سید عباس عراقچی
| سید عباس عراقچی | |
|---|---|
| دوسرے نام | ڈاکٹر سید عباس عراقچی |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1962 ء، 1340 ش، 1381 ق |
| یوم پیدائش | 4ستمبر |
| پیدائش کی جگہ | تہران ایران |
| مذہب | اسلام، شیعہ |
| مناصب | ایران کا وزیر خارجہ اور سیاست دان |
سید عباس عراقچی (پیدائش: 4 دسمبر 1962)ایک ایرانی سفارت کار اور سیاست دان ہیں جنہوں نے 1403 سے ایران کے وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام رہا ہے ۔ اس نے وزارت خارجہ کی بین الاقوامی تعلقات کی فیکلٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں بی اے، اسلامی آزاد یونیورسٹی، مرکزی تہران برانچ سے سیاسیات میں ایم اے ، اور کینٹ یونیورسٹی سے سیاسی نظریات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ عراقچی ایران عراق جنگ کے دوران پاسداران انقلاب کا رکن تھا اور عراقچی نے 1367ش سے وزارت خارجہ میں بین الاقومی امور میں اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور 1386ش سے 1390ش فن لینڈ میں اور 2007 سے 2011 تک جاپان میں ایران کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 2013 میں، عراقچی نے دسویں حکومت میں چار ماہ کی مدت کے لیے وزارت خارجہ کے قائم مقام ترجمان کے طور پر خدمات انجام دیں ۔ 2013 سے 2017 تک، انہوں نے قانونی اور بین الاقوامی امور کے نائب وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دیں اور P5+1 گروپ کے ساتھ ایران کی جوہری مذاکراتی ٹیم کے رکن تھا ۔ وزارت کی تنظیم نو کے بعد، وہ 17 جنوری 2017 سے 13 ستمبر 2021 تک نائب وزیر خارجہ برائے سیاست کے عہدے پر فائز رہے ۔ رئیسی کی حکومت کے دوران، انہوں نے وزیر خارجہ کے سینئر مشیر، نیشنل ڈپلومیسی ایسوسی ایشن کے رکن، اور سٹریٹجک کونسل کے سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں ، 2017 سے 2017ء تک وہ خارجہ امور کے لیے 2017 سے 2017 تک کام کر چکے ہیں۔ 14ویں حکومت میں ایران کے وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
زندگی
عباس عراقچی 4 دسمبر 1962ء کو تہران کے ایک روایتی گھرانے میں پیدا ہوا ۔ اس کی 3 بہنیں اور 3 بھائی ہیں، جن میں سے زیادہ تر تجارت کے شعبے میں سرگرم ہیں، اور ان کے دادا قالین کے تاجر تھے۔ اس نے 17 سال کی عمر میں اپنے والد کو کھو دیا۔ اس کے دو بڑے بھائی ہیں، جن میں سے ایک ایکسپورٹرز یونین کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر ہے اور دوسرا سیلرز یونین کا ممبر ہے۔
ان کے بھتیجے، سید احمد اراغچی نے 2017 سے 2018 تک سینٹرل بینک آف ایران کے ڈپٹی فارن ایکسچینج گورنر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ولی اللہ سیف کی مرکزی بینک کی صدارت سے علیحدگی کے بعد فارن ایکسچینج مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے بعد ، انہیں بھی ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور عدلیہ نے گرفتار کر لیا۔ عراقچی کی پہلی بیوی کا نام بہارہ عبداللہیان تھا، جس سے اس کے تین بچے تھے۔ عبداللہیان سے علیحدگی کے بعد، عراقچی نے آرزو احمدوند سے شادی کی اور اس کی ایک بیٹی تھی ۔
عہدے
- وزیر خارجہ (1403ش)
- وزارت خارجہ کے سابق ترجمان(1392ش)
- ٹوکیو میں جمہوری اسلامی ایران کا سفیر (1386 سے 1390ش تک)
- اسٹریٹجک کونسل آف خارجہ تعلقات کے سکریٹری(1400-1403ش)
- نائب وزیر خارجہ (1396-1400ش)
- ڈپٹی وزیر برائے غیر ملکی اور بین الاقوامی وزیر برائے امور خارجہ
- محکمہ خارجہ کے ترجمان (مئی 2013 سے ستمبر 2013 تک)
- وزارت برائے امور خارجہ کے قانونی اور بین الاقوامی امور کے نائب (2005 سے 2007 تک)
- بین الاقوامی تعلقات کی فیکلٹی کے ڈین (2004 سے 2005 تک)
- مغربی یورپی وزارت برائے امور خارجہ کے پہلے محکمہ کے سربراہ (2003 سے 2004 تک)
- فن لینڈ میں ایرانی سفیر اور سفیر ایسٹونیا کے سفیر (1999 سے 2003 تک)
- ڈائریکٹر جنرل برائے سیاسی اور بین الاقوامی علوم (1998 سے 1999 تک)
- خارجہ پالیسی سہ ماہی سنٹر برائے سیاسی اور بین الاقوامی مطالعات کے ایڈیٹر (1999 سے)
- ریسرچ سنٹر برائے سیاسی اور بین الاقوامی علوم کے نائب صدر (1998 سے 1999 تک)
- سینٹر فار پولیٹیکل اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سنٹر کے سربراہ (1997 سے 1998 تک)
- اسلامی تعاون تنظیم 1992 سے 1997 میں ایرانی سفیر کے نائب صدر
- وزارت برائے امور خارجہ کے بین الاقوامی ماہر (1987 سے 1991 تک)[1]
تعلیمی سرگرمیاں
- ایسوسی ایٹ پروفیسر کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات کی فیکلٹی کے فیکلٹی ممبر (1384ش اب تک)
- ٹوکیو یونیورسٹی کے پروفیسر (1383سے 1389ش تک)
- محکمہ خارجہ کی خارجہ پالیسی اسٹریٹجک کونسل کا ممبر(1383سے 1400ش تک)
- نیشنل ریسرچ کونسل کی سوشل سائنسز اور ایجوکیشنل کمیٹی کے ممبر (1378ش)
- خارجہ پالیسی جرنل کے ایڈیٹر (1377سے 1378تک)
- ایڈیٹوریل بورڈ آف خارجہ پالیسی جرنل کے ممبر (1377سے اب تک)
- ایڈیٹوریل بورڈ آف ڈپلومیٹک ہمشری جرنل کے ممبر (1385سے 1386ش تک)
- ایران-فنلانڈ دوستی ایسوسی ایشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین(1385سے اب تک)
- بین الاقوامی تعلقات کی فیکلٹی میں تدریس ، یونیورسٹی آف تہران اور یونیورسٹی آف نیشنل ڈیفنس کی فیکلٹی آف ورلڈ اسٹڈیز(1375ش سے اب تک)
- وزارت خارجہ امور خارجہ کالج کے پروفیسر[2]۔
علمی آثار
فارسی کتابیں
- دیپلماسی آبهای فرامرزی و نظام بینالملل: درسهایی برای سیاست خارجی جمهوری اسلامی ایران، نشر وزارت امور خارجه، ۱۳۹۵
- تروریسم و فضای مجازی در خاورمیانه، نشر پایتخت، ۱۳۹۷
- راز سر به مهر: برجام؛ کوششی سترگ برای حقوق، امنیت و توسعه ایران، در شش جلد، نشر مؤسسه اطلاعات، ۱۴۰۰
- دیپلماسی آب و لزوم برون رفت از وضعیت بحران، نشر وزارت امور خارجه، ۱۴۰۱
- ایران تایشی؛ خاطرات سید عباس عراقچی سفیر ایران در ژاپن، نشر مؤسسه اطلاعات، ۱۴۰۱
- قدرت مذاکره، نشر مؤسسه اطلاعات، ۱۴۰۲
مقالات
انگلش کتابیں
- Araghchi, Seyed Abbas; Islamic Movements, Fundamentalism or Radicalism?, Kent Papers, UK, 1995.
