مندرجات کا رخ کریں

زینب بنت علی

ویکی‌وحدت سے
زینب بنت علی
نامزینب
تاریخ ولادت۶۲۸ ہجری قمری 5 جمادی الاول
جائے ولادتمدینہ
شهادت62 قمری 15 رجب
القاب
  • کاملہ، عابده آل علی محمد، نائبہ الزهرا، عقیلہ النساء ،شریکہ الشهداء، شریکہ الحسین
والد ماجدامام علی علیہ السلام
والدہ ماجدہحضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا
ہمسرعبد اللہ ابن جعفر
اولاد
  • علی، عون، عباس، محمد، ام کلثوم
عمر56
مدفندمشق شام

زینب بنت علی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی، علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا کی صاحبزادی ہیں۔ آپ ایک باکمال خاتون تھیں کہ جنہوں نے عاشورہ کے پیغام کی حفاظت اور پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کی۔ حضرت زینب علیہا السلام عالم اسلام کی ان منفرد اور بااثر شخصیات میں سے ایک ہیں جو صلح حدیبیہ کے بعد پانچویں یا چھٹے ہجری میں جمادی الاول کی 5 تاریخ کو امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے دو سال بعد مدنیہ منورہ میں بنی ہاشم کے محلے میں پیدا ہوئیں۔ واقعہ کربلا اور اس کے بعد اسیری کا دوران ان کا خاص کردار ہے۔ عاشورہ کے واقعہ میں اپنے عزیز و اقارب کی شہادت پر صبر اور استقامت کی وجہ سے، آپ صبر اور استقامت کا پیکر بن گئی۔ کوفہ اور شام کی اسیری کے دوران ان کے خطبوں نے اموی حکومت کا ظالمانہ اور شرمناک چہرہ عیاں کر دیا۔

سوانح عمری

آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے معتبر ترین روایت کے مطابق آپ کی ولادت ٥ جمادی الاول سن ٦ ہجری کو مدینہ میں ہوئی [1]۔ حضرت زینب علیہا السلام کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کرنے اور ان سے علم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ جب آپ سات سال کی تھیں تو ان کے نانا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہو گیا۔ اس کے تقریباً تین ماہ بعد فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی انتقال فرما گئیں۔ زینب سلام اللہ علیہا کی شادی عبداللہ بن جعفر طیار علیہ السلام سے ہوئی۔ ان کے پانچ بچے ہوئے جن میں سے عون اور محمد کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہید ہو گئے۔ دیگر تین عبد اللہ ، عباس، ام کلثوم ہیں۔

آپ کیلئے نام کا انتخاب

شیعہ روایات کے مطابق جب زینب کی ولادت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر تھے مدینہ میں نہیں تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر حضرت علی علیہ السلام سے کہا کہ وہ اپنے بچے کے لیے کوئی نام منتخب کریں.

لہذا حضرت فاطمہ (ع) نے امام علی (ع) کو کہا کہ آپ اس بچی کیلئے کوئی نام انتخاب کریں ۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول خدا (ص) کے واپس آنے کا انتظار کر لیا جائے۔ جب پیغمبر اکرم (ص) سفر سے واپس آئے تو حضرت علی (ع) نے انہیں یہ خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ اس بچی کا نام آپ انتخاب کریں ۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ اس کا نام خدا انتخاب کرے گا۔ اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور خدا کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا کہ "خدا نے اس بچی کا نام زینب رکھا ہے" [2].

آپ کا بچپن اور تربیت

انسان کی زندگی کا اہم ترین زمانہ اس کے بچپن کا زمانہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی شخصیت کا قابل توجہ حصہ اس دور میں معرض وجود میں آتا ہے۔ اس سے بھی اہم وہ افراد ہوتے ہیں جو اس کی تربیت میں موثر واقع ہوتے ہیں۔

حضرت زینب س کی خوش قسمتی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کرنے والی خاتون سیدہ نسائ العالمین حضرت فاطمہ س ہیں اورآپ امام علی ع جیسے باپ کی زیر نگرانی پرورش پاتی ہیں۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم (ص)، جو تمام انسانوں کیلئے "اسوہ حسنہ" ہیں ، نانا کی حیثیت سے آپ کے پاس موجود ہیں ۔ لہذا یہ آپ کے افتخارات میں سے ہے کہ آپ نے رسول خدا ص، امام علی ع اور فاطمہ زھرا س جیسی بے مثال شخصیات کی سرپرستی میں پرورش پائی۔

حضرت زینب س کی شادی

حضرت زینب(ع) کی شادی ٧١ ہجری میں اپنے چچا کے بیٹے عبداللہ ابن جعفر ابن ابیطالب سے ہوئی۔ عبداللہ حضرت جعفر طیار کے فرزند تھے اور بنی ہاشم کے کمالات سے آراستہ تھے۔ آپ کے چار فرزند تھے جنکے نام محمد، عون، جعفر اور ام کلثوم ہیں [3].

واقعۂ کربلا میں

جب امام حسین علیہ السلام یزید کی بیعت سے انکار کرنے کے بعد مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو زینب اپنے بھائی کے ساتھ اپنے دو بچوں جن کا نام محمد اور عون تھا، اپنے بھائی کے ساتھ تھیں۔ تحریک عاشورہ کے دوران زینب کی عظیم قربانیوں کا کردار بہت تھا۔ عاشورہ کے موقع پر آپ کو اپنے عزیز ترین افراد یعنی اپنے بھائیوں، بچوں اور بھائیوں کے بچوں کی مصیبتیں برداشت کرنا پڑی۔ لیکن آپ نے ان تمام مصیبتوں کو برداشت کیا اور ابن زیاد کے طنزیہ سوال کے جواب میں جب اس نے پوچھا: خدا نے آپ بھائیوں اور بجوں کے ساتھ کیا کیا اور ان کا انجام کار کو کیسے دیکھا؟

تو حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے فرمایا: "و ما رأیتُ الاّ جمیلاً" [4]. میں نے خیر اور حسن و جمال کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ روایت ہے کہ آپ نے اپنے دونوں بچوں کو اپنے ہاتھوں سے جنگی کپڑوں سے ڈھانپ کر دونوں کو امام حسین علیہ السلام کے قدموں میں شہادت کے مقام پر روانہ کیا۔ نیز اپنے بچوں کی شہادت کے بعد ان کے لیے ماتم نہیں کیا؛ اس لیے کہ اس نے ان دونوں قربانیوں کو اس عظیم انسان کے لیے بہت چھوٹا دیکھا اور اس فکر میں تھا کہ اپنے آنسوؤں کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے دل میں ندامت نہ آجائے۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے امام زین العابدین علیہ السلام کی دیکھ بھال کی اور آپ کی بیماری کی وجہ سے آپ قیدیوں کے قافلے کی انچارج تھیں اور اپنا اور اپنے شہید بھائی حسین بن علی علیہ السلام کا دفاع کیا۔ امام سجاد علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میری پھوپھی جان عالمہ غیر معلمہ ہیں۔ آپ کے کمالات صرف علم تک ہی محدود نہیں بلکہ زندگی کے مختلف حصوں میں آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو منظر عام پر آئے[5]۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کربلا میں موجود تھیں۔ واقعہ کربلا کے بعد زینب سلام اللہ علیہا کا کردار بہت اہم ہے۔ واقعہ کربلا کے بعد آپ کو دمشق لے جائی گئیں جہاں یزید کے دربار میں دیا گیا ان کا خطبہ بہت مشہور ہے۔ آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا۔

یزید کے مظالم کو بیان کر کے جو یزید نے کربلا کے میدان میں اہل بیت رسول(ع) پر روا رکھے تھے؛ زینب (ع) نے لوگوں کو سچائی سے آگاہ کیا۔ آپ کے خطبہ کے سبب ایک انقلاب برپا ہوگيا جو بنی امیہ کی حکومت کے خاتمے کے ابتدا تھی [6].

