زینب بنت علی
زینب بنت علی | |
---|---|
نام | زینب |
تاریخ ولادت | ۶۲۸ ہجری قمری 5 جمادی الاول |
جائے ولادت | مدینہ |
شهادت | 62 قمری 15 رجب |
القاب |
|
والد ماجد | امام علی علیہ السلام |
والدہ ماجدہ | حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا |
ہمسر | عبد اللہ ابن جعفر |
اولاد |
|
عمر | 56 |
مدفن | دمشق شام |
زینب بنت علی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی، علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی صاحبزادی ہیں۔ آپ ایک باکمال خاتون تھیں کہ جنہوں نے عاشورہ کے پیغام کی حفاظت اور پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کی۔ حضرت زینب علیہا السلام عالم اسلام کی ان منفرد اور بااثر شخصیات میں سے ایک ہیں جو صلح حدیبیہ کے بعد پانچویں یا چھٹے ہجری میں جمادی الاول کی 5 تاریخ کو امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے دو سال بعد مدنیہ منورہ میں بنی ہاشم کے محلے میں پیدا ہوئیں۔ واقعہ کربلا اور اس کے بعد اسیری کا دوران ان کا خاص کردار ہے۔ عاشورہ کے واقعہ میں اپنے عزیز و اقارب کی شہادت پر صبر اور استقامت کی وجہ سے، آپ صبر اور استقامت کا پیکر بن گئی۔ کوفہ اور شام کی اسیری کے دوران ان کے خطبوں نے اموی حکومت کا ظالمانہ اور شرمناک چہرہ عیاں کر دیا۔
سوانح عمری
آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے معتبر ترین روایت کے مطابق آپ کی ولادت ٥ جمادی الاول سن ٦ ہجری کو مدینہ میں ہوئی [1]۔ حضرت زینب علیہا السلام کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کرنے اور ان سے علم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ جب آپ سات سال کی تھیں تو ان کے نانا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہو گیا۔ اس کے تقریباً تین ماہ بعد فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی انتقال فرما گئیں۔ زینب سلام اللہ علیہا کی شادی عبداللہ بن جعفر طیار علیہ السلام سے ہوئی۔ ان کے پانچ بچے ہوئے جن میں سے عون اور محمد کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہید ہو گئے۔ دیگر تین عبد اللہ ، عباس، ام کلثوم ہیں۔
آپ کیلئے نام کا انتخاب
شیعہ روایات کے مطابق جب زینب کی ولادت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر تھے مدینہ میں نہیں تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر حضرت علی علیہ السلام سے کہا کہ وہ اپنے بچے کے لیے کوئی نام منتخب کریں.
لہذا حضرت فاطمہ (ع) نے امام علی (ع) کو کہا کہ آپ اس بچی کیلئے کوئی نام انتخاب کریں ۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول خدا (ص) کے واپس آنے کا انتظار کر لیا جائے۔ جب پیغمبر اکرم (ص) سفر سے واپس آئے تو حضرت علی (ع) نے انہیں یہ خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ اس بچی کا نام آپ انتخاب کریں ۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ اس کا نام خدا انتخاب کرے گا۔ اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور خدا کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا کہ "خدا نے اس بچی کا نام زینب رکھا ہے" [2].
آپ کا بچپن اور تربیت
انسان کی زندگی کا اہم ترین زمانہ اس کے بچپن کا زمانہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی شخصیت کا قابل توجہ حصہ اس دور میں معرض وجود میں آتا ہے۔ اس سے بھی اہم وہ افراد ہوتے ہیں جو اس کی تربیت میں موثر واقع ہوتے ہیں۔
حضرت زینب س کی خوش قسمتی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کرنے والی خاتون سیدہ نسائ العالمین حضرت فاطمہ س ہیں اورآپ امام علی ع جیسے باپ کی زیر نگرانی پرورش پاتی ہیں۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم (ص)، جو تمام انسانوں کیلئے "اسوہ حسنہ" ہیں ، نانا کی حیثیت سے آپ کے پاس موجود ہیں ۔ لہذا یہ آپ کے افتخارات میں سے ہے کہ آپ نے رسول خدا ص، امام علی ع اور فاطمہ زھرا س جیسی بے مثال شخصیات کی سرپرستی میں پرورش پائی۔
حضرت زینب س کی شادی
حضرت زینب(ع) کی شادی ٧١ ہجری میں اپنے چچا کے بیٹے عبداللہ ابن جعفر ابن ابیطالب سے ہوئی۔ عبداللہ حضرت جعفر طیار کے فرزند تھے اور بنی ہاشم کے کمالات سے آراستہ تھے۔ آپ کے چار فرزند تھے جنکے نام محمد، عون، جعفر اور ام کلثوم ہیں [3].