- Araghchi, Seyed Abbas; Islamic Theo-Democracy, Iranian Journal of International Affairs, Tehran, 1997.
- Araghchi, Seyed Abbas; Use and Misuse of the Internet, Iranian Journal of International Affairs, Tehran, 1998.
- Araghchi, Seyed Abbas; Japan Ties’ Mutual Respect, Model for Global Relations, The Japan Times, Tokyo, February 10, 2009.
- Araghchi, Seyed Abbas; Iran Grows Stronger Despite Pressures, Challenges, Daily Yomiuri, February 10, 2009
- Araghchi, Seyed Abbas; Iran Determined to Extend Friendly Relations, The Japan Times, Tokyo, February 10, 2010.
فارسی مقالات
- نہضت بازخیزی اسلامی در قرن بیستم، مجلہ سیاست خارجی، تہران، بهار ۱۳۷۵
- سازمان کنفرانس اسلامی: آیندهای نا امید کننده؟، مجلہ سیاست خارجی، تہران، پاییز ۱۳۷۶
- اینترنت، عرصہ ای جدید در تعامل فرهنگها، مجلہ سیاست خارجی، تہران، تابستان ۱۳۷۷
- زنان و سیاستهای جهانی، ترجمہ مقالہ فوکویاما، مجلہ سیاست خارجی، تہران، پاییز ۱۳۷۷
- اندیشههای سیاسی ابوالاعلی مودودی و جنبش احیا طلبی اسلامی، فصلنامہ مطالعات خاورمیانہ، تہران ۱۳۷۸، شماره ۱۹
- حزب تحریر اسلامی، دانشنامہ جہان اسلام، جلد ششم، ۱۳۸۱
- مجموعہ مقالات ہشتمین ہمایش بینالمللی خلیجفارس (گردآوری)، دفتر مطالعات سیاسی و بینالمللی، ۱۳۷۶
- استراتژی امنیتی جدید اروپا و جمهوری اسلامی ایران، سیاست خارجی جمهوری اسلامی ایران، مجموعہ مقالات، مرکز مطالعات عالی بینالمللی، دانشکده حقوق و علوم سیاسی دانشگاه تهران، ۱۳۸۴
- تغییرات و تهدیدات نظام جدید بینالملل، ماهنامہ اقتصاد ایران، سال ہفتم، شماره ۷۴، فروردین ۱۳۸۴
- آمادگی همہ جانبہ، ہمشهری دیپلماتیک، سال اول، شماره پنجم، نیمه مرداد ۱۳۸۵
- جنگ با تروریسم، ہمشهری دیپلماتیک، سال اول، شماره ششم، نیمہ شهریور ۱۳۸۵
- بازی قدرتها، ہمشهری دیپلماتیک، سال اول، شماره ہفتم، نیمہ مہر ۱۳۸۵
- اشتباه محاسبہ، ہمشهری دیپلماتیک، سال اول، شماره دهم، نیمہ دی ۱۳۸۵
- بیراهہ شورای امنیت، ہمشهری دیپلماتیک، سال دوم، شماره سیزدهم، نیمہ اردیبهشت ۱۳۸۶
- عمل در برابر عمل، ہمشهری دیپلماتیک، سال دوم، شماره شانزدهم، نیمہ مرداد ۱۳۸۶
- مدیریت، آموزش، فناوری؛ تجربیات ژاپن در بهینهسازی مصرف انرژی، مجلہ پژوہش و توسعہ، ۱۳۸۹
- نگاه آسیایی در روابط معاصر ایران و ژاپن، مجله تاریخ روابط خارجی، تابستان ۱۳۸۹، شماره ۴۳
- تقابل سرد آمریکا در آسیا - پاسیفیک، فصلنامہ روابط خارجی، زمستان ۱۳۹۱، شماره ۴
- تأملی در باب مفهوم حق و اجرای حق با نگاہی به موضوع هستهای ایران و توافق ژنو، مجله سیاست جهانی، پاییز ۱۳۹۲، شماره ۵
- سنجش تهدید صهیونیسم در جهان اسلام، مجلہ امنیت ملی، بهار ۱۳۹۳، شماره ۱۱
- دیپلماسی آب، از منازعہ تا ہمکاری، مجلہ سیاست جهانی، زمستان ۱۳۹۳، شماره ۱۰بهرهبرداری داعش از فضای مجازی، مجلہ روابط خارجی، سال هشتم، بهار ۱۳۹۶، شماره ۳۳[3]۔
فلسطین کا مقصد فراموش نہیں کیا جا سکتا
ایرانی وزیر خارجہ نے یوم القدس کی تقریب میں عوام کی بھرپور شرکت کو سراہتے ہوئے کہا کہ فلسطین کا مقصد کبھی فراموش نہیں ہوسکتا۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے عالمی یوم القدس کے موقع پر شرکت کے بارے میں سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ آج ایرانی عوام کے ساتھ مل کر عالمی یوم القدس کی ریلی میں شرکت کا موقع ملا۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اس عظیم اجتماع نے ظلم کے خلاف ایرانی قوم کی مزاحمت اور گذشتہ سال کے اہم علاقائی واقعات کی حساسیت کو بخوبی اجاگر کیا۔ عراقچی نے عوام کی آگاہی اور ان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ باشعور قوم ہی ملک کی اصل طاقت اور سب سے بڑی مدافعتی قوت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ فلسطین کا مقصد کبھی فراموش نہیں ہو سکتا[4]۔
حزبالله زندہ ہے اور اپنے مقاصد کے لیے پرعزم
ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے بیروت پہنچتے ہی کہا کہ آج کی تشییع جنازہ دنیا کو دکھا دے گی کہ مقاومت زندہ ہے، حزبالله زندہ ہے، اور اپنے ہدف اور مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پر عزم ہے، مقاومت کا راستہ جاری رہے گا اور فتح حتمی ہوگی۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے بیروت میں حزبالله لبنان کے سیکرٹری جنرل شہید سید حسن نصرالله اور شہید سید ہاشم صفیالدین کی تشییع جنازہ میں شرکت کے لیے ایک وفد کے ہمراہ بیروت پہنچ گئے ہیں۔ عراقچی نے کہا کہ آج کی تشییع جنازہ دنیا کو دکھا دے گی کہ مقاومت زندہ ہے، حزبالله زندہ ہے، اور اپنے ہدف اور مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پر عزم ہے، مقاومت کا راستہ جاری رہے گا اور فتح حتمی ہوگی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی آج لبنان کے عوام کے اس عظیم سمندر میں ایک قطرہ کی حیثیت سے شریک ہوں گے، جو آزادی اور مقاومت کے قائدین کی تشییع کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اور عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے بیروت میں موجود ہیں تاکہ امت اسلامی کے دو عظیم رہنما اور قائدین اور لبنان کے بہادر اور پاکیزہ افراد کی تشییع میں شرکت کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان شہیدوں نے مقاومت کی سر بلندی اور صہیونی قبضے کے خلاف جدوجہد میں بے مثال قربانیاں دیں اور بالآخر شہادت کے بلند مقام پر فائز ہوئے۔
عراقچی نے کہا کہ ایران کے مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر بھی جلد بیروت پہنچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے بہت سے عہدیداروں اور عوام کی خواہش تھی کہ وہ اس پروگرام میں شرکت کریں اور لبنان کے عوام کے ساتھ مل کر ان دو رہنماؤں کی تشییع جنازہ میں شریک ہوں۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ حزبالله اور مقاومت کا راستہ جاری رہے گا اور اس راستے پر چلنے والوں کو فتح حتمی حاصل ہوگی۔ انہوں نے لبنان کے عوام اور حزبالله کے اراکین کو تعزیت پیش کی اور شہداء کی عظیم قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا[5]۔
صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنا ضروری ہے
ایرانی وزیر خارجہ نے غزہ میں صیہونی حکومت کے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے اسلامی اور علاقائی ممالک کی جانب سے فوری اجتماعی اقدام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو ہوئی، جس میں خطے کی تازہ ترین صورتحال بالخصوص غزہ میں صہیونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی اور یمن پر امریکی فوجی حملوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
عراقچی نے غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم اور یمن کے خلاف امریکی جارحیت کی شدید مذمت کی۔ صنعاء اور دیگر یمنی شہروں میں امریکی حملوں کے نتیجے میں بے گناہ خواتین اور بچوں کا قتل عام اور اس ملک کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی ہوئی۔ انہوں نے علاقائی اور اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکہ اور صہیونی حکومت کے مظالم اور خطے میں بڑھتی ہوئی بدامنی کو روکنے کے لیے فوری اور اجتماعی اقدام کریں۔
انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دیگر عالمی طاقتوں کی بے حسی پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر اس صورتحال کو نظرانداز کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ گفتگو کے دوران متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان نے بھی یمن اور فلسطین کی صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے مسلسل مشاورت کی ضرورت پر زور دیا[6]۔
امریکہ اور برطانیہ کی یمن پر جارحیت اور معصوم بچوں کے قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہیں
ایرانی وزیر خارجہ نے یمن پر امریکہ اور برطانیہ کی فوجی جارحیت، معصوم خواتین اور بچوں کے قتل عام، اور فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کی شدید مذمت کی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے تہران میں اسلامی ممالک کے سفیروں اور سفارتی اہلکاروں کے اعزاز میں دی گئی افطار پارٹی کے موقع پر کہا کہ مسلمان ایسے وقت میں ماہ رمضان میں داخل ہورہے ہیں جب فلسطین، غزہ، لبنان، شام، اور یمن کے مظلوم عوام صیہونی حکومت کے جنگی جرائم، نسل کشی اور وحشیانہ حملوں کا شکار ہیں۔
وزیر خارجہ نے یمن پر امریکہ اور برطانیہ کی فوجی جارحیت، بے گناہ خواتین و بچوں کے قتل عام، اور فلسطینی عوام پر صیہونی جرائم کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ رمضان میں مسلم ممالک کے درمیان یکجہتی اور اتحاد میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ مسلمان اقوام کو متحد ہوکر ان جرائم کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے، تاکہ امت مسلمہ کے تمام حقوق کا دفاع اور بالخصوص فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے[7]۔
مقاومت اور آئیڈیالوجی جو کبھی ختم نہیں ہوگی
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ مزاحمت ایک مکتب اور آئیڈیالوجی ہے جو شام کے بغیر اپنا راستہ تلاش کرے گی اور ہم مزاحمت کی حمایت جاری رکھیں گے۔ مہر نیوز کے نامہ نگار کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے خطے کی حالیہ صورت حال کے حوالے سے ایک خصوصی نیوز پروگرام میں اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ میری رائے میں سب کچھ واضح تھا، اس سے پہلے تجزیے اور رپوٹس موجود تھیں جو اس طرح کے منصوبے کی نشاندہی کر رہی تھیں۔ ہم جانتے تھے کہ امریکہ اور صیہونی حکومت پس پردہ کوئی پلان بنا رہی ہے جس سے مزاحمتی محور کو پے در پے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ پلان ہمیشہ موجود رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ اور لبنان میں ہونے والی پیش رفت کے بعد، ان منصوبوں کا جاری رہنا فطری تھا، ہمارے اپنے ملک اور شام کے سیکورٹی انفارمیشن سسٹم میں ہمارے دوست ادلب اور علاقے کی ان سرگرمیوں سے پوری طرح باخبر تھے اور تمام متعلقہ معلومات بر وقت شامی حکومت اور فوج کو بھی منتقل کر دی گئیں۔
عراقچی نے مزید کہا کہ شامی فوج کی اس حملے کا مقابلہ کرنے میں ناکامی باعث حیرت تھی اور دوسری چیز دہشت گردوں کی برق رفتاری تھی کہ جب میں دوحہ سربراہی اجلاس میں تھا، خطے کے تمام ممالک کا ایک ہی سوال تھا کہ شامی فوج اتنی جلدی کیوں پسپائی اختیار کر گئی اور اس کی مزاحمت اتنی مختصر کیوں ہے اور حملے کی اس سبک رفتاری نے سب کو حیران کر دیا تھا۔
شامی فوج نفسیاتی جنگ ہار گئی
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ بشار اسد خود جب لاریجانی اور میں نے ان سے ملاقات کی تو وہ بھی حیران رہ گئے اور اپنی ہی فوج کے رویے پر شکایت کی اور یہ بات واضح تھی کہ ان کے پاس حتی شام کی حکومت کے پاس فوج کے بارے میں کوئی مناسب تجزیہ نہیں تھا۔ میرے خیال میں شام کی فوج نے نفسیاتی میدان میں شکست سے دوچار ہوئی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایران اور شام کے درمیان چالیس سالہ تعلقات تین مختلف شعبوں میں رہے ہیں جن میں سے ایک مزاحمت ہے۔
شام مزاحمتی محور کا ایک اہم رکن ہے اور اس نے محاذ آرائی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فلسطینیوں کے دفاع میں صیہونی رجیم کا دباؤ برداشت کیا ہے اور کبھی بھی اس نظرئے سے پیچھے نہیں ہٹا، ہمارے تعلقات ہمیشہ قائم رہے ہیں اور ہم نے ہمیشہ مزاحمت کے میدان میں ایک اہم رکن کے طور پر شام کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور شام کے درمیان رابطے کا دوسرا پہلو داعش کے خلاف جنگ ہے: داعش ایک مقام پر ایک علاقائی اور غیر علاقائی فتنے کے طور پر ابھری اور پہلے عراق اور پھر شام میں پھیل گئی اور بین الاقوامی سطح پر تشویش پیدا کی۔
اس عفریت کے خلاف جنگ میں اہم کردار اسلامی جمہوریہ ایران نے داعش سے نمٹنے میں ادا کیا جو شام اور عراق دونوں کی درخواست پر تھا اور ہم نے ان ممالک میں فوج بھیجی اور یقیناً یہ بنیادی طور پر ہماری اپنی حفاظت کو یقینی بنانا تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اگر ہم عراق اور شام میں نہیں لڑتے تو ہمیں ان کے ساتھ ایران میں لڑنا پڑتا، اس لیے ہمیں اپنی سرزمین سے باہر داعش کے ساتھ لڑنا پڑا تاکہ ہمارے ملک میں کم سے کم خطرے کا سامنا کیا جا سکے۔ سچی بات یہ ہے کہ داعش پر فتح بنیادی طور پر شہید قاسم سلیمانی کی کامیابی تھی جنہوں نے داعش کے خلاف آپریشن کی قیادت کی۔