واقعہ کربلا کے بعد

کربلا کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک بے مثال واقعہ ہے۔ لہذا اس کو تشکیل دینے والی شخصیات بھی ایک منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے ایک مقدس اور اعلی ہدف کی خاطر یہ عظیم قربانی دی۔ لیکن اگر حضرت زینب (س) اس عظیم واقعے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں تو بلاشک وہ تمام زحمتیں ضائع ہو جاتیں۔

محمدجواد مغنیہ لبنان کے متفکر نے لکھا ہے کہ: علی (ع) نے علوم کو رسول خدا بغیر کسی واسطے کے حاصل کیا تھا اور ان علوم کو اپنی اولاد کو سیکھایا تھا اور ہم تک یہ تمام علوم علی (ع) کی اولاد کے ذریعے سے پہنچے ہیں۔ اسی وجہ سے بنی امیہ نے چاہا کہ نسل علی ختم کر دیں اور انکا کوئی بھی اثر باقی نہ رہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ: شمر نے کہا تھا کہ امیر عبید اللہ کا فرمان ہے کہ: حسین کی تمام اولاد کو قتل کیا جائے اور کوئی بھی زندہ نہ بچے۔ شمر نے یہ بات اس وقت کہی تھی کہ جب علی ابن حسین کو قتل کرنے کے لیے تلوار کو نیام سے نکالا ہوا تھا، اسی وقت زینب سامنے آئی اور کہا کہ: اگر اسکو قتل کرنا ہے تو پہلے مجھے بھی ساتھ قتل کرنا ہو گا [7]

لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم آج شہدای کربلا کے پیغام سے آگاہ ہیں اور ان کی اس عظیم قربانی کے مقصد کو درک کرتے ہیں تو یہ سب حضرت زینب س کی مجاہدت اور شجاعانہ انداز میں اس پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے کا نتیجہ ہے۔ شاید اسی وجہ سے انہیں "شریکۂ الحسین ع" کا لقب دیا گیا ہے۔ اگر امام حسین ع اور انکے ساتھیوں نے اپنی تلواروں کے ذریعے خدا کے رستے میں جہاد کیا تو حضرت زینب س نے اپنے کلام کے ذریعے اس جہاد کو اپنی آخری منزل تک پہنچایا۔

کربلا میں سرور شہیدان امام حسین ع اور انکے ساتھیوں کو شہید کرنے کے بعد دشمن یہ سوچ رہا تھا کہ اس کو ایک بے نظیر فتح نصیب ہوئی ہے اور اسکے مخالفین کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو گیا ہے۔ لیکن حضرت زینب (س) کے پہلے ہی خطبے کے بعد اس کا یہ وہم دور ہو گیا اور وہ یہ جان گیا کہ یہ تو اسکی ہمیشہ کیلئے نابودی کا آغاز ہے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے عاشورہ کے دن یہ درس دیا کہ فتح حاصل کرنے کے لیے خون کے دریا کو عبور کرنا ہوگا اور حضرت زینب نے اس ثقافتی تحریک کو آگے بڑھایا۔ امام حسین نے خون کے اس دریا کو عبور کیا تاہم حضرت زینب نے عاشورائی اقدار کی راہ میں استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مبارک اور طاقتور تحریک کو دشمن کے شیطانی پروپیگنڈوں سے بچایا۔ اگر یہ مبارک تحریک نہ ہوتی تو دشمن اہل بیت کے خلاف جنگ جیت چکا ہوتا لیکن حضرت زینب نے بنی امیہ کے پروپیگنڈے خلاف تن تنہا کھڑی رہیں اور اپنے خطبوں سے شہدائے کربلا کے خون کا دفاع کرتی رہیں [8]۔

القاب

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نام زینب رکھا جس کا لغوی معنی اچھا نظارہ اور خوشبو والا درخت ہے یا اس کا مطلب زین اب ہے جس کا مطلب باپ کی عزت اور زینت ہے۔ ان کے لیے بہت سے القابات بیان کیے گئے ہیں۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنے کی وجہ سے ام المصاب کا لقب بھی دیا گیا ہے۔ اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات، والدہ محترمہ کی بیماری اور شہادت، آپ کے والد امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت، آپ کے بھائی امام مجتبی علیہ السلام کی شہادت، واقعہ کربلا اور کوفہ اور شام میں اسیر ہونا ان کی زندگی کے سخت اور تلخ واقعات میں شمار ہوتا ہے [9]. تاریخی کتابوں میں آپ کے ذکر شدہ القاب کی تعداد 61 ہے۔ ان میں سے کچھ مشہور القاب درج ذیل ہیں:

ثانیِ زہرا،

  • عالمہ غیر معلمہ
  • نائبۃ الزھراء
  • عقیلہ بنی ہاشم
  • نائبۃ الحسین
  • صدیقہ صغری
  • محدثہ
  • زاہدہ
  • فاضلہ
  • شریکۃ الحسین
  • راضیہ بالقدر والقضاء

آپ کی کرامت

زینب (سلام اللہ علیہا) جس طرح بھائی سے محبت اور خدا کی عبادت کے حوالے سے معروف ہیں اسی طرح آپ کی کرامتوں کے واقعات بھی آپ کے کریمہ ہونے کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔ جود و سخاوت، مدد، کرامت، عطا، اہلبیت (علیھم السلام) کے گھرانہ کا خاصہ ہے اور یہ خصوصیت اس گھرانہ کے معصومین سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس گھرانے کے غیر معصوم افراد بھی ایسے کمال کے مرتبہ پر فائز تھے جو اپنے کو عصمت کے دائرہ سے نزدیک پہونچا چکے تھے جن میں سر فہرست جناب زینب(سلام اللہ علیھا) اور جناب عباس(علیہ السلام) ہیں۔

حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) کی کرامت کے واقعات کتابوں میں موجود ہیں، ہم یہاں پر صرف ایک واقعہ کو ذکر کررہے ہیں۔ مرحوم محمد رحیم اسماعیل بیک، اہلبیت(علیہم السلام) سے محبت اور امام حسین(علیہ السلام) سے توسل کے لئے معروف تھے اور اس حوالے سے انھیں بہت سی ظاہری اور معنوی برکتیں حاصل ہوئیں [10]۔

منقول ہے کہ چھ سال کی عمر میں وہ آنکھوں کے درد میں مبتلا ہوئے اور ۳ سال تک اس بیماری میں گرفتار رہے اور پھر دونوں آنکھوں سے نابینا ہوگئے۔ ماہ محرم میں انکے ماموں مرحوم حاج محمد تقی اسماعیل بیک کے گھر میں مجلس عزا تھی، گرمی کا موسم تھا اور مجلس میں شربت تقسیم ہو رہا تھا، انھوں نے اپنے ماموں سے کہا کہ انھیں بھی شربت تقسیم کرنے کی اجازت دیں۔ ان کے ماموں نے فرمایا کہ تمھارے تو آنکھ نہیں ہے، تو انھوں نے کہا کہ اس کام کے لئے کسی کو میرا مددگار بنا دیں، درخواست قبول کی اور پھر انہی کے ساتھ مل کر عزاداروں کے بیچ شربت تقسیم کیا۔

مرحوم معین الشریعہ اصطھباناتی مجلس پڑھ رہے تھے، انھوں نے جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کے مصائب بیان کئے جس سے محمد رحیم بہت متأثر ہوئے، بہت روئے اور نڈھال ہوگئے، اسی حالت میں ایک باعظمت خاتون کو دیکھا( انکو الہام ہوا کہ وہ جناب زینب ہیں)، اس نورانی خاتون نے اپنے دست مبارک کو انکی آنکھ پر پھیر کر فرمایا: ’’اب تم ٹھیک ہوگئے ہو اور اب آنکھ کے درد میں مبتلا نہیں ہوگے‘‘ ناگاہ آنکھ کھولی تو مجلس میں موجود افراد کو دیکھا اور خوش ہوکر اپنے ماموں کی طرف دوڑے، مجلس میں موجود تمام افراد کا دل منقلب ہوگیا اور سب انکے ارد گرد اکٹھا ہوگئے پھر انکے ماموں نے انھیں دوسرے کمرہ میں بھیج دیا۔ زینب (سلام اللہ علیہا) سے توسل کی برکتوں میں سے ہے جو انھیں شفا ملی اور بینائی حاصل ہوئی [11]۔

فضائل

یہ عظیم خاتون عظیم دل، فصاحت، بلاغت، عفت، اور غیر معمولی جرأت کی مالک تھیں۔ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرتے تو ان کے احترام کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ زینب کبری نے اپنے دادا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اپنے والد امیر المومنین اور اپنی والدہ فاطمہ زہرا سے حدیث بیان کی ہے [12].

آپ کی فصاحت اور بلاغت

کوفہ اور دربارِ یزید میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی تقریریں اور خطبات جو قرآن کی آیات پر استدلال کے ساتھ ہوتے تھے، ان کے عالمہ ہونے کی نشانی ہے [13]. شیخ صدوق سے روایت ہے کہ زینب سلام اللہ علیھا اپنے علم و معرفت کی بنیاد پر امام حسین علیھ السلام کی خاص نائب تھیں ۔۔ لوگ شرعی مسائل ، حرام و حلال میں ان کی جانب مراجعہ کیا کرتے تھے [14]۔

نیابت اور وصیت کا مقام

ولایت اور وصیت کا منصب حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خصوصی صفات میں سے ہے، اس اعلیٰ معنوی اور انسانی مقام کی روشنی میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو ایک بے مثال مشن اور ذمہ داری سونپا گیا ہے جس کی پوری تاریخ میں کی مثال نہیں ملتی۔ بہر حال زینب کو مقام، منزلت، دانائی اور استعداد کی وجہ سے عقیلہ بنی ہاشم بھی کہا جاتا ہے [15].

