ تھا چونکہ عقیدت تدوں کا غم و غصہ اور آہ و بکا اپنے عروج پر تھا اس بے محل اعلان کے بعد لوگ گلگت انے کے لئے بے تاب تھے اس لئے کچھ لوگ اپنی سواریوں میں بیٹھ کر گلگت کی لئے شاہراہ ریشم پر نکل چکے تھے اور دو گنا سے زیادہ لوگ پریشان حال صرف جانے کے لئے جامع مسجد دنیور اور سٹرکوں پر کھڑے تھے چنانچہ ہم لوگوں نے روانہ ہونے والوں کا راستہ روک کر حالات کی نزاکت کو سمجھانے کی بھر پور کوشش کی اور ہم لوگوں سے اس کوشش کی، عقیدت مند لوگ مان گئے اور غم و غصہ اور اظہار بیزاری کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں کی طرف جانے لگے مگر علماء کرام اور نمائندہ معززین کو کرفیو انتظامیہ کی خصوصی اجازت پر نماز جنازہ میں شرکت کا موقعہ فراہم کیا گیا اسی طرح راقم ان انتظامی مسائل میں پھنس کر شہید کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکا اس کے علاوہ گلگت کے مخدوش حالات کی وجہ سے حلقہ نمبر 3 نگر و ہنزہ سے لوگ آکر ظہار تعزیت کرتے تھے چنانچہ مجالس ترحیم کا سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں سلسلہ تین دن تک ہر امام بارگاہ میں جاری رہا اور تیسرے دن شہید ضیاء الدین رضوی اور آپ کے وفا دار ساتھیوں کے ام نیاز و خیرات کا اہتمام کیا گیا اور اس خیرات میں دنیور کے اسماعیلیہ کونسل کی طرف سے بھی حصہ ڈالا گیا ۔ اور اس سوئم کی نیاز میں بڑی تعداد میں شریک ہو کر ہمیں حوصلہ دیا چنانچہ اس غم واندوہ کی کٹھن موقع پر نہایت خلوص کے ساتھ شرکت ما تعاون نے ہمارے دکھوں کو کم کرنے میں مدد دیا میں حلقہ نمبر ۳ کے اسماعیلی برادری اور ان کے مذہبی نمائندوں کی طرف سے جس خلوص و ہمدردی کے ساتھ مکتب شیعہ اثنا عشری اور شہید آغا ضیاء الدین رضوی کے خاندان سے تعزیت و تسلیت پر میں اپنی طرف سے اور شہید کے خاندان کی طرف سے اور ملت شیعہ اثنا عشریہ کی طرف سے اس تحریر کے توسط سے انکا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اس سانحہ فاجعہ میں ہمارے دکھ درد اور غم والم میں برابر کے شریک ہوئے [9]۔
حوالہ جات
- ↑ غلام حسین انجم دینوری، شیعیت گلگت میں، خیر الناس ویلفیر ٹرسٹ دینور گلگت، 2006ء،ص249
- ↑ غلام حسین انجم، اسلام گلگت میں، 1194ء،ص88
- ↑ غلام حسین انجم، شہید ضياء الدین رضوی، خیر الناس ویلفیر ٹرسٹ گلگت، 2008ء، ص118
- ↑ ایضا،ص127
- ↑ ایضا، ص141
- ↑ عین الحیات، مختصر حالات زندگی ، علامہ شہید ضیاء الدین رضوی، wifaqtimes.com
- ↑ ایضا، ص156
- ↑ اجمل حسین قاسمی، شہید ضیاء الدین رضوی کا فکر، مجلہ سلسبیل، شمارہ1، 2021ء،ص55-56
- ↑ ایضا، ص165