واقعۂ کربلا میں
جب امام حسین علیہ السلام یزید کی بیعت سے انکار کرنے کے بعد مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو زینب اپنے بھائی کے ساتھ اپنے دو بچوں جن کا نام محمد اور عون تھا، اپنے بھائی کے ساتھ تھیں۔ تحریک عاشورہ کے دوران زینب کی عظیم قربانیوں کا کردار بہت تھا۔ عاشورہ کے موقع پر آپ کو اپنے عزیز ترین افراد یعنی اپنے بھائیوں، بچوں اور بھائیوں کے بچوں کی مصیبتیں برداشت کرنا پڑی۔ لیکن آپ نے ان تمام مصیبتوں کو برداشت کیا اور ابن زیاد کے طنزیہ سوال کے جواب میں جب اس نے پوچھا: خدا نے آپ بھائیوں اور بجوں کے ساتھ کیا کیا اور ان کا انجام کار کو کیسے دیکھا؟
تو حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے فرمایا: "و ما رأیتُ الاّ جمیلاً" [4]. میں نے خیر اور حسن و جمال کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ روایت ہے کہ آپ نے اپنے دونوں بچوں کو اپنے ہاتھوں سے جنگی کپڑوں سے ڈھانپ کر دونوں کو امام حسین علیہ السلام کے قدموں میں شہادت کے مقام پر روانہ کیا۔ نیز اپنے بچوں کی شہادت کے بعد ان کے لیے ماتم نہیں کیا؛ اس لیے کہ اس نے ان دونوں قربانیوں کو اس عظیم انسان کے لیے بہت چھوٹا دیکھا اور اس فکر میں تھا کہ اپنے آنسوؤں کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے دل میں ندامت نہ آجائے۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے امام زین العابدین علیہ السلام کی دیکھ بھال کی اور آپ کی بیماری کی وجہ سے آپ قیدیوں کے قافلے کی انچارج تھیں اور اپنا اور اپنے شہید بھائی حسین بن علی علیہ السلام کا دفاع کیا۔ امام سجاد علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میری پھوپھی جان عالمہ غیر معلمہ ہیں۔ آپ کے کمالات صرف علم تک ہی محدود نہیں بلکہ زندگی کے مختلف حصوں میں آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو منظر عام پر آئے[5]۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کربلا میں موجود تھیں۔ واقعہ کربلا کے بعد زینب سلام اللہ علیہا کا کردار بہت اہم ہے۔ واقعہ کربلا کے بعد آپ کو دمشق لے جائی گئیں جہاں یزید کے دربار میں دیا گیا ان کا خطبہ بہت مشہور ہے۔ آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا۔
یزید کے مظالم کو بیان کر کے جو یزید نے کربلا کے میدان میں اہل بیت رسول(ع) پر روا رکھے تھے؛ زینب (ع) نے لوگوں کو سچائی سے آگاہ کیا۔ آپ کے خطبہ کے سبب ایک انقلاب برپا ہوگيا جو بنی امیہ کی حکومت کے خاتمے کے ابتدا تھی [6].