عبادت

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے رات کو عبادت گذارتی اور زندگی بھر میں تہجد کو کبھی نہیں چھوڑا۔ آپ عبادت میں اس قدر مشغول تھی کہ آپ کو نام عابدہ آل علی کا لقب ملا [16]۔

صبر اور استقامت

حضرت زینب کو صبر جمیل کی مجسم کا لقب ملا ہے۔ دین اسلام کی پاسداری حفاظت کی راہ میں استقامت اور پایداری، مصیبت کے مقابلے میں ضبط نفس، دشمن کے سامنے کمزوری نہ دکھانا اور لوگوں کے سامنے غیرت و حمیت کو زینب سلام اللہ علیہا کے صبر کی خصوصیات میں شمار کیا گیا ہے۔ عاشورہ کے دن جب آپ نے اپنے بھائی کی خون آلود لاش دیکھی تو کہا اے اللہ! ہماری طرف سے یہ قربانی قبول فرما [17].

آپ کے خطبات

جناب زینب (س) کے خطبات میں ان کے والد امام علی (ع) کی فصاحت اور بلاغت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لہذا جس طرح امیرالمومنین علی (ع) کے کلام کو بزرگ علماء نے قیمتی موتیوں کی طرح جمع کیا ہے اسی طرح حضرت زینب س کے خطبات کو بھی بڑے بڑے محققین اور تاریخ دانوں نے اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے۔ ان میں مرحوم محمد باقر مجلسی کی کتاب "بحارالانوار"، مرحوم ابومنصور احمد ابن علی طبرسی کی کتاب "احتجاج"، شیخ مفید رہ کی کتاب "امالی" اور احمد ابن ابی طاہر کی کتاب "بلاغات النسائ " شامل ہیں [18]۔

وفات

حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا عنہا 56 سال کی عمر میں مختلف تکالیف، تکالیف اور مصائب برداشت کرنے کے بعد انتقال کر گئیں۔ آپ کی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف ہے، لیکن معلوم ہے کہ آپ کی وفات 15 رجب 62 ہجری بروز اتوار ہوئی۔ بعض نے ان کی وفات 14 رجب کو شمار کی ہے [19]۔ == دمشق، حرم حضرت زینب علیہا السلام کے تازہ ترین مناظر ==۔ دمشق پر تکفیریوں کے قبضے کے بعد حضرت زینب علیہا السلام کے حرم کا ماحول پرسکون اور زائرین پرامن ماحول میں زیارت کررہے ہیں۔ مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق، شام کے دارالحکومت دمشق پر تکفیری دہشت گردوں کے قبضے کے بعد حضرت زینب علیہا السلام کے ضریح مبارک سمیت مقدس مقامات کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔

دمشق سے موصولہ اطلاعات کے مطابق حضرت زینب علیہا السلام کے حرم مقدس کا ماحول پرامن اور پرسکون ہے۔ حرم زائرین کے لئے کھلا ہے اور زائرین اطمینان کے ساتھ حرم مبارک کی زیارت کررہے ہیں[20]۔


مدافع و پیرو ولایت

آج بھی حرم حضرت زینب پوری دنيا میں استقامت اور تکفیری، استبدادی اور عالمی لاقانونیت کی پیرو طاقتوں کے خلاف مزاحمت کا استعارہ ہے اور تاریخ میں بھی خطبات حضرت زینب یزید کے دربار میں ملوکیت و استبدادیت کو جھنجھوڑنے نظر آتے ہیں، آج کی نسل کس طرح کردار زینبی کو اپنا سکتی ہے؟

اہم نکات

استقامت و مقاومت سے مراد ثابت قدمی اور اپنے مبنی بر حق موقف پہ ڈٹے رہنے کا نام ہے قرآن کی آیت ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان پہ ڈٹے رہے، اللہ تعالیٰ ان کی استقامت کا اجر ان کی ملائکہ کی نصرت اور جنت کی بشارت کے ذریعے دیتا ہے جناب زینبؑ اپنے موقف میں معرفت میں ثابت قدمی کی معراج پرتھیں

حضرت زینبؑ نے تمام پنجتن پاکؑ کا زمانہ دیکھا، آپ کی شخصیت و ذات میں ان ذوات مقدسہ کی سیرت کے جلوے پائے جاتے ہیں آج تک اگر اسلام زندہ ہے، کربلا تابندہ ہے ، جتنا امام حسینؑ کا کردار تھا اُتنا ہی تھا۔ بی بی اگر اسوہ مقاومت و استقامت ہیں تو حالات کو سمجھتی ہیں، اپنے ارد گرد کی صورت حال کا درک کرنا، ظالم حکمرانوں اور طاغوتی قوتوں کی سازشوں کو سمجھتی ہیں حضرت زینبؑ بصیرت کے اس کمال پہ تھیں جہاں امام حسینؑ آپ کو دیکھنا چاتے تھے۔

حضرت زینب ؑ نے مدینہ و کوفہ میںآپ تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کو حقیقت قرآن سکھائی حضرت زینبؑ نے ولایت و امامت کا دفاع اپنی والدہ معظمہ ؑ کی سیرت کے مطابق کیا، اور حضرت زینب ؑ نے ولایت کا دفاع کرکے زین اب ہونے کا حق ادا کیا حضرت زینب ؑ کی سیرت کے مطابق ہمارے جوانوں کو اتباع امامت اور غیبت امام عج میں نائب امام ولایت کی اتباع اور دفاع کرنا ہے۔

مکتب اہل بیتؑ میں ہوتےہوئے اسوہ زینبیؑ یہ ہے کہ ہم اطاعت خدا و رسول، اطاعت امامت و ولایت اور نیابت کی اتباع کرنا اور اگر ولی فقیہہ حکومت قائم کرلے اس کی اتباع، دفاع اور احترام ہماری ذمہ داری ہے بی بی جب قید ہوکر دمشق پہنچی تو لوگ خوشی خوشی تماشا دیکھنے آئے تھے مگرحضرت زینب ؑ نے دمشق کے بازار میں جو خطبہ دیا ، لوگ روتے ہوئے پلٹے بی بی نے جو اہم بات کی

آپ نے اس عرب دستور کو یاد کرایا کہ جنگ کے بعد عرب بیٹی کو اسیر نہیں بنائیں گے، دوسرا مسلمان بیٹی کو اسیر نہیں بنائیں گے بی بی نے اُس زمانے کی داعشی سوچ کو اپنے خطبوں کے ذریعے بے نقاب کیا۔

آج بھی امریکی یہ بات مانے ہیں کہ ہم سات ٹریلین ڈالر خرچ کی کہ داعش بنا کر اسلامی حکومت کو تباہ کردیں، مگر علی ؑ والوں نے ولایت امیرالمومنین ؑ کی قوت رکھنے والوں نے داعش کو شکست دی۔ آج کے زمانے کا کام کیا ہے کہ جیسے بی بی زینبؑ نے اُس زمانے کے داعش کو بے نقاب کیا، آج کے زمانے کے اسلام دشمن داعش کو بے نقاب کرنا ہمارا وظیفہ ہے[21]۔

جناب زینبؓ ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت

کربلا کا معرکہ صرف ایک جنگ نہیں تھی بلکہ ایک پیغام تھا جو تاریخ کے سینے پر ہمیشہ کے لیے نقش ہوگیا گزشتہ مضمون میں جب ہم نے شام کی بات کی تو یہ ناممکن تھا کہ جناب زینبؓ بنت علی کا ذکر نہ کریں۔ جناب زینب جوکہ بہادری، قیادت اور ظلم کے خلاف مزاحمت کی زندہ علامت ہیں۔ تاریخ کے وہ چراغ ہیں جن کی روشنی صدیوں سے چمک رہی ہے۔ ان کے بغیر شام کی کہانی مکمل نہیں ہوتی۔

جناب زینبؓ جن کا تعلق علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرہؓ کے گھرانے سے تھا، صرف اہل بیت کی ایک اہم فرد ہی نہیں بلکہ ایک منفرد شخصیت تھیں جنھوں نے کربلا کے میدان میں حسین ابن علیؓ کے مشن کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اسے دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا، اگرکربلا ہمیں ظلم کے خلاف مزاحمت کا سبق دیتی ہے تو جناب زینبؓ ہمیں اس مزاحمت کو لفظوں خطبات اور عمل کے ذریعے دنیا تک پہنچانے کی مثال پیش کرتی ہیں۔

