ناصر ابو شریف
ناصر ابو شریف | |
---|---|
![]() | |
دوسرے نام | عبد الناصر شریف محمد سعید عبد الرحمن |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1966 ء، 1344 ش، 1385 ق |
یوم پیدائش | 14 جنوری |
پیدائش کی جگہ | فلسطین، طولکرم |
مذہب | اسلام، سنی |
مناصب | فلسطین کی اسلامی جہاد موومنٹ کے نمائندہ |
ناصر ابو شریف (14 جنوری ، 1966 ء)ایک فلسطینی سیاستدان ، فلسطینی شہر طولكرم میں پیدا ہوا تھا ، اور وہ 2007ء سے ایران میں رہتا ہے۔ ناصر ابو شریف فلسطینی اسلامی جہاد کی تحریک کے سب سے نمایاں رہنماؤں میں سے ایک ہے ، اور اس تحریک کے سیاسی بیورو میں بھی ایک ممبر ، اور ساتھ ہی ایران میں اس تحریک کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور برطانیہ نے اس پر پابندیاں عائد کیں۔ ایران میں فلسطین کی اسلامی جہاد موومنٹ کے نمائندے نے کہا ہے کہ تہران کی جانب سے صہیونی رژیم کے خفیہ دستاویزات تک رسائی نے تل ابیب میں ایک سکیورٹی زلزلہ برپا کر دیا ہے اور یہ واقعہ مزاحمتی محور کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ ایران نے مقبوضہ فلسطین میں سکیورٹی بھونچال بپا کر دیا؛ 'میڈلین' یکجہتی کی علامت ہے۔
سوانح عمری
ناصر ابو شریف 14 جنوری ، 1966 کو فلسطینی شہر طلکرم میں پیدا ہوئے تھا۔ اس کا پورا عبد الناصر شریف محمد سعید عبد الرحمن ہے۔
تعلیم
اس نے اپنے شہر کے اسکولوں ،طلکرم میں تعلیم حاصل کی تھی ، اور اس نے ہائی اسکول ختم کرنے کے بعد، یونیورسٹی فیزیک کے شعبہ میں داخلہ لیا اور 1985ء میں اپنے دوسرے تعلیمی سال میں ، اسرائیل اسے اسلامی جہاد کی تحریک سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور اسرائیل کے خلاف فوجی کارروائیوں کو پیش کیا تھا اور اسے 13 سال قید میں سزا سنائی تھی۔ پھر اردن کے حکام نے اسے عراق میں بدر کردیا اور وہاں اس نے فقہ اور اس کے اصولوں کے شعبے میں بغداد میں واقع اسلامی یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کی۔
سیاسی سرگرمیاں
وہ 2006ء تک عراق میں ہی رہے ، پھر وہ اسلامی جہاد موومنٹ کے سیاسی بیورو کے ممبر کی حیثیت سے شام منتقل ہوگئے اور ایک سال وہاں رہے ، اور 2007ء میں وہ اس تحریک کے سیاسی بیورو میں اسلامی جمہوریہ ایران میں اس تحریک کے نمائندے کے عہدے پر فائز رہے اور وہ اس تحریک کے سب سے زیادہ معروف افراد میں شامل تھے۔ اس تحریک کے لئے ، اور یہ کہ ایرانی انقلابی محافظوں نے حماس کے ممبروں اور ایران میں اسلامی جہاد کی تحریک کو غزہ کی پٹی میں واپسی کے بعد میزائل تیار کرنے کی تربیت دی۔
کیونکہ آج ہم ایرانی حمایت کی بدولت ڈرون بنا رہے ہیں۔ ایران ، فلسطین ، شام ، لبنان ، عراق اور یمن کے علاقوں میں پھیلائی جانے والی مزاحمت کے محور کے طور پر جانا جاتا ہے ، اس کو قائم کرنے ، ترقی اور وسعت دینے میں ایک حصص یافتگان ، جو اسرائیل کے سب سے زیادہ مطلوب لوگوں میں سے ایک ہے۔ اس کی وسیع سیاسی اور فوجی سرگرمیوں کے لئے ، کیوں کہ اسرائیلی حلقوں نے انہیں دہشت گردی کا قائد قرار دیا ہے۔
یوم القدس عالمی یکجہتی کا ایک سنہری موقع ہے
