ابو مہدی المہندس

ویکی‌وحدت سے
ابو مہدی المہندس
ابومهدی المهندس.jpg
دوسرے نامجمال جعفر تمیمی، ابومہدی المهندس
ذاتی معلومات
پیدائش1954 ء، 1332 ش، 1373 ق
یوم پیدائش1جولائی
پیدائش کی جگہبصرہ عراق
یوم وفات3جنوری
وفات کی جگہبغداد
مذہباسلام، شیعہ
مناصب

ابو مہدی المہندس جمال جعفر محمد علی آل ابراہیم (16 نومبر 1954- 3 جنوری 2020ء) کنیت ابو مہدی المہندس سے مشہور ایک عراقی سیاست دان، فوجی کمانڈر، حزب الدعوة الاسلامیۂ عراق اور مجلس اعلای عراق کے ارکان میں سے تھے۔ اپنی شہادت کے وقت، آپ پاپولر موبلائزیشن کمیٹی (حشد الشعبی) کے نائب چیف تھے اور ان کی زیر نگرانی تنظیموں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کا ایک حصہ قدس فورس سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔ ابو المہدی کتائب حزب اللہ ملیشیا کا کمانڈر بھی تھے اور اس سے قبل صدام حسین حکومت کے خلاف سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ساتھ کام کیا تھا۔ آپ 3 جنوری 2020ء کو بغداد بین الاقوامی ہوائی اڈے پر امریکی ڈرون حملے میں شہید ہو گئے جس میں ایرانی مسلح افواج کے میجر جنرل قاسم سلیمانی بھی شہید گئے تھے۔

سوانح حیات

جمال جعفر آل ابراہیم 1 جولائی 1954ء کو ابو الخسیب ضلع، بصرہ گورنریٹ، عراق میں ایک عراقی والد اور ایک ایرانی والدہ سے پیدا ہوئے تھے۔ ابو مہدی ان کا لقب تھا۔ ان کا اصل نام جمال جعفر محمد اور ان کا خاندانی نام آل ابراہیم تھا۔ یوں ان کا مکمل نام جمال جعفر محمد آل ابراہیم المعروف ابو مہدی مہندس ہے۔ آپ عراقی شہری تھے اور ایران میں انہیں جمال ابراہیمی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔

تعلیم

مہندس فارسی میں انجینئر کو کہتے ہیں۔ انہوں نے بغداد کے پولی ٹیکنیک کالج سے سول انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور اسی سبب وہ مہندس یعنی انجینئر کے نام سے معروف تھے۔ انہوں نے 1977ء میں انجینئری میں تعلیم مکمل کی اور اسی سال شیعہ تنظیم حزب الدعوۂ الاسلامیہ پارٹی میں شمولیت اختیار کی جس نے بعثت حکومت کی مخالفت کی۔ ایران میں قیام کے دوران شہید ابو مہدی نے اعلیٰ تعلیم مکمل کر لی۔ انہوں نے بین الاقوامی تعلقات میں پہلے ایم فل تو بعدازاں پی ایچ ڈی مکمل کی۔

پی ایچ ڈی ڈاکٹر بن جانے کے باوجود شہید ابو مہدی کو تا دمِ شہادت انجینئر (مہندس) کے لقب سے ہی جانا جاتا رہا۔

