شام

ویکی‌وحدت سے
(سوریہ سے رجوع مکرر)
شام
پرچم سوریه.jpg
پورا نامالجہوریہ العربیہ السوریہ
طرز حکمرانیپارلیمانی جمہوریہ
دارالحکومتدمشق
مذہباسلام
سرکاری زبانعربی

شام (عربی سوریہ) مغربی ایشیا کا ایک بڑا اور تاریخی ملک ہے۔ شام اسلامی ممالک میں سے ایک ہے اور اس کے شمال میں ترکی، مشرق اور جنوب مشرق میں عراق ، جنوب میں اردن ، جنوب مغرب میں فلسطین اور مغرب میں لبنان واقع ہے۔ یہ ملک دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ موجودہ دور کا شام (سوریہ) 1946ء میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہو گیا تھا۔ اس کی آبادی دو کروڑ ہے جس میں اکثریت عربوں کی ہے۔ بہت تھوڑی تعداد میں سریانی، کرد، ترک اور دروز بھی اس ملک میں رہتے ہیں۔ شام کا دار الحکومت دمشق ہے، دیگر اہم شہروں میں حلب، حمص، حماہ اور لاذقیہ ہیں۔ اس ملک کا موجودہ صدر بشار الاسد ہے۔

جغرافیائی اور قدرتی محل وقوع

شام 185180 مربع کلومیٹر کے رقبے کے ساتھ دنیا کا 87 واں بڑا ملک ہے، موجودہ شام براعظم ایشیا کے انتہائی مغرب میں واقع ہے جو تین براعظموں کا سنگم ہے ۔ براعظم ایشیا، براعظم پورپ اور براعظم افریقہ ۔ اس کے مغرب میں بحر متوسط اور لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور مقبوضہ فلسطین (اسرائیل)، جنوب میں اردن ،مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے۔ اس کی آب و ہوا اطراف اور جنوب مغربی علاقوں میں معتدل اور مرطوب (بحیرہ روم) اور دیگر حصوں میں گرم اور خشک ہے۔ سمندر سے اس کا بلند ترین مقام جبل شیخ ہے جس کی اونچائی 2814 میٹر ہے۔ اس کے اہم دریاؤں میں فرات ، خابور، عاصی، عفرین، قوینو اور دجلہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ دریائے فرات ان میں سب سے طویل ہے اور اس کا تقریباً نصف حصہ ترکی اور عراق میں بہتا ہے۔ شام کی اہم بندرگاہیں لاذقیہ، طرطوس اور بنیاس ہیں جو بحیرہ روم کے قریب واقع ہیں۔

سوریہ اور شام کا دور

شام کی تاریخ کو، اس نام کے جغرافیائی مفہوم کے ساتھ ایک لحاظ سے چھوٹے پیمانے پر پوری مہذب دنیا کی تاریخ سمجھنا چاہے۔ یہ ملک تہذیب کے گہوارے اور ہماری روحانی و ذہنی میراث کے ایک نہایت اہم حصے کی تاریخ ہے [1]۔ موجودہ سوریہ، شام کا ایک بڑا حصہ ہوا کرتا تھا۔ شام کی سرزمین میں شام، لبنان، فلسطین اور اردن کے موجودہ ممالک شامل ہیں اور درحقیقت الشام وہ نام تھا جو عرب جغرافیہ دانوں نے اس خطے کو دیا تھا جو ایک طرف ایلہ سے فرات تک پھیلا ہوا ہے۔ اور دوسری طرف صحرا تک فرات روم کی سرحد تک محدود ہے۔ شام کے بارے میں بہت سی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور بعض مورخین نے اس کے فضائل کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے احادیث بھی نقل کی ہیں جن سے لگتا ہے کہ اموی رشتہ داروں اور علماء نے کسی طرح شام کی سرزمین کو شہر مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے سامنے پھیلانے کے لیے تیار کیا تھا۔ کیونکہ یہ سرزمین بنی امیہ کی حکومت کا گڑھ تھی ۔ شام کا موجودہ نام فرانسیسیوں نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کےبعد، دنیا کے اس حصے کی قدیم تاریخ اور قدیم اشوریوں کی بنیاد پر اس ملک کی نوآبادیات کے بعد دیا تھا۔