کربلا کا معرکہ صرف ایک جنگ نہیں تھی بلکہ ایک پیغام تھا جو تاریخ کے سینے پر ہمیشہ کے لیے نقش ہوگیا، لیکن اس پیغام کو عام کرنے کے لیے ایک بے مثال قیادت کی ضرورت تھی، یہ قیادت جناب زینبؓ نے فراہم کی۔ جب حسین ابن علیؓ اور ان کے ساتھی شہید ہوچکے تھے اور اہل بیت کے افراد کو قید کر کے یزید کے دربار میں لے جایا گیا تب جناب زینبؓ نے یزید کے دربار میں کھڑے ہو کر وہ خطبہ دیا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

یزید کے محل میں جہاں ظلم اور جبرکا سکوت چھایا ہوا تھا، جناب زینبؓ نے اپنے الفاظ سے اس سکوت کو توڑ دیا۔ ان کے خطبے نے یزید کی طاقت کو چیلنج کیا اور دنیا کو بتایا کہ اہل بیت حق اور عدل کے لیے کھڑے ہیں۔ ان کے الفاظ تھے۔ ’’یزید تیرا اقتدار عارضی ہے لیکن حق ہمیشہ قائم رہے گا۔‘‘ یہ خطبہ صرف ایک بیان نہیں تھا بلکہ ایک تحریک کی بنیاد تھی۔ ان کے الفاظ نے اہل بیت کی قربانیوں کو ایک زندہ حقیقت بنا دیا اور یزید کے ظلم کو تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے ایک سیاہ دھبے کی صورت میں درج کر دیا۔

جناب زینبؓ نے نہ صرف اہل بیت کی رہنمائی کی بلکہ دنیا کو یہ سکھایا کہ خواتین نہ صرف سماجی تبدیلی کا حصہ بن سکتی ہیں، بلکہ ظلم کے خلاف مزاحمت کی قیادت بھی کرسکتی ہیں۔ ان کی قیادت اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ عورت اگر ارادہ کرے تو دنیا کے سب سے بڑے جابر حکمرانوں کے سامنے کھڑی ہو سکتی ہے۔جناب زینبؓ کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ خواتین صرف اپنے گھروں تک محدود نہیں بلکہ وہ میدان جنگ میں بھی درباروں میں بھی اور سماجی تحریکوں میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان کی کہانی ان تمام خواتین کے لیے مشعل راہ ہے جو ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں۔

آج شام میں جہاں جنگ اور بدامنی کا راج ہے، جناب زینبؓ کا روضہ ان تمام لوگوں کے لیے امید کا ایک نشان ہے جو انصاف اور حق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ روضہ نہ صرف ایک تاریخی مقام ہے بلکہ ایک روحانی مرکز بھی ہے جہاں لوگ جناب زینبؓ کی شجات اور قربانیوں سے تحریک لیتے ہیں، لیکن ہمیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ نئے کنٹرول میں جہادی عناصر اس روضہ کو نقصان نہ پہنچائیں۔ یہ روضہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام انسانیت کے لیے ایک ورثہ ہے، اگر یہ روضہ خطرے میں ہے تو یہ صرف ایک عمارت کا نقصان نہیں ہوگا بلکہ ایک پوری تحریک کا نقصان ہوگا جو ظلم و جبر کے خلاف کھڑی ہے۔

جناب زینبؓ کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ظلم کبھی قائم نہیں رہ سکتا۔ ان کی زندگی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ حق کے لیے کھڑے ہونے والے کبھی تنہا نہیں ہوتے۔ ان کا پیغام آج بھی زندہ ہے اور دنیا کے ہرکونے میں گونج رہا ہے۔ اگر حسین ابن علیؓ کی قربانی ہمیں مزاحمت کا سبق دیتی ہے تو جناب زینبؓ ہمیں سکھاتی ہیں کہ اس مزاحمت کو کیسے دنیا تک پہنچایا جائے۔ ان کی کہانی ہر اس فرد کے لیے ایک مثال ہے جو ظلم کے خلاف کھڑا ہونا چاہتا ہے۔جناب زینبؓ ایک عظیم رہنما ایک بہادر خاتون اور حق و انصاف کی علمبردار تھیں۔ ان کا ذکر ہمیں ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا کہ جب تک دنیا میں ظلم ہے تب تک جناب زینبؓ کی کہانی زندہ رہے گی۔

یہ مضمون جناب زینبؓ کی زندگی اور ان کے پیغام کی صرف ایک جھلک ہے۔ ان کی کہانی ایک تحریک ہے جو آج بھی دنیا کو روشنی فراہم کر رہی ہے۔

شیر خدا کی بیٹی ہے جری ہے بے باک

گفتگو میں ہے تیغ طوفان میں ہے چٹان

(دبیر)

یزید کے دربار میں جو خطبہ دیا زینبؓ نے

لرز گئی زمین گرجا فلک دم بخود ہوئے سب

(دبیر)

صبر ایسا کہ صبر کو صبر آ گیا

رنج ایسا کہ پہاڑ بھی کانپ اٹھا

(انیس)

شیرکی بیٹی نے جب للکارا دربار میں

حاکموں کی گونج گم ہوگئی گفتار میں

(انیس) [22]۔

دمشق، حرم حضرت زینبؑ محرم کی آمد پر سیاہ پوش ہوگیا

الجولانی گروہ کی مخالفت کے باوجود خادمین حرم نے عزاداری کی تیاری مکمل کرلی، صحن میں علم و کتیبے نصب ماہ محرم کی آمد کے ساتھ ہی حرم حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو سیاہ پوش کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ الجولانی گروہ نے اس بار بھی علم اور سیاہ جھنڈے کی تنصیب میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی، تاہم خادمانِ حرم نے اس بار ان کی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے حرم کو مکمل طور پر عزاداری کے رنگ میں ڈھال دیا۔

حرم کے ایک خادم ابو زینب نے اس موقع پر کہا کہ الجولانی کے افراد نے روکنے کی کوشش کی، لیکن ہمارے لیے محرم ریڈ لائن ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال الجولانی گروہ نے نہ صرف عزاداری بلکہ خوشی کے مواقع پر بھی لگائے گئے بینرز اور کتیبے ہٹا دیے تھے اور حرم میں کسی قسم کی علامتی تنصیب کی اجازت نہیں دی تھی۔

تاہم گزشتہ سات ماہ میں شام کی صورتحال میں آنے والی تبدیلیوں کے بعد، اس سال حرم حضرت زینبؑ کے دروازوں اور صحنوں میں محرم کے علم، سیاہ پردے اور کتیبے نصب کیے گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، عزاداری کی مجالس بھی حرم میں منعقد کی جارہی ہیں[23]۔

حضرت زینب (س) خواتین طالبات کے لیے بصیرت اور استقامت کا درخشاں نمونہ ہیں

حوزہ علمیہ خواہران تہران کی استاد نے کہا: حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی سیرت حق کے دفاع، حقیقت کی تبیین اور انسانی کرامت کے تحفظ کے لیے ایک درخشاں نمونہ پیش کرتی ہے۔ خواتین طالبات اس نمونے کی روشنی میں علم، بصیرت، صبر اور استقامت حاصل کر کے اور میڈیا و روشنگری کی سرگرمیوں کے ذریعے ولایت کے راستے پر گامزن ہو کر اہداف مهدوی کی تکمیل میں مدد کر سکتی ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی سے گفتگو کے دوران حوزہ علمیہ خواہران تہران کی استاد محترمہ فاطمہ اسفندیاری نے خواتین طالبات کو حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی سیرت کو نمونہ قرار دینے کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: حضرت زینب سلام اللہ علیہا الہی ہدف، بصیرت اور استقامت کی کامل مثال ہیں اور خواتین طالبات ان کی نورانی سیرت سے الہام لے کر عصر غیبت میں امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی نصرت میں بے نظیر کردار ادا کر سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا: یہ سیرت حق کے دفاع، حقیقت کی تبیین اور انسانی کرامت کے تحفظ کے لیے ایک درخشاں نمونہ پیش کرتی ہے۔ خواتین طالبات اس نمونے کی روشنی میں علم، بصیرت، صبر اور استقامت حاصل کر کے اور میڈیا و روشنگری کی سرگرمیوں کے ذریعے ولایت کے راستے پر گامزن ہو کر اہداف مهدوی کی تکمیل میں مدد کر سکتی ہیں۔

حوزہ علمیہ خواہران تہران کی استاد نے کہا: حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی اقتدا حجاب اور عفت کے تحفظ میں، جو بصیرت اور وفاداری کی علامت ہیں، میں ایک مومن نسل کی تربیت کی کوشش میں بھی کی جا سکتی ہے جو ان کی سیرت سے الہام لینے کے دیگر پہلوؤں میں سے ہے[24]۔