شام پر حالیہ حملے آستانہ عمل کے خلاف تھے
انہوں نے کہا کہ جب داعش کو شکست ہوئی تو ہماری افواج جو شامی حکومت کی درخواست پر وہاں گئی تھیں، شامی حکومت کی درخواست پر دوبارہ واپس آ گئیں، اور ہمارے پاس کوئی دوسری ذمہ داری نہیں تھی، البتہ ہماری کچھ افواج وہاں موجود تھیں جو عسکری مشاورت کے مقصد سے تھیں۔ عراقچی نے کہا کہ شام کے لیے ہماری حمایت کا تیسرا پہلو شام کی حکومت اور عوام اور مخالفین کے درمیان رابطے سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ شام کی حکومت کو اپنے مخالفین کے ساتھ بات چیت کرنے کی رہنمائی کی تاکہ ان کے درمیان اختلافات کو دور کیا جا سکے اور ہم نے اس معاملے میں مشورہ اور رہنمائی کی حد تک ان کے ساتھ تعاون کیا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ حالیہ حملے آستانہ اجلاسوں کے عمل کے خلاف تھے، آستانہ عمل کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ تین ضامن ممالک ایران، روس اور ترکی امن کے بعد شام اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی مذاکرات، سیاسی اصلاحات اور آئین میں تبدیلی کے لیے مدد کریں گے۔ اور ہم پچھلے 10 سالوں میں اس سمت میں آہستہ آہستہ آگے بڑھے ہیں اور یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ رفتار توقع کے مطابق نہیں تھی۔
عراقچی نے واضح کیا کہ بشار اسد کی حکومت کے پاس اس معاملے میں لچک اور رفتار بہت کم تھی۔ شام کے داخلی معاملات، مخالفین کے ساتھ بات چیت یا ممکنہ طور پر ان کا مقابلہ کرنا، یہ خالصتا خود شامی فریق کا معاملہ تھا، اور ہم نے صرف مشاورت اور رہنمائی کی حد تک ان کی مدد کی۔ یہ دراصل وہ حصہ ہے جو اس وقت مشکل میں ہے، اور شامی فوج نے یہاں اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کیا، اور ہمیں ان کے اندرونی مسائل کے حل کے لیے شامی فوج کی جگہ کبھی نہیں لینی چاہیے تھی۔
شامی حکومت کے مخالفین کئی گروہوں سے ہیں
انہوں نے کہا کہ شام میں ہماری عسکری موجودگی داعش کے خلاف جنگ تھی اور یہ مشن داعش کی شکست کے بعد ختم ہو گیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارا موقف ہمیشہ شام کی حکومت اور ان کے مخالفین کے درمیان مذاکرات کی حمایت کا رہا ہے۔ شام میں حزب اختلاف کے بعض گروہ اقوام متحدہ کی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں درج تھے اور حقیقت یہ ہے کہ شامی حکومت کے مخالفین بہت سے مختلف گروہوں سے ہیں۔
عراقچی نے کہا کہ مزاحمت کے کمزور ہونے کا خیال بنیادی طور پر غلط ہے کیونکہ مزاحمت ایک مکتب اور آئیڈیالوجی جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔ حماس اور حزب اللہ دونوں ثابت قدم رہے، اور اسلامی جمہوریہ ایران پوری ہوشیاری اور طاقت کے ساتھ معاملات کی نگرانی کرتا ہے اور ہم مزاحمت اور حزب اللہ کی حمایت جاری رکھیں گے۔ جو کہ شام کے شمال اور جنوب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی مختلف اقسام ہیں۔
عراقچی نے کہا کہ کل آستانہ کے اجلاس میں، ہم نے شامی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مذاکرات کی حوصلہ افزائی کی اور اصرار کیا، اور جو لفظ ہم نے استعمال کیا وہ قانونی اپوزیشن تھا، جس کا مطلب ہے وہ مخالفین جو دہشت گرد گروہوں کا حصہ نہیں ہیں۔" ہمارا موقف ہمیشہ بشار اسد کی حکومت کو شامی اپوزیشن گروپوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی ترغیب دینا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شامی فوج کے پیچھے ہٹنے کی رفتار اور طریقہ حیران کن تھا، جب کہ سب کچھ پہلے ہی بتا دیا گیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ شامی فوج بالکل مزاحمت نہیں کر سکتی تھی، مجھے یقین ہے کہ یہ نفسیاتی شکست سے دوچار ہوئی۔
ہم نے کل دوحہ میں آستانہ عمل کا سربراہی اجلاس منعقد کیا، اس دوران جب سعودی عرب، عراق، مصر اور اردن کے وزرائے خارجہ کو بتایا گیا کہ اجلاس جاری ہے تو وہ فورا دوحہ پہنچ گئے، حالانکہ ان کی شرکت ایجنڈے میں نہیں تھی۔ انہوں نے ہمیں آستانہ عمل کے رکن ممالک اور ان 5 ممالک کے درمیان مشترکہ اجلاس منعقد کرنے کو کہا۔
خطے کو شام کے ٹوٹنے یا بکھر جانے کی تشویش ہے
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ کل رات ساڑھے آٹھ بجے ان 8 ممالک کی میٹنگ ہوئی۔ اجلاس میں شریک تمام اراکین کی تشویش یہ تھی کہ شام انہدام کی طرف نہ بڑھ جائے، شام اندرونی انتشار کی طرف نہ بڑھے، شام دہشت گردوں کا ذریعہ نہ بن جائے اور داعش دوبارہ لوٹ نہ آئے۔
عراقچی نے کہا کہ اس اجلاس میں ہم نے شام کی ارضی سالمیت، عدم استحکام، قومی اتحاد اور اس ملک کو دہشت گردوں کی آماجگاہ نہ بننے کی ضرورت پر زور دیا اور ہم نے تنازعات کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ یہ گزشتہ رات ساڑھے آٹھ بجے خطے کے 8 ممالک کی جانب سے کی گئی درخواست تھی لیکن صورت حال بہت تیز سے بدل گئی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں جاری سازش کا علم تھا، ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ کتنی فوجیں تربیت یافتہ اور منظم ہیں۔ گزشتہ ہفتے جناب بشار الاسد نے اسی موضوع پر گفتگو اور وہ خود اپنی فوج کی صورتحال پر نالاں تھے، وہ فوج میں جنگی مورال کی کمی پر حیران ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ خطے کی تشویش کل رات اس بیان کی شکل میں سامنے آئی تھی اور یہ تشویش اب بھی موجود ہے اور ہم اس کی نگرانی کر رہے ہیں تاکہ یہ خدشات جیسے فرقہ وارانہ جنگ، خانہ جنگی یا، خدا نہ کرے، شام کے مکمل ٹوٹ جانے یا اسے دہشت گردوں کے مرکز میں تبدیل کرنے کے خدشات درست نہ ہوں۔
انہوں نے صیہونی حکومت کے گولان کے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کے بارے میں کہا کہ مزاحمتی محاذ ایک سال سے زیادہ عرصے سے مشکل وقت سے گزر رہا ہے اور اس نے مثالی مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ غزہ میں اب بھی مزاحمت جاری ہے، صیہونی حکومت قیدیوں کو چھڑا نہیں سکی ہے۔