شام کی تاریخ

بلاد شام چارممالک پر مشتمل ہے جوکہ سوریہ ،لبنان،فلسطین اور اردن ہیں۔ پہلی عالمی جنگ تک یہ چاروں ممالک ملک شام میں شامل تھے۔ انگریزوں اور اہل فرانس کی مکاری سے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیا اور 1920 میں موجودہ شام بنام سوریا وجود میں آیا۔ انگریزی میں سوریا کو سیریااور عربی میں عرب جمہوریہ سوریا کہاجاتا ہے اور اسے اردو میں شام کہا جاتا ہے [2]۔ یہ ملک ایک طویل تاریخ رکھتا ہے جسے مورخین تقریباً پانچ ہزار سال پہلے کا بتاتے ہیں۔ چونکہ اس سرزمین پر متذکرہ دور میں ایک شاندار ثقافت اور تہذیب رہی ہے ، اس لیے اس تہذیب کے آثار باقی رہ گئے ہیں۔ اس ملک پر مسلمانوں کے تسلط سے قبل سامی، اموری، آرامی، مصری، اسوری، بابلی، یونانی، رومی اور ایرانی قبائل سمیت مختلف قبائل نے وقتاً فوقتاً اس ملک کو اپنا مسکن بنایا یا اس پر حملہ کی۔ انہوں نے اپنی تہذیب کے آثار چھوڑے ہیں۔

اسلامی دور

13 یا 16 ہجری میں مسلمانوں کی شام پر فتح کے بعد ، اس نئے مذہب کی ثقافت کئی صدیوں تک مذکورہ قبائل کی تہذیبوں پر غالب رہی ۔ پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں جو کہ صلیبی جنگوں کا دور تھا ، اس ملک میں بہت طاقتور اور مذہبی حکمران تخت پر بیٹھے اور صلیبیوں اور رومیوں کے خلاف جہاد کا پرچم بلند کیا۔ نورالدین محمود زنگی شاہد ، سلطان صلاح الدین ایوبی ، ملک عادل ایوبی، ملک ظاہر بیبرس البنداغداری، سیف الدولہ ہمدانی وغیرہ جیسے لوگ جنہوں نے جنگ اور عسکری امور کو اپنے اعمال میں سرفہرست رکھا جن میں فوجی اڈوں کی تشکیل اور قلعوں کی تعمیرشامل ہے۔ اس دور کی سینکڑوں تاریخی یادگاروں کا وجود اس دعوے کو ثابت کرتا ہے۔ اگلی صدیوں میں مملوکوں اور آخر کار عثمانی ترکوں نے اس سرزمین کو فتح کرنے کے بعد اپنے پیشرؤوں کی پالیسی کو جاری رکھا اور ان اسلامی یادگاروں کی حفاظت اور بحالی کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی تعمیر کیں۔

اسلام سے پہلے کے دور

موجودہ شام ایشیا کے قدیم ترین آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ تین ہزار سال قبل مسیح میں سامی آموری لوگ اس سرزمین میں آباد ہوئے اور ایک حکومت قائم کی جو سال قبل مسیح تک قائم رہی۔ 11ویں صدی قبل مسیح کے آخر میں آرامی نام کی ایک اور قوم اس ملک میں آباد ہوئی۔ 395عیسوی میں سلطنت روم کے مشرقی اور مغربی رومن ریاستوں میں تقسیم کے بعد یہ ملک مشرقی رومن (بازنطینی) سلطنت کا حصہ بن گیا۔ رفتہ رفتہ شام پر بازنطینی تسلط کمزور پڑ گیا یہاں تک کہ پہلی صدی ہجری (ساتویں عیسوی) میں ابوبکر کی خلافت کے دوران خالد بن ولید کو اس پر قبضہ کرنے کا کام سونپا گیا۔

ظہوراسلام کے بعد

پہلی اسلامی ریاست کے ظہور کے ساتھ، جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں قائم ہوئی تھی ، شام میں رومی سلطنت کی سرحدیں دو بار فوجی تنازعات کا نشانہ بن گئیں۔ اپنی زندگی کے آخری ایام (11 ہجری) میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلام کو پھیلانے اور رومی سلطنت کو جواب دینے کے لیے اسامہ بن زید کی سربراہی میں ایک لشکر روانہ کیا۔لیکن انہی دنوں آپ کا انتقال ہوگیا۔ بعد میں خلیفہ ابوبکر نے اس لشکر کو روانہ کیا۔