واقعہ کربلا کے بعد
کربلا کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک بے مثال واقعہ ہے۔ لہذا اس کو تشکیل دینے والی شخصیات بھی ایک منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے ایک مقدس اور اعلی ہدف کی خاطر یہ عظیم قربانی دی۔ لیکن اگر حضرت زینب (س) اس عظیم واقعے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں تو بلاشک وہ تمام زحمتیں ضائع ہو جاتیں۔
محمدجواد مغنیہ لبنان کے متفکر نے لکھا ہے کہ: علی (ع) نے علوم کو رسول خدا بغیر کسی واسطے کے حاصل کیا تھا اور ان علوم کو اپنی اولاد کو سیکھایا تھا اور ہم تک یہ تمام علوم علی (ع) کی اولاد کے ذریعے سے پہنچے ہیں۔ اسی وجہ سے بنی امیہ نے چاہا کہ نسل علی ختم کر دیں اور انکا کوئی بھی اثر باقی نہ رہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ: شمر نے کہا تھا کہ امیر عبید اللہ کا فرمان ہے کہ: حسین کی تمام اولاد کو قتل کیا جائے اور کوئی بھی زندہ نہ بچے۔ شمر نے یہ بات اس وقت کہی تھی کہ جب علی ابن حسین کو قتل کرنے کے لیے تلوار کو نیام سے نکالا ہوا تھا، اسی وقت زینب سامنے آئی اور کہا کہ: اگر اسکو قتل کرنا ہے تو پہلے مجھے بھی ساتھ قتل کرنا ہو گا [7]
لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم آج شہدای کربلا کے پیغام سے آگاہ ہیں اور ان کی اس عظیم قربانی کے مقصد کو درک کرتے ہیں تو یہ سب حضرت زینب س کی مجاہدت اور شجاعانہ انداز میں اس پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے کا نتیجہ ہے۔ شاید اسی وجہ سے انہیں "شریکۂ الحسین ع" کا لقب دیا گیا ہے۔ اگر امام حسین ع اور انکے ساتھیوں نے اپنی تلواروں کے ذریعے خدا کے رستے میں جہاد کیا تو حضرت زینب س نے اپنے کلام کے ذریعے اس جہاد کو اپنی آخری منزل تک پہنچایا۔
کربلا میں سرور شہیدان امام حسین ع اور انکے ساتھیوں کو شہید کرنے کے بعد دشمن یہ سوچ رہا تھا کہ اس کو ایک بے نظیر فتح نصیب ہوئی ہے اور اسکے مخالفین کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو گیا ہے۔ لیکن حضرت زینب (س) کے پہلے ہی خطبے کے بعد اس کا یہ وہم دور ہو گیا اور وہ یہ جان گیا کہ یہ تو اسکی ہمیشہ کیلئے نابودی کا آغاز ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے عاشورہ کے دن یہ درس دیا کہ فتح حاصل کرنے کے لیے خون کے دریا کو عبور کرنا ہوگا اور حضرت زینب نے اس ثقافتی تحریک کو آگے بڑھایا۔ امام حسین نے خون کے اس دریا کو عبور کیا تاہم حضرت زینب نے عاشورائی اقدار کی راہ میں استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مبارک اور طاقتور تحریک کو دشمن کے شیطانی پروپیگنڈوں سے بچایا۔ اگر یہ مبارک تحریک نہ ہوتی تو دشمن اہل بیت کے خلاف جنگ جیت چکا ہوتا لیکن حضرت زینب نے بنی امیہ کے پروپیگنڈے خلاف تن تنہا کھڑی رہیں اور اپنے خطبوں سے شہدائے کربلا کے خون کا دفاع کرتی رہیں [8]۔
القاب
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نام زینب رکھا جس کا لغوی معنی اچھا نظارہ اور خوشبو والا درخت ہے یا اس کا مطلب زین اب ہے جس کا مطلب باپ کی عزت اور زینت ہے۔ ان کے لیے بہت سے القابات بیان کیے گئے ہیں۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنے کی وجہ سے ام المصاب کا لقب بھی دیا گیا ہے۔ اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات، والدہ محترمہ کی بیماری اور شہادت، آپ کے والد امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت، آپ کے بھائی امام مجتبی علیہ السلام کی شہادت، واقعہ کربلا اور کوفہ اور شام میں اسیر ہونا ان کی زندگی کے سخت اور تلخ واقعات میں شمار ہوتا ہے [9]. تاریخی کتابوں میں آپ کے ذکر شدہ القاب کی تعداد 61 ہے۔ ان میں سے کچھ مشہور القاب درج ذیل ہیں:
ثانیِ زہرا،
- عالمہ غیر معلمہ
- نائبۃ الزھراء
- عقیلہ بنی ہاشم
- نائبۃ الحسین
- صدیقہ صغری
- محدثہ
- زاہدہ
- فاضلہ
- شریکۃ الحسین