حضرت زینب کے یوم ولادت پر نرسوں کے اجتماع سے خطاب

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 20 مہر سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 12 اکتوبر سنہ 1994 عیسوی کو ثانی زہرا حضرت زینب سلام اللہ علہیا کے یوم ولادت اور نرس ڈے کی مناسبت سے ملک کی نرسوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ نرس کا پیشہ اہم ترین پیشوں اور خدمات میں سے ایک ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں ہر شعبے میں عورتوں کی بھرپور شراکت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہماری خواتین میدان جنگ میں بھی آئیں، تعمیرنو کے میدان میں بھی آئیں، ذہنی قوتیں دکھانے کے میدان میں بھی آئیں اور سب سے زیادہ فعال رہیں۔

جن ہستیوں نے دشمن کے گوناگوں پروپیگنڈوں کے مقابلے میں زیادہ مزاحمت اور اسقتامت کا مظاہرہ کیا، وہ ہمارے ملک کی خواتیں ہیں۔ ہمارے دشمن اپنے پروپیگنڈوں میں، مختلف تنقیدوں کی شکل میں، رائی کا پہاڑ بناتے ہیں، چھوٹے سے مسئلے کو دس گنا بڑھاکر اس ریڈیو سے اور اس ریڈیو سے بیان کرتے ہیں۔ افسوس کہ خود ہمارے بعض بکے ہوئے قلم جنہیں انقلاب سے خدا واسطے کا بیر ہے، اس جریدے میں اور اس میگزین میں ان باتوں کو لکھتے ہیں۔ بعض پمفلٹ چھاپتے ہیں اور بعض آشکارا جریدوں میں لکھ کے پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔

لوگوں کو پیسہ دیتے ہیں کہ کسی چیز اور بس کی لائن میں کھڑے ہوکر برا بھلا کہیں۔ یہ پیسہ افواہ پھیلانے اور ماحول خراب کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اس ماحول میں ہماری خواتین نے زیادہ استقامت دکھائی ہے۔ الحمد للہ ان مومن خواتین کی تعداد، دشمنوں کی آنکھیں اندھی ہو جائیں، بہت زیادہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت باسعادت پر، دنیا کی تمام مسلم خواتین، بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران کی محترم، فداکار اور ممتاز خواتین، فداکار ماؤں اور عورتوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ایک بات نرس ڈے کی مناسبت سے عرض کروں گا اور وہ یہ ہے کہ اگر ان خدمات کی اہمیت جو عوام کے مختلف طبقات ایک دوسرے کے لئے انجام دیتے ہیں، اس طرح پرکھیں کہ ہر وہ خدمت جو انسان سے براہ راست رابطہ رکھتی ہو

ہر وہ خدمت جو دوسرے انسانوں سے ایک طرح کی غمگساری کا درجہ رکھتی ہو، ہر وہ خدمت جس کو انجام دینے والا زیادہ تکلیفیں برداشت کرے اور ہر وہ خدمت جو علم، معرفت، آگاہی اور تعلیم کی بنیاد پر ہو، اس کی اہمیت زیادہ ہے تو اس صورت میں میں سمجھتا ہوں کہ نرس کا پیشہ اہم ترین پیشوں اور خدمات میں سے ہوگا۔ کیونکہ نرسوں کا رابطہ براہ راست انسانوں سے ہوتا ہے، یہ ان انسانوں سے ہمدردی بھی ہے جنہیں مدد، غمگساری اور ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بھی کہ الحمد للہ یہ کام علم، دانش اور تعلیم کی بنیاد پر انجام دیا جاتا ہے۔

نرس کا سروکار چونکہ بیماروں سے ہوتا ہے، اس کو بیداری اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اور دوسروں سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، اس لئے اس کا پیشہ بہت اہم اور باعزت ہے۔ یہ حقائق ہیں، یہ نہیں ہے کہ لوگ نرسوں کے تعلق سے چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین، تکلفانہ یہ بات کہیں۔ بلکہ واقعی حقیقت میں ایسا ہی ہے۔ جب کام بہت بڑا اور بہت اہم ہو تو اس کے لئے دو فریق ذمہ دار ہیں، ایک عوام جنہیں اس کام کو باعزت اور اس کام کے کرنے والوں کو عزت دار سمجھنا چاہئے اور دوسرا خود وہ فرد ہے جس کے ذمے یہ باعزت اور بڑا کام ہے، خود اس کو بھی اپنے کام کی عزت کرنی چاہئے۔

میں عزیز نرسوں سے یہ عرض کرتا ہوں کہ آپ کو یہ توفیق ہوئی کہ یہ بڑا کام اپنے ذمے لیا ہے، یہ اہم کام انجام دے رہے ہیں، تو اس کی عزت کریں اور ایسا نہ ہونے دیں کہ خدا نخواستہ، معمولی سی غلطی، تقصیر، یا غلط رویئے سے یہ عظیم اور اہم کام مخدوش نہ ہو جائے۔ اس خدمت کو زیادہ سے زیادہ صحیح انداز میں انجام دیں۔ لوگوں کے امور زندگی کا نظام بہتر ہو جائے گا اور آپ کا اجر اور ثواب بڑھ جائے گا۔ خداوند عالم آپ کو اجر دے اور اس بڑی خدمت کو آپ کے لئے بابرکت اور عوام کے لئے موثر اور ان کے امور میں پیشرفت کا باعث قرار دے۔

عورت کا موضوع اور اس کے ساتھ معاشرے کا رویہ ایسا مسئلہ ہے جو ہمیشہ مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں در پیش رہا ہے

میری بہنو' عورت کا موضوع اور اس کے ساتھ معاشرے کا رویہ ایسا مسئلہ ہے جو ہمیشہ مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں در پیش رہا ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی ہمیشہ عورتوں کی رہی ہے۔ دنیا میں زندگی کی بقا جتنی مردوں پر منحصر ہے اتنی ہی عورتوں پر بھی منحصر ہے۔ آفرینش کے عظیم کام فطری طور پر خواتین کے ذمے ہیں۔ آفرینش کے بنیادی کام جیسے افزائش نسل اور بچوں کی پرورش عورتوں کے ہاتھ میں ہے۔ بنابریں خواتین کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے اور ہمیشہ معاشروں میں، مفکرین کے درمیان اور اقوام کے آداب و رسوم میں موجود رہا ہے۔

اسلام نے اس درمیان ایک ممتاز موضوع کا انتخاب کیا، افراط و تفریط کو روکا، اور تمام عالم کے لوگوں کو خبردار کیا۔ اسلام نے ان لوگوں کو جو جسمانی لحاظ سے طاقتور ہونے یا مالی توانائی کی بناء پر عورتوں اور مردوں سے کام لیتے تھے اور عورتوں کو ایذائیں دیتے تھے اور ان کی تحقیر کرتے تھے، ان کی اوقات میں رکھا اور خواتین کو ان کا حقیقی مرتبہ عطا کیا۔ اتنا ہی نہیں، بعض لحاظ سے عورتوں کو مردوں کے برابر قرار دیا۔ ان المسلمین و المسلمات والمومنین والمومنات مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، عبادت کرنے والے مرد اور عبادت کرنے والی عورتیں، تہجد پڑھنےوالے مرد اور تہجد پڑھنے والی عورتیں، اسلام میں یہ تمام روحانی اور انسانی درجات عورتوں اور مردوں میں برابر سے تقسیم ہوئے ہیں۔

ان امور میں عورتیں اور مرد ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ جو خدا کے لئے کام کرے من ذکر او انثی مرد ہو یا عورت، فلنحیینہ حیاتا طیبہ اسلام نے بعض مقامات پر عورتوں کو مردوں پر ترجیح دی ہے، مثال کے طور پر جہاں مرد اور عورت ماں باپ ہیں اور ان کی اولاد ہے، یہ اگر چہ ان دونوں کی اولاد ہے، مگر اولاد کے لئے ماں کی خدمت زیادہ واجب ہے۔ اولاد پر ماں کا حق زیادہ ہے اور ماں کی نسبت اولاد کا فریضہ زیادہ سنگین ہے۔

اس سلسلے میں کافی روایات ہیں۔ پیغمبر اکرم نے ایک شخص کے جواب میں جس نے سوال کیا کہ من ابر ( کس کے ساتھ نیکی کروں ) فرمایا امک یعنی اپنی ماں کے ساتھ۔ دوسری بار بھی یہی فرمایا اور تیسری بار بھی یہی فرمایا۔ چوتھی بار اس نے سوال کیا تو فرمایا اباک یعنی اپنے باپ کے ساتھ۔ بنابریں کنبے میں اولاد کی نسبت ماں کا حق زیادہ سنگین ہے۔ البتہ یہ اس لئے نہیں ہے کہ خداوند عالم نے ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ترجیح دینا چاہا ہے بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ عورتیں زیادہ زحمت اٹھاتی ہیں۔