عراقچی نے کہا کہ شدید ضربوں کے باوجود لبنانی حزب اللہ تیزی سے خود کو دوبارہ منظم کرنے اور دوسری طرف سے جانی نقصان اٹھانے اور صیہونی حکومت کو فائر بندی پر مجبور کرنے میں کامیاب رہی۔
حزب اللہ کی مزاحمت کے باعث صیہونی حکومت نے جنوبی لبنان میں جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی اور وہ جنگ بندی کو قبول کرنے پر مجبور ہوئی۔ مزاحمت ایک تفکر ہے ایک مکتب ہے جس نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ لبنان کی حزب اللہ نے اپنے قائد شہید سید حسن نصر اللہ کو کھو دیا لیکن یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ انہیں اس طرح کے مسئلے سے گزرنا پڑا، مزاحمت کا فلسفہ استقامت اور پامردی ہے۔ میرے خیال میں مزاحمت نے اپنا راستہ تلاش کر لیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ شام کے بغیر مزاحمت رک جائے گی، یمن کے ساتھ ہمارا رابطہ کیسا ہے؟ کیا غزہ کے ساتھ ہمارا راستے کا رابطہ ہے؟ یمن اور غزہ مزاحمت کر رہے ہیں۔ مزاحمت بہرحال اپنا راستہ خود تلاش کرے گی کیونکہ یہ ایک مثالی جنگ ہے نہ کہ کلاسیکی جنگ، اور اسی وجہ سے مزاحمت کو تباہ نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ یہ محدود ہو جاتی ہے، لیکن آخر کار وہ اپنے ہتھیار خود بنانے اور اپنے راستے پر چلنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ جب شام مزاحمت کے محور سے نکل جائے گا تو یہ راستہ رک جائے گا۔ ہرگز نہیں۔
اگر شامی فوج مزاحمت کرتی تو حلب ہاتھ سے نہ جاتا
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ لبنان کی حزب اللہ کی مزاحمت ایک حقیقت ہے کہ اس کے پاس کافی ہتھیار، سازوسامان اور سہولیات موجود ہیں کہ ایک یا دو سال سے زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے اور ایسا نہیں ہے کہ لبنان کی حزب اللہ شام کے بعد کمزور ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ شام میں حالیہ اقدام کی کامیابی کا بنیادی عنصر شامی فوج کا ہتھیار ڈالنا ہے ورنہ مزاحمتی قوتوں نے اپنا کردار ادا کیا، باوجود اس کے کہ ان کے ہاتھ بعض معاملات میں بندھے ہوئے تھے اور انہیں مشکلات کا سامنا تھا، لیکن اگر شامی فوج مزاحمت کرتی تو حلب نہیں گرتا[8]۔
غزہ والوں کی مقاومت تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی
ایرانی وزیرخارجہ عراقچی نے حماس کے سیاسی دفتر کے اعلی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کہا کہ صہیونی مظالم کے خلاف غزہ کے عوام کی مقاومت تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فلسطینی مقاومتی تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اور ارکان نے تہران میں ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی سے ملاقات کی۔
ملاقات کے دوران ایرانی وزیر خارجہ نے غاصب صیہونی حکومت کے فلسطینی عوام کی تاریخی فتح کو مبارک باد پیش کی اور اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت کی بہیمانہ نسل کشی کے خلاف غزہ کے عوام کی مزاحمت تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ فلسطینی عوام کے صبر و تحمل سےمقاومت کی جو طاقت ابھرکر سامنے آئی ہے، وہ دنیا کے تمام مسلمانوں اور حریت پسندوں کے لئے فخر کا باعث ہے۔
عراقچی نے زور دے کر کہا کہ وحشیانہ جرائم کے ارتکاب اور ہزاروں خواتین، بچوں اور بے سہارا لوگوں کو قتل کرنے کے باوجود صیہونی حکومت مقاومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہوگئی جسے وہ مکمل طور پر تباہ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ درحقیقت قابض حکومت اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام اور مقاومت اپنے اہداف میں مکمل کامیاب رہی۔ وزیر خارجہ نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ غزہ سے فلسطینی عوام کو زبردستی بے دخل کرنے کا منصوبہ نوآبادیاتی سازشوں کا تسلسل اور بین الاقوامی قانون اور قراردادوں کے منافی ہے لہذا ہم اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔
انہوں نے اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل اور بعض عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کو اس خطرناک سازش کے خلاف مربوط اور فیصلہ کن موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر حماس کے وفد کے سربراہ محمد اسماعیل درویش نے بھی تہران کے دورے پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ حماس کے وفد نے رہبر معظم انقلاب اسلامی، صدر پزشکیان اور ایرانی پارلیمنٹ کے سربراہ قالیباف سے ملاقاتیں کیں اور اسلامی انقلاب کی سالگرہ اور غزہ کی پٹی میں مزاحمت کی عظیم فتح پر مبارکباد پیش کی۔
وفد نے رہبر معظم انقلاب اسلامی اور ایرانی حکومت اور عوام کی جانب سے فلسطینی عوام اور مقاومت کی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔ حماس کے وفد نے صیہونی حکومت کے مقابلے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہید جنرل حاج قاسم سلیمانی، شہید اسماعیل ہنیہ، شہید یحیی سنوار، شہید محمد ضیف، شہید سید حسن نصراللہ، شہید سید ہاشم صفی الدین اور ہزاروں فلسطینی، لبنانی، عراقی، یمنی اور ایرانی مجاہدین کو خراج عقیدت پیش کی اور کہا کہ شہداء کی قربانیوں کے نتیجے میں قابض حکومت کو اسٹریٹجک شکست ہوئی اور فلسطینی عوام کے لئے وسیع پیمانے پر عالمی حمایت حاصل ہوئی[9]۔
پاک بھارت کشیدگی، ایران نے بڑی پیشکش کر دی
ممبئی (ڈیلی پاکستان آن لائن )بھارت کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان پر جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ اور علاقائی کشیدگی بڑھانے کی کوششوں کے دوران، ایران نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے واضح کیا کہ تہران خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے اور دونوں ممالک کو ”برادر پڑوسی“ قرار دیتا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اپنے بیان میں کہا کہ ایران بھارت اور پاکستان کے ساتھ صدیوں پرانی تہذیبی اور ثقافتی وابستگی رکھتا ہے، اور موجودہ کشیدہ صورتحال میں تہران دونوں دارالحکومتوں میں مصالحت کے لیے تیار ہے۔انہوں نے فارسی شاعر سعدی شیرازی کا حوالہ دیتے ہوئے بھائی چارے، ہمدردی اور یکجہتی کا پیغام دیا[10]۔