- راضیہ بالقدر والقضاء
آپ کی کرامت
زینب (سلام اللہ علیہا) جس طرح بھائی سے محبت اور خدا کی عبادت کے حوالے سے معروف ہیں اسی طرح آپ کی کرامتوں کے واقعات بھی آپ کے کریمہ ہونے کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔ جود و سخاوت، مدد، کرامت، عطا، اہلبیت (علیھم السلام) کے گھرانہ کا خاصہ ہے اور یہ خصوصیت اس گھرانہ کے معصومین سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس گھرانے کے غیر معصوم افراد بھی ایسے کمال کے مرتبہ پر فائز تھے جو اپنے کو عصمت کے دائرہ سے نزدیک پہونچا چکے تھے جن میں سر فہرست جناب زینب(سلام اللہ علیھا) اور جناب عباس(علیہ السلام) ہیں۔
حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) کی کرامت کے واقعات کتابوں میں موجود ہیں، ہم یہاں پر صرف ایک واقعہ کو ذکر کررہے ہیں۔ مرحوم محمد رحیم اسماعیل بیک، اہلبیت(علیہم السلام) سے محبت اور امام حسین(علیہ السلام) سے توسل کے لئے معروف تھے اور اس حوالے سے انھیں بہت سی ظاہری اور معنوی برکتیں حاصل ہوئیں [10]۔
منقول ہے کہ چھ سال کی عمر میں وہ آنکھوں کے درد میں مبتلا ہوئے اور ۳ سال تک اس بیماری میں گرفتار رہے اور پھر دونوں آنکھوں سے نابینا ہوگئے۔ ماہ محرم میں انکے ماموں مرحوم حاج محمد تقی اسماعیل بیک کے گھر میں مجلس عزا تھی، گرمی کا موسم تھا اور مجلس میں شربت تقسیم ہو رہا تھا، انھوں نے اپنے ماموں سے کہا کہ انھیں بھی شربت تقسیم کرنے کی اجازت دیں۔ ان کے ماموں نے فرمایا کہ تمھارے تو آنکھ نہیں ہے، تو انھوں نے کہا کہ اس کام کے لئے کسی کو میرا مددگار بنا دیں، درخواست قبول کی اور پھر انہی کے ساتھ مل کر عزاداروں کے بیچ شربت تقسیم کیا۔
مرحوم معین الشریعہ اصطھباناتی مجلس پڑھ رہے تھے، انھوں نے جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کے مصائب بیان کئے جس سے محمد رحیم بہت متأثر ہوئے، بہت روئے اور نڈھال ہوگئے، اسی حالت میں ایک باعظمت خاتون کو دیکھا( انکو الہام ہوا کہ وہ جناب زینب ہیں)، اس نورانی خاتون نے اپنے دست مبارک کو انکی آنکھ پر پھیر کر فرمایا: ’’اب تم ٹھیک ہوگئے ہو اور اب آنکھ کے درد میں مبتلا نہیں ہوگے‘‘ ناگاہ آنکھ کھولی تو مجلس میں موجود افراد کو دیکھا اور خوش ہوکر اپنے ماموں کی طرف دوڑے، مجلس میں موجود تمام افراد کا دل منقلب ہوگیا اور سب انکے ارد گرد اکٹھا ہوگئے پھر انکے ماموں نے انھیں دوسرے کمرہ میں بھیج دیا۔ زینب (سلام اللہ علیہا) سے توسل کی برکتوں میں سے ہے جو انھیں شفا ملی اور بینائی حاصل ہوئی [11]۔
فضائل
یہ عظیم خاتون عظیم دل، فصاحت، بلاغت، عفت، اور غیر معمولی جرأت کی مالک تھیں۔ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرتے تو ان کے احترام کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ زینب کبری نے اپنے دادا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اپنے والد امیر المومنین اور اپنی والدہ فاطمہ زہرا سے حدیث بیان کی ہے [12].
آپ کی فصاحت اور بلاغت
کوفہ اور دربارِ یزید میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی تقریریں اور خطبات جو قرآن کی آیات پر استدلال کے ساتھ ہوتے تھے، ان کے عالمہ ہونے کی نشانی ہے [13]. شیخ صدوق سے روایت ہے کہ زینب سلام اللہ علیھا اپنے علم و معرفت کی بنیاد پر امام حسین علیھ السلام کی خاص نائب تھیں ۔۔ لوگ شرعی مسائل ، حرام و حلال میں ان کی جانب مراجعہ کیا کرتے تھے [14]۔
نیابت اور وصیت کا مقام
ولایت اور وصیت کا منصب حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے خصوصی صفات میں سے ہے، اس اعلیٰ معنوی اور انسانی مقام کی روشنی میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو ایک بے مثال مشن اور ذمہ داری سونپا گیا ہے جس کی پوری تاریخ میں کی مثال نہیں ملتی۔ بہر حال زینب کو مقام، منزلت، دانائی اور استعداد کی وجہ سے عقیلہ بنی ہاشم بھی کہا جاتا ہے [15].