یہ عدل الہی ہے، زحمت زیادہ ہے تو حق بھی زیادہ ہے۔ تکلیفیں زیادہ اٹھاتی ہے تو اس کی اہمیت بھی زیادہ ہے۔ یہ سب عدل کی رو سے ہے۔ مالی مسائل میں، کنبے کی سرپرستی کا حق خاندان کے امور چلانے کے فریضے کے تناسب سے ہے۔ اسلام کی روش معتدل روش ہے۔ اسلامی قانون نے ان چیزوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے کہ مرد پر ذرہ برابر ظلم ہو یا ذرہ برابر ظلم عورت پر ہو جائے۔ مرد کا حق مرد کو دیا ہے اور عورت کا حق عورت کو دیا ہے۔ ترازو کا ایک پلڑا مرد کو قرار دیا ہے تو دوسرا پلڑا عورت کو قرار دیا ہے۔ جو لوگ ان امور میں دقت کرنے والے ہیں اگر غور کریں توان باتوں کو دیکھیں گے۔ کتابوں میں لکھا ہے۔

آج ہماری دانشور اور عالم و فاضل خواتین الحمد للہ ان مسائل کو دوسروں سے بہتر، مردوں سے بہتر جانتی ہیں اور تبلیغ اور بیان کرتی ہیں۔ یہ رہی عورتوں اور مردوں کے حقوق کی بات۔ ایک بنیادی نکتہ ہے جس پر اسلام خاص تاکید کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زمانے میں چونکہ مردوں کے رویئے میں سختی پائی جاتی ہے، مشکلات کے مقابلے میں وہ قوی تر ہوتے ہیں اور ان کی جسمانی قوت زیادہ ہوتی ہے اس لئے اہم کام اور گوناگوں ذمہ داریاں اور طاقت ان کے اختیار میں رہی ہے جس نے مردوں کے لئے یہ امکان پیدا کیا کہ وہ جنس مخالف سے اپنے فائدے میں، غلط استفادہ کریں۔

آپ دیکھیں کہ کس سلطان، دولتمند، پیسے والے اور زور و زر کے مالک نے اپنے دربار اور نظام میں، پیسے، عہدے اور طاقت سے عورتوں کے ساتھ زیادتی نہیں کی اور ان سے غلط استفادے کے لئے کام نہیں لیا ہے ؟ اسلام یہاں پوری طاقت سے ڈٹ جاتا ہے اور معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے درمیان ایک حد معین کرتا ہے۔ اسلام کے نقطہ نگاہ سے کسی کو بھی اس حد کو توڑنے کا حق نہیں ہے۔ چونکہ اسلام کی نگاہ میں کنبہ بہت اہم ہے، گھر کے اند عورت اور مرد کا رابطہ اور ہے اور معاشرے میں اور ہے۔ اسلام نے معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے درمیان جو ضوابط پیش کئے ہیں، اگر انہیں توڑ دیا جائے تو کنبے کا شیرازہ بکھر جائے گا۔

زیادہ تر عورتوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے، ہاں کبھی ممکن ہے کہ مرد کے ساتھ بھی ظلم ہو جائے۔ اسلامی تہذیب عورتوں اور مردوں کے آزادانہ روابط اور بے راہروی کے ساتھ ملاپ کی اجازت نہیں دیتی۔ ان اصولوں کی پابند کے ساتھ گزاری جانے والی زندگی (اسلامی تہذیب کے مطابق ) خوش بختی کے ساتھ اور عقلی اصولوں کے مطابق جاری رہ سکتی ہے اور پیشرفت کر سکتی ہے۔ یہاں اسلام نے سختی کی ہے۔ وہ حد جو معاشرے میں قائم کی گئی ہے، مردوں کی طرف سے یا عورتوں کی طرف سے توڑی جائے تو اسلام اس کی سختی سے سرزنش کرتا ہے۔ بالکل اس کے برعکس جو دنیا کے شہوت پرست چاہتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے۔

طاقت والے، مال و زر والے، ان کے مرد، ان کی عورتیں اور ان کے نوکر چاکر اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ رہتے تھے اور ان کے لئے تھے، وہ سب اس کے بر عکس عمل کرتے رہے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان سے یہ حجاب ہٹ جائے۔ یہ بات معاشرے کی زندگی کے لئے مضر اور معاشرے کے اخلاق کے لئے بری ہے۔ معاشرے کی عفت کے لئے ضرر رساں اور سب سے بڑھکر خاندان کے لئے تباہ کن ہے۔ یہ خاندان کی بنیاد کو متزلزل کر دیتی ہے۔

اسلام خاندان کو اہمیت دیتا ہے

اسلام خاندان کو اہمیت دیتا ہے۔ مسلمانوں سے مغرب کے تشہیراتی اداروں کا تمام اختلاف اسی پر ہے۔ آپ دیکھیں کہ حجاب کے مقابلے میں کتنی حساسیت دکھاتے ہیں۔ اگر اسلامی جمہوریہ میں یہ حجاب ہو تو برا ہے۔ اگر عرب ملکوں میں ہو اور یونیورسٹیوں میں طالبات معرفت، آگاہی، اپنی خوشی سے اور اختیار کے ساتھ حجاب کریں تو مخالفت کرتے ہیں۔ اگر سیاسی پارٹیوں میں ہو تو مخالفت کرتے ہیں۔ اگر خود ان کے ملکوں کے کالجوں اور اسکولوں میں ہو جو خود ان کے زیر کنٹرول ہیں تو مخالفت کرتے ہیں۔ تو اختلاف کی وجہ یہ ہے۔ البتہ اپے پروپیگنڈوں میں مستقل شور مچاتے ہیں کہ اسلام میں یا اسلامی جمہوریہ میں عورت کے حقوق پامال کۓ گئے ہیں۔

خود بھی اس پر یقین نہیں رکھتے اور جانتے ہیں کہ اسلامی جمہویہ میں عورتوں کا حق نظر انداز نہیں ہوا ہے بلکہ اس کی تقویت ہوئی ہے۔ آپ دیکھیں کہ کالجوں، یونیورسٹیوں اور اعلا تعلیمی مراکز میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات اور خواتین کی تعداد آج زیادہ ہے یا شاہی حکومتوں کے دور میں زیادہ رہی ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج زیادہ ہے۔ ممتاز اور تعلیم میں اول آنے والی طالبات کی تعداد آج زیادہ ہے یا اس زمانے میں زیادہ تھی؟ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج زیادہ ہے۔ ملک کے طبی اور علاج معالجے کے مراکز اور مختلف سائنسی مراکز میں کام اور تحقیق میں مشغول خواتین کی تعداد آج زیادہ ہے یا اس زمانے میں زیادہ تھی؟ آپ واضح طور پر محسوس کریں گے کہ آج زیادہ ہے۔

ملک کے سیاسی میدان میں اور بین الاقوامی میدان میں سرگرم اور وہاں ملک و قوم کے جو ان کا اپنا ملک اور اپنی قوم ہے، حقوق اور نظریات کا دفاع کرنے والی خواتین کی تعداد آج زیادہ ہے یا اس زمانے میں زیادہ تھی؟ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج زیادہ ہے۔ اس زمانے میں خواتین مختلف وفود کے ساتھ دوروں پر جاتی تھیں مگر یہ امر نمائشی تھا۔ شہوت پرستی اور اس کو اور اس کو اپنی صورت اور کندھا دکھانے کے لئے یہ کام ہوتا تھا۔ مگر آج مسلمان خواتین، عالمی اداروں میں، عالمی کانفرنسوں میں، علمی مراکز میں اور یونیورسٹیوں میں علمی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔

اس زمانے میں، ملکہ حسن کا خطاب دیکر لڑکی کو خاندان کی محبت آمیز اور پاکیزہ آغوش سے نکال کر برائیوں کی دلدل میں گرا دیتے تھے۔ مگر آج ایسا نہیں ہے۔ عورت کا حق کہاں ضائع ہو رہا ہے؟ جہاں عورتوں کو تعلیم سے روک دیا جائے، جہاں عورتوں کو ان کے مناسب کاموں سے روک دیا جائے، جہاں عورتوں کو خدمت کرنے سے یا ان کی خدمت کئے جانے کو روک دیا جائے اور جہاں عورتوں کی توہین ہو جائیے اور امریکی معاشرے کو دیکھئے، آپ دیکھیں گے کہ وہاں عورتوں کی توہین کی جاتی ہے۔ گھریلو عورت کی شوہر توہین کرتا ہے۔ ماں کی توہین اولاد کرتی ہے۔ اسلامی مراکز میں جس طرح ماں کا حق ہے، وہاں نہیں ہے۔