فلسطینی عوام کی نسل کشی روکنے کے لیے اسلامی ممالک کے درمیان تعاون ناگزیر ہے
ایرانی وزیر خارجہ عراقچی نے نہتے فلسطینیوں کے خلاف جاری قتل عام اور نسل کشی کو روکنے کے لیے اسلامی ممالک کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے الجزائر کے ہم منصب احمد عطاف سے ٹیلیفونک گفتگو میں دو طرفہ تعلقات اور علاقائی و بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا۔
عراقچی نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں، غزہ اور غرب اردن میں صہیونی جرائم میں اضافے اور لبنان پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کو ان کے آبائی وطن سے جبری بےدخل کرنے کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے اسلامی ممالک کو متحد ہوکر مؤثر اقدام کرنا چاہیے۔
عراقچی نے الجزائر کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے جوہری معاملے پر اصولی مؤقف اختیار کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ گفتگو کے دوران الجزائر کے وزیر خارجہ نے بھی اسرائیل کے ہاتھوں خطے میں بدامنی پیدا کرنے اور بے گناہ فلسطینیوں کے قتل پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسلامی ممالک اور عالمی برادری سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔
احمد عطاف نے بین الاقوامی اداروں اور اسلامی تعاون تنظیم میں ایران-الجزائر شراکت داری کو مضبوط بنانے پر زور دیا تاکہ فلسطینی عوام کے حقوق کا مؤثر دفاع کیا جاسکے۔ الجزائر کے وزیر خارجہ نے شہید رجائی بندرگاہ میں حالیہ دھماکے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے لواحقین اور ایرانی قوم کو تعزیت بھی پیش کی[11]۔
عراقچی نے ٹرمپ کے ایران مخالف ریمارکس کو 'فریب' قرار دیا
ایرانی وزیر خارجہ نے تہران کے خلاف امریکی صدر کے تازہ ترین بیانات پر کڑی تنقید کرتے ہوئے واشنگٹن کو ایران کے خلاف دہائیوں سے جاری تخریب کاری اور خطے میں اسرائیلی جرائم کی حمایت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ ریمارکس پر ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کل رات امریکی صدر کے ریمارکس کو سنا۔ بدقسمتی سے ایک فریب کارانہ بیانیہ پیش کیا گیا۔ یہ امریکہ ہی ہے، جس نے گزشتہ چالیس سال سے اپنی پابندیوں اور اپنے فوجی اور غیر فوجی دباؤ اور دھمکیوں کے ذریعے ایرانی قوم کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کی معاشی مشکلات کا حقیقی ذمہ دار امریکہ اور اس کی تسلط پسندانہ پالیسیاں ہیں۔ عراقچی نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ خطے میں اسرائیل کی طرف سے کیے جانے والے تمام جرائم پر آنکھیں بند کر لیتا ہے، جبکہ ایران کو ایک خطرہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ سراسر دھوکہ اور حقیقت کو مسخ کرنے کی دانستہ کوشش ہے[12]۔
امام خمینی خارجہ پالیسی کے معمار/غیر ملکی اجارہ داری سے انکار ہماری پالیسی کی بنیاد ہے
ایرانی وزیر خارجہ نے امام خمینی کو ایرانی خارجہ پالیسی کے معمار قرار دیتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی اجارہ داری کی نفی ہماری پالیسی کی بنیاد ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایٹمی توانائی اور یورینیم کی افزودگی کے مسئلے میں ہماری پالیسی کی بنیاد غیر ملکی اجارہ داری کی نفی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ آپ کو افزودگی ختم کرنی چاہیے، درحقیقت اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش ہے۔
وزارت خارجہ کے ملازمین کی امام خمینی (رہ) کے ساتھ تجدید بیعت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عراقچی نے کہا کہ امام خمینی (رہ) نہ صرف انقلاب اسلامی کے بانی بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کے معمار بھی ہیں۔ ایران کی آج کی خارجہ پالیسی انہی اصولوں پر قائم ہے جو امام نے 45 سال قبل وضع کیے۔
عراقچی نے وضاحت کی کہ خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول غیر ملکی تسلط اور اجارہ داری کی نفی ہے۔ امام خمینی کی تحریک کا آغاز بھی کیپٹلایزیشن کے خلاف احتجاج سے ہوا تھا، اور امام نے اپنے مشہور بیانیہ کا آغاز قرآن کی آیت "وَلَنْ یَجْعَلَ اللّٰهُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً" سے کیا تھا۔ اس میں بھی غیر ملکی تسلط کو مسترد کرنے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ "نہ شرقی نہ غربی" کا نعرہ بھی اسی سوچ سے نکلا ہے یعنی کسی بھی طاقت کا تسلط قبول نہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں واضح کیا گیا ہے کہ ہمارا نظام ظلم، تسلط اور غلامی کو رد کرتا ہے اور یہی اصول ہمارے تمام اقدامات کی بنیاد ہے۔ انہوں نے مزید کہا یورینیم کی افزودگی ہماری ایک قومی ضرورت ہے۔ یہ کہنا کہ ہمیں غنی سازی کا حق نہیں ہے، خود ایک تسلط کی کوشش ہے اور ملت ایران ایسا تسلط ہرگز قبول نہیں کرے گی۔
عراقچی نے واضح کیا کہ اگر بات ایٹمی ہتھیاروں کی ہو تو ہم ان کے خلاف ہیں۔ ایران خود ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کا علمبردار ہے جبکہ مغربی ممالک نے NPT کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا، اس لیے وہ ہمیں اپنے جائز حق سے محروم نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی پالیسی بالکل واضح ہے اور رہبر معظم کی رہنمائی میں اس پالیسی کو ہمیشہ سامنے رکھا جائے گا۔ ہم امام خمینی (رہ) اور رہبر معظم کے سپاہی ہیں، اور ہمیشہ وفادار سپاہی بنے رہنے کی کوشش کریں گے[13]۔
رافائل گروسی ایران پر امریکی و اسرائیلی جارحیت میں سہولتکار تھے
اپنے ایک بیان میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ رافائل گروسی نے حیران کن طور پر اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے انحراف کرتے ہوئے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے تحفظاتی قواعد و چارٹر کی واضح خلاف ورزیوں کی مذمت کرنے سے انکار کیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے حال ہی میں تہران کے خلاف IAEA کے ڈائریکٹر جنرل "رافائل گروسی" کے بیان پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔
اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ ایرانی پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک ہمارے جوہری پروگرام کی سلامتی و تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جاتا اس وقت تک ہم IAEA کے ساتھ تعاون کو معطل کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا یہ فیصلہ رافائل گروسی کے افسوس ناک کردار کا براہ راست نتیجہ ہے کہ جنہوں نے اس حقیقت کو چھپایا کہ IAEA نے ایک دہائی پہلے ہی تمام پرانے معاملات کو سرکاری طور پر بند کر دیا تھا۔ سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایران کے خلاف سیاسی مقاصد کے تحت رافائل گروسی کے جانبدارانہ اقدامات نے IAEA کے بورڈ آف گورنرز میں ایک قرارداد کی منظوری کا راستہ ہموار کیا۔
اس کے ساتھ ہی اسرائیل و امریکہ کے ایرانی جوہری مقامات پر غیرقانونی حملوں کو بھی آسان بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ رافائل گروسی نے حیران کن طور پر اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے انحراف کرتے ہوئے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے تحفظاتی قواعد و چارٹر کی واضح خلاف ورزیوں کی مذمت کرنے سے انکار کیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ IAEA اور اس کے ڈائریکٹر جنرل اس مکروہ صورت حال کے مکمل طور پر ذمہ دار ہیں۔ رافائل گروسی کی جانب سے بمباری کے مقامات کا معائنہ کرنے کا مطالبہ بے معنی ہے۔ اس کے پیچھے بدنیتی بھی ہو سکتی ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ایران کو اپنی سالمیت اور اپنی عوام کے دفاع کا قانونی حق حاصل ہے[14]۔
ایران نے جنگ بندی کی درخواست منظور کرکے سفارتکاری کو نئی زندگی دی
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران کی مؤثر مزاحمتی پالیسی نے اسرائیل کی مصنوعی ہیبت کو توڑا، اب وقت ہے کہ اقوام متحدہ اور اسلامی دنیا سفارتی اقدام کے ذریعے خطے کے امن کی ضمانت دیں۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ تہران نے صہیونی حکومت کی جانب سے جنگ بندی کی درخواست کا مثبت جواب دیتے ہوئے خطے میں ایک بار پھر سفارتی حل کی راہ ہموار کر دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ نے روزنامہ النهار میں شائع شدہ ایک مضمون میں اس فیصلے کو نہ صرف ایک اصولی اقدام قرار دیا بلکہ اسے خطے میں ایران کے اثرورسوخ اور دانشمندانہ پالیسیوں کا مظہر بھی بتایا ہے۔ وزیر خارجہ نے لکھا کہ دہائیوں پہلے جب مسئلہ فلسطین اسلامی دنیا کا ایک بحران بن کر ابھرا تھا، تب کم ہی کسی نے سوچا تھا کہ ایک دن ایران اس موضوع میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔ لیکن آج صہیونی حکومت کی جانب سے جنگ بندی کی درخواست کے بعد ایران نے اپنی اثر انگیزی ثابت کر دی اور واضح کر دیا کہ خطے کی طاقت کا توازن اب بدل چکا ہے۔
وزیر خارجہ نے اپنے مضمون میں دو اہم نکات پر خصوصی روشنی ڈالی
اول ایران نے اسرائیلی حملے کے خلاف دفاعی اور مؤثر مزاحمتی کارروائی کرتے ہوئے اس کے مصنوعی رعب کو جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پشت پناہی سے قائم تھا، ناکام بنایا۔
دوم ایران کا ردعمل اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے 51ویں اجلاس کی قرارداد پر استوار تھا، جس میں تمام اسلامی ممالک نے اسرائیل کے اقدام کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جارحیت اور جنگی جرم قرار دیا تھا۔
وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے فوری اقدامات کرے اور اسرائیل سے ضمانت لے تاکہ خطے میں پائیدار امن ممکن ہو۔ اس حوالے سے چین، روس، یورپ، برازیل اور جاپان جیسے ممالک جو دنیا میں امن کے علمبردار ہیں، ایک تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کئی دہائیوں سے مشرق وسطی کو جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ موجودہ حالات میں مسلم ممالک کے درمیان اقتصادی ہم آہنگی، سرمایہ کاری، اور علاقائی تجارتی معاہدوں کے فروغ سے کشیدگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف ایران کی تدبیر اور تحمل کا غماز ہے بلکہ اس امر کا مظہر بھی ہے کہ حتی کہ میدان جنگ کے بیچ بھی ایک بار پھر سفارت کاری اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران ایک بار پھر بین الاقوامی برادری، بالخصوص ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران کی پرامن جوہری تنصیبات پر حملوں کی محض زبانی مذمت پر اکتفا نہ کرے، بلکہ اس کی عملی روک تھام کے لیے اقدامات کرے۔ ان حملوں میں نطنز، فردو اور اصفہان جیسے اہم جوہری مراکز کو نشانہ بنایا گیا جو مکمل طور پر آئی اے ای اے کے حفاظتی نظام کے تحت کام کر رہے تھے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ عالمی ادارے مجرم کی شناخت اور سزا کے لیے عملی اقدامات کریں تاکہ آئندہ ایسے حملے دوبارہ نہ ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امن کی طرف پہلا قدم، اس ناانصافی کے خلاف مضبوط اقدام اور متاثرہ فریق کی سکیورٹی کی ضمانت سے مشروط ہے۔ یہ ابتدائی اقدام ہی جنگ بندی کو ایک پائیدار صلح میں بدلنے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے مغربی ایشیا کی صورت حال کو ایک تاریخی دو راہے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ خطے کو یا تو تشدد اور تباہی کی راہ پر جانا ہوگا یا دانشمندانہ، پائیدار امن کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ انہوں نے اسلامی دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ قلیل المدت سیاسی فائدوں کے بجائے طویل المدت مفاہمت اور استحکام کی طرف توجہ دے۔
ان کے مطابق، امن کی جانب دوسرا مؤثر قدم فلسطین اور لبنان جیسے کلیدی خطوں میں مظلوم عوام کے ساتھ ہمدردی اور عملی مدد ہے۔ غزہ اور لبنان حالیہ برسوں میں منظم قتل عام، قبضے اور تباہی کا شکار رہے ہیں۔ یہی علاقے ہیں جو اگر مرکز توجہ بن جائیں تو خطے میں حقیقی امن اور استحکام کی راہ ہموار ہوسکتی ہے[15]۔