معاصر دور

نپولین بوناپارٹ کی مصر کی فتح کے ساتھ ہی شام پر فرانس نے قبضہ کر لیا۔ مصر کی جزوی آزادی کے ساتھ شام کو بھی دوبارہ عثمانیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس شہر میں عیسائیوں پر ظلم و ستم اور ان کی بغاوتوں کو کچلنے کی وجہ سے یورپی حکومتوں کے لیے اس ملک میں مداخلت کا راستہ ہموار ہو گیا۔ آخر کار، 1860عیسوی میں، فرانس نے شام کے انتظام و انصرام میں عثمانی سلطان کی مدد کے عنوان سے بیروت میں (جو اس وقت شام کا حصہ تھا) اپنی فوجی دستوں کو تعینات کیا ۔ 1914عیسوی میں پہلی جنگ عظیم میں عثمانی حکومت کے شامل ہوتے ہی عرب قوم پرستوں نے اپنے آزادی کے اہداف کے حصول کے لیے زمین سازگار دیکھی اور کام کرنا شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ہی موجودہ اسرائیل میں یہودی ریاست کے قیام کے لیےکام شروع ہو گیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم اور عثمانی شکست کے اختتام پر ، امیر فیصل بن حسین (جو بعد میں عراق کا بادشاہ بنا) کو شام کی عوامی کانگریس نے اس ملک کا بادشاہ منتخب کیا۔

شام کی آزادی

فرانسیسی اور اتحادی افواج نے اس ملک پر قبضہ کر لیا اور شام اور لبنان کو لیگ آف نیشنز کے ووٹ کے ذریعے فرانسیسی سرپرستی میں دے دیا گیا۔ اسی سال لبنان شام سے الگ ہو کر ایک الگ ملک بن گیا۔ برسوں کے طویل مذاکرات کے بعد ایک خود مختار شام کے قیام کے لیے معاہدے کیے گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں فرانس کے جرمنی کے ہاتھوں زوال کے بعد شام آزاد فرانسیسی حکومت کے زیر تسلط آگیا۔ برطانوی اور آزاد فرانسیسی افواج نے شام پر قبضہ کر لیا۔ اسی سال شام نے اپنی آزادی کا اعلان کیا اور آزاد فرانسیسی افواج کے کمانڈر جنرل کیٹروکس نے آزادی کا اعلان کیا اور پھر 16 ستمبر کو شامی جمہوریہ کے قیام کا اعلان کیا اور شیخ تاج الدین حسنی صدر بن گئے۔ تاہم عملی طور پر 1944 تک شام کو آزادی نصیب نہیں ہو سکی۔ 1967 میں اسرائیل کے ساتھ جنگ کے بعد، شام کی سرزمین کا ایک حصہ، بشمول جولان کی پہاڑیوں اور قنیطرہ کا ایک حصہ، اسرائیل نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ آخر کار،1970 میں، جنرل حافظ الاسد نے بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور صدارت کے لیے منتخب ہوئے۔ شام نے دوبارہ عرب اسرائیل جنگ میں حصہ لیا اور اسرائیل کو کافی نقصان پہنچایا۔ فی الحال (2007) صدارت حافظ الاسد کے بیٹے بشار الاسد کے پاس ہے۔ اس کا دوسرا بیٹا ابابسال، جس نے اپنی جانشینی کے لیے تمام تیاریاں کر رکھی تھیں، ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔

شامی عوام

شام 20 ملین آبادی والا ملک ہے (اقوام متحدہ کی مردم شماری) اور مختلف نسلی گروہوں پر مشتمل ہے۔ اس ملک کی بیشتر آبادی عرب ہے (اس تعداد میں 4 لاکھ فلسطینی پناہ گزین بھی شامل ہیں )۔ کرد، جو بقیہ آبادی کا 10 فیصد ہیں، آریائی نسل سے ہیں اور زیادہ تر ملک کے شمال مشرقی اور شمالی علاقوں میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ، آرامی ( آشوری ) اور آرمینیائی زبان کی چھوٹی اقلیتیں بھی اس ملک میں رہتی ہیں۔ اس ملک کی فی کس آمدنی امریکی ڈالر ہے (ورلڈ بینک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق) اور اس ملک میں متوقع عمر مردوں کے لیے ایک سال اور خواتین کے لیے ایک سال ہے۔