سید حسن نصر اللہ میرا قائد

ایک اور ویڈیو انٹرویو میں شہید ابو مہدی لبنان کی مزاحمتی تحریک کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کو اپنا قائد اور آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ شہید ابو مہدی اس انٹرویو میں کہتے ہیں کہ وہ سید حسن نصر اللہ کی قیادت میں حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں مزاحمت سے انتہائی متاثر ہیں اور وہ عراق میں امریکی سامراج کے مقابلے میں حزب اللہ لبنان طرز کی مزاحمت وجود میں لانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے اسلامی مزاحمت کے ساتھ اپنے تعلق کو کبھی مخفی نہیں رکھا اور ہمیشہ خود کو اسلامی مزاحمت کا ایک حصہ اور ادنیٰ سپاہی قرار دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شہادت کے بعد یروشلم پوسٹ نے بھی اپنے ایک مضمون میں انہیں شہید قاسم سلیمانی اور سید حسن نصر اللہ کا ہم خیال اور ابو مہدی کو انہی کے خاندان کا فرد قرار دیا تھا۔ ابو مہدی کا نظامِ ولایت کے زیر سایہ وجود میں آنے والی اسلامی مزاحمت سے گہرا تعلق ان کے لیے افتخار تھا۔

امریکی انخلا تک امریکہ کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے

شہید ابو مہدی کے بقول عراقی قوم بالخصوص اور خطے کی اقوام کا بالعموم اصل دشمن امریکہ ہے اور وہ خطے سے مکمل امریکی انخلا تک امریکہ کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ شہادت کے وقت ابو مہدی حشد الشعبی کے نائب سربراہ تھے۔ حشد الشعبی کم و بیش 40 عراقی مزاحمتی گروہوں پر مشتمل ایک عسکری اتحاد ہے، جو 2014ء میں عراق پر داعش کے قبضے کے بعد وجود میں آیا۔ ایک لاکھ باقاعدہ اور دو لاکھ ریزرو فوج کا حامل یہ عسکری اتحاد (حشد الشعبی) 2014ء میں عراق کی دینی مرجعیت کے حکم پر وجود میں آیا۔

2017ء میں پارلیمانی قرارداد اور حکومتی آرڈر کے تحت حشد الشعبی کو عراق کی دیگر مسلح افواج کی طرح سرکاری پیرا ملٹری فوج کا درجہ دے دیا گیا، جس کی آئینی کمان عراقی وزیراعظم کے پاس ہے۔ یوں شہید ابو مہدی عراق کے ایک سرکاری عہدیدار بھی تھے اور امریکہ نے صرف کسی رضاکار غیر سرکاری مسلح گروہ یا اتحاد کے کسی کمانڈر کو نہیں بلکہ عراق کی سرکاری پیراملٹری فوج کے نائب سربراہ کو شہید کیا ہے اور ایک ایسے ملک کے کمانڈر کو قتل کرنا، جس ملک کے ساتھ آپ حالتِ جنگ میں نہ ہوں، خود سے جنگی جرم محسوب ہوتا ہے۔

حزب الدعوۃ الاسلامیہ کی بنیاد

60 کی دہائی میں عراق میں دینی مرجعیت خصوصاً آیت اللہ محمد باقر الصدر کی قیادت میں حزب الدعوۃ الاسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ حزب الدعوۃ الاسلامیہ عرب دنیا میں عرب قوم پرستی کے مقابلے میں اخوان المسلمین کے بعد دوسری اسلامی تحریک تھی، جو عرب دنیا کے مسائل کو اسلامی تناظر میں دیکھتی تھیں۔ شہید محمد باقر الصدر کے نزدیک اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کا سیاسی، معاشی، اخلاقی اور سماجی نظام عرب دنیا سمیت عالم اسلام کے مسائل کا واحد حل ہے۔

شہید ابو مہدی نے اپنی سماجی فعالیت کا آغاز شہید محمد باقر الصدر کی قیادت میں تشکیل پانے والی اس اسلامی تحریک میں شمولیت کے ساتھ کیا اور یہ اس وقت کی بات ہے، جب آپ بغداد میں زیر تعلیم تھے۔ 80 کی دہائی میں عراق پر حاکم بعث پارٹی نے جب حزب الدعوۃ الاسلامیہ کے عوام میں اثر و رسوخ سے خائف ہو کر عرب دنیا کی اس اہم اسلامی تحریک کو سرکوب کرنے کی ٹھانی اور حزب الدعوہ کی قیادت کے خلاف کریک ڈاون شروع کیا تو پہلے مرحلے میں حزب الدعوہ کی قیادت کو گرفتار کرکے پھانسی دے دی‌ گئی۔