ایک بین الاقوامی مرکز میں جس کی خصوصیات میں یہاں بیان کرنا نہیں چاہتا، ایک تقریر میں خاندان کے بارے میں ایک جملہ کہا گیا ہے۔ وہاں سے ہمارے پاس جو رپورٹیں آئیں، ان میں بتایا گیا ہے کہ اس ملک کے عوام نے اس جملے کی نسبت بہت زیادہ پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ چونکہ وہاں خاندان کا شیرازہ بکھر چکا ہے، عورتوں پر ظلم ہوتا ہے، مگر یہاں عورت اور مرد کے درمیان وہ حدبندی موجود ہے۔ اس حدبندی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورتیں اور مرد ایک جگہ تعلیم حاصل نہ کریں، ایک جگہ عبادت نہ کریں، ایک جگہ کام نہ کریں، ایک جگہ خرید و فروخت نہ کریں، ایسی جگہیں بہت ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرتی رویئے میں حد و فاصلہ رکھیں اور یہ بہت اچھا کام ہے۔

عورت یہاں اپنے حجاب کی حفاظت کرتی ہے۔ ہمارے عوام نے چادر کا انتخاب کیا ہے۔ البتہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ چادر ہی ہونا چاہئے اور چادر کے علاوہ دوسرا حجاب نہیں ہونا چاہئے، البتہ چادر دوسرے پردوں سے بہتر ہے مگر ہماری خواتین اپنے حجاب کی حفاظت کرنا چاہتی ہیں۔ چادر انہیں پسند ہے۔ چادر ہمارا قومی لباس ہے۔ چادر اسلامی حجاب سے زیادہ ایرانی حجاب ہے۔ ہمارے عوام کا اور ہمارا قومی لباس ہے۔ تعلیم یافتہ، پڑھنے لکھنے والی مسلمان اور مومن خواتین جو یا تو حصول علم میں مصروف ہیں یا بہترین یونیورسٹیوں میں اعلا سطح پر مختلف علوم کو پڑھانے میں مشغول ہیں، زیادہ ہیں اور یہ ہمارے اسلامی نظام کے لئے باعث افتخار ہے۔

ایسی خواتین ہیں جو الحمد للہ میڈیکل سائنس میں، دیگر مختلف علوم میں، پولیٹکل سائنس میں اور سائنس کے مختلف شعبوں میں اعلاترین مہارت رکھتی ہیں۔ ایسی خواتین بھی ہیں جنہوں نے دینی علوم میں کافی پیشرفت کی ہے اور اعلا سطح تک پہنچی ہیں۔ ایک وقت ایران میں، اصفہان میں ایک خاتون تھیں، جن کا نام بانو اصفہانی تھا۔ بہت عالی مرتبت خاتون تھیں۔ مجتہدہ، عارفہ اور فقیہ تھیں۔ مگر وہ اکیلی تھیں۔ آج الحمد للہ ایسی جوان طالبات جو بہت جلد فقہ اور فلسفے وغیرہ میں اعلا مدارج تک پہنچیں گی، بہت ہیں۔ یہ اسلامی نظام کے افتخارات میں سے ہے۔ عورت کی ترقی اس کو کہتے ہیں۔

مغرب اپنی تہذیب ہر جگہ مسلط کرنا چاہتا ہے۔ مغرب کی تہذیب عریانیت ہے۔ البتہ میں عرض کر دوں کہ یہ عریانیت، اخلاقی برائی، بے راہ روی اور یہ پستی، جو بہت سے مغربی ملکوں میں بعض عورتوں میں نظر آتی ہے، خود مغرب میں بھی ہمہ گیر نہیں ہے۔ یہ وہ کام ہے جو خود ان کی غلط تشہیرات کی وجہ سے روز بروز بڑھ رہا ہے، ورنہ چالیس پچاس سال پہلے مغربی ملکوں میں اس شدت سے نہں تھا۔ وہ وہی اخلاقی برائیوں اور بے راہ روی جس میں وہ خود گرفتار ہیں، اسلامی ملکوں کو برآمد کرنا چاہتے لیکن ہم یہ نہیں چاہتے۔ یہ معاشرتی زندگی کے لئے مضر ہے۔ خود ان کے لئے بھی مضر ہے۔ جہاں بھی ہو مضر ہے۔

ہمارے لئے بہترین روش، اسلامی روش ہے۔ ہماری خواتین نے انقلاب کے دوران اور انقلاب کے بعد ثابت کر دیا ہے کہ جو چیزیں، زندگی کا حقیقی معیار، امتیاز اور حقیقی قدریں ہیں، ان میں وہ اعلاترین سطح پر ہیں۔ جو ماں اپنے بیٹے کو راہ خدا میں ہدف کے لئے، اس ہدف کے لئے جو اس کے لئے بھی مقدس ہے اور خدا کے نزدیک بھی مقدس ہے، پیش کرتی ہے اور اس کی پیشانی پر بل نہیں آتے، درحقیقت وہ بہت نمایاں کام انجام دیتی ہے اور یہ معمولی کام نہیں ہے۔ جس معیار اور میزان پر بھی پرکھیں، باعظمت ہے۔

جو نوجوان عورت، اپنے شوہر اور اپنی عزت کو دس سال، گیارہ سال تک، اس مدت میں جب اس کا شوہر دشمن کی جیلوں میں قید ہوتا ہے، پوری عفت، سربلندی اور پاکدامنی کے ساتھ، محفوظ رکھتی ہے، کیا اس کا کام اہم نہیں ہے؟ ہماری خواتین میدان جنگ میں بھی آئیں، تعمیرنو کے میدان میں بھی آئیں، ذہنی قوتیں دکھانے کے میدان میں بھی آئیں اور سب سے زیادہ فعال رہیں۔ جن ہستیوں نے دشمن کے گوناگوں پروپیگنڈوں کے مقابلے میں زیادہ مزاحمت اور اسقتامت کا مظاہرہ کیا، وہ ہمارے ملک کی خواتیں ہیں۔ ہمارے دشمن اپنے پروپیگنڈوں میں، مختلف تنقیدوں کی شکل میں، رائی کا پہاڑ بناتے ہیں، چھوٹے سے مسئلے کو دس گنا بڑھاکر اس ریڈیو سے اور اس ریڈیو سے بیان کرتے ہیں۔ افسوس کہ خود ہمارے بعض بکے ہوئے قلم جنہیں انقلاب سے خدا واسطے کا بیر ہے، اس جریدے میں اور اس میگزین میں ان باتوں کو لکھتے ہیں۔ بعض پمفلٹ چھاپتے ہیں اور بعض آشکارا جریدوں میں لکھ کے پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔

یہ اسلامی تربیت اور اسلامی نظام ہے

لوگوں کو پیسہ دیتے ہیں کہ کسی چیز اور بس کی لائن میں کھڑے ہوکر برا بھلا کہیں۔ یہ پیسہ افواہ پھیلانے اور ماحول خراب کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اس ماحول میں ہماری خواتین نے زیادہ استقامت دکھائی ہے۔ الحمد للہ ان مومن خواتین کی تعداد، دشمنوں کی آنکھیں اندھی ہو جائیں، بہت زیادہ ہے۔ یہ زینبی اور فاطمی خواتین کا معاشرہ ہے۔

یہ اسلامی تربیت اور اسلامی نظام ہے۔ خواتین کا مرتبہ اور آزادی یہ ہے۔ البتہ ہمارے ملک کی خواتین کو معلوم ہونا چاہئے کہ ابھی ان کی پیشرفت کی بہت گنجائش ہے۔ میں اپنے ملک کی خواتین سے، ان خواتین سے بھی جو حصول علم میں مصروف ہیں اور ان خواتین سے بھی جو فارغ التحصیل ہو چکی ہیں، ان خواتین سے بھی جو سیاسی و سماجی سرگرمیوں اور دیگر فعالیتوں میں مصروف ہیں، ان خواتین سے بھی جو مختلف شعبوں میں اعلا عہدوں پر فائز ہیں اور ان خواتین سے بھی جو گھروں میں ہیں مگر ان کے دل انقلاب کے جذبے سے سرشار اور نور معرفت سے منور ہیں اور اپنے گھر کے ماحول کو اسلامی باقی رکھا ہے، گزارش کروں گا کہ اپنے معاشرے کی پیشرفت میں عورت کے کردار کے بارے میں زیادہ فکر کریں۔