شام میں مذاہب اور مسلکی اختلافات

اس ملک کے مسلمان ملک کی آبادی کا 87فیصد ہیں اور عیسائی، جو ملک کی آبادی کا 3فیصد ہیں، اس ملک میں نسبتاً اہم اقلیت ہیں۔ دمشق اور اس کے اطراف میں تقریباً پانچ ہزار یہودی بھی آباد ہیں۔ ایران عراق جنگ شروع ہونے کے بعد شام نے عراق کے ساتھ اپنے تعلقات کو ممکنہ حد تک کم کر دیا اور ایران کا ساتھ دیا۔ ملک شام کا ایک صوبہ ہے۔ دمشق شہر کو بھی ایک صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ دمشق شام کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ حلب شام کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ شام کے دیگر اہم اور گنجان آباد شہروں میں لاذقیہ، حمص، حماہ، دیر الزور اور معرۃ النعمان شامل ہیں۔ گولان ہائٹس جو شام کی سرزمین کا حصہ ہے، اس وقت اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ پیغمبر اسلام کے مشن کے بعد شامات کے علاقے میں رومیوں کے خلاف دو جنگیں لڑی گئیں جن کا نام جنگ موتہ اور جنگ تبوک ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں 14 ہجری میں شام کو فتح کیا گیا اور باقی علاقے حضرت عمر کے دور خلافت میں قبضے میں لیے گئے ۔ شام کی فتح کے بعد وہاں کی حکومت معاویہ بن ابی سفیان کے حوالے کر دی گئی ۔ یہاں تک کہ 35 ہجری میں امام علی کی خلافت کے زمانے میں معاویہ کو شام کی حکومت سے ہٹا دیا گیا ، لیکن وہ ہار نہیں مانے اور یہ کشمکش جنگ صفین کا باعث بنی ۔ امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ نے چال بازی سے اقتدار میں آ کر دمشق کو اموی حکومت کا مرکز بنا دیا اوروہ 127 ہجری تک دارالحکومت رہا۔ اس کے بعد عباسیوں ، ہمدانیوں ، مصر کے فاطمیوں ، سلجوق اور عثمانیوں نے اس سرزمین پر حکومت کی یہاں تک کہ اہل مغرب کی حکمرانی کے بعد حالیہ صدیوں میں یہ سرزمین الگ ہو کر کئی عرب ممالک میں تقسیم ہو گئی۔ شام مشرق وسطیٰ کے مرکز میں واقع ہے اور اس کی سرحدیں ترکی ، عراق ، اردن، مقبوضہ فلسطین اور لبنان سے ملتی ہیں ۔ آبادی کی اکثریت بحیرہ روم کے ساحلوں پر رہتی ہے، جو شام کے سب سے زیادہ زرخیز علاقے ہیں۔ ملک کے جنوبی علاقے پہاڑی ہیں اور مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ ساحلی علاقوں میں گرم اور خشک گرمیاں اور ہلکی اور گیلی سردیوں کے ساتھ بحیرہ روم کی آب و ہوا ہے۔ اوسط درجہ حرارت 43 ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے، اور اوسط بارش ہر سال 40 سینٹی میٹر تک پہنچ جاتی ہے۔

شام کے صوبے

شام کو 14 صوبوں تقسیم کیا گیا ہے اور ان صوبوں کو 60 اضلاع میں:

  • صوبہ حلب
  • صوبہ دمشق
  • صوبہ درعا
  • صوبہ دیر الزور
  • صوبہ حماۂ
  • صوبہ حسکہ
  • صوبہ حمص
  • صوبہ ادلب
  • صوبہ لاذقیہ
  • صوبہ قنیطرہ
  • صوبہ الرقہ
  • صوبہ ریف دمشق
  • صوبہ سویداء
  • صوبہ طرطوس

[3]۔

شام پر عالمی مسلط جنگ

امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق، شام اور لیبیا کے تیل اور پٹرول کے ذخایر کو بے دری‏غ لوٹا ۔ یہ سارا کھیل امریکی اور اسرائیلی مفادات کے لیے کھیلا گیا۔ عربوں اور مسلمانوں کی دولت سے خریدا ہوا اسلحہ عربوں اور مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوا۔ بہار عرب کے نام پر قلعہ مقاومت (شام) کو مہندم کرنے لیے ملک شام پر عالمی جنگ مسلط ہوئی اور مقاومت کے گرد دائرہ تنگ تر کر دیا گیا۔ خلیجی ممالک، ترکی اور دنیا کے دیگر ممالک نے امریکہ، غرب اور اسرائیل کے اشاروں پر عراق اور شام میں داعش اور دیگر تکفیری دہشتگردوں کو عراق اور شام بھیجا اور ان کی ہر لحاظ سے پشت پناہی کی۔ جنگ کے ایندھن کی فراہمی کے لیے لیبیا، تیونس اور مصر کے سیاسی نظام کو نشانہ بنایا گیا خلیجی و ایشیائی ممالک سے بھی جنگجوؤں کی بڑی تعداد بھرتی کی گئی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق لاکھوں دہشتگرد دنیا کے 90 سے زیادہ ممالک سے شام میں لائے گئے جو کہ جدیدترین اسلحہ سے لیس تھے۔ حزب اللہ نے ملک شام و عراق کی حکومت و عوام کا ساتھ دیا۔ اور داعش کو شکست دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ حزب اللہ نے ان ممالک کو تقسیم ہونے اور ٹوٹنے سے بچایا۔ قصیر، حمص، حماۂ اور اطراف دمشق و درعا، حلب و ادلب کی فتوحات اور کامیابیوں میں بھی حزب اللہ کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ اس جنگ میں حزب اللہ کے شہداء کی تعداد حزب اللہ اور اسرائیل کی تین دہائیوں پر محیط جنگ کے شہداء سے زیادہ ہے۔ جس میں حزب اللہ کے اہم اور تجربہ کار کمانڈر بھی شریک ہوئےجن میں شام محاذ کے سربراہ اور حاج عماد مغنیہ کے ساتھی حاج مصطفی بدر الدین (حاج ذوالفقار) سر فہرست ہیں جنہیں اسرائیل نے دمشق ائیرپورٹ کے قریب میزائل حملے سے شہید کیا۔ حاج عماد مغنیہ شہید کے فرزند حاج جہاد مغنیہ اور اسیر محرر سمیر قنطار جیسے دسیوں اہم کمانڈر شام کے محاذ پر شہید ہوئے [4]۔