تہران میں فلسطین کی اسلامی جہاد موومنٹ کے نمائندے نے کہا کہ یوم القدس اتحاد پیدا کرنے کا سنہری موقع ہے، اس دن امت مسلمہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے خدا سے اپنے عہد کی تجدید کرتی ہے۔ یوم القدس نے خطے میں اسلامی مزاحمت کو متحد اور مضبوط کیا ہے۔ مزاحمت کی تمام شاخیں سنی اور شیعہ دونوں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ القدس اور فلسطین کی آزادی کا واحد راستہ مقبوضہ فلسطین کے غاصبوں کے خلاف مزاحمت کرنا ہے۔
عالمی یوم القدس امریکہ اور صیہونی حکومت کی تمام شرارتوں کو بے نقاب کرنے کا دن ہے اور اس دن ظلم و ستم کے خلاف انسانی ضمیر کو بیدار کیا جاتا ہے۔ بعض اسلامی ممالک کے سربراہان فلسطینی کاز سے لاتعلق ہیں اور اپنی خاموشی سے ظالم اور غاصب صیہونی حکومت کی حمایت کرتے ہیں، جب کہ امام خمینی (رہ) کے مطابق اگر مسلمان متحد ہو جائیں اور ہر مسلمان ایک ایک بالٹی پانی ڈالے تو صیہونی حکومت ڈوب جائے گی۔
عالمی یوم القدس مسلمانوں کے اتحاد کو ظاہر کرنے کا ایک سنہری موقع ہے تاکہ دنیا کو دکھایا جائے کہ وہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوں گے۔ تاہم اس سال کا یوم القدس خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ طوفان الاقصیٰ آپریشن، غزہ جنگ بندی معاہدہ، ٹرمپ کا فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا منصوبہ اور امریکہ اور یورپی ممالک کی صیہونی رژیم کی حمایت کے خلاف ان ممالک کے طلباء کا احتجاج اس سال کے بڑے واقعات ہیں۔
ابو شریف نے کہا کہ اس سال کا یوم القدس فلسطینی محور کے گرد تمام کوششوں کو یکجا کرنے کا موقع ہے، تمام نگاہیں قدس پر مرکوز ہونی چاہئیں اور ٹرمپ کی غنڈہ گردی کے خلاف اسلامی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے۔ ہم عرب حکومتوں کے ٹوٹنے کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جن میں سے کچھ نہ صرف ذلت و رسوائی کے شکار ہیں بلکہ مسئلہ فلسطین سے خیانت کی مرتکب ہوئی ہیں۔ اسلامی جہاد موومنٹ کے نمائندے نے کہا کہ موجودہ حالات میں ہمیں عوامی طاقت پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اپنی طاقت کے اجزاء کو از سرنو مربوط کریں، کیونکہ دنیا میں ہم اکثریت میں ہیں اقلیت میں نہیں۔
ہم امریکی صیہونی منصوبوں کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اندرونی جھگڑوں کے خول سے نکلنا ہوگا، یوم القدس اتحاد پیدا کرنے کا دن ہے۔ یوم قدس کے موقع پر امت مسلمہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے خدا کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید کرتی ہے۔ ناصر ابو شریف نے مزید کہا کہ امام خمینی (رح) نے عالمی یوم القدس منانے کا حکم دے کر انسانیت کے سامنے ایک اسلامی منصوبہ پیش کیا، یوم القدس اسلامی فکر پر مبنی دعوت ہے جو زندگی کی رہنمائی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین سیاسی اور تزویراتی لحاظ سے ایک اہم مسئلہ ہے جو سب کو متحد کر سکتا ہے۔ قدس کوئی عام جغرافیہ نہیں ہے۔ قدس دنیا میں مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور اسے مذہبی حیثیت حاصل ہے۔ قدس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کی جگہ ہے۔ قدس امت اسلامیہ اور صیہونیوں کے درمیان عالمی تنازعات کا مرکز ہے۔ قدس امریکی صیہونی پالیسیوں کے خلاف عالم اسلام کی طاقت کے منتشر عناصر کو یکجا کر سکتا ہے[1]۔