1975ء میں حزب الدعوۃ الاسلامیه کے درجنوں قائدین کو سزائے موت دے دی گئی۔ دوسرے مرحلے میں حزب الدعوہ کے کارکنوں کو پکڑ کر عقوبت خانوں میں بند کیا اور تختہ دار پر لٹکایا جانے لگا۔ شہید ابو مہدی اس زمانے کے بارے میں کہتے ہیں 1980ء تک حزب الدعوۃ الاسلامیہ سے وابستہ میرے 95 فیصد دوستوں کو سزائے موت ہوچکی تھی 1980ء‌ میں جب بعثی رجیم نے محمد باقر الصدر کو ان کے گھر سے گرفتار کرکے شہید کر دیا تو شہید ابو مہدی مہندس عراق سے کویت چلے گئے۔

جہاں انہوں نے اسلامی مزاحمت کے عظیم کردار شہید مصطفیٰ بدرالدین کے ساتھ ملکر ظلم و استبداد کے خلاف جدوجہد کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ کویت میں قائم امریکی اور فرانسوی سفارت خانوں پر بمب حملے ہوئے تو کویت میں مقیم مصطفیٰ بدرالدین سمیت متعدد عراقی مہاجرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ شہید ابو مہدی کویت سے ایران منتقل ہوگئے۔ بعدازاں ایک کویتی عدالت نے شہید ابو مہدی کی غیر موجودگی میں انہیں ان سفارت خانوں پر حملے کے الزام میں سزائے موت بھی سنائی تھی، جس کے بارے خود شہید ابو مہدی کا کہنا ہے کہ وہ کویتی سرزمین پر امریکہ مخالف کسی مسلح کارروائی میں ہرگز شریک نہیں تھے۔

جماعت مجلس اعلاء میں شمولیت

ایران میں قیام کے دوران شہید ابو مہدی ایران میں مقیم عراقی حریت پسندوں کی اہم سیاسی جماعت مجلس اعلاء کے رکن بھی رہے۔ مجلس اعلاء نے بعد میں عراقی سیاست میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ نوے کی دہائی میں عراق میں بعثی رجیم کے مظالم کے خلاف مزاحمت کی غرض سے مسلح جدوجہد وجود میں آئی تو شہید ابو مہدی البدر کے رہنما کے طور پر سامنے آئے۔

شہید ابو مہدی بھی عراق کے متعدد دیگر مزاحمتی اور سیاسی رہنماؤں کی طرح عراق میں صدام کے سقوط کے بعد عراق واپس پلٹے تو شہید ابو مہدی نے نئی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ 2003ء میں عراق واپس جاتے ہی شہید ابو مہدی نے خود کو البدر سے علیحدہ کرکے کتائب حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ شہید ابو مہدی 2005ء میں عراقی صوبے بابل سے پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے، لیکن بعدازاں امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے سبب انہیں پارلیمانی نشست سے استعفیٰ دے کر عراق ترک کرکے ایک دفعہ دوبارہ ایران آنا پڑا۔

مزاحمتی تحریک کتائب حزب اللہ

2011ء میں شہید ابو مہدی دوبارہ عراق گئے اور سیاسی فعالیت کو ازسرنو شروع کیا۔ ان کی قیادت میں بننے والا سیاسی اتحاد الوطنی آج بھی عراقی پارلیمان کا ایک اہم اتحاد ہے۔ 2014ء میں داعش نے عراق کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تو عراق کی دینی مرجعیت آیت اللہ سیستانی کے حکم پر عوامی رضاکار فورس وجود میں آئی۔ اس فورس کی تشکیل میں شہید ابو مہدی اور ان کی مزاحمتی تحریک کتائب حزب اللہ کا کردار انتہائی اہم تھا۔