شام پر مسلط جنگ کا مقصد

شام کے سابق صدر حافظ الاسد کی رحلت کے فورا بعد 2001ء میں شام کے نظام کو بدلنے کا پروگرام بنایا گیا۔ شام کو کمزور کرنے کے پیچھے دشمن کا مقصد اسرائیل کی سکیورٹی کو یقینی بنانا، ناجائز صہیونی ریاست کو تسلیم کروانا اور عظیم اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل تھا۔ شام پر مسلط کی گئی جنگ کا مقصد جمہوریت لانا اور عوام کو آزادی دلانا وغیرہ نہیں تھا۔ شامی حکومت کا قصور یہ تھا کہ اس نے خطے میں اسرائیلی بالادستی کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ فلسطینی مہاجرین کی پشت پناہی اور فلسطینی و لبنانی مقاومت کی ہر ممکن مدد بھی دمشق حکومت کا جرم تصور کی گئی۔ اسی طرح دمشق، تہران اور بیروت سے قریبی تعلقات بھی باعث بنے کہ شام کے دشمن نے دمشق کو سبق سکھانے کے لیے شدت پسندوں کے ذریعے شام پر جنگ مسلط کر دی۔ دشمن کی طرف سے مسلط شدہ اس جنگ میں ایران، روس، چین، حزب اللہ اور خطے کے دیگر مقاومتی گروہ شام کے اتحادی تھے۔ اس جنگ میں تمام عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں اور خلیجی بادشاہوں کے علاوہ مسلح شدت پسند تکفیری گروہوں نے اسرائیل کی حمایت کی۔ اسرائیل کی پشت پناہ عالمی سامراجی طاقتوں میں امریکہ کے علاوہ فرانس اور برطانیہ پیش پیش تھے۔ عالمی سامراجی طاقتیں اس جنگ کے ذریعے خطے کے تیل و گیس کے ذخائر اور سیاسی نظم و نسق پر کنٹرول چاہتی تھیں کیونکہ اس خطے پر کنٹرول پوری دنیا پر کنٹرول کو مضبوط بنا دیتا ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب، ترکی اور امارت وغیرہ اسرائیل کے پشت پناہ تھے۔ ان علاقائی ممالک میں سے ترکی اس جنگ کے نتیجے میں دمشق حکومت کو سرنگوں کرکے شام، فلسطین اور اردن پر بالادستی حاصل کرکے یہاں خلافت قائم کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ خلیجی ممالک اس جنگ کے نتیجے کو اپنی ملوکیت بجانے کی آخری کوشش تصور کررہے تھے [5]۔

مقاومت کو شام کی پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے

مقاومت کو شام کی پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، شامی صدر بشار الاسد

شام کے صدر بشار الاسد نے ایرانی عبوری وزیرخارجہ سے ملاقات کے دوران کہا کہ مقاومت کو شام کی پالیسی میں اہم اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایرانی عبوری وزیرخارجہ علی باقری کنی نے دمشق میں شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کی اور فلسطین سمیت خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس ملاقات کے دوران شام کے صدر نے کہا کہ قوموں کو استعماری طاقتوں کے خلاف اپنے وجود کا اظہار کرنا چاہئے ورنہ یہ طاقتیں کمزور اقوام کو نگل لیں گی۔ انہوں نے کہا مقاومت نے صہیونی حکومت کو شکست دے کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ مجاہدین کے سامنے شکست کے بعد صہیونی حکومت نے سویلین کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔

ملاقات کے دوران علی باقری کنی نے کہا کہ ایران اور شام کے تعلقات کی بنیادیں مضبوط ہیں اور دونوں ممالک خلوص نیت کے ساتھ ایک دوسرے کا ساتھ دے رہیں۔

علی باقری نے شام کے دو روزہ دورے کے دوران شامی وزیرخارجہ فیصل مقداد اور مقاومتی رہنماؤں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں[6]۔

شام، عراقی سرحد کے نزدیک امریکی فوجی اڈے میں دھماکہ

شام کے سرحدی صوبے حمص میں امریکی دہشت گرد فوج کے اڈے میں دھماکہ ہوا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے کہا ہے کہ شام کے صوبہ حمص میں واقع امریکی دہشت گرد فوج کے زیراستعمال اڈے میں دھماکہ ہوا ہے۔

مقامی ذرائع کے مطابق عراقی سرحد کے نزدیک واقع اڈے پر حملہ کیا گیا جس کے بعد اڈے کے اندر سے دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ عراق اور اردن کی سرحد کے نزدیک شامی صوبے حمص میں امریکی فوجی اڈا ہے جس میں امریکی دہشت گرد فوجی رہتے ہیں۔ اس اڈے پر ماضی میں بھی کئی مرتبہ حملہ کیا گیا ہے۔ امریکی فوج کے سینٹرل کمانڈ کی جانب سے واقعے کے بارے میں تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے [7]۔

رہبر معظم کے خصوصی ایلچی کی شام کے صدر بشار اسد سے ملاقات

رہبر معظم انقلاب کے خصوصی ایلچی علی لاریجانی نے شام کے صدر بشار اسد سے ملاقات کی۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خصوصی ایلچی علی لاریجانی نے شام کے صدر بشار اسد سے ملاقات کی۔ اس دوران خطے کی صورت حال بالخصوص صیہونی رجیم کے اقدامات کی شدت اور فلسطین اور لبنان پر مسلسل جارحیت کو روکنے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور دونوں ممالک اور خطے کے عوام کے مفادات کو محفوظ اور مضبوط بنانے کے طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔

صدر اسد نے فلسطینیوں کے تاریخی حقوق کی پاسداری اور فلسطینیوں اور لبنانی عوام کے موقف کی ہر طرح سے حمایت کرنے اور قتل و غارت کے خاتمے اور نسل کشی کی روک تھام پر زور دیا۔

دوسری جانب لاریجانی نے شام کے لئے ایران کی حمایت اور ہر قسم کے تعاون کے لئے آمادگی، خطے میں شام کے اہم کردار اور اسے خطے کے ممالک اور اقوام کے مفادات کے مطابق مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا [8]۔

شام میں 400 دہشت گرد مارے گئے

روسی فوج نے کہا ہے کہ شام کے شمال مغرب میں 400 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی نے روسیا الیوم کے حوالے سے کہا ہے کہ شام میں تکفیری دہشت گردوں نے گذشتہ چند دنوں کے دوران حلب اور ادلیب پر حملہ کیا ہے جس کے بعد شامی فوج نے دہشت گرد عناصر کے خلاف آپریشن شروع کیا ہے۔ شام میں روسی فوجی اڈے حمیمیم کے اعلی اہلکار اولگ ایگناسوک نے کہا کہ روسی فضائیہ نے شامی فوج کی مدد کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر شدید حملہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 27 نومبر کی صبح دہشت گردوں نے صوبہ حلب اور ادلیب پر حملہ کیا جس کے جواب میں شامی فوج نے روسی فورسز کے تعاون سے آپریشن شروع کیا۔ آپریشن میں کم از کم 400 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران دہشت گردوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ النصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں نے کئی جانب سے حملہ کیا تھا[9]۔

حلب میں فتنہ انگیزی؛ تحریر الشام کس ایجنڈے پر ہے؟

صیہونی حکومت نہ صرف مزاحمتی محور کے خلاف "ڈیٹرنس" کی بحالی کے لئے ہاتھ پاوں مار رہی ہے بلکہ وہ مشرقی عرب خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے اور مغربی ایشیا کے سیکورٹی آرڈر کو ازسرنو متعین کرنے کا مذموم منصوبہ بھی رکھتی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: حزب اللہ اور صیہونی حکومت کے درمیان سیزفائر کے چند گھنٹے بعد ہی شام میں موجود تکفیری دہشت گردوں نے تحریر الشام (سابقہ ​​جبہۃ النصرہ) کے جھنڈے تلے "فتح المبین اتحاد" کے نام سے قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے ہوئے ادلب سے صوبہ حلب تک پیش قدمی کی۔