ایران نے مقبوضہ فلسطین میں سکیورٹی بھونچال بپا کر دیا؛ 'میڈلین' یکجہتی کی علامت ہے
غزہ کا محاصرہ توڑنے کی عالمی مہم کے لئے سفر کرنے والی کشتی میڈلین یکم جون 2025 کو اٹلی کی بندرگاہ کاتانیا سے غزہ کے لیے روانہ ہوئی۔ کشتی پر موجود کارکنان نے بغیر کسی سیاسی اور عسکری ہتھیار کے، صرف بہادری، یکجہتی اور انسان دوستی کے جذبے کے ساتھ غزہ کی پٹی کی جانب سفر کیا تاکہ دنیا کو یہ اخلاقی اور انسانی پیغام پہنچائیں کہ "غزہ تنہا نہیں" اور "مظلوموں کو فراموش نہیں کیا جائے گا۔
جب کہ اس وقت کئی حکومتیں اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کی بنا پر فلسطین کی حمایت اور صہیونی رژیم کی مذمت میں واضح موقف اختیار نہیں کر رہیں تھیں۔ میڈلین کے مسافروں کو چند روز قبل غزہ پہنچنے سے قبل، بین الاقوامی پانیوں میں صہیونی رژیم نے گرفتار کر لیا اور انہیں بن گورین ائرپورٹ منتقل کر کے ان کے ممالک کو واپس بھیجنے کی کوشش کی گئی۔ اسی سلسلے میں، مہر کی رپورٹر نے فلسطین کی اسلامی جہاد موومنٹ کے نمائندے ناصر ابو شریف سے میڈلین کی ضبطی، تیونس سے غزہ کی جانب مارچ اور ایران کی صہیونی قابضوں پر زبردست اطلاعاتی کامیابی کے بارے میں گفتگو کی، جس کی تفصیلات ذیل میںپیش کی جا رہی ہیں:
صہیونی رژیم نے ایک غیر عسکری کشتی اور اس کے مسافروں کو کس بنیاد پر روک لیا؟
قابض صہیونی فوجیوں نے پیر کی صبح بین الاقوامی پانیوں میں کشتی «میڈلین» پر حملہ کیا اور اس کے 12 مسافروں کو جبراً حراست میں لے لیا۔ قابضین کی طرف سے جاری کردہ تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے مسلح فوجیوں نے بین الاقوامی کارکنان کو ہاتھ اٹھانے پر مجبور کیا۔
یہ جارحانہ کارروائی بین الاقوامی پانیوں میں ایک واضح بحری قزاقی اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے، کیونکہ دشمن نے انسانی حقوق کے فعال کارکنوں کو اغوا کیا۔ اس گرفتاری کی اصل وجہ صہیونی رژیم کی غزہ کے ظالمانہ محاصرے کو توڑنے کی کسی بھی کوشش کو روکنے کی شدید خواہش ہے۔
دشمن ہر انسانی یکجہتی کی حرکت کو اپنے منصوبوں کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور سختی سے اسے دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ دشمن کے فوجیوں نے میڈلین پر سفاکانہ فوجی طریقے استعمال کیے تاکہ یہ انسانی مشن ناکام ہو جائے۔ قابضین نے بین الاقوامی پانیوں میں یورپی شہریوں کو اغوا کیا جبکہ یورپی حکومتیں شرمناک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
غزہ کا مسئلہ آزاد قوموں کے وجدان میں زندہ ہے