کتائب حزب اللہ نے حشد الشعبی کی 45ویں اور 46ویں بریگیڈ کی تشکیل کو مکمل کیا جبکہ 47ویں بریگیڈ میں بھی ایک بڑا حصہ کتائب کی افرادی قوت کا ہے۔ داعش کے خلاف جہاد شہید ابو مہدی کی چار عشروں پر محیط جہادی زندگی کا ایک نیا دور تھا۔ وہ حشد الشعبی کے نائب سربراہ بنائے گئے، لیکن ان کا کنٹرول روم بغداد کے کسی محفوظ اور پوش علاقے کا کوئی عسکری اڈہ نہیں بلکہ اگلے مورچوں پر کھڑے ٹینک اور مورچے تھا۔

شہید ابو مہدی بطور ایک فوجی جنرل میڈلز اور ستارے سینے پر سجانے کی بجائے اگلے مورچوں پر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شانہ بشانے لڑنے کو اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ سامراء، کاظمین، کربلا اور نجف کے مزاراتِ آل رسول کی حفاظت کے علاؤہ آمرلی، جرف الصخر، اربیل اور موصل کی آزادی کے کامیاب آپریشنز میں بھی شہید ابو مہدی کا بنیادی کردار ہے۔ مئی 2019ء میں اسرائیل نے عراق میں قائم حشد الشعبی کے فوجی اڈے کو نشانہ بنایا تو شہید ابو مہدی نے اسرائیل کو جہاں جواب دینے کی بات کی، وہیں امریکی و اسرائیلی جارحیت کے مقابلے کے لیے حشد الشعبی کے فضائی ونگ کی ضرورت پر بھی زور دیا

اور یہ قوی احتمال تھا کہ اگر شہید ابو مہدی کچھ عرصہ مزید زندہ رہتے تو حشد الشعبی کے فضائی ونگ کی تشکیل ان کا ترجیح ایجنڈا ہوتا۔ عراق سمیت پورے خطے سے مکمل امریکی انخلاء، امریکی سامراج اور صہیونی منصوبوں کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کی تقویت شہید ابو مہدی المہندس کی آرزو تھی۔ اس آرزو کی تکمیل کے لیے انہوں نے اسلامی انقلاب اور نظامِ ولایت کے زیر سایہ تشکیل پانے والی اسلامی مزاحمت کے قافلے میں شمولیت اختیار کی۔ خود کو ہمشیہ اسلامی مزاحمت کا ادنیٰ سپاہی قرار دیا اور اس پر فخر محسوس کیا۔ شہید ابو مہدی اپنی آرزو جو خطے کے تمام بے نواؤں کی آرزو ہے؛ کی تکمیل کی خاطر امریکی سامراج اور صہیون ازم کے ساتھ نبرد آزما تھے[1]۔

عسکری سرگرمیاں

2003ء میں امریکی قیادت میں عراق پر حملے کے بعد آپ عراق واپس آئے اور حملے کے بعد پہلے عراقی وزیر اعظم، ابراہیم الجعفری کے سلامتی مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 2005ء میں آپ بابل گورنریٹ کے لیے دعوت پارٹی کے نمائندے کے طور پر عراقی پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے 2003 اور 2007 کے درمیان کتائب حزب اللہ کی تشکیل کی۔

آپ کتائب حزب اللہ ملیشیا کی سربراہی کے لیے امریکی فوجیوں کے انخلا (دسمبر 2011ء) کے بعد عراق واپس آئے تھے۔ اس کے بعد آپ پاپولر موبلائزیشن فورسز کے نائب چیف بنے۔ 31 دسمبر 2019ء کو، امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر حملے کا ذمہ دار، قیس خز علی ، ہادی العامری اور فلاح الفیاض کے ساتھ ، المہندس کو نامزد کیا۔