اس کرائے کے جتھے کی حلب کے شمال اور شمال مغرب کی طرف تیزی سے پیش قدمی کی وجہ لبنان میں جاری جنگ کے باعث ادلب کے جنوبی حصے میں حزب اللہ کی آپریشنل توجہ میں کمی ہے۔ نیز دوسری طرف روسی فوج یوکرین جنگ کی وجہ سے لطاکیہ کے جنوب مشرق میں واقع حمیم بیس سے اپنی بہت سی فوجی تنصیبات کو خالی کرنے اور ادلب-حلب کے قریب کچھ فوجی علاقوں سے انخلاء پر مجبور ہوئی ہے۔ اس صورت حال سے دشمن نے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پرانے مہروں کو اس بار خلیفہ اردگان کی مدد سے میدان میں اتارا ہے۔

اس کے علاوہ لبنانی محاذ پر حالیہ پیش رفت کی وجہ سے اسرائیل نے ترکی اور شامی باغیوں کو ادلب پر حملے کی ترغیب دی جس کا مقصد دمشق پر مزاحمتی محور کی حمایت سے دستبردار ہونے اور حزب اللہ کے ہتھیاروں کی سپلائی لائن کو منقطع کرنے کے لئے دباؤ بڑھانا ہے۔ ایسی کشیدہ صورت حال میں یہ سوال منہ کھولے کھڑا ہے کہ کیا نام نہاد شامی اپوزیشن دمشق میں پھر سے خانہ جنگی کے ذریعے اپنے مفادات کے درپے ہے یا پھر بیرونی طاقتیں ان تکفیری مہروں کو استعمال کرتے ہوئے شام سے اپنے مطالبات منوانا چاہتی ہیں؟

حلب میں کیا ہورہا ہے؟

شامی رائے عامہ کے لیے "حلب" خانہ جنگی کے دوران مسلح اپوزیشن پر شامی فوج کی حتمی فتح کی علامت ہے۔ صنعتی حب ہونے کے علاوہ، 20 لاکھ کی آبادی والا یہ اقتصادی مرکز عرب مشرق کو بحیرہ روم سے جوڑنے کے لیے ایک اسٹریٹجک مواصلاتی مقام رکھتا ہے۔ یہ مسلح فتنہ حلب اور دمشق کے درمیان رابطہ منقطع کرنے کے لیے کچھ علاقائی اداکاروں کی منصوبہ بندی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

اس وقت مسلح دہشت گرد حلب کے 20 محلوں، النبل، الزہرہ جیسے علاقوں اور ابو ظہر ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ تاہم شامی فضائیہ نے بھرپور جوابی حملے کے ذریعے بعض مقبوضہ علاقوں کو واگزار کرا لیا ہے۔ اس دوران شامی فوج کی طرف سے شائع ہونے والی خبر کے مطابق 500 سے زائد دہشت گرد ہلاک اور درجنوں گرفتار کر لئے گئے ہیں۔

اگرچہ تحریر الشام کے دہشت گرد صوبہ حلب کے مرکزی علاقوں کی طرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ عمل سست پڑ گیا ہے اور وہ گزشتہ دو دنوں کی طرح پیش قدمی جاری نہیں رکھ سکتے۔ لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا مسلح مخالفین اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس سپورٹ کے بغیر مقبوضہ علاقوں پر قبضہ برقرار رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟ یا پھر 2018ء کی شکست کی طرح عالمی طاقتوں کے اشاروں پر صیہونی رجیم کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے مزید خون خرابہ کرکے ملک میں انارکی پھیلائیں گے!

صیہونی رجیم کے ساتھ بعض علاقائی قوتوں کا گٹھ جوڑ

کچھ علاقائی کھلاڑی شامی دہشت گردوں کی مالی اور فوجی حمایت کر رہے ہیں جو حلب کے واقعات کے ذمہ داروں میں سرفہرست ہیں۔ موجودہ صورتحال میں شام کے بعض ہمسایہ ممالک نے موجودہ فتنے کو ہوا دینے کے لئے ایک آپریشن روم بھی بنا لیا ہے۔ دریں اثنا، سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ترکی نے اپنی سرحدیں کھول کر درحقیقت ازبک اور ترکستانی عناصر کے لیے میدان جنگ میں داخل ہونے کا راستہ اور شام میں خونریزی کے لیے میدان فراہم کر دیا ہے۔