کشتی میڈلین کہ جس میں مختلف یورپی اور عالمی قومیتوں کے 12 پرامن رضاکار اور انسانی حقوق کے فعال کارکن شامل تھے، فلسطین کے حامیوں کے لیے دنیا بھر میں کیا پیغام رکھتی ہے؟ دشمن کی قزاقی کے باوجود، میڈلین کی یہ مہم اور اس کا غزہ کے ساحل تک پہنچنا فلسطین کے حامیوں کے لیے گہرا معنی رکھتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ غزہ تنہا نہیں ہے؛ آزادی کے متوالوں نے پوری دنیا سے محاصرہ توڑنے اور صہیونی ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا عزم کر رکھا ہے۔
میڈلین اٹلی سے روانہ ہوئی اور اس میں مختلف قومیتوں کے فعالین شامل تھے۔ غزہ کا مسئلہ آزاد قوموں کے وجدان میں زندہ ہے، چاہے بعض حکومتیں سازش میں شریک ہوں۔ فلسطینی مزاحمت کی مستقل مزاجی نے عالمی حمایت میں اضافہ کیا ہے۔
میڈلین کا سب سے اہم پیغام فلسطین کے حامیوں کے لیے یہی ہے کہ حوصلہ نہ ہاریں اور جدوجہد جاری رکھیں۔ اس کشتی میں فلسطین کا پرچم لہرا رہا تھا جو محاصرے کو توڑنے کا عزم کرنے والے آزادی پسندوں کو دلوں کو گرماتا ہے اور یقین دلاتا ہے ہے کہ حق کے ساتھ کھڑا ہونا ممکن ہے، چاہے خطرات کچھ بھی ہوں۔
انسانی حقوق کے فعال کارکنوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر دنیا کو دکھا دیا کہ عالمی ضمیر زندہ ہے۔ ہم میڈلین کا یہ پیغام واضح سمجھتے ہیں: حمایت اور یکجہتی جاری رکھیں، کیونکہ آزاد قوموں کی ارادے سے محاصرے کو توڑا جا سکتا ہے، اور یہ مزاحمتی محور کی مضبوطی جب کہ صہیونی رژیم کو تنہا کرنے اور اس کے جرائم کو بے نقاب کرنے کا واحد راستہ ہے۔
محاصرہ جلد یا بدیر ٹوٹ جائے گا
غاصب اسرائیل نے 2010 سے اب تک 36 سے زائد جہازوں کو روک کر یا قبضہ کرکے غزہ کے محاصرے کو توڑنے کی کوششوں کو ناکام بنایا ہے، ان میں سب سے مشہور جہاز "مرمرہ" تھا، اسرائیل آزادی کشتیوں کو کیوں قبضے میں لیتا ہے؟ اسرائیل کی یہ کارروائیاں ایک مستقل حکمت عملی کا حصہ ہیں تاکہ وہ غزہ کے دو لاکھ سے زائد شہریوں پر 17 سال سے جاری ظالمانہ محاصرے کو برقرار رکھ سکے۔
اسرائیلی حکام ہر ممکن طریقے سے شہری امدادی جہازوں اور عالمی یکجہتی کی کوششوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ امداد کو جنگی ہتھیاروں میں تبدیل کرنے کے دعوے کرتے ہیں، لیکن اصل مقصد محاصرہ کو مضبوط کرنا اور فلسطینیوں کی مزاحمت کو توڑنا ہے۔ اس کے لیے وہ طاقت کے بے تحاشا استعمال اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی سے بھی گریز نہیں کرتے۔
غزہ کی پٹی 2007 سے محاصرے کی زد میں ہے اور یہ محاصرہ گزشتہ 18 مہینوں بالخصوص گزشتہ 3 ماہ میں اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔ اگر فریڈم فلوٹیلا اتحاد کے بحری جہاز غزہ کے ساحل پر پہنچ جاتے ہیں، تو پٹی کی جامع ناکہ بندی ٹوٹ جائے گی، جس سے انسانی امداد لے جانے والے اگلے جہازوں کے لیے راستہ ہموار ہو جائے گا، کیا غزہ کی محاصرے کو توڑا جا سکے گا؟
ہم مطمئن ہیں کہ یہ محاصرہ جلد یا بدیر ٹوٹ جائے گا، غزہ کے محاصرے سے فلسطینیوں کی ہمت اور حوصلہ کبھی کم نہیں ہوا بلکہ ایک مضبوط اور پرعزم نسل ابھر کر سامنے آئی ہے جس نے متعدد جنگی مراحل میں اسرائیل کو نقصان پہنچایا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں اسرائیل نے کئی بار محاصرے کو سخت کیا، مگر فلسطینی عوام ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔
جہاد اسلامی اور مزاحمتی قوتیں محاصرے کے خاتمے کو اپنا اولین ہدف مانتی ہیں۔ وہ ایران کی قیادت میں محاذ سے بھرپور سیاسی، میڈیا اور لوجسٹک مدد حاصل کر رہی ہیں۔ مختلف ممالک سے آنے والے امدادی جہازوں اور عوامی یکجہتی کی مہمات سے امید ہے کہ محاصرے کو توڑا جائے گا اور فلسطینی عوام کو حق زندگی ملے گا۔
مزاحمت کی مضبوطی اور عالمی حمایت کے باعث اسرائیل کو اپنی جارحیت روکنی پڑے گی اور آخرکار محاصرے کو ختم کرنا ہوگا۔ یہ فتح فلسطینی عوام کی قربانیوں اور عالمی یکجہتی کی کامیابی ہوگی۔
تیونس کا یہ بہادر کاروان غزہ کے عوام کو حمایت اور پیغام پہنچا چکا ہے۔ تیونس کے عوام نے غزہ کی آواز پر لبیک کہا اور محاصرے کو توڑنے کے لیے کاروان بھیجا، جو عرب قوم کی زندہ دلی اور دشمن کے ظلم کے خلاف مزاحمت کا ثبوت ہے، اگر اس کاروان پر حملہ کریں یا اسے ناکام بنائیں تو یہ ان کے ظالمانہ ریکارڈ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ ہوگا اور یہ اقدام آزادی پسندوں کی ہمت اور ظلم کے خلاف عزم کو مزید مضبوط کرے گا۔ ہم صیہونی رژیم کو اس کاروان اور اس کے سامان کی حفاظت کا ذمہ دار صیہونی سمجھتے ہیں اور ہر قسم کی جارحیت کی سخت مذمت کرتے ہیں۔
مصر اور دیگر متعلقہ ممالک سے درخواست ہے کہ وہ کاروان کی آمد و رفت کو آسان بنائیں اور یقینی بنائیں کہ امداد غزہ کے عوام تک پہنچے۔ یہ کاروان اور دیگر محاصرے کو توڑنے کی کوششیں بنیادی طور پر انسانی اور اخلاقی مشن ہیں اور ان پر حملہ انسانی اقدار کی خلاف ورزی ہے۔ دشمن کی رکاوٹیں ہمیں اس راستے سے باز نہیں رکھ سکتیں۔
مہر نیوز: 7 جون کو ایران کی انٹیلی جنس نے صیہونی حکومت سے بڑی مقدار میں اسٹریٹجک اور حساس معلومات اور دستاویزات حاصل کی ہیں جن میں اس حکومت کے ایٹمی منصوبوں اور تنصیبات سے متعلق ہزاروں دستاویزات بھی شامل ہیں۔ قابض حکومت کو ایرانی انٹیلی جنس کے ہاتھوں پہنچنے والے اس صدمے کے بارے میں آپ کا کیا کہیں گے؟
ایران کے اطلاعاتی ادارے نے اسرائیل کی حساس معلومات تک رسائی حاصل کی، جن میں ہزاروں دستاویزات شامل ہیں جو اسرائیل کے جوہری اور فوجی منصوبوں سے متعلق ہیں۔ اس کامیابی کو ہم محور مقاومت کے لیے ایک بڑی اسٹریٹجک فتح سمجھتے ہیں۔
ہم اس کامیابی کو محور مقاومت کی یکجہتی اور اس جنگ میں ایران کی نمایاں پیشرفت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ دشمن کی طاقت ناقابل شکست نہیں اور ہماری مزاحمت جاری رہے گی۔ یہ اطلاعاتی رخنہ نہ صرف دشمن کی عسکری اور سیکورٹی صلاحیتوں کو نقصان پہنچائے گا بلکہ اسرائیل کو یہ پیغام بھی دے گا کہ اس کے جرائم اور مظالم کا جواب دیا جائے گا۔ ایک ایسا دشمن جس کا سکیورٹی نظام کمزور ہو رہے ہیں، دشمن زوال پذیر ہے[2]۔
مقاومت کی فتح یقینی ہے، رہبر انقلاب کے بیانات اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ہیں