عراق میں داعش کے خلاف جنگ

2014ء میں ایک گروپ کے طور پر پاپولر موبلائزیشن یونٹس (پی ایم ایف) کی تشکیل کے بعد ، انہیں اس گروپ کی کمان کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ پی ایم ایف گروپ تقریبا 40 ملیشیاؤں پر مشتمل ہے جو داعش کے خلاف تقریبا ہر بڑی جنگ میں لڑتا تھا۔ دولت اسلامیہ کے خلاف موثر لڑائی کی وجہ سے وہ اب بھی بہت سارے عراقیوں کو بہادری کے نام سے جانا جاتا ہے۔

پابندیاں

2009ء میں المہندس کو امریکی محکمہ خزانہ نے آئی آر جی سی میں مدد کرنے کے الزام کی وجہ سے منظوری دے دی تھی۔

شہید مہدی المہندس حشد الشعبی کی علامت تھے

حشد الشعبی شہید کمانڈروں، دینی مرجعیت اور ایران سمیت تمام دوستوں کیساتھ وفادار ہے شہدائے نصر حاج قاسم سلیمانی و ابو مہدی المہندس کے یوم شہادت کے حوالے سے عراقی صوبے دیالی میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں عراقی عوامی مزاحمتی فورس کے سربراہ نے حشد الشعبی کی اپنی اقدار سے مکمل وفاداری پر زور دیا ہے۔

مزاحمتی محاذ کے شہید کمانڈروں جنرل قاسم سلیمانی و ابومہدی المہندس کے یوم شہادت کے موقع پر عراقی صوبے الدیالی میں منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب میں عراقی عوامی مزاحمتی فورس حشد الشعبی کے سربراہ فالح الفیاض نے تاکید کی ہے کہ حشد الشعبی اپنے کمانڈروں، دینی مرجعیت اور ان تمام دوستوں کہ جنہوں نے ہمارا ساتھ دیا، خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران اور شہید قاسم سلیمانی جو تمام مزاحمتی جنگوں میں موجود رہے، کے ساتھ مکمل طور پر وفادار ہے۔ فالح الفیاض نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حشد الشعبی، کچھ لوگوں کی جانب سے عائد کئے جانے والے بہتانوں اور انجام دی جانے والی ہرزہ سرائیوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتی اور آپریشنز و مسلح افواج کی جنرل کمان کے تحت پوری طرح سے چاک و چوبند ہے۔

شہید ابو مہدی المہندس کے عظیم کردار کو سراہتے ہوئے سربراہ عراقی مزاحمتی فورس نے کہا کہ شہید مہدی المہندس حشد الشعبی کی علامت تھے کہ جنہوں نے اپنا پورا وجود اس تنظیم کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ فالح الفیاض نے زور دیتے ہوئے کہا کہ تمام عراقی عوام الحشد الشعبی کو اپنا لشکر سمجھتے ہیں اور حشد الشعبی فورسز کی بڑی تعداد؛ قومی جذبے کی توسیع اور عراقی طاقت و صلاحیت میں تمام لوگوں کی شرکت کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔

انہوں نے مزاحمتی محاذ کے شہید کمانڈروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم شہداء سے متاثر ہو کر اپنے مشن کی تکمیل و چیلنجز کے مقابلے کے لئے میدان میں موجود رہے گی جیسا کہ حشد الشعبی نہ صرف ملکی دفاع میں پیشرو ہے اور پورے ملک میں جہاد و فتح کے جذبے کو اسی نے پھیلایا ہے بلکہ کسی بھی چیلنج کے پیش نظر تمام نگاہیں بھی حشد الشعبی کی جانب ہی اٹھتی ہیں۔ انہوں نے تاکید کی کہ تمام شکوک و شبہات اور افواہوں سے قطع نظر ہم مشترکہ آپریشنز اور مسلح افواج کی جنرل کمان کے تحت میدان میں ڈٹے رہیں گے[2]۔