سیاسی تنظیموں، علمی کارناموں، اہم خدمات، معلومات اور معرفت کی سطح بڑھانے اور تمام مراکز اور میدانوں میں دشمن کے مقابلے میں استقامت کے بارے میں فکر کریں جہاں استقامت موثر ہے۔ آپ دیکھیں کہ دشمن خفیہ طورپر بھی اور کھلے عام بھی، کتنے وحشیانہ انداز میں اسلامی مقدسات پر حملے کر رہا ہے؟! اس پورے پندرہ سال میں، امام (خمینی ) رضوان اللہ تعالی علیہ کی حیات کے دس برسوں میں بھی اور آپ کی رحلت کے بعد گذشتہ پانچ برسوں میں ایک لمحہ کے لئے بھی دشمن اسلامی جمہوریہ پر وار لگانے کی نیت سے باز نہيں آئے۔ کبھی آپ انہیں جو خاموش دیکھتے ہیں تو وہ سازش تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ اسلامی نظام اپنی جگہ مستحکم باقی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا وار کارگر ثابت نہیں ہوا، ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے وار نہ لگایا ہو۔

آج عالمی سامراج کے بعض بے خرد حکام صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور بعض نہیں کہتے اور خفیہ رکھتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں ان میں سے اکثر کا مقصد اسلام، اسلامی نظام اور مسلم قوم کو وار لگانا ہے۔ یہی ان دنوں کے معاملات، خلیج فارس پر امریکا کی لشکر کشی، طیارہ بردار جنگی بحری جہازوں اوربحریہ کے فوجیوں کا آنا، عراق کے اقدام پر پروپیگنڈہ مہم اور خود عراق کی فوجی کاروائی، ہماری نظر میں بہت مشکوک کام ہیں۔ ظاہر ہے کہ عالمی سامراج اس فکر میں ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو، اس علاقے میں اپنے قدم جمائے۔ ایک زمانے میں انگریزوں کو خلیج فارس میں مطلق حکمرانی حاصل تھی۔ الحمد للہ کہ اسلامی تحریک، ایرانی قوم کی بیداری اور مختلف واقعات نے انہیں خلیج فارس میں تہس نہس کر دیا۔ آج امریکی چاہتے ہیں کہ اپنی اور انگریزوں کی کھوئی ہوئی جگہ دوبارہ حاصل کریں۔

خلیج فارس میں تمہارا کیا کام ہے؟!

خلیج فارس میں تمہارا کیا کام ہے؟! خلیج فارس کی سلامتی کا تم سے کیا تعلق ہے؟ کہ دنیا کے اس سرے سے اٹھ کے آتے ہو اور دنیا کے اس سرے میں مداخلت کرتے ہو۔ کہتے ہیں یہاں ہمارے مفادات ہیں یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی ملک دوسرے ملکوں کے امور میں مداخلت کرے اور کہے ہمارے مفادات ہیں۔ پھر بین الاقوامی قوانین کس لئے ہیں؟ اتنی بڑی اقوام متحدہ کس لئے ہے؟ پھر یہ دعوے، یہ عالمی قراردادیں اور بین الاقوامی کنونشن کس لئے ہیں؟

یہ سب اس لئے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی منہ زور حکومت، اس بہانے سے کہ فلاں جگہ ہمارے مفادات ہیں، اٹھے اور کسی ملک، کسی علاقے، کسی سمندر، کسی خلیج یا کسی بین الاقوامی آبی راستے کی طرف چل پڑے۔ اس علاقے میں جس کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے، یعنی خلیج فارس میں، اس بہانے سے کہ عراق لشکر کشی کرنا چاہتا ہے اور عراق مسلسل اس کی تردید کرتا ہے۔ اتنی بڑی فوج لیکر کس لئے آئے ہو؟ یہ وہ مسائل ہیں جن کی نسبت ایرانی قوم کو حساس ہونا چاہئے۔

جو سمجھتے ہیں کہ دشمن سو گیا ہے، یہ نہ سمجھیں کہ اس خیال خام کے ساتھ زندگی گذاری جا سکتی ہے۔ امیر المومنین نے فرمایا ہے من نام لم ینم عنہ جن آنکھوں کے سامنے بڑا ہدف اور فطری طور پر بڑا دشمن ہو وہ نہیں سوتیں۔ اس مدت میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ ) مسلسل فرماتے رہے کہ ایرانی قوم حوادث عالم کے سلسلے میں اپنی حساسیت باقی رکھے۔ آج بھی یہ حساسیت ہونی چاہئے۔ اور الحمد للہ ہے۔ پورے ملک میں حزب اللہی اور مومن نوجوان اور گھرانے، سختی سے انقلابی اصولوں کے پابند ہیں۔ مومنہ خواتین، مومن مرد، مضبوط دل، بلند حوصلے، تمام میدانوں میں اس حد تک ہیں کہ پرودگار کے فضل سے دشمن کے مقابلے میں اپنے اسلام کا، اپنی اسلامی جمہوریہ کا، اپنے وقار کا، اپنی خودمختاری اور اپنے ملک کا دفاع کر سکتے ہیں۔

خداوند عالم آپ محترم خواتین کو جن میں سے ہرایک، اس ملک میں کسی کام میں، چاہے وہ یونیورسٹیوں کا کام ہو یا سروسز کے شعبے سے تعلق رکھتا ہو، علمی ہو یا سیاسی ہو، کسی نہ کسی کام میں مصروف ہے، کامیابی و کامرانی عطافرمائے اور انشاء اللہ حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کا اسوہ ہمیشہ ہمارے مردوں اور عورتوں کی نگاہوں کے سامنے زندہ و مجسم رہے۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ[25]۔

حوالہ جات

  1. قزوینی، محمد کاظم (۱۳۹۴)، زینب کبری من المهد الی الحد، قم: پیام قدس
  2. خصائص الزینبیہ، ص ۱۵
  3. زینب کبری عقیله بنی‌هاشم ،حسن الهی، ص۷۶
  4. الحسین فی طریقه الی الشهاده، ص۶۵
  5. حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی فضیلتوں کا اندازہ-tvshia.com/ur- اخذ شدہ بہ تاريخ: 7 نومبر 2024ء
  6. قرشی، السیده زینب، ص۲۹۸
  7. شریکۃ الحسین حضرت زینب کبری (س) کی ولادت با سعادت-valiasr-aj.com/urdu- شائع شدہ از: 2 فروری 2017ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء۔
  8. حضرت زینب (س) کا جہاد عاشورائی ثقافت کی بقا کا سبب بنا-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 19 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء-
  9. امین، اعیان الشیعه، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۳۷
  10. حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب-taghribnews.com/ur- شائع شدہ از: 27 جنوری 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء۔
  11. شہید دستغیب، داستان ھای شگفت، ص ۵۲۔
  12. الحسین فی طریقه الی الشهاده، ص۶۵
  13. کحّالہ، أعلام النساء، ۲۰۰۸، ج۲، ص۹۲-۹۷
  14. جناب زینب کبری سلام اللہ علیھا کی شخصیت کے بارے میں علماء اور دنشوروں کے نظریات-ur.imam-khomeini.ir/ur- شائع شدہ از: 10 دسمبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء۔
  15. جعفر النقدی، زینب الکبری بنت الامام، ص۶۱
  16. فضائل حضرت زینب سلام اللہ علیہا-ur.btid.org- شائع شدہ از: 2 جنوری 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء۔
  17. فیض الاسلام، خاتون دوسرا، ۱۳۶۶ش، ص۱۸۵
  18. حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی زندگی پر ایک نظر-erfan.ir/urdu- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 نومبر 2024ء۔
  19. سید مظفر علی خاں ،سلسلة الذہب فی فضائل حضرت زینب، کھنؤ, انڈیا، 1927ء، ص 202
  20. دمشق، حرم حضرت زینب علیہا السلام کے تازہ ترین مناظر-ur.mehrnews.com/news- شائع شدہ از: 9 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 دسمبر 2024ء
  21. حضرت زینب سلام اللہ علیہا مدافع و پیرو ولایت- شائع شدہ از: 30 نومبر 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 16 جنوری 2025ء
  22. زاہدہ حنا، جناب زینبؓ ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت- شائع شدہ از: 22 دسمبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 جنوری 2025ء
  23. دمشق، حرم حضرت زینبؑ محرم کی آمد پر سیاہ پوش ہوگیا- شائع شدہ از: 27 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 جون 2025ء
  24. حضرت زینب (س) خواتین طالبات کے لیے بصیرت اور استقامت کا درخشاں نمونہ ہیں- شائع شدہ از: 27 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:28 جولائی 2025ء
  25. حضرت زینب کے یوم ولادت پر نرسوں کے اجتماع سے خطاب- شائع شدہ 12اکتوبر 1994ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 اکتوبر 2025ء