ایران میں تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے نمائندے نے کہا ہے کہ نماز جمعہ کے خطبے میں رہبر معظم نے حساس حالات میں انتہائی اہم گفتگو کی۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فلسطینی تنظیم تحریک جہاد اسلامی کے ایران میں نمائندے ناصر ابوشریف نے کہا ہے کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے خطے کی کشیدہ صورتحال کے مطابق اہم گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ رہبر معظم نے امت مسلمہ کو دشمن شناسی کی تاکید کی۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مشرق وسطی میں صہیونی حکومت کے جرائم سے پردہ اٹھایا اور کہا کہ صرف فلسطین، لبنان، شام اور عراق صہیونی حکومت کا ہدف نہیں بلکہ پورے مسلمان ممالک امریکہ اور صہیونیوں کے نشانے پر ہیں۔
ناصر ابوشریف نے مزید کہا کہ رہبر معظم نے مقاومت کی راہ میں صبر و تحمل سے کام لینے کی تاکید کی۔ انہوں نے مقاومت کی کامیابی کو حتمی قرار دیا کیونکہ یہی اللہ کا بھی وعدہ ہے۔ مقاومت کی راہ میں ہم نے دولت، اولاد اور رہنماوں کو قربان کردیا لیکن اس کے باوجود اس راہ کو جاری رکھیں گے۔ یہ ایک الہی جنگ ہے لہذا کامیابی حتمی ہے۔
تحریک جہاد اسلامی کے نمائندے نے کہا کہ رہبر معظم نے عالم اسلام اور مقاومتی بلاک کو اپنے پیغام میں کہا کہ سید حسن نصراللہ سمیت مقاومتی رہنماوں کی شہادت نے ہمیں سوگوار کردیا اور ہمارے دل غمگین ہیں۔ ہماری جنگ ایمان کی جنگ ہے اس میں ہم ہی کامیاب ہوں گے۔ ہمیں اس امتحان الہی میں کامیاب ہونا ہوگا[3]۔
ایران واحد ملک ہے جو فلسطینی عوام کی مزاحمت کی حمایت کرتا ہے
ایران میں فلسطین کی اسلامی جہاد موومنٹ کے نمائندے نے کہا کہ فلسطینی عوام کی حمایت میں ایران کا کردار بہت عظیم ہے۔ ایران واحد ملک ہے جو عملی طور پر فلسطین کی مسلح مزاحمت کی حمایت کرتا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران میں فلسطین کی اسلامی جہاد موومنٹ کے نمائندے نے کہا کہ فلسطینی عوام کی حمایت میں ایران کا کردار بہت عظیم ہے۔ ایران واحد ملک ہے جو عملی طور پر فلسطین کی مسلح مزاحمت کی حمایت کرتا ہے جب کہ تمام بین الاقوامی قوانین جبر اور قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کے حق مزاحمت کو تسلیم کرتے ہیں۔"
لیکن دیگر ممالک نہ صرف فلسطینی عوام کے مزاحمت کے حق کی حمایت نہیں کرتے بلکہ وہ سیدھے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں جو فلسطینی سرزمین پر قابض ہے اور فلسطینی عوام کے خلاف ہر قسم کی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ ایران نے نہ صرف فلسطینی عوام کی اخلاقی بلکہ عملی طور پر بھی حمایت کی ہے۔ مزاحمتی مجاہدین کی مسلح تربیت سے لے کر مادی اور روحانی مدد ایران کے علاوہ کسی نے نہیں کی۔" فلسطین اور اس کی مزاحمت کی حمایت ایران کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی اور ایران آج بھی خطے میں مزاحمت کا بنیادی محور ہے[4]۔
شہید سلیمانی بیت المقدس کی آزادی کے لئے جدوجہد کو دینی فریضہ سمجھتے تھے