شہیدانِ مقاومت کو نشانہ بنانا تمام معاہدوں اور قوانین کی خلاف ورزی تھی

عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السوڈانی نے امریکہ کی جانب سے شہیدانِ مقاومت کو نشانہ بنانے کے جرم پر کہا کہ ابو مہدی المہندس اور جنرل قاسم سلیمانی پر ہونے والا حملہ واشنگٹن کے ساتھ ہونے والے ہمارے تمام معاہدوں اور قوانین پر کاری ضرب تھا۔ محمد شیاع السوڈانی نے حال ہی میں الحشد الشعبی پر ہونے والے ڈرون حملے کے حوالے سے بھی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ الحشد الشعبی کی فورسز باضابطہ طور پر ہماری حکومت کے زیر اثر کام کرتی ہیں اور ہماری مسلح افواج کا لازمی جزو ہیں[3]۔

شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی آخری گفتگو کیا تھی؟

شہید قاسم اور انکے جگری دوست شہید ابو مہدی المہندس میں آخری بار کیا باتیں ہوئیں؟ اس کا انکشاف عراق کی العہد ویب سائٹ نے کیا ہے۔ عراق کی العہد ویب سائٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ شہید ابو مہدی المہندس جس شب شہید ہوئے، اُس شب وہ بیمار تھے اور انکی حالت اچھی نہیں تھی، مگر پھر بھی وہ مُصِر تھے کہ اپنے جگری دوست جنرل قاسم سلیمانی کے استقبال کو ایئرپورٹ جائیں گے۔

العہد ویب سائٹ نے شہید جنرل قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کے بارے میں سلسلہ وار داستانیں پاڈکاسٹ کی شکل میں نشر کی ہیں۔ اُسی سلسلے کی ایک قسط میں اُس نے شبِ شہادت دونوں شہیدوں کے مابین ہونے والی آخری گفتگو سے پردہ اٹھایا ہے۔ العہد کے مطابق دونوں شہیدوں نے شہادت سے پانچ روز قبل ایک دوسرے سے ملاقات کی تھی۔

جس شب امریکی دہشتگردوں نے محاذِ استقامت کے ان دو عظیم کمانڈروں کو شہید کیا، اُس شب ابو مہدی بیمار تھے اور خود کو اس قابل نہیں دیکھ رہے تھے کہ جنرل قاسم کے استقبال کو ایئرپورٹ جائیں۔ اسی لئے انہوں نے جنرل قاسم سلیمانی سے رابطہ کر کے ان سے کہا کہ انکی حالت اچھی نہیں ہے اور اگر ممکن ہو تو وہ اپنے سفر کو کچھ دن کے لئے ٹال دیں تاکہ وہ طبیعت ٹھیک ہو جانے کے بعد انکے استقبال کو ایئرپورٹ تک جا سکیں۔

شہید جنرل سلیمانی نے بھی شہید ابو مہدی سے کہا کہ انہیں ایئرپورٹ آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور وہ اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو ایئرپورٹ بھیج دیں۔ مگر شہید ابو مہدی نے کہا کہ نہیں، اگر آپ آنا ہی چاہتے ہیں، تو میں ہی آپ کو ریسیو کرنے کے لئے ایئرپورٹ آؤں گا۔ العہد ویب سائٹ نے مزید لکھا ہے کہ شہید ابو مہدی المہندس کبھی شہید قاسم سلیمانی سے جدا نہیں ہوتے تھے اور انکی عادت یہ تھی کہ جب کبھی شہید قاسم سلیمانی عراق کا سفر کرتے تو خود ہی انکے استقبال کو جاتے اور ہمیشہ ان کے ساتھ رہتے تھے