عبادت
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے رات کو عبادت گذارتی اور زندگی بھر میں تہجد کو کبھی نہیں چھوڑا۔ آپ عبادت میں اس قدر مشغول تھی کہ آپ کو نام عابدہ آل علی کا لقب ملا [16]۔
صبر اور استقامت
حضرت زینب کو صبر جمیل کی مجسم کا لقب ملا ہے۔ دین اسلام کی پاسداری حفاظت کی راہ میں استقامت اور پایداری، مصیبت کے مقابلے میں ضبط نفس، دشمن کے سامنے کمزوری نہ دکھانا اور لوگوں کے سامنے غیرت و حمیت کو زینب سلام اللہ علیہا کے صبر کی خصوصیات میں شمار کیا گیا ہے۔ عاشورہ کے دن جب آپ نے اپنے بھائی کی خون آلود لاش دیکھی تو کہا اے اللہ! ہماری طرف سے یہ قربانی قبول فرما [17].
آپ کے خطبات
جناب زینب (س) کے خطبات میں ان کے والد امام علی (ع) کی فصاحت اور بلاغت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لہذا جس طرح امیرالمومنین علی (ع) کے کلام کو بزرگ علماء نے قیمتی موتیوں کی طرح جمع کیا ہے اسی طرح حضرت زینب س کے خطبات کو بھی بڑے بڑے محققین اور تاریخ دانوں نے اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے۔ ان میں مرحوم محمد باقر مجلسی کی کتاب "بحارالانوار"، مرحوم ابومنصور احمد ابن علی طبرسی کی کتاب "احتجاج"، شیخ مفید رہ کی کتاب "امالی" اور احمد ابن ابی طاہر کی کتاب "بلاغات النسائ " شامل ہیں [18]۔
وفات
حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا عنہا 56 سال کی عمر میں مختلف تکالیف، تکالیف اور مصائب برداشت کرنے کے بعد انتقال کر گئیں۔ آپ کی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف ہے، لیکن معلوم ہے کہ آپ کی وفات 15 رجب 62 ہجری بروز اتوار ہوئی۔ بعض نے ان کی وفات 14 رجب کو شمار کی ہے [19]۔
حوالہ جات
- ↑ قزوینی، محمد کاظم (۱۳۹۴)، زینب کبری من المهد الی الحد، قم: پیام قدس
- ↑ خصائص الزینبیہ، ص ۱۵
- ↑ زینب کبری عقیله بنیهاشم ،حسن الهی، ص۷۶
- ↑ الحسین فی طریقه الی الشهاده، ص۶۵
- ↑ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی فضیلتوں کا اندازہ-tvshia.com/ur- اخذ شدہ بہ تاريخ: 7 نومبر 2024ء
- ↑ قرشی، السیده زینب، ص۲۹۸
- ↑ شریکۃ الحسین حضرت زینب کبری (س) کی ولادت با سعادت-valiasr-aj.com/urdu- شائع شدہ از: 2 فروری 2017ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء۔
- ↑ حضرت زینب (س) کا جہاد عاشورائی ثقافت کی بقا کا سبب بنا-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 19 نومبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء-
- ↑ امین، اعیان الشیعه، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۱۳۷
- ↑ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب-taghribnews.com/ur- شائع شدہ از: 27 جنوری 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء۔
- ↑ شہید دستغیب، داستان ھای شگفت، ص ۵۲۔
- ↑ الحسین فی طریقه الی الشهاده، ص۶۵
- ↑ کحّالہ، أعلام النساء، ۲۰۰۸، ج۲، ص۹۲-۹۷
- ↑ جناب زینب کبری سلام اللہ علیھا کی شخصیت کے بارے میں علماء اور دنشوروں کے نظریات-ur.imam-khomeini.ir/ur- شائع شدہ از: 10 دسمبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء۔
- ↑ جعفر النقدی، زینب الکبری بنت الامام، ص۶۱
- ↑ فضائل حضرت زینب سلام اللہ علیہا-ur.btid.org- شائع شدہ از: 2 جنوری 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء۔
- ↑ فیض الاسلام، خاتون دوسرا، ۱۳۶۶ش، ص۱۸۵
- ↑ حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی زندگی پر ایک نظر-erfan.ir/urdu- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 نومبر 2024ء۔
- ↑ سید مظفر علی خاں ،سلسلة الذہب فی فضائل حضرت زینب، کھنؤ, انڈیا، 1927ء، ص 202