فلسطین کی اسلامی جہاد موومنٹ کے نمائندے نے شہید قاسم سلیمانی کے حوالے سے کہا کہ ہماری آخری ملاقات میں انہوں نے فلسطین میں غیر فعال جماعتوں کے بارے میں کہا کہ قیامت کے دن ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے قدس کے لئے کیا کیا؟ مہر نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ایران میں فلسطین کی تحریک اسلامی جہاد کے نمائندے ناصر ابو شریف نے خطے کی عسکری مساوات میں شہید لیفٹیننٹ جنرل حاج قاسم سلیمانی کے کردار کے بارے میں بتایا۔
انہوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی مزاحمتی محور کی اہم شخصیت کے طور پر خطے کی عسکری حرکیات میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ناصر ابو شریف نے واضح کیا کہ مزاحمت ایک ایسا محور ہے جو بعض اہداف اور اصولوں کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا تھا جن میں سب سے اہم مقصد خطے میں صیہونی رجیم اور امریکہ کے تسلط کا مقابلہ اور فلسطین کی آزادی کے لئے جد و جہد کرنا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہید سلیمانی نے مختلف مزاحمتی گروہوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے انہیں فعال کیا تاکہ متحد ہو کر قابض رجیم کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اسلامی جہاد کے رہنما نے مزید کہا کہ اگر مزاحمتی محور کی موجودہ صلاحیتیں نہ ہوتیں تو ان عالمی شیطانی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ شہید سلیمانی نے یقینی طور پر اس محور کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں شہید سلیمانی کے بارے میں بتایا کہ حاج قاسم بے پناہ قوت ارادی اور پختہ عزم کے مالک تھے۔ وہ ایک حیرت انگیز انسان تھے جن کی اعلیٰ جنگی حکمت عملی اور منصوبہ بندی دشمن کو بے بس کر دیتی تھی اور وہ ہر وقت میدان میں موجود رہتے تھے۔
ایران میں فلسطین کی مزاحمتی تحریک کے نمائندے نے مزید کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نے ایک ملاقات کے دوران مسئلہ فلسطین کے بارے میں غیر فعال جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: قیامت کے دن ہم سے اس بارے میں پوچھا جائے گا کہ تم نے بیت المقدس کی آزادی کے لئے کیا کیا؟[5]۔
متعلقه تلاشیں
حوالہ جات
- ↑ یوم القدس عالمی یکجہتی کا ایک سنہری موقع ہے- شائع شدہ از: 28 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 جون 2025ء
- ↑ ایران نے مقبوضہ فلسطین میں سکیورٹی بھونچال بپا کر دیا؛ 'میڈلین' یکجہتی کی علامت ہے-شائع شدہ از: 11 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 جون 2025ء
- ↑ مقاومت کی فتح یقینی ہے، رہبر انقلاب کے بیانات اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ہیں- شائع شدہ از: 6 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 جون 2025ء
- ↑ ایران واحد ملک ہے جو فلسطینی عوام کی مزاحمت کی حمایت کرتا ہے، ناصر ابوشریف-شائع شدہ از: 23 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 جون 2025ء
- ↑ شہید سلیمانی بیت المقدس کی آزادی کے لئے جدوجہد کو دینی فریضہ سمجھتے تھے، فلسطینی رہنما-شائع شدہ از:2 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 جون 2025ء