یورینیم افزودگی کی صلاحیت ختم نہیں ہوئی، مذاکرات مشروط ہوں گے
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی اور صہیونی جارحیت کے باوجود جوہری صلاحیت ختم نہیں ہوئی، مذاکرات کے لیے امریکہ پہلے حملے کی وضاحت دے، نقصانات کا ازالہ کرے اور دوبارہ جارحیت نہ کرنے کی ضمانت دے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایران صہیونی اور امریکی جارحیت کے باوجود اب بھی یورینیم افزودہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے، تاہم ملک بدستور اس شرعی فتوے کی پابندی کرتا ہے جس کے تحت ہر قسم کے تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
عراقچی نے کہا کہ حالیہ جنگ کے بعد مذاکرات کی راہ نہایت تنگ ہو چکی ہے، اور ایران معمول کی سفارتی روش پر واپس نہیں آئے گا جب تک امریکہ اس جنگ میں ایران کو ہونے والے نقصان کا باضابطہ ازالہ نہ کرے۔ انہوں نے واضح کیا کہ انہیں یہ وضاحت کرنی ہوگی کہ وہ مذاکرات کے دوران ہی ہم پر کیوں حملہ آور ہوئے، اور آئندہ اس قسم کے اقدامات سے باز رہنے کی مکمل یقین دہانی کرانی ہوگی۔
عراقچی نے بتایا کہ جنگ کے دوران اور بعد میں امریکہ کے نمائندے اسٹیو وٹکاف سے پیغامات کا تبادلہ ہوا۔ امریکی ایلچی نے بات چیت دوبارہ شروع کرنے کی تجویز دی ہے، لیکن ایران کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ کچھ حقیقی اعتماد سازی کے اقدامات کرے، جن میں نقصانات کی تلافی اور سکیورٹی ضمانتیں شامل ہوں۔
عراقچی نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی پر بھی شدید نکتہ چینی کی، جنہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات اور جوہری ایجنسی سے تعاون نہ کیا تو وہ اقوام متحدہ کی پابندیاں بحال کرنے کے لیے "اسنیپ بیک" میکانزم استعمال کریں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر انہوں نے اسنیپ بیک استعمال کیا تو یہ ان کے ساتھ ہر قسم کے مذاکرات کا اختتام ہوگا۔ یورپی ممالک نہ پابندیاں ختم کرسکتے ہیں، نہ ہی کسی قسم کی عملی مدد فراہم کر سکتے ہیں، لہذا ان کے ساتھ بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔
انہوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ایران کسی ایسے معاہدے کو قبول نہیں کرے گا جس میں زیرو افزودگی کی شرط ہو۔ اگر امریکہ کو تحفظات ہیں تو انہیں مذاکرات کے ذریعے بیان کریں، ہم اپنا مؤقف پیش کریں گے۔ لیکن اگر شرط یہ ہو کہ یورینیم افزودہ کرنا مکمل طور پر بند کر دیں، تو پھر ہمارے پاس بات کرنے کو کچھ بھی نہیں بچتا۔
عراقچی نے کہا کہ حالیہ جنگ نے ایران کے سیاسی نظام میں مذاکرات کے حوالے سے بداعتمادی میں اضافہ کیا ہے، اور عوام میں بھی سخت مایوسی پائی جاتی ہے۔ لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ اپنا وقت ضائع نہ کریں، ان کی چالوں کا شکار مت بنیں۔ ان کے مذاکرات صرف دکھاوا ہیں۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ ایران پر حملے نے یہ واضح کردیا ہے کہ نیوکلیئر مسئلے کا کوئی عسکری حل ممکن نہیں۔ صرف سنجیدہ مذاکرات ہی اس تنازعے کا حل فراہم کرسکتے ہی[16]۔
حوالہ جات
- ↑ زندگینامه سیدعباس عراقچی( سید عباس عراقچی کی سوانح عمری)-اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء
- ↑ سید عباس عراقچی- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء
- ↑ نگاهی به سوابق و زندگینامه«عباس عراقچی» وزیر پیشنهادی امور خارجه( وزیر امور خارجہ کے نامزد عباس عراقچی کی سوانح عمری)-21 مرداد 1403ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء
- ↑ فلسطین کا مقصد فراموش نہیں کیا جا سکتا، عراقچی- شائع شدہ از: 29 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء
- ↑ حزبالله زندہ ہے اور اپنے مقاصد کے لیے پرعزم: ایرانی وزیر خارجہ- شائع شدہ از: 27 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء
- ↑ صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنا ضروری ہے، عراقچی-شائع شدہ از: 22 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء
- ↑ امریکہ اور برطانیہ کی یمن پر جارحیت اور معصوم بچوں کے قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہیں، عراقچی-شائع شدہ از: 18 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء
- ↑ مقاومت اور آئیڈیالوجی جو کبھی ختم نہیں ہوگی، ایرانی وزیر خارجہ- شائع شدہ از: 9 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ:26 اپریل 2025ء
- ↑ غزہ والوں کی مقاومت تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی، ایرانی وزیرخارجہ- شائع شدہ از: 9 فروری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء
- ↑ پاک بھارت کشیدگی، ایران نے بڑی پیشکش کر دی- شائع شدہ از: 26 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 اپریل 2025ء
- ↑ فلسطینی عوام کی نسل کشی روکنے کے لیے اسلامی ممالک کے درمیان تعاون ناگزیر ہے، ایرانی وزیر خارجہ- شائع شدہ از: 30 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 اپریل 2025ء
- ↑ عراقچی نے ٹرمپ کے ایران مخالف ریمارکس کو 'فریب' قرار دیا- شائع شدہ از: 14 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 مئی 2025ء
- ↑ امام خمینی خارجہ پالیسی کے معمار/غیر ملکی اجارہ داری سے انکار ہماری پالیسی کی بنیاد ہے، عراقچی- شائع شدہ از: 31 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 مئی 2025ء
- ↑ رافائل گروسی ایران پر امریکی و اسرائیلی جارحیت میں سہولتکار تھے، سید عباس عراقچی- شائع شدہ از: 27 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 جون 2025ء
- ↑ ایران نے جنگ بندی کی درخواست منظور کرکے سفارتکاری کو نئی زندگی دی، عراقچی- شائع شدہ از: 2 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 2 جولائی 2025ء
- ↑ یورینیم افزودگی کی صلاحیت ختم نہیں ہوئی، مذاکرات مشروط ہوں گے، عباس عراقچی- شائع شدہ از: 31جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 31 جولائی 2025ء