اگرچہ مسلح مخالفین اور ان کے اتحادی دہشت گردوں نے اس جنگ کا ابتدائی ہدف حلب، حما، ادلب وغیرہ پر قبضہ کرنا قرار دیا تھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس مسلح جارحیت کا اصل ہدف مزاحمتی محور کو شام کی سرزمین سے پیچھے دھکیل کر اس کا حزب اللہ سے رابطہ توڑنا ہے[10]۔

شام کی حاکمیت کا احترام کیا جائے

عرب لیگ نے حلب اور ادلب میں دہشت گردوں کے حملوں پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ شام کی حاکمیت کا احترام کیا جائے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے شام کے سرکاری خبررساں ادارے کے حوالے سے کہا ہے کہ شامی صوبے حلب اور ادلب میں دہشت گرد تکفیریوں کے حملوں کے بعد عرب لیگ نے دمشق کی حاکمیت پر تاکید کی ہے۔

عرب ممالک کی تنظیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شام کے حالات کا تشویش کے ساتھ جائزہ لیا جارہا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ واقعات کی وجہ سے شام میں دوبارہ فسادات ہوسکتے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں نے ان حالات سے فائدہ اٹھانے کے لئے دوبارہ سر اٹھانا شروع کیا ہے[11]۔

عوام افواہوں پر کان نہ دھریں، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری ہے

شام کی مسلح افواج کے جنرل کمانڈ نے اس ملک کے شہریوں سے کہا کہ وہ دہشت گردوں اور ان کے حمایتی میڈیا کی افواہوں پر یقین نہ کریں بلکہ سرکاری ذرائع سے معلومات حاصل کریں۔ مہر خبررساں ایجنسی نے شام کی سرکاری نیوز ایجنسی (سانا) کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس ملک کی مسلح افواج کے جنرل کمانڈ نے اپنے تازہ بیان میں جنگی صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد گروہ سوشل میڈیا پر مسلح افواج کے جنرل کمانڈ سے منسوب جھوٹی خبریں شائع کر رہے ہیں۔ شام کی مسلح افواج کی جنرل کمانڈ نے تاکید کی ہے کہ سکیورٹی فورسز مختلف علاقوں میں دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کے لیے اپنے قومی مشن کو پورا کر رہی ہیں۔ شامی فوج نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ میدانی صورت حال سے متعلق دشمن کی افواہوں اور جھوٹی خبروں پر یقین نہ کریں بلکہ سرکاری ذرائع سے خبریں حاصل کریں۔

اس سے قبل ایک شامی فوجی ذریعے نے کہا کہ ہماری افواج صوبہ حما کے شمالی اور مشرقی مضافات میں اپنی جگہوں پر تعینات ہیں اور کسی بھی ممکنہ دہشت گردانہ حملے کو پسپا کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔ مذکورہ فوجی ذریعے نے مزید کہا کہ شامی اور روسی جنگی طیارے بھی دہشت گردوں کے ٹھکانوں، نقل و حرکت اور امدادی راستوں پر بمباری کر رہے ہیں[12]۔


حوالہ جات

  1. فلپ کے حتی، تاریخ شام، مترجم، غلام رسول مہر، غلام علی اینڈ سنز ایجوکیشنہ پبلیشرز لاہور، 1963ء، ص5
  2. مقبول احمد سلفی، بلاد شام –تاریخ وفضیلت اور موجودہ شام (سوریا)​، mohaddis.com
  3. tradetejarat.com
  4. سید شفقت حسین شیرازی، حزب اللہ لبنان تاسیس سے فتوحات تک، الباقر پبلی کیشنزز اسلام آباد، 2021ء، ص274-275
  5. ایضا، ص299-300
  6. مقاومت کو شام کی پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، بشار الاسد-/ur.mehrnews.com-شائع شدہ از: 5 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 جون 2024ء۔
  7. شام، عراقی سرحد کے نزدیک امریکی فوجی اڈے میں دھماکہ- ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 28 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 اکتوبر 2024ء۔
  8. رہبر معظم کے خصوصی ایلچی کی شام کے صدر بشار اسد سے ملاقات-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از: 15نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 نومبر 2024ء-
  9. شام میں 400 دہشت گرد مارے گئے، روسی فوج-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از: 29 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 نومبر 2024ء۔
  10. حلب میں فتنہ انگیزی؛ تحریر الشام کس ایجنڈے پر ہے؟ مہر نیوز کی رپورٹ-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 30 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1دسمتبر 2024ء۔
  11. شام کی حاکمیت کا احترام کیا جائے، عرب لیگ-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 1 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 دسمبر 2024ء۔
  12. عوام افواہوں پر کان نہ دھریں، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری ہے، شامی فوج-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 1 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 ستمبر 2024ء۔