اور واپسی کے وقت بھی انہیں رخصت کرنے کے لئے فلائٹ تک جایا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی اسی عادت کے مطابق شبِ شہادت بھی عمل کیا اور خود ہی شہید قاسلم سلیمانی کے استقبال کو بغداد ایئرپورٹ پہنچے تاکہ اس بار ہمیشہ کے لئے انکے ہمراہ ہو جائیں۔ ایک بار شہید ابو مہدی سے ایک انٹرویو میں یہ پوچھا گیا کہ وہ کون سی شخصیت ہے جسے دیکھ کر انہیں سکون ملتا ہے، ان کا جواب تھا کہ: ’’قاسم سلیمانی‘‘[4]۔

شہادت

13 جنوری 2018ء کو بغداد کے ہوائی اڈے کے قریب ایک امریکی حملے میں سردار قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی کے نائب ابو مہدی المہندس شہید ہوئے۔ یہ حملہ تاریخ کا ایک اہم موڑ بن گیا اور ان کی شہادت نے دنیا بھر میں ایک نئی تحریک کو جنم دیا۔ سردار قاسم سلیمانی کی زندگی نے ہمیں یہ سکھایا کہ محنت، عزم اور قربانی کے ذریعے کوئی بھی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک بہادر شخصیت تھے بلکہ ایک مخلص مجاہد بھی۔ ان کی قربانی آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے[5]۔

شہید جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس حقیقی اسلام کے دو نشان ہیں

بحرین کی اسلامی تحریک کے رہنما نے اس بات پر زور دیا ہے کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس خالص اسلام کی دو عظیم علامتیں ہیں۔ یہ بات شیخ عیسی قاسم نے بدھ کے روز صوبے قم میں جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کی تیسری شہادت کی برسی کے موقع پر ایک یادگاری تقریب میں بحرینی مہاجرین سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر انہوں نے شہداء کے اعلیٰ مقام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بعض شہداء کسی بھی وقت سامنے آتے ہیں جو اسلام کی عظمت کی علامت ہوتے ہیں اور شہداء جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس ایسے عظیم شہداء کی مثال ہیں۔ شیخ قاسم نے کہا کہ دونوں شہداء نے امت اسلامیہ کے لیے بڑی کامیابیاں سمیٹنے کے لیے ایمان اور ایثار و قربانی پر انحصار کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے کمانڈر اپنی لڑائیوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں، لیکن شہید سلیمانی اور ابو مہدی المہندس قوموں اور آزادی کے متلاشی گروہوں کے لیے متاثر کن ہیں، جو بہادری سے اپنے وقار اور حقوق کا دفاع کرتے ہیں اس لیے دونوں کمانڈروں کو فتح کا کمانڈر کہا گیا ہے۔ انہوں نے اقوام پر زور دیا کہ وہ مزاحمتی تحریک کو بڑھا دیں اور مزاحمتی جنگجوؤں کے خلاف استکباری طاقتوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں[6]۔

حوالہ جات

  1. شہید ابو مہدی المہندس کون تھے؟-شائع شدہ از: 13فروری 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 جنوری 2024ء۔
  2. حشد الشعبی شہید کمانڈروں، دینی مرجعیت اور ایران سمیت تمام دوستوں کیساتھ وفادار ہے، فالح الفیاض- شائع شدہ از: 27 دسمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 جنوری 2024ء۔
  3. شہیدانِ مقاومت کو نشانہ بنانا تمام معاہدوں اور قوانین کی خلاف ورزی تھی، محمد شیاع السوڈانی- شائع شدہ از: 5 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 جنوری 2024ء-
  4. شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی آخری گفتگو کیا تھی؟- شائع شدہ از: 1جون 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1جنوری 2024ء
  5. شہید سردار قاسم سلیمانی، عزم و ہمت کی ایک مثال - شائع شدہ از: 31 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 جنوری 2024ء۔
  6. شہید جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس حقیقی اسلام کے دو نشان ہیں: شیخ عیسی قاسم- شائع شدہ از: 5 جنوری 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 جنوری 2024ء۔